مولانا بشیر احمد قادری اورمولانا فضل محمد صاحبان کے آمدہ خط کا جواب

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

جواب

جناب فضل محمد و قادری صاحبان ! السلام علیکم

مقلد جاہل ہوتا ہے

آپ نے جو تحریر کسی بشیر احمد قادری صاحب سے لکھوا کر بھجوا ئی ‘ میں نے پڑھی اور خوب پڑھی۔ پڑھ کر تصدیق ہو گئی کہ مقلد آخر مقلد ہوتا ہے۔ بڑا ہو یا چھوٹا اس کو علم و فہم سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ جب فقیر والی کے قدیمی مدرسے کے مہتمم اورمدرسین کا یہ حال ہے تو حنفی عوام کا کیا حال ہوگا۔قیاس کن ز گلستان من بہار مرا۔

علما احناف کو چیلنج

آپ نے سب سے پہلے لکھا ہے کہ بیس تراویح پر سب صحابہ رضی اﷲ عنہم کا اجماع ہے۔ حالانکہ یہ صریح جھوٹ ہے۔ اگر سارے حنفی علما مل کر بھی زور لگائیں تو بیس تراویح پر صحابہؓ کا اجماع ثابت نہیں کر سکتے۔ قادری صاحب کے پاس کوئی ثبوت ہو جو فضل صاحب کے حکم سے ان کے پاس رکھا ہوا ہو کیوں کہ وہ کوئی کام بغیر فضل صاحب کے حکم سے نہیں کرتے‘ حتی کہ یہ مکتوب بھی انھوں نے فضل صاحب کے حکم ہی سے تحریر کیا ہے۔ لہٰذا اب جب آپ لوگ چندہ مانگنے ہمارے گاؤں تشریف لائیں تو اجماع والا تھیلا ساتھ لیتے آئیں تاکہ ہم بھی دیکھ لیں کہ وہ کیسا اجماع ہے‘ پھر آپ انکشاف فرماتے ہیں کہ آٹھ تراویح کسی جگہ بھی پڑھی نہیں گئیں۔ ارے بھئی!جب اﷲ کے رسول ﷺ نے پڑھ لیں تو اب کسی جگہ پڑھائی جائیں یا نہ پڑھائی جائیں کیا فرق پڑتا ہے۔ شارح اور دین والے تو حضور ﷺ ہیں نہ کہ مقلدین۔ قادری صاحب ! قرآن مجید نے بالکل ٹھیک کہا ہے اور شاید آ پ جیسے لوگوں کے لیے ہی کہا ہے :
( بَلْ کَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہٖ)[10:یونس:39]
یعنی جس چیز کا ان کو (مقلدین کو ) علم نہیں ہوتا اس کا وہ انکار کر دیتے ہیں۔ یہی حال آپ کا ہے‘ جو کہتے ہیں کہ آٹھ تراویح کسی جگہ بھی نہیں پڑھی گئیں۔ تقلید کی وجہ سے ‘ جہالت اپنی ہوتی ہے انکار حقیقت کا کرتے ہیں۔

مقلد کی مثال

پھر آپ لکھتے ہیں کہ تمام ممالک اسلامیہ میں‘ مکہ معظمہ میں‘ مدینہ منورہ میں بیس یا بیس سے زائد تراویح پڑھی جاتی ہیں۔ مگر یہ تنگ نظر فرقہ امت کے تعامل کوچھوڑ کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا کر اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے۔
فضل صاحب جب مکہ یا مدینہ میں بیس سے زائد بھی پڑھی جاتی رہی ہیں تو آپ کا بیس پر اجماع والا دعویٰ تو غلط ہو گیا۔ مقلد کا یہی حال ہوتا ہے ۔
(یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَھُمْ بِاَیْدِیْھِمْ )[59:الحشر:2]
پہلے اپنی پناہ کے لیے بیت عنکبوت بنا لیتے ہیں۔ پھر اپنے ہاتھوں ہی سے اسے ختم کر دیتے ہیں۔ مکہ میں مشرک مقلدین کی ایک دیوانی عورت ایسے ہی کرتی تھی۔ خود ہی کات لیتی خود ہی توڑ لیتی۔ اس پر اﷲ نے اس فعل سے عبرت دلائی اور منع فرمایا: م
( وَ لاَ تَکُوْنُوْا کَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَھَا مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْکَاثًا)[16:النحل:92]اس عورت جیسے نہ بنو ‘ جو اپنے کاتے کو خود ہی توڑ لیتی ہے۔ یعنی آپ نے عبرت حاصل نہ کی۔پہلے بڑے زور سے دعویٰ کیا کہ بیس پر اجماع ہے ‘ پھر خود ہی کہہ دیا کہ مکہ و مدینہ میں بیس سے زائد بھی پڑھی جاتی ہیں۔

یہ کوئی عقل مندی نہیں

فضل صاحب! یہ کیا عقل ہے کہ آپ تقلید کے بیت عنکبوت میں بیٹھ کر ان پر پتھر پھینکنے لگ جاتے ہیں جو حدیث رسول ؐکے مضبوط قلعے میں ہیں۔ آپ یہ نہیں دیکھتے کہ اہل حدیث کا تو بگڑے گا کچھ نہیں۔ وہ تو حدیثوں کے پکے اور مضبوط مکان میں ہیں۔ لیکن اگر انھوں نے کوئی پتھر پھینک دیا تو آپ کا کچومر نکل جائے گا۔ آپ بھی گئے اور آپ کا بیت عنکبوت بھی۔

