اہل حدیث کی نماز غیر
اہل حدیث کے پیچھے
ا۔ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ
ب۔ و علیکم السلام ور حمۃ اﷲ و برکاتہ‘ بڑے عرصے کے بعد تشریف لائے‘
کہیے ! آج کیسے آنا ہوا؟
ا۔ ایک مسئلہ پوچھنا
تھا۔
ب۔ وہ کیا ؟
ا۔ ایک اہل حدیث کی نماز کسی غیر اہل حدیث کے پیچھے ہو جاتی ہے ؟
ب۔ اہل حدیث کی نماز کسی غیر اہل حدیث کے پیچھے کیسے ہو سکتی ہے؟
اہل حدیث حق ‘ غیر اہل حدیث باطل۔ باطل حق کا امام کیسے ہو سکتا ہے اور پھر حق
باطل کواپنا امام
کیسے بنا سکتا ہے ؟ کسی کو امام بنانا تو گویا اس کے تابع ہونا ہے۔ اگر حق باطل کے
تابع ہو جائے‘ تو دین کا سارا سلسلہ ہی خراب ہو جائے۔ قرآن مجید میں ہے: (
وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَھْوَائھُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ
وَالْاَرْضُ )[23:المومنون:71]اگر حق باطل کے تابع ہو جائے تو دین کا
معاملہ تو ایک طرف رہا ‘ کائنات کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے۔ اگر اہل حدیث غیر
اہل حدیثوں کے پیچھے نمازیں پڑھنے لگ جائیں تو حق کہاں رہا؟ حق کی فوقیت تو ختم ہو
گئی ‘ حق ہے ہی اپنی فوقیت کے ساتھ۔ اَلْحَقُّ
یَعْلُوْا وَ لاَ یُعْلٰی جو فوقیت نہ رہی تو حق نہ رہا۔ حق کی بقا حق کی فوقیت میں ہے اور
حق کی
فوقیت امام اور مقتدا بننے میں ہے‘ نہ کہ مقتدی بننے میں۔ جب حق باطل کا مقتدی بن
گیا تو معاملہ بالکل الٹ گیا۔ اب اہلحدیث یا تو اپنے آپ کو حق نہ کہیں اور اگر وہ
اپنے آپ کو حق کہتے ہیں اور حق سمجھتے ہیں تو باطل کو اپنا امام نہ بنائیں۔ وہ حق
ہی کیا ہوا جو باطل کو اپنا امام مان لے اور اس کے پیچھے نمازیں پڑھنے لگ جائے۔ حق
کی شان یہ نہیں کہ وہ مقتدی بنے ‘ حق کی شان یہ ہے کہ وہ امام ہو۔ حق امام ہے ‘ اس
کو امام ہی رہنا چاہیے۔ رسول اﷲ ﷺ کا اسی لیے کوئی امام نہیں بن سکتا تھا حتی کہ
آپ کے جنازہ میں بھی کوئی آپ کا امام نہیں بنا۔ اسی اصول پر تو عورت مردوں کی امام
نہیں بن سکتی۔ اگرچہ وہ علم وتقویٰ میں مردوں سے بھی زیادہ ہو۔ عورت درجے میں مرد
سے کم ہے۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے عورت کو مرد کے تابع رکھا ہے۔ وہ مرد کی امام نہیں
بن سکتی۔ اگر عورت مردوں کی امام بنے تو اس میں مرد کی توہین ہے۔ جب عورت مرد کی
امام نہیں بن سکتی کیوں کہ اس میں مرد کی توہین ہے تو باطل حق کا امام کیسے بن
سکتا ہے ؟ کیا باطل کے امام بننے میں حق کی توہین نہیں۔ حق باطل کو مٹانے آیا ہے۔ (جَاءَ
الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا)[17:الاسراء:81]نہ کہ اس کو اپنا
امام بنا کر اس کو عزت بخشے۔ اہل حدیث اگر کسی غیراہل حدیث کے پیچھے نماز پڑھے تو
اس میں اہل حدیث کی بڑی توہین ہے۔ غیراہل حدیث اگر اہلحدیث کا امام بن جائے تو اس
سے غیر اہل حدیث کی اہل حدیث کے برابری بلکہ برتری لازم آتی ہے اور باطل کی حق سے
برتری بلکہ برابری شرعاً کبھی جائز نہیں ہو سکتی۔ وہ فعل کیسے جائز ہو سکتا ہے جس
میں حق کی توہین ہو۔ اس لیے اہل حدیث کی نماز کسی غیر اہل ہدیث کے پیچھے کبھی جائز
نہیں ہو سکتی۔حق کی عزت بلکہ عافیت باطل سے دور رہنے میں ہے۔ باطل سے میل جول کرنے
میں حق کی خیر نہیں۔ باطل سے میل ملاپ کرنے سے حق گر جاتا ہے اور باطل چڑھ جاتا ہے
۔ ملاوٹ میں ہمیشہ اعلیٰ کی قیمت گرتی ہے اور ادنیٰ کی چڑھتی ہے۔ خوشبو اور بدبو
کو اکٹھا کر دیا جائے تو بدبو ہی غالب آ تی ہے۔ باطل سے اختلاط کرنے سے باطل کی
نفرت کم ہو جاتی ہے جس سے باطل اپنی ظاہری ٹیپ ٹاپ اور ملمع سازی کی وجہ سے عوام
کی گمراہی کا سبب بنتا ہے‘ جو بڑا نقصان ہے۔ اسی وجہ سے رسول اﷲ ﷺ نے اہل بدعت سے
دور رہنے کاحکم دیا ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا: وَ
لاَ تُجَالِسُوااَھْلَ الْقَدْرِ ۔۔۔ ۱ یعنی ان سے بالکل میل
جول نہ کرو۔ قرآن مجید میں ہے (
فَلاَ تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ
الظّٰلِمِیْنَ)[6:الانعام:68]یعنی اہل باطل کے پاس بھی نہ بیٹھو۔ اگر
بھول جاؤ تو یاد آنے کے بعد فوراً اٹھ جاؤ۔ یہ میل جول کا ہی نتیجہ ہے جو گمراہی
آج کل زوروں پر ہے۔ اہل حدیث دیوبندی بنتے جا رہے ہیں اور دیوبندی بریلوی بنتے جا
رہے ہیں اور بریلوی شیعہ‘ باطل کو امام بنانے میں حق کی تذلیل اور باطل کی تکریم
ہے۔ اس لیے اہل حدیث کو چوں کہ وہ حق ہے کسی غیر اہل حدیث کے پیچھے کبھی نماز نہیں
پڑھنی چاہیے۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ رسول اﷲ ﷺ تو باطل سے دور رہنے کا حکم دیں
اور اہل حدیث باطل کو اپنا امام بنانے کے لیے تیار ہو جائیں۔
ا۔ کیاغیر اہل حدیث سب ہی باطل ہیں ؟
ب۔ جب اہل حدیث ہی حق ہے ‘ تو کوئی غیر اہل حدیث حق نہیں ہو سکتا۔
غیر تو غیر ہی ہوتا ہے وہ غیر ہی کیا ہوا جو مغائر نہ ہو؟ اور حق کا مغائر باطل
ہے۔
جیسے حق اور غیر حق
دونوں حق نہیں ہو سکتے اسی طرح اہل حدیث اور غیر اہل حدیث دونوں حق نہیں ہو سکتے۔
حق ایک ہی ہوگا۔ اہل حدیث یا غیر اہل حدیث۔ جب اہل حدیث ہی حق ہے تو غیراہل حدیث
ضرورغیر حق ہوگا اور جو غیر حق ہو گا وہ ضرور باطل ہوگا۔ اس لیے غیراہل حدیث سب
باطل ہیں۔
ا۔ اس کا کیا ثبوت کہ اہل حدیث ہی حق ہے اور کوئی حق نہیں؟
ب۔ کسی فرقے کے حق ہونے کی تین شرطیں لازمی ہیں:.
1–وہ
فرقہ حضور ﷺ کے زمانے سے ہو‘ بلکہ آپ ؐ نے خود اس کی جڑ بنیاد رکھی ہو۔ اگر کوئی
فرقہ حضور ﷺ کے بعد پیدا ہو تو وہ نومولود ہے جس کو بدعتی کہا جا سکتا ہے اور
بدعتی فرقہ کبھی حق نہیں ہو سکتا۔
2–وہ فرقہ ہمیشہ اور ہر زمانے میں موجود ہو‘ کوئی زمانہ اس سے خالی
نہ ہو۔ مختلف احادیث میں مختلف الفاظ آتے ہیں:
لاَ تَزَالُ طَائفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ ظَاہِرِیْنَ عَلَی الْحَقِّ
‘ مَنْصُوْرِیْنَ لاَ یَضُرُّھُمْ مَنْ خَذَلَھُمْ وَ لاَ مَنْ خَالَفَھُمْ حَتّٰی
تَقُوْمَ السَّاعَۃَ اَوْ کَمَاقَالَ۔ ۔۲
یعنی رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا‘ میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر
رہے گا اور غالب رہے گا۔ باطل فرقے ‘ خواہ اس سے برسرپیکار ہی رہیں‘ وہ قیامت تک
نہیں مٹے گا۔ اﷲ اس کا ناصر و مددگار رہے گا۔ جو فرقہ کسی زمانے میں ہو اور کسی
میں نہ ہو‘ وہ
کبھی حق نہیں ہو سکتا۔
ا۔ ہر زمانہ میں ہونا کیوں ضروری ہے؟
ب۔ تاکہ ہر زمانہ میں دنیا کو ہدایت ملتی رہے اور نئے نبی کی ضرورت
نہ پڑے۔جب اﷲ نے یہ اعلان کر دیا ‘ کہ محمدﷺ آخری نبیؐ ہیں‘ ان کے بعد کوئی نبی
نہیں آئے گا۔ اہل حق
کا ہر زمانہ میں موجود رہنا ضروری ہے‘ کیوں کہ وہ نبی ﷺ کے خلفا اور قائم مقام
ہیں۔
3– وہ فرقہ ((مَا
اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیَ ))کے طریقہ پر ہو ‘ وہ سیدھا سادہ قرآن و
حدیث پر عمل کرنے والا ہو اس کا انداز اس کے عقائد و مسائل وہی ہوں جو صحابہؓ کے
تھے اس میں کوئی نیا مذہبی رنگ نہ آیا ہو۔ بدعات کو جذب کرنے کی اس میں بالکل
صلاحیت نہ ہو‘ ان تینوں معیاروں پر صرف اہل حدیث ہی پورے اترتے ہیں اور کوئی فرقہ
اس معیار پر پورا نہیں اترتا ۔ اہل حدیث کے سوا جتنے بھی فرقے ہیں سب نومولود ہیں‘
ان میں سے کوئی بھی حضور ﷺ کے زمانے میں موجود نہ تھا‘ خاص طو رپر مقلدین حنفی ہوں
یا شافعی‘ دیوبند ہوں یا بریلوی سب رسول اﷲ ﷺ کے بعد کی پیداوار ہیں۔ جب مقلدین کے
ائمہ حضور ﷺ کے زمانہ میں پیدا نہیں ہوئے تھے تو مقلدین کہاں سے پیدا ہوئے ہوں گے۔
اس لیے صحابہ میں کوئی حنفی شافعی‘ دیوبندی‘ بریلوی‘ چشتی‘ سہروردی نہ تھا‘ برعکس
اس کے اہل حدیث اس وقت سے ہیں جب سے قرآن و حدیث ہیں۔حدیث اﷲ اور اس کے رسول کی
باتوں کو کہتے ہیں‘ لہٰذا پہلے اہل حدیث صحابہؓ تھے۔ جو اﷲ اور رسولؐ کی بات قرآن
و حدیث پر عمل کرتے تھے۔ آج بھی جو اہل حدیث ہیں وہ صحابہؓ کی طرح قرآ ن و حدیث پر
ہی عمل کرتے ہیں۔ کسی کی تقلید نہیں کرتے۔ اہل حدیث آج بھی ((
مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ )) کے صحیح طریق پر ہیں۔اہل حدیث ہی وہ جماعت ہے جو رسول اﷲ ﷺ سے لے کر آج تک
چلی آ رہی ہے ‘ وہ ہمیشہ رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ یہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے
زمانے میں بھی تھی اور آخر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی کے زمانے میں
بھی ہوگی۔
بلکہ عیسیٰ علیہ السلام امام مہدی ‘ قرآن و حدیث پر عمل کرنے والے
اہل حدیث ہوں گے۔ وہ مقلدوں کی طرح حنفی‘ شافعی ‘ دیوبندی ‘ بریلوی نہ ہوں گے ۔ وہ
خود ساختہ امتی اماموں کے مقلد نہ ہوں گے بلکہ قرآن و حدیث پر چلنے والے ہوں گے۔
آپ خود ہی سوچیں کیا عیسیٰ علیہ السلام حنفی ‘ شافعی بریلوی‘ دیوبندی ہو سکتے ہیں؟
کیا ایک نبی کسی امتی کا مقلد ہو سکتا ہے ؟
۱۔
یہ بات تو صحیح ہے کہ نبی کسی امتی کا مقلد نہیں ہو سکتا ۔
ب۔ جب نبی کسی امتی کا مقلد نہیں ہو سکتا‘ تو عیسیٰ علیہ السلام
حنفی یقیناًنہیں ہوں گے‘ کیوں کہ حنفی بننے میں عیسیٰ علیہ السلام کی بڑی توہین
ہے۔جب عیسیٰ علیہ
السلام حنفی نہیں ہوں
گے ‘ بلکہ حنفیت ان کے لیے ذلت و توہین کا موجب ہے تو عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے
کے مسلمان بھی حنفی نہ ہوں گے۔ ان کا مذہب بھی وہی ہوگا جو عیسیٰ علیہ السلام کا
ہوگا۔ عیسیٰ علیہ السلام کا مذہب قرآن وحدیث ہوگا۔ وہ حضور ﷺ کے متبع ہوں گے اور
یہی مذہب اہل حدیث کا ہے اور یہی اصل اسلام ہے اور یہ نبی ہو یا امتی سب کے لیے
قابل عزت او ر قابل قبول ہے۔ اس لیے عیسیٰ علیہ السلام بھی اہل حدیث ہوں گے اور
تمام مسلمان بھی۔ اس زمانہ کا کوئی مسلمان حنفی شافعی‘ دیوبندی ‘ بریلوی نہ ہوگا ‘
بلکہ سب اہل حدیث ہوں گے۔ ثابت ہوا کہ اہل حدیث ہی حضور ﷺ کے زمانہ میں تھے اور
اہل حدیث ہی آخری زمانہ میں ہوں گے۔
اہل حدیث جماعت ہی وہ جماعت ہے جس میں بدعات کی کوئی گنجائش نہیں
