اہل حدیث کے متعلق غلط فہمیاں اور ان کا ازالہ

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

مسعو د صاحب کی خوش فہمیاں اور ان سے انتباہ!

کراچی کی جماعت المسلمین کے بانی مسعود احمد بی ۔ ایس سی صاحب ہیں۔ بیسویں صدی کا ایک نیا فتنہ ہے جس کا نشانہ اہل حدیث ہیں۔ پہلے مسعود صاحب اہل حدیث تھے  اور اپنا مذہبی کاروبار چلاتے تھے۔ جب ذرا ان کا کاروبار چل نکلا تو مزید ترقی کے لیے انھیں نئی جماعت بنانے کا شوق چرایا۔ چنانچہ سن 1385ھ میں انھوں نے جماعت المسلمین نام کی ایک نئی جماعت کی بنیاد رکھی ۔ جب دیکھا کہ اہل حدیث  میں رہ کر یہ نومولود جماعت پنپ نہیں سکتی تو جماعت اہل حدیث سے علیحدہ ہو گئے اور ہر چیز  کو اہل حدیث سے علیحدہ کرلیا‘ حتی کہ اپنی نماز‘ روزہ‘ حج ‘ زکوٰۃ وغیرہ سب کو مسلمین بنایا اور صلوۃ المسلمین ‘ زکوۃ المسلمین وغیرہ نام رکھے۔ بلکہ اب اس کوشش میں ہیں کہ اپنی ہر چیز کومسلمین بنائیں۔ ان کی توحید توحید المسلمین ہو‘ ان کی تفسیر ‘تفسیر المسلمین ہو‘ ان کا قرآن ‘ قرآن المسلمین ہو۔ ان کی حدیث حدیث المسلمین ہو‘ غرض کہ ان کی ہر چیز اہل حدیث سے علٰیحدہ اور ممتاز ہو‘ ان کے اصول بھی مسلمیں ہوں۔ ان کے فروع بھی مسلمین ہوں۔ پتا نہیں یہ اہل حدیث دشمنی ان کو کہاں تک پہنچائے گی۔

ہم نے ایک رسالہ میں جماعت المسلمین پر نظر ڈالی تھی اور قارئین کو دکھایا تھا کہ مسعود صاحب کوئی سمجھ والے آدمی نہیں‘ کیوں کہ مسلمانوں میں جماعت المسلمین نام کی جماعت بنانا کسی صحیح العقل آدمی کا کام نہیں۔ ان کا جماعت المسلمین کا یہ سارا تانا بانا بالکل بے حقیقت ہے۔ بیت عنکبوت سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ اسی لیے آج تک اس جماعت میں کوئی متوازن قسم کا معقول آدمی داخل نہیں ہوا۔ مسعود صاحب خود Eccentric ہیں اور  Eccentricqقسم کے آدمی اس میں داخل ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر شفیق صاحب کی مسعود صاحب سے جب ملاقات ہوئی تو ان کا تاثر مسعود صاحب کے بارے میں یہی تھا کہ ہلے ہوئے ہیں۔ یعنی ان کا دماغ ٹھیک نہیں اور ہے بھی یہ حقیقت۔ مسعود صاحب کے کام ہی ایسے ہیں۔ ذہنی اور فکری لحاظ سے وہ بالکل یتیم ہیں۔ قوت استدلال ان کی بہت کمزور  ہے ۔ انداز فکر ان کا بالکل سطحی  ہے‘ گہرائی  تو ان کے ہاں نام کو نہیں۔ سب سطحی معاملہ ہے۔ جب پاکستان میں پاکستانیوں کی جماعت بنانے والا عقل مند نہیں ہو سکتا تو مسلمانوں میں جماعت المسلمین بنانے والا کیسے عقل مند ہو سکتا ہے۔ ضرورت کے لیے اپنے آپ کو مسلم کہنا‘ یا کافروں کے مقابلے میں اپنی جماعت کا نام جماعت المسلمین رکھنا برا نہیں‘ لیکن مسعود صاحب کی طرح بے ضرورت مسلمانوں میں مسلمین کہلاتے پھرنا اور جماعت المسلمین بنانا یقینا کم عقلی ہے۔

زیر نظر رسالہ مسعود صاحب کے رسالہ کا جواب ہے جس میں ان کی خوش فہمیوں کا ازالہ ہے۔ ہے ۔ وہ جماعت المسلمین کے بارے میں بہت سی خوش فہمیوں میں مبتلا ہیں ‘جن سے انتباہ ضروری ہے۔ اس لیے ہم نے اس رسالے کا نام مسعود صاحب کی خوش فہمیاں اور ان کا انتباہ رکھا ہے۔ اﷲ سے دعا ہے کہ وہ اس عمل کو قبول فرمائے اور مسعود صاحب کے شر سے ہر اہل حدیث کو محفوظ رکھے۔

مسعود صاحب! کہنے کو تو آپ نے ہمارے رسالے کا جواب لکھ دیا لیکن خدا کو گواہ کرکے بتائیں کہ آپ نے جواب لکھا ہے یا اپنے نوجوانوں کی آنکھوں میں دھول ڈالی ہے۔ آپ نے جواباً  رسالہ تو لکھ دیا ‘ لیکن ہمارے کسی اعتراض کا جواب نہیں دیا۔ ہمارا آپ پر بڑا اعتراض یہ تھا کہ آپ نے اپنا غلط مذہب ثابت کرنے کے لیے قرآن میں تحریف کی ہے۔قصداً  قرآن و حدیث کا مطلب بگاڑ اہے۔بتائیے اس اعتراض کا آپ نے کیا جواب دیا۔ کیا اپنے ترجموں کو آپ نے صحیح ثابت کیا یا توبہ کرکے تجدید ایمان کی۔ مسعود صاحب یہودی بھی ایسی ہی تحریفات کیا کرتے تھے۔ آپ کے لیے شرم کا مقام ہے کہ دعویٰ  امام المسلمین بننے کا کرتے ہیں اور قرآن میں تحریف کرتے ہیں۔ ہمیں تو آپ کے مسلمینوں پر تعجب ہے کہ وہ اہل حدیثوں پر تو فتوے لگاتے ہیں کہ ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے اور آپ جیسے محرف قرآن کو اپنا امام اور امیر مانتے ہیں۔ کیا ان کو معلوم نہیں کہ آپ جگہ جگہ قرآن میں تحریف کرتے ہیں۔ ؟ کیا ایسے محرف قرآن کے پیچھے نماز جائزہے؟ مسعود  صاحب غلطی ہونا اور بات ہے ‘ انسان ہے غلطی ہو گئی ہے۔ لیکن اپنے غلط مذہب کو ثابت کرنے کے لیے قرآن میں تحریف کرنا  یہ غلطی نہیں ‘ یہ قرآن دشمنی ہے اور یہودیانہ حرکت ہے۔ اس کا علاج صرف حضرت عمر ؓ  کا درہ ہے۔مسعود صاحب!جب کوئی اتنا خائن اور بددیانت ہو کہ قرآن و حدیث میں بھی تحریف کرنے سے نہ ڈرے اس کی کسی بات کا کیا اعتبار ۔ ترس تو ان سادہ لوح مسلمینوں پر آتا ہے جو آ پ کو امیر مانتے ہیں اور اندھا دھند آپ کی تقلید کرکے اپنا دین ‘ ایمان خراب کرتے ہیں۔ مسعود صاحب! پہلے تو آپ کا یہ دعویٰ ہی غلط ہے کہ مسلم کے سوا کوئی نام جائز نہیں او ر اہل حدیث ایک فرقہ ورانہ نام ہے ۔ اس لیے یہ نام رکھنا گمراہی ہے۔ کیوں کہ  {ھُوَ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } جس کو آپ دلیل کے طورپر پیش کرتے ہیں‘ اس سے یہ تو ثابت    ہوتا ہے کہ اگر تم اﷲ کے فرمان بردار بنو گے تو اﷲ کے نزدیک تمھارا نام مسلم ہوگا۔ یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ مسلم کے سوا اور اچھا نام رکھنا بھی جائز نہیں۔ پھر جب آپ کو اپنے اس دعوے پر قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہ ملی تو آپ نے آیات میں تحریف کرنی شروع کردی۔ چنانچہ آپ نے {فَھَلْ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ }  کا  ترجمہ اپنے مطلب کا کیا تاکہ یہ آپ کا  غلط مذہب ثابت ہو۔آپ اپنے رسالہ’’ مسلم ‘‘ کے آخری صفحہ پر اس آیت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں۔ کیا آپ اپنے آپ کو صرف مسلم کہلانے کے لیے تیار ہیں ؟ حال آنکہ یہ ترجمہ بالکل غلط ہے۔ اس آیت کا نہ یہ ترجمہ ہو سکتا ہے ‘ نہ یہ مطلب۔ یہ صریح تحریف ہے جس میں اپنے بے دلیل اور من گھڑت مذہب کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرح آپ نے  { اِشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ }:3]آل عمران [64: کا ترجمہ بھی اپنے مطلب کا کیا ہے جو بالکل غلط ہے۔{ اَلاَّ تَعْلُوْا عَلَیَّ  وَاٰتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ }:27]النمل[31: کا ترجمہ بھی آپ نے اپنی غرض فاسد کے تحت بگاڑ ا ہے۔ مسعود صاحب دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہے ۔یا تو آپ اتنے جاہل ہیں کہ قرآن کو نہیں سمجھتے ‘ ترجمہ تک غلط کرتے ہیں یا پھر آپ یہودیانہ ذہن رکھتے ہیں جو قصداً اپنے مطلب کے لیے تحریف کرتے ہیں اوراسلام کو بگاڑنے کے درپے ہیں۔

مسعود صاحب!آپ نے جواباً رسالہ بھی لکھا ‘ لیکن اپنی پوزیشن پھر بھی صاف نہ کی ۔ اگر آپ کے پاس ہمارے اعتراضات کا جواب نہ تھا تو بہتر تھا کہ جواب ہی نہ لکھتے۔ نوجوان آپ کو کتنا بھی کھڑا کرتے آپ کھڑا نہ ہوتے۔ شاید ا س طرح آپ کی غلطیوں پر پردہ پڑا رہتا۔ آپ کی یوں رسوائی  نہ ہوتی - آپ کے مقلدین یہ سمجھتے کہ مسعو د صاحب ٹھوس کام کرتے ہیں مطولات لکھتے ہیں اس لیے مناظروں میں نہیں الجھتے۔ اسی لیے انھوں نے اہل حدیث کے رسالہ کا جواب نہیں دیا۔ اب جب آپ نے ہمارے رسالہ کا جواب لکھ دیا ‘ لیکن ہمارے کسی اعتراض کا جواب نہیں لکھا تو آپ کے ٹھوس کاموں کی بھی قلعی کھل گئی اور آپ کی مطولات کا بھی بھانڈا پھوٹ گیا۔ ہر ایک کو معلوم ہو گیا کہ جو قرآن میں ایسی تحریفات کرے اور ایسا کم عقل ہو وہ کیا مطولات لکھے گا‘ اور کیا ٹھوس کام کرے گا۔

مسعود صاحب! آپ پر’’ایک چور دوسرے چتر ‘‘والی مثال پوری طرح صادق آتی ہے۔آیتوں کے ترجمے تو خود غلط کیے اور الزام مجھ پر لگا دیا کہ میں نے آیتوں کے ترجمے کی غلط کیے ہیں بلکہ قرآنی آیات بھی غلط لکھی ہیں۔ حال آنکہ یہ سراسر بہتان ہے۔ میں نے کسی آیت کا ترجمہ غلط نہیںکیا‘ اولاً  تو میں نے کسی آیت کا ترجمہ کیا نہیں جو آیت بھی لکھی ہے استشہادا لکھی ہے‘ لیکن اگر ترجمہ و مطلب بیان کیا بھی ہے تو ماشاء اﷲ ٹھیک بیان کیا۔  رَبِّ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا  کے بارے میں میں نے کہیں نہیں لکھا کہ یہ قرآنی آیت ہے۔ اگر کہیں لکھا ہوتو آپ دکھا دیں اور اگر نہ دکھا سکیں اور آپ کبھی نہیں دکھا سکتے تو تسلیم کریں کہ آپ نے جھوٹا الزام لگایا ہے۔ مسعود صاحب !میں نے تو صرف یہ لکھا ہے کہ  تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا  یوسف علیہ السلام کی دعا ہے۔ آپ ہی بتائیں کیا یہ یوسف علیہ السلام کی دعا نہیں ۔ اگر یہ ان کی دعا ہے اور یقینا ان کی دعا ہے جو قرآن سے ثابت ہے‘ تو میںنے کیا غلطی کی۔ مسعود صاحب میں آپ کو چیلنج کرتا ہوں اگر آپ سچے ہیں اور آپ میں جرأت ایمانی ہے تو اس سلسلے میں ثالث مقرر کر لیں اور ان سے فیصلہ کروا لیںآپ کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوجائے گا۔ مسعود صاحب گھر بیٹھ کر  جماعت المسلمین بنا کر امام المسلمین بن جانا آسان ہے ‘ اہل حدیث سے ٹکر لینا مشکل ہے۔حق سے کوئی کیا ٹکرا سکتا ہے ؟ اہل حدیث سے ٹکر لے کر آپ کتنے رسوا ہوئے۔ 1385ھ کی جماعت المسلمین Made in Karachi سے آپ کو دست بردار ہونا پڑا۔ آیتوں میں تحریف کے مجرم آپ بنے۔ اگر آپ سمجھیں ‘ آپ کے پلے کیا رہ گیا۔ اور یہ سب اہل حدیث دشمنی کی سزا ہے۔ مسعود صاحب آپ نے ہمارے جواب میں رسالہ لکھا ‘ لیکن آپ کی بدحواسی کا یہ عالم ہے کہ آپ صفحہ 12پر غلط فہمی کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں :’’محقق صاحب لکھتے ہیں کوئی اچھا لقب رکھنا بھی گمراہی ہے۔ ‘‘

مسعود صاحب ! آپ بتائیں کہ میں نے کہاں لکھا ہے کہ کوئی اچھا لقب رکھنا بھی گمراہی ہے۔ یہ مذہب آپ کا ہے یا ہمارا ؟یہ مذہب آپ کا ہے اور لگا میرے سر رہے ہیں۔ مسعود صاحب !آپ کو ہوش ہی نہیں کہ لکھنا  کیا ہے اور لکھ کیا رہے ہیں ۔ آپ کی بے سمجھی کا تو یہ حال  ہے پہلے جہالت سے 1385ھ میںجماعت المسلمین نام کی ایک جماعت بنا لی ‘ جب اعتراض ہوا  کہ  بیسویں صدی کی یہ جماعت المسلمین کیسی تو آپ کو ہوش آیا کہ بیسویں صدی میں جماعت المسلمین کی بنیاد رکھنا ہے تو سچ مچ بے وقوفی۔ فورا اعلان کر دیا کہ اب ہم اﷲ کی بنیاد رکھی ہوئی جماعت المسلمین میں شامل ہوتے ہیں اور 1385ھ میں بنیاد رکھی ہوئی جماعت المسلمین کو ختم کرتے ہیں ۔ کوئی پوچھے مسعود صاحب! جب آپ نے 1385ھ میںجماعت المسلمین کی بنیاد رکھی تھی تو کیا اس وقت آپ بچے تھے؟اس وقت آپ کو معلوم نہیں تھا کہ جماعت المسلمین بنائی نہیں جاتی۔ جماعت المسلمین تو عام مسلمانوں کو ہی کہتے ہیں جس میں سب طرح کے مسلمان شامل ہوتے ہیں۔ جب لوگ مسلمان بنتے جاتے ہیں تو جماعت المسلمین خود بخود بن جاتی ہے۔ کیا اس وقت آپ کی سمجھ میں نہ آیا کہ میں اپنی علٰیحدہ جماعت المسلمین نہ بناؤں ‘ اﷲ والی بنی بنائی جماعت المسلمین میں شامل ہوجاؤں۔ مسعود صاحب پھر آپ کی مزید جہالت یہ کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ 1395ھ میں اﷲ کی بنیاد ڈالی ہوئی جماعت المسلمین میں شامل ہو گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 1395ھ میں یا اس سے پہلے یہ اﷲ کی بنیاد ڈالی ہوئی جماعت المسین موجود تھی۔ جس میں آپ شامل ہو گئے۔ اگر موجود نہ تھی اور آپ کو خود بنیاد رکھنا پڑی تو پھر آپ کا یہ کہنا جھوٹ ہو گیا کہ آپ 1395ھ میں اﷲ والی جماعت المسلمین میں شامل ہو گئے۔ جب 1395ھ میں وہ موجود ہی نہ تھی تو آپ شامل کس میں ہو گئے۔ آدمی جس جماعت میں شامل ہو اس کا پہلے سے موجود ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ کہیں کہ اﷲ کی بنیاد ڈالی ہوئی جماعت المسلمین 1395ھ سے پہلے بھی موجود تھی تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کہاں تھی ؟ کیا صرف کراچی میں موجود تھی یا کراچی سے باہر لاہور اور اسلام آباد میں بھی تھی۔ اس کا مرکز کہاں تھا اور کون اس کا امیر تھا۔ اور اب آپ جو امیر ہیں تو کس جماعت کے امیر ہیں؟ اپنی بنیاد رکھی ہوئی جماعت  کے امیر ہیں یا اﷲ کی بنیاد ڈالی ہوئی جماعت المسلمین کے؟  اگر آپ اپنی بنائی ہوئی جماعت المسلمین کے امیر ہیں تو پھر آپ یہ جھوٹ کیوں بولتے ہیں کہ 1395ھ میں اﷲ والی جماعت المسلمین میں شامل ہو گئے۔ جب وہی 1385ھ والی جماعت ‘ وہی اس کا امیر  تو آپ صرف لوگوں کو دھوکا دینے اور اعتراض سے بچنے کے لیے اﷲ والی جماعت المسلمین کا نام لیتے ہیں‘ ورنہ یہ فراڈ تو وہی 1385ھ والا ہے۔ وہی جماعت ہے اور وہی اس کا امیر ہے۔ اگر آپ کہیں کہ میں جماعت المسلمینMade in 1385 H.کا بنایا ہوا امیر نہیں تو میں ساری اﷲ والی جماعت المسلمین کا امیر ہوں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اﷲ والی جماعت المسلمین کا امیر آپ کو بنایا کس نے ہے ؟ پاکستان کی اﷲ والی جماعت المسلمین کا امیر آپ جیسا محکوم بن  نہیں سکتا‘ جو کچھ کر ہی نہ سکے۔ نہ احکام جاری کر سکے نہ حدود قائم کر سکے ۔ وہ امیر کیسا ؟ مسلمانوں کی 14سو سال کی تاریخ میں کیا آپ جیسا بھی کبھی جماعت المسلمین کا امیر ہوا ہے؟ اﷲ والی جماعت المسلمین کا امیر تو کوئی حاکم ہوتا ہے جو اقامت دین کا کام کرتاہے اور آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ مسعود صاحب !کیا ایسا جاہل اور بدعتی جو 1385ھ  میںجماعت المسلمین کی بنیاد رکھے اور اپنے غلط مذہب کو ثابت کرنے کے لیے قرآن و حدیث میں تحریف کرے اﷲ والی جماعت المسلمین  کا امیر بن سکتا ہے؟ 

