بسم اﷲ الرحمٰن
الرحیم
میرے بھائی اﷲ کا شکر
ہے کہ اﷲ نے ہمیں اسلام جیسی نعمت سے نوازا ہے اور پھر اسلام بھی وہ جو بالکل خالص
اور تمام آلائشوں سے پاک جسے محمد صلی اﷲعلیہ وسلم لے کر آئے تھے۔ دنیا کے کتنے
مسلمان ہیں جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کو محمدی اسلام نصیب نہیں۔ انھوں
نے اپنے اپنے اسلام بنائے ہوئے ہیں‘ ﷲ کا شکر ہے ہمارا اسلام خالص محمدی ہے جو صرف لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ مُحَمَّدُ
رَّسُوْلُ اﷲِ پر
مبنی ہے‘ جس کی تفسیر قرآن و حدیث ہے جس کی تعبیر مَا
اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ ہے۔ اس نعمت کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے ‘ بلکہ اگر ہم اس
کی خاطر جان بھی قربان کر دیں تو حق یہ ہے کہ حق ادا نہیں ہوتا۔ لیکن افسوس ہے کہ ہم نے اس
نعمت کا حق ادا نہیں کیا۔ نہ ہم نے جماعتی طور پر لوگوں کو خالص اسلام سے متعارف
کرایا ‘ نہ کوئی اپنا جماعتی کردار بنا کر لوگوں کے سامنے اسلام کا عملی نمونہ پیش
کیا حالانکہ آج دنیا کی نگاہیں اسلام کا عملی نمونہ دیکھنے کو ترستی ہیں۔
ہم تبلیغی جلسے تو بہت کرتے ہیں‘ لیکن ان کا مقصد دینی کم ہوتا ہے
‘ دنیاوی زیادہ۔ ان میں زیادہ تر زبانی جمع خرچ ہوتا ہے عملی تبلیغ کم ہوتی ہے اور
اصل تبلیغ عمل سے ہوتی ہے۔ اگر عمل پیش کیا جائے تو وہ زبانی وعظوں اور شیخی
تقریروں سے زیادہ موثر ہوتا ہے ‘ لیکن عمل آج کل کہاں اور خاص کر ہمارے مولوی
صاحبان تو عمل میں بہت پیچھے ہیں۔ ہمارے عوام میں تو پھر دین کی تڑپ ہے۔ ہمارے
مولویوں میں وہ پھڑک نہیں ۔ تبلیغ آج ہمارے مولویوں کا پیشہ بن گئی ہے۔ اس لیے وہ
مہنگائی کے ساتھ مہنگے ہوگئے ہیں بلکہ وہ توآج کل وکیل اورڈاکٹر بنے ہوئے ہیں ۔
ہماری تقریریں دنیا کمانے کا حیلہ تو ہیں انقلاب لانے کا وسیلہ نہیں۔ وہ اہل حدیث
ہی کیا ہوا ‘ وہ تبلیغیا کیا ہوا جو انقلابی نہ ہو او راس کی تقریر انقلاب آفریں
نہ ہو۔آج ہماری تقریریں اصلاح کے لیے کم ہیں ‘ واہ واہ کے لیے زیادہ ۔۔ آج ہمارے
مولوی طوطی اور بلبل تو بنتے ہیں بلال بننے کی تمنا کسی کے دل میں نہیں۔ حضرت
بلالؓ نے ماریں کھا کھا کر اسلام کی تبلیغ کی۔ ہمارا مولوی وجد میں آ کر مست ہو کر
گا گاکر تقریریں کرتا ہے۔
میرے بھائی ہم اہل حدیث ہیں۔ کیا احادیث میں تبلیغ کا یہی طریقہ ہے
جو ہم نے آج کل اپنایا ہوا ہے۔ کیا ہمارے اسلاف اسلام کی تبلیغ ہماری طرح جلسے
جلوسوں اور کانفرنسوں سے ہی کرتے تھے۔ میرے بھائی ہمارے اسلاف تو عمل کے پیکر تھے۔
اسلام کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ وہ ہماری طرح صرف زبان کے دھنی اور تقریر کے