باقی تمام فرقے چوں کہ نومولود ہیں اور تقلیدی عمل سے پیدا ہوئے ہیں اس لیے سب
بنیادی طورپر بدعتی ہیں اور بدعات کو جذب کرنے کی بہت صلاحیت رکھتے ہیں۔ہر تقلیدی
فرقہ بدعتی ہے ‘ کیوں کہ تقلید خود بدعت ہے۔ اہل حدیث قرآن وحدیث کے پابند ہیں۔ نہ
ان میں تقلید ہے ‘ کہ وہ کسی کواپنا امام بنائیں ‘ نہ ان میں تصوف کے سلسلے ہیں کہ
وہ چشتی یا قادری بن کر ضربیں لگائیں ۔ اہل حدیث کا اﷲ کے رسول ﷺ کے بعد کوئی دینی
امام یا مذہبی پیشوا نہیں۔ وہ صرف حدیث رسول ؐ سے ثابت شدہ سنت رسول ؐ پر ہی عمل
کرتے ہیں۔ا س لیے بدعات کی تمام خرافات سے بچے ہو ئے ہیں۔ اس لیے اہل حدیث ہی خالص
اسلام ہے اور کوئی فرقہ ایسا نہیں جس کو حق کہ سکیں کیوں کہ سب میں کھوٹ اور بھرتی
ہے۔ یہ تو تھی کسی فرقے کے حق ہونے کی شرائط اور علامات ۔ اب دیکھیں ‘ حق کسے کہتے
ہیں اور اہل حق کون لوگ ہیں؟ حق وہ ہے جو اﷲ کہے اور جو اﷲ کی طرف سے آیا ہو ۔
قرآن مجید میں ہے:
(وَاﷲُ
یَقُوْلُ الْحَقَّ وَ ھُوَ یَھْدِی السَّبِیْلَ )[33:الاحزاب:4]
(اَلْحَقُّ
مِنْ رَّبِّکَ )[3:آل عمران:60]
( قُلْ
اِنَّ ھُدَی اﷲِ ھُوَ الْھدٰے )[2:البقرہ:120]
(وَ
اٰمِنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّھُوَ الْحَقُّ مِن رَبِّھَم
)[47:محمد:2]
قرآن مجید میں اس قسم
کی بہت آیات ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اﷲ نے جو اپنے نبی ؐ پر نازل کیا ہے وہ حق
ہے۔ چونکہ اﷲ نے اپنے نبی ﷺ پر قرآن وحدیث نازل کیا ہے ۔(وَ اَنْزَلَ اﷲُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ
وَالْحِکْمَۃَ )[4:النساء:113] اس
لیے حق صرف قرآن وحدیث ہے اور جو قرآن وحدیث کو کماحقہ مانے وہی اہل حق ہے ۔ قرآ ن
و حدیث ہی اصل اسلام ہے۔اس کی عملی تعبیر کرتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام
ہر زمانے میں اپنے نبی کی پیروی کرنے کا نام ہے۔نوح علیہ السلام اور ابراہیم علیہ
السلام کے زمانے میں اسلام ان کی پیروی کا نام تھا۔ موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام
کے زمانہ میں اسلام ان کی پیروی کا نام تھا۔ آج اسلام صرف محمد ﷺ کی پیروی کا نام
ہے۔ آج اہل حق وہی ہو سکتے ہیں جو محمد ﷺ کی پیروی کریں۔ کسی پیر ‘ فقیر ‘ امام
اور ولی کی پیروی کرنے والے اہل حق نہیں ہو سکتے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ اماموں
کے مقلد حنفی ہوں‘ شافعی ‘ دیوبندی ہوں یا بریلوی کبھی اہل حق نہیں ہو سکتے۔اہل حق
صرف اہل حدیث ہی ہو سکتے ہیں‘ جو صرف محمد ﷺ کی پیروی کرتے ہیں۔ کسی پیر ‘ فقیر ‘
امام اور ولی کی تقلید نہیں کرتے۔ محمد ﷺ کی پیروی کرنے والے اس لیے بھی اہل حق
ہیں کیوں کہ محمد ﷺ خود حق پر تھے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے
حق پر ہونے کی گارنٹی دی ہے۔ کسی پیر‘ فقیر یا امام اور ولی کے حق پر ہونے کی
گارنٹی نہیں دی۔ قرآن کہتا ہے:
(وَ مَا
یَنْطِقُ عَنِ الُھَوَیOاِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ
یُّوْحٰی )[53:النجم:3-4]
( اِنَّکَ
عَلَی الْحَقِّ الْمُبِیْنَ )[27:النمل:79]
( فَاسْتَمْسِکْ
بِالَّذِیْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ )[43:الزخرف:43]
( مَنْ
یُّطْعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اﷲَ )[4:النساء:80]
اس لیے اﷲ تعالیٰ نے
صرف اپنے نبیؐ کے اتباع کا حکم دیا ہے اور کسی کے اتباع کا حکم نہیں دیا ہے ‘ بلکہ
اوروں کے اتباع سے منع فرمایا ہے۔
( اِتَّبِعُوْا
مَا اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لاَ تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖ
اَوْلِیَاءَ )[7:الاعراف:3]
اور نبی ﷺ کے اتباع
پر ہی اپنی محبت اور مغفرت کا وعدہ فرمایا ہے اور نبی ﷺ کی اطاعت سے اعراض کو کفر
بتایا ہے۔ چنانچہ فرمایا
( قُلْ
اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اﷲُ وَ
یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاﷲُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ O قُلْ اَطِیْعُوا اﷲَ وَالرَّسُوْلَ ج فَاِنْ
تَوَلَّوْ فَاِنَّ اﷲَ لاَ یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ )[3:آل عمران:31-32]
اے نبی ؐ ! آ پ لوگوں
سے کہہ دیں کہ اگر تمھیں اﷲ سے محبت ہے تو میرا اتباع کرو۔پھر اﷲ تم سے محبت کرے
گا اور تمھارے گناہ بخشے گا آپ لوگوں سے یہ بھی کہ دیں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی
اطاعت کرو۔ اگر تم نے ان کی اطاعت سے اعراض کیا تو کافر ہو جاؤ گے اور کافروں سے
اﷲ محبت نہیں کرتا ۔
جب یہ طے ہے کہ آج
اسلام محمد ﷺ کی پیروی کا نام ہے ‘ تو آج اہل حق صرف وہی ہیں جو صرف محمد صلی اﷲ
علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی ان کی سنّت پر
چلنے سے ہی ہو سکتی ہے۔ اس لیے آج اہل حق صرف اصلی اہلسنت ہی ہیں۔
ا۔ پھر تو بریلوی اہل حق ہوئے ‘ کیوں کہ اہل سنت آج کل وہی کہلاتے
ہیں۔
ب۔ بریلوی صرف اہل سنّت نہیں کہلاتے ‘ وہ حنفی ‘ بریلوی‘ رضوی وغیرہ
اور بھی بہت کچھ ساتھ کہلاتے ہیں۔ اس لیے وہ اصلی اہل سنّت نہیں۔ اگر وہ اصلی
خالص اہل سنّت ہوتے
تو وہ اہل سنّت پر ہی بریک مارتے ‘ آگے بالکل نہ جاتے۔ انھوں نے اہل سنّت پر سٹاپ
نہیں کیا‘ بلکہ آگے نکل گئے۔ وہ پہلے حنفی بنے ‘ پھر بریلوی ۔ اس کا صاف مطلب یہ
ہے کہ وہ اب اہل سنّت نہیں۔ اگر اہل سنّت ہوں تو پھر حنفی اور بریلوی بننے کا سوال
ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حق ایک ایسی اکائی ہے کہ اس سے آگے نکلنا بھی گمراہی ہے اور اس
سے پیچھے رہنا بھی گمراہی۔ قرآن کا اعلان ہے( فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلاَّالضَّلاَلُ
فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ )[10:یونس:32]حق کے علاوہ سب گمراہی ہے۔ اس لیے اِدھر
اُدھر کہاں جاتے ہو۔ جو اصلی اہل سنّت ہو وہ حنفی نہیں ہو سکتا اور جو حنفی بن
جائے وہ اہل سنّت نہیں رہ سکتا کیوں کہ اہل سنّت نبی ﷺ کی سنّت پر چلنے والے کو
کہتے ہیں۔ حنفی امام ابوحنیفہ ؒ کی تقلید کرنے والے کو۔ اس لیے حنفی اہل سنّت نہیں
ہو سکتا۔ اہل سنّت نبی ﷺ کی سنّت پر چلتا ہے ‘جو نبی ﷺ کی صحیح حدیث سے ثابت ہوتی
ہے۔ حنفی فقہ حنفی پر چلتا ہے۔جو تقلید در تقلید سے بنتی ہے۔ کرے تقلید امام
ابوحنیفہ ؒ کی اور کہلائے اہل سنّت ‘ یہ انصاف نہیں۔ جائے کوفہ کو اور راہ پوچھے
مدینے کا۔ یہ اخلاص نہیں۔ اصلی اہل سنّت کبھی حنفی نہیں بنتا‘ کیوں کہ اہل سنّت
بننے کے بعد تنزل ہے ترقی نہیں‘ ضلالت ہے ہدایت نہیں۔ ہدایت و ترقی اصلی اور خالص
اہل سنّت بننے میں ہی ہے۔
ا۔ آپ لوگ پھر اہل حدیث کیوں بن گئے؟
ب۔ تاکہ اصلی اور خالص اہل سنّت بن سکیں۔ میرے بھائی اہل حدیث کوئی
اور فرقہ نہیں۔ یہ اہل سنّت کا ہی تعارفی اور وضاحتی نام ہے۔ یہ ایک ہی چیز کے
دو نام ہیں۔ اہل حدیث
نام سے اہل سنّت کا مفہوم واضح ہوتا ہے۔ اہل سنت کی حدود و قیود متعین ہوتی ہیں۔
حدیث سنّت کے لیے قید اور شرط ہے۔ حدیث ہی سے سنت اور بدعت میں امتیاز ہوتا ہے۔
اگر کوئی سنت صحیح حدیث سے ثابت نہ ہو ‘ تو وہ سنّت نہیں‘ بدعت ہے۔ حدیث سنّت کا
گھر ہے۔ حدیث سے بے نیازی سنت سے محرومی ہے۔ اس لیے اہل سنّت بننے کے لیے اہل حدیث
بننا لازمی ہے۔جو اہل حدیث بنے بغیر اہل سنّت بننے کی کوشش کرتا ہے ‘ وہ پھر
بریلویوں کی طرح کا ہو جاتا ہے۔اسے پھر بدعت ہی سنت نظر آنے لگ جاتی ہے۔ بریلویوں
کا حال آپ کے سامنے ہے۔انھوں نے اہل حدیث بنے بغیر اہل سنّت بننے کی کوشش کی۔وہ
بدعتوں کا شکار ہو کر اہل بدعت ہو گئے۔ آج وہ کہنے کو اہل سنت ہیں۔ لیکن درحقیقت
وہ اہل بدعت ہیں۔ وہ نت نئی بدعتیں ایجاد کرتے ہیں۔ اصلی اہل سنّت اہل حدیث ہی
ہیں۔ وہ اہل حدیث ہونے کی وجہ سے ہی بدعتوں سے بچے ہوئے ہیں۔ وہ حدیث کو دیکھ کر
ہی سنت پر عمل کرتے ہیں۔ جو سنت حدیث سے ثابت نہ ہو وہ اسے سنت نہیں مانتے بلکہ
بدعت سمجھتے ہیں اور اس سے پرہیز کرتے ہیں۔ اس لیے وہی اہل حق ہیں کیوں کہ وہی
بدعات سے مبّرا ہیں۔
ا۔ آپ کا یہ کہنا عجیب ہے کہ قرآن و حدث کو صرف اہل حدیث ہی مانتے
ہیں اور کوئی نہیں مانتا۔ قرآن وحدیث کو تو سب مانتے ہیں ‘ کون ایسا بدبخت ہے
جو قرآن و حدیث کو نہ
مانے۔؟
ب۔ اگر سارے قرآن و حدیث کو مانتے ہوں تو مسلمانوں میں اتنے فرقے
کیوں ہوں؟ کیا قرآن و حدیث کا قصور ہے جو مسلمانوں میں اتنے فرقے ہیں؟
ا۔ یہ قرآن و حدیث کا قصور تو نہیں‘ قصور تو یہ مسلمانوں کا ہی ہے ‘
جو اتنے فرقوں میں بٹ گئے۔
ب۔ میرے بھائی لوگ فرقوں میں بٹتے ہی اس وقت ہیں جب قرآن و حدیث یا
اﷲ رسول کو چھوڑ کر اماموں اور پیروں فقیروں کو ماننے لگ جاتے ہیں۔اگر
سب ایک کو ہی مانیں ‘
اسی کے فیصلے کو ناطق سمجھیں تو فرقہ بن ہی نہیں سکتا۔ آپ کہتے ہیں اور بھی لوگ اﷲ
کے رسول ؐ کو مانتے ہیں ‘ صرف اہل حدیث ہی تو نہیں مانتے۔ میں کہتا ہوں اہل حدیثوں
کے ماننے میں اور اوروں کے ماننے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اہل حدیث کاماننا یہ
ہے کہ وہ اﷲ کے رسول ﷺ کے ساتھ اور کسی کو نہیں ملاتے‘ وہ صرف اﷲ کے رسول صلی اﷲ
علیہ وسلم کو ہی اپنا امام مانتے ہیں ‘اور کسی کو اپنا امام یا مذہبی پیشوا نہیں
بناتے۔ وہ اﷲ کے رسول ؐ ہی کا اتباع کرتے ہیں اور کسی کا اتباع نہیں کرتے۔ اوروں
کا ماننا یہ ہے کہ وہ نام تو اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا بڑے تقدس سے لیتے ہیں
‘ لیکن عملاً مانتے وہ اپنے ان اماموں کو ہی ہیں جن کی وہ تقلید کرتے ہیں‘ مقلدوں
کا رسول ؐ کو ماننا ایسے ہی ہے ‘ جیسا مشرکین کا اﷲ کو ماننا۔ جیسے مشرکین صرف اﷲ
کا نام لیتے ہیں ‘ کام اپنے بنائے ہوئے خداؤں سے ہی لیتے ہیں۔ امید اور خوف ان سے
ہی رکھتے ہیں۔ مشکل کشا اور حاجت روا ان کو ہی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح مقلدین نام نبی
ﷺ کا لیتے ہیں ‘ لیکن عملاً تقلید اپنے بنائے ہوئے امام کی کرتے ہیں۔ جیسے مشرکوں
