MrJazsohanisharma

نماز روزہ کے بعض اہم اور ضروری مسائل

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

نماز روزہ کے بعض اہم اور ضروری مسائل

یہ رمضان المبارک ہے ۔ اﷲ تعالیٰ اس مہینے کو اس لیے نازل فرماتے ہیں کہ مسلمان اس میں زیادہ سے زیادہ کمائی کر سکیں۔ اس مہینے میں اﷲ تعالیٰ ثواب کا ریٹ بھی بڑھا دیتے ہیں۔ اور مہینوں میں اگر ثواب دس گنا ہو تو رمضان شریف میں کم از کم ستر گنا کر دیا جاتا ہے۔ ایک مسلمان کو اس برکت والے مہینے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے۔

ثواب صرف اسی عمل کاملتا ہے جو قبول ہو جائے ‘ جوعمل قبول نہ ہو اس کا ثواب ملنا تو درکنا ر وہ عمل وبال جان بن جاتا ہے۔ نماز اگر قبول ہو جائے تو اس کا بدلہ جنت ہے‘ اگر قبول نہ ہو تو اﷲ بھی ناراض ہوتا ہے اور نماز بھی بددعا کرتی ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

( فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ O اَلَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلاَ تِھِمْ سَاھُوْنَ)[107: الماعون:4-5]

’’ ان نمازیوں کے لیے ہلاکت ہے جو اپنی نمازوں کے معاملے میں غافل ہیں‘‘

حدیث شریف میں ہے اگر نماز ٹھیک طورپر ادا نہ کی جائے تو نماز لوٹا کر منہ پر ماری جاتی ہے‘ بلکہ نماز بد دعا کرتی ہے:

((ضَیَّعَکَ اﷲُ کَمَا ضَیَّعْتَنِیْ )) ۱

اے نمازی! اﷲ تجھے ضائع کرے جیسے تو نے مجھے ضائع کیا۔

اس لیے عمل سے زیادہ عمل کے قبول ہونے کی فکر ہونی چاہیے۔ شرک کرنے والے کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا۔ بلکہ شرک کرنے سے پچھلے سب عمل برباد ہو جاتے ہیں۔

اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں نبیوں کا ذکر کر کے فرماتے ہیں:

(وَ لَو اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ )[6:الانعام:88]

اگر یہ لوگ بھی شرک کرتے تو ان کے عمل بھی برباد ہو جاتے۔ حضور ﷺ سے اﷲ تعالیٰ مخاطب ہو کر فرماتے ہیں:

(لَئنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ) [39:الزمر:65]

اے نبی! اگر تو شرک کرے تو تیرے بھی سب عمل برباد ہو جائیں اور تیرے پلے کچھ نہیں رہے گا۔ اس لیے شرک سے پرہیز بہت ضروری ہے۔ آج کل عام طور پر مسلمان شرک کی پرواہ نہیں کرتے حالا نکہ قرآن و حدیث میں شرک سے بہت ڈرایا گیا ہے۔ قرآ ن مجید میں ہے:

( وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاﷲِ اِلاَّ وَھُمْ مُشْرِکُوْنَ )[12:یوسف:106]

اکثر لوگ اﷲ پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور شرک بھی کرتے ہیں۔ و ہ شرک کو شرک ہی نہیں سمجھتے۔

مسند احمد میں ہے کہ رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:

((یٰاَیُّھَاالنَّاسُ اتَّقُوْا مِنَ الشِّرْکِ فَاِنَّہ‘ اَخْفٰی مِنْ دَیِبْبِ النَّمْلِ)) ۲

اے لوگو ! شرک سے بچو‘ شرک کی چال چیونٹی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔

اس کا پتا نہیں چلتا اس لیے شرک سے بہت ہوشیار رہو۔ سب سے پہلا اور بنیادی عمل کلمہ شہادت ہے ‘ اس کے پڑھنے سے ہی آدمی مسلمان ہوتا ہے۔جب مسلمان کسی قسم کا کفر اورشرک کرتا ہے تواس کے کلمہ پر چوٹ پڑتی ہے جس کا کلمہ ہی ٹھیک نہ رہا تو اس کاا سلام کہاں رہا۔ جس کا اسلام نہ رہا تواس کا کوئی عمل کیسے قبول ہو سکتا ہے۔ لہذا کلمہ تمام اعمال کے لیے بنیاد ہے۔ اگر کوئی کلمہ کے تقاضے پورے نہ کرتا ہو تواس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا۔

کلمہ کے بعد سب سے پہلا اور بنیادی عمل نماز ہے اگر نماز قبول ہو تو باقی اعمال فائدہ دیتے ہیں ورنہ نہیں۔ جیسے لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ سب اعمال کے لیے بنیاد ہے اسی طرح نماز دیگر تمام اعمال کے لیے بنیاد ہے۔ اگر نماز نہ پڑھی جائے یا نماز قبول نہ ہو تو پھرسب عمل بے کار ہو جاتے ہیں۔ بے نماز کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا۔ حدیث شریف میں ہے:

(( مَا یَنْظُرُ فِیْہِ مِنْ عَمَلِ الْعَبْدِ الصَّلٰوۃُ فَاِنْ قُبِلَتْ مِنْہُ نُظِرَ فِیْمَا بَقِیَ مِنْ عَمَلِہ وَ اِنْ لَّمْ تُقْبَلْ مِنْہُ لَمْ یَنْظُرْ فِیْ شَیْءٍ مِّنْ عَمَلِہ )) ۳

یعنی آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے نماز دیکھی جائے گی۔ اگر نماز قبول ہو گئی تو باقی اعمال دیکھے جائیں گے ورنہ کوئی عمل دیکھا ہی نہیں جائے گا۔ لہذا قبولیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جو لوگ رمضان شریف کے روزے رکھتے ہیں ‘ لیکن نماز نہیں پڑھتے ان کے روزے کوئی فائدہ نہیں دیتے۔ جو صرف عید کی نماز پڑھتے ہیں اور فرض نماز نہیں پڑھتے ان کو عید کی نماز کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہاں اگر عید میں ہی آدمی توبہ کر لے اور آئندہ کے لیے پکا نمازی بننے کا عزم کر لے تو پھر اﷲ اسے محروم نہیں رکھتا ‘ اسے بھی عید کی برکتوں سے بہرہ ور کر دیتا ہے ورنہ وہ محروم ہی رہتا ہے۔

آج کل لوگ نماز پڑھتے ہیں‘ لیکن یہ فکر نہیں کرتے کہ یہ قبول ہوگی یا نہیں۔ کسی عمل کی قبولیت کے لیے پہلی شرط تو وہی ہے جو اوپر مذکور ہے کہ عمل کرنے والا کلمہ کے تقاضے پورے کرتا ہو۔