بادشاہ نہ تھے بلکہ اپنے عمل سے بھی اسلام کی تبلیغ کرتے تھے‘ لیکن آج ہم عمل سے
عاری اور تکلفات کے دلدادہ ہیں۔ قرآن نبی ﷺ سے کہتا ہے
( قُلْ
مَا اَسْئلُکُمْ عَلَیْہِ مَنْ اَجْرٍ وَّ مَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ
)[38:ص:86]
اے نبی ! آپ کہہ دیں
کہ میں تبلیغ پر تم سے نہ کوئی اجرو معاوضہ مانگتاہوں اور نہ تکلف و تصنع کرتا
ہوں۔‘‘ لیکن آج کل ہمارے مولوی فیس بھی ڈبل مانگتے ہیں اور سوانگ بھی خوب رچاتے
ہیں۔ اﷲ ہمیں اس سے بچائے۔
میرے بھائی! جب تبلیغ
ہمارا طرہ امتیاز ہے اور اسی وجہ سے(خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ )[3:آل
عمران:110]ہمارا خطاب ہے تو ہمیں اس کام کو باحسن طریق سرانجام دینا چاہیے۔
لاکھوں روپیہ جو جماعتی سیاست اور الیکشنوں پر خرچ ہوتا ہے ہمیں تبلیغ پر کرنا
چاہیے۔ چھوٹے چھوٹے پمفلٹوں کی صورت میں ایسا لٹریچر شائع کرنا چاہیے جس میں دین
کو آسان کرکے
Scientific طریقے سے پیش کیا جائے‘ جس میں ہماری جماعت کا تعارف بھی اور اصل
اسلام کی شناخت ومعرفت بھی۔ جو عوام کو مفت اور بآسانی مل بھی سکے۔ مبلغین کی فوج
ظفر موج تیار کرنی چاہیے جو تبلیغ کے جذبے سے سرشار ہو‘ جو تبلیغ کو ذریعہ معاش نہ
سمجھے بلکہ ذریعہ نجات سمجھے۔ جو سیرت و کردار میں اسلاف کا نمونہ ہو۔ ایثار و
قربانی میں ایک مثال ہو۔ ہر ضلع میں مبلغین کا ایک مرکز ہو جو ان کی کفالت کرے ‘
تاکہ مبلغین فارغ البال ہو کر دین کی تبلیغ کریں۔ ایسے مبلغین کو شہر شہر اور قریہ
قریہ پھیلایا جائے تاکہ لوگ اصل اسلام سے متعارف ہوں اور اقامت دین کی راہ ہموار
ہو۔
جہاں تک اسلامی نظام
کا تعلق ہے ہم اس سے بالکل لا تعلق ہیں۔ہماری بلا سے ملک کا نظام اسلامی ہو یا غیر
اسلامی۔ رسول اﷲ ﷺ نے مدینے پہنچتے ہی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھ دی تھی۔ ہم نے
تیس پنتیس برس ہو گئے ‘آج تک اسلامی ریاست کا خواب تک نہیں دیکھا۔ پاکستان میں
اسلام کو قائم کرنا تو درکنا ر ہم نے اپنے گھروں میں اسلام کا نام نہیں لیا۔ہمارے
گھروں میں آج بھی وہی انگریزی تہذیب۔ وہی جاہلیت کی رسمیں‘ وہ بے دینی کا ماحول ۔
صحابہ زندگی کے ہر میدان میں اہل حدیث تھے‘ ہم صرف مسجدوں میں اہل حدیث ہیں۔ دین
میں ہم امام ابوحنفیہ ؒ کو اپنا امام نہیں بناتے بلکہ ان کی تقلید کو گمراہی بتاتے
ہیں۔سیاست میں ہم نے ملحدوں اور بے دینوں کو اپنا امام بنا رکھا ہے اور ان کی
سیاسی پارٹیوں میں شامل ہیں۔ دین میں ہم حنفی شافعی تک بننا گوارا نہیں کرتے ‘
سیاست میں لیگی‘ جمہوری‘ پیپلی ‘استقلالی اور غیر استقلالی‘ پتا نہیں کیا کیا کچھ
بن جاتے ہیں اور ذرا خیال نہیں کرتے۔
میرے بھائی ‘ دین اور سیاست کی یہ تفریق کہ دین ہمارا محمدی اور