کو اﷲ کے ماننے کا کوئی فائدہ نہیں ‘ کیوں کہ وہ اﷲ کو مان کر بھی مشرک اورکافر ہی
ٹھہرتے ہیں ‘ اسی طرح مقلدوں کو بھی رسول ؐ کے ماننے کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہ رسول
ؐ کو مان کر بھی اس کے اتباع سے محروم ہی رہتے ہیں‘ کیوں کہ تقلید اپنے امام کی ہی
کرتے ہیں۔جیسے مشرک اپنے بنائے ہوئے معبودوں کو خدا نہیں کہتے‘ لیکن دل میں ان کو
درجہ خدا ہی کا دیتے ہیں۔ اس طرح مقلدین اپنے بنائے ہوئے اماموں کو نبی اور رسول
نہیں کہتے ‘لیکن درجہ ان کو نبی اور رسول کا ہی دیتے ہیں۔ ان کی تقلید کرتے ہیں۔
ان کے نام پر اپنے مذہب بناتے ہیں۔ نبی ﷺ کا نام ویسے بڑے تقدس سے لیتے ہیں ‘ لیکن
عملی زندگی میں وہ مانتے اپنے اماموں کو ہی ہیں۔ اپنے امام کی بات کو سیدھا کرنے
کے لیے وہ قرآن وحدیث کو الٹا کر دیتے ہیں۔ ہر طرح کی تاؤیل اور تحریف کر جاتے
ہیں۔ جتنا ان کو اپنے امام کے قول کا پاس ہوتا ہے ‘ اتنا ان کو نبی ﷺ کی حدیث
کاپاس نہیں ہوتا۔ مقلد کا مذہب قرآن و حدیث نہیں ہوتا‘ بلکہ اس کا مذہب اپنے امام
کی فقہ ہے۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہیں کہ اﷲ رسول ؐ یا قرآن و حدیث کو ماننے والے
صرف اہل حدیث ہی ہیں۔ اس لیے وہی اہل حق ہیں۔ جیسے اﷲ کا ماننا مؤحد کا ہی معتبر
ہے‘ کیوں کہ وہ ا ﷲ کے ساتھ کسی کو نہیں ملاتا۔ اسی طرح رسول ؐ کا ماننا اہل حدیث
کا ہی معتبر ہے۔ کیوں کہ وہ رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ اور کسی کو اپنا امام نہیں بناتا۔
وہ نبی ﷺ ہی کا اتباع کرتا ہے اور کسی کی تقلید نہیں کرتا۔
ا۔ کیا تمام غیر اہل حدیث فرقے کلی طور پر ہی باطل ہیں ؟
ب۔ کلی طو ر پر باطل تو کوئی فرقہ بھی نہیں ہوتا۔تھوڑا بہت تو حق ہر
فرقے میں ہوتا ہے۔ حق کے سہارے کے بغیر تو کوئی فرقہ چل ہی نہیں سکتا۔ جیسے جھوٹ
سچ کے بغیر چل نہیں
سکتا ‘ اس کو سچ کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح باطل بھی حق کے بغیر نہیں چل
سکتا ۔ باطل کو حق کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے ہر باطل سے باطل فرقے میں
کچھ نہ کچھ حق ضرور ہوتا ہے۔
ا۔ جب ہر فرقے میں کچھ نہ کچھ حق ضرور ہوتا ہے ‘ بلکہ بعض میں تو حق
کی مقدار بہت ہوتی ہے جیسے دیوبندی‘تو پھر آپ سب غیر اہل حدیث فرقوں کو باطل کیوں
کہتے ہیں؟
ب۔ ارے بھئی ! جیسے کھوٹا اسے ہی نہیں کہتے جس میں سارا کھوٹ ہو‘
جھوٹا اسے ہی نہیں کہتے جو ہر بات میں جھوٹا ہو‘ بلکہ تھوڑے سے کھوٹ کبھی کبھی کے
جھوٹ سے بھی ان کو
کھوٹا اور جھوٹا ہی کہتے ہیں۔ اسی طرح جب حق میں باطل مل جائے خواہ تھوڑا ہو یا
زیادہ تو اس مذہب کو باطل ہی کہتے ہیں۔ جب دو چیزیں اعلیٰ اور ادنیٰ ملیں تو نتیجہ
ادنی ٰ کے ہی تابع ہوتا ہے۔ کھرے میں خواہ کھوٹ تھوڑا ہی ملایا جائے ‘ مجموعہ
کھوٹا ہی ہوتا ہے۔ حق میں خواہ باطل تھوڑا ہی ملے مرکب باطل ہی ہوتا ہے۔ حق تو
خالص ہی کو کہتے ہیں ‘ باطل کی آمیزش تھوڑی سی بھی ہو جائے ‘ وہ باطل ہو جاتا ہے۔
اسلام صراط مستقیم یعنی ایک سیدھا خط ہے۔ سیدھے خط میں اگر کہیں بھی خم آ جائے تو
وہ ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔ مستقیم کہلانے کے لیے سارے خط کا اول سے آخر تک سیدھا ہونا
ضروری ہے۔ دیوبندیوں میں حق کی مقدار کتنی بھی ہو‘ جب اس میں باطل آ گیا خواہ تھوڑا
ہی ہو وہ باطل ہو گیا۔ ہم اس کو حق نہیں کہہ سکتے‘ حق خالص کو ہی کہتے ہیں۔جیساکہ
اہل حدیث ہیں‘ جو سوائے قرآن و حدیث اور سوائے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے کسی کو دین
میں داخل نہیں کرتے۔
ا۔ کیا دیوبندی حق کے قریب نہیں؟
ب۔ حق کے قریب ہونے سے کچھ نہیں ہوتا ‘ جو ہوتا ہے خالص حق ہونے سے
ہوتا ہے۔ حق کے بہت قریب تو
ابوطالب بھی تھا۔ حق
کے بہت قریب تو ہرقل قیصر روم بھی تھا‘ لیکن ان کو کیا فائدہ ہوا ؟
ا۔ دیوبندیوں میں کیا گمراہی ہے جو آ پ ان کو بھی باطل فرقوں میں
شمار کرتے ہیں؟
ب۔ دیوبندی اہل حدیث سے علٰیحدہ ایک فرقہ ہے یا نہیں؟
ا۔ علٰیحدہ فرقہ تو ہے۔
ب۔ جب اہل حدیث ہی حق ہے‘ جیسا کہ ہم اوپر ثابت کر چکے ہیں‘ تو اس
سے علیحدہ ہونا ہی گمراہی ہے۔ حق سے علٰیحدہ ہونے کی سزا دوزخ ہے۔ مَنْ شَذَّ شُذَّ
فِی النَّارِ ۳ ۔ جیسے جنت سے علیحدہ دوزخ ہے‘ اسی طرح حق سے علیحدگی گمراہی ہے۔
جو حق سے علیحدہ ہوا وہ دوزخ کے گھڑے میں گرا۔
ا۔ اہل حدیث بھی تو ایک علیحدہ فرقہ ہے۔
ب۔ میرے بھائی اہل حدیث کوئی فرقہ نہیں۔ علیحدہ فرقہ وہ ہوتا ہے جو
حق سے علیحدہ ہو اہل حدیث خود حق ہے۔ علیحدہ وہ ہوتا ہے جو اﷲ کے رسول ؐ کے
بعد کسی اور کو اپنا
دینی امام بنا کر اس کی تقلید کرے۔ اہل حدیث کے امام تو اﷲ کے رسول ﷺ ہیں۔ اہلحدیث
کا امام اور کوئی ہے ہی نہیں۔ وہ اﷲ کے بنائے ہوئے امام محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے
ساتھ ہیں اس لیے اہل حدیث کوئی علیحدہ فرقہ نہیں‘ علیحدہ وہ ہوگا جو اہل حدیث کے
ساتھ نہ ہو بلکہ اہل حدیث سے علیحدہ ہو۔
ا۔ آپ تقلید کی مذمت کرتے ہیں‘ آپ یہ تو بتائیں تقلید کہتے کسے ہیں
؟
ب۔ اﷲ کے رسول ﷺ کے بعد کسی کو امام بنا کر اس کی ناجائز اور غلط
بات کو بھی درست سمجھنا اور اس کی بے جا حمایت کرنا اور ایسے مذہب میں راجح کے
مقابلہ میں مرجوع کو ترجیح دینا یہ سب تقلید کی صورتیں ہیں۔
ا۔ کیا نبی کی تقلید نہیں ہوتی ؟
ب۔ نبی کی تقلید نہیں ہوتی ‘ نبی کی تو اطاعت اور اتباع ہوتی ہے۔
نبی کی بات کو تو آنکھیں بند کرکے لینا بھی تقلید نہیں۔ تقلید اس آدمی کی بات کو
کہتے ہیں جس
کی بات ماننے کا اﷲ
نے حکم نہیں دیا۔ یعنی جس کی بات شرعی حجت نہ ہو۔ اس کی بات کو بلادلیل ماننا
تقلید ہے۔ نبی تو نبی ہوتا ہے‘ اس کی اطاعت و اتباع کو تو اﷲ نے فرض کیا ہے۔ اس
لیے نبی کی تقلید نہیں ہوتی۔ تقلید خود ساختہ یعنی اپنے بنائے ہوئے اماموں کی ہوتی
ہے۔ آج اگر دیوبندیوں اور بریلویوں سے کوئی پوچھے کہ تم حنفی کیوں ہو ‘ تم امام
ابوحنیفہؒ کی تقلیدکیوں کرتے ہو‘ تمھیں کس نے کہا ہے حنفی بنو؟ کیا اﷲ نے کہا ہے
یا اس کے رسولؐ نے؟ تو حنفی اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ کیوں کہ نہ اﷲ نے کہا
ہے ‘ کہ تم امام ابوحنیفہ ؒ کی تقلید کرو‘ نہ اس کے رسول ﷺ نے ‘ اور نہ خود امام
ابوحنیفہ نے‘ حنفی اپنی مرضی سے ہی تقلید پر لگے ہوئے ہیں۔(اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلاَّ الظَّنَّ وَ مَا
تَھْوَی الْاَنْفُسُ)[53:النجم:23]
ا۔ اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ آپ اہل حدیث کیوں ہیں تو آپ کے پاس اس
کا کیا جواب ہے ؟
ب۔ ہمارے پاس تو اس کا بہت معقول اور مدلل جواب ہے۔ وہ یہ کہ اﷲ نے
اپنے نبی ﷺ کی پیروی کا حکم دیا ہے اور نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کی پیروی
احادیث کے مطابق نبی
صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے سے ہی ہو سکتی ہے۔ اس لیے ہم اہل سنت بھی ہیں
اور اہل حدیث بھی۔ اہل سنت اس لیے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت کے پابند ہیں‘
کسی پیر‘ فقیر‘ امام ‘ ولی کی ہم تقلید نہیں کرتے۔ اور اہل حدیث اس لیے کہ حدیث جو
نبی ﷺ کی زندگی کا ریکارڈ ہے ہم اس کی حفاظت کرتے ہیں اور اس ریکارڈ کے مطابق نبی
صلی اﷲعلیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرتے ہیں۔ اگر احادیث نہ ہوں تو دین اسلام محفوظ نہ
رہے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی کسی سنت کا پتا نہ لگے۔ اگر نبی کااتباع نہ ہو تو ہم
مسلمان نہ ہو سکیں۔ لہٰذا مسلمان ہونے کے لیے اہل حدیث اہل سنت ہونا ضروری ہے۔ اگر
حدیث نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کی ہوتی تو پھر ہم پر اعتراض تھا کہ تم
اہل حدیث کیوں ہو۔ جب حدیث بھی نبی ﷺ کی ہے اور اتباع بھی نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی
مطلوب ہے تو پھر اہل حدیث اہل سنت ہونا تو عین حکم خدا وندی ہے۔ قرآن بار بار نبی
صلی اﷲ علیہ وسلم کے اتباع کا حکم دیتا ہے۔ آج اسلام صحیح اہل حدیث ہونے کا ہی نام
ہے۔ جس طرح اہل سنت اور اہل حدیث لازم و ملزوم ہیں اسی طرح اہل حدیث اور اسلام
لازم و ملزوم ہیں۔ آج اسلام عین مذہب اہل حدیث ہے اور مذہب عین اسلام ہے۔ یہ دونوں
ایک دوسرے کے مترادف ہیں اور ہم معنی ہیں۔ کوئی غیر اہل حدیث فرقہ ایسا نہیں جس کو
یہ شرف حاصل ہو کیا آپ دیوبندیت یا بریلویت کو عین اسلام یا اسلام کے مترا دف کہہ
سکتے ہیں ؟
ا۔ کیا یہ فرقے اسلام نہیں؟
ب۔ اگر یہ فرقے عین اسلام ہوں تو صحابہ جو نہ حنفی تھے ‘ نہ
دیوبندی‘ نہ بریلوی کیسے مسلمان ہو سکتے ہیں؟ پھر شافعی ‘ مالکی‘ حنبلی بھی مسلمان
نہیں ہو سکتے‘
کیوں کہ وہ بھی حنفی
نہیں۔ حال آنکہ حنفی ان کو بھی مسلمان کہتے ہیں۔ کیا عجیب بات نہیں کہ حنفی حنفیت
کو بھی اسلام کہتے ہیں اور اپنے مخالف مذہب کو بھی اسلام‘ حال آنکہ دو مختلف اور
متحارب مذہب اسلام نہیں ہوسکتے۔ اس کا صاف مطلب یہ کہ حنفیوں کو بھی یہ تسلیم ہے
حنفیت عین اسلام نہیں۔ اسی طرح غیر اہل حدیث کوئی فرقہ بھی عین اسلام یا اسلام کا
مترادف نہیں‘ کیوں کہ ہر فرقے کا اسلام ناقص ہے۔
ا۔ ناقص کس اعتبار سے ہے؟
ب۔ ہر فرقہ نبی ﷺ کے اتباع کی بجائے اپنے امام کی تقلید کرتا ہے جس
سے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا اتباع ناقص ہو جاتا ہے اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا
اتباع ہی اصل اسلام ہے۔ جہاں بدعت آئی وہاں سنت گئی او ر جہاں سنت
گئی وہاں اسلام ناقص ہوا۔
ا۔ پھر تو یہ سب فرقے کافر ہوئے ؟
ب۔ کھل کرکافر تب ہوں جب یہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے اتباع کا زبان
سے انکار کریں۔ انکار یہ کرتے نہیں ‘ نہ یہ کھل کر انکار کرتے ہیں اور نہ پوری طرح
اتباع کرتے ہیں۔نبی ﷺ
کا اتباع اس حد تک کرتے ہیں جس حد تک ان کے امام سے موافقت رہے ۔ جہاں امام سے
