مولانا بشیر احمد قادری و مولانا فضل محمد صاحب کی طرف سے آمدہ خط

بگرامی خدمت جناب حاجی سید امداد اﷲ شاہ صاحب زیدمجدہ العالی
السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ‘ امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ گزارش ایں کہ میرے برادر خورد مولوی حاجی خیر الدین صاحب جالندھری سلمہ تبلیغ اور فراہمی چندہ کے سلسلہ میں آپ کے گاؤں میں حاضر ہوئے تھے۔ مولوی عبدالحمید صاحب اور آپ جس خلوص و محبت سے ان کے ساتھ پیش آئے ‘ جس خندہ پیشانی اور بشاشت سے ان کا استقبال کیا اور مدرسہ کی امداد کے سلسلہ میں ان کے ساتھ جو تعاون فرمایا اس کے لیے بندہ آپ حضرات کا بے حد ممنون ہے اور آپ حضرات کی دینی ودنیوی ترقیات کے لیے ہر وقت دست بہ دعا ہے۔
موصوف کی زبانی معلوم ہوا کہ آپ کا برخور دار جو بہاول پور کالج میں زیر تعلیم ہے وہ عبداﷲ نامی غیر مقلد کے دام ہمرنگ زمین میں پھنس کر احناف کو گمراہ سمجھنے لگا ہے اور ان کی نمازوں کو کالعدم اور باطل قرار دیتا ہے۔ خدا اس فرقہ ضالہ کے شرور و آفات سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے ۔ یہ فرقہ اتنا تنگ نظر متشدد اور غالی ہے کہ صحابہؓ کرام پر اٹیک کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتا۔ بیس تراویح کو جس پر سب صحابہؓ کرام کا اجماع ہے اس کو بدعت قرار دیتا ہے۔ حضرت عمرؓ کے دور مبارک سے لے کر ساڑھے بارہ سو سال تک تمام ممالک اسلامیہ میں مکہ معظمہ میں مدینہ منورہ میں بیس یا بیس سے زائد تراویح پڑھی جاتی رہی ہیں۔ کسی جگہ بھی آٹھ نہیں پڑھی گئی مگر یہ تنگ نظر فرقہ امت کے اس تعامل کو چھوڑ کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا کر اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے۔ بلکہ اپنے آپ کو صحابہؓ کرام سے بڑھ کر عامل بالحدیث سمجھتا ہے۔ ذرا غور فرمائیے کہ ان لوگوں کو صحابہ کرامؓ سے کیا نسبت؟ یہ لوگ اس بات کے مدعی ہیں کہ ہم صحابہؓ کرام سے زیادہ دین کی سمجھ رکھتے ہیں ۔ اسی طرح یہ لوگ کہتے ہیں کہ جو شخص امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی جس کی نماز نہیں ہوتی وہ کافر ہے۔ لہٰذا سب احناف کافر ہیں اور ان کی بیویوں سے غیر مقلدین کا نکاح درست ہے۔ حال آنکہ بہت سے جلیل القدر اور عظیم المرتبت صحابہؓ کرام امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھا کرتے تھے اور امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کا فتویٰ دیا کرتے تھے۔ مثلاً حضرت عبداﷲ بن عمر ‘ حضرت جابر بن عبداﷲ‘ حضرت زید بن ثابت‘ حضرت ابوالدرداء رضی اﷲ عنہم‘ نعوذ باﷲ یہ ساری عمر بے نماز رہے۔ جب یہ صحابہ کرامؓ غیر مقلدوں کے قول کے مطابق بے نماز رہے تو یہ حضرات ان کے دوسرے فتویٰ کی زد میں آئیں گے۔ ان دو مثالوں سے میرا مقصد ان لوگوں کے غلو‘ تشدد ‘ تعصب اور تخریب کی نشان دہی کرنا ہے۔ ایسا تنگ نظر اور متعصب فرقہ شاید ہی کوئی پیدا ہوا ہو۔ بہرحال یہ لوگ بہت بڑا فتنہ ہیں۔ یہ میں نہیں کہتا بلکہ ان کے بہت بڑے عالم اور امام نواب صدیق حسن خان صاحب ’’الحطہ فی ذکرالصحاح الستہ‘‘ میں لکھ گئے ہیں:
نَبتت فِیْ ھٰذَا الزَّمَانِ فِرْقَۃٌ ذَاتُ سُمْعَۃٍ وَ رِیَاءٍ اِلٰی اَنْ قَالَ فَکَیْفَ یُسَمُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ بِالْمَوَحِّدِیْنَ وَ غَیْرَھُمْ بِالْمُشْرِکِیْنَ وَ ھُمْ اَشَدُّ النَّاسِ تَعَصُّبًا وَ غُلُوًّا فِی الدِّیْنِ اِنْ ھٰذَا اِلاَّفِتْنَۃٌ فِی الْاَرْضِ وَ فَسَادٌ کَبِیْرٌ
نواب صاحب اس فرقہ کو بارہویں صدی کی پیدائش قرار دیتے ہیں اور اس کو روے زمین کا سب سے تنگ نظر اور متعصب فرقہ گردانتے ہیں۔ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔۔۔ صحابہؓ کرام اور ائمہ فحام کی شان میں گستاخیاں کرکے ان کے دماغ ماؤف اور اذہان مفلوج ہو جاتے ہیں۔ ان کی بصیرت مسلوب ہو جاتی ہے اور یہ لوگ دین کے اسرار و رموز سمجھنے کی صلاحیت سے عاری اور خالی ہو جاتے ہیں۔ یہ تو ان کے ناروا رویہ اور نامناسب وطیرہ اور متعصابہ طرز عمل کے پیش نظر چند تلخ حقائق نوک قلم سے سطح قرطاس پر مترشح ہو گئے ۔ اب میں اپنے مقصد کی طرف راجح ہوتا ہوں۔
آمد برسر مطلب
سب سے پہلے یہ حقیقت ذہن نشین کر لیں کہ احناف کہتے ہیں کہ افضل اولیٰ ‘ اعلیٰ اور بہتر یہ ہے کہ نماز میں رفع الیدین نہ کیا جائے کیوں کہ بار بار ہاتھ اٹھانا نماز کے خضو ع وخشوع اور سکون کے منافی ہے۔ اگر کوئی شخص نماز میں رفع الیدین کرے گا تواس کی نماز باطل نہ ہوگی۔ ہمارے نزدیک حلال ‘ حرام اور جائز ناجائز کا جھگڑا نہیں بلکہ صرف افضل و مفضول اورر اجح و مرجوح اور ااولیٰ وغیر اولیٰ کا نزاع اور جھگڑا ہے۔ احناف کا مسلک ہے کہ رفع الیدین نہ کیا جائے اس کے دلائل اگلے صفحے پر ملاحظہ فرمائیں۔
دلیل اول
حَدِیْثُ عَبْدِﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ عِنْدَ اَبِیْ دَاو‘دَ وَالتِّرْمَذِیِّ وَالنَّسَاءِیِّ قَالَ قَالَ عَبْدُﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ اَلاَ اُصَلِّیْ بِکُمْ صَلٰوۃَ رَسُوْلِ ﷲِ  فَلَمْ یَرْفَعْ یَدَیْہِ اِلاَّ فِیْ اَوَّلِ مَرَّۃٍ حَسَّنَہُ التِّرْمَذِیُّ وَ صَحَّحَہ‘ اِبْنُ حَزْمٍ۔۱
دلیل ثانی
حَدِیْثُ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِیَ ﷲُ تَعَالٰی عَنْہُ عِنْدَ الطَّحَاوِیْ فَقَالَ حَدَّثَنَا اَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ حَدَّثَنَا مُوْمَلٌ قَالَہ‘ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ قَالَ حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنِ اَبِیْ لَیْلٰی عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ  اِذَا کَبَّرَ لِاِفْتِتَاحِ الصَّلٰوۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی یَکُوْنَ اِبْھَامَاہُ قَرِیْبًا مِنْ شَحْمَتَیْ اُذْنَیْہِ ثُمَّ لاَ یَعُوْدُ ۲
دلیل ثالث
رَوِی الطِّبْرَانِیُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ ﷲُ تَعَالٰی عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ  قَال لاَ تُرْفَعُ الْاَیْدِیْ اِلاَّ فِیْ سَبْعَۃِ مَوَاطِنَ عِنْدَ اِفْتِتَاحِ الصَّلٰوۃِ وَ اِسْتِقْبَالِ الْقِبْلَۃِ وَ عَلَی الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ وَ بِعَرْفَاتٍ وَّ بِجَمْعٍ وَ فِی الْمَقَامَیْنِ وَ عِنْدَ الْجَمْرَتَیْنِ ۳