سیاست ہماری انگریزی ۔۔ کیا یہ اسلام ہے ؟ کیا یہ کردار اس جماعت کو زیب دیتا ہے
جس کے دعوے ہیں کہ وارث رسول ؐ ہم ہیں( کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ
لِلنَّاسِ )[3:آل عمران:110] سے مراد ہم ہیں‘ ((مَا
اَنَاعَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ ))۱کے
مصداق ہم ہیں۔(( لاَ
تَزَالُ طَائفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ)) ۲ہمارے بارے میں ہے۔(( فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَاءِ الَّذِیْنَ
یُصْلِحُوْنَ مَااَفْسَدَ النَّاسُ مِنْ سُنَّتِیْ))۳ کی بشارت ہمارے لیے ہے۔قرآن کہتا ہے :( یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً )[2:البقرہ:207]
اے ایمان کا دعویٰ
کرنے والو ‘ اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔ لیکن ہم آدھے اسلام میں ہیں اور
آدھے کفر میں ۔ عبادات ہماری اسلامی ہے۔ معیشت ومعاشرت غیر اسلامی۔ سیاست ہماری
انگریزی ہے‘ تہذیب و تمدن ہمارا رواجی۔جب ہم کافرانہ نظا م کو اپناتے ہیں تو اس کے
معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہمارے نزدیک اسلام کا اپنا کوئی نظام نہیں۔ اسلام ایک ناقص
دین ہے یا اسلام کے یہ نظام ہمیں پسند نہیں۔ اس لیے ہم ان کو نہیں اپناتے‘۔
انگریزی نظاموں کو اپناتے ہیں اور یہ دونوں صورتیں کفر ہیں۔ اﷲ ہمیں ایسے کفر سے
بچائے۔
میرے بھائی آج ہمارا
کردار وہ ہو گیا ہے جو کبھی یہودیوں کا تھا۔ جس کے بارے میں اﷲ نے فرمایا ہے ( اَفَتُؤْمِنُوْنَ
بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ )[2:البقرہ:85]اے یہودیو! تمھارا یہ کیا کردار ہے کہ تم
دین کی بعض باتوں کو مانتے ہو اور بعض کو نہیں۔یاد رکھو ایسے لوگوں کے لیے دنیا
میں ذلت و رسوائی ہے اور آخرت میں عذاب۔ اے میرے بھائی ‘ کیا آج دنیا میں ذلت
ہمارا مقدر نہیں۔ دنیا کی ہر جماعت متحد و منظم ہے‘ لیکن ہم میں کوئی نظم و اتحاد
نہیں۔ آج دنیا کی ہر جماعت کی کچھ نہ کچھ آواز ہے‘ لیکن ہماری کوئی آواز نہیں۔ ہم
بالکل بے آواز ہیں ‘ ہماری یہ ذلت و رسوائی ہماری دو عملی اور منافقانہ کردار کی
وجہ سے ہے۔ اگر ہم دو رنگی چھوڑ کر صحابہ کی طرح زندگی کے ہر شعبہ میں صحیح اہل
حدیث بن جائیں تو صحابہ کی طرح عزت ہمارا مقدر ہو۔ (
وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلرَسُوْلہٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لٰکِنَّ
الْمُنَافِقِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ )[63:المنافقون:8]میرے بھائی !جب عمل اور کردار کچھ نہ ہو
تو بلند بانگ دعوے کچھ نہیں کرتے۔ یہودی بڑے دعوے کرتے تھے ‘ (