تقلید بھیڑ چال ہے

جب اہل حدیث کا مذہب ہی حدیث رسول ؐ اور اتباع رسول ؐ ہے تو اہل حدیث پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے مرتے تو وہ ہیں جو حدیث رسولؐ کو چھوڑتے ہیں‘جن کا مذہب رسول ﷺ کی پیروی نہیں ‘ بلکہ بھیڑ چال ہے۔ جب ہمارا مذہب ہی اتباع رسول ؐ ہے تو آپ ہمیںیہ کیا سناتے ہیں کہ فلاں جگہ یہ ہوتا ہے فلاں جگہ یہ ۔ کوئی کچھ کرے ‘ ہمیں اس سے کیا ؟ ہمیں تو حدیث رسول مقبول ﷺ سے سروکار ہے۔ شرم کا مقام تو آپ کے لیے ہے‘ کہ تمام ممالک اسلامیہ میں مکہ مدینہ میں لوگ رفع الیدین آمین کرتے ہیں جیسا کہ حج پر نظر آتا ہے لیکن آپ لوگ نہیں کرتے۔ امام ترمذی ؒ ‘ ترمذی شریف میں عبداﷲ بن مبارکؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ ساری دنیا کے لوگ قرآت خلف الامام کے قائل ہیں‘ لیکن کوفی ‘ یعنی حنفی قائل نہیں۔ امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ ساری دنیا کے مسلمان رفع الیدین کی سنت رسول ؐ پر عمل کرتے ہیں ‘ لیکن حنفیوں کی قسمت میں یہ سنت نہیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بھی مخالفت اور تمام مسلمانوں کی بھی مخالفت۔ اس سے زیادہ بے نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے۔ ہم پر آٹھ تراویح کا اعتراض کرتے ہیں ‘ میں پوچھتا ہوں کہ یہ کیا اعتراض ہے ۔ کیا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم آٹھ تراویح نہیں پڑھتے تھے؟ کیا حضرت عمرؓ نے آٹھ تراویح کا حکم نہیں دیا۔ کیا سلف میںآٹھ نہیں پڑھی جاتی رہیں۔آپ ہم پر اعتراض نہ کریں۔ ہم تو ماشاء اﷲ سنت رسول ؐ سے تمسک کرتے ہیں۔ آپ فکر اپنی کریں کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کون بناتا ہے؟ آپ ہی بتائیں کہ تنگ نظر ہم ہیں جو سنت رسول ؐ پر عمل پیرا ہیں اور پورا دین رکھتے ہیں یا آپ جو دین کے چار ٹکڑے کرکے ایک کونے میں چلے گئے؟ ہم ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناتے ہیں جو محمدی مسجد وں میں محمدی نماز پڑھتے ہیں یا آپ جو حنفی مسجدوں میں حنفی نماز پڑھتے ہیں۔ اگر محمدی مسجد کو آپ ڈیڑھ اینٹ کی کہتے ہیں تو حنفی مسجد تو تہائی اینٹ سے بھی کم ہوگی کیوں کہ حصہ تو آپ کا چوتھا ہی ہے۔ جب آپ نے چار امام بنا لیے اور دین کے حصے بخرے کرکے حنفی بن گئے تو بتائیے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہم نے بنائی یا آپ نے حضور ﷺ سے علٰیحدہ آپ ہوئے یا ہم ؟ آپ کو حضور ﷺ سے کیا نہیں ملتا تھا جو آپ حنفی ہوئے۔
کسی کا ہو رہے کوئی نبیؐ کے ہو رہیں گے ہم

اتباع رسولؐ حق ہے یا تقلید ابوحنیفہؒ ؟

آپ نے ہمیں یہ طعنہ بھی دیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں‘فضل صاحب آپ ہی بتائیں کہ ہم اہل حدیث ہوتے ہوئے اپنے آپ کو حق پر نہ سمجھیں ؟ اور آپ حنفی ہو کر اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں ۔ بتائیے اتباع رسولؐ حق ہے یا اتباع ابوحنیفہؒ ؟ جب ہم نے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھا ہے توہم اتباع رسولؐ نہ کریں؟ جب ہم اتباع رسول ؐ کرتے ہیں تو اپنے آپ کو حق پر کیوں نہ سمجھیں ؟ کیا اتباع رسولؐ حق نہیں ؟ پھر آیا کیا تقلید حق ہے ؟ جس کی ضلالت مسلم ہے۔ آپ ہی انصاف کریں تقلید کو تو گمراہی ہر ایک ہی کہتا ہے ‘ اتباع رسول ؐ کو بھی گمراہی آپ کے سوا کوئی کہتا ہے ؟ اپنی ڈھٹائی کا کمال دیکھیں کہ تقلید کی وجہ سے ضال و مضل خود ہیں اور فرقہ ضالہ ہمیں بتاتے ہیں۔ چنانچہ اس سلسلہ میںآپ نے ’’ نواب صدیق الحسن مرحوم‘‘ کا ایک حوالہ بھی نقل کیا ہے ۔ میں پوچھتا ہوں آخر آپ کی مت بالکل ہی کیوں ماری گئی ؟ کہیں آپ نے تقلید کی شراب جسے ام الخبائث کہتے ہیں بہت تو نہیں پی لی ‘ جو آپ ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔ تقلید کے بندو! سوچو تو سہی کہ جب نواب صاحب خود اہل حدیث تھے‘ تو وہ اہل حدیث کے خلاف کیسے لکھ سکتے تھے؟ آج تک تو جیسا کہ ہم نے سنا ہے آپ لوگ یہ شور مچاتے رہے کہ نواب صاحب بڑے متعصب ہیں تقلید کو شرک کہتے ہیں۔ امام صاحب کو ضعیف ‘ قلیل الحدیث اور یتیم فی الحدیث کہہ کر ان کی تنقیص کرتے ہیں۔ اب آپ کہہ رہے ہیں کہ نواب صاحب نے ہمارے یعنی اہل حدیث کے خلاف یہ لکھا ہے ۔ کیا نواب صاحب حنفی ہو گئے تھے‘ جو انھوں نے اہل حدیثوں کے خلاف لکھا ہے؟ بھئی !یہ آپ کی سمجھ کا قصور ہے۔ آپ نے جام تقلید بہت چڑھا رکھے ہیں جو اس عبارت کو ہم پر چسپاں کرتے ہیں ۔ یہ تو انھوں نے آپ کے کسی بھائی کے بارے میں لکھا ہے۔ آپ تقلید کی پٹی کھول کر پھر پڑھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ بے سمجھی سے ہر کام نہیں کیا کرتے۔ لیکن اگر سمجھ میں نہ آئے تو ہمارے پاس بہاولپور تشریف لائیں ‘ ان شاء اﷲ تقلید کا نشہ بھی اتر جائے گا اور سمجھ میں بھی آ جائے گا۔

