اہل سنت کا امتحان

1–سنی بھائیو!
محرم کا حرمت والا مہینہ آ گیا۔ صحیح حدیثوں سے صرف اتنا ثابت ہے کہ اس ماہ میں روزے رکھے جائیں ‘ خاص کر عاشورہ کا جس سے ایک سال قبل کے گناہ معاف ہوتے ہیں ‘ دسویں کے ساتھ اگر نویں کا روزہ بھی ملالیا جائے تو بہت بہتر ہے۔
یہ مہینہ کوئی نیا نہیں ‘ یہ حضور ﷺ پر بھی آیا کرتا تھا اور صحابہؓ پر بھی ‘ تابعین پر بھی آیا کرتا تھا اور ائمہ کرام پر بھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ اسے کیسے گزارتے ہیں ؟ سنت رسول ‘ سنت خلفائے راشدین اور طریقہ ائمہ کرام کے مطابق بکثرت روزے رکھ کر یاشیعہ کی طرح تابوت پیٹ کر۔ تابوت نکالنا اور تابوت پیٹنا شیعہ کے نزدیک جائز ہو تو ہو ‘ لیکن اہل سنت کے نزدیک قطعا جائز نہیں ‘ بلکہ حرام ہے۔
2– اگر آپ اہل سنت ہیں
اگر آپ اہل سنت ہیں تو سوچیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے حضورؐ کے چچا حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ جن کو آپ نے سید الشہداء کا خطاب دیا تھا‘ شہید ہوئے آپ کے عم زاد بھائی حضرت جعفر طیار رضی اﷲ عنہ شہید ہوئے او ردیگر بڑے بڑے صحابہؓ بھی آپ کے سامنے شہید ہوئے لیکن کیا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے یا کسی خلیفے نے کبھی کسی شہید کی تربت بنائی اور اس کا جلوس نکالا۔ کبھی شاہراؤں پر یوں ماتم کیا اور سینہ کوبی کی۔ کبھی عشرہ محرم میں سیا ہ کپڑے پہنے اور حلال چیزوں کو یوں اپنے اوپر حرام کیا۔ کبھی غیر اﷲ کی منتیں اور نذریں مانیں۔ کبھی شبیہوں کو سجدے کیے یا کرائے؟ کبھی شہیدوں کے نام کی سبیلیں جاری کیں؟ آخر کون سا کام ہے جو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس ماہ میں کیا اور آپ اس کی پیروی کرکے اہل سنت کہلانا چاہتے ہیں۔
3– حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت
حضرت حسین رضی اﷲعنہ کی شہادت 61 ھ میں ہوئی ‘ اس کے انیس سال بعد 80ھ میں امام ابوحنیفہ ؒ پیدا ہوئے 150ھ میں آپ نے انتقال فرمایا۔ اس ستر سال کی عمر میںآپ نے نہ کبھی خود تعزیہ داری کی نہ کسی کو حکم دیا۔ آخر کیوں ؟ کیا امام صاحب کو حضرت حسین رضی اﷲعنہ اور ان کے اہل بیت سے محبت نہ تھی؟ کیا امام صاحب کو شہیدکربلا کی شہادت کا غم نہ تھا‘ یا کیا امام صاحب کے دل میں آپ جیسی دین کی تڑ پ نہ تھی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ امام صاحب نے کبھی عشرہ محرم نہیں منایا اور آپ ہر سال مناتے ہیں۔
4–اے حنفی ہونے کا دعویٰ کرنے والے!
آخر محرم کی ان رسومات میں سے وہ کون سی رسمیں ہیں جو امام صاحب نے کیں اور آپ ان کی تقلید کر کے حنفی کہلانا چاہتے ہیں۔ کیا سنی ا ور حنفی ہونے کے یہی معنی ہیں کہ نہ رسول کی پرواہ ‘ نہ امام کی اور جو دل میں آیا کرتے گئے۔ کیا اسی بات پر اپنے اہل حدیث بھائیوں کو جو رسول ﷺ کی سنت اور اماموں کے طریقوں پر چلتے ہیں ’’ غیر مقلد‘‘ اہل سنت سے خارج ‘ اماموں کے منکر‘ کے خطابات سے نوازتے ہو‘ آخر یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ اہل حدیث اگر نبیصلی اﷲ علیہ وسلم کی ہمیشہ کی سنت کے مطابق رفع الیدین کے ساتھ نماز پڑھے تو اسے شیعہ کہہ دیں اور خود خواہ سارا محرم ماتم کریں‘ تعزیے نکالیں تو سنی کے سنی رہیں اور آپ کی سنیت میں ایک انچ کا بھی فرق نہ آئے۔
5–اہل سنت بھائیو!
اگر صحیح معنوں میں اہل سنت ہو تو سنت رسول ؐ کو دیکھو۔ سنت کی پیروی کرنا ہی اہل سنت بننا ہے۔ یہی اماموں کا مسلک تھا اور یہی ان کی تبلیغ تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ جو رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا وفادار نہیں‘ وہ کسی کا بھی وفادار نہیں۔ نبی ﷺ کا اتباع ہی اصل میں ائمہ کا اتباع ہے۔ محرم میں سنت رسول ؐ روزے رکھنا ہے‘ تعزیے بنانا او ر نکالنا نہیں ۔ لہٰذا تعزیے کے جلوسوں میں نہ خود جاؤ ‘ نہ اپنے بیوی بچوں کو جانے دو۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ اگر سنت رسولؐ کے مطابق عورتیں جمعہ اور عید کے لیے گھر سے باہر نکلیں تو علما ناراض ہو جائیں اور کہیں کہ حنفی فقہ اس کی اجازت نہیں دیتی۔ لیکن اگر وہی عورتیں تعزیے کی رونق کو دوبالا کریں تو کان پر جوں تک نہ چلے۔
6– اے گروہ علما!