نَحْنُ اَبْنَاءُ ﷲِ وَ اَحِبَّائہ‘ )[5:المائدہ:18]ہم اﷲ کو بہت پیارے
ہیں۔ اﷲ نے ان کے کھوکھلے دعوؤں پر فرمایا (
قل یٰاَھْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْءٍ حَتّٰی تُقِیْمُ
التَّوْرَاۃَ وَالْاِنْجِیْلِ وَ مَا اُنْزِلَ مِنْ رَّبِّکُمْ )[5:المائدہ:68]اے کتاب والو!جب تک
تم اﷲ کے دین کو قائم نہ کرو۔ (دعوے تو تمھارے کجا تم تو مسلمان بھی نہیں اے میرے
بھائی !زبان سے ہم خواہ کچھ بنیں جب تک ہمارا عمل ہمیں کچھ نہیں بتاتا‘ ہم کچھ
نہیں بن سکتے۔ جب تک اسلام کو اپنے گھروں میں ‘ اپنے ملک میں بلکہ ساری دنیا میں
حاکم نہیں بناتے ‘ یا کم از کم بنانے کے لیے سرگرم عمل نہیں ہو جاتے۔ اﷲ کے ہاں
ہماری کوئی قدر ومنزلت نہیں۔اگر ہم اﷲ کے ہاں سرخرو ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اسلام
کو سربلند کرنا چاہیے۔ اس دین محمدی کو جس کے وارث ہونے کا ہمیں دعویٰ ہے تمام
ادیان باطلہ پر غالب کرنا چاہیے اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ پہلے ہم اسلام
کو اپنے گھروں میں اور پھر اپنے ملک میں نافذ کریں۔ میرے بھائی !اسلام کو قائم کیے
بغیر چارہ نہیں۔ اس کے بغیر نہ ہم مسلمان بن سکتے ہیں ‘ نہ پاکستان بچ سکتا ہے۔
اسلام کو نافذ کرنا ہمار ا دینی فریضہ بھی ہے اور پاکستان کے موجودہ حالات کا
تقاضا بھی ۔ اسلام پاکستان کی روح ہے۔ اگر اسلام پاکستان میں نافذ نہ ہوا تو
پاکستان کا بچنا محال ہے۔اور اگر خدا نخواستہ اسلام نہ آنے کی وجہ سے پاکستان ختم
ہو گیا تو اﷲ کے نزدیک سب سے بڑے مجرم ہم ہوں گے ‘کیوں کہ اصل اسلام جو دنیا میں
انقلاب لا سکتا تھا وہ ہمارے پاس تھا۔اہل حدیث ہونے کی وجہ سے وارث اور خلیفہ رسول
ؐ بھی ہم تھے۔خالص اسلام یعنی قرآن و حدیث کے دعوے دار بھی ہم تھے۔ اصل اسلام کی
پہچان بھی ہم سے تھی۔ اس لیے حق و اتحاد کی دعوت دینا اور ملک میں اسلام کو نافذ
کرنا ہمارا کام تھا۔ ہماری دعوت ایک ایسی دعوت ہے جس کو اسلامی کہا جاسکتا ہے کیوں
کہ وہ قران و حدیث کی دعوت ہے۔ جو سب کے لیے قابل قبول ہو سکتی ہے۔ جس پر تمام
مسلمان جمع ہو سکتے ہیں ۔ ہم ہی ہیں جو محمد رسول ﷲ ﷺ کی دعوت دیتے ہیں‘ باقی سب
اپنے اپنے اما موں اور فرقوں کی دعو ت دیتے ہیں۔اماموں اور فرقوں کی دعوت دیتے
ہیں۔ اماموں اور فرقوں کی دعوت اختلاف کا سبب تو بن سکتی ہے اتحاد کا موجب نہیں ہو
سکتی۔ مسلمانون کا اتحاد صر ف محمد رسول ﷲ ﷺ پر ہی ہو سکتا ہے ‘ کسی خاص امام یا
اس کی فقہ پر نہیں۔ اﷲ نے ہمیں پاکستان دیا ‘ کہ ہم یہاں اسلام کا بوٹا لگائیں
‘لیکن افسوس کہ ہم نے یہاں بجائے اسلام کے جمہوریت کی کاشت شروع کر دی‘ جس کا
نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان کی سرزمین سوشلزم اور کمیونزم کی خاردار جھاڑیوں سے اٹ
گئی ہے۔ اب یہاں اسلام کا بوٹا لگانا بہت مشکل ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم اسلام کا بیج
بو کر اسلامی پودا لگاتے اور اسلامی انقلاب لاتے ‘ ہم خود لوگوں کی طرح کافرانہ
نظام کے تحت غلامانہ زندگی گزارنے پر قناعت کر گئے ہیں۔ ہمارے قائدین بجائے اس کے
کہ اسلام کی گاڑی کا انجن بن کر مسلمانوں کی قیادت کرتے اور اسلام آگے بڑھاتے۔ ڈبے
بن کر کرسیوں کی خاطر مختلف سیاسی لامذہب جماعتوں میں شامل ہو گئے اور اسلام کو
پیچھے دھکیل دیا۔ بے دینی کو اپنا قائد بنا کر اپنا جماعتی تشخص بھی کھویا اور دین
و سیاست کی تفریق بھی تسلیم کی جو درحقیقت اسلام سے بھی غداری ہے اور محمد ﷺ سے
بھی ۔
یہ ٹھیک ہے کہ
پاکستان کے حالات بہت خراب ہیں‘ کفر کا زور ہے‘اور ہم کم زور ہیں۔ لیکن اﷲ جس کے
ساتھ ہو وہ کمزور نہیں ہوتا۔ میرے بھائی ! اہل حدیث ابن الوقت نہیں ہوتا کہ زمانے
کے پیچھے لگ جائے۔ وہ زمانہ سازی کرکے بزدلی دکھائے ۔ اہل حدیث ابوالوقت ہوتا ہے
جو زمانے کو اپنے پیچھے لگاتا ہے اور کسی کی پروا ہ نہیں کرتا۔ یہی پیغمبروں کی
سنت ہے۔ رسول ﷲ ﷺ نے جب اسلام کا علم بلند کیا تو اس وقت بھی حالات سازگار نہ تھے
کفر زوروں پر تھا اور اسلام کمزور تھا‘ لیکن آپ نے پرواہ نہ کی اور اپنی مہم کو
جاری رکھا ‘ حتی کہ اسلام کا غلبہ ہوا۔ حالات کچھ بھی ہوں ‘ نتائج کچھ بھی نکلیں
‘ہمیں اسلام کے لیے مرمٹ کوشش کرنی چاہیے۔ جب اہل حدیث کا جینا مرنا اسلام کے لیے
ہے ‘ دنیا کے لیے نہیں تو ہمیں نتائج وعواقب سے خوف کیسا ؟ ہمیں اپنا فرض ادا کرنا
چاہیے تاکہ اﷲ کا حکم پورا ہو اور اسلام کا غلبہ ہو۔
ہمیں یہ یقین کرلینا چاہیے کہ اسلام کا کام سوائے ہمارے اورکسی سے
نہ ہوگا۔ کیوں کہ آج صحیح اسلام کی معرفت ہمارے سوا کسی کو نہیں۔ کسی نے جمہوریت
کو اسلام سمجھ لیا ہے ‘ کسی نے سوشلزم کو اسلام بنا لیا ہے ۔ کوئی رسم و رواج کو
اسلام سمجھتا ہے ‘ کوئی اپنی مرضی کو اسلام کہتا ہے۔ یہ سمجھ کسی کو نہیں کہ اسلام
اپنے بنائے ہوئے مذہبوں کو نہیں کہتے۔ اسلام تو اﷲ کے دین کو کہتے ہیں‘ جو محمد ﷺ
لے کر آئے تھے ‘ ہمیں چاہیے کہ ایک طرف تو ہم لوگوں کو اصل اسلام سے متعارف
کروائیں تاکہ وہ اصلی اسلام کو پہچان کر ‘ اپنے بنائے ہوئے اسلاموں کو ترک کردیں ‘
دوسری طرف حکومت پر زور دیں کہ وہ صرف اس اسلام کو نافذ کریں جو محمد ﷺ لے کر آئے
تھے وہی چل سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام اسلامی طریقوں سے ہی نافذ ہو سکتا
ہے۔انگریزی جمہوری طریقوں سے اسلام کبھی نافذ نہیں ہو سکتا ‘ لیکن اس کام کے لیے
