مولوی بشیر احمد قادری کے آمدہ خط کا جواب

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

پیش لفظ

قارئین کرام میں آپ کی خدمت میں ایک خط اور اس کا جواب پیش کرتا ہوں۔ یہ خط فقیر والی کے حنفی مدرسے قاسم العلوم کے ایک مدرس مولوی بشیر احمد قادری نے میرے اہل حدیث ہونے پر میرے والد محترم کو لکھا تھا اس کا ایک سرسری سا جواب فوراً ہی میں نے قادری اور اس کے والد مولوی فضل محمد صاحب مہتمم مدرسہ قاسم العلوم کو بصیغہ رجسٹری بھیج دیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ یہ بحث چلے گی اور رفع الیدین پر تفصیلی گفتگو ہوگی۔ پھر ایک رسالے کی شکل میں اس کو شائع کر دیا جائے گا تاکہ بے خبر حنفیوں کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیسے تقلید کی گمراہیوں میں پھنس کر رفع الیدین جیسی اہم سنت نبوی ﷺ کو چھوڑے بیٹھے ہیں لیکن مولوی فضل محمد واولاوہ ایک جواب سے ہی ایسے چپ ہوئے کہ گویا وہ دنیا میں ہی نہیں رہے۔ اصل میں انھوں نے یہ خط میرے والد کو غلط تاثر دینے اور حنفیت کا رعب جمانے کے لیے لکھا تھا۔ انھیں یہ خیال بالکل نہیں تھا کہ کوئی ہمارا تعاقب کرے گا۔ اگر انھیں یہ خیال ہوتا تو وہ یہ خط بھی لکھنے کی جرآت نہ کرتے ‘ یہی وجہ ہے کہ جونہی ادھر سے جواب گیا تو مولوی فضل محمد اینڈ کو بالکل گومگو ہو گئے ۔ ان کی حالت ’’ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ مَا یُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَ مَا یُعِیْدُ) [34:السبا:49] والی ہو گئی کہ جب حق آیا باطل نہ کرنے کا رہا۔ نہ دھرنے کا۔ جواب دیتے ہیں تو مرتے ہیں نہیں دیتے‘ تو مرتے ہیں۔ جواب کے لیے ایک خط بھیجا ۔ اس دوران میں یہ خبریں بھی آتی رہیں کہ قادری صاحب کو جو بہت بڑے معقولی اور منقولی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس خط کا بخار چڑھا ہوا ہے ۔ ایک طرف وہ چھ لاکھ کی لائبریری کی گرد جھاڑ رہے ہیں دوسری طرف وہ آستینیں چڑھا رہے ہیں کہ وہ جواب ضرور لکھیں گے‘ لیکن باوجود طویل انتظار کے جواب نہ آیا۔
معلوم ہوا کہ مولوی فضل محمد صاحب نے جو ایک معمر اور جہاں دیدہ بزرگ ہیں اپنے ناعاقبت اندیش بیٹے قادری کو سمجھایا کہ بیٹا نچلا بیٹھ شوخی میں نہ آ۔ یہ تیرے بس کا روگ نہیں۔ اصل میں قادری صاحب ناتجربہ کاری کی وجہ سے شیخی میں آجاتے ہیں اور چھیڑخانی کر لیتے ہیں لیکن پھر یرک جاتے ہیں ۔ حالیہ اہل حدیث کے جلسے میں بھی جو فقیر والی میں ہوا۔ قادری صاحب نے ایسی حرکت کر لی تھی۔ پہلے اہل حدیث علما کو اپنے چھپے ہوئے پیڈ پر مناظرہ کا چیلنج دے دیا۔ جب اہل حدیث علما قادری صاحب کا وہ چیلنج لے کر ان کے مدرسے میں آ دھمکے تو مولوی فضل محمد صاحب مہتمم مدرسہ نے اس چیلنج سے صاف انکار کر دیا کہ یہ کسی کی بچگانہ حرکت ہے۔ آپ معاف فرمائیں ‘ ہم مناظرہ نہیں کرتے ‘ سننے میں یہی آیا ہے کہ خط کے جواب کے سلسلے میں بھی فضل محمد صاحب نے ہی اپنے بیٹے کو سمجھایا ہے کہ بیٹا پہلے جو حماقت ہو گئی ‘ سو ہو گئی۔ اب دوبارہ ایسی حماقت نہ کرنا۔ اہل حدیث سے بالکل نہ الجھنا ‘ اولاً ان کا جواب نہیں افغانی اور نعمانی جیسے چھیڑ خانی کرکے اب تک پچھتا رہے ہیں۔ دوسرے بیٹا ہمارا مدرسے کا معاملہ ہے۔ چندے کا سارا کام ٹھپ ہو جائے گا۔ دکانداری بھی جائے گی اور رسوائی بھی ہوگی۔