صحابہ رضوان اﷲ علیھم اجمعین اہل حدیث تھے

آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان لوگوں کو صحابہؓ سے کیا نسبت ہے ؟ میں پوچھتا ہوں اگر اہل حدیث کو صحابہ رضی اﷲ عنہم سے نسبت نہیں تو پھر کیا آپ کو ہوگی؟ کیا صحابہؓ بھی آپ کی طرح مقلد یا حنفی تھے جو آپ سے نسبت ہو؟ عقل کے ناخن لیں ‘ کوئی بات تو سوچ کر کریں۔ صحابہؓ نہ حنفی تھے نہ مقلد ‘ بلکہ وہ تقلید کو گمراہی سمجھتے تھے‘ وہ عامل بالحدیث تھے۔ اس لیے آپ کو صحابہؓ سے کوئی نسبت نہیں۔ ان سے نسبت ہمیں ہے جوتقلید نہیں کرتے‘ بلکہ تقلید کو گمراہی سمجھتے ہیں اور عامل بالحدیث ہیں۔ ’’ ما انا علیہ وا صحابی ‘‘ کے مصداق بھی ہم ہیں‘آپ نہیں۔ رہ گیاآپ کا یہ کہنا کہ یہ لوگ اس اس بات کے مدعی ہیں کہ ہم صحابہؓ کرام سے زیادہ دین کی سمجھ رکھتے ہیں تو یہ آپ کا خبث باطن ہے ورنہ ہم یہ بالکل نہیں کہتے۔ یہ صریح جھوٹ ہے ‘ اور جھوٹے پر خدا کی لعنت ہوتی ہے۔ خدا کی قسم ہمارا ایمان ہے کہ :
کَانُوْا اَفْضَلُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اَبَرُّھَا قُلُوْبًا وَاَعْمَقُھَاعِلْمًا ۱
صحابہؓ کرام تما م امت میں تمام لحاظ سے سب سے افضل تھے۔ آپ ہزار الزام تراشی کریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حضور ﷺ کے زمانے سے بھی پہلے سے مقلدین کی یہ خصلت چلی آ رہی ہے کہ وہ اہل حق پر الزام تراشی کرتے چلے آ رہے ہیں۔آپ بھی کر کے دیکھ لیں۔ آپ کو سب آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا‘ ان شاء اﷲ۔!

حنفی مذہب کی صحابہ کرام سے مخالفت

آپ نے الحمد شریف کی بحث بھی چھیڑی ہے۔چنانچہ آپ لکھتے ہیں :’’ سب سے جلیل القدر اور عظیم المرتبت صحابہ کرامؓ امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ نہ پڑھنے کا فتویٰ دیا کرتے تھے۔ ‘‘میں کہتا ہوں اولاً یہ غلط ہے ‘ لیکن اگر صحابہ کرامؓ میں کچھ اختلاف ہو بھی تو کوئی مضائقہ نہیں۔ صحابہؓ کرام کا بہت سے مسائل میں اختلاف رہا ہے۔ الحمد شریف کے بارے میں صحابہؓ کا اختلاف کچھ بھی ہو ‘ لیکن آپ کے سب خلاف تھے۔ کسی صحابی کا وہ مذہب نہیں جو حنفیوں کا ہے۔ اگر شبہ ہو تو میدان میں آ کر دیکھ لیں۔
پھر آپ لکھتے ہیں کہ ’’صحابہؓ امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھتے تھے۔ کیا نعوذ باﷲ یہ سارے بے نماز ہی رہے۔‘‘
میں کہتا ہوں حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ جیسے صحابہؓ جو بغیرانزال کے صرف دخول سے غسل نہیں کرتے تھے کیا معاذا ﷲ سب بے نماز ہی رہے جو بغیر غسل کے نماز پڑھتے رہے؟جو جواب آپ کا وہی ہمارا۔ ایسے سوالوں سے ہی تو آپ کی جہالت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ تو آپ کے علم و عقل کا حال ہے۔

