اصلی اہل سنت

 بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

حنفی السلام علیکم و رحمۃ اﷲ

محمدی وعلیکم السلام و رحمۃ اﷲ و برکاتہ۔!کہیے !کہاں سے تشریف لائے ؟

ح: یہیں شہر سے ۔

م: آپ بہاول پور میں رہتے ہیں ؟

ح: جی ہاں۔!

م: پہلے کبھی دیکھا تو نہیں ؟

ح :میں پہلے کبھی آپ کی مسجد میں نہیں آیا۔

م: پھر آج کیسے تشریف لے آئے ؟

ح: ایک مسئلہ دریافت کرنے آیا ہوں۔

م: فرمایے ! میں حاضر ہوں۔

ح: سنا ہے کہ اہل حدیث ایک نیا فرقہ نکلا ہے‘ جو نہ صحابہؓ کو مانتے ہیں اور نہ اماموں کو ‘ بلکہ بزرگوں کو تو گالیاں بھی دیتے ہیں۔

م: بھئی! یہ سب یاروں کا پروپیگنڈا ہے‘ ورنہ دیانت داری کی بات ہے کہ ہم نہ کسی کو برا کہتے ہیں‘ نہ کسی کو گالی دیتے ہیں بلکہ عزت والوں کی عزت کرتے ہیں

اور ماننے والوں کو مانتے ہیں۔

ح: آپ اماموں کو مانتے ہیں؟

م: کیوں نہیں !

ح: لوگ تو کہتے ہیں کہ آپ نہیں مانتے۔

م: عیسائی بھی تو کہتے ہیں کہ مسلمان عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتے ‘ تو کیا آپ عیسٰی علیہ السلام کو نہیں مانتے؟

ح: ہم تو عیسٰی علیہ السلام کو مانتے ہیں۔

م: پھر عیسائی کیوں کہتے ہیں کہ آپ عیسٰی علیہ السلام کو نہیں مانتے؟

ح: اس لیے کہ جیسے وہ مانتے ہیں ویسے ہم نہیں مانتے۔

م: اسی طرح سے لوگ ہمیں کہتے ہیں ۔ کیوں کہ جیسے وہ اماموں کو مانتے ہیں ویسے ہم نہیں مانتے۔

ح: وہ اماموں کو کیسے مانتے ہیں ؟

م: نبیوں کی طرح۔

ح: نبیوں کی طرح کیسے؟

م: ان کی پیروی کرتے ہیں‘ ان کے نام پر فرقے بناتے ہیں۔ حالانکہ پیروی اور انتساب صرف نبی ﷺ کا حق ہے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ عیسائی اور

مرزائی جو کافر ہیں وہ تو اپنی نسبت اپنے نبی کی طرف کر کے عیسائی اور احمدی کہلائیں ا ور آپ مسلمان ہوتے ہوئے اپنے نبی ﷺ کو چھوڑ کر اپنی نسبت امام کی طرف کریں اور حنفی کہلائیں۔ کیا عیسائی اور مرزائی اچھے نہ رہے جنھوں نے کم از کم نسبت تو اپنے نبی کی طرف کی۔

ح: آپ جو حنفی نہیں کہلاتے تو کیا آپ امام ابوحنیفہؒ کو نہیں مانتے؟

م: اگر ہم حنفی نہیں کہلاتے تو اس کے یہ معنی تو نہیں کہ ہم ان کو امام نہیں مانتے۔ ہم ان کو امام مانتے ہیں‘ لیکن نبی نہیں مانتے کہ آپ کی طرح ان کے نام پر

حنفی کہلائیں۔ آپ ہی بتائیں آپ جو شافعی نہیں کہلاتے تو کیا آپ امام شافعی ؒکو نہیں مانتے؟

ح: ہم امام شافعی ؒکو ضرور مانتے ہیں‘ لیکن جب حنفی کہلاتے ہیں تو پھر شافعی ؒکہلانے کی کیا ضرورت ہے؟

م: ہمیں بھی محمدی یا اہل حدیث کہلانے کے بعد حنفی کہلانے کی کیا ضرورت ہے ؟

ح: آپ محمدی کیوں کہلاتے ہیں ؟

م: آپ اپنے امام کے نام پر حنفی کہلائیں‘ ہم اپنے نبی ﷺ کے نام پر محمدی نہ کہلائیں‘ آپ بتائیں نبی بڑا یا امام ؟ محمدی نسبت اچھی یا حنفی ؟

ح: نسبت تو محمدی بہتر ہے ‘ لیکن حنفی بھی غلط تو نہیں ؟

م: غلط کیوں نہیں ؟ اصلی باپ کے ہوتے ہوئے پھر کسی اور کی طرف منسوب ہونا کس شریعت کا مسئلہ ہے ؟ جب حضور ﷺ ہمارے روحانی باپ ہیں تو باپ

کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف نسبت کرنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے باپ کا نہیں یا پھر غلط کار ہے‘ جو اپنے آپ کو غیر کی طرف منسوب کرتا ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:(( لاَ تَرْغَبُوْا عَنْ اٰبَاءِکُمْ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ اَبِیْہِ فَھُوَ کُفْرٌ))۱جو اپنے باپ سے نسبت توڑتا ہے وہ کفر کرتا ہے۔دوسری حدیث میں فرمایا:(( مَنِ ادَّعٰی اِلٰی غَیْرِ اَبِیْہِ وَھُوَ یَعْلَمُ اَنَّہ‘ غَیْرُ اَبِیْہ فَالْجَنَّۃُ عَلَیْہِ حَرَامٌ))۲جو اپنی نسبت جانتے بوجھتے ہوئے غیر باپ کی طرف کرتا ہے اس پر جنت حرام ہے۔

جب آنحضرت ﷺ ہمارے دینی باپ ہیں تو ان کو چھوڑ کر غیر کی طرف نسبت کرنا بے دینی نہیں تو اور کیا ہے؟ اس کے علاوہ آپ بتائیں حنفی بننے کے لیے کہا کس نے ہے ؟ کیا اﷲنے کہا ہے یا اس کے رسولؐ نے یا خود امام ؒنے؟

ح: کہا تو کسی نے نہیں۔

م: جب حنفی بننے کے لیے کسی نے کہا نہیں‘ حنفیت اسلام کی کوئی قسم نہیں‘ حنفیت نام کی اسلام میں کوئی دعوت نہیں۔(لَیْسَ لَہ‘ دَعْوَۃٌ فِی

الدُّنْیَا وَلاَ فِی الْاٰخِرَۃِ ) [40:الغافر:43] تو حنفی نسبت غلط کیوں نہیں؟

ح: حنفی کہلانے والے پہلے جتنے گزرے ہیں‘ کیا وہ سب غلط تھے ؟

م: پہلے حنفی آج کل جیسے نہ تھے‘ ان کی یہ نسبت کرنا گمراہی اس وقت بنتی ہے جب مذہبی ہو اور فرقہ پرستی کی بنیاد پر ہو۔ اگر یہ نسبت استادی شاگردی کی ہو

توکوئی حرج نہیں۔

ح: اگر حنفی کہلانا صحیح نہیں ‘ کیونکہ فرقہ پرستی ہے تو اہل حدیث کہلانا بھی تو فرقہ پرستی ہے؟

م: اہل حدیث کوئی فرقہ نہیں‘ اہل حدیث تو عین اسلام ہے۔ اسلام نام ہے نبی ﷺ کی پیروی کا اور نبی ﷺ کی پیروی اس کی حدیث پر عمل کرنے سے ہو

سکتی ہے ‘ لٰہذا اہل حدیث بنے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

ح: آپ جو اہل حدیث بنتے ہیں تو کیا اﷲ اور اس کے رسول ؐنے اہل حدیث بننے کے لیے کہا ہے ؟

م: اگر اہل حدیث بننے کے لیے نہیں کہا تو کیا اہل سنت بننے کے لیے کہا ہے‘ جو آپ اہلسنت کہلاتے ہیں ؟

ح: کیا قرآن و حدیث میں حضور ﷺ کی پیروی کا حکم نہیں ؟

م: پیروی کا حکم ہے‘ لیکن اہل سنت بننے کا حکم تو نہیں۔

ح: پیروی آخر سنت کی ہوگی اور اہل سنت بن کر ہی ہو سکتی ہے ۔

م: لیکن یہ پتا کیسے لگے گا کہ یہ سنت رسول ؐہے ؟

ح: یہ پتا تو حدیث سے ہی چلے گا۔

م: پھر اہل حدیث بغیر کوئی اہل سنت کیسے ہو سکتا ہے ؟ جیسے سنت کے بغیر کوئی اسلام کا پَتا نہیں لگ سکتا۔ ایسے ہی حدیث کے بغیر سنت کا پَتا نہیں لگ سکتا۔ اسی

لیے ہم لوگ عملاً اہل سنت ہیں اور مذہباً اہل حدیث۔ اگر ہم اہل حدیث نہ ہوتے تو آپ جیسے اہلسنت ہوتے کہ نام اہل سنت کا اور کام اہل بدعت کے۔ اب دیکھیں آپ کہتے اپنے آپ کو اہلسنت ہیں اور کرتے عید میلاد النبی ؐہیں‘ کہتے اپنے آپ کو اہل سنت ہیں پڑھتے مولود ہیں‘ کھاتے ختم اور گیارہویں ہیں۔ اسی طرح قل‘ تیجا‘ چالیسواں بہت سی ایسی بدعات ہیں جو آپ کرتے ہیں حالانکہ وہ حدیثِ رسول ؐسے بالکل ثابت نہیں۔جب کوئی عمل حدیث رسول ؐسے ثابت نہ ہوا ‘ اس کے کرنے والااہل سنت کیسے ہو سکتا ہے؟

ح: اﷲ نے تو قرآن مجید میں مسلم نام رکھا ہے ‘ پھر آپ اہل حدیث کیوں کہلاتے ہیں ؟

م: مسلم تو ہمارا ذاتی نام ہے ‘ جیسا کہ بچے کی پیدائش پر اس کا نام رکھا جاتا ہے‘ لیکن اہلحدیث ہمارا وصفی نام ہے جو ہمارے طریق کار کو ظاہر کرتا ہے۔ آدمی

کے کئی نام اس کے پیشے‘ مشاغل اور اس کے اوصاف کے پیش نظر پڑ جاتے ہیں۔ نہ یہ شرعاً ممنوع ہے‘ نہ عرفاً ۔ رسول اﷲ ﷺ کے محمد ؐاور احمدؐ ذاتی نام ہیں‘ حاشر‘ عاقب‘ شافع وغیرہ وصفی نام تھے جو آپ کو ممتاز کرتے تھے۔ قرآن مجید نے عیسائی کو اہل انجیل کہاہے:(وَلْیَحْکُمْ اَھْلُ الْاِنْجِیْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فِیْہِ ) [5:المائدہ:47]حدیث میں ہے:((فَاَوْتِرُوْا یٰاَھْلَ الْقُرْاٰنِ )) ۳اہل قرآن وتر پڑھا کرو۔

ح: کچھ بھی ہو حضور ﷺ کے زمانے میں تو یہ مسلمانوں کا نام نہ تھا۔

م: کیوں نہیں تھا؟ نام تو تھا اگرچہ مشہور نہیں تھا‘ جب وصفی نام یا لقب رکھنا بشرطیکہ غلط اور برا نہ ہو‘ جائز ہے تو اگرچہ وہ حضور ﷺ کے زمانہ میں نہ بھی ہو