پہلے خود ہمیں تیار ہونا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی تقسیمیں ختم کرکے ایک امیر
کے تحت متحد و منظم ہو کر زندگی گزاریں تاکہ ہم اسلامی سیاست کی ایک مثال قائم کر
سکیں۔ سارے ملک میں ایک ہماری پالیسی ہو اور ایک ہماری آواز۔ جب ہم اہل حدیث ہیں‘
ایک ہمارا مقصد ہے ‘ اور ایک ہماری راہ تو ہم سب ایک ہو کر کام کیوں کریں۔ ہم
علیحدہ علیحدہ جماعتیں کیوں نہ بنائیں۔
جب اہل حدیث کہلا کر ہم وارث رسول بنیں ہیں‘ قرآن و حدیث کا ورثہ
ہم نے قبول کیا ہے تو رسول اﷲ ﷺ کی راہ پر چلنا اور آپ کے مشن کو پورا کرنا ہمارا
فرض ہے۔ اس فرض کو پورا کیے بغیر ہم اہل حدیث نہیں بن سکتے۔جب یہ مسلم ہے کہ دنیا
میں آپ ﷺ کا مشن صرف اسلام کو غالب کرنا تھا۔ (
ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ‘ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ
لِیُظْھِرَہ‘ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ )[9:التوبہ:33]اور اس کے لیے آپ نے زندگی بھر جہاد کیا
تو آج ہمارا مشن اسلام کو غالب کرنا کیوں نہیں۔ہم کیوں علیحدہ علیحدہ راہیں اختیار
کرتے ہیں؟ اپنے اپنے اقتدار کے لیے دھڑے بندیاں کرتے ہیں۔ ہم کیوں مختلف سیاسی
جماعتوں میں شامل ہوتے ہیں ؟ کیا مختلف سیاسی جماعتوں میں بٹ کر ہم کبھی اسلام کو
غالب کر سکتے ہیں؟
میرے بھائی !ہمیں کفر
کے نظاموں سے علیحدہ ہو کر اسلامی نظام کے تحت اقامت دین کی کوشش کرنی چاہیے جو
ہمارا مقصود ہے۔ رسول ﷲ ﷺ نے اقامت دین کے لیے تبلیغ کی اور جہاد کیا۔ آ پ نے
بادشاہوں کو تبلیغی خطوط لکھے‘بہت سے بادشاہ مسلمان ہوئے اور ان کے ملکوں میں
اسلام غالب ہوا۔ ہمیں بھی تقریر و تحریر کے ذریعے اقامت دین کی مہم کو جاری رکھنا
چاہیے۔ ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم اپنی دعوت کو ترک کرکے ‘ جمہوریت کا ساتھ
دیں۔‘ یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ کہلائیں ہم اہل حدیث اور اقتدا کریں سیاسی جماعتوں
کی۔ کل پرزے بنیں کفر کی جماعتوں کے ۔ جو کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائے وہ اہل
حدیث کہاں؟ میرے بھائی! اہل حدیث مقتدی نہیں ہوتا ‘ اہل حدیث مقتدیٰ ہوتا ہے۔ جب
ہم حنفی امام کے مقتدی نہیں بن سکتے تو ہم کسی جمہوری امام کے مقتدی کیسے ہو سکتے
ہیں ؟ جب اہل حدیث رسول ﷲ ﷺ کے وارث اور خلیفہ کو کہتے ہیں تو اہل حدیث کو لوگوں
کا امام بننا چاہیے نہ کہ مقتدی۔ اگر اہل حدیث مقتدی بن گئے تو امامت کون کرے گا‘
اگر اہل حدیث جمہوریت کا شکار ہو گئے تو اسلام کی دعوت کون دے گا؟
میرے بھائی!آج تک جو ہم کچھ نہیں کر سکے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم
نے اپنے مقام کو بلا دیا‘ ہم سست ہو گئے‘ ہم نے یاد نہیں رکھا کہ نبی کے وارث ہونے