مخالفت ہو وہاں وہ حیلے سے کام لیتے ہیں اور اپنے امام کو ترجیح دیتے ہیں۔ مقلدوں
کا حال بالکل مشرکوں جیسا ہے۔ جیسے مشرک غیر اﷲ کی عبادت کو اﷲ کی عبادت کہتے ہیں۔
اسی طرح مقلد اپنے امام کی تقلید کو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا اتباع کہتے ہیں۔ وہ
کہتے ہیں کیا ہمارے امام کو اس حدیث کا علم نہ تھا۔ جب ہمارے امام نے اس حدیث کے
خلاف فتویٰ دیا ہے تو ضرور یہ حدیث منسوخ ہوگی یا اس میں کوئی نقص ہوگا۔ ہمارے
امام سے زیادہ کوئی عالم نہیں۔ وہ اس حدیث کو ہم سے بہتر جانتے تھے۔ ہم تو ان کے
مقلد ہیں۔ان کا فتویٰ یا عمل ہی صحیح ہے۔
ا۔ جب آپ ان کو کافر نہیں کہتے اور ان کے اسلام کو ناقص بھی بتاتے
ہیں تو پھر ان کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟ وہ کافر ہیں یا مسلمان ؟
ب۔ بھئی ! یہ نفاق ہے جو بہت خطرناک ہے‘ ہم ان کو کافر نہیں کہہ
سکتے‘ اتنا ضرور کہیں گے کہ ان کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ ہمیں اپنے آپ کو ان سے
بچانا
چاہیے ۔ یہ سب ایسے
فرقے ہیں جنھوں نے دین اسلام کے ٹکڑے ٹکڑے کیے ہیں۔(اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَ
کَانُوْا شِیَعًا )[6:الانعام:160] کی آیت ان فرقوں اور (
لَسْتَ مِنْھُمْ فِیْ شَیْءٍ ) اہل حدیث پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ اہل حدیث ہی ایک
ایسی جماعت ہے جو اﷲ کے رسول سے علیحدہ نہیں ہوئی۔ اس نے اپنا کوئی امام نہیں
بنایا۔ وہ نبی ﷺ کی حدیث پر چلتے ہیں اور اپنی نسبت نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف
ہی کرتے ہیں۔ اس لیے وہ ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہیں ۔ باقی تمام فرقے اپنی نسبت
اپنے اماموں کی طرف کرتے ہیں۔ یہی فرقہ سازی اور فرقہ پرستی ہے‘ جو بہت بڑی گمراہی
ہے اور مشرکوں کا خاصہ ہے۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے فرقہ پرستی سے شرک کی طرح منع کیا
۔ چنانچہ فرمایا:(
وَ لاَ تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ O مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ
وَکَانُوْا شِیَعًا )[30:الروم:31-32]مشرکوں میں سے نہ ہو۔ یعنی ان لوگوں میں
سے جو دین کے ٹکڑے کرکے فرقہ فرقہ ہو گئے ‘ فرقہ پرستی اور شرک لازم و ملزوم ہیں۔
ا۔ یہ تلازم آپ نے کہاں سے نکال لیا ؟
ب۔ آیت میں (
مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ )۔۔(مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ) سے بدل کل ہے۔ اور بدل کل
مبدل منہ کا عین ہوتا ہے اور عینیت میں تلازم ضروری
ہے۔ یعنی فرقہ پرست
ضرور مشرک ہوتے ہیں اور مشرک فرقہ پرست ہوتے ہیں اور فرقہ بنتا بھی تقلید سے ہے
اور تقلید بذات خود شرک ہے بلکہ شرک کی بھی ماں ہے‘ اسی لیے مقلد کبھی موحد نہیں
ہو سکتے۔
ا۔ بعض اہل حدیث تو دیوبندیوں کو بھی موحد کہتے ہیں حال آنکہ
دیوبندی پکے مقلد ہیں۔
ب۔ وہ خاندانی اہل حدیث ہیں جو ایسا کہتے ہیں۔ وہ اصلی اہل حدیث
نہیں ۔ انھیں یہ پتا نہیں کہ اہل حدیث کون ہوتا ہے‘ اور مقلد کون ہوتا ہے وہ صرف
اس لیے اہل حدیث ہیں
کہ وہ اہل حدیثوں کی اولاد ہیں‘ انھوں نے بڑوں کو رفع الیدین کرتے دیکھا‘ وہ رفع
الیدین کر لیتے ہیں۔وہ صرف رفع الیدین کے اہل حدیث ہیں۔ وہ اہل حدیث کی حقیقت سے
ناآشنا ہیں۔ اگر وہ خود اہل حدیث ہوئے ہوں ‘ انھوں نے تکلیفیں اٹھائی ہوں تو انھیں
اہل حدیثی کا پتا ہو کہ یہ کیا نعمت ہے اور دیوبندیت کیا عذاب ہے ۔ اﷲ اس سے ہر
مسلمان کو بچائے۔ میرے بھائی مقلد کبھی موحد نہیں ہو سکتا‘ خواہ وہ دیوبندی ہو‘ یا
کوئی اور ۔ موحد ہونے کے لیے اﷲ کو ماننا ہی کافی نہیں۔ تین چیزوں کی نفی بھی
ضروری ہے‘ جن میں سے ایک تقلید ہے۔
ا۔ وہ تین چیزیں کیا ہیں؟
ب۔ 1–غیر اﷲ کی عبادت
2– کسی
کو اﷲ کا شریک سمجھنا‘ خواہ ذات میں شریک سمجھے یا صفات و افعال میں
3–تقلید۔۔۔
جب تک ان تینوں کی
نفی نہ ہو توحید صحیح نہیں ہوتی۔
ا۔ توحید تواﷲ کو ایک ماننے کو کہتے ہیں ‘ آپ نے یہ تین شرطیں کہاں
سے نکال لیں؟
ب۔ اگر صرف اﷲ کو ماننا توحید ہے تو ’’اﷲ
واحد ‘‘ کلمہ
توحید ہوتا ۔ لاَاِلٰہَ
اِلاَّ اﷲُ نہ
ہوتا۔ آپ جو کہتے ہیں توحید اﷲ کو ماننے کو کہتے ہیں‘ تو مشرک
سارے اﷲ کو ایک مانتے
ہیں۔ پھر وہ مشرک کیوں ہیں؟ دو اﷲ ماننے والا مشرک تو آج تک کوئی پیدا ہی نہیں
ہوا۔ جتنے بھی مشرک ہوئے ہیں ‘ دو اﷲ کسی نے نہیں بنائے‘ سب ایک اﷲ کے ہی اقراری
ہیں ۔ حج کے موقع پر ان کا تلبیہ ہی یہ تھا ’’لاَ
شَرِیْکَ لَکَ اِلاَّ شَرِیْکًا تَمْلِکُہُ وَ مَامَلَکَ ‘‘ ۴ قرآن ان کے عقیدے کو بیان
کرتا ہے۔
( مَا
نَعْبُدُھُمْ اِلاَّ لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اﷲِ زُلْفٰی )[39:الزمر:3]
جس سے ثابت ہوتا ہے
کہ وہ اﷲ کو ایک مانتے تھے ‘ لیکن معبود اور بناتے تھے۔ اسی لیے ان کو لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ سے تکلیف ہوتی تھی۔ کیوں کہ
اس سے ان کے اِلٰہ کی نفی ہوتی تھی۔ قرآن بیان کرتا ہے۔ (
اِنَّھُمْ کَانُوْا اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ ﷲُ
یَسْتَکْبِرُوْنَ )[37:الصفت:35]وہ لاَ
اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ کا
کلمہ مشرکوں پر بہت بھاری ہے۔ انھیں یہ گوارا نہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
(کَبُرَ
عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوْھُمْ اِلَیْہِ )[42:الشوری:13] ’’اﷲ واحد‘‘ مشرکوں پر بھاری ہے۔
ا۔ اگر مقلد مشرک ہوں تو مقلدوں پر بھی یہ کلمہ بھاری ہو۔ حال آنکہ
دیوبندی اور بریلوی تو اس کلمہ کا ورد کرتے ہیں۔
ب۔ مقلد بے علم بھی ہوتا ہے اور بے سمجھ بھی ۔ وہ تقلید کرتا ہی اس
لیے ہے کہ وہ بے علم اور بے سمجھ ہے ۔ اگر اسے علم اور سمجھ ہو تو وہ تقلید کیوں
کرے۔ تقلید کرنے والے
اصل میں اس کلمہ توحید کا مطلب نہیں سمجھے‘ نہ ہی وہ اس کلمہ کے اندر بیان شدہ
توحید کی حدود کو جانتے ہیں۔ اگر مقلدین کو کلمہ توحید کی حقیقت کا علم ہو جائے تو
وہ یا
کلمہ نہ پڑھیں یا تقلید کو چھوڑ دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بندہ کسی
کی تقلید کرتا ہے تو وہ اپنے مقلد یعنی امام کو گویا نبی بناتا ہے اور نبی کی بات
چوں کہ عین اﷲ کی بات ہوتی ہے تو گویا وہ اپنے امام کو اﷲ کا درجہ دیتا ہے جو اس
کی بات کو دین سمجھتا ہے۔ حال آنکہ دین تو وہ ہوتاہے جو اﷲ کہے ۔ اگرچہ نبی کی
زبان سے ہو۔ امام کو یہ درجہ دینا گویا اس کو اﷲ کا شریک بنانا ہے۔ جن کی باتوں کو
لوگ دین سمجھ کر اپنا لیتے ہیں اﷲ نے ان کو اپنا شریک کہا ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
(وَ کَذٰلِکَ زَیِّنَ لِکَثِیْرٍمِّنَ
الْمُشْرِکِیْنَ قَتْلَ اَوْلاَدِھِمْ شُرَکَاؤُھُمْ لِیُرْدُوْھُمْ وَ
لِیَلْبِسُوْا عَلَیْھِمْ دِیْنَھُمْ )[6:انعام:138]
اس آیت میں اﷲ تعالیٰ
نے قتل اولاد کا مسئلہ گھڑنے والوں کو شریک کہا ہے۔ جاہلیت میں لوگ نذ ر مانتے اگر
میرے اتنے لڑکے ہوئے تو میں ایک اپنے معبود کے نام پر ذبح کروں گا۔ چنانچہ حضور ﷺ
کے دادا عبدالمطلب نے اپنے بیٹے عبداﷲ کے ذبح کرنے کی نذرمانی تھی۔ اﷲ تعالیٰ نے
فرمایا جو ایسے مسئلے بناتے ہیں وہ میرے شریک بنتے ہیں۔ جو بھی دین میں کوئی مسئلہ
گھڑے اور اسے چالو کرے وہ اﷲ کا شریک ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔ (
اَمْ لَھُمْ شُرَکَاءُ شَرَعُوْا لَھُمْ مِّنَ الدِّیْنَ مَا لَمْ
یَاْذَنْ بِہِ اﷲُ )[42:الشوری:21]کیا ان کے ایسے شریک بھی ہیں جو ان کے
لیے بغیر میری منظوری کے شریعت بناتے ہیں۔ جب کسی کو امام بنا کر اس کے مسئلے کو
لینا اس کو اﷲ کا شریک بنانا ہے۔ تو تقلید تو خود بخود شرک ہو گئی اور مقلد مشرک
ہو گیا۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے آیت دعوت میں جب اہل کتاب کو کلمہ توحید کی دعوت دی
تو تقلید کی نفی کی شق بھی اس میں رکھ دی اور بتا دیا کہ لا الہ الا اﷲ اس کا صحیح
ہے جو تقلید نہ کرے۔
ا۔ قرآن مجید میں ایسی آیت کہاں ہے ؟
ب۔ سور ہ آل عمران میں ہے:( قُلْ
یٰاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَاءٍ م بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَنْ
لاَّ نَعْبُدَ اِلاَّ اﷲَ وَ لاَ نُشْرِکَ بِہٖ شَیْءًا وَّ
لاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا
بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ )[3:آل عمران:64]اے اہل کتاب !آؤ ہم تمھیں کلمہ توحید لا
الہ الا اﷲ کی دعوت دیتے ہیں۔ تم بھی اسے مانتے ہو ‘ ہم بھی اسے مانتے ہیں اور یہ
تمام شریعتوں میں رہا ہے جس کا ماحصل ان تین دفعات پر مشتمل ہے:
1– ( اَنْ
لاَّ نَعْبُدَ اِلاَّ اﷲَ)ہم کسی کی عبادت نہ کریں۔
2– ( وَ
لاَ نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئا) ہم کسی کو عقیدۃًبھی اﷲ کا شریک نہ بنائیں۔
3– ( وَ
لاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ) ہم ایک دوسرے کو رب نہ
بنائیں۔
میرے بھائی! اس رب بنانے میں تقلید بھی آ تی ہے۔
ا۔ رب بنانا تقلید
کیسے ہے؟
ب۔ یہی سوال حضرت عدیؓ بن حاتم نے کیا تھا جب وہ مسلمان ہوئے تھے۔
انھوں نے کہا تھا یا رسول اﷲ‘ اﷲ تعالیٰ تو قرآن میں کہتا ہے :
( اِتَّخَذُوْا
اَحْبَارَھُمْ وَّ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ )[9:التوبہ:31] یعنی اہل کتاب نے
اپنے علما ‘ صوفیہ کو رب بنا رکھا ہے۔ حال آنکہ ہم نے اپنے علما اور صوفیہ کو رب
نہیں بنایا تھا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ بات نہ تھی کہ تم اپنے
عالموں اور صوفیوں کی باتوں کو ہی دین سمجھتے تھے؟ تم نے ان کو تشریعی درجہ دے
رکھا تھا۔ تم ان کے حلال کردہ کو حلال اور حرام کردہ کو حرام سمجھتے تھے۔ تو حضرت
عدیؓ بن حاتم نے کہا یہ بات تو تھی۔ آپ نے فرمایا یہی تو رب بنانا ہے۔ میرے بھائی!