مسعو د صاحب!فراڈ نہ کریں ۔سیدھی اور صاف صاف بات کہیں  کہ آپ کی جماعت المسلمین Made in Karachi وہی جماعت المسلمین ہے جس کی بنیاد آپ نے1385ھ میں رکھی۔  یہ ایک گمراہ فرقہ ہے اور گمراہ فرقے کی ہر تعریف اس پر صادق آتی ہے۔ آپ کی جماعت کے گمراہ فرقہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ حال ہی میں فتنوں کے زمانہ میں بنی۔ اس نام کی پہلے کوئی جماعت نہ تھی ۔اب یہ جماعت اہل حدیث کو گمراہ کہتی ہے حال آنکہ اہل حق کو وہی گمراہ کہتا ہے جو خود گمرا ہ ہوتا ہے۔ اس جماعت کے بانی اور مؤسس آپ ہیں۔اس جماعت کا تعارف آپ کے تعارف کے ساتھ ہے۔ جو بھی کہے گا یہی کہے گا ‘ مسعود بی ۔ ایس سی کی جماعت المسلمین۔ آپ کی زندگی کے ساتھ اس کی زندگی ہے اور آپ کی موت کے ساتھ اس کی موت۔ آپ کے حوالے کے بغیر اس جماعت کا حسب نسب جانا ہی نہیں جاتا۔ دنیا کا کوئی مسلمان جو آپ کی جماعت المسلمین  سے پہلے سے متعارف نہ ہو ‘ اگر کہیں یہ پڑھے یا سنے کہ کراچی میںجماعت المسلمین کا اجتماع ہوگا تو جب تک اسے بتایانہ جائے وہ جان ہی نہیں سکتا کہ یہ کس جماعت  کا جلسہ ہے اور یہ جماعت المسلمین کون سی جماعت ہے۔ کیا اس کی تعریف ہے اور کیا اس کا حدودواربعہ ہے۔آپ کی جماعت کا نام سن کر خواہ وہ حدیث کا کتنا بڑا عالم کیوں نہ ہو اس کا ذہن کبھی اس جماعت المسلمین کی طرف نہیں جائے گا۔ جس کا ذکر بخاری و مسلم میں ہے‘ جس کا حوالہ دکھا کر آپ لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں کہ میری جماعت وہ جماعت ہے جس کا ذکر بخاری و مسلم میں ہے۔اس اجنبی کو یہ بتانا ہی پڑے گا کہ یہ ایک نئی جماعت ہے جس کا ذکر بخاری و مسلم میں ہے۔ جس کی بنیاد ایک یتیم الاسلام بی۔ ایس سی پاس مسعود نامی شخص نے ملازمت سے ریٹائر ہو کر سمندر کے کنارے (علی شفاء جرف ھار ) بیٹھ کر رکھی ہے‘ جو  اب مسعو د بی۔ایس سی کی جماعت المسلمین کے نام سے موسوم ہے۔ 

--1مسعود صاحب ! صفحہ نمبر3پر آپ نے میرے بارے میں لکھا ہے کہ رسالہ نگار نے اپنے نام کو اس لیے پردہ اخفا میں رکھا ہے کہ شہرت کو بھٹہ نہ لگے۔ میںکہتا ہوں مسعود صاحب رسالہ نگار کی پہلے کون سی شہرت ہے کہ اس کو بھٹہ لگے گا۔ شہرت تو آپ کی ہے جو امیر المومنین اور امام المسلمین بنے ہوئے  ہیں۔ کبھی جماعت المسلمین کی بنیاد رکھتے ہیں اور کبھی ختم کرتے ہیں۔ جب آیات و احادیث کا مطلب بگاڑ کر قرآن میں تحریف کرکے آپ کے نام کو بھٹہ نہ لگا۔؟ آپ اب بھی امیر اور امام بنے ہوئے ہیں تو رسالہ نگا ر کے نا م کو کیا بھٹہ لگے گا۔ اس نے کون سا جرم کیا ہے  اور پھر رسالہ نگار بے چارہ نہ امیر المومنین ‘ نہ امام المسلمین‘ نہ مفتی ‘ نہ عالم ‘ نہ مؤرخ ‘ نہ مفسر۔ اس نے کبھی مطول لکھی نہ مختصر ۔ معمولی قابلیت  کا ایک غیر معروف آدمی۔ لیکن ہاں اہل حدیث ضرور پکا اور ماشاء اﷲ پکا بھی ایسا کہ اگر مسلمینوں کا امام اور خلیفہ بھی ٹکرائے تو اﷲ کے فضل سے منہ کی کھائے۔ { ذٰلِکَ فَضْلُ اﷲِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ } :62]الجمعۃ[4:مسعود صاحب! آپ کہتے ہیں کہ اس رسالے سے رسالہ نگار کی شہرت کو بھٹہ لگے گا ‘ میں کہتا ہوں آپ دیکھتے رہیے یہ رسالے جو آپ کے فتنے کے سدباب کے لیے لکھے جا رہے ہیں ہماری شہرت کو بھٹہ لگاتے ہیں یا چار چاند۔

--2مسعود صاحب!آپ صفحہ 3پر لکھتے ہیں ‘ بعض نوجوانوں نے مجبور کیا ‘ تو ہمیں جواب کے لیے قلم اٹھانا پڑا۔ میں کہتا ہوںمسعود صاحب آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں‘ آپ کی نیت جواب لکھنے کی نہ تھی‘ نہ آپ میں جواب لکھنے کی سکت تھی ‘ ہمیں خوب معلوم ہے کہ آپ نے کس مجبوری میں جواب لکھا ہے۔ ہمارے رسالے سے آپ کی کمر ٹوٹ چکی تھی ‘ یہ تو آپ کے گمراہ  کردہ نوجوانوں کا جو ان ڈنڈا تھا جس نے آپ کو کھڑا کر دیا ورنہ آپ کہاں کھڑے ہوتے۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ نوجوان کب تک آپ کو ڈنڈے سے کھڑا رکھتے ہیں؟

--3 آپ صفحہ3پر لکھتے ہیں‘ ہم مناظرے میں الجھنا نہیں چاہتے ‘ میں کہتا ہوں مسعود صاحب آپ ایسے صوفی کب سے بن گئے‘ حنفیوں پر اور بے چارے ایڈیٹرالاعتصام پر تو آپ بغیر کاٹھی ڈالے چڑھ جاتے تھے ‘ بہاول پور کے ڈاکٹر شفیق سے تو آپ کہتے تھے کہ آپ دیکھتے رہیے بہاول پور والے ایک دو تحریروں میں گھٹنے ٹیک دیں گے۔ اب آپ کہتے ہیں ہم مناظرے میں الجھنا نہیں چاہتے۔ مسعود صاحب ابھی تو ابتدا ہے انتہا تو آپ نے ابھی دیکھی نہیں۔ ابھی تو تحریر ی بات چیت ہے ‘ تقریری تو ابھی ہونی ہے۔ اس کا فیصلہ تو کراچی میں آپ کے گھر پر ہی ہوگا۔ پھر آپ کو پتا لگے گا کہ شکست کا منہ کس کو دیکھنا پڑتا ہے  اور کس کی شہرت کو بھٹہ لگتا ہے اور کس کی شہرت کو چار چاند۔ مسعود صاحب! آپ صفحہ 4پر لکھتے ہیں جماعت المسلمین کے محاذ پر اہل حدیث کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا‘ میں کہتا ہوں یہ فیصلہ کس نے دیا۔؟ اگر یہ  آپ کا اپنا فیصلہ ہے تو عقل کے ناخن لیں‘ کسی فریق کو خود ہی فیصلہ دینے کا کیا حق ؟ اور اگر کسی اور نے یہ فیصلہ دیا ہے تو اس کا نام تو لیں تاکہ ہم بھی دیکھ لیں کہ یہ فیصلہ صادر فرمانے والے جج صاحب کون ہیں ؟

آپ صفحہ 4 پر لکھتے ہیں اہل حدیث اپنے آپ کو فرقہ واریت کی چھاپ سے نہ بچا سکے۔ میں کہتا ہوں اہل حدیث کو فرقہ واریت کی چھاپ سے بچانے کی کیا ضرورت ؟ مطلقاً فرقہ ہونا کوئی عیب یا برائی نہیں ۔ اگر ہے تو آپ اسے ثابت کریں۔ قرآن مجید میں ہے {فَلَوْلاَ نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَائِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ }:9]التوبۃ[122: اگر مطلقا فرقہ ہونا کوئی عیب ہوتا تو اﷲ تعالیٰ اس آیت میں فرقہ کے لفظ کو استعمال نہ کرتا۔فرقہ وہ برا ہے جو حق کا مخالف ہو اور اصل سے  کٹ جائے ۔ جو اصل پر ہو اور باطل کا مقابلہ کرے اور باطل کے مقابلے میں صرف لغوی طور پر جو فرقہ ہو وہ برا نہیں۔ قرآن مجید میں ہے:{ وَ لٰکِنِ اخْتَلَفُوْا  فَمِنْھُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَ مِنْھُمْ مَّنْ کَفَرَ } :2]البقرۃ [253:یعنی اختلاف کرنے والوں  میں بعض مومن تھے اور بعض کافر۔ 

ظاہر ہے کہ وہ بعض مومن کافروں کے مقابلہ میں ایک فرقہ تھے۔ اہل حدیث کو فرقہ واریت کی چھاپ سے بچانے کی اس لیے بھی ضرورت نہیں کہ جو گروہ نجات پائے گا وہ بھی تہتر میں سے ایک ہوگا۔ کیوں کہ رسول اﷲ ﷺ نے اپنی امت کے تہتر فرقے بتائے اور فرمایا کہ سوائے ایک کے سب دوزخ میں جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ جو ایک جنت میں جائے گا وہ مسلمانوں میں سے ہی ایک فرقہ ہوگا۔ اس لیے مطلق فرقہ ہونا کوئی بری بات نہیں۔ بلکہ ناجی ہونے کے لیے فرقہ ہونا ضروری ہے۔ مسعود صاحب! آپ کو اپنی خیر منانا چاہیے جو اپنے آپ کو مسلمانوں کا فرقہ نہیں مانتے بلکہ جماعت المسلمین بنتے ہیں‘ حال آنکہ ناجی گروہ جماعت المسلمین نہ ہوگا‘ بلکہ جَمَاعَۃٌ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ ہوگا۔ یعنی مسلمانوں میں سے ایک فرقہ ہوگا جو آپ بنتے نہیں ۔ اس لیے ناجی گروہ کے لیے جو ہمیشہ پایا جائے گا ‘ حدیثوں میں جماعت المسلمین کا لفظ نہیں آتا بلکہ جَمَاعَۃٌ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ یا  عِصَابَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ  ‘ یا طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ کا لفظ آتا ہے جو اہل حدیث پر ہی صادق آتا ہے جماعت المسلمین پر صادق نہیں آ سکتا۔ کیوں کہ جماعت المسلمین اور جَمَاعَۃٌ مِّنَ الْمُسْلِمِیْن میں فرق واضح ہے۔ اہل حدیث اپنے آپ کو فرقہ مانتے ہیں اس لیے وہجَمَاعَۃٌ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنہیں۔ آپ اپنے آپ کو فرقہ نہیں مانتے اس لیے آپ جَمَاعَۃٌ مِّنَ الْمُسْلِمِیْن نہیں ہو سکتے۔ مسعود صاحب! چوں کہ ناجی ہونے کے لییجَمَاعَۃٌ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنیعنی فرقہ ہونا ضروری ہے۔ اس لیے اہل حدیث کو فرقہ ہونے سے کوئی عار نہیں بلکہ اہل حدیث کا اپنے اصل پرہونا اور اپنے آپ کو مسلمانوں کا ایک فرقہ شمار کرنا ‘ ان کے ناجی ہونے کی دلیل ہے اور آپ کا جماعت المسلمین بننا اور فرقہ ہونے سے انکار کرنا آپ کی جہالت اور گمراہی کی دلیل ہے۔ چوں کہ اہل حدیث جَمَاعَۃٌ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ ہیں‘ جماعت المسلمین  نہیں ‘ اس لیے امام ابن تیمیہ ؒ نے ان کے بارے میںفرمایا ہے: فَھُمْ فِیْ اَھْلِ الْاِسْلاَمِ کَاَھْلِ الْاِسْلاَمِ فِیْ اَھْلِ الْمِلَلْ یعنی اہل حدیث مسلمان فرقوںمیں ایسے ہی ہیں جیسے اہل ادیان میں اہل الاسلام۔ فَالْحَمْدُ ﷲِ عَلٰی ذٰلِکَ !. آپ صفحہ 4 پر لکھتے ہیں : ’’ اہل حدیث اپنے فرقہ وارانہ نام کا ثبوت قرآن و حدیث سے نہیں دے سکتے۔‘‘ میں کہتا ہوں یہ کہاں لکھا ہے کہ نام وہی صحیح ہے جس کا ثبوت قرآن و حدیث میں ہو اور جو نام قرآن وحدیث میں نہ ہو وہ رکھنا جائز نہیں۔ مسعود صاحب!اگر آپ ایک دلیل ایسی دکھا دیں‘ جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ جو نام قرآن و حدیث میں نہ ہو وہ رکھنا منع ہے تو آپ ہم سے فی دلیل ایک ہزار روپیہ انعام لیں اور اگر نہ دکھا سکیں اور آپ کبھی نہیں دکھا سکتے تو نیا دین بنانے سے ڈریں‘ آپ کا  بہت برا حال ہوگا۔ آپ صفحہ4 پر لکھتے ہیں : ’’ قرآن و حدیث میں فرقوں کی مذمت آئی ہے‘ ‘ میں کہتا ہوں آپ جاہل ہیں ‘ آپ کو علم نہیں۔ قرآن و حدیث میں مطلق فرقوں کی مذمت نہیں‘ ان فرقوں کی مذمت ہے جو حق کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کی زد میں آپ آتے ہیں۔ اﷲ کے فضل سے ہم نہیں آتے۔ آپ کا فرقہ  گمراہ فرقہ ہے جو حق کا مخالف ہے اور اب بنا ہے۔ ہمارا فرقہ وہ فرقہ نہیں ہے۔ آپ صفحہ 5 پر لکھتے ہیں :’’ محقق  صاحب نے صحیح  بخاری  کو دیکھنے کی تکلیف گوارا نہیں کی۔ میں کہتا ہوں ہم نے بخاری شریف ماشاء اﷲ خوب دیکھی اور خوب سمجھی ہے۔ لیکن آپ نے صرف دیکھی ہے سمجھی بالکل نہیں۔ اگر سمجھی ہوتی تو صرف جماعت المسلمین کے لفظ کو دیکھ کر جماعت المسلمین کے نام کی جماعت نہ بناتے۔ آپ کا یہ کہنا کہ آپ کی جماعت کا نام بخاری مسلم میں ہے ‘ دلیل ہے اس بات کی کہ آپ نے بخار ی و مسلم صرف دیکھی ‘ سمجھی نہیں۔ بلکہ آپ کی حماقت سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ میں احادیث کو سمجھنے کی صلاحیت  ہی نہیں۔

اس کے بعد مسعود صاحب حدیث(( لاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ )) پر لمبی چوڑی بحث کرتے ہیں۔ وہ ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ اہل حدیث ‘  حدیث  (( لاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ ))  کا مصداق نہیں ‘ میں کہتا ہوں اس حدیث کا مصداق سوائے اہل حدیث کے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔

دیوبندی‘ بریلوی اور شیعہ وغیرہ تو اس حدیث کا مصداق نہیں ہو سکتے۔ یہ تو مسعود صاحب آپ کو بھی تسلیم ہے ‘ آپ کی جماعت المسلمین بھی اس حدیث کا مصداق نہیں ہو سکتی۔ کیوں کہ جماعت المسلمین کوئی فرقہ نہیں۔ حدیث کے الفاظ ((طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ )) ۔۔۔ (( عِصَابَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ )) ۔۔۔ (( عِصَابَۃٌ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ )) کسی فرقے پر ہی صادق آ سکتے ہیں۔ جماعت المسلمین پر صادق نہیں آسکتے۔ اس کے علاوہ آج تک کوئی محدث یا عالم اور امام ایسا نہیں گزرا جس نے یہ کہا ہوکہ جماعت المسلمین اس حدیث کا مصداق ہے اور پھر خاص کر وہ جماعت المسلمین جو بیسویں صدی میں بنی ہو۔

مسعود صاحب!اگرآپ ایک حوالہ بھی ایسا دکھا دیں جس سے یہ ثابت ہو کہ آپ کی جماعت المسلمین جیسی جماعت  (( لاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ )) کا مصداق ہو سکتی ہے تو آپ ہم سے منہ مانگا انعام لیں ۔ برعکس اس کے ہم ثابت کرتے ہیں کہ بڑے بڑے محدثین اور امام اہل حدیث کو  (( لاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ )) کا مصداق ٹھہراتے ہیں۔ چنانچہ ان میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں:یزید بن ہارون‘ عبداﷲ بن مبارک‘ امام احمد بن حنبل‘ احمد بن سنان‘ علی بن مدینی‘ امام بخاری۔

صفحہ 8 پر آپ نے لکھا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ جو جماعت حدیث (( لاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ )) کا مصداق ہے وہ تو ہمیشہ جنگ کرتی رہے گی اور اپنے دشمنوںپر قاہر اور غالب رہے گی‘ اہل حدیث جماعت میں یہ صفات کہاں پائی جاتی ہیں کہ وہ اس حدیث کا مصداق بن سکے۔ میں کہتا ہوں جو صفات حدیث میں بیان کی گئی ہیں‘ وہ اہل حدیث میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ پہلی صفت یہ ہے کہ وہ جماعت حق پر ہوگی۔ چنانچہ اہل حدیث حق پر 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 بخاری‘ کتاب الاعتصام ‘ باب قول النبیؐ لا تزال طائفۃ من امتی ص 609 رقم 7311  ملاحظہ ہو ’’شرف اصحاب الحدیث‘‘

ہیں کیوں کہ ان کا مذہب قرآن و حدیث ہے اور قرآن و حدیث کے حق ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ دوسری صفت یہ ہے کہ وہ حق کی خاطر لوگوں سے لڑتی رہے گی۔ یہ صفت بھی اہل حدیث میںمکمل طورپر پائی جاتی ہے۔ جہاں کوئی بھی زندہ دل اہل حدیث ہے اس کو ہر ایک سے لڑنا پڑتا ہے۔ملحدوں اور بے دینوں سے ‘ ایک طرف دیوبندیوں‘ بریلویوں  ‘شیعوں اور مسعودی مسلمینیوں سے  دوسری طرف۔ اسی لیے لوگ اہل حدیث کو لڑا کے کہتے ہیں۔ تیسری صفت یہ ہے کہ وہ جماعت منصورہ ہوگی۔ وہ اﷲ کی تائیدسے قاہر و غالب رہے گی ‘ یہ صفت بھی اہل حدیث میں بڑی اچھی طرح سے پائی جاتی ہے۔ اﷲ اہل حدیث کی اتنی مدد کرتا ہے کہ ایک ایک اہل حدیث نے شرک و بدعت کے مرکز وں میںجا کر حق کے جھنڈے گاڑھ دیے۔اہل حدیث جماعتیں اور اہل حدیث مسجدیں بنا دیں۔ بہاول پور میں کوئی بھی اہل حدیث نہیں تھا۔ اﷲ نے اتنی مدد کی کہ آج شہر بہاول پور میں ہی آٹھ مسجدیں بن گئی ہیں اور مضافات میں اس کے علاوہ۔ بہاول پور ڈویژن میں اہل حدیث کا اچھا خاصا چرچا ہو گیا ہے۔ مسعود صاحب!اس سے زیادہ تائید اور کیا ہوگی کہ میرے جیسے کم مایہ آدمی نے جس کو مضمون  بنانا بھی اچھی طرح نہیں آتا ‘ آپ جیسے مؤرخ اور مفسر کا ناطقہ بند کر دیا ہے۔چوتھی صفت اس جماعت کی یہ ہے کہ وہ ہرزمانے میں پائی جائے گی۔اہل حدیث اس وقت سے ہیں جب سے قرآن و حدیث ہے اور اس وقت تک رہیں گے جب تک قرآن و حدیث رہیں گے۔

صفحہ 10پر لکھتے ہیں:

اگر اہل حدیث اس حدیث کا مصداق ہیں  تو  بتائیں اس زمانے میں اہل حدیث کس مقام پر جنگ کر رہے ہیں؟ یا آج سے دس بیس سال پہلے یہ جماعت کس مقام پر جنگ کر رہی تھی  اور وہ کون سے دشمن تھے‘ جن پر وہ قاہر و غالب تھے۔

میںکہتا ہوں ‘ مسعود صاحب!آپ یہ بتائیں کہ وہ کون سا مقام ہے کہ جہاں اصلی اہل حدیث ہوں اور وہاں ان سے جنگ نہ ہوتی ہو۔ زندہ دل اہل حدیث جہاں بھی ہوگا وہ اہل باطل سے برسرپیکارہی ہوگا۔ آپ پاکستان کے سیاسی اور جمہوری اہل حدیثوں کو نہ دیکھیں وہ صرف اپنے نفس کے بندے ہیں جو آپس میں صرف اپنے اقتدار کے لیے لڑ  رہے ہیں۔ وہ تو حقیقت میںاہل حدیث ہی نہیں۔ آپ ان کو دیکھیے جواصل اہل حدیث ہیں اور جو اس حدیث کا اصل مصداق ہیں۔ مسعود صاحب!آپ کو پتا نہیں کہ آج کل کے بگڑے ہوئے مسلمان اہل حدیث کے کتنے دشمن ہیں اور اہل حدیثوں کو ان سے کس قدر مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ مسعود صاحب !یہ کافروں سے جنگ کا زمانہ نہیں‘ کافروں سے جنگ اس وقت ہوتی ہے جب  مسلمان منظم ہوتے ہیں۔اصلی جماعت المسلمین ہوتی ہے ‘ ایک خلیفہ ہوتا ہے جس کے تحت مسلمان جہاد کرتے ہیں۔ یہ دور انتہائی زوال کا دور ہے۔اب نہ کوئی خلیفہ‘ نہ کوئی جماعت المسلمین ۔ لہٰذا کافروں سے جہاد کیسا ؟ یہ دور تو آپ جیسی نقلی جماعت المسلمین کا ہے جس میں مسلمان آپس میں ہی لڑتے رہتے ہیں۔

مسعود صاحب! سمجھ تو آپ کو ہے نہیں۔ آپ کو دھوکا لگتا ہے۔ یقاتلون۔۔ اور ظاھرون علی الناس کے الفاظ سے آپ بچوں کی طرح یہ سمجھتے ہیں کہ جنگ ہمیشہ تیر و تلوار ‘ توپ و تفنگ سے ہی ہوتی ہے اور فتح ہمیشہ ملکوں پر قبضہ کرنے سے ہی ہوتی ہے۔ جنگ کبھی گرم ہوتی ہے اور کبھی سرد۔ جنگ کبھی اپنے سے ہوتی‘ کبھی غیروں سے۔ جنگ کبھی غیر ملکیوں سے ہوتی ہے اور کبھی اپنے ملک والوں سے جنگ کبھی کافروں سے ہوتی ہے اور کبھی مسلمان منافقوں سے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو کافروں اور منافقوں سے جہاد کا حکم دیا۔

{یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ  }:66]التحریم[9: کیا نبی صلی اﷲ علیہ وسلم  نے کافروں اور منافقوں سے ایک ہی طریقے سے جہاد کیا ؟ظاہر ہے کہ کافروں سے آپ کے جہاد کا طریقہ اورتھا اور منافقوں سے اور۔  اسی طرح آج اہل حدیث کو بھی مسلمان منافقوں سے واسطہ ہے‘ ان سے جنگ کا طریقہ وہ نہیں جو کافروں سے ہوتا ہے۔ (( لاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ )) میں جس طائفہ کا ذکر ہے  اس کے مختلف ادوار ہیں‘ ہر دور میں اس کے جہاد اور قتال کا طریقہ مختلف رہا ہے۔ جب اس کو کافروں سے جہاد کرنا پڑتا تھا  تو اس وقت اس کا مقاتلہ اور طرح کاتھا‘ اب جب کہ اس کو مسلمان منافقوں سے لڑنا پڑتا ہے اس کا مقاتلہ اور طرح کا ہے۔ اس حدیث میں رسول اﷲ ﷺ نے بتایا ہے ‘ میری امت خواہ کتنی ہی بگڑ جائے ‘ اپنا نظام خلافت بھی کھو بیٹھے‘ ان میں بڑی بڑی گمراہیاں آ جائیں‘ وہ فرقے فرقے ہو جائیں۔ان میں ایک جماعت خواہ  صاحب حکومت و اقتدار نہ ہو‘ ان میں خلافت کا نظم بھی نہ ہو‘ وہ خواہ کہیں کہیں منتشر طورپر ہی رہتے ہوں۔ جیسا کہ آج کل اہل حدیث کا حال ہے۔ وہ پھر بھی حق کی خاطر لڑتے جھگڑتے رہیں گے اور اﷲ ان کی اس حالت میں بھی مدد کرتا رہے گا۔ مسعود صاحب !ا س طائفہ کے بارے میں رسول اﷲ ﷺ نے جو  ((یُقَاتِلُوْنَ عَلَی الْحَقِّ )) (( ظَاھِرُوْنَ عَلَی النَّاسِ  )) فرمایا ہے اس سے مراد ضروری طور پر وہ لڑائیاں نہیں جو ملک فتح کرنے کے لیے ہوتی ہیں‘ بلکہ اس سے مراد وہ لڑائیاں ہیں جو اہل حدیث کو مختلف فرقوں سے لڑنا پڑتی ہیں۔ جن میں اﷲ اہل حدیثوں کی ہی مدد کرتا ہے۔ جہاں بھی کوئی زندہ اہل حدیث کام شروع کرتا ہے ‘ اﷲ وہیں تھوڑی بہت جماعت بنا دیتا ہے اور اہل حدیث اپنی مخالفت کے باوجود غالب رہتے ہیں اور مخالف مغلوب۔ مسعود صاحب!یہ تو ہم سے پوچھیں کہ ہمیں یہاں بہاول پور میں دیوبندیوں‘ بریلویوں اور شیعہ سے کس طرح جنگ لڑنا پڑتی ہے۔ اور کس طرح وہ بظاہر ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں اور بالآخر اﷲ کے فضل سے نتیجہ ہمارے حق میں نکلتا ہے ۔ وہ مغلوب ہوتے ہیں اور ہم منصور۔ آج جو ہمارا سخت دشمن ہے ‘ کل کو اﷲ اس کے بیٹے کو اہل حدیث بنا دیتا ہے جس سے آہستہ آہستہ ان کا سارا خاندان اہل حدیث ہو جاتا ہے۔ جہاں بھی اہل حدیث کام کرتے ہیں ‘وہاں مخالفوں کی مخالفت کے باوجود اہل حدیث کی تعداد بڑھتی رہتی ہے۔

مسعود صاحب!جب اپنی جماعت المسلمین کے نام کو دیکھتے ہیں‘ بڑے خوش ہوتے ہیں کہ کتنا اچھا اور گاہگروپ ہے‘ لیکن جب دیکھتے ہیں کہ اس طرح کی اور اس نام کی آج تک کوئی جماعت نہیں پائی گئی تو پھر رونے لگ جاتے ہیں۔ پھر ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارتے ہیں  اصل میں حدیث  (( لاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ )) مسعود صاحب کی جڑ نہیں لگنے دیتی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (مسلم :کتاب الامارۃ‘ باب قولہ ﷺ لاتزال طائفۃ من امتی ص 1021‘ رقم 173   ( (ایضاً رقم 174)   بخاری‘ کتاب الاعتصام ‘ باب قول النبی ﷺ لا تزال طائفۃ من امتی ظاہرین علی الحق یقاتلون و ہم اہل العلم  ص 609‘ رقم 7311)

یہ حدیث بتاتی ہے کہ مسعود صاحب کی جماعت المسلمین جماعت حقہ نہیں کیوں کہ یہ بیسویں صدی میں بنی ہے۔ جماعت حقہ وہ ہے جو ہمیشہ اور ہر زمانے میں بلاانقطاع پائی جائے‘ یہ تو ہو سکتا ہے کہ وہ کسی زمانے میں کم ہو ‘ کسی زمانے میں زیادہ۔ کسی زمانے میںمنظم خلافت اور ایک مجتمع قوت ہو۔ کسی زمانے میں ایک منتشر گروہ  جیسا کہ اہل حدیث کا آج کل حال ہے۔ لیکن وہ موجود ہر زمانے میں رہے گی۔ یہ نہیں کہ کسی زمانے میں وہ بالکل ہی معدوم ہو ‘ چوں کہ مسعود صاحب کی جماعت المسلمین بنی اب ہے۔ پچھلی صدیوں میں اس کا نام و نشان نہیں تھا اس لیے وہ اس حدیث کا مصداق نہیں ہو سکتی۔  جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسعود صاحب کی جماعت المسلمین ایک ناجی گروہ نہیں بلکہ گمراہ فرقہ ہے۔ مسعود صاحب زبان سے خواہ کچھ کہتے رہیں‘ دل میں وہ بہت پریشان ہیں کہ اب کیا کروں؟ وہ جاہل بھی ہیں اور بے وقوف بھی۔ایک جماعت المسلمین کے بارے میں جو انھوں نے 1385ھ میں بنائی تھی‘ وہ بیزاری کا اظہار کر چکے ہیں۔ اب دوسری بھی ان کے گلے پڑ ی ہوئی ہے۔ فٹ یہ بھی نہیںآتی۔ حدیث ((لاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ  )) ان کو لیے جا رہی ہے۔ اب انھوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ اس حدیث کے معنی ہی بدلیں۔ وہ کہتے ہیں لاَ تَزَالُ سے ہمیشہ رہنے اور منقطع نہ ہونے پر استدلال کرنا صحیح نہیں۔ اس کے لیے انھوں نے تین مثالیں بھی ذکر کی ہیں۔ جاہل تو وہ ہیں ہی ‘ بے سمجھی سے ان تین مثالوں سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ لا تزال کے معنی  بلا انقطاع نہیں بلکہ مسلسل بالانقطاع ہیں۔ وہ اس فرق کو Continous اور Continual کے لفظوں سے واضح کرتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انگریزی میں تو مسعود صاحب پر کسی نے اچھا ہاتھ پھیرا ہے جو ان کو اب تک ان لفظوں کا فرق  یا د ہے۔  لیکن عربی گرائمر میں مسعود صاحب پر کسی کا ہاتھ نہیں پھرا۔ جس کی وجہ سے وہ لاَ تَزَالُ کے لفظوں کے معنی بھی نہیں جانتے اور کھچیں مارتے ہیں۔ مسعود صاحب کی یہ ریسرچ کہ لاَ تَزَالُ کے معنی مسلسل  بلا انقطاع نہیں بلکہ مسلسل بالانقطاع ہیں‘ ایسی ہے کہ اگر پی ایچ ۔ڈی  کی ڈگری بھی  امام المسلمین کی طرح خانہ ساز ہوتی تو مسعود صاحب کبھی کے پی ایچ ۔ڈی ہو گئے ہوتے۔ مسعودصاحب خود بے نظر ‘ ان کی جماعت المسلمین بے نظیر‘ کیوں کہ آج تک اس  نام کی کسی نے کوئی جماعت بنائی ہی نہیں۔ ان کی ریسرچ بے نظیر‘ کیوں کہ آج تک کسی نے ایسی ریسرچ  نہیں کی۔ انھوں نے سب نحویوں کی قبر پر لات مار دی‘سیبویہ بے چارہ چلا اٹھا ہوگا کہ اے مسعود تو لائق ہی بیسویں صدی کی امامت کے ہے۔

