اہل حدیث کو دعوت حق و اتحاد
بسم اﷲ الرحمٰن
الرحیم
برادران اہل حدیث!
اسلام علیکم و رحمۃ اﷲو برکاتہ
آپ سب جانتے ہیں کہ اتحاد بڑی نعمت ہے اور اس میں بڑی برکتیں اور
طاقت ہے۔ لیکن آج اہل حدیث اس نعمت سے محروم ہیں اور افسوس یہ ہے کہ وہ حقیقت میں
اہل حدیث نہیں رہے‘ اگر اہل حدیث ‘ اہل حدیث ہوتے اور قرآن و حدیث ان کا موقف ہوتا
تو ضرور ان میں اتحاد ہوتا۔
اصل میں اہل حدیث کے ہاتھ سے اب اتحاد کی رسی چھوٹ گئی ہے۔ جو ((تَرَکْتُ
فِیْکُمْ اَمَرَیْنِ ))۱ کہہ کر رسول ﷲ ﷺ نے ان کے
ہاتھ میں تھمائی تھی جس کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے (وَاعْتَصِمُوْا
بِحَبْلِ ﷲِ جَمِیْعًا )[3:آل عمران:103]فرمایا تھا۔ آج اہل حدیث ﷲ کی رسی کو
چھوڑ کر جمہوری بن گئے ہیں۔ اب جمہوریوں کی طرح کفر کی سیاست میں ملوث ہو گئے ہیں۔
اسی وجہ سے مختلف پارٹیوں میں بٹ گئے ہیں۔ آج اہل حدیث ایسے ہی پارٹیاں بناتے ہیں
جیسے لوگ سیاسی پارٹیاں بناتے ہیں۔ اگر اہل حدیث اہل حدیث ہوتے ‘ اﷲ کی رسی ان کے
ہاتھ میں ہوتی‘ تو وہ ایک دینی جماعت ہوتے ‘ کبھی کوئی پارٹی نہ بناتے۔ اسلام
پارٹیاں بنانے کی اجازت کب دیتا ہے۔ اسلام تو لاَ
تَفَرَّقُوْا [3:آل عمران:1033]کہہ کر پارٹی بازی سے منع کرتا ہے۔
یہ تو جمہوریت ہے جو
پارٹیاں بنانا سکھاتی ہے۔ آج اہل حدیث میں اتحاد کرانا ایسا ہی مشکل ہے جیسے
پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں سیاسی پارٹیاں پاکستان کی خیر خواہ بنتی ہیں اور
پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتی ہیں‘ لیکن آپس میں وہ لڑائیاں لڑتی ہیں کہ پاکستان
تباہ ہوا جا رہا ہے۔
اگر وہ پاکستان سے مخلص ہوتیں تو ایک ہوتیں اور آپس میں لڑائیاں نہ
لڑتیں۔ یہی حال اہل حدیث کا ہے۔ دعویٰ اہل حدیثی کا کرتے ہیں ‘ نام قرآن و حدیث کا
لیتے ہیں ‘ لیکن سیاست جمہوری لڑاتے ہیں۔ اور آپس میں وہ رسہ کشی ہے کہ اہل حدیث
تباہ ہوئے جا رہے ہیں۔
جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بھی سیاسی پارٹیوں کی طرح اپنے اقتدار کے
پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ قرآن وحدیث سے بھی مخلص نہیں ۔ پہلے اہل حدیث کا ایک ’’کامن
پلیٹ فارم‘‘ قرآن و حدیث تھا‘ اب ان کے کئی سیاسی پلیٹ فارم ہیں۔ کوئی کچھ ‘ کوئی
کچھ ۔۔ آج کل کے اہل حدیث سیاسی زیادہ ہیں ‘ دینی کم ۔ ان کے جنازے سیاسی‘ ان کی
افطاریاں سیاسی ‘ ان کے خطبے سیاسی اور ان کے جمعے سیاسی ۔ ان کے جلسے‘ جلوس غرض
یہ کہ آج جمہوری اہل حدیثوں کا مذہب سیاست میں گم ہو کر رہ گیا ہے اور بھوک ہڑتال
کر رہا ہے۔ لہٰذا اب ان میں اتحاد کہاں‘ جمہوریت آ جانے سے اتحاد کیسے رہ سکتا ہے۔
جمہوریت پارٹی بازی چاہتی ہے اور اتحاد پارٹی بازی کے منافی ہے۔
اہل حدیثو! اتحاد بہت ضروری ہے۔ اس کے بغیر تمھارا بچاؤ نہیں اس
لیے اﷲ تعالیٰ نے ( وَاَطِیْعُوْا
ﷲَ وَ رَسُوْلَہ‘ وَ لاَ تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ
)[8:الانفال:46]کا تاکیدی حکم دیا ہے۔ لہٰذا اہلحدیثو! جمہوریت کو چھوڑو اور اتحاد
کرو۔ جب تک تم میں جمہوریت کے جراثیم رہیں گے اتحاد کبھی نہیں ہوگا۔