یہ درجہ تو کسی نبی کو بھی حاصل نہیں۔ نبی بھی اﷲ کے حرام و حلال کا ہی مکلف ہوتا
ہے۔ چنانچہ رسول اﷲ ﷺ نے ایک دفعہ ایک چیز کو اپنے اوپر حرام کر لیا تھا کہ اﷲ
تعالیٰ نے فوراً قرآن میں آیت اتار دی۔ (یٰاَیُّھَا
النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اﷲُ لَکَ)[66:التحریم:1]
اے نبی ! تو اس چیز
کو کیوں اپنے اوپر حرام کرتا ہے جس کو اﷲ تعالیٰ نے تیرے لیے حلال کیا ہے۔ کسی چیز
کو حلال حرام یا جائز و ناجائز کہنا یہ صرف اﷲ ہی کا کام ہے۔ ہر چیز کا خالق وہ ہے
‘ اسے ہی حق ہے کہ وہ ہر چیز کا مصرف بتائے۔ کسی کو یہ درجہ دینا گویا اس کو اﷲ کا
شریک بنانا ہے اور یہ شرک ہے۔ مقلد اپنے امام کو یہی درجہ دیتا ہے۔ وہ اپنے امام
کی بات کو ہی دین سمجھتا ہے۔
ا۔ تقلید تو پھر بڑی خطرناک چیز ہے۔ اس سے تو پھرا سلام میں بھی نقص
واقع ہوتا ہوگا۔
ب۔ آپ نقص کی بات کرتے ہیں‘ میں کہتا ہوں جب تو حید ہی ٹھیک نہ رہی
تو اسلام کہاں رہا اس لیے تو آیت دعوت (قُلْ
یٰاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی
کَلِمَۃٍ )[3:آل عمران:64]کے آخر میں اﷲ نے یہ
جملہ رکھا ہے۔ (فَاِنْ
تَوَلَّوْا فَقُوْلُوْا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ )[3:آل عمران:64]
کہ اگر وہ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ کی اس تعبیر کو نہ مانیں تو
پھر تم ان سے کہو کہ تم گواہ رہو ہم اس کلمہ کو مانتے ہیں۔ تم نہیں مانتے‘ نہ
مانو۔ مسلم ہے ہی وہ جولاَ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُکے وہ معنی مانے جو قرآن نے اس آیت میں بیان فرمائے ہیں‘ ورنہ وہ
مسلم ہی نہیں فوجداری کرکے وہ مسلم بنا رہے تو اس کی مرضی ہے اس آیت سے واضح ہے کہ
جو تقلید نہیں چھوڑتا وہ صحیح مسلمان نہیں رہتا۔
ا۔ اس کی ذرا مزید وضاحت کریں ۔ مقلد مسلمان کیسے نہیں رہتا۔
ب۔ جب اﷲ تعالیٰ نے آیت دعوت میں کلمہ توحید کی دعوت دی تو بتا دیا
کہ لا الہ الا اﷲ کا مطلب یہ ہے :۔
1– ہم
اﷲ تعالیٰ کی عبادت کریں
2– ہم
کسی کو اﷲ کاشریک نہ بنائیں
3– ہم کسی کو رب نہ بنائیں۔
جس میں حضورصلی اﷲ
علیہ وسلم کی تفسیر کے مطابق تقلید بھی شامل ہے۔پھر فرمایا کہ اگر وہ اس سے اعراض
کریں تو تم کہ دو کہ اچھا پھر ہم اس کلمہ کو مانتے ہیں ‘ تم نہیں مانتے تو نہ
مانو۔ تم پھر کلمہ توحید سے بھی منحرف ہو۔ اس سے ثابت ہواجو غیر اﷲ کی عبادت کرے‘
عبادت بدنی ہو‘ یا مالی‘ قولی ہو یا فعلی اس کی توحید صحیح نہیں۔جو کسی کو اﷲ کا
شریک سمجھے‘ ذات میں شریک سمجھے یا صفات و افعال میں اس کی بھی توحید صحیح نہیں۔
اسی طرح جو کسی کو رب بنائے‘ خواہ تقلید کی صورت میں یا کسی اور صورت میں اس کی
بھی توحید صحیح نہیں۔ جب کسی کی توحید صحیح نہ ہو تو وہ صحیح مسلمان کیسے ہو سکتا
ہے۔
ا۔ پھر تو دیوبندیوں کا معاملہ بھی بہت خطرناک ہے۔ بریلویوں کا تو
کہنا ہی کیا ‘ ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ دیوبندی کوئی علیحدہ مذہب نہیں۔ یہ صرف
مدرسہ کی طرف ایک نسبت ہے۔ جیسے علی گڑھ کے پڑھے کو علیگ کہتے ہیں۔
ب۔ اﷲ کے بندے!دیوبندی ایک مستقل مذہب ہے‘جو بریلویوں کے مقابلے میں
ہے۔ یہ حنفی سلسلے کی ایک شاخ ہے جس کے خاص عقائد ہیں اور ان کے
خاص اکابر ہیں جن کو
دیوبندی مانتے ہیں۔ دیوبندیوں کے عقائد اگر دیکھنے ہوں تو رسالہ ’’المہند فی عقائد
دیوبند ‘‘ پڑھیں۔ یہ مولانا خلیل احمد سہارن پوری کی تالیف ہے جو تمام علما دیوبند
کی مصدقہ ہے۔ اس طرح ’’ الشہاب الثاقب ‘‘ مولفہ مولانا حسین احمد مدنی اور شمائم
امدادیہ ملفوظات حاجی امداداﷲ مکی اور ’’ آب حیات‘‘ مصنفہ مولانا قاسم نانوتوی
وغیرہ ایسی کتب ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ دیوبندی ایک خاص فرقہ ہے جو امام
ابوحنیفہ ؒ کا مقلد ہے۔ جس کے بہت سے عقائد اسلام کے خلاف ہیں۔ ان کے عقائد میں
اعتزال جہمیت اور ارجاء کا بہت گہرا رنگ ہے۔ دیوبندی اﷲ کے عرش پر ہونے کے قائل
نہیں۔ دیوبندی قرآن کو کلام اﷲ بھی نہیں مانتے ۔ ان کے نزدیک یہ قرآن کلام اﷲ نہیں
بلکہ دال برکلام اﷲ ہے۔ وہ کلام نفسی کے قائل ہیں۔ جو دیوبندی بریلویوں کی طرح
حیات النبی ﷺ کے بھی قائل ہیں۔ وہ حیات برزخی کی بجائے حیات دنیوی مانتے ہیں‘ وہ
ایمان مطلق تصدیق کو کہتے ہیں اس لیے ان کے نزدیک کیا امتی‘ کیا نبی سب کا ایمان
برابر ہے۔ ان کے نزدیک ایمان گھٹتا بڑھتا ہی نہیں۔ دیوبندی کہتے ہیں اعمال ایمان
میں داخل نہیں۔ اس لیے وہ نماز کو ایمان نہیں مانتے۔ اس لیے بے نماز کو کافر نہیں
کہتے۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے نماز کو ایمان کہا ہے۔ (
وَ مَا کَانَ اﷲُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ )[2:البقرہ:143]
جس سے بے نماز کافر
ٹھہرتا ہے۔ اس کے علاوہ وحد ت الوجود کا کفر یہ عقیدہ جیسا بریلویوں میں پایا جاتا
ہے ‘ ویسا کثرت سے دیوبندیوں میں بھی پایاجاتا ہے۔ حاجی امداد اﷲ مکی جو وجودی
مذہب کے تھے تمام اکابرین دیوبند کے پیرو مرشد ہیں۔ سب دیوبندی علما اپنے آپ کو ان
کا مرید سمجھتے ہیں بلکہ ان کے مرید کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان کے چند شعر
ملاحظہ ہوں ۔ وہ اپنے پیرو مرشد شاہ نور محمد کو مخاطب کرکے کہتے ہیں
آسرا دنیا
میں ہے از بس تمھاری ذات کا
تم سوا اوروں سے ہر گز کچھ
نہیں التجا
بلکہ دن محشر کے ہوگا جس وقت قاضی خدا
آپ کا دامن پکڑ کر یہ
کہوں گا برملا
اے شاہ نور محمد وقت
ہے امداد کا
دیوبندی توسل باولیا
کے بھی قائل ہیں۔ ان کے اکابرین نے اپنے بزرگوں کے شجرے تصنیف کر رکھے ہیں جو ان
کے مریدین اور متوسلین میں پڑھے جاتے ہیں اور یہ سب شرکیہ سلسلہ ہے۔
ا۔ ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ دیوبندی اور اہل حدیث میں کوئی فرق نہیں‘
دیوبندی اہل حدیثوں کے بہت قریب ہیں۔
ب۔ یہ آپ کا ہی نظریہ نہیں بہت سے بے خبر اہل حدیث اسی نظریہ کے
ہیں‘ بلکہ اسی نظریہ کے تحت وہ دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں۔ ان کو یہ
مغالطہ بریلویوں کی
وجہ سے ہوا۔ وہ جب بریلویوں کے عقائد اور ان کی بدعات کو دیکھتے ہیں تو انھیں
دیوبندی بہت قریب نظر آتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دیوبندی اور اہل حدیث میں کوئی
خاص فرق نہیں ‘حال آنکہ اہل حدیث اور دیوبندی میں بہت فرق ہے۔ جب اہل حدیثوں کو
کبھی دیوبندیوں سے پالا پڑا ہے یا جو اہل حدیث صاحب بصیرت ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ
دیوبندی دل سے اہل حدیث کے کتنے مخالف ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ دیوبندی کا باطن اس
کے ظاہر سے کہیں خطرناک ہے۔ اہل حدیث سے ان کا معاملہ بالکل( وَمَا تُخْفِیْصُدُوْرُھُمْ اَکْبَرُ )[3:آل
عمران:118]والا ہے۔ بریلوی اگر اہل حدیث کا کھلا ہو ا دشمن ہے تو دیوبندی
چھپا ہوا ‘ لیکن دشمن دونوں ہیں‘ دیوبندی بریلو یوں کے بہت قریب ہیں‘ اہل حدیث سے
بہت دور ہیں۔ دیوبندی اور بریلوی ایک دوسرے کے شقیق ہیں۔ دونوں اصلاً اور نسلاً
ایک ہی ہیں۔ دونوں حنفی ہیں اور تقلید کی پیداوار ہیں۔ دونوں پکے مقلد ہیں اور
حنفی فقہ کے پابند ہیں۔ اہل حدیث کو دونوں غیر مقلد کہتے ہیں اور غیر مقلد ان کے
نزدیک انتہائی حقارت اور نفرت کا نام ہے۔
ا۔ اگر دیوبندی اور بریلوی بھائی بھائی ہیں تو پھر ان میں اتنی
لڑائی کیوں رہتی ہے؟
ب۔ لڑائی توبھائیوں میں رہتی ہی ہے۔ بھائی کی بھائی سے اگر بنی رہے
تو محبت بھی بے مثال ہوتی ہے اور اگر بگاڑ ہو جائے تو دشمنی بھی بے مثال ہوتی ہے۔
بھائی سے دشمنی
نکالنے کے لیے بھائی غیروں سے مل جاتے ہیں‘ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ حقیقت ہی رہتی
ہے کہ بھائی بھائی اور غیر غیر۔ غیر سے دوستی اور معاونت تو ہو سکتی ہے ‘ غیر
بھائی کبھی بھائی نہیں بن سکتا۔ بریلوی ‘ دیوبندی حقیقی بھائی ہیں۔ دونوں حنفیت کی
اولاد ہیں۔ ان کے مسلمات ایک‘ ان کے ائمہ ایک ‘ ان کی شریعت ایک‘ ان کی طریقت ایک
ان کا تصوف ایک ‘ ان کے مسالک و مشارب ایک‘ ان کی فقہ ایک‘ ان کا علم کلام ایک۔ ان
کی لڑائی زیادہ تر ایک دوسرے کے قریبی اکابر کو برا کہنے کی وجہ سے ہے۔ اہل حدیث
کو دونوں ہی غیر سمجھتے ہیں اور غیر مقلد کہتے ہیں۔ ایک ثقہ راوی نے بتایا کہ
مولانا خیر محمد جالندھری جو دیوبندی حنفی تھے اور مدرسہ خیر المدارس ملتان کے
بانی تھے اوراکابرین دیوبند میں شمار ہوتے تھے‘ ایک دفعہ شرق پور آئے ۔ کسی نے ان
سے پوچھا: یا حضرت ! اگر ایک طرف بریلویوں کی جماعت ہو رہی ہو‘ دوسری طرف اہل حدیث
کی تو ایک دیوبندی کدھر جائے؟ اہل حدیثوں کے پیچھے نماز پڑھے یا بریلویوں کے پیچھے
۔ مولانا نے جواب دیا : بریلویوں کے پیچھے کیوں کہ بریلوی ہمارے زیادہ قریب ہیں وہ