رفع الیدین عبادت ہے

آپ نے لکھا کہ بہتر یہ ہے کہ رفع الیدین نہ کی جائے کیوں کہ نماز میں بار بار ہاتھ اٹھانا خشوع و خضوع کے منافی ہے ۔ میں پوچھتا ہوں اگر رفع الیدین نماز کے خشوع و خضوع کے منافی ہے تو حضور ﷺ نماز کی ابتداء میں اور نماز کے اندریہ فعل کیوں کرتے تھے۔اگر معاذ اﷲ !حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کو اتنی سمجھ نہ تھی اور ان کو اتنا علم نہ تھا اور وہ غلطی کرتے رہے۔ تو آپ لوگ جانتے بوجھتے ہوئے کہ یہ منافی خشوع وخضوع ہے ‘ ہر نماز کی ابتدا اور عیدین اور قنوت وتر میںیہ حماقت کیوں کرتے ہیں؟ یہ عجیب بات ہے کہ آپ رفع الیدین کو منافی خشوع وخضوع بھی کہتے ہیں اور عیدین اور قنوت وتر میں یہ فعل بھی کرتے ہیں۔ جو فعل منافی خشوع و خضوع ہو تو نماز میں کیسے جائز ہو سکتا ہے ؟ سارے مسلمان حضورصلی اﷲ علیہ وسلم سے لے کر آخر تک جو بھی رفع الیدین کرتا ہے وہ اسے عبادت سمجھ کر کرتا ہے۔ ایسا احمق سوائے آپ کے کوئی نہیں‘ جو اسے منافی خشوع و خضوع بھی کہے اور پھر یہ فعل بھی کرے۔ بے عقل مقلد ہی یہ جرأت کر سکتا ہے کہ رفع الیدین کو جو سنت رسول ؐ اور عین عبادت ہے ۔۔ اسے منافی خشوع و خضوع قرار دے ۔ ایک ایمان والا ایسی جرآت کبھی نہیں کر سکتا۔ فضل صاحب اسی کرتوت پر یہ دعویٰ ہے کہ اہل حدیث کو صحابہؓ سے کوئی نسبت نہیں اور آپ کو ہے۔ قادری صاحب آپ کو کون بتائے کہ رفع الیدین عبادت ہے اور بے کار حرکت نہیں‘ جو خشوع و خضوع کے منافی ہو۔ ایمان والے ہمیشہ سے یہ سمجھتے چلے آئے ہیں کہ رفع الیدین فعل تعظیمی ہے جو عبادت ہے‘ جس پر ثواب کی امید کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ امام ربیع کہتے ہیں میں نے امام شافعی ؒ سے پوچھا:
مَا مَعْنٰی رَفْعَ الْیَدَیْنِ عِنْدَ الرَّکُوْعِ فَقَالَ مِثْلَ مَعْنٰی رَفْعِھَمَا عِنْدَالْاِفْتَتَاحِ تَعْظِیْمًا لِلّٰہِ وَ سُنَّۃً مُتَّبِعَۃً یُرْجٰی ثَوَابَ ﷲِ ۔
رکوع کی رفع الیدین کیوں کی جاتی ہے تو انھوں نے کہا کہ جس لیے پہلی کی جاتی ہے۔ اس میں اﷲ کی تعظیم ہے۔ نبی ؐکا اتباع ہے‘ جس پر اﷲ سے ثواب کی امید کی جاسکتی ہے۔
تلخیص میں عقبہ بن عامرؓ سے مروی ہے کہ ہر رفع الیدین پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔
مَنْ رَفَعَ یَدَیْہِ فِی الصَّلٰوۃِ لَہ‘ بِکُلِّ اَشَارَۃٍ عَشْرُ حَسَنَاتٍ
حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کہتے ہیں:
اِنْ کُنَّا لَنُؤَذَّبُ عَلٰی تَرْکِ الرَّفْعِ ۲
صحابہؓ کرام کے زمانے میں رفع الیدین نہ کرنے پر ہماری پٹائی کی جاتی تھی۔
شاہ ولی اﷲ صاحب حجۃ اﷲ البالغہ میں لکھتے ہیں :
اِنَّ الرَّفْعَ فِعْلٌ تَعْظِیْمِیٌّ وَ لِذٰلِکَ اُبْتُدِءَ بِہٖ فِی الصَّلٰوۃِ
رفع الیدین فعل تعظیمی ہے۔اس لیے اس سے نماز کی ابتدا کی گئی ہے۔
مزید لکھتے ہیں:
رَفْعُ الْیَدَیْنِ فِعْلٌ تَعْظِیْمِیٌّ نِیَّۃٌ النَّفْسِ عَلٰی تَرْکِ الْاِشْتِغَالِ الْمُنَافِیَۃِ لِلصَّلٰوۃِ وَالدَّخُوْلِ فِیْ حِیْنَ الْمَنَاجَاۃِ فَشَرَعَ اِبْتِدَاءً کُلُّ فِعْلً مِنَ التَّعْظِیْمَاتِ الثُّلُثِ بِہٖ لِتَتَنَبَّہَ النَّفْسُ لِثَمَرَۃِ ذٰلِکَ الْفِعْلِ مُسْتَانِفًا ۳
یعنی رفع الیدین فعل تعظیمی ہے جو اس چیز کے اظہار کے لیے ہے کہ نمازی تمام مشاغل دنیوی سے دست بردار ہو کر اپنے رب سے مناجات کرنے میں لگ رہا ہے ۔ اسی لیے نماز کے تعظیمی فعلوں کے اول میں اس کو رکھا گیا ہے‘ تاکہ اس احساس کی تجدید ہوتی رہے۔ اسی طرح شاہ اسماعیل ؒ شہید فرماتے ہیں :
اِنَّ رَفْعَہ‘  کَانَ قُرْبَۃً وَّ عِبَادَۃً وَ لَمْ یَکُنْ عَادَۃً وَ ھُوَ ظَاہِرٌ لِاَنَّ اَفْعَالَ الصَّلٰوۃِ کُلِّھَا عِبَادَۃٌ لاَسِیَمَااِذَا لَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ الْفِعْلُ عَادَۃً فِیْ غَیْرِ الصَّلٰوۃِ اَیْضًا وَّ لَوْ کَانَ عَادَۃً لَمْ یَھْتَمَّ الصَّحَابَّۃُ وَ لاَ الْفُقْہَاءُ بِرَوَایَتِہِ وَاِتَّبَاعِہٖ یُفْھَمُ کُوْنُہٌ عِبَادَۃً مِنْ رِوَایَۃِ الْحَاکِمِ اِنَّ ﷲَ اَمَرَہ‘ بِہٖ وَ مِنْ قَوْلِہٖ اِنَّ رَفْعَ الْاَیْدِی مِنَ الْاِسْتَکَانَۃِ ۴
حضور ﷺ رفع الیدین کو بطور عادت کے نہیں بلکہ قربت اور عبادت کے طور پر کرتے تھے۔ اور یہ ظاہر ہے کیوں کہ نماز کے سارے افعال عبادت ہیں۔ خصوصا جب کہ اس فعل کی نماز کے علاوہ عادت بھی نہ ہو۔ اگر رفع الیدین عبادت نہ ہوتی ‘ بلکہ عادت ہوتی تو صحابہ کرامؓ اور فقہاء عظام اس کی روایت اور پیروی کا اتنا اہتمام نہ فرماتے۔ رفع الیدین عبادت ہے اس کی دلیل حاکم کی وہ حدیث ہے جس میں یہ ہے کہ اﷲ نے اس کا حکم دیا ہے۔ دوسرے حضور ﷺ کا وہ ارشاد ہے کہ رفع الیدین میں عاجزی اور خشوع وخضوع ہے۔
اب بھی اگر آپ کہیں کہ رفع الیدین منافع خشوع وخضوع ہے تو پھر( وانْتَظِرُوْا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ )[11:ھود:122]