کی وجہ سے ہم امام ہیں‘ ہم ماموم نہیں۔ ہم مقتدا ہیں‘ ہم مقتدی نہیں۔ بجائے اس کے
کہ ہم اپنے امامت کے منصب کو سنبھالتے‘ ہم لوگوں کے پیچھے لگ گئے ‘ جو نظام آیا ‘
ہم نے اس کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ پہلے انگریز تھا‘ ہم اس کے غلام بنے رہے۔ اب
انگریز کا متروکہ جمہوری نظام ہے۔ ہم اس کے تابع مہمل ہیں۔ میرے بھائی!اگر ہم کفر
کو مٹا نہ سکے ‘ تو کم از کم کفر کا ساتھ تو نہ دیں۔ اس سے علیحدہ رہیں یہ ہماری
کتنی بڑی ایمانی کمزوری ہے کہ ہم نے نہ صرف یہ کہ جمہوریت کو قبول کیا بلکہ جماعتی
طور پر ایک سیاسی پارٹی بن کر اس نظام کفر میں شریک ہوگئے اور دوسروں کی دیکھا
دیکھی اس نظام کے شیطانی فعل الیکشنوں میں حصہ لینے کے لیے تیار ہو گئے۔ میرے
بھائی!ہم نے جو اسلام چھوڑ کر کفر کی سیاست اختیار کی ‘ اور الیکشنوں میں حصہ لیا
کیا اس سے ہمارے اسلام کو کوئی فائدہ پہنچا یا آئندہ کوئی امید ہے کہ اس جماعت میں
ہم جماعتی طور پر کبھی کامیاب ہوں گے۔ جب یہ جمہوریت نظام ہی وہ ہے جس میں اکثریت
کی چلتی ہے ‘ حق و باطل کا اس میں کوئی امتیاز نہیں‘ اقلیت کو خواہ وہ حق ہی ہو ‘
کوئی پوچھتا نہیں تو حق جو ہمیشہ اقلیت میں ہوتا ہے اس نظام میں کیسے کامیاب ہو
سکتا ہے۔ اگر ہم اس نظام کے الیکشنوں میں حصہ لیں گے تو ہمارے موقف کو سخت نقصان
پہنچے گا۔ ہمارے لیڈروں کو تو شاید ایک دو کرسیاں مل جائیں ‘ لیکن ہماری اہل حدیثی
ختم ہو جائے گی۔ ہم (
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ )[3:آل عمران:110]سے نکل جائیں گے۔میرے
بھائی!اس کرسی کی سیاست نے ہمیں تباہ کر دیاہے۔ ہمارا دینی شعور اور اسلامی فکر
ختم ہو گیا ہے۔ اب ہم جو سوچتے ہیں ‘ جمہوری انداز سے ۔ پہلے ہمارا انداز فکر یہ
ہوتا تھا کہ حق حق ہے ‘ باطل باطل ہے۔ باطل خواہ اکثریت میں ہی ہو ‘ مٹنے والی چیز
ہے۔ ( اِنَّ
الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا )[17:الاسراء81]اس لیے باطل سے مرعوب ہونے کی ضرورت
نہیں۔حق خواہ اقلیت میں ہی ہو ‘ اس کا غالب آنا یقینی ہے۔ کیوں کہ حق کے ساتھ اﷲ
ہے۔ اس انداز فکر سے ہم میں جرأت ہوتی تھی ۔ باطل کو مٹانے کا جذبہ پیدا ہوتا تھا۔
اس لیے حق باطل پر غالب رہتا تھا۔ جمہوریت کو قبول کرنے کی وجہ سے اب ہمارا اکثریت
پر ایمان ہو گیا ہے ۔ اﷲ سے اعتماد اٹھ گیا ہے ‘ اس لیے اب ہم میں نہ اہل حق والی
غیرت رہی‘ نہ مجاہدوں والی جرآت ‘ بلکہ ذہنی پستی آگئی ہے اور ہم اکثریت کے نیچے
دب کر رہ گئے ہیں۔ میرے بھائی!صحابہؓ بھی اہل حدیث تھے اور ہم بھی اہل حدیث‘ لیکن
کتنا فرق ہے؟ صحابہؓ میں غیرت تھی ‘ دینی حمیت تھی‘ ہم ان صفات سے بالکل عاری ہیں۔