تو کوئی حرج نہیں کیوں کہ اس سے اسلام کی وضاحت ہوتی ہے‘ تفریق نہیں ہوتی۔ اہل سنت و اہلحدیث وغیرہ نام جو پہلے مشہور نہ ہوئے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت ان ناموں کی چنداں ضرورت نہ تھی۔نام رکھے جاتے ہیں ‘ امتیاز کے لیے۔ اس وقت سب مسلم تھے‘ کوئی فرقہ نہ تھا۔ سب کا طریق کار ایک ہی تھا‘ اس لیے اس وقت ان ناموں کی ضرورت نہ تھی۔ جب فرقہ پرستی شروع ہوگئی‘ تو یہ نام نمایاں ہو ئے۔ جب شیعہ کا چرچا ہوا تو اہل سنت والجماعت کا نام مشہور ہوا‘ جب اماموں کی تقلید نے زور پکڑا تو اہل حدیث کے نام کو فروغ ہوا۔ چونکہ اہل سنت‘ اہل حدیث اور محمدی وغیرہ ناموں سے اتباع رسولؐ اور تعلق بالرسولؐ کا اظہار ہوتا ہے‘ اس لیے یہ نام برے نہیں۔ صحابہ اپنے آپ کو ان ناموں سے موسوم کرتے تھے۔

ح: اگر وصفی اور لقبی نام رکھنا بدعت نہیں تو پھر حنفی کہلانے میں کیا حرج ہے؟

م: حنفی کہلانے میں بہت حرج ہے۔ ایک حنفی کہلائے گا تو دوسرا شافعی ‘ اس طرح اسلام میں فرقے پیدا ہوں گے۔ جب ہمارا اصلی نام منجانب اﷲ مسلمین ہے

تو وصفی اور لقبی نام ایسا ہونا چاہیے جو اصلی نام کا ممیز و معرف ہو‘ نہ کہ مقسم۔ حنفیت سے اسلام کی تعریف نہیں ہوتی۔ کیونکہ حنفیت اسلام کی کوئی قسم نہیں‘ بلکہ تفریق ہوتی ہے‘ دین کے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ حنفی ‘ شافعی وغیرہ فرقے اسی طرح توپیدا ہوئے ہیں اس لیے اپنے آپ کو حنفی وغیرہ کہنا دین میں تفریق پیدا کرکے برباد کرنا ہے‘ نام وہ رکھنا چاہیے جو اسلام کے مترادف ہوا ور وہ محمدی ‘ اہل سنت‘ اہل حدیث وغیرہ ہی ہو سکتے ہیں۔ حنفی ‘ شافعی وغیرہ نہیں‘محمدی‘ اہل سنت اور اہل حدیث میں ’’اہل حدیث ‘‘نام زیادہ جامع ہے‘ کیونکہ محمدیت اور سنت رسولؐ کو جانچنے کا معیار صرف حدیث ہے۔ اسی حدیث کے معیار نے بتایا کہ دیوبندی اور بریلوی کا اہل سنت کا دعویٰ صحیح نہیں کیونکہ ان کا احادیث کے مطابق‘ سنتوں پر عمل نہیں۔ اہل حدیث کا نام اس لیے بھی زیادہ جامع ہے کہ لفظ حدیث قرآن کو بھی شامل ہے۔ اس لیے اہل حدیث سے مراد وہ جماعت ہوتی ہے جو قرآن و حدیث پر عمل کرے۔ حنفیت کے لفظ میں قرآن وحدیث دونوں نکل جاتے ہیں‘ صرف فقہ حنفی رہ جاتی ہے‘ جوخسارہ ہی خسارہ ہے۔

ح: حدیث کو تو ہم بھی مانتے ہیں۔

م: صرف مانتے ہی ہیں‘ عمل نہیں کرتے۔ اگر عمل کرتے ہوتے تو اہل حدیث ہوتے۔ آدمی مانتا بہت سوں کو ہے‘ لیکن منسوب اسی کی طرف

ہوتا ہے جس سے زیادہ تعلق ہوتا ہے۔ ماننے کو مسلمان عیسیٰ علیہ السلام کو بھی مانتے ہیں‘ لیکن عیسائی نہیں کہلاتے کیوں کہ ان کی شریعت پر عمل نہیں کرتے۔ مرزائی کہنے کو تو محمد ﷺ کو بھی مانتے ہیں ‘ لیکن کہلاتے احمدی ہی ہیں۔ کیوں کہ ان کااصل تعلق مرزا غلام احمد سے ہے‘ جو ان کا نبی ہے‘ محمد سے نہیں۔ ماننے کو تو آپ حدیث کو مانتے ہیں اور امام شافعی ؒکو بھی ‘ لیکن نہ اہل حدیث کہلاتے ہیں‘ نہ شافعی ۔ کیوں کہ آپ کا اصل تعلق امام ابوحنیفہؒ سے ہے نہ کہ حدیث سے ہے نہ امام شافعی سے ۔ ماننے کو تو ہم بھی اماموں کو مانتے ہیں‘ لیکن منسوب صرف محمد ﷺ کی طرف ہوتے ہیں‘ کیونکہ ان کی پیروی کرتے ہیں اور ان سے ہی زیادہ تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے نہ شافعی کہلاتے ہیں ‘ نہ حنفی۔

ح: حضورﷺ کو تو سب مانتے ہیں۔

م: صرف مانتے ہی ہیں‘ پیروی نہیں کرتے‘ اگر پیروی کریں تو پھر حنفی شافعی بننے کی کیا ضرورت ہے؟

ح: حضورﷺ کے بعدآپ کا کوئی امام نہیں ؟

م: حضورﷺ کے بعد کسی امام کی ضرورت نہیں۔

ح: زندگی متحرک ہے‘ نت نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں‘ آخر وہ کس سے لینے ہیں ؟

م: حضور ﷺ سے لیں۔

ح: ان سے اب کیسے ‘ا ب وہ کہاں ہیں؟

م: آپ حیات النبی ؐکے قائل نہیں ؟

ح: حیات النبی ؐکا تو میں ضرور قائل ہوں۔

م: پھر امام کی کیا ضرورت ہے‘ جو لینا ہو نبی اکرم ﷺ سے لیں۔

ح: وہ اب کیا دیتے ہیں ؟

م: اگر وہ کچھ نہیں دیتے تو حیات النبی ؐکیسی اور اس کا فائدہ ؟

ح: حیات کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ اب کچھ دیتے لیتے ہیں۔

م: پھر حیات کا اور کیا مطلب ہے ؟

ح: حیات کا مطلب تو یہ ہے وہ سلام سنتے ہیں۔

م: کیا وہ صرف سلام سننے کے لیے حیات ہیں۔ یہ حیات کیسی کہ ان کے عاشق ان کی آنکھوں کے سامنے شرک و بدعت کریں اور وہ چپ پڑے ان کو گمراہ

ہوتا دیکھتے رہیں اور سلام سنتے رہے۔کیا وہ سلام سننے کے لیے دنیا میں آئے تھے یا شرک و بدعت کو مٹانے اور دین سکھانے کے لیے؟

ح: دین تو سکھا کر گئے تھے‘ اب کیا سکھانا ہے ؟

م: اگر وہ دین سکھا کر گئے تھے تو پھر امام کی کیا ضرورت ؟

ح: زندگی میں نئے نئے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں جن کا حل امام ہی پیش کر سکتا ہے ‘ اس لیے امام کا ہونا ضروری ہے۔

م: آج کل آپ کا امام کون ہے ‘ جو آپ کے پیش آمدہ مسائل کا حل کرتا ہے؟

ح: ہمارے امام تو امام اعظم ابوحنیفہ ؒہیں۔

م: وہ کب پیدا ہوئے؟

ح: 80ھ ‘ یعنی حضور ﷺ کے ستر سال بعد۔

م: کیا ان کے بارے میں بھی آپ کا عقیدہ حیات النبی ؐکی طرح حیات الامام کا ہے؟

ح: نہیں وہ تو فوت ہو چکے ہیں۔

م: ان کو فوت ہوئے کتنا عرصہ ہو چکا ہے؟

ح: تقریباً ساڑھے بارہ سو سال۔

م: جب آپ امام کو حیات بھی نہیں سمجھتے اور حضور ﷺ کو حیات سمجھتے ہیں اور حضور ﷺ اور امام کی وفات میں کوئی زیادہ لمبا عرصہ بھی نہیں تو پھر کیا یہ

بات کہ امام کی فقہ تو زندگی کے مسائل حل کرے اور حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کی فقہ فیل ہو جائے اور یہ کام نہ کر سکے۔

ح: امام صاحب نے اپنی زندگی میں ہی اصول دین کو سامنے رکھ کر فقہ کی ایسی تدوین کی کہ لاکھوں مسائل ایک جگہ جمع کر دیے جو رہتی دنیا تک کام آئیں گے

م: حضور ﷺ نے یہ کام کیوں نہ کیا؟ آخر اس کی کیا وجہ کہ حضور ﷺ کا پیش کردہ دین تو صرف سو سال تک کام دے سکا لیکن امام صاحب نے دین کو

ایسے انداز سے پیش کیا جو آج تک کام کر رہا ہے‘ بلکہ قیامت تک کام دیتا رہے گا۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ حضور ﷺ کے تو سو سال بعد ہی امام کی ضرورت پڑ گئی جو زندگی کے بڑھتے ہوئے مسائل کا حل پیش کرے‘ لیکن اس امام کے بعد تیرہ سو سال ہو گئے ‘ آج تک کسی نبی یا امام کی ضرورت پیش نہ آئی۔ وہی امام‘ وہی فقہ کام دے رہے ہیں اور آپ اسی نام پر حنفی چلے آ رہے ہیں۔اگر امام صاحب ایسے ہی تھے جیسا کہ آپ کا دعویٰ ہے تو ان کو حضو راکرم ﷺ کی جگہ نبی ہونا چاہیے تھا تاکہ اختلافات ہی نہ ہوتے‘ نہ محمدی کا جھگڑا ہوتا ‘ نہ اماموں کا چکر ہوتا۔ شافعی‘ مالکی‘ حنبلی کا مسئلہ بھی ختم ہو جاتا۔ سب ایک ہوتے اور حنفی ہوتے۔اب عجیب بات یہ ہے کہ حیا ت النبی ؐکا عقیدہ آپ لوگ حضور ﷺ کے لیے مانتے ہیں اور مسئلے امام صاحب کے مانتے ہیں۔ کلمہ محمد رسول اﷲﷺ کا پڑھتے ہیں اور حنفی بن کر پیروی امام ابوحنیفہ ؒکی کرتے ہیں۔

ح: آپ لوگ حیات النبیؐ کے قائل کیوں نہیں؟

م: اگر حضور ﷺ حیات ہوں تو ہم حیات النبی ؐکے قائل ہوں۔ اس عقیدے کا کچھ فائدہ ہو تو ہم اس کے قائل ہوں۔ جب آپ لوگ حنفی بن گئے تو حیات

النبی ؐکا عقیدہ کہاں رہا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ لوگ حیات النبیؐ کے قائل ہیں تو صرف رسمی طور پر قائل ہیں‘ دل و عقل سے آپ بھی اس کو صحیح نہیں سمجھتے۔ اگر آپ لوگ اسے صحیح سمجھتے ہوتے تو کبھی حنفی نہ بنتے۔ آپ کا حضورﷺ کے بعد حنفی بن جانا اس بات کی بین دلیل ہے کہ آپ حضور ﷺ کو زندہ نہیں سمجھتے۔ ورنہ کون ایسا بدبخت ہے جو نبی ﷺ کی زندگی میں امام اور پیر پکڑتا پھرے۔ آپ جو امام اور پیر پکڑتے ہیں تواس کا مطلب ہے کہ آپ حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کو یا زندہ نہیں سمجھتے یا کافی نہیں سمجھتے۔