اہل حدیثو! کبھی آپ
نے سوچا کہ اﷲ تعالیٰ نے جو قرآن مجید میں حکم دیا ہے‘ وہ کس کو دیا ہے۔ سن لو حکم
صرف تمھارے لیے ہے کیوں کہ دنیا میں اﷲ کی جماعت صرف تم ہی ہو۔ اگر تم نے اس حکم
کی پرواہ نہ کی تو تمھاری خیر نہیں۔ اتحاد کا حکم سب مسلمان فرقوں کے لیے نہیں
کیوں کہ وہ اہل حق نہیں ۔ وہ حق و باطل سے مرکب ہیں اور اتحاد کا حکم صرف اہل حق
کے لیے ہی ہوتا ہے۔ اﷲ حق و باطل کو مخلوط نہیں ہونے دیتا۔ چنانچہ ( وَلاَ
تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ )[2:البقرہ:42]میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ غیر اہل حق کو
نہ اﷲ اتحاد کا حکم دیتا ہے ‘ نہ اتحاد کی ان کو ضرورت ہے۔ غیر اہل حق کے لیے تو
بلکہ رسول اﷲ ﷺ کی اکثر یہ دعا ہوتی تھی:
’’ اﷲ
! ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کر۔‘‘ تاکہ وہ اکٹھے ہو کر اہل حق کے لیے فتنہ نہ بن
سکیں۔ جو حق سے ہٹ جائے خواہ وہ اہل حدیث ہو یا غیر اہل حدیث ‘ نہ اس کو اتحاد کا
حکم ہے ‘ نہ اس سے اتحاد کا حکم ہے‘ بلکہ حق سے ہٹنے والے کے لیے تو (نُوَلِّہٖ
مَا تَوَلّٰی )[4:النساء:115]کا دھکا ہے‘ جو اس سے
اتحاد کرنے سے مانع ہے۔ کوئی جتنا حق سے دور جائے گا اتنا اتحاد سے دور ہوتا جائے
گا۔ حق سے ہٹنے والوں سے اتحاد ممکن نہیں۔ اتحاد تو حق پر ڈٹنے والوں سے ہی ہو
سکتا ہے۔ حق سے ہٹنے والوں کے لیے تو صرف حق کی دعوت ہے تاکہ اگر وہ حق کو قبول
کریں تو ان سے اتحاد ہو سکے۔ اتحاد کا طریقہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ اتحادی پہلے
حق کو قبول کریں ‘ پھر وہ حق پر جمع ہو جائیں۔ ( وَاعْتَصِمُوْا
بِحَبْلِ ﷲِ جَمِیْعًا )[3:آل عمراان:103]میں یہی حکم ہے حق سے ہٹ کر اتحاد کرنا
بہت بڑا جرم ہے‘ کیوں کہ اس سے حق کو نقصان پہنچتا ہے۔ اتحاد حق کی خدمت اور حفاظت
کے لیے ہے ‘ نہ کہ حق کو نقصان پہنچانے کے لیے ‘ جس اتحاد سے حق کو نقصان پہنچے اس
سے تو اختلاف بہتر ہے بلکہ حق کے دفاع کے لیے تو جہاد کیا جاتا ہے۔ حق سے مراد اﷲ
کی وہ رسی ہے جو اﷲ نے محمد ﷺ پر آسمان سے لٹکائی ہے۔
لہٰذا جس کو اتحاد
منظور ہو وہ اپنے تمام سلسلوں کو توڑ کر محمد ﷺ کی تھمائی ہوئی رسی کو مضبوطی سے
تھام لے۔ یعنی اتحاد کا پلیٹ فارم صرف قرآن وحدیث ہے۔ جو قرآن وحدیث پر اتحاد نہیں
کرتا قرآن وحدیث سے اپنے تمام اختلافات کا فیصلہ نہیں کرواتا وہ اﷲ کے نزدیک منافق
ہے۔
چنانچہ قرآن مجید میں ہے:( وَاِذَا
قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَا اَنْزَلَ اﷲُ وَ اِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ
الْمُنَافِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا)[4:النساء:61]
(جب
تو ان کو قرآن و حدیث کی دعوت دے اور وہ ٹالیں تو تو سمجھ لے کہ یہ کردار منافقوں
کا ہے)
اہل حدیثو! آخر تم
قرآن و حدیث پر جمع کیوں نہیں ہوتے۔ قرآن و حدیث کو اپنا حاکم کیوں نہیں مانتے‘
کیا تم اہل حدیث نہیں یا تمھارے پاس قرآ ن و حدیث نہیں۔ تم کیوں کفر کی سیاست
اپناتے ہو۔ کیوں کفر کی عدالتوں میں جا کر اپنا ایمان کھوتے ہو۔
اہل حدیثو! تم قرآن و حدیث کو اپنا حاکم بناؤ‘ قرآن و حدیث کی