خدارا! اٹھو‘ اپنی ذمہ داریوں کا احسا س کرو ‘ اپنے مقام کو پہنچانو‘ یہ منبر اور یہ مصلے جن کی وجہ سے آپ کی عزت ہے ‘ آپ کے نہیں‘ اﷲ کے رسول ﷺکے ہیں اور آپ نائب رسولؐ ہیں۔ اپنے اندر وہ کردار پیدا کرو جو رسول مقبولؐ کا تھا۔ حق کو حق کہو اور باطل کو باطل ۔ مقتدی خواہ ناراض ہوں یا راضی آپ کا مقصد دین محمدی ؐ کی تبلیغ ہے۔ دنیا نہیں‘ دنیا دنیا داروں کے لیے ہے‘ آپ کے لیے آخرت ہے۔ قیامت کے دن مقتدی تو جہالت کا عذر کرکے اپنی جان چھڑالیں گے لیکن آپ کو بہت مشکل ہوگی۔ یہ چپ جو آپ نے سادھ رکھی ہے ‘ آپ کے لیے وہاں وبال جان بن جائے گی۔ دنیا کو صاف طور پر بتا دو کہ نجات صرف سنت رسولؐ کی پیروی میں ہے۔ سنت سے باہر نجات نہیں۔ یہی آپ کا فرض ہے اور یہی آپ کا مقام ۔ دعا ہے کہ اﷲ ہم سب کو اپنے مقام اور فرض کے پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے اور خاتمہ سنت پر کرے۔
شیعہ سے خطاب
اس وقت پاکستان میں اسلام جس دور سے گزر رہا ہے اس کا تقاضا ہے کہ مذہبی اختلافات کم سے کم ہو جائیں ورنہ خطرہ ہے کہ کہیں اختلافات کی پاداش میں اسلام کو ملک بدر نہ ہونا پڑے۔ اگر خدانخواستہ یہ صورت حال پیش آ گئی تو اﷲ کے ہاں مجرم وہ مسلمان ہوں گے جو اختلافات کرتے ہیں ‘ نہ کہ اسلام۔ اسلام کا اختلافات سے کیا تعلق؟ آخر کیسے ہو سکتا ہے کہ اسلام جو امن وسلامتی کا پیغام ہے ‘ اختلافات پیدا کرے۔ یہ ناممکن ہے ‘ کہ اﷲ واحد ہو اور اس کا دین وحدت والا نہ ہو بلکہ اختلافی ہو۔اسلام تو آیا ہی وحدت قائم کرنے کے لیے ہے اور وحدت بھی ایسی جو ناقابل تقسیم ہو۔ آخر یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک اسلام کے اندر دو متصادم اسلام ہوں۔ یہ اختلافات جو نظر آتے ہیں اسلام کے نہیں‘ مسلمانوں کے ہیں۔ جو اسلام میں غیر اسلام کو داخل کرنے سے پیدا ہوئے ہیں۔ ان اختلافات کو مٹانے کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ ہر فرقہ اسلام کی طرف لوٹے ‘ ان تمام چیزوں کو آہستہ آہستہ ترک کرتا جائے جن کا اصل اسلام پر اضافہ کیا گیا ہے۔ اصل اسلام کے لیے معیار اﷲ کے رسول ﷺ کو ٹھہرایا جائے‘ جیسا کہ قرآن کا فیصلہ ہے۔ صرف ان چیزوں پر اکتفا کی جائے جو رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے کیں یا کروائیں۔ زائد سے بالکل صرف نظر کر لیا جائے۔ کیوں کہ نبی کی سنت سے جو زائد ہوگا وہ غیر ضروری ہوگا۔ اس کے بغیر بھی اسلام مکمل رہے گا۔ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اﷲ کے رسولؐ دنیا سے گئے ہوں اور دین ناقص چھوڑ گئے ہوں تاکہ بعد والے پورا کریں ‘ وہ امتی کیسا جو شریعت بنائے اور وہ شریعت کیسی جو امتیوں نے بنائی ہو۔ امتی کا کام پیروی کرنا ہے‘ دین بنانا صرف نبی کا کام ہے۔ اگر یہ اصول اپنایا جائے تو ان شاء اﷲ العزیز پوری امید ہے کہ ہر فرقہ جوں جوں اصل اسلام کے قریب ہو تا جائے گا‘ اختلافات کم ہوتے چلے جائیں گے۔ مثال کے طور پر عید میلادوں اور عرسوں کو سنی چھوڑ دیں اور تعزیوں کو شیعہ تو اسلام میں بھی فرق نہیں آئے گا اور اثر بھی صحت مند رہے گا۔ کیا امام زین العابدین تعزیے بنا کر امام بنے تھے یا امام ابوحنیفہ ؒ عرس اور مولود کر کے ؟ جب یہ بزرگ بغیر تعزیے نکالے‘ بغیر مولود کیے امام الائمہ بن گئے تو ہم ان کے نقش قدم پر چل کر بغیر تعزیوں اور عرسوں کے صحیح مسلمان کیوں نہیں بن سکتے۔ اﷲ ہمیں ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے نبی کے سچے امتی بنائے۔ !(آمین)

*****