صحابہ کرامؓ دینی جذبے سے سرشارتھے ‘اسلام پرجان دیتے تھے۔ ہم دنیا دار ہیں کرسیوں
پر مرتے ہیں۔ صحابہؓ اعلیٰ ہمت اور اولوالعزم تھے ‘باطل سے ٹکرا جاتے تھے۔ ہم سست
اور پست ہمت ہیں۔ باطل سے دب جاتے ہیں۔ یہ سارا فرق اس وجہ سے ہے کہ صحابہ کرام
رضی اﷲ عنہم اسلام کی پیداوار تھے اور ہم جمہوریت کی پیداوار۔ میرے بھائی اب
چودہویں صدی ختم ہو رہی ہے۔ کایا پلٹ رہی ہے ‘ زمانہ کروٹ لے رہا ہے‘ اسلام ابھر
رہا ہے اور بالاخر اسلام کو ابھر کر رہنا ہے۔ اگر ہم اب بھی نہ اٹھے اور اپنے منصب
کو نہ سنبھالا تو اﷲ ہمارا نتظار نہیں کرے گا۔ اﷲ یہ منصب کسی اور کو دے کر اپنا
کام لے لے گا اور ہم کف افسوس ملتے رہ جائیں گے۔ (
وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لاَ
یَکُوْنُوْا اَمْثَالَکُمْ )[47:محمد:38]سقوط بغداد کے بعداﷲ نے اسلام کے مٹانے
والوں سے ہی اسلام کا کام لے لیا ۔ تاتاری جو اسلام کے دشمن تھے وہی اسلام کے
پاسبان بن گئے۔ اس لیے میرے بھائی!اٹھ اپنے فرض کو پورا کر۔ اپنے مقام کو پہچان۔
اہل حدیث ہونے کی وجہ سے تیرا مقام خلافت رسول ؐ ہے اور تو وارث رسول ؐ ہے۔ اپنے
عمل سے اپنے اس دعویٰ کو ثابت کر اور اہل حدیث بن کر دکھا تاکہ دنیا دیکھ لے کہ
اہل حدیث ایسے ہوتے ہیں۔ اگر تو سچا اہل حدیث ہے تو تیری زندگی کا مقصد وہی ہونا
چاہیے جو رسول اﷲ ﷺ کی رسالت کا مقصد تھا۔ یعنی اعلائے کلمۃ اﷲ (غلبہ اسلام ) اگر
تونے اسلا م کی سربلندی کے لیے سر دھڑ کی بازی نہ لگائی اور جمہوری بنا رہا تو
سمجھ لے کہ تو اہل حدیث نہیں۔ جمہوریت زادہ ہے۔ جب اﷲ اپنے نبی سے کہتا ہے کہ ( وَاِنْ
لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رسٰلَتَہ‘)[5:المائدہ:67]
اگر تو نے اسلام کا
کام نہ کیا تو اﷲ تجھے کیا کہے گا؟ اس لیے میرے بھائی اپنی زندگی کے مقصد کو جان ‘
اقامت دین کے لیے تبلیغ بھی کر اور جہاد بھی ۔ صحیح اہل حدیث بن۔ اﷲ ہم سب کو صحیح
اہل حدیث بننے کی توفیق عطا فرمائے اور کفر کے فتنوں سے بچائے۔آمین ‘ ثم آمین ۔
و ما علینا الا البلاغ
المبین
*****
۱ (مشکوۃ ‘ کتاب الایمان
‘ باب الاعتصام بالکتب والسنۃ‘ رقم 171)
۲( بخاری ‘ کتاب
الاعتصام باب قول النبیؐ لا تزال طائفۃ من امتی ص 609‘ رقم 7311: ‘مسند احمد‘
436/3 رقم 15169۔۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 478/1 رقم 270:)
۳ ( مشکوۃ
المصابیح‘ کتاب الایمان‘ باب الاعتصام بالکتب والسنۃ رقم 170۔۔ مسلم ‘ کتاب
الایمان باب بیان ان الاسلام بداء غریبا وسیعود غریبا و انہ بارز بین المسجدین‘ ص
702رقم 233/232۔۔ابن ماجۃ ‘کتٰب الفتن ‘ باب بداء الاسلام غریبا‘ ص 2716 رقم
3987-3986۔۔۔ مسند احمد 398/1 رقم 3775)