ح: آپ لوگ حضورصلی اﷲ علیہ و سلم کی حیات کے بالکل قائل نہیں ؟

ْم: ہم لوگ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی برزخی حیات کے قائل ہیں‘ دنیوی حیات کے قائل نہیں۔

ح: اس کا کیا مطلب ہے؟

م: یہی کہ آپؐ دنیا میں خود زندہ نہیں بلکہ آپؐ کی نبوت زندہ ہے۔برزخ میں اﷲ کے ہاں آپؐ خود زندہ ہیں۔

ح: دنیا میں اگر حضور ﷺ زندہ نہیں تو لوگ ان سے دین کیسے لیتے ہیں ؟

م: جس امام کو آپ پکڑے ہوئے ہیں وہ کیا دنیا میں ہے؟

ح: دنیا میں تو وہ بھی نہیں۔

م: پھر آپ اس سے مسئلے کیسے لیتے ہیں؟

ح: ان کی کتابیں موجود ہیں۔

م: تو کیا حضور ﷺ کی حدیث موجود نہیں ؟

ح: کتابیں تو اماموں نے خود لکھی ہیں‘ لیکن حدیث تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود نہیں لکھی‘ اس کو تو لوگوں نے بعد میں جمع کیا ہے۔

م: فقہ حنفی جس کو آپ مانتے ہیں وہ کون سی امام صاحب نے خود لکھی ہے‘ وہ بھی تو لوگوں نے ہی جمع کی ہے اور وہ بھی بغیر سند کے۔ پھر جیسے فقہ آپ تک

پہنچ گئی حدیث ہم تک پہنچ گئی۔آپ جیسے اپنے امام کی فقہ کو فقہ حنفی کہتے ہیں اس سے کہیں زیادہ یقین کے ساتھ ہم حدیث کو حدیث رسولؐ کہتے ہیں کیوں کہ فقہ آپ کے پاس بغیر سند کے پہنچی ہے۔ اس کے علاوہ حدیث دین ہے۔ اﷲ اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہے‘ کسی امام کی فقہ کی حفاظت کا اﷲ ذمہ دار نہیں ۔

ح: اﷲ فقہ کا ذمہ دار کیوں نہیں ؟

م: اس لیے کہ فقہ لوگوں کی رائے کو کہتے ہیں‘ جو غلط بھی ہو سکتی ہے اور صحیح بھی۔ فقہ اﷲ کی وحی نہیں ہوتی جو صحیح ہی ہو۔ فقہ ہر امام کی علیحدہ علیحدہ ہوتی

ہے‘ حدیث رسول ﷺ کی ہوتی ہے اور سب کے لیے ایک ہوتی ہے۔ فقہ بدلتی رہتی ہے حدیث بدلتی نہیں ہے۔لہذا حدیث دین ہے‘ فقہ دین نہیں۔ اسی لیے اﷲ فقہ کا ذمہ دار نہیں۔

ح: کیا سچ مچ ہی فقہ حنفی امام نے خود نہیں لکھی؟

م: کسی عالم سے پوچھ لیں‘ اگر کوئی ثابت کر دے تو۔۔۔۔

ح: مان لیا کہ حدیث رسولؐ کی ہے‘ لیکن حدیث کوہر کوئی سمجھ نہیں سکتا۔

م: کیا فقہ کو ہر کوئی سمجھ لیتا ہے ؟

ح: فقہ تو بہت آسان ہے ۔

م: کیا بغیر پڑھے آ جاتی ہے ؟

ح: نہیں پڑھنی تو پڑتی ہے۔

م: پھر کیا حدیث پڑھنے سے نہیں آتی؟

ح: آتو جاتی ہے ‘ لیکن اس کا سمجھنا بہت مشکل ہے کیونکہ حدیثوں میں اختلاف بہت ہے ۔حدیثوں کا سمجھنا تو امام ہی کا کام ہے۔

م: یہ سب دشمنان رسول ﷺ کی اڑائی ہوئی باتیں ہیں ورنہ حدیثوں میں اختلاف کہاں ؟ حدیث تو رسول ؐکے قول و فعل کو کہتے ہیں جن میں اختلاف کا سوال

ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ دین ہونے کی وجہ سے اﷲ اس کا ذمہ دار ہے۔

ح: فقہ میں بھی اختلاف ہے ؟

م: فقہ میں تو اتنا اختلاف ہے کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں ۔ فقہ حنفی کے تین بڑے امام ہیں: امام ابوحنیفہؒ ‘ امام ابویوسفؒ اور امام محمد رحمہ اﷲ۔ ان تینوں

اماموں کا فقہ کے تقریباً دو تہائی مسائل میں اختلاف ہے۔جیسا کہ امام غزالی نے اپنی کتاب منخول میں لکھا ہے۔ مثال کے طور پر۔

1… امام ابوحنیفہ ؒکہتے ہیں کہ نماز کے سات فرض ہیں صاحبین امام ابویوسف اور امام محمد فرماتے ہیں کہ کل چھ فرض ہیں۔ امام صاحب فرماتے ہیں التحیات میں اگر وضو ٹوٹ جائے تو نماز نہیں ہوتی کیونکہ ساتواں فرض ابھی باقی ہے۔ صاحبین کہتے ہیں ہو جاتی ہے کیونکہ چھ فرض پورے ہو چکے ہیں۔۴

2….اگر بیوی کا خاوند لاپتا ہو جائے تو کوئی امام کہتا ہے کہ عورت خاوند کی 120 سال کی عمر تک انتظار کرے‘ ایک روایت کے مطابق امام ابوحنیفہ ؒکا یہی فتویٰ ہے۔ حنفیوں کے زیادہ اماموں کی رائے ہے کہ جب اس کے خاوند کی عمر کے تمام آدمی مر جائیں‘ اس وقت تک انتظار کرے۔ بعض کہتے ہیں 90سال انتظار کرے۔۵ایک حنفی عورت بے چاری کیا کرے ‘ کدھر جائے؟

3…. امام ابوحنیفہ ؒفرماتے ہیں: دو مثل سایہ ہو تو عصر کا وقت ہوتا ہے۔ صاحبین فرماتے ہیں ایک مثل ہو تو وقت ہوتا ہے۔۶

4….امام صاحب فرماتے ہیں چار آدمی ہوں تو جمعہ ہو سکتا ہے‘ صاحبین فرماتے ہیں تین ہوں تو ہو سکتا ہے۔ ۷

5…. اس کے علاوہ مستعمل پانی کو ہی لے لیں جس سے ہر وقت واسطہ پڑتا ہے۔ کوئی پاک کہتا ہے‘ کوئی پلید پھر اس میں اختلاف ہوتا ہے کہ کم پاک ہے یا زیادہ ‘ کم پلید ہے یا زیادہ ۔۸

ح: یہ تو عالموں کی رائے کا اختلاف ہوگا‘ امام صاحب کا فیصلہ کیا ہے ؟

م: امام صاحب ہی کے قول مختلف ہیں۔ امام محمدؒ کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہؒ کا قول ہے کہ استعمال شدہ پانی خود پاک ہے ‘ دوسری چیز کو پاک نہیں کر سکتا۔

امام ابوحنیفہ ؒکا دوسرا قول یہ ہے کہ مستعمل پانی پلید ہے۔ امام حسن کی روایت میں نجاست غلیظ ہے اور

ابویوسف کی روایت میں نجاست خفیفہ ہے۔ ۹

منیۃ المصلی۱۰میں گھوڑے کے جھوٹے کے بارے میں لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒسے اس سلسلے میں چار روایتیں ہیں۔

ایک روایت میں نجس ‘ ایک روایت میں مشکوک‘ ایک روایت میں مکروہ اور ایک روایت میں پاک۔ بتائیے! اب حنفی مقلد کدھر جائے ‘ کس کو صحیح سمجھے؟

حنفی مولوی حدیث سے متنفر کرتے ہیں‘ اختلاف کا ہّوا دکھا کر اور یہ نہیں دیکھتے کہ فقہ میں کتنا اختلاف ہے۔ ان لوگوں کی تو یہ مثال ہے : فَرَّمِنَ الْمَطْرِوَ قَامَ تَحْتَ الْمِیْزَابِ (بارش سے بھاگا اور پرنالے کے نیچے کھڑا ہوگیا) حدیث کو تو چھوڑا ہے اس لیے کہ اس میں اختلاف ہے حالانکہ حدیث میں اختلاف نہیں اور پھنس گئے جا کر اختلاف کی دلدل یعنی فقہ میں۔

ح: آپ لوگ ہماری طرح کسی امام کو نہیں پکڑتے کہ اس کی تقلید کریں؟

م: نہیں ۔ اولاً : اس لیے کہ حضور ﷺ کے بعد کسی کو پکڑنے کی ضرورت نہیں۔

ثانیاً : نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کے بعد کوئی ایسا معصوم نہیں جس سے غلطی نہ ہو۔ اگر ہم کسی ایک کو پکڑیں گے اور غلطی میں بھی اس کی پیروی کریں گے تو گمراہ ہو جائیں گے۔ امام تو شاید اپنی اجتہادی غلطی کی وجہ سے بخشا جائے ‘ لیکن ہم مارے جائیں گے۔

ثالثاً:حضور ﷺ کے بعد کوئی ایسا کامل نہیں کہ جس کو پکڑ کر سارے کام چل جائیں۔ حنفی بننے کے بعد پہلے عقائد کے لیے ماتریدی بننا پڑتا ہے پھر تصوف کے لیے بھی قادری ‘کبھی چشتی‘ کبھی سہروردی‘ کبھی نقشبندی۔ حضور ﷺ کے بعد کوئی ایسا نہیں کہ ایک کو پکڑکر گزارا ہو جائے۔ درد رکی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔

رابعاً: ایک کو پکڑنے سے باقی اماموں کا انکار لازم آتا ہے۔ ایک کو پکڑنے سے فرقے پیدا ہوتے ہیں ‘ دین کے ٹکڑے ہوتے ہیں‘ ایک دین کے چار ٹکڑے ایسے ہی تو ہوگئے۔قرآن کہتا ہے:( وَ لاَ تَفَرَّقُوْا)[6:النعام:103]فرقے ‘ فرقے نہ بنو۔( وَ لاَ تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ O مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَ کَانُوْا شِیَعًا ) [30 :الروم:31-32] کیونکہ جو فرقے بنا لیتے ہیں وہ مشرک ہو جاتے ہیں۔ نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کے بعد کسی ایک کو پکڑنا دین کو برباد کرنے اور خود کو مشرک بنانے کے مترادف ہے۔

ح: آپ کا فرقہ کب بنا ہے؟

م: ہمارا فرقہ بنا نہیں۔ فرقہ تو وہ بنتا ہے جو اصل سے کٹتا ہے اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی ایک کو امام پکڑکر اپنا نام اس کے نام پر رکھتا ہے۔ پھر

اس کی تقلید کرتا ہے۔ ہم تو اصل ہیں۔ یعنی اہل حدیث اسی وقت سے ہیں جب سے حدیث ہے اور حدیث اسی وقت سے ہے جب سے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔ ہم حضور ﷺ کے بعد کسی کو نہیں پکڑتے کہ اس کی تقلید کرکے فرقہ بنیں۔ ہم فرقہ نہیں اصل ہیں جو حضور ﷺ کے ساتھ ہیں اور ان کی حدیث پر عمل پیرا ہیں۔