دروغ گو را حافظہ نہ باشد

پھر آپ لکھتے ہیں ہمارے نزدیک یہ حلال و حرام ‘ جائز و ناجائز کا جھگڑا نہیں بلکہ افضل و مفضول ‘ اولیٰ و غیر اولیٰ کا جھگڑا ہے۔ میں کہتا ہوں اگر یہ اولیٰ ‘ غیر اولیٰ کا جھگڑا ہے تو یہ جو دو قولی حدیثیں آپ نے پیش کی ہیں ان کی کیا ضرورت تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ ’’دروغ گو را حافظہ نہ باشد ‘‘والی مثال آپ پر پوری صادق آتی ہے۔دعویٰ کچھ تھا ‘ دلیل آپ کچھ دیتے ہیں۔ اس لیے دعویٰ اور دلیل میں مطابقت نہیں۔ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ رفع الیدین کا نزاع اولیٰ اور غیر اولیٰ کا ہے اور دلیل میں دو قولی حدیثیں پیش کرتے ہیں ۔ پہلی حدیث میں آپ لکھتے ہیں : حضور ﷺ نے فرمایا صرف سات مقامات پر ہاتھ اٹھایا کرو‘ باقی جگہ ہاتھ نہ اٹھایا کرو۔ اب آپ بتائیے اس صریح ممانعت کے بعد رفع الیدین کیسے جائز رہ سکتی ہے؟ دوسری قولی حدیث اس سے بھی سخت ہے۔ اس میں بقول آپ کے حضور ﷺ کا نھا اذناب خیل شمس کی تشبیہ دے کر رفع الیدین کی مذمت کر رہے ہیں اور اس کو فی الصلوۃ کہہ کر اس سے روک رہے ہیں۔ اور قرآن کہتا ہے
(وَ مَا نَھَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا وَاتَّقُوْا ﷲَ اِنَّ اﷲَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ)[7:الحشر:59]

(فَالْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ )[24:النور:63]

یعنی جس سے نبی ؐ روکے اس سے باز آ جاؤ ‘ نبیؐ کی نافرمانی سے ڈرو‘ کہیں خدا کا عذاب نہ آجائے وہ سخت عذاب والا ہے۔

اب آپ بتائیے جس سے اﷲ کا رسولؐ روکے ا ور اﷲ ڈرائے وہ جائز ہو کیسے سکتا ہے۔ دعویٰ دیکھیے اور دلیل دیکھیے۔ پھر اپنی منافقت کاملہ کی داد دیجیے ۔ اصل میں بات یہ ہے کہ آپ لوگ حنفی ہونے کی وجہ سے رفع الیدین تو کر نہیں سکتے ۔ اگر کرتے ہیں تو حنفیت جاتی ہے‘ اگر نہیں کرتے تو تارک سنت اور منکر حدیث رسولؐ ٹھہرتے ہیں۔ پھر آپ چالیں چلتے ہیں۔ طرح طرح کے حیلے بہانے تلاش کرتے ہیں۔ کبھی منسوخ کہتے ہیں‘ کبھی جائز ‘ کبھی کچھ کبھی کچھ۔ (فَضَلُّوْا فَلاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلاً)[25:الفرقان:9]اس منافقت اور مرعوبیت کی وجہ سے آپ کے دعویٰ اور دلیل میں کبھی مطابقت نہیں ہوتی۔اس طرح مسئلہ الحمد شریف میں دعویٰ کچھ ہوتا ہے اور حدیثیں کچھ دکھاتے پھرتے ہیں۔ یہی حال مسئلہ تراویح میں ہوتا ہے۔ جب بھی آپ لوگوں سے بحث و مناظرہ ہوا آپ لوگوں کو بچگانہ اور منافقانہ حرکتیں کرتے ہوئے ہی پایا۔ آپ کی یہ تحریر بھی اسی کا مرقع ہے۔

پہلی دلیل کا جواب

پہلی حدیث آپ نے عبداﷲ بن مسعودؓ والی پیش کی ہے ‘ حال آنکہ بڑے بڑے محدثین اس کو ضعیف کہتے ہیں۔ خود امام ترمذی رحمہ اﷲ علیہ عبداﷲ بن مبارکؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ رفع الیدین کرنے والوں کی حدیث صحیح ہے اور عبداﷲ بن مسعودؓ والی حدیث ثابت نہیں۔ آپ اعلیٰ درجہ کی صحیح روایات کو چھوڑ کر اس غیر ثابت کو لیتے ہیں۔ آخر کیوں؟ آپ کو امام ترمذیؒ کی تحسین جو کہ کوئی معیاری چیز نہیں اور ابن حزم ؒ کی تصحیح نظر آتی ہے اور ان سے بھی بڑے محدثین کی تضعیف نظرنہیں آتی ‘ آخر کیوں؟ فضل صاحب!آخر مطلبی کسے کہتے ہیں ؟ اﷲ اس تقلید کی لعنت سے بچائے ‘ یہ آدمی کو مطلبی بنا دیتی ہے۔ اعلیٰ چیزیں چھوڑ کر گھٹیا چیزیں لینی پڑتی ہیں۔ مختصر یہ کہ آپ کے پاس رفع الیدین کی مخالفت میں یہی حدیث سب سے اعلیٰ ہے‘ لیکن آپ کی بدقسمتی کہ یہ بھی ضعیف ہے۔ چنانچہ امام ابن حبان نے اس کی صراحت کی ہے۔

دوسری دلیل کا جواب

دوسری حدیث جو غلط سند کے ساتھ آپ نے نقل کی ہے وہ بھی بالکل ضعیف ہے۔ اجل محدثین کا اتفاق ہے کہ یہ صحیح نہیں۔
اس میں یزید بن ابی زیاد راوی ہے جو بالاتفاق ضعیف ہے۔ اس کا دماغ چل گیا تھا۔ وہ جب تک مکہ میں تھا اس حدیث کو بیان کرتے وقت ’’ثُمَّ لاَ یَعُوْدُ‘‘ کا لفظ نہیں کہتا تھا۔ جب کوفہ چلا گیا اور دماغ متغیر ہو گیا تو جیسے کوفی سکھاتے ‘ حدیث بیان کر دیتا تھا۔ تقریباً تمام محدثین متفق ہیں کہ ’’ثُمَّ لاَ یَعُوْدُ‘‘ کا لفظ جس سے حنفی استدلال کرتے ہیں اس حدیث میں اضافہ کردہ ہے۔ اب بتائیے کہاں بخاری ‘ مسلم کی صحیح روایات اور کہاں یہ ضعیف۔

تیسری دلیل کا جواب

یہی حال حضرت علیؓ والی روایت کا ہے کہ وہ ضعیف بھی ہے اور نچلے درجے کی بھی۔ آپ اسے لیتے ہیں اور ان کی صحاح ستہ کی صحیح روایات کو نہیں لیتے۔ فضل صاحب میں پوچھتا ہوں کہ آپ نے امام ترمذیؒ کا عبداﷲ بن مسعودؓ والی ضعیف حدیث کو حسن کہنا تو مان لیا اور حضرت علیؓ والی روایت کو جس کو وہ حسن اور صحیح کہتے ہیں نہیں مانتے۔ آخر یہ کیا مطلب پرستی ہے۔
ہائے تقلید تیرا ستیاناس ہو تو بھی اپنے بندوں کو کیسا ذلیل کرواتی ہے۔