اب جب قادری صاحب کا جواب باوجود بہت انتظار کے نہ آیا تو مجبوراً اسی ایک خط اور اس کے جواب کو شائع کرنا پڑا۔ خط میں ان حضرات نے اہل حدیث کے خلاف جس بغض کا اظہار کیا ہے ‘ وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ خط میں الحمد شریف اور تراویح کی بحثیں بھی چھیڑی ہیں لیکن رفع الیدین نہ کرنے پر بہت زور دیا اور اس کی جھوٹی سچی دلیلیں بھی پیش کی ہیں۔ اصل میں قادری صاحب نے یہ خط میرے والد کو اس لیے لکھا تھا کہ ہمارے خاندان ‘ بلکہ گاؤں میں حنفیت کی گرتی ہوئی دیواروں کو سنبھالا دیا جائے۔ ایک تو حنفی حمیت کی وجہ سے دوسرے چندے کی وجہ سے ‘ کہ اگر لوگ اہل حدیث ہو گئے تو چندہ نہیں ملے گا ۔ اس لیے میرے والد محترم کو خط لکھا تاکہ مجھے سمجھایا جائے کہ میں مذہب تبدیل نہ کروں ورنہ قادری صاحب کو بڑے نقصان کا خطرہ ہے‘ لیکن اﷲ کی قدرت وہی ہوا جس کا قادری صاحب کو خطرہ تھا۔ ا ﷲ نے مجھے ہدایت کی توفیق دی اور میں اہل حدیث ہو گیا اور ماشاء اﷲ ہمارا خاندان بھی بہت حد تک سدھر گیا ورنہ ہمارا حال کچھ اس قسم کا تھا کہ میں پہلے حنفی تھا اور حنفی بھی پکا۔ حنفی ہمارا گھر کا مذہب تھا۔ والد محترم کو اس سے اتنی عقیدت تھی کہ وہ حنفی کہلوانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ مجھے بھی حنفیت سے بہت عشق تھا۔ میں بھی اسے کسی قیمت پر چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھا۔ نماز اور نماز کے بعد میری یہی دعا ہوتی ۔ اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ حَنْفِیًّا اَمِتْنِیْ حَنْفِیًّا وَاحْشُرْنِیْ فِیْ زُمْرَۃِ الْحَنْفِیَّۃَ اﷲ مجھے حنفی رکھ ‘ حنفی مارا ور حنفیوں میں ہی اٹھا ‘ لیکن مِنْ یُرِدِاﷲُ بِہٖ خَیْرًا یُّفَقِّہْ فِی الدِّیْنِ ۱ کے تحت اﷲ کو جب میری بھلائی منظور ہوئی تو اس نے مجھے اہل حدیث بنا دیا۔ ہوا یہ کہ میں تعلیم کے سلسلہ میں بہاول پور آ گیا ۔ میں نے دیکھا کہ یہاں رنگ ہی اور ہے۔ حنفیت کی بجائے قرآن و حدیث ہے ‘ شخصیت پرستی کی بجائے حق پرستی ہے‘ تقلید کی بجائے تحقیق ہے۔ میں نے پہلی دفعہ اپنی آنکھوں سے حضور ﷺ کی صورت و سیرت کو حدیثوں میں دیکھا اور پڑھا۔ آخر میں نے اسلام کو پہچانا کہ اسلام تو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی کا نام ہے نہ کہ امام ابوحنیفہ ؒ کی تقلید کا۔ اگر امام ابوحنیفہ کی تقلید اسلام ہے تو کیوں نہ اﷲ نے امام ابوحنیفہ ؒ کو محمد رسول اﷲ ﷺ کی جگہ یا ان کے ساتھ قرآن میں ابوحنیفہ رسول اﷲ کہا۔ جب اﷲ نے کہیں ابوحنیفہ کا نام تک نہیں لیا ‘ ا ن کی تقلید کا کہیں حکم نہیں دیا تو یہ سب یار لوگوں کی بنائی ہوئی باتیں ہیں کہ حنفیت بھی اسلام ہی ہے ۔ حنفی بننے کے لیے نہ اﷲ نے کہا‘ نہ اس کے رسول نے کہا۔ حنفی نہ اسلام کی کوئی قسم ہے اور نہ اسلام کا کوئی ایڈیشن ۔ اس لیے امام ابوحنیفہؒ کی تقلید کرنا اسلام نہیں ہے بلکہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی کرنا اسلام ہے‘ جو کہ اہل حدیث بن کر ہی ہو سکتی ہے۔ میں نے سوچا کہ جب خود امام ابوحنیفہ ؒ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی کرتے تھے ‘ اور اس کو اسلام سمجھتے تھے تو میں کیوں نہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی کروں۔ میں کیوں حنفی بنوں‘ اگر میں حنفی مر گیا اور حضور ﷺ کی سنتوں پر عمل نہ کیا ‘ جیسا کہ حنفی نہیں کرتے اور اﷲ نے مجھے پوچھ لیا کہ تجھے کس نے کہا تھا کہ تو حنفی بن‘ تو میرا کیا جواب ہوگا۔ تو میں بہت ڈر گیا۔ میں نے صدق دل سے حنفیت سے توبہ کی اور دل و جان سے اہل حدیث ہو گیا۔ میرے اہل حدیث ہونے پر قادری صاحب وغیرہ کو بہت تکلیف ہوئی۔ چنانچہ انھوں نے میرے والد صاحب کو خط لکھا کہ تمھارا بیٹا اہل حدیث کے جال میں پھنس کر حنفیوں کو گمراہ اور ان کی نمازوں کو بے کار سمجھتا ہے۔ میں قادری صاحب سے پوچھتا ہوں کہ اگر میں حنفیوں کو گمراہ سمجھتا ہوں توآپ اہل حدیث کو کیا سمجھتے ہیں۔ اگر آپ بھی ان کو گمراہ سمجھتے ہیں جیسا کہ آپ نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ خداا س فرقہ ضالہ کے شرور و آفات سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے تو بتائیے مجرم میں ہوں یا آپ ۔ میں نے تو گمراہ کو ہی گمراہ کہا ہے ؟ یعنی حنفیوں کو آپ اہل حق کو گمراہ کہتے ہیں ‘ یعنی اہل حدیث کو اور اگر آپ اہل حدیث کو گمراہ نہیں سمجھتے بلکہ اہل حق سمجھتے ہیں تو پھر حنفیوں کو گمراہ سمجھنے میں کیا حرج ہے ‘ کیوں کہ وہ اہل حق نہیں۔ جب اختلاف ہوگا تو دونوں اہل حق نہیں ہو سکتے۔اہل حق تو ایک ہی ہوگا۔ جب اہل حدیث اور حنفیوں میں اختلاف ہے اور احتلاف بھی اصول وفروع دونوں کا تو دونوں اہل حق کیسے ہو سکتے ہیں۔ یقیناًایک اہل حق ہوگا اور دوسرا گمراہ۔ اب اہل حق کون ہے؟ اور گمراہ کون ۔ اس کے لیے اﷲ کے رسول مقبول ﷺ کی ذات معیار ہے ۔ ظاہر ہے کہ حنفیت امام ابوحنیفہ کی تقلید کو کہتے اور اہل حدیث رسول اﷲ ﷺ کی حدیث پر چلنے کو۔ کیوں کہ مامور من اﷲ آنحضرت ہیں‘ امام ابوحنیفہ نہیں۔ اسی لیے آنحضرت کے پیچھے چلنا اسلام ہے اور امام ابوحنفیہ کے پیچھے چلنا اسلام نہیں۔ یعنی اہل حدیث اسلام ہے ‘ حنفیت اسلام نہیں۔ چونکہ حنفیت خالص اسلام نہیں ۔ اس میں کمی بیشی ضرور ہے ۔ اس لیے حنفی اہل حق نہیں ہو سکتے۔ اہل حق صرف اہل حدیث ہی ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب آپ اہل حدیث کو جو کہ یقیناًاہل حق ہیں فرقہ ضالہ کہتے ہیں تو اہل حدیث احناف کو جو کہ واقعتا گمراہ ہیں ‘ ضال بلکہ اضل کیوں نہ سمجھیں۔ آپ منافقت کریں تو اور بات ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ حنفی اہل حدیث کو گمراہ سمجھتے ہیں اور اہل حدیث حنفیوں کو۔ جب اہل حدیث اور احناف میں اختلاف ہے اور اختلاف بھی زبردست تو ایک دوسرے کو گمراہ سمجھنا قدرتی بات ہے۔ وہ حق ہی کیا ہوگا جو باطل کو باطل نہ سمجھے۔ اگر اہل حدیث اہل حق ہیں توآپ کا گمراہ ہونا لازم ہے ورنہ اس کے عکس۔ کیوں کہ حق صرف ایک ہی ہو سکتا ہے ۔ دو نہیں ہو سکتے۔ لیکن چوں کہ حدیث رسول اﷲ ﷺ گمراہی کی بنیاد نہیں ہو سکتی ‘ اس لیے اہل حدیث کے گمراہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا البتہ حنفیت ضرور گمراہی ہوگی۔ کیوں کہ اس کی بنیاد حدیث نہیں اقوال و آراء رجال ہے‘ جو غلط ہو سکتے ہیں۔ اگر کوئی سر پھرا اعتراض کرے کیا پہلے سارے حنفی گمراہ تھے تو میں کہوں گا کہ حنفیت جب تک استادی کی نسبت تھی تقلیدی مذہب نہ تھا۔ کوئی گمراہی نہیں تھی ۔ جب سے یہ بطور مذہب اور رقے کے چلی ہے گمراہی ہے۔ اﷲ نے قرآن میں کہا: (وَ لاَ تَفَرَّقُوْا )3:آل عمران :103]فرقہ فرقہ نہ بنو۔ فرقہ کب بنتا ہے۔ جب کسی اختلاف کو بنیاد بنا کر جماعت بنا لی جائے اور اپنا امام مقرر کر لیا جائے۔جب فرقہ بن گیا تو ( فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ )[6:الانعام:153]کے تحت صراط مستقیم سے ہٹ گیا۔ جب صراط مستقیم سے ہٹ گیاتو گمراہ ہو گیا۔ موجودہ حنفیت ایک فرقہ ہے جو اصل سے کٹ کر دور ہو گیا ہے اور اس نے اپنا سب کچھ علیحدہ کر لیا ہے۔ اس لیے گمراہ ہے۔ حنفیت کا اختلاف کوئی فروعی یا فرد واحد کا اختلاف نہیں بلکہ اصولی اور جماعتی اختلاف ہے۔ اختلاف صحابہؓ میں بھی ہو جاتا تھا اور بعد والوں میں بھی‘ لیکن وہ اختلاف جماعتی نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے جلدی مٹ جاتا تھا۔ یا کم از کم تخریب کی صورت اختیار نہیں کرتا تھا۔ اب جو اختلاف ہے وہ جماعتی ہے ‘ وہ مٹ نہیں سکتا۔ کیوں کہ فرقہ بندی ہو چکی ہے۔ حنفی کسی مسئلے میں ہزار تحقیق کرے اسے کوئی فائدہ نہیں۔ کیوں کہ وہ اس پر عمل نہیں کر سکتا۔ جوں ہی اس نے اس پر عمل کیا اس کی حنفیت گئی۔ مذہب بدل گیا۔ جماعت بدل گئی۔ رفع الیدین ویسے ایک فروعی مسئلہ ہے لیکن حنفی کے لیے حنفیت کی وجہ سے یہ ایک اصولی مسئلہ ہے۔ جوں ہی اس نے رفع الیدین کی اس کی حنفیت کا بت اس کی بغلوں سے گرا۔ اب یا رفع الیدین نہ کرے یا پورے حنفی مذہب کو چھوڑ دے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل حدیث اور حنفی میں بہت بعد ہے۔ جہاں قرآن و حدیث آیا ‘ حنفیت گئی۔ اصل میں حنفیت چلتی ہے تقلید کے ساتھ‘ اور تقلید چلتی ہے جہالت کے ساتھ اور جہالت ظلمت ہے اور قرآن وحدیث نور ہے۔ نورظلمت میں تقابل تضا د ہے۔ ایک آیا اور دوسرا گیا۔

(جَاءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا)  [17:الاسراء:81]