مسعود صاحب! گوش ہوش سے سنیے۔ لاتزال کے معنی میں انقطاع اور وقفہ کا مفہوم نہیں۔ یہ آپ کو دھوکا ہے آپ اس کی ترکیب پر غور کریں ‘ آپ کو اپنی جہالت کا علم ہو جائے گا۔ زال کے معنی ہیں Discontinued and Ceased یعنی ہٹ گیا‘ جاری نہ رہا‘ سلسلہ منقطع ہو گیا‘ جب اس پر ’’ما ‘‘یا ’’ لا‘‘ نافیہ آیا تو منفی معنی کی نفی ہو گئی۔ معنی ہو گیا ۔ Continued یعنی جاری رہا‘ نہ ہٹا۔ سلسلہ منقطع نہ ہوا۔ مسعود صاحب اگر آپ نے نحو کو سمجھا ہو تو آپ کو معلوم ہو کہ مازال زید غنیا کے معنی ہیں جب سے زید غنی ہوا‘ اس وقت  سے لے کر وقت تکلم تک وہ ہمیشہ اور بلاانقطاع غنی ہے۔ کبھی غنی اس سے علٰیحدہ نہیں ہوئی۔ ما زال کی قسم کے افعال اپنی خبروں کو اپنے اسموں کے لیے استمرار کے ساتھ ثابت کرنے کے لیے آتے ہیں۔ یعنی جب سے ان کے فاعلوں نے اپنی خبروں کو قبول کیا ہے ان میں انقطاع نہیں آیا۔ مسعود صاحب!اگر لاتزال کے معنی  میں وقفہ اور انقطاع  کا مفہو م ہو توا س کے بعد حتیٰ    جو غایت کے لیے استعمال ہوتا ہے‘ لانا صحیح نہ ہو‘ لیکن قرآن و حدیث میں لاتزال کے بعد حتی غائیہ بہت استعمال ہوتا ہے  مثلا : { لاَ یَزَالُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْہُ حَتّٰی تَاْتِیَھُمُ السَّاعَۃُ }:22]الحج[55:۔۔۔ {لاَ یَزَالُ بُنْیَانُھُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَۃً  فِیْ قُلُوْبِھِمْ اِلاَّ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُھُمْ }:9]التوبۃ [110: خود (( لاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ )) والی حدیث میں بھی حَتّٰی تَقُوْمُ السَّاعَۃُ ۔۔ حَتّٰی یَاْتِیَ اَمْرُاﷲِ ۔۔ کی غایت موجود ہیں۔ مسعود صاحب !اگر لاَتَزَالُ کے معنی میں وقفہ اور انقطاع کا مفہو م ہے تو کیا  فَمَا ذِلْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِمَّا جَائَ کُمْ بِہٖ وَلاَ یَزَالُ النَّاسُ بِِخَیْرٍِ مَا عَجَّلُوْا الْفِطْرَ  میں بھی  وقفہ اور انقطاع کا مفہوم ہے۔ اگر نہیں تو کیوں؟ رہ گئی آپ کی تین مثالیں۔ {لاَ تَزَالُ  تَطَّلِعُ  عَلٰی خَائِنَۃٍ  مِّنْھُمْ} :5]المائدہ[13: ۔۔۔(( مَا زَالَ جِبْرِیْلُ یُوْصِیْنِیْ۔))۔ ((فما زال یقول اشرب))۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (بخاری ‘ کتاب الصیام ‘ باب تعجیل الافطار‘ رقم الحدیث 1957 ‘ مسلم کتاب الصیام باب فضل السجود و تعجیل الفطر ۔۔۔ مشکوۃ ‘ کتاب الصوم ‘ باب فی مسائل المتفرقۃ من کتاب الصوم فصل اول  رقم (1984  (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ  624/1 رقم 356‘ ارواہ الغلیل 400/1 رقم 891)  (صحیح البخاری ‘ کتاب الرقاق‘  باب کیف کان عیش النبی ؐ و اصحابہ و تخلیھم عن الدنیا‘ ص 542 رقم 6452)

تو وہ  آپ کی جہالت اور سوء فہم پر دال ہیں۔ ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ  لاتزال کے معنی میں وقفہ اور انقطاع ہے۔ ان تینوں مثالوں میں جو وقفہ اور انقطاع کا مفہوم نکلتا ہے وہ لاتزال کی وجہ سے نہیں ‘ وہ بعد والے افعال کی وجہ سے ہے‘ کیوں کہ ان کا وقوع ہی ایسے ہوتا ہے۔ مثلا ً لا تزال تطلع میں اطلاع ایسا فعل نہیں جو ہر آن ہوتا رہے۔ اطلاع اسی وقت ہوتی ہے جب کوئی خاص واقعہ ہوتا ہے۔ اسی طرح  مَا زَالَ جِبْرِیْلُ یُوْصِیْنِی میں وصیت ایسا فعل ہے جوملاقات یا رخصتی کے وقت ہی وقوع پذیر ہوتا ہے۔ ہر وقت اور ہر آن وصیت نہیں کی جاتی۔ فلم ازل اشرب۔ میں بھی دو دھ ٹھہر ٹھہر کر اور سانس لے کر پیا جاتا ہے جب کہ زیادہ پینا ہو ۔ مسعود صاحب!یہ تینوں فعل ہی ایسے ہیں جن کا وقوع بالانقطاع ہوتا ہے۔ ان کا وقوع بلانقطاع ہوتا ہی نہیں‘ آپ بے سمجھی سے یہ سمجھ بیٹھے کہ ان افعال کے انقطاع کے مفہوم میں  لا تزال کے معنی کو دخل ہے اور یہ انقطاع  لا تزال کی وجہ سے ہے ۔ حال آنکہ یہ انقطاع اور وقفہ ان فعلوں کا خاصا ہے جو ما ز ال کے بعد اس کی خبر واقع ہو رہے ہیں۔ مسعود صاحب اگر کہا جائے : لاَ یَزَالُ خُسُوْفُ الشَّمْسِ وَاقِعًا حَتّٰی تَقُوْمُ السَّاعَۃُ  یعنی قیامت تک سورج گرہن ہوتا رہے گا‘ تو کیا  گرہنوں کا یہ وقفہ لا تزال کی وجہ سے ہوگا  یا یہ گرہن کی ذاتی خاصیت ہوگی یا وہ لگتا ہی وقفے وقفے سے ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ وقفہ گرہن کی خاصیت ہے۔ یہ لا یزال کا اثر نہیں۔ اس کے بعد مسعود صاحب! حدیث  ((تَلْزَمُ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ اِمَامَھُمْ )) اور ((فَاِنْ لَّمْ یَّکُنْ لَّھُمْ جَمَاعَۃٌ وَ لاَ اِمَامٌ)) سے استشہاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس حدیث سے بالبداہت ثابت ہو گیا کہ جماعت المسلمین کا تسلسل بالانقطاع ہوگا۔  میں کہتا ہوں مسعود صاحب! آپ جو جماعت المسلمین کے تسلسل بالانقطاع کے طائفہ منصورہ کے مسلسل بالانقطاع ہونے پر استدلال کرتے ہیں تا کہ آپ کی جماعت لاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ کا مصداق بن جائے تو آپ یہ تو بتائیں کہ یہ کہا کس نے ہے کہ جماعت المسلمین مسلسل رہے گی؟ مسعود صاحب پہلے آپ یہ ثابت کریں کہ رسول اﷲ ﷺ نے جماعت المسلمین کے بارے میں لا تزال کے ساتھ اس کا مسلسل ہونا بیان فرمایا ہے ۔ پھر آپ ((فَاِنْ لَّمْ یَّکُنْ لَّھُمْ جَمَاعَۃٌ وَ لاَ اِمَامٌ)) سے مسلسل بالانقطاع ہونے پر استدلال کریں ۔ جب رسول اﷲ ﷺ نے جماعت المسلمین کے بارے میں لا تزال فرمایا ہی نہیں تو   ((فَاِنْ لَّمْ یَّکُنْ لَّھُمْ جَمَاعَۃٌ وَ لاَ اِمَامٌ)) سے مسلسل بالانقطاع پر استدلال کیسا؟ مسعودصاحب !اصل میں آپ کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ جماعت المسلمین اور طائفہ منصورہ سے ایک ہی جماعت مراد ہے۔ حالانکہ یہ صحیح نہیں۔ ان دونوں کے احوال مختلف ہیں۔حدیث  تَلْزَمُ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ میں جماعت المسلمین سے وہ عام مسلمان مراد ہیں جو ایک خلیفہ کے تحت منظم زندگی گزارتے ہوں۔ چوں کہ مسلمانوں کی خلافت ہمیشہ رہنے والی چیز نہ تھی۔ اس لیے آپ نے جماعت المسلمین کے ساتھ لا تزال کا لفظ لگا کر نہیں فرمایا کہ جماعت المسلمین ہمیشہ رہے گی۔ آپ نے ((لاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ )) فرمایا ۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ  اگر میری امت کو زوال بھی ہو ‘ وہ خلافت کھو بھی بیٹھے ‘ اکثریت اس کی گمراہ بھی ہو جائے تو ایک گروہ ضرور ایسا ہوگا جو حق پر رہے گا‘ اور حق کی خاطر لوگوں سے لڑتا رہے گا‘ خواہ وہ منتشر طور پر کہیں کہیں ‘ تھوڑا تھوڑا ہی پایا جائے اور جماعت المسلمین کی حیثیت اسے حاصل نہ ہو۔ جیسا کہ آج کل اہل حدیث کا حال ہے۔ مسعود صاحب!جس جماعت کے بارے میں آپ نے ((لاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ )) فرمایا ہے وہ جماعت تو اس وقت بھی ہوگی جب کہ  ((فَاِنْ لَّمْ یَّکُنْ لَّھُمْ جَمَاعَۃٌ وَ لاَ اِمَامٌ))کا دور ہوگا۔ یعنی جس دو ر میں جماعت المسلمین نہ ہوگی طائفہ منصورہ اس وقت بھی ہوگا۔ کیوں کہ ((لاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ )) والی جماعت کے لیے ہمیشہ صاحب سلطنت و حکومت ہونا ضروری نہیں اور جماعت المسلمین جس کا ذکر حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ والی حدیث میں ہے ‘ صاحب سلطنت و شوکت ہونا ضروری ہے۔ کیوں کہ تَلْزَمْ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ اِمَامَھُمْ سے مراد ہی خلیفہ ہے۔ مسعود صاحب!آپ جیسا نقلی امام مراد  نہیں۔ اسی لیے تو ہم کہتے ہیں مسعود صاحب والی جماعت اصلی نہیں‘ نقلی ہے۔ اگر اصلی ہوتی تو سمجھ والے اہل حدیث ضرور اس میں شامل ہو جاتے۔ اصلی جماعت المسلمین وہ ہے جس کا امام خلیفہ ہو‘ جیسا کہ ابوداؤد کی حدیث میں صاف خلیفہ کا لفظ ہے۔ ((فَاِنْ کَانَ لِلّٰہِ فِی الاَرْضِِ خَلِیْفَۃً)) مسلم شریف میں ((تَسْمَعُ وَ تُطِیْعُ الْاَمِیْرَ وَ اِنْ ضَرَبَ ظَھَرَکَ وَ اَخَذَ مَالَکَ فَاسْمَعْ وَ أطِعْ))   جس سے  ثابت  ہو تا ہے  کہ اصلی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ( ابوداؤد‘ کتاب الفتن والملاہم ‘باب ذکر الفتن و دلائلھا‘ ص 1531 رقم 4244)

 (صحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ ‘ باب وجوب ملازمۃجماعۃ المسلمین عند ظھور الفتن ص1009 رقم 52)

 جماعت المسلمین وہ ہوگی جو ایک خلیفہ کے تحت جہاد کرے گی۔ مسعود صاحب! تَلْزَمْ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ اِمَامَھُمْ  کو آپ کا اپنے اوپر فٹ کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسا مرزا قادیان کا مسیح موعود کی احادیث کو اپنے اوپر فٹ کرنا۔ وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ‘ آپ اپنے دعوے میں جھوٹے۔۔ مسعود صاحب!آپ کو ایسی تروڑ مروڑ کرتے ہوئے ڈر کیوں نہیں لگتا۔ مسعود صاحب آپ کو جماعت بنانے کا شوق تھا آپ نے بنا لی۔ اب آپ حدیثوں پر ہاتھ کیوں صاف کرتے ہیں۔ خدا کا خوف کریں ‘ کہیں دھر نہ لیے جائیں۔ مسعود صاحب آپ کا  فَاِنْ لَّمْ یَّکُنْ لَّھُمْ جَمَاعَۃٌ وَّلاَ اِمَامٌ  سے لا تزال طائفۃ  والی جماعت کے مسلسل بالانقطاع ہونے پر دلیل کرنا آپ کی بے سمجھی کی دلیل ہے۔ آپ کو پتا ہی نہیں کہ جماعت المسلمین سے  کون سی جماعت مراد ہے اور اس کی کیا خصوصیات ہیں اور  ((لاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ )) سے کیا مراد ہے اور اس کی کیا خصوصیات ہیں۔ صفحہ 8پر آپ لکھتے ہیں:

جماعت اہل حدیث کچھ عرصہ قبل ہندوستان میں بنی۔ اس سے پہلے وہ کہاں تھی ؟میں کہتا ہوںمسعود صاحب!یہ ریسرچ آپ کی غضب کی ہے ‘ اﷲ آپ کو اس کی سزا دے۔ یہ تو بتائیں کہ ہندوستان میں یہ کہاں بنی اور کب بنی ۔ جماعت المسلمین کی تو آپ نے بنیاد رکھی ‘ اہل حدیث کی کس نے بنیاد رکھی۔ خدارا اہل حدیث کی تاریخ ضرورلکھیں ‘ پہلے مختصر پھر مطول۔ جب آپ یہ ثابت کر دیں گے کہ اہل حدیث ہندوستان میں بنے ہیں  تو میں آپ  کو دیوبند سے سند فراغت لے دوں گا۔حنفی بھی آپ کو اپنا امام مان لیں گے۔ صفحہ8 پر آپ لکھتے ہیں دوسرے ممالک کے لوگ نہ تو اپنے آپ کو اہل حدیث کہتے ہیں ‘ نہ اس جماعت کوپہچانتے ہیں۔ 

میں کہتا ہوں ‘ کیا وہ مسلمینی ہیں جو اہل حدیث کو نہیں جانتے اور نہیں مانتے۔ مسعو د صاحب میں سوائے اس کے کیا کہو ں ؟ {فَاِنَّھَا لاَ تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَ لٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ }:22]الحج[46: اﷲ ہی آپ کے حال پر رحم فرمائے۔ 

صفحہ 10پر آ پ لکھتے ہیں کہ ’’مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ ‘‘ کے بعد یہ لکھ دینا کہ ان کامذہب اہل سنت والجماعت ہوگا تحریف معنوی ہے۔ کہ الفاظ کچھ اور ترجمہ کچھ۔مسعود صاحب !میں کہتا ہوں یہ ترجمہ نہیں ‘یہ اس کا مفہوم ہے ‘ یہ اس کے عرفی معانی ہیں۔ آپ کہتے ہیں  یہ تحریف معنوی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ مسعود صاحب آپ جاہل آدمی ہیں ۔ آپ کو کیا معلوم کہ تحریف معنوی کسے کہتے ہیں۔ اگر کوئی عالم کہہ دیے کہ یہ تحریف معنوی ہے تو میں اپنی غلطی تسلیم کر لوں گا  اور اس سے توبہ کر لوں گا۔ آپ کہتے ہیں کہ حدیث  ’’مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ ‘‘ عبدالرحمٰن بن زیاد کی وجہ سے ضعیف ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اول تو یہ ضعیف نہیں‘ امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے ‘ کیوں کہ عبدالرحمٰن بن زیادحسن درجہ کا راوی ہے۔ لیکن اگر اس کی سند ضعیف بھی ہے تو یہ صرف ایک فنی بات ہے۔ اس سے حدیث کے معنی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ معنی کے لحاظ سے یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔ آپ بتائیں معنی اور مفہوم کے لحاظ سے اس میں کیا خرابی ہے۔ کیا وہ راہ حق نہیں جس پر رسول اﷲ ﷺ صحابہ کو چھوڑ کر گئے۔ کیا حدیث ((عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَ سُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیّٖنَ )) اورآیت {وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی }:4]النساء[115: اور اس قسم کی اور آیات اس کی مؤید نہیں۔ صفحہ 11پر آپ لکھتے ہیں اور یہ صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے۔ میں کہتا ہوں ‘ یہ کسی صحیح حدیث کے خلاف نہیں۔ یہ آپ کی سمجھ کا فتور اور علم کا قصور ہے جو آپ  اسے صحیح حدیث کے خلاف بتاتے ہیں۔  اگر مخالفت ثابت کرکے دکھاتے تو بات تھی ‘ ویسے بڑ مارنے سے کیا فائدہ ؟ مسعود صاحب یہ کسی صحیح حدیث کے خلاف نہیں ‘ بلکہ محدثین تو کہتے ہیں کہ تمام صحیح احادیث اس کی مؤید ہیں اور آپ یہ ہانکتے ہیں کہ یہ صحیح حدیث  کے خلاف ہے۔ صفحہ 11پر آپ کہتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ والی حدیث میں جو صحیح ہے ۔ الجماعت  سے مراد جماعت المسلمین ہے۔ مسعود صاحب میں کہتا ہوں آپ کا یہ کہنا ‘ آپ کی نالائقی کی انتہا  ہے۔ آپ کو اتنی بھی سمجھ نہیں کہ الجماعت سے مراد یہاں جماعت المسلمین نہیں ہو سکتا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (ابن ماجۃ ‘ کتاب السنۃ ‘ باب اتباع السنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین‘ص 2479 رقم 42 ۔۔ ابوداؤد‘ کتاب السنۃ ‘ باب فی لزوم السنۃ ‘ص 1561 رقم 2407۔۔ مشکوۃ: کتاب الایمان ‘ باب الاعتصام بالکتب والسنۃ  )