چوتھی دلیل کا جواب

یہ حدیث مجروح بھی ہے اور آپ کے خلاف بھی ۔ آپ نے اہل حدیث کی مخالفت میں حدیث تو پیش کردی لیکن یہ نہ دیکھا کہ یہ تو حنفیوں کی بھی جڑ نکالتی ہے۔ مقلد کو کہاں نظر آتا ہے‘ وہ تو تعصب میں اندھا ہوتا ہے۔ دوسرے کو گرانے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسرا گرے نہ گرے خود ضرور گڑھے میں گر پڑتا ہے۔ آپ بالکل اندھے تھے جو آپ نے یہ حدیث لکھ دی اور بالکل نہ دیکھا۔ ابن ہمام بھی مقلد تھے۔ مگر آپ جیسے اندھے نہ تھے۔ وہ ’’ الفتح القدیر‘‘ میں لکھتے ہیں مجال ہے کہ یہ حدیث صحیح ہو۔ اس لیے کہ رفع الیدین حدیثوں میں سوائے ان سات مقامات کے متواتر وارد ہے۔ جس کی ذرا بھی آنکھ کھلی تھی اس نے دیکھ لیا لیکن آپ نے نہ دیکھا اسی ٹہنی کو کاٹنے لگ گئے جس پر خود بیٹھے تھے۔ چنانچہ دھڑام سے نیچے گرگئے۔
میں پوچھتا ہوں کہ اگر اس حدیث میں ہماری رفع الیدین نہیں تو تمھاری قنوت وتر اور عیدین کی رفع الیدین ہے ؟ اگرآپ کی بھی نہیں تو اس حدیث کو معرض استدلال میں پیش کرنا کیا اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ کے دماغ ماؤف و ذہن مفلوج ہیں۔ اندھے مقلد ہوتے ہی ایسے ہیں جو نہ سوچتے ہیں ‘ نہ دیکھتے ہیں۔