عدالتیں بناؤ۔ ان میں اپنے مقدمات کے فیصلے کرواؤ تاکہ تم کم ازکم مسلمان تو رہ
جاؤ۔
اگر علامہ احسان الٰہی مرحوم کو میاں فضل حق یا مولوی معین الدین
سے کوئی اختلاف تھا تو (فَرُدُّوْہُ
اِلَی ﷲِ وَالرَّسُوْلِ )[4:النساء:59]کے تحت قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرنا
چاہیے تھا‘ لیکن اس کی توفیق کسی کو بھی نہ ہوئی۔ سب پارٹی بازی پر ڈٹے رہے‘ جس کے
نتیجے میں جماعت برباد ہو گئی اور یوتھ فورس وجود میںآئی جو اب کسی کے قابو میں
نہیں۔ اب وہ غیروں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے اور خطرہ ہے کہ وہ کوئی مستقل فرقہ
نہ بن جائے اور پوری جماعت کو (
اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ
بَعْضٍ)[6:الانعام:65]کے تحت اﷲ کے مستقل عذاب میں نہ دھکیل دے جس کا وبال بانی و
مبانیوں کے سر رہے۔
اہل حدیثو! اگر اتحاد
چاہتے ہو تو اس کا طریقہ یہ نہیں کہ چہرے مہرے بدل دو‘ معین کی جگہ عبداﷲ کو لے آؤ
اور میاں کی جگہ میر کو یا میاں اور میر میں صلح کروا کے ان کو میاں میر بنا دو۔
جیسا کہ بعض بے خبر سمجھتے ہیں کہ صلح کرانے سے اتحاد ہو جائے گا۔
یادرکھو! صلح کرانے سے کبھی اتحاد نہیں ہوگا۔ صلح سے پھر وہی
جمہوریت آئے گی جس کی سزا پہلے ہی جماعت بھگت رہی ہے۔ اتحاد جمہوریوں کو اہل حدیث
بناکر ہی ہو سکتا ہے۔ اس طرح سے کہ جمہوری دنیا کی سیاست کو ترک کرکے قرآن وحدیث
کو اپنا حاکم بنا لیں اور قرآن و حدیث کا نظام قائم کریں۔ اﷲ تعالیٰ نے ( وَاعْتَصِمُوْا
بِحَبْلِ ﷲِ جَمِیْعًا)[3:آل عمران:103]میں اتحاد کا یہی طریق بتایا ہے کہ ا
کٹھے ہو کر اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔ اپنی جمعیتوں کو ‘ شبان کو اور یوتھ
کو ختم کردو۔ یہ سب جمہوریت کے جمورے ہیں۔ اپنی سیاست کو اسلامی بناؤ۔ اپنا ایک
شرعی امیر بنا کر جماعتی زندگی گزارو اور قرآن و حدیث کو حتی المقدور نافذ کرکے
اقامت دین کا فریضہ ادا کرو۔ جب تک اہل حدیث اپناشرعی نظام نہیں لاتے‘ وہ اہل حدیث
نہیں بن سکتے۔ جب تک وہ اہل حدیث نہیں بنتے ان میں اتحاد کہاں؟ اہل حدیثو! اب بھی
وقت ہے‘ سنبھل جاؤ۔ قرآ ن وحدیث کی طرف رخ کرو۔ پیٹھ نہ کرو۔ قرآن و حدیث پر متحد
ہو کر ان کو اپنا حاکم بنا لو۔
اے جمہوریت کے
پرستارو!دیر نہ لگاؤ‘ جلدی جمہوریت سے تائب ہوجاؤ‘ تم سے اہل حدیث کو نقصان پہنچا
ہے۔ اگر تم نہ پلٹے تو پوری جماعت کا بوجھ تم پر ہوگا۔ ابھی وقت ہے توبہ کا دروازہ
کھلا ہے۔ اﷲ نے تمھیں بہت مہلت دی ہے۔ پتا نہیں کب یہ مہلت ختم ہو جائے اور دروازہ
بند ہو جائے۔ پھر بچھتا نے سے کچھ نہ ہوگا۔ اس وقت چاروں طرف سے یہی آوازیں آئیں
گی۔( اَنّٰیْ
لَھُمُ الذِّکْرٰی)[44:الدخان:13]
(وَ
اَنّٰی لَھُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّکَانٍ بَعِیْدٍ )[34:السبا:52]
اب وقت گزر گیا اب
وقت نہیں۔۔( فَاعْتَبِرُوْ
ا یَا اُولِی الاَبْصَارِ )[59:الحشر:9]
و ما علینا الا البلاغ
*****
۱ ( مشکوۃ
‘ کتاب الایمان ‘ باب الاعتصام بالکتٰب والسنۃ‘ فصل ثالث‘ رقم 186۔۔۔ مؤطا کتاب
الجامع ۔ باب النہی عن القول فی القدر )