دوسری شرط اخلاص نیت ہے ۔ اخلاص نیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ عمل صرف اﷲ کے لیے ہو ‘ کسی غیر کا اس میں کوئی حصہ نہ ہو۔ نہ ریاکاری ہو نہ کوئی ا ور دنیاوی مقصد ۔ وہ عمل غفلت اور لاپرواہی سے بھی نہ کیا جائے۔ بادل ناخواستہ بھی نہ ہو کہ طبیعت بوجھ محسوس کرے بلکہ محبت سے ہو۔مقصد صرف یہ ہو کہ اﷲ راضی ہو جائے۔

تیسری شرط اتباع سنت ہے۔ اتباع سنت کے معنی یہ ہیں کہ وہ عمل حتی المقدور اسی طریقے سے کیا جائے جس طریقے سے رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے کیا یا کرنے کی اجازت دی۔ اس کی حیثیت اور کیفیت کو بدلہ نہ جائے ‘ اپنی طرف سے نہ کوئی اضافہ کیا جائے نہ کچھ گھٹایا جائے ۔ اﷲ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں ‘ ہر نماز کی رکعتیں مقرر کی ہیں‘ ہر نماز کے ساتھ کچھ سنتیں ہیں‘ کچھ نفل ہیں‘ سنن و نوافل کو فرض کا درجہ دینا اور لازمی قرار دینا ہی زیادتی ہے۔ جس نماز کو شریعت نے جو درجہ دیا ہے وہی برقرار رکھنا چاہیے ‘ اپنی طرف سے کوئی کمی بیشی نہیں کرنی چاہیے۔ آج کل بہت سے غلط قسم کے مسئلے مشہور ہو گئے ہیں۔ مثلا یہ کہ عشاء کی سترہ رکعتیں ہیں۔ تراویح کے بغیر روزہ نہیں ہوتا۔ تراویح بیس رکعت ہیں‘ نہ کم نہ زیادہ ۔ وتر صرف تین ہی ہیں ‘ نہ کم نہ زیادہ۔

*۔۔۔سب سے پہلی نماز فجر ہے جس کے دو فرض ہیں۔ فرضوں سے پہلے دو سنتیں ہیں جن کی بہت تاکید ہے۔ آپ نے یہ سنتیں کبھی نہیں چھوڑیں‘ نہ سفر میں ‘ نہ حضر میں‘ نہ صحت میں ‘ نہ بیماری میں۔ ان سنتوں کو فرضوں سے پہلے پڑھنا چاہیے۔ اسی میں زیادہ ثواب ہے ‘ لیکن اگر لیٹ ہو جائے تو ان سنتوں کی خاطر فرضوں کی جماعت کو ضائع نہ کرے کہ ادھر فرضوں کی جماعت ہو رہی ہو ادھر یہ سنتوں میں لگا رہے۔ اگر فرضوں کی جماعت کھڑی ہو جائے تو فوراً فرضوں میں شامل ہو جائے۔ فرضوں کے بعد پھر سنتیں پڑھ لے۔ یہ جو مشہور ہے کہ فرضوں کے بعد پھر سنتیں سورج نکلنے کے بعد ہی پڑھی جا سکتی ہیں اس سے پہلے نہیں‘یہ صحیح نہیں۔ احادیث میں فرضوں کے فوراً بعد سنتیں پڑھنا ثابت ہے۔ چنانچہ ترمذی‘ مسند احمد‘ دارقطنی ‘ مستدرک حاکم‘ ابن ابی شیبہ ‘ محلی ابن حزم ‘ تمہید ابن عبدالبر وغیرہ کتب احادیث میں میں مختلف صحابہؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے ایک آدمی سے جس نے کہ فجر کی نماز کے بعد دو رکعت نماز پڑھی تھی پوچھا:

(( مَاھَاتَانِ الرَّکْعَتَانِ )) ۴ ’’یہ دورکعت کیسی ہیں ؟ ‘‘

اس نے جواب دیا:

(( لَمْ اَکُنْ صَلَّیْتُھَا قَبْلَ الْفَجْرِ فَسَکَتَ وَ لَمْ یَقُلْ شَیْءً))۵

میں نے فجر کی پہلی دو رکعتیں نہیں پڑھی تھیں اب وہ پڑھی ہیں‘ آپ خاموش ہو گئے اور منع نہیں فرمایا۔۔۔لوگ اس مسئلے کو نہ جاننے کی وجہ سے فرضوں کو بھی خراب کرتے ہیں اور سنتوں کو بھی۔ سو عام طور پر مسجدوں میں دیکھا جاتا ہے کہ ایک طرف لوگ سنتوں کی ٹھونگیں مار رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف فرضوں کی جماعت ہو رہی ہوتی ہے۔ لوگ فرضوں کی جماعت کو ضائع کر کے سنتوں کی ٹھونگیں اس لیے مارتے ہیں کہ انھیں یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر سنتیں پہلے نہ پڑھ سکے تو پھر سورج نکلنے تک انتظار کرنا پڑے گا۔ اور یہ بہت مشکل ہے ۔ اس لیے وہ ہر صورت میں سنتیں فرضوں سے پہلے پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ سنتوں کی خاطر فرضوں کو ضائع کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔

*۔۔۔دوسری نماز ظہر ہے جس کے چار فرض اور فرضوں سے پہلے چار سنتیں اور بعد میں دوسنتیں ہیں۔ فرضوں سے پہلے دوسنتیں بھی ثابت ہیں جیسا کہ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کی روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم نے کبھی دو پڑھیں ‘ کبھی چار۔ اس لیے اگر جلدی ہو تو دو پڑھ لے ورنہ چار پڑھے۔ ظہر کی یہ چھے سنتیں مؤکدہ ہیں‘ لیکن سفر میں آنحضرت نے ان سنتوں کو چھوڑا ہے۔ اس لیے سفر میں یہ سنتیں چھوڑی جا سکتی ہیں۔ ان کی وہ اہمیت نہیں جو صبح کی دو سنتوں کی ہے۔ اگر آدمی جماعت سے پہلے سنتیں نہ پڑھ سکے تو جماعت کے بعد آخری سنتیں پڑھ لے ‘پھر پہلی سنتیں بعد میں پڑھ لے۔ جیسا کہ حضرت عائشہؓ کی ابن ماجہ۶کی حدیث سے واضح ہے۔

*۔۔۔ تیسری نماز عصر ہے۔ اس کے چار فرض ہیں۔ فرضوں سے پہلے دو یا چار رکعت نفل پڑھنا ثابت ہے جو موجب ثواب ہے‘ لیکن بعد میں ہمارے لیے کوئی سنت یا نفل پڑھنا ثابت نہیں۔ حضور ﷺ سے جو عصر کے بعد نفل پڑھنا ثابت ہے وہ آپ کا خاصہ ہے ‘ وہ ہمارے لیے نہیں۔