ح: آپ ہماری طرح اہل سنت کیوں نہیں ؟

م: آپ اہل سنت کہاں ؟ آپ تو حنفی ہیں ‘ اہل سنت تو ہم ہیں جو حنفی ‘ شافعی کچھ نہیں‘ صرف اہل سنت ہیں۔

ح: آپ تو کہتے ہیں کہ ہم اہل حدیث ہیں ۔

م: اہل حدیث اور اہل سنت میں کچھ فرق نہیں۔ اصلی اہل سنت اہل حدیث ہی ہوتے ہیں

ح: آپ اہل حدیث کیوں ہیں ؟

م: تاکہ حنفی اہل سنت اور اصلی اہل سنت میں فرق ہو جائے۔ اہل سنت وہ ہوتا ہے جو صرف سنت رسولؐ کا پابند ہو‘ کسی امام کا مقلد نہ ہو۔ وہ سنت اسے سمجھے

جو صحیح حدیث رسول ؐسے ثابت ہو۔ اس کے نزدیک حدیث رسول ؐہی سنت کا معیار ہے۔ اسی لیے اسے اہل حدیث کہتے ہیں۔ جب اسلام سنت رسول ؐکا نام ہے اور سنت رسول ؐبغیر حدیث رسولؐ کے مل ہی نہیں سکتی تو اہل سنت بغیر اہل حدیث کے ہو ہی نہیں سکتا۔ حنفی اہل سنت وہ ہے جوشیعہ کے مقابلے میں اہل سنت والجماعت ہوتا ہے ۔ کیوں کہ یہ سنت اور جماعت صحابہ کو ماننے کا دعوے دار ہوتا ہے اور وہ منکر ہیں۔ لیکن عملاً یہ اہلسنت نہیں ہوتا۔ کیوں کہ امام ابوحنیفہؒ کی تقلید کرتا ہے اور اہل سنت کی تعریف میں کسی امام کی تقلید کرنا بالکل شامل نہیں۔ اہل سنت اسے کہتے ہیں جو سنت رسولؐ پر چلے اور حنفی اسے کہتے ہیں جو امام ابوحنیفہؒ کی تقلید کرے‘ فقہ حنفی پر چلے۔ اب دونوں یعنی حنفی اور اہل سنت کو ایک ثابت کرنے کے لیے سنت رسول ؐاور فقہ حنفی کو ایک ثابت کرنا ضروری ہے جو تقریبا ناممکن ہے۔ جب سنت رسولؐ اور فقہ حنفی ایک ثابت نہیں ہو سکتے تو اہل سنت اور حنفی بھی ایک ثابت نہیں ہو سکتے۔ ان میں فرق ضرور رہے گا۔

ح: میں سمجھتا ہوں فرق تو ان میں کوئی خاص نہیں؟

م: فرق تو اہل سنت اور اہل حدیث میں نہیں۔ دونوں ایک ہیں۔ کیوں کہ سنت بھی رسولؐ کی اور حدیث بھی رسولؐ کی۔ حنفی اور اہل سنت میں تو بہت فرق ہے

ح: کیا فرق ہے ؟

م: یہی کہ حنفیت امتیوں کی بنائی ہوئی ہے اور سنت نبی ﷺ کی ۔ جو فرق نبی اور امتی میں ہے وہی فرق حنفی اور اہل سنت میں ہے۔ حنفی اہل سنت وہ ہے

جس کی قومیت تو اہل سنت ہے لیکن اس کا گوت (خاندان ) حنفی ہے۔ جس کی نسبت سے اب وہ اپنے آپ کو حنفی کہتا ہے اور فخر محسوس کرتا ہے۔حنفی اہل سنت قدیمی آبا واجداد کی وجہ سے اہلسنت کہلاتا ہے اور انتساب جدید کی وجہ سے حنفی۔ یعنی اصل و نسل کے اعتبار سے تو وہ اہل سنت ہے ‘لیکن اپنے کسب کے لحاظ سے حنفی ہے۔ ظاہر ہے کہ مذہب کوئی نسل قسم کی چیز نہیں کہ باپ کے بعد بیٹے کا بھی وہی مذہب ہو۔ مذہب تو اپنا کسب ہے ‘ اپنی پسند ہے جو آپ کے عقائد و اعمال ہیں وہی آپ کا مذہب ہے۔ کوئی آدمی اس وجہ سے اہل سنت نہیں کہلا سکتا کہ اس کے بزرگ اہل سنت تھے۔ اہل سنت تو وہی ہو سکتا ہے جو خود اہلسنت ہو۔ یعنی سنت رسولؐ پر چلے۔ اہل سنت وہ نہیں ہو سکتا جو خود تو بدعتیں کرے ‘ حنفیت اور بریلویت کو اپنائے اور’’ پدرم سلطان بود‘‘ کی وجہ سے اہل سنت کہلائے۔ اہلسنت مذہب ہے ‘ قوم نہیں۔ مذہب بدلتا رہتا ہے قوم بدلتی نہیں۔ مذہب کا تعلق عقائد و عمل سے ہے ‘ قوم سے نہیں۔ جو آپ کا عمل ہوگا وہی آپ کا مذہب ہوگا۔ اگر عمل سنت پر ہے تو مذہب اہل سنت ہے ۔ اگر عمل کسی پیر ‘ فقیر‘ امام ‘ ولی کی پیروی ہے تو مذہب اسی کا ہے جس کی پیروی ہے۔ حنفی اور بریلوی اہل سنت کا اپنے آپ کو اہل سنت کہنا ایسا ہی ہے جیساکہ آج کل کے اکثر مسلمانوں کا اپنے آپ کو مسلمان کہنا حالانکہ وہ اسلام کی حقیقت سے بالکل واقف نہیں۔ اس کے باوجود اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں صرف اسی وجہ سے کہ ان کے نزدیک مسلمان ایک قوم ہے جو کبھی بدلتی نہیں۔ وہ اسلام کے منافی جو مرضی کرتے رہیں ان کی مسلمانی میں فرق نہیں آتا۔ آج کل کتنے مسلمان ہیں کہ موروثی مذہب ان کا اسلام ہے‘ لیکن ذاتی مذہب ان کا سوشلزم ہے اور وہ اپنے آپ کو سوشلسٹ مسلمان کہتے ہیں۔ حالانکہ اسلام کا کوئی ایڈیشن یا کوئی قسم سوشلزم و جمہوریت نہیں۔ جیسا کہ شافعیت اور حنفیت بھی اسلام کی قسمیں نہیں۔ سوشلزم ہو یا جمہوریت‘ حنفیت ہو یا شافعیت‘ دیوبندیت ہو یا بریلویت یہ سب اسلام میں اضافے ہیں جن کا اسلام بالکل متحمل نہیں۔ اسلام ایک خالص دودھ ہے جو نہ ازموں کی پلید ملاوٹ کا روادار ہے ‘ نہ اماموں کی پاک آمیزش کا۔ دودھ میں پاک پانی ملے یا کوئی پلید چیز دودھ خالص نہیں رہتا۔ دودھ اس وقت تک دودھ ہے جب تک وہ خالص ہے۔ جونہی اس میں کوئی ملاوٹ ہوئی پاک یا پلید وہ ملاوٹی ہو گیا۔ اس طرح اہلسنت جو خالص اسلام ہے اسی وقت تک اہل سنت ہے جب تک وہ صرف اہل سنت ہے جونہی وہ حنفی بریلوی یا کسی اور قسم کا اہل سنت بنا ملاوٹی ہو گیا۔ اصلی نہ رہا اور اﷲ بغیر اصلی کے کوئی چیز بھی قبول نہیں کرتا۔

ح: آپ جو مرضی کہیں عوام تو حنفیوں کو خاص کر بریلویوں کو ہی اہل سنت مانتے ہیں۔

م: عوام کو نہیں دیکھا کرتے۔ عوام تو کالانعام ہوتے ہیں۔ دیکھا تو حقیقت کو کرتے ہیں کہ حنفی بریلوی کی حقیقت کیا ہے اور اہل سنت کی کیا؟ اہل سنت کی

حقیقت یہ ہے کہ وہ سنت رسول ؐکا پابند ہو‘ بدعات کے قریب نہ جائے۔ حنفی بریلوی وہ ہے جو حنفیت اور بریلویت کا پابند ہو جو بذات خود بدعتیں ہیں۔ اب جس کی ذات ہی بدعت ہو وہ اہل سنت کیسے ہو سکتا ہے ؟ رہ گیا عوام کا کہنا یا خود ان کا اہل سنت کہلانا تو یہ عرفاً ہے ۔ عرف کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ حقیقت بھی ہو۔ عرف عام میں تو ہر کلمہ گو کو مسلمان کہہ دیتے ہیں اور ہر داڑھی والے کو صوفی اور مولوی ۔۔ مشرک ہو یا موحد۔۔ سنی ہو یا شیعہ ضروریات دین کا قائل ہو یا منکر۔ حتیٰ کہ مرزائی بھی آج تک عرف عام میں مسلمان ہی شمار ہوتے رہے ہیں۔ تو کیا یہ حقیقت ہے ؟ کیا واقعی ہر کلمہ گو مسلمان ہوتا ہے خواہ اس کے عقائد و اعمال کیسے ہی ہوں ؟ اگر یہ صحیح ہے تو مرزائی کافر کیوں؟ کیا ان کا وہی کلمہ نہیں جو سب مسلمان پڑھتے ہیں؟ جب عقیدے کی خرابی سے مرزائی مسلمان نہیں رہ سکتا تو شرک و بدعت کرنے والا اہل سنت کیسے ہو سکتا ہے؟ حنفی بریلوی جو اہل سنت مشہور ہیں تو وہ صرف شیعہ کی وجہ سے۔ کیونکہ شیعہ کے مقابلہ میں سب ہی اہل سنت ہیں۔ بریلویوں کی چونکہ اکثریت ہے اس لیے وہ اسی نام سے زیادہ مشہور ہیں‘ لیکن شیعہ کے اہل سنت کہنے سے بریلوی اہل سنت نہیں ہو سکتے جیسا کہ ہندوؤں اور انگریزوں کے کہنے سے مرزائی مسلمان نہیں ہو سکتے۔ کوئی چیز کیا ہے ‘ اس کے لیے اس کی حقیقت کو دیکھا جاتا ہے ‘ نہ کہ عوام کالانعام کو کہ وہ کیا کہتے ہیں۔

ح: بریلوی صرف شیعہ کے کہنے سے ہی اہل سنت نہیں‘ اہل سنت ہونے کے تو وہ خود بھی زبردست دعوے دار ہیں۔

م: زبردست نہیں بلکہ زبردستی دعوے دار ہیں۔ صرف دعوے سے کیا ہوتا ہے ؟ اگر کوئی منہ کرے بریلی کو اور قبلہ کہے کعبے کو ‘ راستہ چلے کوفے کا اور دعویٰ

کرے مدینے کا تو اسے کون سچا کہے گا۔ زبردست دعویٰ تو مرزائی بھی کرتے ہیں۔ کیا وہ مرزائی رہتے ہوئے اپنے دعوے سے مسلمان ہو سکتے ہیں ؟

ح: آپ کا بھی تو دعویٰ ہی ہے کہ ہم اہل سنت ہیں؟

م: دعویٰ ہی نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ کیونکہ ہم صرف رسول اﷲ ﷺ کی پیروی کرتے ہیں اور انہی کو اپنا امام و ہادی اور پیرو مرشد سمجھتے ہیں۔ ان کے سوا کسی

کی طرف منسوب نہیں ہوتے۔ ہم بھی اہل سنت نہ ہوتے اگر آپ کی طرح کسی امام کے مقلد ہوتے اور اس کے نام پر اپنی جماعت کا نام رکھتے۔

ح: آپ کو بھی تو وہابی کہتے ہیں؟

م: وہابی تو آپ ہمیں بناتے ہیں ورنہ ہم وہابی کہاں ؟

ح: ہمیں آپ کو وہابی بنانے کی کیا ضرورت ؟

م: تاکہ ایک حمام میں سارے ہی ننگے ہوں‘ سارے ہی مقلد ہوں تاکہ ایک دوسرے کو طعنہ نہ دے سکیں۔

ح: مقلد ہونا بھی کوئی طعنہ ہے؟

م: زبردست‘ لیکن اگر کوئی سمجھے تو!..