آپ حدیث کے الفاظ دیکھیں۔ اِنَّ ھٰذِہِ الْمِلَّۃَ سَتَفْتَرِقُ عَلٰی ثَلاَثٍ وَ سَبْعِیْنَ ثِنْتَانِ وَ سَبْعُوْنَ فِی النَّارِ وَ وَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَ ھِیَ الْجَمَاعَۃُ   یعنی اس ملت کے 73 فرقے بن جائیں گے 72 دوزخ میں جائیں گے اور ایک جنت میں۔مسعود صاحب ! اب آپ بتائیں جب وہ ایک جنت میں جائے گا ‘ جس کو الجماعۃ کہا گیا ہے ۔ 73 میں سے ایک فرقہ ہوگا تو وہ جماعت المسلمین کیسے ہو سکتا ہے ؟ کیا جماعت المسلمین ایک فرقہ ہے ؟ کیا آپ اس کو فرقہ مانتے ہیں ؟ جب جماعت المسلمین فرقہ نہیں ‘ آپ اس کو فرقہ مانتے نہیں تو الجماعۃ سے مراد آپ جماعت المسلمین کیسے لے سکتے ہیں؟ الجماعۃ کا تو 73فرقوں میں سے ایک فرقہ ہونا ضروری ہے‘ جو جماعت المسلمین نہیں ہو سکتی۔وہ تو وہی فرقہ ہوسکتا ہے جس کو دوسری  حدیث میں مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْسے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی اہل سنت والجماعت ۔ رہ گیا آپ کا یہ کہنا کہ کئی جگہ جماعت کا مضاف الیہ ’’المسلمین‘‘ ہے۔ اس لیے یہاں بھی المسلمین ہوگا ۔ میں کہتا ہوں ‘ یہ بھی آپ کی بے سمجھی ہے ‘ آپ کو اتنی بھی سمجھ نہیں کہ جماعت کا مضاف الیہ ’’ المسلمین‘‘ کہاں ہو سکتا ہے ؟ کہاں نہیں ؟مسعود صاحب!جہاں افتراق امت  کا ذکر ہو وہاں جماعت کا مضاف الیہ المسلمین نہیں ہو سکتا ‘ افتراق امت کے ذکر میں تو الجماعۃ سے مراد خاص جماعت ہوگی جو ایک فرقہ ہوگی ‘ نہ کہ جماعت المسلین جس کا اطلاق کل مسلمانوں پر ہوتا ہے۔جب جماعت المسلمین سے مراد فرقہ نہیں‘ آپ اس کو فرقہ مانتے نہیں تو افتراق امت کے ذکر میں الجماعۃ سے مراد جماعت المسلمین نہیں ہوگا‘ بلکہ کوئی خاص فرقہ مراد ہوگا اور جہاں مسلمانوں کے اتحاد کی بات ہو وہاں جماعت کا ’’ مضاف الیہ ’’ المسلمین‘ ‘ ہو سکتا ہے۔ مثلاًان احادیث میں ((مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا ))۔۔۔((وَ عَلَیْکُمْ  بِالْجَمَاعَۃِ ))۔۔((لَزُوْمُ جَمَاعَتَھُمْ ))  وغیرہ لیکن افتراق امت والی احادیث میں جہاں الجماعۃ سے مراد ایک ناجی گروہ  ہے وہاں اس کا مضاف الیہ المسلمین نہیں ہو سکتا‘ وہاں تو اس کا مضاف الیہ اہل السنۃ یا اہل الحق کی قسم کے الفاظ  ہی ہو سکتے ہیں جو ایک خاص گروہ پر دلالت کرتے ہیں جس کی تعبیر مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ  میں ہے۔ مسعود صاحب آپ نے 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(ابوداو‘د :کتاب السنۃ ‘ باب شرح السنۃ ص 1560رقم 4597)

( مشکٰوۃ ‘ کتاب الایمان ‘ باب الاعتصام بالکتٰب والسنۃ  رقم 171)

صفحہ 12 پر لاَیَبْقٰی مِنَ الْاِسْلاَمِ اِلاَّ اِسْمُہ‘ پر بھی ہاتھ صاف کیا ہے ۔ آپ کہتے ہیں  یہ ضعیف ہے۔ بشیر بن الولید راوی ضعیف ہے‘ میں کہتا ہوں ایسا ضعیف مضر نہیں‘ کیوں کہ یہ حدیث معنوی لحاظ سے صحیح ہے ‘ اور کسی صحیح حدیث کے خلاف نہیں۔ کیااس حدیث کا ایک ایک لفظ صحیح ثابت نہیں ہو چکا۔ کیا آج یہ حقیقت نہیں کہ آج اسلام کا نام ہی نام ہے اور اسلام کی حقیقت قریبا مفقود ہے‘ جسے دیکھو رسمی مسلمان ہے۔ یہ پتا ہی نہیں کہ اسلام کسے کہتے ہیں؟ آج لوگ کفر کو اسلام سمجھتے ہیں اور اسلام کو کفر۔ توحید اور شرک ‘ سنت اور بدعت کا امتیاز ہی مٹ گیا ہے۔ آج اہل بدعت اہل سنت کہلاتے ہیں اور دشمن دین ‘ عاشق رسول۔۔۔ صفحہ 13پر آ پ لکھتے ہیں کہ نام کی جگہ وصف کیسے لے سکتا ہے۔ نام نام ہے اور وصف وصف۔ میں کہتا ہوں مسعو دصاحب جب آپ کو آتا جاتا کچھ نہیںتو یہ پنگا لینے کی کیا ضرورت تھی ؟ بنے پھرتے ہیں امام المسلمین اور امیر المؤمنین اور سمجھتے کچھ نہیں۔ مسعود صاحب!آپ یہ بتائیں ‘ کوئی وصفی نام ہو بھی سکتا ہے کہ نہیں۔؟ جب آپ اس سوال کو سمجھ جائیں گے تو آپ کا دماغ درست ہو جائے گا۔ وصفی نام سے امتیاز کرنا اور س کو امتیازی نام کا درجہ دینا صحیح کیوں نہیں ؟ کہاں لکھا ہے کہ یہ ناجائز ہے اور یہ صحیح نہیں؟

صفحہ 13پر آپ لکھتے ہیں کہ اگر آپ کا مذہب صحیح ہے تو پھر آپ کی جماعت کے فرقے کیسے بن گئے۔؟  میں کہتا ہوں مسعود صاحب ! اسلام صحیح ہے یا نہیں ؟ اگر صحیح نہیں تو آپ مسلمان کیوں ہیں ؟ اگر صحیح ہے تو مسلمانوں کے اتنے فرقے کیوں بن گئے۔ مسعود صاحب جیسے بخاری مسلم والی جماعت المسلمین آج اتنے فرقوں میں بٹ گئی ہے ‘ ایسے ہی اگر ہماری جماعت کے فرقے بن جائیں تو کیا اعتراض ہے۔؟ آپ کی جماعت المسلمین تو ابھی کل کی بچی ہے۔ اس میںآپ دیکھ لیں کتنے فرقے بنتے ہیں ؟آپ کی جماعت میں ایسے افراد بھی ہیں جو آپ کے بگاڑنے سے تو اہل حدیث سے  گئے اور اب آپ کو بھی گمراہ کہتے ہیں اور نئی جماعت بنا رہے ہیں۔مسعود صاحب! کسی جماعت کے فرقے بن جانا اس جماعت کے  مذہب کے غلط ہونے کی دلیل نہیں۔ بات سوچ سمجھ کر کیا کریں۔ آج مسلمانوں کے اتنے فرقے ہیں تو کیاا س میں اسلام کا قصور ہے؟اگر اہل حدیث میںاختلاف ہو جائے تو اہلحدیث

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( مشکٰوۃ ‘ کتاب العلم 279/1‘ رقم 276)

مذہب کا قصور نہیں ۔ یہ اختلاف کرنے والوں کا قصور ہے۔ آپ کہتے ہیں جب اہل حدیث میں اتنا اختلاف ہے ‘ وہ اختلاف کرنے والے سب اہل حدیث ہیں تو بتائیے کون سا مذہب صحیح ہے؟ میں کہتا ہوں جب مسلمانوں میں اتنا اختلاف ہے اور اختلاف کرنے والے سب مسلمان کہلاتے ہیں تو پھر آپ بتائیے کہ ان میں کس کا اسلام صحیح ہے۔ جو جواب آپ ہمیں دیں گے وہی ہماری طرف سے سمجھ لیں۔ صفحہ 14پرآپ کہتے ہیں اگر ناموں کو اتنی اہمیت حاصل نہیںتو آپ اپنے آپ کو غربا اہل حدیث کیوں نہیں کہتے۔ میںکہتا ہوں کہ آپ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ ناموں کی اتنی اہمیت نہیں کامطلب کیا ہے ؟ مسعود صاحب! ناموں کو اتنی اہمیت حاصل نہیں ‘ کا مطلب یہ نہیں کہ ہر غلط ملط ‘ الٹا سیدھا نام بھی جائز ہے ۔ موزونیت اور مناسبت دیکھنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنی کسی چیز کو اہمیت حاصل ہوتی ہے اتنی اس کے نام  کو نہیں ہوتی۔ اسم اور مسمٰی میں وہی نسبت ہے جو الفاظ اور معانی میں۔ اصل مقصود  تو مفہوم ہوتا ہے۔ الفاظ تو اس کو اداکرنے کے لیے ایک ذریعہ ہوتے ہیں۔ جب چیز صحیح ہو تو نام اس کی مناسبت سے خواہ کوئی ہو نام کو اتنی اہمیت نہیں جتنی نام والے کو۔ چوں کہ ہمارا مذہب قرآن وحدیث ہے  اور یہ اصل اسلام ہے۔ اب اس کی مناسبت سے کوئی بھی نام جو اس پر دلالت کرے ٹھیک ہے۔ اس لیے ہم اپنے آپ کو اہل حدیث ‘ اصحاب الحدیث‘ اہل السنۃ ‘ اہل الاثر ‘ محمدی ‘ سلفی  وغیرہ سب کچھ کہہ لیتے ہیں۔ اگرچہ بعض خصوصیات کی بنا پر شہرت لقب اہل حدیث کو زیادہ ہے۔  ہم اپنے آپ کو غربا اہل حدیث  اس لیے نہیں کہتے کہ اسمیں ادعا اور فخر و تعلی  پائی جاتی ہے‘ ہم اس نام کو ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ جیسے کوئی  اپنی جماعت کا نام المعلمین رکھ لے۔ جب ہم جماعت المسلمین نام کو شیخی  خورہ سمجھتے ہیں اور بغیر ضرورت کے اس کا رکھنا جائز  نہیں سمجھتے تو ہم غربا اہل حدیث کو کیسے اچھا سمجھ سکتے ہیں ؟ ایسے نام {فَلاَ تُزَکُّوْ ا اَنْفُسَکُمْ } کے تحت آتے ہیں۔ اس طرح اہل قرآن نام بھی صحیح نہیں‘ کیوں کہ اس نام سے قرآن و حدیث میں تفریق پیدا ہوتی ہے۔ یہ اسلام کے جزو پر دلالت کرتا ہے‘ کل پر نہیں۔  اس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ ہم قرآن کو مانتے ہیں حدیث کو نہیں۔  حال آنکہ حدیث بھی دین  ہے۔ اسی وجہ سے اہل قرآن اس فرقے کا نام مشہور ہے جو حدیث کا منکر ہے۔ اہل حدیث نام میں قرآن و حدیث دونوں آ جاتے ہیں کیوں  کہ حدیث  کا اطلاق قرآن اور حدیث دونوں پر ہوتا ہے۔ 

صفحہ 14پر ہی آپ لکھتے ہیں:’’ اگر  یہ صحیح ہے ناموں کو اتنی اہمیت حاصل  نہیں تو پھر اہل حدیث نام کو اتنی اہمیت کیوں دی جا رہی ہے‘‘ میں کہتا ہوں اہل حدیث کو جو اتنی اہمیت حاصل ہے تو وہ اس کی شہرت اور امتیاز کی وجہ سے ہے۔ جیسے مسلم‘ نام کو اور وصفی ناموں کے مقابلے میں شہرت  اور امتیا ز زیادہ حاصل ہے۔ کافروں سے جتنا امتیاز مسلم نام کے ساتھ ہے‘ اتنا اور کسی نام کے ساتھ نہیں۔ اسی طرح مسلمان فرقوں میں جتنا امتیاز اہل حدیث نام کے ساتھ ہے اتنا  اور کسی نام کے ساتھ نہیں۔خاص کر اس زمانے میں جیسے مسلم نام اہم ہے ایسے ہی اہل حدیث نام اہم ہے۔ وہ کافروں سے امتیاز کے لیے ہے یہ مسلمان فرقوں سے امتیاز کے لیے ہے۔

مسعود صاحب! آپ بار بار یہی کہتے ہیں کہ کسی وصفی نام یا لقب کو فرقہ وارانہ نام کی حیثیت نہیں دی جا سکتی ‘ میں کہتا ہوں آخر اس کی دلیل کیا ہے ؟ آپ کو ئی دلیل دیں تو پتا لگے‘ کہ آپ کی بات میں کوئی جان ہے یا نہیں۔ ویسے بغیر دلیل کے کہے جانے سے  تو کوئی فائدہ نہیں۔ مسعود صاحب! میں نے قرآن مجید کی آیت{اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۔۔ الخ}:33]الاحزاب[35: پیش کرکے کہا  تھا کہ اگر مسلم علم ہوتا تو مؤمنین اور صادقین کا عطف مسلمین پر نہ ہوتا۔ یہ عطف بتا رہا ہے کہ مسلمین ‘ مومنین ‘ صادقین وغیرہ سب اﷲ کو ماننے والوں کے اوصاف ہیں۔ علم ان میںکوئی نہیں‘ لیکن مسعودصاحب یہ سادہ سی بات  بھی آپ کی سمجھ میں نہیں آئی۔ آپ نے جہل مرکب کا ثبوت دیتے ہوئے یہی کہا:’’ بتائیے!  کس کی مانیں اﷲ تعالیٰ کی یا محقق صاحب کی۔ مسعود صاحب اگر آپ کو پتا نہیں تو کراچی میں بڑے بڑے عالم ہیں ۔ آپ ان سے ہی سمجھ لیں اور اس آیت کی ترکیب کروا کر دیکھ لیں آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ حقیقت ہے یا نہیں۔ اس سے آگے اسی صفحہ 15پر آپ لکھتے ہیں اس آیت میں آگے اﷲ تعالیٰ نے مسلمین کے اوصاف نقل کیے ہیں۔

میں کہتا ہوں مسعود صاحب!جہالت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ آپ نے تو جہالت کا ریکارڈ ہی توڑ دیا۔ اگر مومنین اور صادقین آیت میں مسلمین کے اوصاف ہیں تو پھر اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ صفت اور موصوف میں عطف جائز ہے۔ اگر مومنین صادقین وغیرہ مسلمین کے اوصاف ہیں تو مسلمین اور صادقین کے درمیان  ’’واؤ‘‘ کیوں ہے۔ آیت:{ ان المسلمین ۔۔ الخ} تو بتا رہی ہے کہ مسلمین ‘ علم نہیں اور {سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ }  میں جو اﷲ نے نام رکھا ہے یہ وصفی نام رکھا ہے۔ یہ اﷲ نے علم نہیں رکھا۔ اﷲ تو آیت {اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ ۔۔ ۔۔} میں کہہ رہا ہے کہ مسلمین علم نہیں۔ مسعود صاحب!آپ زبردستی علم بنا رہے ہیں اب اﷲ کی مانیں یا آپ کی؟ مسعودصاحب!آپ آیت  {سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ} لکھ کر استدلال کرتے ہیں کہ مسلم نام علم ہے ‘ میں کہتا ہوں {سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } علم میںنص ہے۔ اگر {سَمَّاکُمْ  }علم کے لیے ہی آتا ہے تو ترمذی اور مسند احمد کے حوالے سے آپ نے اپنے رسالے  ’’مسلم‘ ‘ میں جو روایت نقل کی ہے اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ اﷲ نے علم تین رکھے ہیں : مسلمین‘ مومنین اور عباداﷲ۔۔۔ کیوں کہ ان تینوں کے لیے سماء کا لفظ آیا ہے۔((فَادْعُوبِدَعْوَی اﷲِ الَّذِیْ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ عِبَادَاﷲِ َ ))  آپ نے ترجمہ لکھا ہے : مسلمین کو بس اسی نام سے پکارو جو نام اﷲ نے رکھا ہے۔یعنی مسلمین‘ مومنین ‘ اﷲ عز و جل کے بندے (بحوالہ آپ کا رسالہ ’’ مسلم‘‘ صفحہ 8) یعنی اﷲ نے تین نام رکھے ہیں۔

مسعود صاحب!کہیے !کیا اب آپ اپنے اصول کے تحت مانتے ہیں کہ مومنین اور عباداﷲ بھی علم ہیں ۔ اگر مانتے ہیں تو آپ کا یہ دعویٰ غلط ہو گیا کہ نام ایک صرف مسلم ہے اور کوئی نہیں۔ اگر نہیں مانتے تو آپ کا  {ھُوَسَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } سے مسلم کے علم ہونے کا دعویٰ باطل ہوگیا ۔ حدیث کے حوالے سے ثابت ہو گیا کہ سماکم  جیسے علم کے لیے آ سکتا ہے ایسے وصفی ناموں کے لیے بھی آ سکتا ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ مثلا ً قرآن مجید میں ہے {اِنْ ھِیَ اِلاَّ اَسْمَائٌ سَمَّیْتُمُوْھَا اَنْتُمْ وَ         اَبَائُکُمْ }:53]النجم[23:  میں اسماء سے مراد وصفی نام ہیں ‘ جیسا کہ داتا ‘ گنج بخش وغیرہ۔ ۔ 