*۔۔۔ چوتھی نماز مغرب ہے۔ اس کے تین فرض ہیں۔ فرضوں سے پہلے اوراذان کے بعد دو نفل پڑھنا سنت ہے۔ حضور ؐ نے خود پڑھے ہیں اور صحابہؓ نے بھی پڑھے ہیں۔ آپ نے ان کے پڑھنے کی ترغیب بھی دی ہے۔ یہ ہمیں بھی پڑھنے چاہئیں اور نہیں تو رمضان شریف میں تو یہ ضرور پڑھ لینے چاہئیں۔ ایک عمل کا ستر گنا ثواب‘ دوسرا احیائے سنت۔

افسوس ہے کہ مسلمانوں نے رسول اﷲ ﷺ کی اس سنت کو ترک کردیا ہے‘ بلکہ بعض ہمارے بھائی تو اس سنت کی مخالفت کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ بالکل صحیح احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ بخاری اور مسلم میں ہے۔ ایک ثابت شدہ سنت کی یوں مخالفت کرنا بڑی جسارت ہے۔ ایسی جسارت سے مسلمانوں کو ڈرنا چاہیے۔ اگر ہم کسی سنت نبویؐ پر عمل نہ کرسکیں تو شاید اﷲ معاف کردے ‘ لیکن اگر ہم اس کا انکار کر یں یا اس کی مخالفت کریں تو یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ مغرب کے تین فرضوں کے بعد دوسنت مؤکدہ ہیں۔ صبح کی دو سنتوں کے بعد اہمیت میں ان دوسنتوں کا ہی نمبر ہے۔ ان دو سنتوں کے بعد پھر جتنے چاہے نفل پڑھ لے۔ بیس تک نفل ثابت ہیں‘ لیکن جتنے پڑھے کھڑا ہو کر پڑھے بیٹھ کر پڑھنے سے آدھا ثواب ہے۔

*۔۔۔ پانچویں نماز عشاء ہے۔ اس کے چار فرض ہیں اور فرضوں کے بعد دو سنت مؤکدہ ہیں۔ عشاء کی نماز سے پہلے یا پیچھے جتنے چاہے نفل پڑھ سکتا ہے‘ لیکن ان کو عشاء کی نماز کا حصہ نہ سمجھے‘ عشاء کی نماز صرف چار فرض اور دو سنت ہی ہے‘ رہ گئے وتر بعض کے نزدیک عشاء کی نماز کے تابع ہیں اور بعض کے نزدیک ایک علیحدہ نماز ہے۔ وتر اگر عشاء کی ساتھ پڑھے تو عشاء کی نماز کا حصہ سمجھے۔ بہر کیف وتروں کا وقت عشاء کی نماز کے بعد ہے اور طلوع فجر تک ہے۔ وتروں کی تعداد جو صحیح احادیث سے ثابت ہے وہ ایک سے لے کر گیارہ بلکہ تیرہ تک ہے۔ اگر پچھلی رات اٹھنے کی عادت ہو تو وتر پچھلی رات پڑھے ورنہ پہلی رات عشاء کی نماز کے ساتھ متصل ہی پڑھ لے۔ وتر اگر عشاء کے ساتھ ہی پڑھے جائیں تو پھر ایک بھی پڑھا جا سکتا ہے۔

لوگ ایک وتر پر بڑے متعجب ہوتے ہیں حالانکہ وتر ہوتا ہی ایک ہے۔ اس لیے حدیث میں ہے : (( اِنَّ اﷲَ وِتّرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ )) ۷ اﷲ کی ذات وتر ہے‘یعنی ایک ہے۔ اسے وتروں کی نماز زیادہ پسند ہے اگر نمازی کومعلوم ہو کہ ہر نماز کی کتنی رکعتیں ہیں اور کیا ان کی حیثیت ہے ‘ کتنی لازمی اور فرض ہیں‘ کتنی اس کی مرضی پر منحصر ہیں؟ تو کم از کم نمازوں کا یہ حال نہ ہو۔ فرض نمازوں کو تو آدمی کم از کم ٹھیک طرح پڑھے۔ رمضان شریف میں جس نمازی کو سترہ رکعتیں عشاء کی اور بیس تراویح پڑھنی پڑیں گی۔ وہ نماز کا خون نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا۔ وہ بجائے ثواب کمانے کے عذاب کا مستحق ہوگا۔ اﷲ ہمیں ایسے مغالطوں سے بچائے۔

ایک اور غلطی جو آج کل مسلمان کرتے ہیں وہ یہ کہ مغرب اور عشاء کے بعد دو دو نفل بیٹھ کر پڑھتے ہیں اور ان نفلوں کو بیٹھ کر پڑھنا سنت سمجھتے ہیں‘ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ قیام نماز میں فرض ہے بغیر عذر کے بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔ فرض تو بیٹھ کر ویسے ہی نہیں ہوتے۔ نفل اگرچہ ہو جاتے ہیں ‘ لیکن ثواب آدھا ملتا ہے۔ تندرست آدمی جو کھڑا ہو کر پڑھ سکتا ہے وہ بیٹھ کر کیوں پڑھے؟ بیٹھ کر نفل پڑھنے کی رسم کو ترک کرنا چاہیے ۔ یہ ایک بدعت سی بن گئی ہے۔