ح: طعنہ کیسے ؟

م: مقلد تو انسان کو جانور کہنے کے مترادف ہے ‘ کیونکہ تقلید جانور کے گلے میں پٹّا ڈالنے کو کہتے ہیں۔ یہ فعل جانور وں کے لیے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ اور

اس کا رسول ﷺ اس لفظ کو انسانوں کے لیے کبھی استعمال نہیں کرتے۔ قرآن و احادیث میں یہ لفظ صرف جانوروں کے لیے آیا ہے۔

ح: آپ تقلید کسی کی بھی نہیں کرتے؟

م: جب تقلید ہے ہی جانوروں کے لیے ‘ انسانوں کا یہ فعل ہی نہیں تو ہم تقلید کسی کی بھی کیوں کریں؟

ح: سنا ہے تقلید کے بغیر تو گزارہ ہی نہیں ‘ تقلید تو ہر کوئی کرتا ہے‘ تقلید تو آپ بھی کرتے ہیں: ماں باپ کی بھی اور استاد کی بھی۔

م: اگر اسی کا نام تقلید ہے اور وہ ہم بھی کرتے ہیں تو ہمیں غیر مقلد کیوں کہتے ہیں ؟ اگر ماں باپ یا استاد کی بات ماننا بھی تقلید ہے تو آپ اپنے امام کو مقلد

کیوں نہیں کہتے۔ آپ کیوں کہتے ہیں کہ مجتہد مقلد نہیں ہوتا۔ کیا اس کے ماں باپ نہیں ہوتے یا وہ اپنے ماں باپ کا فرمان بر دار نہیں ہوتا۔ یہ سب مقلدین کے مولویوں کی تلبیس ابلیس ہے‘ ورنہ تقلید جو مابِہِ النّزاع ہے ‘یہ نہیں۔

ح: آپ لوگ اﷲ کے رسول ﷺ کی بھی تقلید نہیں کرتے؟

م: جب اﷲ کے رسول ﷺ نے تقلید کے لیے کہا ہی نہیں تو رسول ؐکی تقلید کیسے ہو سکتی ہے ؟ ویسے بھی تقلید اس آدمی کی بات ماننے کو کہتے ہیں جس کی بات

شرعی دلیل نہ ہو۔ جب رسول ؐکا ہر قول و فعل شریعت ہے تو رسولؐ کی تقلید نہیں ہو سکتی۔ تقلید سے تو اﷲ ہر انسان کو بچائے ‘ یہ تو بہت بڑی لعنت ہے۔ اس سے بڑی ذُلالت اور کیا ہو سکتی ہے کہ آدمی اپنے گلے میں کسی ایسے کا رسہ ڈالے جو جانے نہ پہچانے اور نہ کسی کام آئے‘ نہ پکڑانے میں نہ چھڑانے میں۔

ح: ہم اپنے امام کو نہیں جانتے؟

م: آپ کو کس نے بتایا کہ یہ آپ کا امام ہے‘ اسے پکڑ لو‘ اس کا رسہ اپنے گلے میں ڈال لو۔ یہ آپ کو پار لگائے گا‘ یہی پکڑائے گا‘ یہی چھڑائے گا۔ اﷲ کا

رسولؐ جس کو اﷲ نے امام مقرر کیا ہے‘ جس کا کلمہ پڑھوایا ہے ‘ جس کی سنت کو اپنا قانون ٹھہرایا ہے اور قانون بھی ایسا کہ وہ ہی پکڑائے گا‘ وہی چھڑائے گا‘ اس کی تو تقلید نہ ہو اور اپنے گھر کے بنائے ہوئے امام کی تقلید ہو جو قیامت کو نہ جانے نہ پہچانے کہ کون میرا ‘ کون غیر؟

ح: جب آپ کسی کی تقلید بالکل نہیں کرتے تو پھر آپ کو وہابی کیوں کہتے ہیں ؟

م: یہی بات تو ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ حنفی لوگ ہمیں ایک طرف تو غیر مقلد کہتے ہیں اور ایک طرف وہابی۔ حالانکہ اگر کوئی غیر مقلد ہو تو وہابی کیسا؟ اگر

وہابی ہو تو غیر مقلد کیسا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ جتنے اہل بدعت ہیں وہ اہل حدیث سے بہت بغض اور حسد رکھتے ہیں۔ اسی حسد میں وہ ان کے طرح طرح کے نام رکھتے ہیں‘ خواہ ان ناموں سے ان کی اپنی حماقت ہی ظاہر ہوتی ہو۔ یہی حال مخالفین کا حضور ﷺ کے ساتھ تھا۔ وہ بھی ان کے مختلف نام رکھتے تھے‘ کبھی ساحر کہتے‘ کبھی کاہن کہتے ‘ کبھی مجنوں‘ کبھی کذاب و مفتری۔۔۔۔ اس لیے اﷲ نے فرمایا: (اُنْظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوْا لَکَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلاً) [25 :الفرقان:9] ان حاسدین کو دیکھو یہ کیسے آپ کے الٹے سیدھے نام رکھتے ہیں۔بغض و حسد میں ایسے کور باطن (دلوں کے اندھے) ہو رہے ہیں کہ ان کو صحیح بات سوجھتی ہی نہیں۔

اہل حدیث پیر عبدالقادر جیلانی کی نظر میں

اب آپ شاہ عبدالقادر جیلانی ؒکا بیان حق نشان بھی سنیں جو ہمارے حق میں زبردست شہادت ہے۔ وہ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:

’’اِعْلَمْ اَنَّ لِاَھْلِ الْبِدْعِ عَلاَمَاتٍ یُعْرَفُوْنَ بِھَا فَعَلاَمَۃُ اَھْلِ الْبِدْعَۃِ الوَقِیْعَۃُ فِی اَھْلِ الْاَثْرِ۔۔۔ الخ ‘‘۱۱( غنیۃ الطالبین صفحہ 294)

بدعتیوں کی بہت سی علامتیں ہیں جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں۔ بڑی علامت ان کی یہ ہے کہ وہ اہل حدیث کو برا بھلا اور سخت سست کہتے ہیں اور یہ سب عصبیت اور بغض کی وجہ سے ہے جو ان کو اصل اہل سنت سے ہوتا ہے۔ اہل سنت کا صرف ایک ہی نام ہے اور وہ اہل حدیث ہے۔‘‘

شاہ عبدالقادر صاحب کے اس بیان سے واضح ہو گیا کہ جو اہل حدیث کو برا بھلا کہتے ہیں وہ بدعتی ہیں اور جو بدعتی ہوں وہ اہل سنت نہیں ہو سکتے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ

1- اہل حدیث کو برابھلا کہنے والے اہل سنت نہیں ہو سکتے۔

2- جو اہل حدیث کے الٹے سیدھے نام رکھتے ہیں ‘ کبھی وہابی کہتے ہیں‘ کبھی غیر مقلد وہ سب بدعتی ہیں اور بدعتی اہل سنت نہیں ہو سکتے۔

3- اہل سنت صرف اہل حدیث ہیں‘ باقی زبردستی کے دعوے دار ہیں۔

4- جب شاہ جیلانی ؒناجی جماعت صرف اہل سنت کو قرار دیتے ہیں اور وضاحت فرماتے ہیں کہ اہل سنت صرف اہل حدیث ہوتے ہیں تو ثابت ہوا کہ وہ خود بھی اہل حدیث تھے۔

5- جب شاہ جیلانی ؒاہل حدیث تھے اور تھے بھی پیر کامل۔ مسلم عند الکل تو معلوم ہوا کہ اہل حدیثوں میں بڑے بڑے ولی گزرے ہیں۔

6- جاہل عالموں کا یہ کہنا غلط ہے کہ اہل حدیث کوئی ولی نہیں ہوا۔

7- جب ناجی فرقہ اہل سنت ہے اور اہل سنت صرف اہل حدیث ہیں اور ولی کا ناجی ہونا ضروری ہے تو ثابت ہوا کہ ولی صرف اہل حدیث ہی ہو سکتا ہے۔

8- جب ولی صرف اہل حدیث ہی ہو سکتا ہے تو ثابت ہوا کہ جتنے ولی گزرے ہیں وہ سب اہل حدیث تھے۔

9- جو اہل حدیث نہیں تھا وہ ولی بھی نہیں تھا‘ خواہ جہلاء نے اسے ولی مشہور کر رکھا ہو۔

10- نجات کے لیے بھی اور ولی بننے کے لیے بھی اہل حدیث ہونا ضروری ہے ‘ جو اہل حدیث نہ ہو ولی ہونا تو درکنار‘ اس کی نجات کا مسئلہ بھی خطرے میں ہے

ح: آپ نے تو مجھے بہت ڈرا دیا۔

م: آپ خوش قسمت ہیں جو ڈر گئے ‘ ورنہ کتنے لوگ ہیں جن کو اپنی نجات کی فکر نہیں‘ صرف فرقہ پرستی میں بدمست ہیں اور اس کی حمایت ہی کو دین

کی خدمت سمجھتے ہیں‘ اصل سوچنے کی بات یہ ہے کہ پہلے حق کو پہچانے پھر اس پر پکا ہو جائے۔

ح: حق کا پتا کیسے لگے ‘ ہر ایک ہی اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے۔

م: حق تو نبی ﷺ کی سنت کو کہتے ہیں اور اسی پر چلنا راہ نجات ہے۔

ح: کہتا تو ہر ایک یہی ہے کہ میں حق پر ہوں ‘ یہ پتا کیسے لگے کہ کون حق پر ہے؟

م: جو دین میں ملاوٹ نہ کرے‘ وہ حق پر ہے۔ اس اصول سے آپ ہر ایک کو جانچ سکتے ہیں‘ دنیا میں ہر فرقے نے نبی ﷺ کے بعد اپنے آپ کو کسی نہ

کسی طرف منسوب کر رکھا ہے اور یہ اس کے ملاوٹی ہونے کی دلیل ہے۔ اہل حدیث ہی ایک ایسی جماعت ہے جو کسی طرف منسوب نہیں ہوتے‘ صرف نبی ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہیں جو حدیث سے ثابت ہو۔

ح: سنت کا کیا مطلب ہے؟

م: مَا سَنَّہُ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔۔۔ جو راستہ رسول کریم ﷺ نے امت کے لیے مقرر کیا ہو‘ اسے سنت کہتے ہیں اور اس پر چلنے

والے کو اہل سنت ۔

ح: سنت رسول ؐکا پتا کیسے اور کہاں سے لگتا ہے ؟

م: حدیث پڑھنے سے اور حدیث کے عالموں سے پوچھنے سے۔

ح: حدیث کے تو سب ہی عالم ہوں گے ‘ کیا حنفی ‘ کیا اہل حدیث۔!