پانچویں دلیل اور اس کا جواب

آپ کی اگلی دلیل بھی دماغ کے ماؤف ا ور ذہن کے مفلوج ہونے کی واضح دلیل ہے‘ جو پہلے کسی مقلد نے کہہ دیا آپ نے لکھ دیا‘ خود نہ سوچا کہ یہ حدیث عدم رفع الیدین کی دلیل بن سکتی ہے یا نہیں؟ اگر آپ ذرا بھی عقل سے کام لیتے تو آپ کو معلوم ہو جاتا کہ دونوں حدیثوں میں جب تشبیہ ایک ہے تو شبہ بھی ضرور ایک ہوگا۔ جب ہر دو رفع الیدین میں بین فرق ہے ۔ ایک میں دائیں بائیں ہاتھ مارے جاتے ہیں ۔ دوسری میں کندھوں کے برابر اوپر کی جانب ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں۔ دونوں فعل کی تشبیہ ایک کیسے ہو سکتی ہے۔ جب تشبیہ ایک ہے تو فعل بھی ضرور ایک ہوگا۔ یعنی دونوں حدیثوں کی رفع الیدین ایک ہی طرح کی ہوگی ۔ اب وہ کیسی رفع الیدین ہے جس کی تشبیہ حضور ﷺ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہلانے سے دے رہے ہیں۔ ظاہر ہے وہ ایسی رفع الیدین ہو سکتی ہے جیسے گھوڑے دمیں ہلاتے ہیں۔ گھوڑے دم اوپر نیچے نہیں مارتے بلکہ اطراف میں دائیں بائیں مارتے ہیں ا ور حدیث میں بھی یہی صراحت موجود ہے۔چنانچہ مسلم شریف میں حضرت جابرؓ خود بیان کر تے ہیں کہ ہم دائیں بائیں ہاتھ ہلاتے تھے خود حضور ﷺ نے ہمیں منع کیا۔ کیا یہ تشبیہ اس رفع الیدین کی نہیں ہے جو دائیں بائیں ہاتھ مار کر کی جاتی ہے۔ متنازع فیہ رفع الیدین کی یہ تشبیہ نہیں ہو سکتی کیوں کہ اس میں ہاتھ اوپر کی جانب کندھوں تک اٹھائے جاتے ہیں۔ آپ دونوں حدیثوں میں تشبیہ کو نہیں دیکھتے کہ وہ ایک ہے اور یہ بین دلیل ہے اس بات کی کہ رفع الیدین بھی دونوں حدیثوں میں ایک ہی ہوگی۔ آپ موقعوں کے اختلاف کو دیکھتے ہیں کہ ایک حدیث میں صحابہؓ تنہا نماز پڑھ رہے تھے۔ دوسری میں ہے کہ حضور ﷺ کی امامت میں پڑھ رہے تھے۔ حالانکہ موقعوں کے اختلاف کے باوجود بھی فعل ایک ہو سکتا ہے اور فعل پر حضور ﷺ کی دو دفعہ نہی وارد ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نے پہلے منع کیا ہو ‘ جب کچھ لوگ اکیلے اکیلے نماز پڑھ رہے ہوں پھر آپ نے جماعت کے بعد بھی منع کیا ہو جب کہ بعض نے اس وقت بھی وہ فعل کیا ہو۔ مختلف موقعوں پر منع کرنے سے یہ کیسے نکل آیا کہ ایک حدیث کی رفع الیدین اور ہے اور دوسری کی اور‘ جب کہ تشبیہ آپ دونوں کی ایک ہی دے رہے ہیں۔ رہ گیا ۔ اُسْکُنُوْا فِی الصَّلٰوۃِ سے استدلال تو یہ مغالطہ خوری یا مغالطہ دہی کے سوا کچھ نہیں۔ جب سلام نماز کا حصہ ہے توا س کے فِی الصَّلٰوۃِ ہونے میں کیا شبہ ہے۔ امام ابوحنیفہؒ سلام کو نماز کے فرائض میں داخل کرتے ہیں۔ چنانچہ خروج المصلی بصنعہ ان کے نزدیک فرض ہے۔ ترمذی کی حضرت عائشہؓ کی روایت سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔جس کے الفاط یہ ہیں۔
کَان مُسَلَّمٌ فِی الصَّلٰوۃِ لہذا احناف کا اُسْکُنُوْا فِی الصَّلٰوۃِ سے رفع الیدین نہ کرنے کا استدلال باطل ہے۔ آپ نے اپنے پرچے کے آخر میں خود تسلیم کیا ہے کہ سلام نماز میں داخل ہے۔ چنانچہ آپ کی تحریر میں ہے کہ سلام کے وقت آدمی من وجہ نماز میں داخل ہوتا ہے اور منہ وجہ خارج۔ جب من وجہ داخل ہوا تو اُسْکُنُوْا فِی الصَّلٰوۃ کا حکم سلام والی رفع الیدین پر دینا صحیح ہوا۔ جب صحیح ہوا تو آپ کے بیت عنکبوت کا تانا بانا آپ کے ہاتھ سے ہی تار تار ہو گیا ۔ فَلِلّٰہِ الْحَمْدُعَلٰی ذٰلِکَ! ۔۔ قادری صاحب میں پوچھتا ہوں اگر اُسْکُنُوْا فِی الصَّلٰوۃِ سے سلام والی رفع الیدین مراد نہیں بلکہ وہ رفع الیدین مراد ہے جو من کل الوجوہ داخل صلوۃ ہو تو آپ قنوت اور عیدین والی رفع الیدین کیوں کرتے ہیں۔ کیا اسے داخل صلوۃ نہیں سمجھتے یا حضور ﷺ کی مخالفت آپ کا مذہب ہے۔ اب یا تو اُسْکُنُوْا فِی الصَّلٰوۃِ کو سلام والی رفع الیدین کے بارے میں مانیں یا پھر قنوت وعیدین والی رفع الیدین ترک کر دیں ورنہ تسلیم کریں کہ اصل منکر آپ ہیں۔ منکریں حدیث نے آپ سے ہی انکار حدیث سیکھا ہے‘ جو حدیث کو حدیث سمجھ کر حکم کو حکم سمجھ کر نہیں مانتے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ آپ لوگ جو نقلی حنفی ہیں حدیثوں کے منکر بھی ہیں اور محرف بھی ۔ حضرت جابر بن سمرہؓ والی روایت سے عدم رفع الیدین پر استدلال کرنا اول تو تحریف ہے‘ لیکن اگر کوئی جہالت سے استدلال کرتا بھی ہے کہ تواس کا وہ استدلال کئی وجوہ سے غلط ہے۔
الف: کوئی محدث اس حدیث کو متنازع فیہ رفع الیدین کے ابواب میں نہیں لایا۔
ب: تمام محدثین متفق ہیں کہ جابر بن سمرۃ ؓ والی روایت خواہ تمیم بن طرفہ کے طریق سے ہو خواہ عبیداﷲ بن القبطیعہ کے طریق سے حدیث ایک ہے اور سلام کی رفع الیدین کے بارے میں ہے۔
ج: کسی صحابی نے کبھی متنازع فیہ رفع الیدین سے کسی کو یہ حدیث پیش کرکے نہیں روکا۔ حال آنکہ متنازع فیہ رفع الیدین پر عمل قریب قریب سب صحابہؓ کا تھا۔ جیساکہ ترمذی اور جزء رفع الیدین وغیرہ سے واضح ہے۔ حتیٰ کہ خود حضرت جابر بن سمرہؓ سے اس رفع الیدین پر انکار ثابت نہیں۔ اگر یہ رفع الیدین گھوڑوں کی دموں والی ہوتی تو صحابہؓ کا انکار اس پر ضرور ثابت ہوتا۔
د: ائمہ مذاہب میں سے کسی امام نے اس حدیث سے عدم رفع الیدین پر استدلال نہیں کیا اور تو اور امام ابوحنیفہ بھی جو متنازع رفع الیدین کے عامل نہیں تھے ۔ امام اوزاعی سے مناظرہ میں آپ کی اس قولی حدیث سے استدلال نہیں کرتے۔ بلکہ عبداﷲ بن مسعودؓ والی ضعیف حدیث پیش کرتے ہیں جو فعلی ہے ۔ کیا ان کو اس حدیث کا علم نہ تھا یا یہ نکتہ جو بعد کے مقلدین نے نکالا ہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آیا۔ آخر کیا وجہ ہے جو آپ کے ائمہ ثلاثہ میں سے کوئی بھی حضرت جابر بن سمرہؓ والی روایت کو عدم رفع الیدین کی دلیل میں پیش نہیں کرتا۔
صاحب ہدایہ کو ہی لے لیں ‘ وہ اپنی تائید میں ضعیف سے ضعیف بلکہ موضوع اور بے سروپا حدیثیں نقل کر جاتے ہیں ‘لیکن اس حدیث سے وہ بھی استدلال نہیں کرتے۔ کیا ان لوگوں کا علم کم تھا یا ان میں وہ قوت استنباط نہ تھی جو آپ میں ہے۔ آخر کوئی وجہ تو ہے جو وہ اس حدیث کو عدم رفع الیدین کے لیے پیش نہیں کرتے اور آپ کرتے ہیں ۔ یا تو ان کے علم و فہم کا قصور مانیں یا پھر اپنی رسول دشمنی اور تِیرہ بختی کو تسلیم کریں۔ اس کے بعد اگر ہم یہ کہیں کہ موجودہ حنفی اصلی حنفی نہیں اور وہ اصلی دین اسلام سے بھی دور اور اپنے اماموں سے بھی دور اور (وَ مَنْ لَمْ یَجْعَلِ اﷲُ لَہ‘ نُوْرًا فَمَالَہ‘ مِنْ نُّوْرٍ)[24:النور:40]کے تحت بالکل صاف ہیں تو قادری صاحب آپ اس کھلی ہوئی حقیقت کا انکار کیوں کرتے ہیں‘ بلکہ چیں بہ جبیں کیوں ہوتے ہیں ۔ اب یا تو اصلی مسلمان ہو جائیں یا پھر تلخ حقائق کو تسلیم کریں اور ناراض نہ ہوں۔