*۔۔۔اگر رمضان ہو تو عشاء کی نماز کے بعد رمضان شریف کی مخصوص نماز پڑھنی چاہیے‘ جس کو آج کل عرف عام میں تراویح کہتے ہیں۔ تراویح کا نام حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایجاد نہیں ہوا تھا‘ یہ نام بعد میں اس وقت پڑا جب لوگوں نے قیام رمضان کی رکعتوں کی تعداد بڑھا دی۔ حضور اکرم ﷺ کا عمل تو آٹھ رکعت ہی تھا‘ جس پر تراویح کا اطلاق ہو ہی نہیں سکتا تھا کیوں کہ تراویح ترویحہ کی جمع ہے اور ترویحہ ہر چہار رکعت کے بعد ایک دفعہ آرام کرنے کو کہتے ہیں۔ آٹھ رکعت میں چوں کہ ترویحہ ایک ہی ہو سکتا ہے ‘ زیادہ ہو ہی نہیں سکتے اس لیے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں تراویح کا نام ایجاد نہ ہو سکا۔ بعد میں جب رکعتوں کی تعداد آٹھ سے بڑھ گئی اور کئی ترویحے ہونے لگے تو تراویح نام پڑ گیا۔ امام مالک نے اسی لیے فرمایا ’’ لاَ اَدْرِیْ مِنْ اَیْنَ اَحْدَثَ ھٰذَاالرُّکُوْعَ الْکَثِیْرَ ‘‘ میں نہیں جانتا اتنی رکعتیں لوگوں نے کہاں سے بنالیں‘‘ یعنی حضور ﷺ کی تو اتنی تھی نہیں۔ یہ کہاں سے بن گئیں۔ بہر کیف یہ نفلی نماز ہے۔ اس لیے آپ نے اس کی تعداد مقرر نہیں فرمائی۔ جتنی کسی کی مرضی پڑھ لے ‘ لیکن نماز کا خون نہ کرے۔ جتنی پڑھے دل لگا کر پڑھے۔ اگرچہ حضور ﷺ کا عمل آٹھ ہی کا تھا لیکن آٹھ سے کم یا زائد پڑھنا منع نہیں ہے کیوں کہ یہ نفلی عبادت ہے۔ اور طلوع فجر تک اس کا وقت رہتا ہے۔ جتنی کوئی پڑھ سکے پڑھ لے۔ کوئی چار پڑھے یا آٹھ ‘ کوئی بیس پڑھے یا چالیس اعتراض کی کوئی بات نہیں۔ کسی تعداد کو لوگوں کے لیے مذہب قرار دے دینا کہ اس سے کم و بیش نہیں‘ یہ جائز نہیں۔ ہمارے ملک میں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تراویح بیس ہی ہیں‘ نہ کم ‘ نہ زیادہ۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔ جب اﷲ کے رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم نے کوئی تعداد مقرر نہیں کی تو کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ مقرر کرے۔ اگر کوئی تعداد مقرر ہوتی تو آٹھ ہوتی ‘ کیوں کہ یہ حضور اکرم ﷺ کا معمول تھا۔ جب حضور ﷺ نے اپنے معمول کو مقرر نہیں فرمایا‘ نفل سمجھ کر لوگوں کی مرضی پر چھوڑ دیا کہ جتنی کسی کی مرضی پڑھ لے تو آج جو بیس کو مقرر کرتے ہیں یہ شریعت کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں جو بہت بڑا جرم ہے۔ یہ نفلی عبادت ہے ‘ کوئی آٹھ پڑھ کر چلا جائے تو اس کی مرضی ‘ کوئی بارہ یا سولہ پڑھ کر چلا جائے تو اس کی مرضی ۔ کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ تراویح کی مقررہ تعداد بیس ہے اس لیے وہ بیس ہی پڑھے۔ یہ جو لوگوں میں مشہور ہے کہ حضور ﷺ کی تراویح تو آٹھ ہی تھیں لیکن صحابہؓ نے بعد میں بیس پر اجماع کر لیا یہ بھی غلط ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حضور ﷺ کی سنت آٹھ ہو اور صحابہؓ بیس پر اجماع کرلیں۔ حضرت عمرؓ نے تو خود اپنے مقرر کردہ اماموں کو حکم کیا تھا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت وتروں سمیت پڑھا دیا کریں۔ لیکن صحابہؓ آٹھ بھی پڑھتے ‘ اور زیادہ بھی پڑھ لیتے۔ کبھی کسی تعداد پر اجماع ہوا نہ ہو سکتا ہے۔ اولاً تو تراویح کی کوئی تعداد مقرر نہیں‘ لیکن اگر کوئی اپنا معمول بنانا چاہے تو پھر بہتر ہے کہ رسول اﷲﷺ کے معمول آٹھ کو اپنائے ۔ یہ تعداد سنت ہے۔ لیکن آٹھ کے پڑھنے کا طریقہ بھی وہی ہونا چاہیے جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا تھا۔ اس میں زیادہ سے زیادہ وقت لگائے۔ اگر اہل حدیث آٹھ رکعت اس لیے پڑھتے ہیں کہ آٹھ حضور صلی اﷲ علیہ و سلم نے پڑھی ہیں تو انھیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ آٹھ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے کیسے پڑھی ہیں۔ جیسے حضور کی آٹھ کی تعداد مسنون ہے ویسے حضور ﷺ کی کیفیت ادائیگی بھی تو مسنون ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم آٹھ میں ہی اتنا وقت لگا دیتے تھے جتنا کوئی اور بڑی سے بڑی تعداد میں لگائے۔

حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا حضور ﷺ کی نماز کی کیفیت بیان کرتی ہوئی فرماتی ہیں:’’ یُصَلِّیْ اَرْبَعًا لاَ تَسْئلْ عَنْ حُسْنِھِنَّ وَ طُوْلِھِنَّ ‘‘ ۸یعنی آپ چار چار کر کے آٹھ رکعتیں پڑھتے نہ پوچھ وہ کتنی عمدہ اور لمبی ہوتیں۔ اہل حدیث کو صرف آٹھ کی تعداد ہی سنت کہہ کر نہیں لے لینی چاہیے ‘ آٹھ کی کیفیت ادائیگی بھی جو حضرت عائشہؓ بیان فرماتے ہیں ساتھ ہی لینی چاہیے۔ وہ بھی آٹھ کے ساتھ مسنون ہے۔ ایک پہلو کو دیکھنا اوردوسرے کو نظر انداز کردینا انصاف نہیں۔ آج کل اہل حدیث میں یہ تعداد ایک رسم بن گئی ہے۔ وہ روح نہیں ۔ یعنی رمضان شریف آتا ہے پہلے تو اہل حدیث عشاء کی نماز کا وقت بدلتے ہیں ۔ اگر پہلے نو بجے پڑھتے ہوں تو رمضان شریف کے احترام میں ساڑھے آٹھ بجے کر لیتے ہیں تاکہ جلدی فارغ ہوں۔ پھر لوگوں کی طرح جتنی جلدی ہو سکے آٹھ کی گنتی پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تراویح سے قریباً اس وقت فارغ ہو جاتے ہیں جس وقت وہ عام طورپر پہلے عشاء کی نماز سے فارغ ہوتے تھے۔ بمشکل پندرہ بیس منٹ رمضان کے نام پر اﷲ کو دیتے ہیں۔ ظاہر ہے اس عمل سے کیا اﷲ راضی ہوگا۔ اور کیا اتباع سنت ہوگی اور کیا رمضان کاا حترام ۔ اﷲ ہم سب کو رسول اﷲ ﷺ کی مکمل اتباع کی توفیق دے۔