ہمارے بھائی ہیں۔ وہ بھی امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں اور ہم بھی امام ابوحنیفہؒ کے
مقلد ہیں۔ اہل حدیث تو تقلید کو نہیں مانتے۔ وہ غیر مقلد ہیں اور ہم سے بہت دور
ہیں اور پھر دیوبندی اور بریلوی کی نماز بھی ایک ہے۔ دونوں حنفی فقہ کے پابند ہیں۔
اہل حدیث اور دیوبندی کی نماز میں بہت فرق ہے۔ اس لیے دیوبندیوں کو اہل حدیث کے
مقابلے میں بریلویوں کے پیچھے نماز پڑھنا چاہیے ۔ مولانا حسین احمد مدنی سے بڑا
دیوبندی اور کون ہوگا۔ آپ ذرا سنیں وہ اپنی کتاب ’’ الشہاب الثاقب‘‘ صفحہ 51 پر
پہلے مولانا قاسم نانوتوی کے چند اشعار لکھتے ہیں:
امیدیں لاکھوں ہیں ‘
لیکن بڑی امید یہ ہے
کہ ہو سگاں مدینہ میں میرا
نام شمار
جیوں تو ساتھ سگاں حرم کے تیرے پھروں
مروں تو کھائیں مدینہ کے
مجھے مور و مار
جو یہ نصیب نہ ہو اور ایک کہاں نصیب میرے
کہ میں ہوں اور سگاں حرم کے
تیرے قطار
اڑا کے باد میری مشت خاک
کو پس مرگ
کرے حضور کے روضہ کے آس
پاس نثار
ولے یہ رتبہ کہاں
مشت خاک قاسم کا
کہ جائے کوچہ اطہر میں تیرے
بن کے غبار
پھر لکھتے ہیں:
حضرات ان اشعار کے مضامین پر غور فرمائیں کہ کس قدر اخلاص و محبت و
عقیدت بات بات سے ٹپکتی ہے گویا کہ محبت خاتم المرسلین علیہ السلام میں چور چور
ہیں۔ اس قدر منہمک ہیں کہ ماسوا کی خبر نہیں۔ رگ و پے میں ان کا اخلاص سرایت کیے
ہوئے ہے۔ کیا یہی حالت وہابیہ خبیثہ کی ہے۔ کیا یہی کلمات ان کی گندی زبانوں سے
نکلتے ہیں ؟ کیا اس قسم کی لطیف اور دلآویز تحریرات ان کے ناپاک قلموں سے شائع
ہوتی ہیں۔ ہر گز نہیں ۔ وہ خبثاء اس قسم کی گفتگو کو معاذاﷲ بددینی اور شرک خیال
کرتے ہیں۔ ان مضامین کو واہیات وخرافات میں مندرج کرتے ہیں۔
کتاب مذکورہ کے صفحہ 60 پر مولانا حسین احمد مدنی مزید لکھتے ہیں:
اس عبارت سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ حضرت قطب العالم حاجی امداد اﷲ
صاحب قدس اﷲ سرہ العزیز کی جتنی تصانیف و عقائد ہیں۔ ان کے حضرت مولانا گنگوہی
رحمۃ اﷲ علیہ بالکل موافق اور متبع اور وہی عقائد رکھتے ہیں کہ جن کے ذریعہ سے
دھبہ وہابیت بالکل زائل ہے۔
صفحہ 62پر مزید رقم طراز ہیں:۔
وہابیہ کسی خاص امام کی تقلید کو شرک فی الرسالۃ جانتے ہیں اور
ائمہ اربعہ اور ان کی شان میں الفاظ خبیثہ استعمال کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے
مسائل میں وہ گروہ اہل سنت والجماعت کے مخالف ہو گئے ہیں۔چنانچہ غیر مقلد ہنداسی
‘طائفہ شنیعہ کے پیرو ہیں۔
صفحہ 64پر لکھتے ہیں:
علاوہ ان امور مذکورۃ الصدر کے اور بھی مسائل ہیں‘ جن میں وہابیہ
اہل سنت کے مخالف ہوئے ہیں اور اکابر طریقہ اہل سنت پرثابت قدم رہ کر اس طائفہ کی
مخالفت کرتے ہیں۔
اس کے بعد وہ ان مسائل کا ذکر کرتے ہیں جن میں اکابر دیوبندی اہل
حدیث کے مخالف ہیں۔ مثلاً اﷲ کا مستوی عرش ہونا‘ یارسول اﷲ کہہ کر پکارنا‘ مسئلہ
شفاعت‘ ذکر ولادت رسولؐ یعنی میلاد وغیرہ‘ توسل بالاولیا وغیرہ وغیرہ۔ مولانا
مذکورہ کتاب کے صفحہ 66 پر لکھتے ہیں:
مجدد بریلوی اور ان کے متبعین نے جب ان بزرگان دین کو وہابیت کی
طرف منسوب کیا تو ان لوگوں نے خیال کیا کہ یہ حضرات بھی وہابیہ کے پورے موافق ہیں
مگر حقیقت سے ان کو اطلاع ہی نہیں ورنہ وہ لوگ بھی پوری طرح عقائد میں ان
بزرگواران کے موافق ہیں۔
صفحہ 66پر مزید لکھتے ہیں:
وہابیہ خبیثہ کثرت صلوۃ و سلام ‘ درود بر خیر الانام علیہ السلام
اور قراء ت دلائل الخیرات و قصیدہ بردہ و قصیدہ ہمزیہ وغیرہ ۔۔۔ اس کے پڑھنے اور
استعمال کرنے اور ورد بنانے کو سخت قبیح و مکروہ جانتے ہیں۔ اور بعض اشعار کی
قصیدہ بردہ میں شرک وغیرہ کی طرف نسبت کرتے ہیں ۔ مثلاً
یَا اَشْرَفَ الْخَلْقِ
مَالِیَ مَنْ اَلُوْذُ بِہٖ
سِوَاکَ
عِنْدَ حُلُوْلِ الْحَادِثِ العَمْمَ
ترجمہ: اے افضلِ
مخلوقات ! میرا کوئی نہیں ‘ جس کی پناہ پکڑوں بجز تیرے۔ بروقت نزول حوادث ۔ ۔۔ حال
آنکہ ہمارے مقدس بزرگان دین اپنے متعلقین کو دلائل الخیرات وغیرہ کی سند دیتے رہے
ہیں اور ان کو کثرت درود و سلام و تخریب و قراء ت دلائل الخیرات وغیرہ کا امر
فرماتے رہے ہیں۔ہزاروں کو مولانا گنگوہی اور مولانا نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہما نے
اجازت عطا فرمائی اور مدتوں خود بھی پڑھتے رہے ہیں اور مولانا نانوتوی ؒ مثل شعر
بردہ فرماتے ہیں
مدد کر
اے کرم احمدی کہ تیرے سوا
نہیں ہے قاسم بے کس کا کوئی حامی
کار
جو تو ہی ہم کو نہ پوچھے تو کون پوچھے گا
بنے گا کون ہمارا
تیرے سوا غمزار
صفحہ 67پر لکھتے ہیں:
پس دیکھیے کس قدر فرق ان حضرات کے عقائد اور وہابیہ کے عقائد میں
ہے۔ ان حوالوں سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ دیوبندی بریلویوں کے بہت
قریب ہیں اور اہل حدیثوں سے بہت دور۔ مولانا حسین احمد مدنی نے یہ رسالہ لکھا ہی
اس لیے ہے کہ وہ دیوبندیوں کا اہل حدیث سے بُعد اور بریلویوں سے قرب ثابت کر سکیں۔
جو اہل حدیث اس مغالطے میں ہیں کہ اہل حدیث اور دیوبندمیں کوئی خاص فرق نہیں ‘ اس
لیے وہ دیوبندیوں کے پیچھے اپنی نماز ضائع کر لیتے ہیں‘ ان کو مولانا حسین احمد
مدنی کی کتاب مذکورہ کے مندرجہ بالا حوالہ جات میں سے خط کشیدہ جملے دوبارہ پڑھ
لینے چاہئیں تاکہ ان کو یقین ہو جائے کہ دیوبندی اور اہل حدیث میں بہت بُعد ہے اور
یہ بُعد ہی دیوبندیوں کو باطل فرقوں میں شمار کرنے کی بڑی دلیل ہے۔ دیوبندیوں کی
گمراہی کی بڑی وجہ صرف ان کے غلط عقائد ہی نہیں ‘ وہ اہل حدیث سے بغض رکھنے کی وجہ
سے بھی گمراہ ہیں ۔ شاہ عبدالقادر جیلانی نے اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں بالکل
صحیح لکھا ہے کہ گمراہ فرقوں کی نشانی یہ ہے کہ وہ اہل حدیث سے بغض رکھتے ہیں اور
ان کو برا جانتے ہیں۔
ا۔ مان لیا کہ دیوبندی گمراہ ہیں ‘ لیکن مصر ‘ سوڈان کے انصار السنۃ
اور سعودیہ کے سلفیوں کے بارے میں آپ کا کیاخیال ہے‘ کیا وہ بھی گمراہ ہیں
یا وہ اہل حق ہیں؟
ب۔ وہ اہل حق ہیں ۔
ا۔ آپ تو کہتے ہیں کہ اہل حدیث ہی حق ہیں ‘ اس کے سوا کوئی حق نہیں۔
ب۔ وہ بھی اہل حدیث ہیں‘ اہل حدیث سے میری مراد نام اہل حدیث نہیں ‘
بلکہ مذہب اہل حدیث ہے جو قرآن و حدیث سے عبارت ہے۔ اگر مذہب
اہل حدیث ہو تو اس کی
مناسبت سے نام خواہ کوئی بھی ہو سب حق ہے۔ ایک چیز کے وصفی نام کئی ہو سکتے ہیں
اگر چیز ایک ہو تو نام مختلف ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر مذہب اہل حدیث ہو تو
نام خواہ انصار السنۃ ‘ یا اہل سنت ‘ محمدی ہو ‘ یا سلفی اہل حدیث ہو ‘ یا اصحاب
الحدیث ۔۔ سب ٹھیک ہیں۔ یہ سب ایک ہی حقیقت کے مختلف پہلو ہیں۔ ان میں کوئی فرق
نہیں۔ یہ سب قرآن و حدیث کے ماننے والے‘ اور تقلید سے دور رہنے والے لوگ ہیں۔ اس
لیے یہ سب ایک ہیں اور اہل حق ہیں۔
ا۔ آپ کہتے ہیں ‘ یہ سب ایک ہیں‘ حال آنکہ ان میں مسائل کا بہت
اختلاف ہے۔
ب۔ مسائل کا اختلاف بے شک ہو ‘ لیکن مذہب کا اختلاف نہیں۔ مذہب سب
کا ایک ہے۔ خطرناک مذہب کا اختلاف ہے‘مسائل کا اختلاف اتنا خطرناک
نہیں۔مسائل کا اختلاف
تو صحابہؓ میں بھی تھا‘ لیکن ان کا مذہب ایک تھا۔ جب ان پر اپنی غلطی واضح ہو جاتی
تھی تو فورا رجوع کر لیتے تھے۔ وہ کسی کے مقلد نہ تھے‘ کہ ایک مسئلہ بدلنے سے ان
کا مذہب بدل جائے۔اگر ایک حنفی پر یہ واضح ہو جائے کہ رفع الیدین سنت رسول ہے اور
غیر منسوخ ہے تو حنفی رہتے ہوئے اس سنت پر عمل نہیں کر سکتا۔ اگر وہ اس سنت پر عمل
کرنے لگ جائے تو وہ حنفی نہیں رہ سکتا۔ حنفی اسے فورًا کہیں گے کہ تو غیر مقلد ہے
اور لا مذہب ہو گیا ہے۔ قرآن نے بھی تفرق و تخرب سے ہی روکا ہے۔ کیوں کہ یہ ایک
مصنوعی چیز ہے اور اندھی تقلید سے پیدا ہوتی ہے۔ قرآن نے معمولی اختلاف سے نہیں
روکا۔ مطلق اختلاف تو ایک قدرتی اور شدنی امر ہے ۔ یہ ہو ہی جاتا ہے۔ اس لیے قرآن
نے لاَ تَخْتَلِفُوْا نہیں کہا۔ ( لاَ
تَفَرَّقُوْا ) کہا
ہے۔ کہ فرقے نہ بناؤ۔ اختلاف وہ خطرناک ہے جو پارٹی بازی پر منتج ہو۔ جب تک فرقہ
بندی نہ ہو اختلاف خطرناک نہیں۔
ا۔ یہ تو میری سمجھ میں آ گیا کہ حق صرف اہل حدیث ہے اور کوئی مذہب
حق نہیں۔ ہر غیر اہل حدیث میں کچھ نہ کچھ گمراہیاں ہیں‘ لیکن نماز تو قریباً ایک
ہی
ہے‘ اس میں تو کوئی
لمبا چوڑا فرق نہیں اور یہ ایک دوسرے کے پیچھے پڑھ لی جائے تو کیا حرج ہے ؟
ب۔ حرج کی بات نہیں‘ اہل حدیث کی نماز کسی غیر اہل حدیث کے پیچھے
ہوتی نہیں۔ جب کوئی غیر اہل حدیث مذہب یا فرقہ ٹھیک ہی نہیں تو اس کی نماز ٹھیک
کیسے ہو سکتی ہے؟ نما
ز تو مذہب کے تابع ہے ۔ اگر مذہب ٹھیک ہو تو نماز ٹھیک‘ اگر مذہب غلط تو نماز غلط
۔ اگر مذہب مختلف ہو تو نماز وں میں بھی بہت فرق ہوگا۔
ا۔ دیوبندی اور بریلوی دو مختلف فرقے ہیں حال آنکہ ان کی نماز ایک
ہے۔
ب۔ دیوبندی اور بریلوی فرقے ضرور دو ہیں ‘ لیکن ان کا بنیادی مذہب
ایک ہے۔دونوں حنفی ہیں اور فقہ حنفی کے مطابق نماز پڑھتے ہیں۔ اس لیے ان کی نماز