م: حدیث کے عالم تو اصل میں اہل حدیث ہی ہوتے ہیں اوروں کو اول تو حدیث آتی نہیں اگر آ جائے تو ان کے پاس چلتی نہیں۔ حدیث و سنت کے

بارے میں کچھ دریافت کرنا ہو تواہل حدیث عالموں سے دریافت کریں‘ فقہ کی کوئی بات پوچھنا ہو تو حنفی عالموں سے پوچھیں۔۔۔ چیز ایجنسی سے ہی اچھی ملتی ہے۔

ح: حدیثیں کون کون سی معتبر ہیں ؟

م: حدیث کی کتابوں کے کئی درجے ہیں۔ بعض اعلیٰ درجے کی‘ بعض درمیانے درجے کی ‘ بعض گھٹیا درجے کی ‘ بعض بے کار سی۔ اعلیٰ درجے کی تین کتابیں ہیں:

بخاری ‘ مسلم‘ مؤطاامام مالک۔ ۔۔ درمیانے درجے میں ترمذی‘ ابوداؤد‘ نسائی اور مسند احمد وغیرہ۔ تیسر ے درجے میں طحاوی‘ طبرانی اور بیھقی وغیرہ کی کتابیں ہیں۔ تیسرے درجے کی کتابوں میں چونکہ ہر طرح کی حدیثیں ہیں اس لیے اعتبار صرف پہلے اور دوسرے درجے کی کتابوں پر ہے۔ چوتھے اور پانچویں درجے کی کتابیں بہت حد تک ساقط الاعتبار ہیں۔

ح: کتابوں کی یہ تقسیم کس نے کی ہے ؟

م: پہلے علما نے ‘ شاہ ولی اﷲ صاحبؒ محدث دہلوی کی ’’حجۃ اﷲ البالغہ‘‘ پڑھ کر دیکھیں‘ آپ کو ان شاء اﷲ سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔

ح: اس تقسیم کو سب فرقے مانتے ہیں؟

م: اہل سنت کہلانے والے سب فرقے مانتے ہیں۔

ح: کیا درجہ اول کی کتابوں کی تمام حدیثیں صحیح ہیں ؟

م: ہاں ‘ قریباً سب صحیح ہیں۔

ح: ہم نے سنا ہے کہ آپ تقلید کو بھی شرک کہتے ہیں حالانکہ تقلید کا شرک سے کیا تعلق؟

م: تعلق کیوں نہیں‘ تقلید اور شرک کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ شرک اگتا ہی تقلید کی سرزمین میں ہے۔ ہر مشرک پہلے مقلد ہوتا ہے پھر مشرک۔

اگر تقلید نہ ہو تو شرک کبھی پیدا نہ ہو۔شرک پیدا ہی تقلید سے ہوتا ہے۔شرک کو اپنی پیدائش کے لیے جس زمین اور فضا کی ضرورت ہے‘ وہ تقلید ہی مہیا کر سکتی ہے۔ تقلید ہمیشہ جاہل‘ بے عقل کرتا ہے اور شرک بھی وہیں پایا جاتا ہے جہاں جہالت اور بے عقلی ہو ۔ ان دونوں کے لیے ایسی فضا کی ضرورت ہے۔ جہاں عقل کا فقدان اور اندھی عقیدت کا زور ہو۔ ان دونوں کی بنیاد کسی کو حد سے زیادہ بڑا اور اس کے مقابلے میں اپنے آپ کو چھوٹے سے چھوٹا سمجھنے پر ہے اور یہی عبادت کا مفہوم ہے۔ عبادت کہتے ہیں دوسرے کو بڑے سے بڑا جان کر اپنے آپ کو اس کے مقابلے میں چھوٹے سے چھوٹا سمجھنا۔ یہی کچھ مقلداپنے امام سے کرتا ہے۔ وہ اپنے امام کو اتنا بڑا سمجھتا ہے کہ خود کواس کے سامنے جانور سمجھتا ہے اور جانوروں کی طرح اس کا قلادہ گلے میں ڈالنے کو اپنی سعادت خیال کرتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اسے اﷲ کا شریک ٹھہرا لیتا ہے۔

ح: اﷲ کا شریک کیسے؟

م: اس طرح کہ اس کی بات کو خدائی حکم سمجھتا ہے۔

ح: یہ شرک اور شریک ٹھہرانا کیسے ہو گیا۔

م: اﷲ کا حق اپنے امام کو جو دیا‘ قرآن مجید میں ہے: (اَمْ لَھُمْ شُرَکٰؤُاشَرَعُوْا لَھُمْ مِنَ الدِّیْنِ مَالَمْ یَاْذَنْم بِہِ اﷲُ) [42:الشوریٰ:21] کیا ان

مشرکوں نے ایسے شریک بنا رکھے ہیں جو ان کے لیے دین میں ایسے مسئلے بناتے ہیں جن کی منظوری اﷲ نے نہیں دی۔اس آیت میں جس کے قول و قیاس کو دین سمجھا جائے اس کو اﷲ نے اپنا شریک قرار دیا ہے۔ اﷲ کے اذن کے بغیر نبی کی بات دین نہیں ہو سکتی چہ جائیکہ عالموں کی آرا کو دین بنایا جائے‘ لیکن مقلد اپنے امام کی بات کو دین سمجھتا ہے ۔ گویا جو حقِ تشریح اﷲ کا تھا وہ اپنے امام کو دیتا ہے۔ سورۃ التوبۃ میں اﷲ نے فرمایا: (اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ) [9:التوبہ:31] یہود و نصاریٰ جب بگڑے جیسے کہ آج کل کے مسلمان بگڑے ہوئے ہیں تو انھوں نے اپنے علما و مشائخ کو رب بنا لیا۔عدیؓ بن حاتم جب مسلمان ہوئے تو انھوں نے پوچھا یارسولؐ اﷲ! ہم نے تو اپنے علما اور مشائخ کو رب نہیں بنایا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم ان کے حلال کردہ کو حلال اور ان کے حرام کردہ کو حرام نہیں سمجھتے تھے۔ یعنی ان کی تجویزوں کو دین نہیں بنا لیتے تھے؟ انھوں نے کہا یہ بات تو تھی‘ آپ نے فرمایا یہی تو رب بنانا ہے ۔۱۲

ح: ہم تو اپنے امام کو رب نہیں بناتے ‘ ہم تو صرف امام مانتے ہیں۔

م: رب تو وہ بھی نہیں کہتے تھے‘ لیکن درجہ ان کو رب کا دیتے تھے۔ اس لیے اﷲ نے اسے رب بنانا قرار دیا ہے۔ نام بدل دینے سے حقیقت نہیں بدل جاتی۔

حقیقت حقیقت ہی رہتی ہے‘ نام خواہ کچھ بھی رکھ دیا جائے۔ آخر آپ امام کیوں بناتے ہیں؟

ح: دین کے مسئلے لینے کے لیے ۔

م: یہی کام تو یہود و نصاریٰ کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت عدیؓ نے مسلمان ہو کر تسلیم کیا۔ کیا ایسی امامت کی اسلام میں گنجائش ہے؟

ح: کیا قرآن مجید میں نہیں ( وَ جَعَلْنٰھُمْ اَئمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا )[21:الانبیاء:73]

م: یہ تو انبیاء کے بارے میں ہے‘ نبی تو امام ہو سکتا ہے بلکہ امام ہوتا ہے کیونکہ اسے خداامام بناتا ہے‘ نبی کے سوا کوئی امام نہیں ہو سکتا۔

ح: آپ کہتے ہیں نبی کے سوا امام نہیں ہو سکتا حالانکہ اسلام میں بہت بڑے بڑے ائمہ دین گزرے ہیں۔

م: ائمہ دین سے مراد یہ ہے کہ وہ دینی علوم کے بڑے عالم تھے‘ نہ کہ قابل اطاعت تھے‘ جن کو دین کے مسئلے بنانے اور دینی پیروی کرانے کا حق ہو‘

کہ ان کے نام پر تقلیدی مذہب چلائے جائیں۔ اس قسم کی امامت کا تصور اسلام میں بالکل نہیں ہے۔ سب سے پہلے یہ عقیدہ شیعہ نے گھڑا‘ اہل سنت نے یہ عقیدہ ان سے لیا‘ شیعہ نے یہ عقیدہ ‘ عقیدہ رسالت کو کمزور کرنے کے لیے گھڑا تھا۔ ان کے ہاں پیغمبر اور امام میں کوئی فرق نہیں‘ دونوں معصوم ‘ دونوں ایک ہی چشمے او رایک ہی ڈول سے پانی لینے والے‘ جیسا کہ نہج البلاغہ میں ہے: ’’لِاَنَّ مُسْتَقَاھُمَا مِنْ قَلِیْبٍ وَ مَفْرَغَھُمَا مِنْ ذَنُوْبٍ‘‘ مقلد خواہ سنی ہو یا شیعہ امامت کا تصور قریباً ایک ہی ہے۔

ح: شیعہ تو امام کو معصوم کہتے ہیں‘ ہم اپنے امام کو معصوم تو نہیں کہتے۔

م: زبان سے بے شک نہ کہیں ‘ لیکن سمجھتے معصوم ہی ہیں‘ جب ہی تو ان کے نام پر مذہب بنا کر حنفی کہلاتے ہیں‘ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ اسلام میں

سوائے پیغمبر کے کوئی امام نہیں ہو سکتا‘ چہ جائیکہ کسی کو امام اعظم بنایا جائے۔

ح: امام تو ہم نے اس لیے بنایا ہے کہ قیامت کے روز بلایا ہی اماموں کے نام پر جائے گا۔ جیسا کہ آیت: ( یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِھِمْ)[17:الاسراء:71] میں ہے

م: اس آیت میں امام سے مراد نامہ اعمال ہے۔ آپ کے بنائے ہوئے امام نہیں۔ چنانچہ آگے وضاحت موجود ہے:

( فَمَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہ‘ بِیَمِیْنِہ فَاُولئک یَقْرَءُ وْنَ کِتٰبَھُمْ)[17 :الاسراء:71] ہم تمام لوگوں کو ان کے نامہ اعمال کے ساتھ بلائیں گے ‘ پھر جس کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دے دیا گیا وہ اپنے نامہ اعمال کو پڑھے گا (اور خوش ہوگا) ظلم کسی پر نہ ہوگا۔لیکن اگر امام سے مراد امام ہی لیا جائے تو وہ امام مراد نہیں جو آپ نے بنا رکھے ہیں‘ بلکہ امام سے مراد وہ امام ہیں جن کو اﷲ تعالیٰ نے امام بنایا ہے۔ یعنی انبیاء علیھم السلام ۔۔۔قیامت کے روز امتوں کو ان کے انبیاء کے نام پر بلایاجائے گا۔ اے فلاں نبی کی امت! آؤ۔۔۔ اے فلاں نبی کی امت! آؤ۔۔۔ جیسا کہ قبر میں ((مَنْ نَبِیِّکَ ))۱۳ے اپنے اپنے نبی کے بارے میں سوال ہوتا ہے۔پھر خوش قسمت ہوں گے وہ لوگ جنھوں نے اپنے امام بنا کر ان کی تقلید نہیں کی‘ بلکہ نبیوں کی پیروی کی۔ وہ اپنے نبیوں کے ساتھ جنت میں چلے جائیں گے ۔ چنانچہ ابن کثیر میں ہے:’’ھٰذَا اَکْبَرُ شَرْفٍ لِاَصْحٰبِ الْحَدِیْثِ لِاَنَّ اِمَامَھُمَ النَّبِیُّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ ۱۴ ’’اہل حدیث کے لیے یہ بہت بڑا شرف ہے کہ ان کے امام صرف نبی ﷺ ہیں۔‘‘ وہ ان کے ساتھ جنت میں چلے جائیں گے اور اماموں کے مقلدین کھڑے رہ جائیں گے۔ پھر وہ اپنے بنائے ہوئے اماموں کے ساتھ دوزخ میں جائیں گے۔