 اسی طرح  {لَیُسَمُّوْنَ الْمَلاَئِکَۃَ تَسْمِیَۃَ الْاُنْثٰی}:53]النجم[27: میں بھی وصفی نام مراد 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (صحیح ابن خزیمۃ ‘ کتاب الصیام ‘ باب ذکر تمثیل الصائم فی ریحہ بطیب ریح  المسک اذ ھواطیب الطیب 196/3 رقم  1895۔۔ جامع ترمذی  کتاب الادب ‘ابواب الامثال‘ باب جاء  فی مثل الصلوۃ  والصیام والصدقہ‘ ص 1939‘ رقم (2863:

ہیں۔مسلم شریف میں ہے ((وَ اَخْبَثَہ‘ رَجُلٌ کَانَ یُسَمّٰی مَلِکُ الاَمْلاَکِ بخاری شریف میں ہے(( یَخْرُ جُ قَوْمٌ مِّنْ اُمَّتِیْ مِنْ نَّارٍ بِشَفَاعَتِیْ یُسَمُّوْنَ الْجُہَنَّمِیِیْنَ ))  لفظ بھی تسمیہ کا ہے اور نام بھی وصفی ہیں۔ ملک الاملاک اور جہنمیون جس سے ثابت ہو گیا کہ تسمیہ کا لفظ علم کے لیے خاص نہیں۔ یہ وصفی ناموں کے ساتھ ہی آتا ہے۔

صفحہ 16پر آپ لکھتے ہیں۔’’ اﷲ تعالیٰ فرمائے کہ مسلم کہو‘ اور محقق صاحب فرماتے ہیں کہ مسلم کہنا جائز نہیں‘‘ میں کہتا ہوں مسعود صاحب !خدا کا خوف کھائیں‘ ہر بات کو توڑ مروڑ کر بیان نہ کریں۔ اﷲ نے کہاں کہا ہے کہ تم اپنے آپ کو مسلم کہا کرو اور جماعت المسلمین بنا لیا کرو۔ یہ تو آپ کی سمجھ کا قصور ہے۔ جو آپ نے یہ بنا لیا ہے ورنہ ان آیات میں اﷲ کی مراد یہ نہیں۔ اگر اﷲ کی مراد یہ ہوتی تو آپ سے پہلے بھی کوئی آپ جیسا عقل والا  ضرور ایسا پیدا ہوتا جو آپ کی طرح کی جماعت المسلمین بناتا‘ لیکن آج تک کسی نے بھی آپ جیسی جماعت المسلمین نہیں بنائی۔ کیوں کہ ہر مسلمان سمجھتا ہے کہ  قولوا یہاں اس معانی میں نہیں‘ جس معانی میں آپ جہالت کی وجہ سے لے رہے ہیں۔ مسعو د صاحب! اگر قولوا کے معنی ہیں کہ تم کہلایا کرو تو   قُوْلُوْا لَا اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ  کے معنی کیا ہیں ؟ مسعو د صاحب آپ کو پیش کردہ  آیات میں   قولوا نظر آتا ہے   فان تولوا  قسم کے الفاظ نظر نہیں آتے جو ثابت کرتے ہیں کہ کفر کے مقابلے میں ایسا کہا کرو۔ وہاں تو اس کا فائدہ ہے ‘ مسلمانوں میں بلا ضرورت اپنے آپ کو مسلم کہنا اور جماعت المسلمین بنا لینا سوائے شیخی کے کچھ نہیں۔ مسعود صاحب !ہم مسلم کہنے کے خلاف نہیں بلا موقع کہنا جس سے شیخی اور فخر کا اظہار ہوتا ہو اس کے خلاف ہیں۔ بات کو سمجھنے کی کوشش کریں بے عقلی کا ثبوت نہ دیں۔

  آپ صفحہ19 پر لکھتے ہیں: ’’ تو پھر ان انبیاء علیھم السلام سے توعیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے مسلم ہی اچھے رہے جنھوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ہم مسلم ہیں‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ( صحیح مسلم‘ کتاب الآداب ‘ باب تحریم التسمی  بملک الاملاک  او بملک الملوک  ص 1060 رقم 20 ۔۔ ابوداؤد ‘کتاب الادب‘ باب فی تغیر الاسم القبیح‘ ص 1585 رقم 4961۔۔  صحیح البخاری ‘ کتاب الادب ‘ باب ابغض الاسماء الی اﷲ‘ ص 523 رقم 6206)

  (صحیح البخاری  ‘کتاب الرقاق‘ باب صفۃ الجنۃ والنار‘ ص 549رقم 6559۔۔جامع الترمذی ‘ ابواب صفۃ جہنم ‘ باب منہ قصۃ آخر اھل النار خروجا ‘ص 1913 رقم 2600۔۔ مسند احمد 391/5 رقم 22812 ایضا رقم 11849)

میں کہتا ہوں مسعود صاحب! آپ کی سمجھ کے بھی کیا کہنے ! اﷲ کسی کو ایسی الٹی مت بھی نہ دے۔ اگر آپ کی الٹی مت کو سامنے  رکھا جائے تو پھر تو عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے مسلم ابراہیم علیہ السلام سے بھی اچھے  تھے  کہ وہ تو مسلم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ابراہیم علیہ السلام بڑھاپے تک بھی مسلم نہ ہوئے جو { رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ  } :2]البقرۃ[128: کی دعا کرتے ہیں۔

مسعود صاحب !ابراہیم علیہ السلام جو بڑھاپے میں بھی  { رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ  }  دعا  کرتے تھے تو کیا وہ بڑھاپے تک بھی مسلم نہیں بنے تھے۔ آخر سوچ کر بات کیا کریں ۔ پتا نہیں یہ مسلمینی آپ کو کہاں پہنچائے گی۔ 

آپ صفحہ 18پر لکھتے ہیں:’’ پھر اﷲ نے کیوں بار بار کہا کہ اپنے کو مسلم کہو‘‘ میں کہتا ہوں مسعو د صاحب!آپ جھوٹ بولتے ہیں اورقرآن میں تحریف کرتے ہیں۔ اﷲ نے کہیں نہیں کہا کہ تم اپنے کو مسلم کہو۔ اﷲ کے کہنے کا مطلب جو’’قل‘‘ اور ’’قولوا‘‘ والی آیات میںہے‘ یہ ہے کہ اگر اہل کتاب اور دیگر کفار اسلام کی دعوت کو قبول  نہ کریں تو تم اعلان کرو کہ اگر تم نہیں مانتے تو نہ مانو ‘ہم تو اﷲ کی دعوت کو قبول کرتے ہیں۔ ایسے ہی اﷲ نے اپنے کسی بندے کی بات بیان کی ہے:  {اِنِّیْ اٰمَنْتُ بِرَبِّکُمْ فَاسْمَعُوْنِ }:36]یٰسٓ[25: ایسا کہنا اقرار ‘ اعلان اور اظہار کے معنی میں ہے۔ مسلم کہلانے یا جماعت المسلمین بنانے کے لیے نہیں۔

صفحہ  19 پر آپ لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے لکھتے ہیں:

’’ محقق صاحب کی عبارتوں سے ظاہر ہے کہ انبیاء علیھم السلام بھی زندگی میںمکمل مسلم نہیں تھے۔‘‘

میں کہتا ہوں مسعودصاحب! اگر انبیاء زندگی میں ہی مکمل مسلم ہوجاتے تھے تو پھر ابراہیم علیہ السلام { رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ } کی دعا کیوں کرتے تھے؟ یوسف علیہ السلام نے {تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا } کی دعا کیوں کی ؟ اﷲ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو { اَسْلَمَ} کیوں کہا؟  ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کے لیے {فَلَمَّا اَسْلَمَا} لفظ کیوں استعمال کیا۔؟ پیغمبروں کے لیے یہ الفاظ قرآن میں کیوں آتے ہیں۔ { وَاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ }:27]النمل[91:{وَ اُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ } :40]المومن[66: {اِنِّیْ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ } :6]الانعام[14: مسعود صاحب!  جو تاثر آپ لوگوں کو دیتے ہیں وہ ہماری مراد نہیں۔ یہ آپ کی دھوکا دہی ہے۔ ہماری مراد یہ ہے کہ جتنی زندگی پیغمبر گزار لیتے تھے  اس کے اعتبار سے وہ مکمل مسلم ہوتے تھے جتنی زندگی ان کی باقی ہوتی اس کے اعتبار سے ان کو اپنے اسلام کی تکمیل کرنا ہوتی تھی۔ اس کے لیے وہ دعا کرتے تھے ۔ جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے۔ { رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنَ لَکَ} اس طرح سے وہ زندگی بھر اپنے اسلام کی تکمیل کرتے رہتے تھے۔ کیوں کہ بندہ جب تک زندہ رہتا ہے اﷲ کے احکام اس کے لیے جاری ہوتے رہتے ہیں۔ جو احکام کو مانتا رہے وہ مسلم بنتا رہتا ہے ۔ جو انکار کردے خواہ کسی عمر میں کرے اسلام سے نکل جاتا ہے۔ اسی لیے نیک خاتمے کے لیے دعا کی جاتی ہے۔ مسعود صاحب!جو تاثر آپ دیتے ہیں کہ وہ زندگی میں پورے مسلم نہ تھے یہ بالکل غلط ہے۔ وہ اپنے ماضی کے اعتبار سے پورے مسلم ہوتے تھے۔ جذبہ فرماں برداری ان میں کامل تھا ‘ لیکن چوں کہ وہ دنیا میں تھے ‘ جو کہ دارالعمل ہے اﷲ کے احکام کی تعمیل مستقبل میں ان کے ذمے ہوتی تھی۔ اس اعتبار سے وہ زندگی بھر اپنے اسلام کی تکمیل کرتے رہتے تھے۔ اﷲ کے ہر حکم میں جو آتا تھا۔ مسلم بننے کی کوشش کرتے تھے۔ جبھی وہ کہتے تھے کہ اﷲ نے ہمیں مسلم بننے کا حکم دیا ہے۔  {اِنِّیْ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ }۔۔ {اِنِّیْ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ }

مسعود  صاحب! اگر آپ کے نفس میںشر نہ ہو اور قرآن کو سمجھیں تو کبھی ایسی جہالت کی باتیں نہ کریں۔ آپ قرآن کو مسلم بن کر پڑھیں تو آپ پر حقیقت منکشف ہو جائے ۔ ملکہ سبا جب مسلمان ہوتی ہے تو { اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ } :27]النمل [44:پڑھتی ہے۔ ادھر ابراہیم علیہ السلام کو جو نبی ہیںجب اﷲ فرماتا ہے  اسلم‘‘ تو  وہ بھی یہی پڑھتے ہیں { اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ }بات واضح ہے کہ بندہ ہر آن مسلم بنتا رہتا ہے۔ جب اﷲکا حکم آتا ہے تو بندہ کو مسلم بننا پڑتا ہے۔ اسی لیے زندگی میں اسلام کی تکمیل نہیں ہوتی۔ اسلام کی تکمیل تو موت پر ہی ہوتی ہے۔جب اﷲ کے احکام کا خاتمہ ہوتا ہے۔

مسعود صاحب!میں تو آپ کی قرآن دانی پر حیران ہوں ۔آپ کو جب ترجمہ نہیں آتاتو تفسیر تو کیا آنی تھی اور سنا ہے کہ آپ تفسیر لکھ رہے ہیں۔ جب آپ کی قرآن دانی کا یہ حال ہے تو آپ کیا خاک تفسیر کریں گے‘  سوائے اس کے کہ اپنی آخرت برباد کریں۔

مسعود صاحب !  مسلمینیجنو ن کے تحت اولاً تو آپ نے { اَلاَّ تَعْلُوْا عَلَیَّ وَ اٰتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ }:27]النمل[31: کا  ترجمہ غلط کیا ہے۔ جب آپ کو توجہ دلائی تو آپ نے تفسیر غلط کرناشروع کر دی۔ میں تو آپ کو یہی مشورہ دوں گا کہ پہلے آپ کسی عالم سے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھیں پھر کوئی کام شروع کریں۔ جب آپ کو قرآن ہی نہیں آتا تو آپ کیا امامت کریں گے۔ آپ نے جو اس کی تفسیر کی ہے وہ بالکل غلط ہے۔ اگر آپ کو سمجھ نہ آئے تو کسی عالم کو دکھا دیں۔ وہ آپ کو آپ کی غلطی بتا دے گا۔ آپ کہتے ہیں { اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ} اس  بات کا قرینہ ہے کہ  { اَلاَّ تَعْلُوْا عَلَیَّ وَاٰتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ }میں لفظ مسلم کے لغوی معنی مراد نہیں ہیں۔ میں کہتا ہوں مسعود صاحب !یہ آپ کی جہالت ہے۔  {اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ } کو  { اَلاَّ تَعْلُوْا عَلَیَّ وَاٰتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ } میں مسلمین کے لغوی معنی مراد نہ ہونے پر قرینہ بتا رہے ہیں۔ یہی آیت تو بلکہ قرینہ ہے کہ  {اٰتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ } میں مسلمین کے لغوی معنی مراد ہیں کیوں کہ وہ ملکہ مسلمان تو بعد میں ہوتی ہے جب کہ سلیمان علیہ السلام کے پاس { اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ } پڑھتی ہے۔ اس لیے پہلے   {اَتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ }کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ فرمان بردار بن کر حاضر ہو جاؤ۔ مسعود صاحب  { اٰتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ} کا لغوی ترجمہ کرنے پر کئی قرینے ہیں اور اصطلاحی مسلم کے معنی لینے پر کوئی قرینہ نہیں۔ پہلا قرینہ مسلمین کے لغوی معنی لینے پر {لاَ تَعْلُوْا عَلَیَّ} ہے کیوں کہ مسلمین کا لفظ یہاں  {لاَ تَعْلُوْا عَلَیَّ } کے مقابلے  میں آ رہا ہے ۔ یعنی سرکشی نہ کرو۔ فرمان بردار بن کر میرے پاس آ جائو۔ دوسرا قرینہ لغوی معنی لینے پر یہ آیت ہے۔  {اَیُّکُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِھَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ}:27]النمل[38: تیسرا قرینہ { وَاُوْتِیْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِھَا وَ کُنَّا مُسْلِمِیْنَ }:27]النمل[42: یہ تینوں آیات { اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ } سے پہلے ہیں۔ بقول آپ کے جب وہ  { اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ } پڑھ کر مسلمان ہوئی تو پہلے تینوں ’’مسلمین‘‘  اپنے لغوی معنی پر محمول ہوں گے۔ اصطلاحی مسلم کے معنی کیسے صحیح ہو سکتے ہیں۔

آپ کہتے ہیں انھوں نے آتے ہی اسلام قبول کر لیا اور کہا: { اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ } میں کہتا ہوں اگر انھوں نے { اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ }کے ساتھ آتے ہی اسلام قبول کر لیا تو  { وَ اُوْتِیْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِھَا وَ کُنَّا مُسْلِمِیْنَ }جو اس سے پہلے انھوں نے کہا‘ اس کا کیا مطلب ہے۔ مسعود صاحب!کیا اچھا ہو‘ اگر آپ لکھ کر کسی عالم کو اپنا ترجمہ اور تفسیر دکھا لیا کریں۔ کم از کم آپ کو اپنی غلطیوں کا تو علم ہو جائے ۔ اب اگر ہم بتاتے ہیں تو آپ کے لیے  {اَخَذَتْہُ الْعِزِّۃُ بِالْاِثْمِ } :2]البقرۃ[206:والی  بات ہو جاتی ہے۔ مسعودصاحب!آپ کہتے ہیں اس عورت نے یہ نہیں کہا کہ میںآپ کی مطیع بن کر آئی ہوں۔ میںکہتا ہوں ‘ اس عورت نے یہی کہا تھا ‘ لیکن اﷲ نے { سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیْ الَّذِیْنَ یَتَکَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ}:7]الاعراف [146: اور{ وَ نُقَلِّبُ اَفْئِدَتَھُمْ وَ اَبْصَارَھُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِہٖ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ نَذَرُھُمْ فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ}:6]الانعام[111 کے تحت آپ کی آنکھیں پھیر دی ہیں۔ آپ کو نظر نہیںآتا۔ اس نے  {وَ اُوْتِیْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِھَا وَ کُنَّا مُسْلِمِیْنَ}:27]النمل[42:  پہلے کہا تھا اور  {اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلّٰہِ } بعد میں پڑھا تھا۔

مسعود صاحب! آپ کو اس کا جواب تو آیا نہیں کہ اگر ہمارا ایک ہی نام ہے اور کوئی دوسرا نام نہیں تو اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں ہمیں اس نام سے یعنی ’’ایھاالمسلمون‘‘ کہہ کر کیوں نہیں پکارتا۔؟ آپ نے فلسفہ چھانٹنا شروع کر دیا کہ اﷲ جو ہمیں مسلم نام سے نہیں پکارتا ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم نام علم ہے اور احتراما کسی کو علم نام سے نہیں پکارا کرتے۔ میںکہتا ہوں‘ اولاً  اس کا کیا ثبوت  ہے کہ مسلم نام علم ہے ۔ مسعود صاحب!مجھے تو یہ نظر آتا ہے کہ آپ کو یہ بھی پتا نہیں کہ علم کہتے کسے ہیں ؟ علم کی تعریف کیا ہے اور مسلم نام علم ہو کیسے سکتا ہے ؟ مسعود صاحب !آپ کو علم کی تعریف کریں تو پھر دیکھیں کہ وہ مسلم نام پر صادق آ بھی سکتا ہے یا نہیں؟ جب  تک آپ مسلم نام کو علم ثابت نہ کرلیں آپ کا یہ سارا فلسفہ عبث ہے اور آپ مسلم نام کو علم کبھی ثابت نہیں کرسکتے۔ اس لیے آپ کا یہ کہنا کہ اﷲ نے احتراماً مسلم نام سے نہیں پکارا کیوں کہ یہ علم ہے بالکل باطل ہے۔ 