رمضان شریف کا مہینہ کمائی کامہینہ ہے۔ اس لیے دن میں روزہ رکھنا اور رات کو قیام کرنا چاہیے۔ اگر رات سو کر گزار دی جائے اور قیام نہ کیا جائے تو کتنا نقصان ہے۔ گویا آدھا مہینہ ضائع ہو گیا۔ اس لیے کمائی کے لیے رات میں قیام رمضان بہت ضروری ہے۔ لیکن یہ کہنا صحیح نہیں کہ تراویح کے بغیر روزہ نہیں ہوتا‘ کیوں کہ روزہ اور چیز ہے اور تراویح اور چیز ہے ۔ روزہ دن میں ہوتا ہے اور تراویح رات کو۔ روزہ تراویح پر موقوف نہیں۔ اگر تراویح روزے کے لیے شرط ہوتی تو جیسے روزہ فرض ہے تراویح بھی فرض ہوتی۔ کیوں کہ فرض کی شرط بھی فرض ہوتی ہے۔ وضوجب نماز کے لیے شرط ہے تو نماز کی طرح فرض بھی ہے۔ اسی لیے وضو کے بغیر نماز نہیں ہوتی ‘ لیکن روزہ تراویح کے بغیر ہو جاتا ہے۔

تراویح کی نماز تھی تو ہماری کمائی کے لیے ‘ لیکن اب یہ ایک بے روح سی رسم بن گئی ہے۔ بجائے اس کے کہ تراویح کو اﷲ کی رضا کے حصول کا ذریعہ سمجھا جاتا اور محبت و شوق سے

ادا کی جاتی آج مسلمان اسے بوجھ سمجھتے ہیں اور اس سے جلدی سے جلدی جان چھڑانے کی وشش کرتے ہیں۔ تراویح پڑھانے کے لیے قاری اکثر وہ رکھے جاتے ہیں جو پیشہ ور ہوتے ہیں اور تراویح کو کمائی کا سیزن سمجھتے ہیں۔ سارا سال داڑھی منڈاتے ہیں اور نمازوں سے سبکدوش رہتے ہیں ‘ تراویح کا سیزن آنے پر وقتی داڑھی رکھ لیتے ہیں اور نماز پڑھنے لگ جاتے ہیں اور پھر وہ تراویح کیا پڑھاتے ہیں۔ تراویح کی سپیشلیں چلاتے ہیں۔ ہر قاری چاہتا ہے کہ وہ سب سے پہلے فارغ ہو۔ جب نماز سوائے اٹھک بیٹھک کے کچھ نہ ہو اور ائمہ و قراء کا یہ حال ہو تو پھر جو نتیجہ نکلے گا وہ ظاہر ہے۔ حضور اکرم نے سچ فرمایا:

(( کَمْ مِنْ قَائمٍ لَیْسَ لَہ‘ مِنْ قَیَامِہ اِلاَّ السَّھْرُ )) ۹

کتنے تراویح پڑھنے والے ایسے ہوں گے جن کے پلے انیندہ مرنے کے سوا اور کچھ نہ ہوگا۔ پہلے لوگ جو آٹھ سے زیادہ پڑھتے تھے‘ ہماری طرح رکعتیں گننا ان کا مقصود نہ تھا۔ ان کو عبادت میں مزہ آتا تھا۔ وہ رات کا اکثر و بیشتر حصہ قیام میں صرف کرتے۔ چنانچہ حضور ﷺ کے صحابی حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں ’’ وَ مَا کُنَّا نَنْصَرفُ اِلاَّ فِیْ فُرُوْغِ الْفَجْرِ‘‘ ۱۰ہم فجر کے قریب گھروں کو لوٹتے۔ ہم صرف لکیر کے فقیر ہیں کہ تقلیداً پڑھتے بیس ہیں‘ لیکن وقت آٹھ سے بھی کم لگاتے ہیں۔ ہمیں بیس کی گنتی کی فکر رہتی ہے کہ کب پوری ہوتی ہے‘ یہ خیال نہیں ہوتا کہ ہم اﷲ کے پاس آئے ہیں‘ کچھ لے کر جائیں۔ صرف گنتی نہ گنیں۔ تراویح کے لیے ہم آتے تو خود ہیں‘ اﷲ ہمیں بلاتا تو نہیں کہ تراویح کی اذان و اقامت ہو ۔ اگر ہم خود آ کر بھی اﷲ کو راضی نہ کریں ‘ صرف اٹھک بیٹھک کر کے خالی چلے جائیں تو کیا فائدہ ۔

تراویح جتنی بھی پڑھی جائیں ‘خشوع و خضوع کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھی جائیں‘ لیکن اگر بیس رکعتوں میں یہ اہتمام نہ ہو سکے تو کم از کم آٹھ تراویح میں تو یہ اہتمام ضرور کرنا چاہیے‘ کیوں کہ قیام رمضان کی اصل تعداد جو مسنون ہے وہ آٹھ ہی ہے۔ اگر آٹھ سے زائد پڑھنی ہوں تو بڑی خوشی سے پڑھے ‘ لیکن کم از کم آٹھ رکعت ٹھیک کرکے پڑھے ۔ بیس کی خاطر آٹھ کو خراب نہ کرے ۔ آخر جلدی کی کیا ضرورت ہے ؟ اگر بیس سکون سے نہ پڑھ سکے تو کم پڑھ لے۔ بیس پڑھنے کے لیے کسی نے کہا تو نہیں کہ ضرور بیس ہی پڑھے۔ نفلی عبادت ہے جتنی دل لگا کرکر سکتا ہے کرے۔

رمضان شریف میں وتر تراویح کے بعد پڑھے جاتے ہیں۔ وتروں کے آخر میں قنوت کی جاتی ہے۔ قنوت رکوع سے پہلے بھی کی جا سکتی ہے اور رکوع کے بعد قومہ کی حالت میں بھی۔ لیکن بہتریہی ہے کہ قنوت رکوع کے بعد ہو۔ خلفاء کا عمل اسی کا مؤید ہے۔ وتروں میں قنوت کوئی ضروری نہیں ‘ یہ وتروں کی ہیئت ترکیبی میں داخل نہیں ۔ اگر رہ جائے تو سجدہ سہو کی ضرورت نہیں۔ حضور نے نہیں فرمایا کہ اگر قنوت رہ جائے تو سجدہ سہو کرنا ضروری آتا ہے۔ قنوت صرف دعا ہے ‘ وہ کسی حالت میں کی جا سکتی ہے۔ صحابہؓ قنوت کا کوئی خاص اہتمام نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ ابی بن کعبؓ جو قاری تھے‘ جن کو عمرؓ نے تراویح کا امام مقرر کیا تھا وہ بیس رات مسجد میں تراویح پڑھتے‘ آخری عشرہ گھر میں اکیلے تراویح پڑھتے ‘ وہ باقاعدگی سے قنوت نہ کرتے۔ صرف نصف باقی میں قنوت کرتے۔ چنانچہ ابوداؤد میں ہے:۔