ح: کیا ہمارے امام دوزخ میں جائیں گے؟

م: آپ کے امام ہیں کون ؟

ح: ہمارے امام ‘ امام ابوحنیفہ ؒہیں۔

م: وہ آپ کے امام کیسے ؟ کیا اﷲ نے ان کو امام بنایا ہے؟

ح: اﷲ نے تو نہیں بنایا۔

م: پھر کیا خود انھوں نے کہا تھا کہ میں تمھارا امام ہوں‘ میری تقلید کرنا؟

ح: انھوں نے تو نہیں کہا۔

م: پھر وہ آپ لوگوں کے امام کیسے ہو گئے؟

ح: ہم جو ان کو مانتے ہیں اور اپنا امام سمجھتے ہیں۔

م: آپ کے سمجھنے اور کہنے سے کیا ہوتا ہے۔ جب تک امام اقتداء کی نیت نہ کرے وہ امام کیسے بن جائے گا۔ اگر ایسے امام بننے لگیں تو آپ کا کیا خیال ہے

امام ابوحنیفہ ؒجن کو دیوبندی اور بریلوی دونوں امام مانتے ہیں‘ دیوبندیوں اور بریلویوں میں سے کس کو لے کر جنت میں جائیں گے؟ دیوبندی اور بریلوی دونوں تو جنت میں نہیں جا سکتے۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں ۔ اگر بریلوی جنت میں گئے تو دیوبندی دوزخ میں جائیں گے۔ امام ابوحنیفہ ؒکس کے ساتھ ہوں گے؟جب کہ وہ دونوں کے امام ہیں۔ ایسے ہی شیعہ اپنے اماموں کے ساتھ جنت میں چلے گئے تو پھر سنی اپنے اماموں کے ساتھ کہاں جائیں گے۔ اگر سنی اپنے اماموں کے ساتھ جنت میں چلے گئے تو شیعہ کہاں جائیں گے۔ جنت میں دونوں تو جا نہیں سکتے‘ کیونکہ ان میں بعد المشرقین ہے۔ اب آپ ہی بتائیں آپ کے اصول پر شیعہ امام دوزخ میں جائیں گے یا سنی ؟ حالانکہ امام دونوں فرقوں کے نیک اور صالح تھے اور وہ ان شاء اﷲ ضرور جنت میں جائیں گے۔

ح: بات تو آپ کی ٹھیک ہے‘ یہ اماموں کا مسئلہ ہے تو یقیناًبہت بڑا چکر۔

م: ایسا ہی چکر وہ ہے جس کو ہمارے مقلدین اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ ۱۵پڑھ کر دیا کرتے ہیں کہ ہم اپنے اماموں اور اولیا کے ساتھ ہوں گے کیونکہ ہمیں ان

سے محبت ہے اور اہل حدیث چونکہ کسی کو مانتے نہیں ‘ اس لیے ان کو کسی کا بھی ساتھ نصیب نہیں ہوگا۔ ہم ان سے پوچھتے ہیں اگر محبت کا معیار یہی ہے جو آپ نے سمجھا ہے تو کیا موجودہ عیسائی جو عیسیٰ علیہ السلام کی محبت کے دعوے دار ہیں عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جنت میں جائیں گے؟ اگر نہیں اور یقیناًنہیں ‘ کیونکہ ان کی محبت غلط ہے‘ تو تبرائی شیعہ حضرت حسینؓ کو اور گیارہویں دینے والے حضرت جیلانی کو وہاں کیسے مل لیں گے۔ اس لیے کہ ان کی محبت غلط ہے اور پھر محبت بھی وہ فائدہ دیتی ہے جو دونوں طرف سے ہو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کبھی کسی ایسے سے محبت نہیں رکھیں گے جو آنحضرت ﷺ کے آجانے پر ان کی اتباع نہ کرے۔ ایسے ہی حضرت حسینؓ ‘ شاہ جیلانی اور دیگر ائمہ و اولیا کبھی کسی ایسے سے محبت نہیں رکھ سکتے جو حضور ﷺ کی پیروی نہ کرے بلکہ شرک و بدعت کرے اور اپنی طرف سے امام بنا کر ان کی تقلید کرے۔ وہ سب جانتے ہیں کہ اطاعت صرف اﷲ کے حکم کی ہے۔ اس لیے وہ اپنی پیروی کیسے کروا سکتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے ( اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لاَ تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٓ اَوْلِیَآءَ )[7:الاعراف:3] ’’اس کے پیچھے چلو جو اﷲ نے تمھاری طرف اتار اہے۔ اس کا حکم مانو‘ اس کے حکم کو چھوڑ کر اولیا کے پیچھے نہ جاؤ۔‘‘ اولیا سے مراد یہاں وہ ہستیاں ہیں جن کو لوگ خود تجویز کرتے ہیں اور اپنے لیے ذریعہ نجات سمجھ کر سہارا بناتے ہیں‘ حالانکہ سوائے پیغمبر کی پیروی کے اور کوئی ذریعہ نجات نہیں۔ دنیا میں جنتے شرک و بدعت کرنے والے ہیں‘ حقیقت میں ان کا پیر‘ ان کا امام اور ان کا ولی صرف شیطان ہے۔ وہ نام اﷲ والوں کا اور اماموں کا لیتے ہیں‘ عبادت و پیروی شیطان کی کرتے ہیں۔ اس لیے قرآن شیطان کی عبادت و پیروی سے بار بار منع کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:(لاَ تَعْبُدُوْا الشَّیْطٰنَ)[36:یٰسٓ:60] ’’شیطان کی عبادت نہ کرو۔‘‘ ( وَلاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ)[2:البقرۃ:168] ’’ شیطان کی پیروی نہ کرو‘‘ دنیا میں کون سا ایسا ہے جو شیطان کی پیروی کرتا ہو۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد خود ساختہ ائمہ واولیا ہی ہیں جن کے نام کا دھوکادے کر شیطان اپنا کام کرتا ہے۔ قیامت کے روز جب اﷲ تعالیٰ دوزخیوں کو دوزخ میں ڈالنے کے لیے علیحدہ کریں گے تو فرمائیں گے۔ ( اَلَمْ اَعْھَدْ اِلَیْکُمْ یٰبَنِیْ اٰدَمَ اَنْ لاَّ تَعْبُدُوْا الشَّیْطٰنَ ج اِنَّہ‘ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ O وَّ اَنِ اعْبُدُوْنِیْ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ O وَلَقَدْ اَضَلَّ مِنْکُمْ جِبِلاًّ کَثِیْرًا ط اَفَلَمْ تَکُوْنُوْا تَعْقِلُوْنَ)[36:یس:62-60 ]یعنی اے انسانو! کیا میں نے تمھیں نہیں بتایا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ تمھارا بڑا دشمن ہے۔ عبادت میری کرنا‘ یہی سیدھا راستہ ہے‘ لیکن تم نے پرواہ نہ کی۔ اس نے تم میں سے کتنی بھاری تعداد کو گمراہ کرلیا ہے ۔ کیا تم بے عقل تھے جو تمھیں پتا نہیں لگا اور یہ ہوتا یوں ہے کہ جب شیطان کسی کو نبی کی پیروی میں ذرا نرم دیکھتا ہے تو فوراً اس کے شکار کی کوشش کرتا ہے ۔ اپنے بڑے بڑے انسانی چیلوں کے ذریعہ نبی کی جگہ پیروی کے لیے ان بزرگوں کے نام تجویز کرتا ہے جن کی دنیامیں مقبولیت و شہرت ہوتی ہے۔ ان کے نام پر شرک و بدعت کے بڑے بڑے سلسلے جاری کرتاہے۔ تصور ان بزرگوں کا پیش کرتا ہے اور پوجا پاٹ اپنی کراتا ہے۔ جہلاان بزرگوں کے ناموں کی وجہ سے اس کے دھوکے میں آ جاتے ہیں اور اس کی پیروی کرنے لگ جاتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ ہم کسی الٹی راہ پر لگ گئے ہیں بلکہ اس الٹی راہ کو ہی راہ راست سمجھتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا : (اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ ھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا)[18:الکہف: 104]یعنی شیطان کے گمراہ کردہ لوگ کام غلط کرتے ہیں‘ لیکن جہالت کی وجہ سے سمجھتے یہ ہیں کہ ہم بہت اچھا کر رہے ہیں اور یہ کتنا بڑا دھوکا ہے ۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے شیطان کا نام ہی غرور یعنی دھوکا دینے والا رکھا ہے۔ اور لوگوں کو اس کے دھوکے سے بار بار خبردار کیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:( وَ لاَ یَغُرَّنَّکُمْ بِاﷲِ الْغَرُوْرُO اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا ط اِنَّمَا یَدْعُوْا حِذْبَہ‘ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ)[35:فاطر:5-6 ] ہوشیار رہنا‘ دھوکا باز تم کو دھوکا دے کر خدا سے دور نہ کردے۔ یہ دھوکا باز شیطان تمھارا دشمن ہے‘ اسے دشمن ہی سمجھنا۔ وہ اپنی پارٹی کو اس لیے باطل کی دعوت دیتا ہے یہ کہ ان کو دوزخی بنا کر دشمنی نکالے اوراس کی صورت یہی ہوتی ہے کہ ائمہ اور اولیا کے نام لے لے کر ان کے ذہنوں میں ایسا تصور پیدا کرتا ہے کہ وہ ان کی عبادت شروع کر دیتے ہیں۔ یہی ان کے امام اور اولیا ہیں جن کا تصور ان کے ذہن میں ہوتا ہے۔ خارج میں بجز شیطان کے ان کاوجود نہیں ہوتا۔ رہ گئے اصلی بزرگ جن کے نام لے کر شیطان اپنی عبادت کرواتا ہے ان کو پتا تک نہیں ہوتا کہ ان کے ماننے والے کون ہیں اور وہ کیا کرتے ہیں۔ وہ ان کی طرف سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے: ( وَھُمْ عَنْ دُعَآءِھِمْ غَافِلُوْنَ)[46:الاحقاف:5] ( مَا کُنْتُمْ اِیَّانَا تَعْبُدُوْنَ)[10:یونس:28] (وَ یَکُوْنُوْنَ عَلَیْھِمْ ضِدًّا)[19:مریم: 82](وَکُانُوْا بِعِبَادَتِھِمْ کٰفِرِیْنَ) [46:الاحقاف:6] (اِنْ کُنَّا عَنْ عِبَادَتِکُمْ لَغَافِلِیْنَ)[10:یونس:29] جن کو تم پکارتے ہو ‘ جن کی تم عبادت کرتے ہو‘ وہ تمھاری ان حرکتوں سے بالکل بے خبر ہیں۔ قیامت کے دن وہ تمھارے مخالف ہو ں گے۔ چنانچہ عیسٰی علیہ السلام سے اﷲ تعالیٰ پوچھیں گے: ( ءَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَ اُمِّیَ اِلٰھَیْنِ مِنْ دُوْنِ اﷲِ ) [5:المائدہ:116]اے عیسٰی! عیسائی جو تیری اور تیری ماں کی عبادت کرتے رہے ہیں تو کیا تو نے ان سے کہا تھا کہ ایسا کرنا ۔ وہ صاف انکار کر دیں گے کہ ہم نے ان سے نہیں کہا کہ ہماری عبادت کرنا۔ یہ سب کچھ اپنی مرضی سے کرتے رہے ہیں۔ لہذا گمراہ ہونے والوں کے امام و اولیا یہ نہیں جن کاذکر کتابوں میں ہے بلکہ وہ شیاطین ہیں جو ان کے ذہنوں میں ہیں ‘ جو ان سے یہ کام کرواتے ہیں۔ وہی ان کے ساتھ دوزخ میں جائیں گے۔ اس لیے تقلید کا سلسلہ سراسرا گمراہی کا سلسلہ ہے۔ اس سے بالکل بچنا چاہیے۔ اب آپ دیکھ لیں کہ آپ کو سنت رسولؐﷺ چاہیے یا سنت امام ۔ اگر سنت رسولؐ چاہیے تو وہ حدیث رسولؐ سے ملے گی اور حدیث رسول ؐاہل حدیث سے ملے گی۔ اگر سنت امام چاہیے تو وہ فقہ حنفی سے ملے گی اور فقہ حنفی حنفیوں سے ملے گی۔