دلیل رابع
اَخْرَجَ الْاِمَامُ مُسْلِمُ فِیْ صَحِیْحِہٖ قَالَ حَدَّثَنَا اَبُوْبَکْرَ بْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ وَ اَبُوْکُرَیْبٍ قَالاَ حَدَّثَنَا اَبُوْمُعَاوِیَۃَ عَنِ الْاَعْمَشِ عَنِ الْمُسَیِّبِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ تَمِیْمِ بْنِ طَرْفَۃَ قَالَ خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ ﷲِ  فَقَالَ مَالِیَ اَرَاکُمْ رَافِعِیْ اَیْدِیْکُمْ کَاَنَّھَا اَذْنَابُ خَیْلٍ شُمْسٍ اُسْکُنُوْا فِی الصَّلٰوۃِ ۴
دلیل پنجم
عَنْ عَلِیٍّ مَرْفُوْعًا اَنَّ النَّبِیَّ  کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِیْ التَّکْبِیْرَۃِ الْاُوْلَی الَّتِیْ یَفْتَتِحُ الصَّلٰوۃَ ثُمَّ لاَ یَرْفَعُھُمَا فِیْ شَیْءٍ مِنَ الصَّلٰوۃِکَذَا نَقَلَہُ الْحَافِظُ ابْنِ حَجْرٍ فِی تَخْرِیْجِ اَحَادِیْثِ الْھَدَایَۃِ
دلائل اور بھی بہت زیادہ ہیں لیکن ان کی اس مختصر مکتوب میں گنجائش نہیں۔
اب میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اب دلائل پر قدرے روشنی ڈال دوں ۔ دیکھیے ہم نے دو قولی حدیثیں پیش کی ہیں اور باقی فعلی۔ غیر مقلدین کے پاس ایک بھی قولی حدیث نہیں۔ ہمارا چیلنج ہے کہ دنیا بھر کے غیر مقلدین یہ مل کر ثابت کر دیں کہ کسی حدیث میں
حضور ﷺ نے فرمایا ہو کہ رفع الیدین کیا کرو‘ بہ خلاف اس کے منع کی قولی حدیثیں ہیں۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ صرف سات مقامات پر ہاتھ اٹھا یا کرو‘ باقی جگہ ہاتھ نہ اٹھاؤ۔جن جگہ ہاتھ اٹھانے کا حکم ہے وہاں رفع الیدین عند الرکوع و عند الرفع منہ کا ذکر نہیں۔ اگر یہاں بھی ہاتھ اٹھانا ضروری ہوتا تو حضور علیہ السلام یہاں بھی ہاتھ اٹھانے کا امر فرماتے۔ حضور علیہ السلام کلمہ حصر کے ساتھ فرما رہے تھے کہ ہاتھ نہ اٹھائے جائیں مگر سات جگہ۔ ان ساتھ مقامات پر رفع الیدین کا حصر رفع الیدین عند الرکوع و عند الرفع منہ کی نفی کرتا ہے۔ دوسری قولی حدیث:
((مَا لِیَ اَرَاکُمْ رَافِعِیْ اَیْدِیکُمْ کَاَنَّھَا اَذْنَابَ خَیْلٍ شُمْسٍ اُسْکُنُوْا فِی الصَّلٰوۃِ ))
ہے۔ اس میں اُسْکُنُوْا فِی الصَّلٰوۃِ قولی حدیث ہے۔ یہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کا حکم ہے کہ نماز میں سکون اختیار کرو اور نماز میں ہاتھ اٹھانے کو حضور علیہ السلام نے سرکش گھوڑوں کی دمیں ہلانے سے تشبیہ دی ہے۔
اعتراض
غیرمقلدین اعتراض کیا کرتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ سلام کے موقع پر ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ اس حدیث میں اس سے منع کیا گیا ہے۔
جواب
سلام کے وقت اٹھانے کی ممانعت کی اور حدیث ہے اور رفع الیدین کے وقت ہاتھ اٹھانے کی ممانعت کی اور حدیث ہے۔ یہ دونوں حدیثیں غرضا و مقصودا و معانی میں مختلف ہیں۔ ایک روایت بطریق شریک بن الاعمش بن المسیب بن رافع عن تمیم بن طرفۃ عن جابر بن سمرۃ رضی اﷲ عنہ ہیں۔ ان کے الفاظ ہیں:
دَخَلَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ ﷲِ  الْمَسْجِدَ فَرَای قَوْمًا یُصَلُّوْنَ وَ قَدْ رَفَعُوْا اَیْدِیْھِمْ فَقَالَ مَا لِیَ اَرَاکُمْ رَافِعِیْ اَیْدِیَکُمْ کَاَنَّھَا اَذْنَابُ خَیْلٍ شُمْسٍ اُسْکُنُوْا فِی الصَّلٰوۃِ ۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ تنہا نماز پڑھ رہے تھے۔ حضورعلیہ السلام کی امامت میں نہیں پڑھ رہے تھے کہ آپ تشریف لائے اور صحابہؓ کو رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا اسکنوا فی الصلوۃ ۔۔۔ سلام کے وقت ہاتھ اٹھانے والی حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔
کُنَّا اِذَا صَلَّیْنَا خَلْفَ رَسُوْلِ ﷲِ  فَقُلْنَا اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَ اَشَارَ بِیَدِہٖ فَقَالَ مَا بَال ھٰؤُلاَءِ یُؤْمُوْنَ بِاَیْدِیْھِمْ کَاَنَّھَا اَذْنَابُ خَیْلٍ شُمْسٍ اِنَّمَا کَانَ یَکْفِیْ اَحَدَھُمْ اَنْ یَضَعَ یَدَہ‘ عَلٰی فَخِذِہٖ ثُمَّ یُسَلِّمْ عَلٰی اَخِیْہِ مَنْ عَلٰی یَمِیْنِہٖ وَ مَنْ عَلٰی شِمَالِہٖ
یہ حدیث سلام کے وقت رفع الیدین سے ممانعت والی ہے۔ اس میں اُسْکُنُوْا فِی الصَّلٰوۃِ کے الفاظ نہیں ہیں۔رفع الیدین کے انکار اور امر بالسکون والی حدیث داخل صلوۃ کے ساتھ مقید ہے۔ انکار ایما ء والی حدیث حال سلام کے ساتھ مقید ہے اور سلام کے ساتھ آدمی نماز سے خارج ہوجاتا ہے۔ ’’والمقید بقید لا یندرج ‘‘ کے تحت مقیدبقید آخر حاصل یہ نکلا کہ جس حدیث میں سلام کے ساتھ ہاتھ اٹھانے سے منع کیا گیا ہے وہ اور حدیث ہے سلام کے ساتھ آدمی نماز سے باہر نکل جاتا ہے۔ نماز میں نہیں رہتا۔ اس لیے یہاںاُسْکُنُوْا فِی الصَّلٰوۃِکے الفاظ ارشاد نہیں فرمائے۔ رفع الیدین کے وقت چوں کہ آدمی نماز میں ہوتا ہے اس لیے وہاں فرمایا کہ اُسْکُنُوْا فِی الصَّلٰوۃِ ۔ سلام کے وقت من وجہ نماز میں داخل ہوتا ہے اور من وجہ خارج ہوتا ہے۔ جب اس موقع پر آپ نے رفع الیدین کو گوارا نہیں فرمایا تو جو حصہ من کل الوجوہ نماز میں داخل ہے وہاں آپ اس کو کیسے گوارا فرما سکتے ہیں۔ اختصار کے ساتھ چند دلائل پیش خدمت ہیں۔ اپنے خطیب صاحب سے پڑھوا کر سمجھ لیں۔ یہ تحریر اپنے صاحب زادہ کو نہ دیں ‘ اس کی نقل کروا دیں ۔ ہو سکتا ہے کہ اصل کو ضائع کردے۔

حر رہ بشیر احمد قادری
بحکم مولانا فضل محمد صاحب مدظلہ العالی
مہتمم مدرسہ قاسم العلوم فقیر والی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱ ( ابوداؤد ‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع‘ ص 1278رقم 748۔۔ترمذی ‘ کتاب الصلوۃ ‘باب ماجاء ان النبی ﷺ لم یرفع الا فی اول مرۃ‘ ص 1663رقم 257)
۲ ( الموضوعات الکبری ملا علی قاری‘ رقم 1352: ص(355:
۳ (اخرجہ البخاری فی جزء رفع الیدین رقم 85۔۔ بیہقی 73/5معلقا۔۔ نصب الرایۃ زیلعی 390/1
۔۔ الموضات الکبریٰ ملا علی قاری ص 355رقم 1353)

۴ (صحیح مسلم‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب الامر بالسکون فی الصلوۃ ونہی عن الاشارۃ بالید و رفعھا عند السلام ۔۔ ابن خزیمۃ ‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب الزجر عن الاشارۃ بالید یمینًا وشمالاً عند السلام من الصلوۃ 361/1رقم 733۔۔ نسائی ‘کتاب الصلوۃ ‘ باب السلام با الیدین ص 2174 رقم 1327)