’’ کَانَ یُصَلِّیْ بِھِمْ عِشْرِیْنَ لَیْلَۃً ۔۔۔ الخ‘‘۱۱

رمضان کا قرآن شریف سے بڑا گہرا تعلق ہے‘ کیوں کہ قرآن شریف اسی ماہ میں نازل ہوا۔ اسی لیے رمضان شریف میں بکثرت قرآن شریف پڑھنا چاہیے۔ رمضان شریف میں اپنے روز مرہ کے دنیاوی معمولات کو بدل کرزیادہ زور قرآن مجید اور نفل نوافل پر دینا چاہیے۔ وہ لوگ کتنے بے نصیب ہیں جو رمضان شریف میں بھی راتیں ناولوں کے پڑھنے‘ ٹیلی ویژن دیکھنے‘ اور تاش جیسی کھیلیں کھیلنے میں کھو دیتے ہیں۔ اﷲ ہر مسلمان کو رمضان شریف کی برکتیں حاصل کرنے کی توفیق دے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کو بدعات اور رسمی اور رواجی کاموں سے بچنا چاہیے۔ خاص کر رمضان شریف میں تو بدعات سے بہت پرہیز کرنا چاہیے۔ رمضان شریف میں وہ کام کرنا چاہیے جس سے اﷲ کا قرب حاصل ہو‘ دوری نہ ہو۔بدعت کرکے آدمی اﷲ سے بہت دور ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اﷲ بدعتی کو توبہ کی توفیق بھی نہیں دیتا۔ حالانکہ رمضان شریف مہینہ ہی توبہ استغفار کا ہے۔ چنانچہ حدیث پرہیز کرنا چاہیے۔ رمضان شریف میں وہ کام کرنا چاہیے جس سے اﷲ کا قرب حاصل ہو‘ دوری نہ ہو۔ بدعت کرکے آدمی اﷲ سے بہت دور ہو جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ اﷲ بدعتی کو توبہ کی توفیق بھی نہیں دیتا ۔ حالانکہ رمضان شریف مہینہ ہی توبہ استغفار کا ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

((اِنَّ اﷲَ حَجَبَ التَّوْبَۃَ عَنْ کُلِّ صَاحِبِ بِدْعَۃٍ حَتّٰی یَدَعَ بِدْعَتَہ‘)) ۱۲

بدعتی جب تک بدعت نہ چھوڑے اﷲ اس کو توبہ سے روک دیتا ہے یعنی اس وقت تک اسے توبہ کی توفیق ہی نہیں دیتا جب تک وہ بدعت نہیں چھوڑتا۔ یعنی بدعتی رمضان کی تمام برکتوں سے محروم رہتا ہے۔ بدعت سے اﷲ بہت ناراض ہوتا ہے اور شیطان بہت خوش ہوتا ہے‘ کیوں کہ بدعت کی گمراہی عام گمراہیوں سے زیادہ خطرناک ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا شیطان نے کہا ‘ میں انسانوں کو گناہوں مثلا زنا‘ چوری وغیرہ سے ہلاک کرتا تھا‘ لیکن وہ توبہ استغفار کرکے بچ جاتے اور میں ناکام رہتا۔ میں نے پھر بدعتوں کے ذریعے ان کو ہلاک کرنا شروع کیا۔ اب وہ بدعتیں کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں‘ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں۔ اس لیے توبہ استغفار نہیں کرتے اور ہلاک ہوتے ہیں۔ اب میں کامیاب ہوں۔

اَھْلَکْتُھُمْ بِالذُّنُوْبِ فَاھْلِکُوْنِیْ بِالْاِسْتِغْفَارِ فَلَمَّا رَاَتْ ذٰلِکَ اَھْلَکْتُھُمْ بِلاَھْوَاءِ فَھُمْ یَحْسِبُوْنَ اِنَّھُمْ مُھْتَدُوْنَ فَلاَ یَسْتَغْفِرُوْنَ

ہمارے بعض بھائی رمضان شریف میں شبینے کرتے ہیں حالانکہ یہ شبینے بہت بڑی بدعت ہیں ۔ یہ شبینے رسول اﷲ ﷺ اور صحابہ تو درکنار کبھی کسی امام نے بھی نہ کیے ‘ نہ کروائے۔ یہ دین میں بالکل نیا کام ہے اور دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے جس کا انجام دوزخ ہے۔ چنانچہ حضور ﷺاپنے ہر خطبہ میں فرمایا کرتے تھے:

((شَرَّالْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا وَ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَ کُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلاَلَۃٍ وَ کُلَّ ضَلاَلَۃً فِی النَّارِ )) ۱۳

امتی کا کام دین بنانا نہیں بلکہ نبی کے لائے ہوئے دین پر عمل کرنا ہے۔ اس سے بڑی بے ادبی نبی کی اور کیا ہو سکتی ہے کہ مسلمان مسئلے خود گھڑنے لگ جائیں اور شریعت کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:

( یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اﷲِ وَ رَسُوْلِہ وَاتَّقُواﷲَ )[49: الحجرات:1]

اے ایمان والو! اﷲ کے رسولؐ سے آگے نہ بڑھو‘ اﷲ سے ڈرو ‘ یہ کام نہ کرو۔ یہودی اور عیسائی جو ازلی ابدی ملعون ٹھہرے تو اسی وجہ سے کہ انھوں نے دین میں اسی قسم کی بدعات شروع کر دی تھیں۔ ہم مسلمانوں کو ایسے کاموں سے بہت دور رہنا چاہیے۔ جس کا انجام نبی سے دوری ہو اور بدعت سے دوری لازمی ہوتی ہے۔ وہ کتنے بدبخت لوگ ہوں گے جن کو حضور اکرم اپنے حوض کوثر سے ((سُحْقًا سُحْقًا لِّمَنْ بَدَّلَ بَعْدِیْ )) ۱۴کہہ کر دھتکار دیں گے۔ اور وہ حوض کوثر کے پانی سے محروم رہیں گے۔جرم ان کا یہی ہوگا کہ انھوں نے نئے نئے کام کر کے اﷲ کے دین کو بگاڑا ہوگا۔ حضور اکرم ان سے فرمائیں گے ‘ دور ہو جاؤ۔ تم میرے امتی کیسے ہو‘ جنھوں نے میرے دین کو بگاڑا ‘ بدعت کے علاوہ ان شبینوں میں سوائے نمائش اور تکلف کے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ شبینے عبادت نہیں بنتے‘ عبادت عابد اور معبود کے اس تعلق کو کہتے ہیں جس کے تحت بندہ اﷲ کے سامنے اپنے عجز ونیاز پیش کرتا ہے۔ عبادت کا یہ عمل جتنا تنہائی میں ہو اس میں اتنا ہی اخلاص ہوتا ہے۔ اسی لیے نفل نوافل اور سنتیں گھر پڑھنے میں زیادہ ثواب ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : (( فَاِنَّ اَفْضَلَ صَلٰوۃِ الْمَرْءِ فِی بَیْتِہ اِلاَّ الْمَکْتُوْبَۃَ ))۱۵سوائے فرض نمازوں کے کہ جن میں اجتماعیت مقصود ہوتی ہے ۔ بہترین نماز وہی ہے جو گھر پڑھی جائے۔ اسی طرح صدقہ و خیرات بھی وہی بہتر ہے جو چھپا کر دیا جائے۔ قرآن مجید میں ہے:

( وَ اِنْ تُخْفُوْھَا وَ تؤْتُوْھَا الْفُقَرَآءَ فَھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ)[2: البقرۃ:271]

اگر تم محتاجوں کو خفیہ طور پر دو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے۔

قرآن مجید کو بھی تنہائی میں سمجھ سمجھ کر اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہیے۔ حدیث شریف میں ہے:

((اَلْجَاھِرُبِالْقُرْاٰنِ کَالْجَاھِرِ بِالصَّدَقَۃِ وَالْمُسِرُّ بِالْقُرٰاٰنِ کَالْمُسِّرُ باِلصَّدَقَۃِ )) ۱۶

قرآن مجید لوگوں کو سنا کر پڑھنا ایساہی ہے جیسے دکھلاوے کا صدقہ۔ قرآن مجید کو تنہائی میں پڑھنا ایسا ہے کہ جیسے چھپا کر صدقہ دینا۔ شبینوں میں جس طرح سے قرآن پڑھا جاتا ہے اس سے نہ تو قرآن کا حق ادا ہوتا ہے ‘ نہ قاری کو کچھ فائدہ ہوتا ہے۔ یہ ایک بے روح رسم ہے جو خلاف سنت بھی ہے اور آداب قرآنی کے خلاف بھی۔ اس لیے اس رسم کو بالکل ترک کردینا چاہیے۔ شبینہ کی رسم اسلام اور ایمان کی پیداوار نہیں بلکہ لاؤڈ سپیکروں کی پیداوار ہے۔ اگر آج لاؤڈ سپیکروں کا سلسلہ ختم ہو جائے تو یہ رسم اپنی موت آپ مر جائے۔ شبینوں میں صرف ختم قرآن مقصود ہوتا ہے ‘ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا اور غورو فکر کرنا مقصود نہیں ہوتا۔ حالانکہ قرآن مجید کا اصل مقصد تدبر و تفکر اور اصلاح نفس ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

(کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوٓا اٰیٰتِہ وَ لِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ)[38:ص:29]

یہ برکت والی کتاب ہم نے اتاری اس لیے ہے کہ اس کی آیات میں لوگ غور و فکر کریں اور عقل والے اس سے نصیحت پکڑیں۔

(وَ ھٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبَارَکٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ)[6:الانعام:155]

ہم نے یہ برکت والی کتاب اتاری ہے‘ لہذا اس کے پیچھے لگو اور تقویٰ کو اپنا شعار بناؤ تاکہ تم پر رحم ہو۔

شبینوں میں نہ پڑھنے والا پڑھنے کا حق ادا کرتا ہے ‘ نہ سننے والا سننے کا‘ پڑھنے والا گھاس کاٹتا ہے ‘ سننے والا نہ سنتا ہے ‘ نہ سن سکتا ہے۔ اس طرح سے یہ فعل بے مقصد ہو جاتا ہے اور قرآن مجید کی بے قدری ہوتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا ہمارے آج کل کے مسلمان عقل سے کام کیوں نہیں لیتے۔ ہر آدمی کچھ عرصے کے بعد اپنے کام کا جائزہ لیتا ہے کہ میں نے جو کیا اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ بدعتیں کرنے والے بدعتیں تو کرتے جاتے ہیں‘ لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ اس کا اثر کیا ہوتا ہے۔ کیا اس سے مسلمانوں کی اخلاقی اور دینی حالت بہتر ہوتی ہے۔ کیا اس سے معاشرے کی اصلا ح ہوتی ہے اور برائیاں کم ہوتی ہیں ‘ کیا اس سے اﷲ راضی ہوتا ہے اور مسلمانوں پر اﷲ کی رحمتیں برستی ہیں۔ حالا نکہ ہوتا یہ ہے کہ جو ں جوں بدعات بڑھتی جاتی ہیں قوم مریض ہوتی جا رہی ہے۔ ریاکاری اور منافقت زروں پر ہے۔ اخلاص ناپید ہے۔ مسلمان مجموعی طور پر پست سے پست تر اور ذلیل سے ذلیل تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اﷲ کی سب سے بڑی رحمت جو مسلمانوں پر من حیث الجماعت ہو سکتی ہے وہ مسلمانوں کا کافروں پر غلبہ ہے اور وہ عرصے سے مفقود ہے جیسے ہم اسلام سے منافقت کرتے ہیں کہ نام اسلام کا اور دین اپنا بناتے جاتے ہیں۔ اسی طرح اﷲ ہمارے ساتھ کرتا ہے کہ ملک مسلمانوں کا ہوتا ہے غلبہ کافروں کا ہوتا ہے اور یہ خدا کے غیظ و غضب کی دلیل ہے اور اس کا واحد سبب دین اسلام کا بگاڑ ہے جو بدعات سے ہوتا ہے۔