ثانیاً آپ کا مطلقاً یہ کہنا کہ دوسروں کو احتراماً یا اعزازاً علم سے نہیں پکارا جاتا ‘ صحیح  نہیں۔ والدین اپنی اولاد  کو‘ استاد اپنے شاگردوں کو بڑے بزرگ چھوٹو ں کو اکثر ان کے نام سے ہی پکارتے ہیں جو شفقت و محبت اور بے تکلفی ‘ علم سے پکارنے میںہے ‘ وہ وصفی ناموں سے پکارنے میں نہیں۔ اس میں تکلف کا پہلو زیادہ ہوتا ہے۔ رسول اﷲ ﷺ  صحابہؓ کو  ان کے ناموں سے ہی پکارتے تھے۔ چنانچہ حدیثوں میں جا بجا آتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ((مَالَکَ یٰاَبَابَکْرٍ مَا اَبْکَیْتَ لِاَھْلِکَ))۔۔(( یَا عُمَرُ اَتَدْرِیْ مَنِ السَّائِلُ ‘)) ۔۔((یَاعُمَرُ مَا حَمَلْکَ عَلٰی مَا فَعَلْتَ))  جبریل علیہ السلام بھی رسول اﷲ ﷺ کو ان 

کے نام سے پکارا کرتے تھے۔  چنانچہ مسلم شریف میں ہے: اِنَّ جِبْرِیْلَ اَتَی النَّبِیَّ ﷺ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ اِشْتَکَیْتَ فَقَالَ نَعَمْ  معراج کی حدیثوں میں ہے کہ جب بھی آسمان کے خازن نے پوچھا  کہ تم کون ہو تو جبریل علیہ السلام نے یہی کہا کہ میں جبریل ہوں اور یہ محمد ﷺ ہیں۔ اﷲ تعالیٰ بھی جب رسول اﷲ  ﷺ سے پرائیویٹ  کلام کرتا ہے تو نام لے کر بات کرتا ہے۔ چنانچہ شفاعت کی حدیثوں میں جا بجا آتا ہے۔ یَا مُحَمَّدُ اِرْفَعْ رَاْسَکَ وَ سَلْ  تُعْطَہ‘  لِہٰذَا آپ کا یہ کہنا  باطل ہے کہ مسلم  نام علم ہے اور اﷲ علم نام سے نہیں پکارتا۔ رہ گیا یہ شبہ کہ اﷲ نے قرآن مجید میں کہیں نام لے کر نہیں پکارا تو یہ ایک خاص حکمت کے تحت ہے۔ قرآن چوں کہ سرکاری کتاب ہے اور لوگوں کی ہدایت کے لیے ہے اس لیے اس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (جامع الترمذی ‘ ابواب المناقب ‘ باب رجاؤہ‘ ﷺ ان یکون ابی بکر ممن یدعی من جمیع ابواب الجنۃ ‘ص 2030 رقم 3675)    (صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب الایمان والاسلام والاحسان ‘ص 681 رقم 1مسند احمد 52/1 رقم 369)

 ( صحیح مسلم‘ کتاب الایمان ‘ باب الدلیل علی ان من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعا ‘ص 686-685 رقم (52

 ( صحیح مسلم ‘ کتاب السلام ‘ باب الطب ‘ والمرضی والرقی ص 1066 رقم 40۔۔ مسند احمد 56/3 رقم 11140 ایضا 28/3 رقم 10841)

( صحیح مسلم ‘ کتاب الایمان ‘ باب ادنی اھل الجنۃ منزلۃ فیھا ص 713 رقم 327-322)

 میں آپ کے سرکاری عہدے کے نام سے ہی خطاب مناسب ہے۔ اس لیے جا بجا نبی اور رسول کے نام سے خطاب ہوتا ہے۔ لیکن پرائیویٹ گفتگو میں اﷲ تعالیٰ ‘ محمد ؐ نام  سے ہی پکارتا ہے۔ جیسا کہ شفاعت کی احادیث اور دیگر احادیث میں مذکور ہے۔

آپ صفحہ 18 پر کہتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو مسلم نہیں کہہ سکتے تو کیا غیر مسلم ہیں۔ میں کہتا ہوں مسعود صاحب آپ اپنے آپ کو نیک اور جنتی کہہ سکتے ہیں‘ یا نہیں؟اگر کہہ سکتے ہیں تو نیک اور جنتی ہونے کا دعویٰ کر دیں اور جنتیوں کی ایک جماعت بنالیں اور اگر آپ اپنے آپ کو نیک اور جنتی نہیں کہہ سکتے تو پھر کیا آپ اپنے کو بد اور دوزخی کہنے کے لیے تیار ہیں ؟

مسعود صاحب! آپ اپنے کو مومن کہہ سکتے ہیں یا نہیں ؟ اگر کہہ سکتے ہیں تو جماعت المومنین کیوں نہیں بناتے اور اگر آپ اپنے کو مومن نہیں کہہ سکتے تو کیا اپنے کو بے ایمان کہنے کے لیے تیار ہیں۔مسعود صاحب! سوال عقل سے کیا کرتے ہیں ‘ بے عقلی کے سوال نہیں کیا کرتے۔

مسعود صاحب!آپ صفحہ19پر لکھتے ہیں: ’’ انبیاء علیھم السلام مسلم بننے کی دعائیں 

کرتے تھے‘ بلکہ مسلم بنائے رکھنے کی دعا کرتے تھے۔‘‘

میں کہتا ہوں اگر آپ صحیح کہتے ہیں  تو پھر اﷲ تعالیٰ ابراہیم علیہ السلام کو ’’اسلم‘‘ کیوں کہتا ہے؟ رسول اﷲ ﷺ کیوں کہتے ہیں {وَاُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ} :40]المومن[66:۔۔{ اِنِّیْ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ}:6]الانعام[14:  ابراہیم علیہ السلام کی دعا {رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ}:2]البقرۃ[128: کے کیا معنی ہیں۔ پھر {فَلاَ تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ }:2]البقرۃ[132:کا حکم کیوں ہے ؟

مسعود صاحب قرآن کو سمجھ کر بات کیا کریں۔ صفحہ 20 پر آپ لکھتے ہیں: ’’  رسول ﷺ دعا کیا کرتے تھے۔ {  اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ }:1]الفاتحۃ[5:تو  کیا رسول اﷲ ﷺ صراط مستقیم پر نہ تھے۔‘‘

میں کہتا ہوں کہ یہ دعا صرف رسول اﷲ ﷺ ہی تو نہیں مانگتے تھے سارے مسلمان بھی تو یہی دعا مانگتے ہیں۔ اس لیے کہ ابھی کوئی بھی منزل مقصود پر نہیں پہنچا۔ جیسا کہ اسلام  کا کورس زندگی میں پورا  نہیں ہوتا اس کے پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے وہ دعا کرتے تھے  کہ اﷲ مسلم بناتا رہ جونہی تیرا حکم آئے ‘ اطاعت میں لگ جائیں تب تو مسلم ہیں ورنہ  نہیں۔ اسی طرح زندگی کا راستہ ختم نہیں ہوتا۔ اس کو طے کرنے کی ضرورت ہے۔ مسعودصاحب !آپ سمجھتے  نہیں بات کر دیتے ہیں۔اﷲ فرماتا ہے۔{ اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٍ }:43]الزخرف[43: اے نبی آپ یقینا صراط مستقیم پر ہیں۔ رسول اﷲﷺ  دعا کرتے ہیں: {  اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ } اے اﷲ مجھے صراط مستقیم پر چلاتا رہ تاکہ میںمنزل مقصود تک پہنچ جاؤں۔ یہ نہیں کہ آپ منزل مقصود پر پہنچ چکے تھے اور دعا کرتے تھے  کہ مجھے اس پر کھڑا  رکھ۔ میں کہیں اس سے  پیچھے نہ ہٹ جائوں۔  صراط مستقیم جو کہ حقیقت میں اسلام ہے ‘ لمبا ہے‘ اس کوطے کرنا ہر ایک کاکام ہے۔ نبی ہو یا غیر نبی۔ اور وہ زندگی میں طے نہیں ہوتا  وہ موت پر جا کر ہی ختم ہوتا ہے۔اسی لیے ‘ ادھر یہ دعا ہے‘  کہ   { اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ } ادھر وہ دعا ہے { رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ } آپ کی پیش کردہ دلیل {  اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ } سے بھی بات وہی نکلی جو ہم ثابت کرتے ہیں۔ آپ بات کو سمجھتے نہیں‘ ویسے ضد میں جو سامنے آتا ہے ہانک دیتے ہیں۔ { اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ } سے  یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ زندگی کی منزل مقصود پر پہنچے نہیں ہوتے ‘ وہ دعا کرواتے ہیں کہ اے اﷲ!اپنی اطاعت کے کام کروا تاکہ اسلام والا صراط مستقیم طے کر کے منزل مقصود پر پہنچ جائیں اور یہی تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا کے معنی ہیں  { اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ } میں منزل مقصود پر پہنچانے کی دعا ہے۔ اور  {تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا }میں اسلام کی تکمیل کی دعا ہے۔ا دھر اسلام مکمل ہوا ادھر منزل مقصود پر پہنچا۔  فُزْتُ بِرَبُّ الْکَعْبَۃِ آدمی موت پر ہی کہہ سکتا ہے ۔ صرف کلمہ پڑھ کر یا نماز پڑھ کر ‘ یا کوئی اور کام کرکے زندگی  میں نہیں کہہ سکتا۔ جس طرح زندگی میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم منزل مقصود پر پہنچ گئے ہیں۔ اسی طرح زندگی میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے اسلام کا کورس پورا کر لیا ہے۔ اﷲ کا حکم نازل ہوتا رہتا ہے۔ آدمی اس پر عمل کرکے مسلمان بنتا رہتا ہے اور زندگی بھر سے یہ عمل جاری رہتا ہے ۔ اس لیے  زندگی میں اسلام کی تکمیل نہیں ہوتی۔ اﷲ نے ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ بیٹے کو ذبح کر۔ ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے سے مشورہ کرکے یہ کام کر دیا ‘ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: {فَلَمَّا اَسْلَمَا} جب وہ دونوں مسلم بن گئے‘ انھوں نے اﷲ کا حکم مان لیا۔ اسی طرح آدمی ہر آن مسلم بنتا ہے اور اپنے اسلام کی تکمیل کرتا رہتا ہے۔

آپ صفحہ16پر لکھتے ہیں : قارئین کرام بتائیے کہ وہ اس’’ کُمْ ‘‘ میں شامل ہے کہ نہیں؟ میں کہتا ہوں ‘ مسعود صاحب آپ قارئین سے کیوں پوچھتے ہیں آپ خود بتائیں کہ آپ اس  ’’ کُمْ ‘‘ میں شامل ہیں یا نہیں۔ اگر شامل ہیں تو کس دلیل سے ؟ اگر نہیں ہیں تو پھر جماعت المسلمین کیسی ؟ ۔ مسعو دصاحب!آپ مفسر قرآن بنتے ہیں۔ کبھی تفسیر مطول لکھتے ہیں کبھی مختصر۔۔ یہ تو تشریح فرمائیں کہ یہ ’’ کُمْ ‘‘ کا خطاب کس سے ہے؟ ان سے جو مسلم مکمل ہو چکے ‘ یا ان سے جو ابھی مسلم  مکمل نہیں ہوئے۔ ؟ یہ نام اﷲ نے کب رکھا۔ آپ کے اسلام لانے سے پہلے یا بعد میں ‘ مرزائی اس   ’’ کُمْ ‘‘  میں شامل ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو اس کا کیا ثبوت؟ اگر ہیں تو آپ کو اس کا پتا کیسے لگا؟ کیا ایک خاص مرزائی کے بارے میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اس ’’ کُمْ ‘‘ میں شامل ہے کہ نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟

مسعود صاحب!آپ نے اشکال کاجواب کیا دیا ‘ خود اشکال کا شکار ہو کر مشکل میں پڑ گئے۔ آپ اسلام کی حقیقت کو سمجھتے ‘ نہ جماعت المسلمین بناتے  اور نہ اس مشکل میں پڑتے۔ اسلام اﷲ کے حکم کو دل و جان سے مان کر اس پر عمل کرنے کو کہتے ہیں۔ اﷲ کے احکام زندگی بھر نازل ہوتے رہتے ہیں۔ اس لیے آدمی اس وقت مکمل مسلم ہوتا ہے جب وہ اﷲ کے تمام احکام کی جو زندگی تک نازل ہوتے رہتے ہیں تعمیل کر لیتا ہے۔ {  وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ }:15]الحجر[99: میں بھی اسی طرف اشارہ ہے۔اپنی تعریف کے اعتبار سے اسلام کی ابتدا ایمان سے پہلے ہے‘ لیکن تکمیل اس کی ایمان کے بعد ہے۔ اعراب نے کہا {اَمَنَّا } اﷲ نے فرمایا: { قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوْاوَلٰکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ } :49]الحجرات[14: ابھی تو تم نے صرف کلمہ پڑھا ہے‘ جو اسلام کی ابتدا ہے ‘ ابھی اس کلمے کی حقیقت تمھارے دلوں میں جاگزیں نہیں ہوئی۔ اس لیے ابھی تم مومن نہیں۔ مسعود صاحب!پھر جب کلمے کی حقیقت دلوں میں جاگزیں ہو جاتی ہے آدمی مومن بن جاتا ہے ‘پھر جوں جو ں عمل کرکے وہ ایمان کے تقاضے پورے کرتا جاتا ہے‘ وہ مسلم بنتا جاتا ہے۔ اﷲ کے احکام جاری ہوتے رہتے ہیں ۔ بندہ ان کی تعمیل کرکے اپنے اسلام کی تکمیل کرتا رہتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے {یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَافَّۃً }:2]البقرۃ[208: اے  ایمان لانے والو!اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ۔یعنی ہر لحاظ سے اپنے اسلام کی تکمیل کرو۔ پوری شریعت محمدی پر عمل کرو ‘ جو حکم آتا جائے اس پر عمل کرتے جاؤ۔ اس آیت سے واضح ہے کہ اسلام کی تکمیل ایمان کے بعد ہے۔دوسری آیت میں ہے { اِنْ تُسْمِعُ اِلاَّ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَھُمْ مُسْلِمُوْنَ }:27]االنمل[81: اے نبیؐ ! آپ کے وعظ و نصیحت کا ان لوگوں کو ہی فائدہ ہوتا ہے جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں ‘ پھر ان پر عمل کرکے مسلمان بنتے ہیں۔ اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ اسلام کی تکمیل ایمان کے بعد ہے اور { و َاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ }:15]الحجر[99: سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ بندہ موت تک اﷲ کی بندگی کا مکلف ہے‘ اس وقت تک اس کو تعمیل احکام کرنی پڑتی ہے ۔ اس وقت وہ مکمل مسلم بنتا ہے ۔

مسعود صاحب! آپ کی بے سمجھی کا بھی عجیب حال ہے۔زبیدی صاحب نے ماہنامہ ’’محدث‘‘ میں اپنی ایک ذاتی رائے لکھ دی جو کہ آپ کے مفید مطلب بھی نہیں۔ آپ نے اس پر غور کیا ‘ نہ اسے سمجھا۔ ویسے ہی خوش ہو گئے۔ ان کا مطلب تو یہ ہے کہ اگر تمام فرقے اپنی غلط نسبتوں کو ختم کرنے کے لیے تیار ہوں توپھر تو صحابہ والا دور آ جائے۔ پھر کسی امتیازی نام کی چنداں ضرورت ہی نہ رہے۔پھر اہل حدیث نام پر بھی اصرار کی ضرورت نہیں۔ اہل حدیث نام پر اصرار کی ضرورت اس وقت تک ہے جب تک دنیا میں فرقے ہیں۔ جب فرقے ہی نہ ہوں گے‘ سارے لوگ اصل دین پر ہوں گے تو وہ عملاً اہل حدیث ہی ہوں گے۔ جب سارے اہل حدیث ہی ہوں گے تو اہل حدیث کہلانے کی کیا ضرورت۔؟ جیسا کہ ہم آپ سے کہتے ہیں جب سب مسلمان ہیں تو مسلم کہلانے اور جماعت المسلمین بنانے کی کیا ضرورت ؟ نام تو امتیا ز کے لیے نمایاں کیا جاتا ہے‘ جب کوئی فرق و امتیا ز ہی نہ ہو تو امتیازی نام کا کیا فائدہ ؟ مسلم کہنا کافر کے مقابل تو ٹھیک ہے‘ مسلمانوں میں مسلم بنتے پھرنا حماقت کے سوا کچھ  نہیں ہے۔اسی طرح اہل بدعت کے مقابل میں اہل حدیث کہلانا تو ٹھیک ہے۔ اہل حدیث میں اہل حدیث بننا اس کا کوئی فائدہ نہیں۔زبیدی صاحب کا مطلب بھی یہی ہے کہ اگر امتیازی نام جو لوگوں نے غلط نسبتوں کے ساتھ رکھے ہوئے ہیں ختم ہو جائیں تو پھر       اہل حدیث نام پر اصرار کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ مسعودصا حب!آپ نے غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ اہل حدیث نام کے خلاف آپ کے پروپیگنڈے سے  متاثر ہو کر اہل حدیث میں سے ایک محقق عالم نے اہل حدیثی کو ترک کر دیا۔ مسعودصاحب!زبیدی صاحب جن کا یہ اقتبا س ہے کہ ایسے اہل حدیث نہیں جیسا کہ آپ نے ان کو سمجھ لیا ہے۔ آپ نے تو ان کے ہاتھ دیکھے نہیں۔ اگر کبھی واسطہ پڑ گیا تو چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ وہ فکر و نظر کے آدمی ہیں۔ آپ جیسے لال بجھکڑ نہیں۔ ان کی نظر بہت وسیع ہے۔ وہ سب نشیب و فراز جانتے ہیں۔ اس لیے آپ ان کے اقتباس کا غلط مطلب لے کر اپنا دل خوش نہ کریں۔یہی آپ کی خوش فہمیاں ہیں‘ جن سے ہم نے آپ کو بیدار کیا ہے۔ اور یہ رسالہ لکھا۔ دل تو چاہتا تھا کہ آپ کے رسالے کی ایک ایک بات کا جواب دوں لیکن طوالت کے خوف سے ایسا نہیںکیا۔ اگر آپ عقل والے ہوں گے تو آپ کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔

ضمیمہ

مسعود صاحب!  یقین جانیں یہ مذہب اہل حدیث کی خرابی نہیں‘ یہ آپ کی سمجھ کا قصور ہے جو آپ اہل حدیث پر اعتراض کرتے ہیں‘ اہل حدیث مذہب تو خالص سونا ہے ۔ آپ اس کو چھوڑ کر نیا فرقہ نہ بنائیں۔ یہ فرقہ سازی بڑی خطرناک ہے۔ اس کا انجام بہت برا ہے۔ آپ کے پیچھے لگ کر جتنے گمراہ ہوں گے سب کا بوجھ آپ پر ہوگا۔ آپ کو مذہب اہل ُحدیث کے بار ے میں جتنے شکوک و شبہات ہیں آپ ہمیںلکھیں ‘ ہم ان شاء اﷲ العزیز آپ کو جواب دیں گے۔ آپ ‘ مناظرے کی نہ سوچیں‘ نہ مناظرے کے آپ اہل ہیں اور نہ اس کا آپ کو کوئی فائدہ ہے۔ مسعو د صاحب !جہاں تک میں نے تجربہ کیا ہے ‘ آپ کے بگڑنے کی بڑی وجہ آپ کی کم علمی اور کم فہمی ہے۔ آپ نے ضرورت سے زیادہ اپنے اوپر اعتماد کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ نے ٹھوکر کھائی‘ آپ حقیقت پسند بنے۔اپنی حیثیت کا دوبارہ جائزہ لیں شاید اﷲ آپ کو سمجھ دے دے۔ مسعود صاحب 1385ھ میں آپ نے اپنی جماعت المسلمین بنائی ‘ 1395ھ میں آپ کو اسے داخل دفتر کرنا پڑا۔ اسی سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کتنی سمجھ کے مالک ہیں۔ 

مسعود صاحب! آپ کا سب سے بڑا وار اہل حدیث نام پر ہوتا ہے۔ شیطان آپ کو یہ القا کرتا ہے کہ تیری جماعت المسلمین کا نام تو قرآن و حدیث میں ہے۔ اہل حدیث کہیں بھی نہیں۔ یہ جماعت ابھی ہندوستان میں بنی ہے۔ تو اہل حدیث سے یہی سوال کیا کر کہ تم اپنانام قرآن و حدیث میں دکھاؤ۔ نہ وہ دکھا سکیں گے ‘ نہ تیرے سامنے دم مار سکیں گے۔ بس پھر تیری فتح ہی فتح ہے۔مسعود صاحب آپ غور کریں شیطان آپ کو یہ تو سمجھاتا ہے کہ اہل حدیث جماعت ابھی ہندوستان میں بنی ہے۔ یہ نہیں سمجھاتا کہ تیری جماعت المسلمین تو اس کے بھی بعد کراچی میں بنی ہے۔ مسعود صاحب!یہ سب شیطانی تحریک ہے جو جماعت المسلمین کی وجہ سے آپ کے دل میں پید اہوتی ہے اور آپ ہم سے یہ سوال کرتے ہیں ‘ ورنہ قرآن و حدیث کی رو سے آپ کا یہ سوال بالکل بے بنیاد ہے۔شریعت محمدی میں تو کچھ شرائط کے ساتھ نام رکھنے کی عام اجازت ہے۔ وہ نام قرآن و حدیث میں ہو یا نہ ہو۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے  ((اَحْسِنُوْا اَسْمَائَکُمْ ))نام اچھے رکھا کرو۔ قرآن مجید میں ہے {لاَ تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ  }:49]الحجرات[11: برے نام نہ رکھا کرو۔ اگر نام مناسب ہو ‘ معنی صحیح ہو  موھم الی الشرک والبدعۃ  نہ ہو توا س کے رکھنے میں  کوئی قباحت نہیں۔ مسعو د صاحب !آپ کہتے ہیں کہ تم اپنا نام قرآن و حدیث میںدکھاؤ ‘ میں کہتا ہوں کہ آپ اپنا نام قران و حدیث میں دکھا دیں۔ اگر ہمارا اس وجہ سے جائز نہیں کہ یہ اﷲ اور رسول  ﷺ نے نہیں رکھا۔ تو آپ کا نام بھی جائز نہیں‘ کیوں کہ یہ بھی اﷲ اور رسول  صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہیں رکھا۔ اگر آپ کہیں کہ انسانی ناموں پر کوئی پابندی نہیں۔ انسانوں کو عام اجازت ہے کہ وہ جو 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ( ابوداؤد ‘ کتاب الادب‘ باب تغیر الاسماء ‘ ص 1584 رقم 4948)

مرضی اپنا نام رکھیں۔ میں کہتا ہوں یہ کہاں لکھا ہے  کہ دینی ناموں پر پابندی ہے اور ذاتی ناموں پر کوئی پابندی نہیں۔ اگر بقول آپ کے ذاتی ناموں پر کوئی پابندی نہیں تو کیا کسی مسلمان کو رام چندر نام رکھنا جائز ہے ؟ اگر جائز ہے تو آپ رام چندر نام رکھ کردکھائیں۔ اگر جائز نہیں تو آپ کا یہ کہنا باطل ہو گیا کہ ذاتی ناموں پر کوئی پابندی نہیں۔ مسعود صاحب!نام مذہبی ہو یا ذاتی ‘ ناموں کے بارے میں اسلام کا اصول ایک ہے۔ وہ یہ کہ نام قرآن و حدیث کی تعلیم کے مطابق ہو۔ کسی نام کے صحیح اور جائز ہونے کے لیے قطعا ضروری نہیں کہ وہ نام قرآن و حدیث میں بھی ہو۔جیسے دینی نام اگر شرکیہ اور بدعی ہوں تو ناجائز ہیں۔ مثلا ً غوثیہ‘ اویثیہ‘ حنفیہ‘ چشتیہ وغیرہ ایسے ہی ذاتی نام بھی اگر شرکیہ اور بدعیہ ہوں توناجائز ہیں۔ مثلاً محمد بخش‘ نتھو رام‘ تار امسیح وغیرہ۔ قرآن و حدیث میںہونے یا نہ ہونے کا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ مسعود صاحب! آپ کا بڑا سوال یہ ہوتا ہے کہ جب اﷲ نے مسلم نام رکھ دیا ‘ تو اب کسی اور نام رکھنے کی کیا ضرورت ۔ جب دین صرف اسلام ہے ‘ تو نام بھی صرف ایک ہی ۔۔ مسلم ہونا چاہیے۔ میں کہتا ہوں کہ مسعود صاحب!جب اﷲ نے انسان نام رکھ دیا تو اب مسعود اور محمود نام رکھنے کی کیا ضرورت ؟ جب سب ہی انسان ایک جنس ہیں تو نام بھی صرف ایک انسان ہی ہونا چاہیے اور ناموں کی کیا ضرورت۔؟ اگر آپ کہیں انسان تو جنس کا نام ہے ‘ افراد کا نام نہیں اور انسان کے افراد بہت سے ہیں۔اگر سب کو انسان کہیں تو امتیاز نہیں ہو سکتا۔ اس لیے افراد کا نام رکھنا ضروری ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے ممتا ز ہو سکیں۔ میں کہتا ہوں جیسے انسان ایک جنس ہے ایسے ہی مسلم ایک جنس ہے۔ جیسے مسعود و محمود  وغیرہ اشخاص انسان کے افراد ہیں‘ایسے ہی سنی ‘ شیعہ ‘ حنفی شافعی فرقے وغیرہ مسلم کے افراد ہیں۔ جیسے انسا ن کے افراد میں امتیاز پیدا کرنے کے لیے ان کے نام ضروری ہیں ایسے ہی مسلم  کے افراد میں امتیاز پیدا کرنے کے لیے مسلمان فرقوں کے نام ضروری ہیں۔ مسعود صاحب! یا تو مسلمان فرقوں کے وجود کا انکار کریں اور یہ آپ کر نہیں سکتے کیوں کہ یہ حقیقت ہے اور مشاہدہ تو لازماً آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ مسلمان فرقوں کے امتیازی  نام ضروری  ہیں۔ جب مسلمان فرقوں کے امتیازی نام ثابت ہو گئے تو پھر آپ کا یہ کہنا غلط ہو گیا کہ مسلم کے بعد کسی اور نام کی ضرورت نہیں۔

مسعود صاحب!جب فرقہ بن گیا  تو اس کا فرقہ وارانہ نام پڑ جانا لازمی امر ہے۔ آپ کہتے ہیںفرقہ وارانہ نام رکھنا گمراہی ہے۔ میں کہتا ہوں فرقہ وارانہ نام رکھنا گمراہی نہیں۔ فرقہ بنانا گمراہی ہے۔ جب کوئی فرقہ بن گیا تو جو جرم ہوناتھا وہ تو ہو گیا۔ اب اس کے نام رکھنے میں کیا قباحت۔؟ مسعود صاحب !حرام کا بچہ پیدا کرنا گناہ ہے‘ نام رکھنا گناہ نہیں۔ خدا نخواستہ حرام کا بچہ پیدا ہو جائے تو کیا  اس کا نام نہیں رکھاجاتا۔ گناہ تو حرام کا بچہ پیدا کرنا تھا ‘ جب وہ پیدا ہو گیا تواس کے نام رکھنے میںاب کوئی حرج نہیں نہ شرعاً نہ عرفاً ۔

مسعود صاحب!جیسے انسان کی غلط اولاد بھی انسان ہی کہلاتی ہے ایسے ہی مسلمان فرقے بھی مسلمان ہی کہلاتے ہیں۔ جیسے ناجائز اولاد کا نام رکھنا گناہ نہیں ۔ اگرچہ پیدا کرنا گناہ ہے۔ ایسے ہی گمراہ فرقوں کا فرقہ وارانہ نام رکھنا بھی گناہ نہیں۔ اگرچہ فرقہ بنانا گناہ ہے۔ پھر جیسے غلط اولاد کی نسبت غلط ہوتی ہے اپنے ‘ باپ کی طرف نہیں‘ ایسے ہی گمراہ فرقوں کی نسبت بھی اپنے اصل یعنی اﷲ و رسول کی طرف نہیں ہوتی‘ بلکہ کبھی کسی کی طر ف ہوتی ہے‘ کبھی کسی کی طرف۔جس سے پتا لگ جاتا ہے کہ یہ گمراہ ہے۔ اور اسی سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ صحیح فرقہ کون سا ہے ؟ جیسا جائز اولاد کا پتا اس کے صحیح نسب سے لگتا ہے ایسے ہی صحیح فرقے کا پتا بھی اس کی صحیح نسبت سے لگتا ہے۔  جس فرقے کی نسبت اﷲ  اور اس کے رسول کی طرف ہوگی وہ جائز فرقہ ہوگا اور جس کی نسبت غیر کی طرف ہوگی وہ ناجائز فرقہ ہوگا‘ کیوں کہ اصلی دین کا اصل اﷲ اور اسکا رسولؐ ہیں۔ اس معیار پر اگر دیکھا جائے تو اہل حدیث ہی ایک جائز فرقہ ہے‘ کیوں کہ اس کامذہب قرآن و حدیث بھی صحیح ہے اور اس کی نسبت اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی طر ف بھی صحیح ہے۔ 

مسعود صاحب!آپ کہتے ہیں کہ اﷲ نے مسلم نام رکھا ہے ‘ میں کہتا ہوں اﷲ نے مسلم نام جنس کا رکھا ہے۔ فرقوں کا نہیں رکھا۔ جیسے انسان جنس کا نام ہے ‘ افراد کا نہیں۔ اسی طرح مسلم جنس کا نام ہے ‘ فرقوں کا نام نہیں۔ جیسے انسان کے افراد کا نام ضروری ہے ایسے ہی مسلم کے افراد یعنی فرقوں کا نام ضروری ہے۔ جیسے اﷲ نے جنس انسان کا نام رکھا ہے افراد کا نام نہیں رکھا۔ ایسے ہی اﷲ نے جنس مسلم کا نام رکھا ہے۔ فرقوں کا نام نہیں رکھا۔ جیسے انسان کے افراد کے نام خود رکھے جاتے ہیں‘ ایسے ہی مسلمان فرقوں کے نام خود رکھنے ہوتے ہیں۔ اس میں مسلمانوں کا امتحان ہے کہ آیا وہ اپنے فرقے کا نام اپنی جنس مسلم کے مطابق رکھتے ہیں یا اس کے خلاف رکھتے ہیں۔ جس فرقے کا نام مسلم کا مترادف ہو گا وہ  پاس باقی فیل - کیوں کہ انھوں نے اسلام کی حقیقت کو نہیں سمجھا۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ پہلے ہم مسلم ہیں‘ پھر اہل حدیث۔ مسلم ہماری جنس اور اہل حدیث ہماری فصل۔ مسلم  نام کے ساتھ ہم کافروں سے ممتا ز ہیں اور اہل حدیث نام کے ساتھ بدعتی فرقوں سے ۔ کافروں کے مقابلے میں ہم مسلم ہیں‘ اور اہل بدعت کے مقابلے میں ہم اہل حدیث ہیں۔ مسعود صاحب ہم جو اہل حدیث کہلاتے ہیں اور آپ کی طرح بے تحاشا مسلم نہیں کہلاتے‘ جماعت المسلمین نہیں بناتے تواس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم مسلم نہیں ‘ یا ہمیں مسلم نام پسند نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں جتنا امتیاز اہل حدیث نام سے ہو سکتا ہے اتنا امتیاز مسلم نام سے نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ مسلم جنس ہے اور اہل حدیث فصل جنس ‘ مشارکات بعیدہ سے فصل کرتی ہے۔ مشارکات قریبہ سے نہیں۔ اسی لیے مسلم نام کی زیادہ ضرورت کافروں کے مقابلے میں ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے مقابلے میں نہیں۔ مسلمانوں میں تو اہل حدیث ہی سے زیادہ امتیا ز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں ہمارا اہل حدیث نام زیادہ مشہور ہے- مسعود صاحب یہ آپکی کتنی بے سمجھی ہے جو آپ مسلمانوں میں مسلم کہلاتے ہیں۔ آپ کو اتنی بھی سمجھ نہیں کہ مسلم کا لفظ کافروں کے مقابلے میں ہے ‘ مسلمانوں کے مقابلے میں نہیں۔ اس لیے آپ کا مسلمانوں میں جماعت المسلمین نام کی جماعت بنانا انتہائی بے سمجھی کا کام ہے۔ مسعود صاحب!پاکستانی ہم غیر ملکیوں کے مقابلے میں ہیں‘ پاکستانی ہم پاکستانیوں کے مقابلے میں نہیں۔ جیسے پاکستانیوں میں پاکستانی کہلانا بے وقوفی ہے‘ ایسے ہی مسلمانوں میں مسلم کہلانا بے وقوفی ہے۔ جیسے پاکستان میں رہتے ہوئے ہم پنجابی‘ سندھی ‘ یا لاہوری ‘ پشاوری  تو کہلا  سکتے ہیں پاکستانی نہیں کہلا سکتے۔ اسی طرح مسلمانوں میں رہتے ہوئے ہم حنفی شافعی‘ اہل سنت ‘ اہل حدیث ‘ شیعہ‘ سنی وغیرہ تو کہلا سکتے ہیں‘ مسلمانوں میں رہتے ہوئے ہم مسلم نہیں کہلا سکتے۔ مسعود صاحب!قرآ ن میںجہاں بھی اپنے آپ کو مسلم کہنے کا ذکر آیا ہے‘ وہ کافروں کے مقابلے میںہے۔ مسلمانوں کے مقابلے میں نہیں۔ آپ بے سمجھی سے ان کو اپنے مسلم کہلانے  اور جماعت المسلمین بنانے کی دلیل بناتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک اتنے فرقے ہوئے  ‘ لیکن کسی نے بھی ان آیات کو دلیل بنا کر جماعت المسلمین نام کی جماعت نہیں بنائی۔ مسعود صاحب!یہ بے سمجھی  آپ کی قسمت میں ہی لکھی تھی۔


٭٭٭٭٭