ر: اُسْکُنُوْا فِی الصَّلٰوۃِ اس بات کا قوی قرینہ ہے کہ یہ حدیث متنازع رفع الیدین کے بارے میں نہیں کیوں کہ وہ سکون کے منافی نہیں بلکہ اس رفع الیدین کے بارے میں ہے جو سکون کے منافی ہے اور وہ سلام والی رفع الیدین ہے۔ جیساکہ خود راوی حدیث حضرت جابر بن سمرہ نے بتایا ہے۔ متنازع فیہ میں چونکہ خشوع و خضوع ہے جو نماز میں مطلوب ہے اور یہ ایک تعبدی فعل ہے جو اب تک مشروع ہے۔ اس لیے اسکنوا فی الصلوۃ کا حکم اس کے لیے نہیں ہو سکتا۔ اگر متنازع رفع الیدین تعبدی فعل نہ ہوتا بلکہ منافی سکون ہوتا تو نماز سے خارج ہو جاتا جیسا کہ سلام و کلام خارج کر دئیے گئے۔
س: حضور ﷺ کا سرکش گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دینا ہی بتا رہا ہے کہ یہ متنازع فیہ رفع الیدین کے بارے میں نہیں۔ افتتاحی رفع الیدین تو احناف کے نزدیک بھی مسلم ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہمیشہ کرتے رہے۔ پھر جس فعل کو آپ خود ہی نماز میں متعدد بار کرتے ہوں اس کے لیے ایسی گندی تشبیہ دینا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان سے بہت مستبعد ہے‘ لیکن بدقسمت مقلد اتنا کہاں سوچتا ہے۔ وہ تومطلبی اور اندھا ہوتا ہے اور اندھوں کی طرح سے لٹھ مارتا ہے خواہ وہ مخالف کی بجائے اس کے باپ کو ہی لگ جائے اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی ۔

احناف پر تعجب

مجھے تو احناف پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ کیسے حضور ﷺ کی احادیث کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ مقلد بھی بنتے ہیں اور امام کو پیچھے بھی پھینک دیتے ہیں۔ گھوڑوں کی دموں والی حدیث سے رفع الیدین نہ کرنے پر استدلال کرنا جہالت بھی ہے اور مجرمانہ جسارت بھی۔ امام نووی لکھتے ہیں:
اَلْاِسْتِدْلاَلُ بِہٖ عَلَی النَّھْیِ عَنِ الرَّفْعِ عِنْدَالرَّکُوْعِ وَ عِنْدالرَّفْعِ مِنْہُ جَہْلٌ قَبِیْحٌ ۵
یعنی اس حدیث سے رفع الیدین نہ کرنے پر استدلال کرنا زبردست جہالت ہے۔
امام بخاریؒ فرماتے ہیں:
فَلْیَحْذَرْ اَمْرَہ‘ اَنْ یَتَقَوَّلَ عَلٰی رَسُوْلِ ﷲِ مَالَمْ یَقُلْ ۶ یعنی حضور ﷺ کی حدیث کا مطلب بگاڑنے والوں کو خدا کے عذاب سے ڈرنا چاہیے ۔ وہ حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کے سر وہ بات تھوپ رہے ہیں جو انھوں نے نہیں کہی۔

ناصحانہ مشورہ

فضل صاحب و قادری صاحب!آپ لوگوں کا حدیث کے ساتھ یہ سلوک کرنا حدیث پر ظلم ہے اور حدیث پر ظلم درحقیقت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر ظلم ہے اور رسول اﷲ ﷺ پر ظلم کرنے والے کی نجات کہاں ؟
(اِنَّ الَّذِیْنَ یُوْذُوْنَ ﷲَ وَ رَسُوْلَہ‘ لَعْنَھُمُ ﷲُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّلَھُمْ عَذَابًامُّھِیْنًا ) [33:الاحزاب:57]

اس لیے آپ میری بات مان لیں اور فوراًاس نقلی حنفیت سے توبہ کر لیں ۔ بڑھاپا آ گیا ہے ‘ موت کا سگنل ہو گیا ہے۔ جونہی گاڑی سٹیشن پر آئی توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ پھر کوئی امام یا حضرت چھڑا نہیں سکے گا۔ اس لیے حدیث رسولؐ کے تابع ہو جائیں۔ حدیثوں کو توڑ مروڑ کر اپنے تابع نہ کریں ۔ یہ بہت بڑا جرم ہے۔ میری بات مان لیں ۔ اگرچہ میں چھوٹا ہوں ‘ لیکن آپ کو نجات کی بات بتا رہا ہوں۔ پھر نہ کہنا کہ کسی نے خبردار نہیں کیا۔(فَسَتَذْکُرُوْنَ مَا اَقُوْلُ لَکُمْ وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی ﷲِ )[40:المومن:44]

خاتمہ

رفع الیدین بظاہر نماز کی ایک سنت ہے ‘ لیکن درحقیقت یہ معیار ہے۔ اہل سنت کے جانچنے کا کیوں کہ جس قطعیت کے ساتھ یہ سنت رسول ؐ ثابت ہے اور کوئی سنت نہیں۔ اب جو اس یقینی سنت کا بھی منکر ہو وہ اہل سنت کیسا؟ یہ وہ سنت ہے جو صحاح ستہ اور صحاح ستہ کے علاوہ حدیث کی ہر کتاب سے ثابت ہے۔ وہ سنت ہے جس کو چاروں خلیفوں نے حضور ﷺ سے روایت کیا ہے۔ ایک یہی سنت ہے جس کو روایت کرنے والے عشرہ مبشرہ ہیں۔

۱ ( مشکوۃ 67/1 رقم 193کتاب الایمان‘ باب الاعتصام باا لکتب والسنۃ۔۔۔‘ اخرجہ ابن عبدالبر فی جامع بیان العلم وفضلہ 97/2 ۔۔ الہروی 86/1 ق من طریق قتادۃ ؓ )
۲ ( تلخیص الحبیر 220/1 ۔۔ کتاب الصلوۃ ‘ باب صفۃ الصلوۃ )
۳ (حجۃ اﷲ البالغۃ ج 2 ص (10
۴ (تنویر العینین )
۵ ( شرح مہذب نووی 403/3 )

۶ (جزء رفع الیدین للبخاری رقم (38