رمضان شریف میں کمائی کا ایک اور بڑا موقع اعتکاف ہے۔ اعتکاف عام طور پر رمضان شریف کے آخری عشرے میں ہوتا ہے۔ احادیث میں اس کی بہت فضیلت اور اہمیت آئی ہے‘ کیوں کہ اعتکاف میں فرمان خداوندی ( وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا )[73:المزمل:8] کی صحیح تعمیل ہوتی ہے۔ اعتکاف ( وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ) [96:العلق:19] کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ اعتکاف کرنے والا جب سب کو توڑکر گھر بار چھوڑ کر اﷲ کے گھر میں اﷲ سے لو لگانے کے لیے آن ڈیرے لگاتا ہے او ر اعتکاف کی راتوں میں خاص کر لیلۃ القدر کی قیمتی گھڑیوں میں اﷲ کو یاد کرتا ہے تو اﷲ بھی اس کو اپنے قرب خاص سے نوازتا ہے جس سے بندے کے دل میں اﷲ کی محبت پیدا ہوتی ہے جو اﷲ پر اعتماد اور توکل کا سبب بنتی ہے۔ اور یہ توکل ہی اصل ایمان کی جان ہے جس ایمان میں توکل نہیں وہ ایمان ہی نہیں۔ا ﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں: ( وَ عَلَی اﷲِ فَتَوَکَّلُوٓا اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ )[5:المائدۃ:23] اگر تم ایمان والے ہو تو اﷲ پر بھروسہ کرو۔ یعنی ایمان کے لیے توکل شرط ہے جس کی اعتکاف کی تنہاہیوں میں اﷲ سے دوستی لگ گئی اس کا تو سمجھو اعتکاف ہو گیا اور جواعتکاف کے بعد کسی کا چیلہ بن کر چلے کرنے کی فکر میں رہا اس کا اعتکاف کچھ نہ ہوا۔ اعتکاف اصل میں ہوتا ہی اﷲ سے دوستی لگانے کے لیے ہے۔ جس کی اﷲ سے دوستی ہو جاتی ہے پھر وہ کسی کو دوست نہیں بناتا ۔ اس کو جب اﷲ سے رازو نیاز کرنا ہوتا ہے وہ اﷲ کے گھر یعنی مسجدمیں ہی جاتا ہے وہ مزاروں اور غاروں کے چلے نہیں کرتا۔ مسلمانوں کا چلہ اعتکاف ہے جو اعتکاف کے علاوہ چلے کرتے ہیں وہ شیطان کے ہی چیلے بنتے ہیں‘ اﷲ کے پیارے نہیں بنتے۔

رمضان شریف کا ایک حق مسلمانوں پر صدقہ فطر بھی ہے جو عید کی نماز سے پہلے ادا کیا جانا چاہیے۔ عید کی نماز کے بعد صدقہ فطر نہیں رہتا۔ بلکہ ایک عام صدقہ بن جاتا ہے۔ صدقہ فطر روزے کو پاک کرنے کے لیے شروع ہوا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے(( طُھْرَۃً لِلصِّیَامِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفْثِ )) ۱۷ یہ نفسانی آلائشوں سے روزے کو پاک کرتا ہے۔ یہ ہر امیر غریب کو دینا چاہیے۔ اس میں صاحب نصاب ہونا شرط نہیں جیسا کہ لوگوں میں عام طور پرمشہور ہے۔ اس کی مقدار ایک مدنی صاع ہے جو کوفی صاع کے حساب سے آدھا صاع یعنی پونے دو سیر ادا کرتے ہیں۔ ان کا عمل صحیح نہیں۔ صاع مدنی ہی معتبر ہے کیوں کہ ہمارے نبی ﷺ مدنی تھے ‘کوفی نہ تھے۔ اس لیے ہمیں مدینہ کے صاع کو ہی معیار بنانا چاہیے ۔ کوفے کو نہیں۔ اس لیے ایک مدنی صاع جس کا وزن قریباً پونے تین سیر بنتا ہے فی کس ادا ہونا چاہیے۔

********************

۱ ( مجمع الزوائد للہیثمی 122/2باب من لا یتم صلاتہ و نسی رکوعھا و سجودھا۔۔۔ الترغیب الترھیب للمنذری 339/1 رقم 16 ‘باب الترھیب من عدم اتمام الرکوع والسجود واقامۃ الصلب بینھما و ما جآء فی الخشوع)

۲ (مسند احمد بن حنبل 403/4 ‘رقم الحدیث19109:۔۔۔ مسند ابی یعلی الموصلی (61/1

۳ (مؤطا ‘ کتاب الصلٰوۃ ‘ باب جامع الصلٰوۃ )

۴ (مسند حمیدی‘ ص 247 رقم868:۔۔ ابوداؤد‘ کتاب التطوع ‘ باب اذا ادرک الامام و لم یصل رکعتی الفجر ص 1318: رقم الحدیث 1265:)

۵ (مسند حمیدی ص 247 رقم 868:۔۔ ابوداؤد‘ کتاب التطوع‘ باب اذا ادرک الامام و لم یصل رکعتی الفجر ‘ رقم (1265:

۶ (ابن ماجۃ ‘ ابواب اقامۃ الصلوات‘ باب من فاتتہ اربع قبل الظھر رقم (1158:

۷( ابوداو‘د ‘ کتاب الوتر‘ باب استحاب الوتر‘ ص 1328: رقم 1316:‘ ترمذی ‘ کتاب ابواب الوتر‘ باب ماجاء ان الوتر لیس بحتم ص 1688:‘ رقم (453:

۸ (بخاری‘ کتاب صلوۃ التراویح ‘ باب فضل من قام رمضان رقم (2013:

۹ (مسند احمد 441/2 رقم الحدیث9392: ۔۔ ابن ماجۃ ‘ کتاب الصیام ‘ باب ما جاء فی الغیبۃ والرفث للصائم ‘ رقم (1690:

۱۰)مؤطا ‘ کتاب الصلوٰۃ فی رمضان ‘ باب ماجاء فی قیام رمضان )

۱۱( ابوداؤد ‘ کتاب الوتر‘ باب القنوت فی الوتر ص 1329: رقم الحدیث(1429:

۱۲ (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 154/4رقم 1620: )

۱۳ ( بخاری: کتاب الاعتصام‘ باب الاقتداء بسنن رسول اﷲﷺ‘ رقم 7277: ۔۔۔ مسلم‘ کتاب الجمعۃ‘ باب تخفیف الصلوٰۃ والخطبۃ‘ ص 813: رقم43: ۔۔۔ ابن ماجۃ ‘ کتاب السنۃ‘ باب اجتناب البدع والجدل ص 2479: رقم 45:)

۱۴ ( بخاری: کتاب الفتن ‘ باب ما جاء فی قول اﷲ تعالیٰ و اتقوا فتنۃ لا تصیبن الذین ظلموا فیکم خاصۃ : رقم 7051:۔۔۔ مسلم: کتاب الفضائل‘ باب اثبات حوض نبینا ﷺ و صفاتہ ‘رقم 25: ۔۔۔ ابن ماجۃ : ابواب الزھد‘ باب ذکر الحوض ص 2738 رقم الحدیث(430:

۱۵ ( احمد‘ 239/6 رقم 21113:)

۱۶(مشکوۃ: کتاب فضائل القرآن ‘ باب آداب التلاوۃ و دروس القرآن ‘678/1 رقم الحدیث2202:۔۔۔ ابن ماجۃ ‘کتاب فضائل القرآن ‘ باب من قرأ القرآن‘رقم 2919: ۔۔۔ نسائی : کتاب الزکوٰۃ‘ باب المسربالصدقۃ ‘ رقم (2562:

۱۷( ابن ماجۃ : کتاب الزکوٰۃ‘ باب صدقۃ الفطر ‘ رقم 1828: ۔۔۔ ابوداؤد : کتاب الزکوٰۃ‘ باب زکوٰۃ الفطر ‘ رقم 1609:)