ایک ہے ۔ لیکن
اہلحدیث اور دیوبندیوں کی نماز ایک نہیں ہو سکتی۔ یہ مذہب بھی دو‘ فرقے بھی دو ۔
دیوبندی حنفی کی نماز فقہ حنفی کے مطابق حنفی ہوگی۔ اہل حدیث کی نماز سنت نبوی کے
مطابق محمدی ہوگی۔ اب محمدی نماز حنفی کے تابع کیسے ہو سکتی ہے ۔ اولاً تو حق باطل
کے تابع ویسے نہیں ہو سکتا۔ حق کو باطل کے تابع کرنا ویسے ہی جرم ہے۔ ثانیاً محمدی
نماز حنفی نماز کی اقتدا میں ادا نہیں ہو سکتی۔ دونوں میں بہت فرق ہے۔ حنفی نماز
ٹھونگے اور اٹھک بیٹھک کے سوا کچھ نہیں۔ اگر رسول اﷲ آ ج کل کے حنفی کی نماز دیکھ
لیتے توضرور فرماتے ((فَاِنَّک
لَمْ تُصَلِّ ))۵تو نے نماز نہیں پڑھی۔ حنفی نماز کی ابتدا بھی غلط انتہا بھی غلط۔
حنفی نماز کی ابتدا اﷲ اکبر کی بجائے اﷲ اجل اور اعظم سے بھی ہو سکتی ہے‘ اور
انتہا پاد (گوز ) پر بھی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ قدوری میں ہے۔ فَاِنْ
قَالَ بَدَلاًمِنَ التَّکْبِیْرِ اﷲُ اَجَّلُ اَوْ اَعْظَمُ اَوِ الرَّحْمٰنُ
اَکْبَرُ ‘ اَجْزَاہُ عِنْدَ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَ مُحَمَّدً رَحِمَھُاﷲُ
تَعَالٰیُ ۶ پس اگر اﷲاکبر کی بجائے اﷲ
اجل یا اعظم یا الرحمٰن اکبر کہے تو امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک جائز
ہے۔ وَ اِنْ تَعَمَّدَ الْحَدَثُ
فِیْ ھٰذِہِ الْحَالَۃِ اَوْ تَکَلَّمَ اَوْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ فِی الصَّلٰوۃِ
تَمَّتْ صَلاَتُہ‘ ۔۷ اگر تشہد کی حالت میں جان بوجھ کرپاد مار دے یا کسی سے کلا کر لے یا
کوئی عمل نماز کے منافی کرے تو امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک نماز پوری ہو جائے گی۔
یعنی سلام کے بدلے پاد مارنا بھی کافی ہے۔
محمدی نمازکی ابتدااﷲ
اکبر سے ہی ہو سکتی ہے‘ اورکسی کلمہ سے نہیں ہو سکتی۔ حضور ﷺ کا ہمیشہ کا عمل یہی
تھا۔ اِفْتَتَحَ الصَّلٰوۃَ بِالتَّکْبِیْر۸ آپ نماز اﷲ اکبر سے شروع کرتے ‘ آپ نے فرمایا: تَحْرِیْمُھَا
التَّکْبِیْرُ وَتَحْلُیْھَا التَّسْلِیْمُ۹ نماز کی ابتدا
اﷲ اکبر سے ہی ہے اور انتہا سلام سے ہی ہے۔ سلام کی جگہ پاد کام
نہیں دے سکتا جب حنفی اور محمدی نماز وں میں اتنا فرق ہو تو محمدی نماز حنفی نماز
کے پیچھے کیسے ادا ہو سکتی ہے؟
ا۔ نماز بذات خود ایک اچھا عمل ہے جو بھی پڑھتا ہے نماز سمجھ کر ہی
پڑھتا ہے۔ یہ غیر اہلحدیث کے پیچھے بھی جائز ہونا چاہیے۔
ب۔ جب نماز ایک اچھا عمل ہے اور مدار نجات ہے تواس کو اچھے طریقے سے
کسی اچھے امام کے پیچھے ہی پڑھنا چاہیے نہ کہ کسی غیر اہل حدیث کے پیچھے
جو گمراہ بھی ہے اور
پڑھتا بھی بھونڈ ے طریقے سے ہے۔
ا۔ نماز نیکی کا کام ہے۔ (تَعَاوَنُوْا
عَلَی البِّرِّ وَالتَّقْوٰی )[5:المائدہ:2] کے تحت اس میں ایک دوسرے سے
مل جانا کوئی برا نہیں بلکہ اچھا ہی ہے۔
حضرت عثمان نے بھی یہی
کہا تھا‘ جیساکہ بخاری شریف میں ہے کہ نماز نیکی کا کام ہے اور نیکی کے کام میں
لوگوں کے ساتھ شریک ہو جایا کرو۔
ب۔ حضرت عثمان کی مراد یہ نہ تھی کہ بدعتیوں اور مشرکوں کے پیچھے
بھی نماز پڑھ لیا کرو ۔ ان کی مراد تو باغی گروہ سے تھی جو اس وقت مدینہ پر مسلط
تھا
جن کے لیڈروں میں
سےمحمد بن ابی بکر بھی تھا جو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا بیٹا تھا اور حضرت علیؓ کا
ربیب تھا۔ حضرت علیؓ نے اس کو پالا تھا۔ باغیوں کے بارے میں حضرت عثمان ؓ سے یہ
مسئلہ پوچھا گیا تھا کہ ان کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ اس وقت مسجد پر قابض بھی
وہی گروہ تھا۔ لوگوں کا دل نہیں چاہتا تھا کہ فساد میں باغیوں کے پیچھے نماز
پڑھیں‘ حضرت عثمانؓ کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ فساد میں باغیوں کا ساتھ نہ دو لیکن
نماز نیکی کا کام ہے ‘ یہ ان کے ساتھ مل کر پڑھ لیا کرو‘ یہ نہ کرو جیساکہ آج کل
عام لوگ کرتے ہیں کہ امام سے ذرا مخالفت ہوئی تو فوراً اس کے پیچھے نماز پڑھنا
چھوڑ دیا اور یہ فتویٰ لگا دیا کہ میری نماز اس امام کے پیچھے نہیں ہوتی‘ جس امام
سے کسی دنیاوی جھگڑے کی وجہ سے نفرت ہو اس کے پیچھے نماز پڑھنا ترک نہ کرے۔ جس بات
میں مخالفت ہوگی سو ہوگی۔ نماز تو نیکی کا کام ہے۔ اس میں تو مخالفت نہیں ‘ وہ
دونوں ایک ہے ‘ وہ پیچھے پڑھ لینی چاہیے ‘ لیکن جہاں امام سے نفرت ا سکے مذہب کی
وجہ سے ہو وہاں نماز اس امام کے پیچھے نہیں پڑھنی چاہیے۔ اگر حضرت عثمانؓ کے حکم
کو آپ اتنا ہی عام سمجھتے ہیں کہ نماز ہر ایک کے پیچھے پڑھ لینی چاہیے تو پھر مرزائیوں
اور شیعہ کے پیچھے آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے اگر نماز کو ہی دیکھنا ہے کہ یہ ایک
نیک کام ہے ۔ یہ نہیں دیکھنا کہ امام کون ہے ‘ اس کامذہب کیا ہے اور وہ نماز کیسے
پڑھتا ہے تو پھر تو ہر ایک کے پیچھے نماز جائز ہونی چاہیے۔ پھر شیعہ اور مرزائی کا
امتیاز کیسا ؟ حال آنکہ شیعہ اور مرزائی کے پیچھے دیوبندی اور بریلوی بھی نماز
نہیں پڑھتے ۔ سب کہتے ہیں کہ ان کے پیچھے ہماری نماز نہیں ہوتی‘ آخر امامت کی کچھ
شرائط ہیں ان میں امام کے عقیدہ و عمل کو بہت دخل ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے ایک شخص کو
امامت سے معزول کر دیا تھا۔ اس وجہ سے کہ اس نے قبلہ کی طرف تھوکا تھا۔ اس سے
معلوم ہوا کہ جس فعل سے شعائر اﷲ کی توہین و بے حرمتی ہو اس فعل کے مرتکب کو امام
نہیں بنانا چاہیے۔ بدعتی اورمشرک سے زیادہ اس جرم کا مرتکب اور کون ہو سکتا ہے۔
بدعتی اور مشرک دونوں اﷲ کے رسول ؐ کی توہین کرتے ہیں۔ جو نیا دین ‘ اور نئے نئے
معبود بناتے ہیں‘ امامت ایک اعزاز ہے جو کسی غیر اہل حدیث کو نہیں دیا جا سکتا ۔
غیر اہل حدیث سب بدعتی ہیں‘ خاص کر مقلدین ۔ کسی بدعتی کو ایسا اعزاز دینا بہت بڑا
گناہ ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ((
مَنْ وَقَّرَ صَاحِبَ بِدْعَۃٍ فَقَدْ اَعَانَ عَلٰی ھَدَمِ
الْاِسْلاَمِ)) ۱۰۰جس نے کسی بدعتی کی عزت و توقیر کی ‘ اس نے اسلام کی عمارت گرانے
میں اس کی مدد کی۔ اﷲ کے رسولؐ تو یہ فرمائیں اور آج کل کا اہل حدیث دیوبندیوں کے
پیچھے جو یقیناًبدعتی ہیں نماز پڑھے۔ افسو س کی بات نہیں تو اور کیا ہے ؟ امامت سے
بڑی عزت و توقیر اور کیا ہو سکتی ہے۔ غیر اہل حدیث کو امام بنانے سے اس کے غلط
مذہب کو تقویت ملتی ہے۔ بدعتی کو امام بنانے سے ایک طرح سے اس کے غلط مذہب کی
تصدیق ہوتی ہے اور غلط مذہب کی تصدیق حق کی تردید ہے۔ جس سے اسلام کا بڑا نقصان
ہے۔
ا۔ سنا ہے حدیث میں ہے: اَلصَّلٰوۃُ
وَاجِبَۃٌ عَلَیْکُمْ خَلْفَ کُلِّ مُسْلِمٍ بِرٍّ اَوْ فَاجِرٍ اَوْ کَمَا قَالَ ۔۔۱۱نماز ہر نیک و بد کے پیچھے پڑھو۔
ب۔ اولاً تو یہ حدیث بہت کمزور ہے‘ا س قابل نہیں کہ اس سے استدلال
کیا جا سکے ۔ ثانیاً بد سے مراد یہاں غیر اہل حدیث نہیں بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جو
اہل حدیث ہیں‘ لیکن
ان کی عملی حالت اتنی اچھی نہیں۔ بدعمل اہل حدیث کو امام بنانے سے حق مذہب اہل
حدیث کی توہین نہیں ہوتی‘ نہ ہی اس سے حق ملتبس ہوتا ہے ۔ جو خرابی بدعتی اور مشرک
کی اقتدا میں ہے وہ فاسق فاجر کی اقتدا میں نہیں چاہیے تو یہ کہ امام ہرلحاظ سے
بہتر ہو۔ اہلحدیث بھی ہو اور باعمل بھی ہو‘ لیکن اگر کسی عملی کوتاہی کی وجہ سے اس
پر فاسق کا اطلاق ہو جائے تو اس کے پیچھے نماز جائز ہے جیسا کہ صحابہ اور تابعین
بعض اموی حاکموں کو فاسق و فاجر سمجھنے کے باوجود ان کے پیچھے نمازیں پڑھ لیتے
تھے۔ اس زمانہ کے ائمہ بدعتی اور مشرک نہیں ہوتے تھے‘ نہ تقلید کی قسم کی خطرناک
بدعتوں کا اس وقت رواج ہوا تھا۔ شروع شروع میں سب لوگ تقریباً اہل حدیث تھے۔ عملی
کوتاہیاں ہوں تو ہوں ‘ مذہب قریباً سب کا ایک تھا۔
ا۔ بدعتی کے پیچھے نماز کیوں نہیں ہوتی ؟
ب۔ بدعتی اﷲ کے دین کو بگاڑتا ہے۔ اس لیے اﷲ اس کی نماز قبول نہیں
کرتا‘ بلکہ مقلد قسم کا بدعتی تو ویسے ہی اسلام سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔
ابن ماجہ میں حدیث ہے: (( لاَ
یَقْبَلُ اﷲُ لِصَاحِبِ بِدْعَۃٍ صَوْمًا وَ لاَ صَلٰوۃً وَ لاَ حَجًّا وَ لاَ
عُمَرَۃً وَّ لاَ عَدْلاً یَّخْرُجُ مِنَ الْاِسْلاَمِ کَمَا یَخْرُجُ الشَّعْرُ
مِنَ الْعَجِیْنَ ))۱۲ بدعتی کا اﷲ نہروزہ قبول
کرتا ہے ‘ نہ نماز‘ نہ حج‘ نہ عمرہ‘ نہ نفل ‘ نہ فرض۔ وہ اسلام سے ایسے نکلتا ہے
جیسے گوندھے ہو ئے آٹے میں سے بال ۔ بخاری شریف میں ہے: ((مَنْ
اَحْدَثَ فِیْھَا اَوْ اَوٰی مُحْدِثًا فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اﷲِ وَالْمَلاَءِکَۃِ
وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ))۱۳جو
اس میں بدعت کرے یا کسی بدعتی کو جگہ دے اس پر اﷲ کی بھی لعنت ہے اور فرشتوں اور