قرآن و حدیث اور حنفیت اس لیے بھی جمع نہیں ہو سکتے کہ حنفیت پیدا ہوتی ہے تقلید سے اور تقلید گمراہی ہے اور قرآن و حدیث ہدایت ہے۔ جیسے ہدایت و گمراہی جمع نہیں ہوسکتے کیوں کہ یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اسی طرح قرآن و حدیث اور تقلید بھی جمع نہیں ہو سکتے۔ یہ تقلید ناسدید فرقہ پرستی کی جان ہے۔ اس کے بغیر فرقہ پرستی ہو ہی نہیں سکتی اور فرقہ پرستی گمراہی ہے۔ اﷲ اس سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے۔ لہذا کسی اہل حدیث کا کسی فرقہ پرست جماعت کو گمراہ کہنا بالکل صحیح ہے۔ عقل بھی اس کا تقاضا کرتی ہے اور نقل بھی اس کی تائید ۔ لہٰذا قادری صاحب یا کسی حنفی کو بجائے ناراض ہونے کے اس فرقہ پرستی کو چھوڑنے کی فکر کرنی چاہیے۔ کیوں کہ اس فرقہ پرستی میں آخرت کی بربادی یقینی ہے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں جا بجا اس سے منع فرماتے ہیں:
(وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِیْعًا وَّ لاَ تَفَرَّقُوْا)[3:ال عمران : 103]
اے مسلمانو! سب قرآن و حدیث کو مضبوطی سے پکڑو ‘ اسی پر عمل کرو۔ فرقے فرقے نہ بنو۔ لیکن مقلدوں کی بدبختی ‘ وہ اپنے اپنے اماموں کی تقلید کرکے فرقے بنا نے سے نہ ٹلے۔ انھوں نے دین کے چار ٹکڑے کر دئیے۔ حنفی ‘ شافعی‘ مالکی ‘ حنبلی۔ اب حنفی اپنی بے وقوفی اور جہالت کی وجہ سے چوتھے حصے کو ہی کل سمجھتے ہیں اور فخر کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ دین ویسے برباد کہ صرف’’ چونی‘‘ ان کے حصے میںآئی۔ فرقہ بننے کا جرم علیحدہ ۔ اﷲ تعالیٰ نے غیرت کھاتے ہوئے پہلے سے یہ بتادیا کہ جو بھی فرقہ بنے گا۔ میرے نبیؐ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ چنانچہ فرمایا:
( اِنَّ الَّذِینَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَ کَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْھُمْ فِیْ شَیْءٍ اِنَّمَآ اَمْرُھُمْ اِلَی ﷲِ ثُمَّ یُنَبِّئھُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ )[6:الانعام:159]
اے نبی ؐ! ان فرقوں سے تیرا کوئی تعلق نہیں۔ ان کو میرے سپرد کر‘ میں ہی ان کی خبر لوں گا اور ان کو بتاؤں گا کہ انھوں نے کیا حرکت کی۔اس لیے حنفی بھائیوں سے دیوبندی ہوں یا بریلوی میری یہی اپیل ہے کہ وہ خدا را اپنے حنفی ہونے پر نظر ثانی فرمائیں کہ آخر وہ حنفی کیوں ہیں۔ کس نے کہا کہ وہ حنفی ہوں۔ کیا قرآن کہتا ہے یا حدیث دعوت دیتی ہے کہ تم حنفی بنو۔ اگر آپ کہیں کہ امام ابوحنیفہ بہت بڑے عالم تھے۔ میں کہتا ہوں یہ ٹھیک ہے کہ وہ بہت بڑے عالم تھے لیکن کیا انھوں نے کہا تھا کہ میری تقلید کرکے حنفی بننا۔ جب حنفی بننے کے لیے نہ اﷲ نے کہا‘ نہ اس کے رسول مقبول ﷺ نے ‘ نہ خود امام نے تو بتائیے آپ حنفی کیوں بنتے ہیں۔ اہل حدیث کیوں نہیں بنتے‘ جس کے لیے قرآن بھی کہتا ہے اور حدیث بھی اور نجات بھی اسی میں ہے کہ نبی کی حدیث پر عمل کیا جائے۔

*****

۱ ( مشکوۃ 80/1‘ کتاب العلم ‘ فصل اول رقم 200۔۔ مسند احمد 234/2‘رقم 7153من حدیث ابوہریرۃ ؓ ایضاً 57/5 16418/16392/16407 )