ح: سنت رسولؐ کی ہوتی ہے نہ کہ امام کی۔

م: اگر امام کی سنت نہ ہو تو آپ حنفی کیوں بنیں‘ آخر حنفی کسے کہتے ہیں ؟

ح: حنفی وہ ہوتا ہے جو فقہ حنفی پر چلے۔

م: فقہ حنفی کسے کہتے ہیں ؟

ح: امام ابوحنیفہ ؒکے مسلک کو۔

م: مسلک سے کیا مراد ہے ؟

ح: مسلک طریقے کو کہتے ہیں۔

م: سنت بھی تو طریقے کو ہی کہتے ہیں ۔ جب ہم کہتے ہیں یہ آنحضرت ﷺ کی سنت ہے تواس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ان کا طریقہ ہے ۔ اس طریقے

سے انھوں نے یہ کام کیا تھا یا کرنے کو کہا تھا۔ لہذا جس کے طریقے پر آپ چلتے ہیں گویااس کی سنت پر آپ عمل کرتے ہیں۔ کہیے ! یہ ٹھیک ہے یا نہیں؟

ح: یہ بالکل ٹھیک ہے‘ یہ بات میری سمجھ میں آ گئی ہے۔

م: اسی لیے تو ہم کہتے ہیں حنفی امام ابوحنیفہ ؒکے طریقے پر چلتا ہے اور اصلی اہل سنت یعنی اہل حدیث رسول اﷲﷺ کے طریقہ پر۔

ح: لیکن امام ابوحنیفہ ؒکا طریقہ کوئی علیحدہ تو نہیں ان کا طریقہ بھی تو و ہی ہے جو رسول اﷲ ﷺ کا ہے۔

م: طریقہ وہی ہو یا مختلف حنفی کے پیش نظر تو طریقہ حنفی ہی ہوتا ہے۔ وہ تو حنفی طریقے پر ہی چلتا ہے۔ سنت رسولؐ کے موافق یا مخالف اگر مخالف ہو تو اسے

ڈر نہیں کہ سنت رسول ؐکی مخالفت ہوتی ہے۔ا گر موافق ہو تو اسے خوشی نہیں کہ میں نے سنت رسولؐ پر عمل کیا ہے۔ حنفی اگر شروع میں رفع الیدین کرتا ہے تو اس لیے نہیں کہ یہ سنتِ رسولؐ ہے ‘ وہ اس لیے کرتا ہے کہ حنفی طریقہ نماز یہی ہے۔ وہ رکوع کو جاتے اور اٹھتے رفع الیدین نہیں کرتا ‘ اس لیے نہیں کہ یہ سنت رسول ؐنہیں بلکہ اس لیے کہ حنفی نمازمیں رفع الیدین نہیں۔ جو رفع الیدین حنفی مذہب میں نہیں وہ خواہ سنت رسولؐ ہو وہ اسے گھوڑے کی دم مارنے سے تشبیہ دیتا ہے یا مکھیاں مارنے سے تعبیر کرتا ہے جو اس کے مذہب میں ہے خواہ وہ سنت رسولؐ نہ ہو وہ اس پر جان دیتا ہے جیسے قنوت کا رفع الیدین۔

ح: حقیقت حال یہی ہے ‘ ہمیں بالکل یہ خیال نہیں ہوتا کہ ہمارا یہ مسئلہ سنت رسولؐ کے مطابق ہے یا مخالف‘ ہمیں تو یہ یاد ہوتا ہے کہ ہم حنفی ہیں اور

ہمیں اپنی فقہ پر چلنا ہے۔ ہمیں کوئی صحیح سے صحیح حدیث بھی دکھائے۔ اگر چہ ہم اس حدیث کا انکار نہیں کرتے ‘ لیکن ہم اس حدیث پر عمل بھی نہیں کرتے۔ ہمارے دل میں یہ ہوتا ہے کہ یا یہ حدیث ٹھیک نہیں یا اس کا مطلب وہ نہیں جو ظاہر الفاظ سے نکلتا ہے یا یہ منسوخ ہے یا کوئی اور بات ہے۔ بہر کیف جب ہمارے امام نے اس حدیث پر عمل نہیں کیا تو ہم کیوں کریں۔ ہم تو اپنے امام کے مذہب پر چلیں گے۔

م: جب ہی تو ہم کہتے ہیں حنفی کا محمد رسول اﷲ پڑھنا اہل سنت کا دعویٰ کرنا ٹھیک نہیں ۔ جب وہ سنت رسولؐ پر چلتا نہیں‘ اپنے امام کی سنت پرچلتا ہے تو

اسے زیب نہیں دیتا کہ وہ محمد رسول اﷲ بھی ساتھ پڑھے اور اہل سنت ہونے کا دعویٰ بھی کرے ۔ خدا کی قسم جس پابندی کے ساتھ آج حنفی اپنے امام کی تقلید کرتا ہے اگر وہ اسی پابندی کے ساتھ اتباع رسولؐ کرے تو اس کی نجات ہو جائے۔ لیکن اس حال میں وہ نجات کی کیا توقع کر سکتا ہے ۔ آپ تو امام ابوحنیفہؒ کی تقلید کرتے ہیں اگر آپ موسیٰ علیہ السلام کی تقلید بھی کریں تو بھی نجات نہیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:  ((لَوْ بَدَا لَکُمْ مُوْسٰی فَاتَّبِعْتُمُوْہُ وَ تَرَکْتُمُوْنِیْ لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ السَّبِیْلِ )) ۱۶ یعنی اگر آج موسیٰ علیہ السلام آجائیں اور تم ان کے پیچھے لگ جاؤ تو گمراہ ہو جاؤ گے۔ آپ اب سوچ لیں کہاں موسیٰ علیہ السلام اور کہاں امام ابوحنیفہؒ ۔۔۔ جب حضور ﷺ کی بعثت کے بعد موسیٰ علیہ السلام کی پیروی میں نجات نہیں تو امام ابوحنیفہؒ کی تقلید میں کیسے نجات ہوسکتی ہے؟ ہمیں امام ابوحنیفہؒ سے کوئی کد نہیں۔ ہمیں ان سے کوئی حسد نہیں ‘ ہمارا کوئی امام نہیں کہ ہم آپ کو امام ابوحنیفہ ؒسے توڑ کر کسی اور سے جوڑ رہے ہوں۔ ہم تو آپ کو رسول اﷲ ﷺ کی طرف دعوت دے رہے ہیں جن کا آپ کلمہ پڑھتے ہیں ‘ جن کی پیروی میں نجات ہے اور اس سے باہر نجات نہیں۔ سوچ لیں ‘ معاملہ نجات کا ہے ۔ اگر اسی حنفیت پر آپ کا خاتمہ ہو گیاتو معاملہ بڑا خطرناک ہے۔

ھٰذَا بَلاَغٌ لِّلنَّاسِ وَ لِیُنْذَرُوْا بِہ وَ لِیَعْلَمُوْا اَنَّمَا ھُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّ لِیَذَّکَّرَ اُوالُوالْاَلْبَابِ [14:ابراہیم 52]

*****************************************************************

۱- (بخاری‘کتاب الفرائض: باب من ادعی الی غیر ابیہ ‘ رقم 6767:۔مسلم‘ کتاب الایمان: باب بیان حال ایمان من رغب عن ابیہ و ھو یعلم ‘ رقم 113۔مشکوۃ رقم 3315: بلفظ فقد کفر)

۲- (بخاری: کتاب الفرائض‘ باب: من ادعیٰ الی غیر ابیہ‘ رقم6766 ۔۔ مسلم ‘ کتاب الایمان ‘باب: بیان حال من رغب عن ابیہ و ھو یعلم‘ ص 491 رقم الحدیث115-114:۔ابن ماجۃ ‘ کتاب الحدود‘ باب من ادعیٰ غیر ابیہ او تولیٰ غیر موالیہ ‘ رقم 2610 ۔۔ ترمذی ‘ کتاب الولاء والھبۃ‘ باب ما جاء فی من تولی غیر موالیہ او ادعی الی غیر ابیہ‘ رقم 2128: ۔۔ مشکوۃ ‘کتاب النکاح‘ باب اللعان رقم (3314:

۳- (ابن ماجۃ فی اقامۃ الصلوات‘ باب ماجاء فی الوتر ص 2545رقم الحدیث1170 نسائی ‘کتاب قیام اللیل و تطوع النھار‘باب الامربالوتر‘ص2199 رقم الحدیث1676 جامع الترمذی‘ ابواب الوتر‘ باب ماجاء فان الوتر لیس بحتم‘ ص 1688 رقم الحدیث (453:

۴- (ہدایۃ: کتاب الصلوۃ‘ باب الحدث فی الصلوۃ ص (130:

۵- (ہدایہ :کتاب المفقود ص (623:

۶- (ہدایہ: کتاب الصلوۃ ‘ باب المواقیت )

۷- (ہدایہ کتاب الصلوۃ ‘ باب الصلوۃ الجمعہ )

۸-(ہدایہ کتاب الطہارۃ ‘ باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء )

۹-ہدایہ ‘ کتاب الطہارۃ ‘ باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء و ما لا یجوز بہ ج 1ص 38

۱۰-منیۃ المصلی ص 60 (جھوٹے پانیوں کا بیان (

۱۱-( غنیۃ الطالبین صفحہ 294)

۱۲- (ترمذی فی تفسیر القرآن ‘ باب من سورۃ التوبۃ‘ رقم : 3095‘ التاریخ الکبیر للامام بخاری 106/7)

۱۳- (ابوداؤد: کتاب السنۃ‘ باب المسألۃ فی القبر و عذاب القبر‘ رقم (4753:

۱۴- ( ابن کثیر 58/3 ‘ الاسراء )

۱۵- (بخاری: کتاب الادب‘ باب علامۃ الحب فی اﷲ رقم 6168:۔۔۔ مسلم :کتاب البر ‘ باب المرء مع من احب رقم 161:)

۱۶- (مشکوۃ :کتاب الایمان‘ باب الاعتصام بالکتٰب و السنۃ‘ رقم 194 :۔۔۔ دارمی 116-115/1 ۔۔۔ مسند احمد 387/3 رقم : 14736 )

:

]