تمام لوگوں کی بھی۔ جب بدعتی ایسا راندہ درگاہ ہو تو اس کو امام کیسے بنایا جا
سکتا ہے؟
ا۔ بخاری شریف میں تو ہے کہ بدعتی کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے۔
ب۔ اولاً تو وہ کسی کا قول ہے۔ وہ اﷲ کے رسول کی حدیث نہیں۔ اس لیے
وہ دلیل نہیں بن سکتا۔ ثانیاً ہو سکتا ہے کہ اس سے قائل کی مراد بدعملی ہو۔
دین میں تفریق پیدا
کرنے والا مقلد نہ ہو۔ بدعتی سے تو جتنی نفرت ہو اتنی اچھی ہے۔ دین کا بچاؤ اسی
میں ہے۔ عبداﷲ بن عمرؓ اپنے شاگرد کے ساتھ نماز پڑھنے کے ارادے سے ایک مسجد میں
داخل ہوئے ۔ اذان ہوچکی تھی ۔ اذان کے تھوڑی دیر بعد مسجد کے مؤذن نے تثویب کی ۔
یعنی قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃِ اور
حَیَّ عَلَی الْفَلاَح پکار کرکہا‘ تاکہ نمازی نماز کے لیے آجائیں تو عبداﷲ بن عمرؓ نے
اپنے شاگرد حضرت مجاہد سے کہا ۔ چلو ہم یہاں سے نکل چلیں یہ بدعتی ہیں۔ وہ اس مسجد سے
نکل گئے۔ وہاں انھوں نے نماز نہ پڑھی۔
ا۔ اگر بدعتی امام کی نماز قبول نہ بھی ہو تو مقتدی کی نماز پر تو
کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اگر امام کی نماز نہ بھی ہو تو مقتدی کی نماز ہو جاتی ہے‘
جیسا کہ بخاری شریف میں ہے۔
ب۔ بخاری شریف کی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر صالح امام کی نماز میں
کوئی خرابی رہ گئی ہو مثلا وضو یا غسل کرنا بھول گیا یا سری نماز میں غافل ہو گیا ‘
اس نے الحمدشریف نہیں
پڑھی تو مقتدیوں کی نماز ہو جائے گی۔ امام کو اپنی نماز لوٹانی پڑے گی۔ اِنْ
اَصَابُوْا وَ اِنْ اَخْطَوْا کے الفاظ ہی بتا رہے ہیں کہ یہ نماز کی کسی اندرونی خرابی کے بارے
میں ہے۔ جس کا تعلق صرف امام کے ساتھ ہے۔ مقتدیوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ یہ
امام کی شرائط کے بارے میں نہیں۔ امامت کے بارے میں تو آپ نے فرمایا ہے: اَئمَّتُکُمْ
خِیَارُکُمْ ۱۴ تمھارے امام تم سے بہتر
اشخاص ہونے چاہئیں۔ اب غیر اہلحدیث اہل حدیث سے بہتر کیسے ہو سکتا ہے۔ اہل حدیث
کاامام بہتر اہل حدیث ہی ہونا چاہیے نہ کہ مقلد‘ مشرک ‘ دیوبندی اور بریلوی جو اہل
حدیث دیوبندیوں یا بریلویوں کے پیچھے نماز یں پڑھ لیتے ہیں وہ حقیقت میں اہل حدیث
نہیں ۔ وہ نام کے اہل حدیث ہیں‘ وہ اہل حدیث کے مذہب سے بے خبر ہیں۔ اہل حدیث کو
زوال ہی اس وقت سے شروع ہوا ہے‘ جب سے اہل حدیث اپنے مقام کو بھولے ہیں۔ وہ اپنے
آپ کو عام فرقوں جیسا ایک فرقہ سمجھنے لگے ہیں۔اپنی فوقیت کا تصور ان کے ذہنوں سے
بہت حد تک نکل گیا ہے۔ جب تک اہل حدیثوں کو اپنی رفعت و بلندی کا احساس نہیں ہوگا
وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اہل حدیث ازل سے امام پیدا ہوا ہے‘ کیوں کہ وہ حق ہے
‘ اس کو امام رہنا چاہیے۔ کبھی کسی کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ اہل حدیث کا کسی کے
پیچھے لگنا گویا اہلحدیثی کو خیر باد کہنا ہے۔
ا۔ اگر مجبوراً کسی غیر اہل حدیث کے پیچھے نماز پڑھنی پڑ جائے تو
پھر؟
ب۔ اول تو کبھی ایسا موقع آنے نہ دے ‘ لیکن اگر کبھی بے بسی ہوتو
اپنی نماز لوٹائے۔
ا۔ اس کی کیا دلیل ہے ؟
ب۔ مسلم شریف میں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے حضرت ابوذرؓ سے فرمایا : ((
کَیْفَ اَنْتَ اِذَا کَانَتْ عَلَیْکَ اُمَرَاءٌ یُمِیْتُوْنَ
الصَّلٰوۃَ اَوْ یُؤَخِّرُوْنَ عَنْ وَقْتِھَا قُلْتُ فَمَا تَاْمُرُنِیْ قَالَ
صَلِّ الصَّلٰوۃَ لِوَقْتِھَا فَاِنْ اَدْرَکَتَھَا مَعَھُمْ فَصِّلَ فَاِنَّھَا
لَکَ نَافِلَۃٌ )) ۱۵
اس وقت تو کیا کرے گا
جب ایسے امرا تجھ پر مسلط ہوں گے جو نمازوں کو خراب کریں گے یا دیر سے پڑھائیں گے
تو حضرت ابوذرؓ نے پوچھا آپ ہی بتائیں میں اس وقت کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا تو اپنی
نماز وقت پر پڑھ لینا ‘ اگر تجھے ان کی جماعت مل جائے تو ان کے ساتھ شامل ہو جانا
۔ وہ تیرے لیے نفل ہو جائیں گے۔ اس حدیث سے یہ بات نکلی ہے کہ اگر امام اچھا نہیں
اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے نما ز خراب ہو جاتی ہے تو اپنی نماز علیحدہ پڑھ لے۔
جماعت کی پرواہ نہ کرے۔ اگر فتنے کا ڈر ہو تو ان کے ساتھ بھی شامل ہوجائے تاکہ
فتنے سے مامون رہے۔ اس حدیث سے نماز لوٹانے کا ثبوت ملتا ہے۔ امام قرطبی اپنی
تفسیر میں لکھتے ہیں:
اِنَّ الْوُلاَّۃَ
الَّذِیْنَ کَانُوْا یُصَلُّوْنَ بِالنَّاسِ لَمَّا فَسَدَتْ اَدْیَانُھُمْ وَ
لَمْ یُمْکِنْ تَرْکُ الصَّلٰوۃِ وَرَاءِھُِمْ وَلاَ اسْتُطِعَتْ اَتَاھُمْ صَلِّ
مَعَھُمْ وَرَاءَھُمْ کَمَا قَالَ عُثْمَانُ اَلصَّلٰوۃ اَحْسَنَ مَا یَفْعَلُ
النَّاسُ فَاِذَا اَحْسَنُوْا فَاَحْسِنْ وَ اِذَا اَسَاءُوْا فَاجْتَنِبْ
اِسَاءَتَھُمْ ثُمَّ کَانَ مِنَ النَّاسِ مَنْ اِذَا صَلَّی مَعَھُمْ تَقِیَّۃً
اَعَادُوالصَّلٰوۃَ لِلّٰہِ وَ مِنْھُمْ مَنْ کَانَ یَجْعَلُھَا صَلاَتہ‘
وَبِوُجُوْبِ الْاِعَادَۃِ اَقُوْلُ جب امراء کی دینی
حالت خراب ہو گئی ‘
لیکن وہ لوگوں کی امامت کرواتے تھے اور لوگ ان کو ہٹا بھی نہیں سکتے تھے۔ ا س لیے
ان کو ان کے پیچھے نماز پڑھنی پڑتی تھی جیسا کہ حضرت عثمانؓ نے کہا کہنماز ایک
نیکی کاکام ہے ‘ نیکی کے کام میں شامل ہو جایا کرو او ران کے برائی کے کاموں سے
بچا کرو۔ پہلے لوگوں میں سے بعض تو تقیہ کے طور پر ایسے ائمہ کے پیچھے نماز پڑھ
لیتے تھے لیکن پھر اپنی نماز لوٹا لیتے تھے اور بعض نہ لوٹاتے ۔ امام قرطبی ؒ کہتے
ہیں ‘ لیکن میری رائے یہی ہے کہ ایسے اماموں کے پیچھے نما ز پڑھ کر نماز کو لوٹانا
واجب ہے۔ امام قرطبی ؒ اپنی تفسیر میں ایک دوسری جگہ اس سے بھی واضح الفاظ میں
لکھتے ہیں:
وَ اِنْ صَلُّوْا بِنَا وَ کَانُوْا فَسَقَۃً مِنْ جِھْۃِ
الْمَعَاشِ جَازَتِ الصَّلٰوۃُ مَعَھُمْ وَ اِنْ کَانُوْا مُبْتَدِعَۃً لَّمْ
تَجْزِالصَّلٰوۃُ مَعْھُمْ اِلاَّ اَنْ یَّخَافُوْا فَیُصَلِّیْ مَعَھُمْ
تَقِیَّۃً وَ تُعَادِ الصَّلٰوۃَ اور اگر ایسے امام نماز پڑھائیں جو فاسق ہوں تو ان کے پیچھے نماز
جائز ہے او ر اگر امام بدعتی ہوں توا ن کے ساتھ نماز جائز نہیں‘ لیکن اگر فتنے کا ڈر ہو
تو تقیہ کے طورپر ان کے پیچھے نماز پڑھ لے لیکن پھر اپنی نماز کو لوٹائے۔
۔۔۔۔۔۔
۱ (ابوداو‘د : کتاب
السنّۃ‘ باب فی القدر ‘ ص 1569رقم 4710:۔۔۔ مسند احمد30/1: رقم 206 ۔۔ مشکوۃ ‘
کتاب الایمان ‘ باب الایمان بالقدر رقم 108:)
۲ (مسند احمد436/3 رقم
15170۔۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 478/1 رقم 270)
۳ (ترمذی: ابواب الفتن ‘
باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ ‘ص 1869 رقم 2167 مشکوۃ : کتاب الایمان ‘ باب الاعتصام
بالکتب والسنۃ ‘رقم (173
۴ (مسلم: کتاب الحج‘ باب
التلبیۃ و صفتھا و وقتھا‘ ص 870 رقم 22 ۔۔۔ مشکوۃ :کتاب المناسک‘ باب الاحرام
والتلبیۃ‘ فصل ثالث
)
۵ (صحیح البخاری‘ کتاب
الاذان ‘ باب امر النبی ؐ الذی لا یُتِمَّ رکوعہ بالاعادۃ ‘ص 63 رقم 793۔۔۔ صحیح
مسلم‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب وجوب قراء ۃ الفاتخۃ فی کل رکعۃ‘ ص 741 رقم45 ۔۔ ابوداؤد
کتاب الصلوۃ ‘ باب صلوۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود‘ ص1386:رقم 856 ‘ جامع
الترمذی ‘کتاب الصلوۃ ‘ باب ما جاء فی وصف الصلوۃ‘ ص 1668 رقم 302 ۔۔ مشکوۃ : کتاب
الصلوۃ‘ باب صفۃ الصلوۃ‘ رقم (790
۶(قدوری ‘ باب صفۃ
الصلوۃ )
۷ (ہدایۃ کتاب الصلوۃ ‘
باب الحدث فی الصلوۃ ص (130
۸ (صحیح مسلم‘ کتاب
الصلوۃ ‘ باب مایجمع صفۃ الصلوۃ و ما یفتتح بہ و یختم بہ رقم 240۔۔ نسائی ‘ کتاب
الافتتاح ‘ باب العمل فی افتتاح الصلوۃ ‘ ص 2143رقم 877 ۔۔ مشکوۃ ‘ کتاب الصلوۃ ‘
باب صفۃ الصلوۃ فصل اول رقم 791)
۹ (ابوداؤد‘ کتاب
الطہارۃ‘ باب فرض الوضوء ص 1227 رقم 61 ‘ارواہ الغلیل ‘ 8/2 رقم 301۔۔ ابن ماجۃ ‘
کتاب الطہارۃ ‘ باب مفتاح الصلوۃ الطہور‘ ص 2494 رقم 276 ۔۔ ترمذی :کتاب الطہارۃ ‘
باب ما جاء ان مفتاح الصلوۃ الطھور‘ ص 1629 رقم 3)
۱۰ (مشکوۃ : کتاب الایمان
‘ باب الاعتصام بالکتب والسنۃ ‘ فصل ثالث رقم (189:
۱۱ ( مشکوۃ
‘ 351/1‘ کتاب الصلوۃ‘ باب الامامۃ ‘ 1125۔۔ ابوداؤد‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب الامامۃ
البر والفاجر‘ ص 1268 رقم 594)
۱۲ ( ابن
ماجۃ ‘ کتاب السنۃ‘ باب اجتناب البدع و الجدل ‘ص 2480 رقم (49:
۱۳ (صحیح البخاری ‘ کتاب
الاعتصام ‘ باب اثم من آوی محدثا ‘ ص 608 رقم 7306)
۱۴ ( مسلم:کتاب
الامارۃ ‘ باب خیار الائمۃ و شرارھم ص 1011 رقم 66-65 ۔۔ مسند احمد: 24/6 رقم
23461)
۱۵ ( مسلم
‘ کتاب المساجد ‘ باب کراھۃ تاخیر الصلاۃ عن وقتھا ‘ ص 778‘ رقم 238 ابوداو‘د :
کتاب الصلوۃ ‘ باب اذا اخر الامام الصلوۃ عن الوقت ص 1255 رقم 431 مشکوۃ:کتاب
الصلوۃ ‘ باب تعجیل الصلوات رقم 600)