مفتی صاحب کی پریس کانفرنس
کا جواب
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
پاکستان کیسے معرض وجود
میں آیا اور کیا اس کا حشر ہوا سب جانتے ہیں۔بقیہ پاکستان جن حالات سے دوچار ہے وہ
بھی کسی سے مخفی نہیں۔ دیکھنے اور کرنے کی بات یہ ہے کہ گزشتہ کے علل واسباب کیا
ہیں اور آئندہ کا علاج کیا ہے ؟
پاکستان کا بچاؤ اسلام
کے احیاء اور نفاذ میں ہے۔ یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان مختلف زبانیں
بولنے والی مختلف قوموں اور علاقوں کا ملک ہے۔ اس کو ایک سلسلے میں منسلک کرنے اور
رکھنے کے لیے ‘ سوائے اسلام کے او ر کوئی رشتہ تھا اور نہ ہے۔ اسلام کے رشتے ہی نے
ایسے مختلف عناصر کو جوڑا تھا ۔ جب وہ رشتہ ٹوٹ گیا تو تسبیح کے دانوں کی طرح ان
کا منتشر ہو جانا ایک قدرتی امر تھا۔ اسلامی رشتے سے ہی پاکستان بنا تھا ۔ جب وہ
رشتہ کمزور ہو گیا تو ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو گیا ۔ یہی قومیں تھیں‘ جنھوں نے مل
کر پاکستان بنایا تھا اور اب وہی قومیں ہیں جو مختلف عصبیتوں کا شکار ہو کر
پاکستان کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ اس کا واحد سبب اسلام کا نافذ نہ ہونا اور اس کی
جگہ جمہوریت کا رواج پانا ہے۔ مختلف حکومتیں آئیں ‘ ہر ایک نے نظام اسلام اور
اسلام زندہ باد کے نعرے لگائے ‘ لیکن اسلام کو نافذ نہ کیا۔ نہ ہی اسلامی رشتے کو
مضبوط کیا‘ جس سے پاکستان کا استحکام تھا ‘ جمہوریت کو مضبوط کرتے رہے ‘ اس کے تحت
الیکشن کرواتے رہے‘ دستور ساز اسمبلیاں بنا کر باری باری حکومتیں کرتے رہے ‘ حتی
کہ ادھر بھٹو آ گیا ‘ ادھر مجیب ۔۔۔ اور مشرقی پاکستان چلا گیا۔ اگر اسلامی رشتے
کو مضبوط کیا جاتا تواسلامی اخوت پیدا ہوتی‘ محبت بڑھتی‘ اختلافات کم ہوتے‘
عصبیتیں کم ہوتیں نتیجتاً پاکستان مضبوط ہوتا‘ لیکن سب کچھ تب ہوتا جب اسلام کا
احیا ہوتا ۔ تبلیغ و تعلیم سے اس کی تجدید ہوتی۔ لیکن جمہوریت ایسا کہاں کرنے دیتی
ہے۔
جمہوریت پاکستان کی بیماری ہے اور اسلام اس کی صحت و سلامتی
جمہوریت ایک ایسا نظام
ہے جس میں خدا اور مذہب کا کوئی تصور نہیں۔ اس لیے اخلاقی اقدار کا اس نظام میں
کوئی نام نہیں۔ جب کوئی نظام اخلاقی اقدار سے عاری ہو تواس میں خود غرضی ‘ موقع
پرستی ‘ بددیانتی۔ مال و جا ہ کی طلب اور اقتدار کی ہوس جیسی مکروہ چیزوں کا جنم
لینا قدرتی بات ہے اور یہی چیزیں ہیں جو تشتت و افتراق کا سبب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ
جب سے مسلمانوں میں یہ جمہورت آئی ہے مسلمانوں میں وحدت ملّی کا فقدان ہے۔ بلکہ
پوری قوم انتشار کے گرداب میں مبتلا ہے۔ تیس سال کے تجربے سے یہ بات ثابت ہو گئی
ہے کہ پاکستان کی بیماری یہ جمہوریت ہے اور اس کی صحت وسلامتی اسلام ہے۔ جب تک
پاکستان میں یہ جمہوریت ہے ‘ اسلام نہیں آ سکتا ‘ کیوں کہ پہلے بیماری دور ہو پھر
صحت آئے۔ پہلے جمہوریت جائے تو پھر اسلام آئے۔
مغربی جمہوریت کو اسلامی کہنا شیطانی اثر ہے
شیطان کی یہ خصلت ہے کہ
وہ برائی کو خوب صورت کرکے پیش کرتا ہے ۔ یہ جمہوریت جو کفر ہے شیطان اسے مسلمانوں
کے سامنے اسلامی کہہ کر پیش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ
جمہوریت وہ بری ہے جو مغرب میں ہے پاکستان میں جہاں سب مسلمان ہیں ‘ جمہوریت
اسلامی ہے حال آنکہ یہ بہت بڑا دھوکا ہے۔ جمہوریت ایک ہی نظام ہے مغرب میں ہو یا
مشرق میں۔ مغرب میں جمہوریت سے مراد عوام کی حکومت ہے ‘ پاکستان میں بھی جمہوریت
سے مراد عوام کی حکومت ہے۔ مغرب میں جمہوری الیکشن ہوتے ہیں جو عوام کی حکومت کا
ثبوت ہیں۔ پاکستان میں بھی جمہوری الیکشن ہوتے ہیں جو عوام کی حکومت کا ثبوت ہیں۔
جمہوریت کیوں کفر ہے
جمہوریت جو کفر ہے وہ
اس وجہ سے کہ اس میں حکومت کا حق بجائے اﷲ کے عوام کو حاصل ہوتا ہے۔ جمہوریت اس
وجہ سے کفر نہیں کہ عوام جو حکومت کرتے ہیں وہ کافر ہوتے ہیں۔ جمہوریت ‘ جمہوریت
ہے عوام کافر ہو یا مسلمان۔ جیسا زنا زنا ہے‘ کرنے والا کافر ہو یا مسلمان۔ یہ
نہیں کہ کافر کرے تو زنا اور مسلمان کرے تو نکاح۔ جب زنا کہتے ہی مرد و عورت کے
ناجائز اور غیرقانونی تعلق کو ہیں تو یہ تعلق جہاں بھی ہوگا زنا ہوگا اور حرام
ہوگا۔ یہ نہیں کہ اگر زنا مسلمانوں میں ہو تو حلال ہو گا ‘ کافروں میں ہو تو حرام
ہوگا۔ ایسے ہی جمہوریت مسلمانوں میں ہو یا کافروں میں ‘ جب تک جمہوریت ہے کفر ہے۔
کیوں کہ جمہوریت کہتے ہی عوام کی حکومت کو ہیں۔
حکومت کا حق اﷲ کے سوا
کسی کو دینا شرک و کفر ہے
حکومت اﷲ کے سوا کسی کی
نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے :
( وَ لاَ یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖ
اَحَدًا)[18:الکہف:26]
اﷲ حکومت میں کسی کو
شریک نہیں کرتا۔
عوام تو درکنا ر اسلام
حکومت کا حق کسی نبی کو بھی نہیں دیتا۔چنانچہ حضور ﷺ سے اﷲ فرماتا ہے: ( وَاتَّبِعْ مَا یُوْحٰی اِلَیْکَ )[10:یونس:109] تو وحی کا پابند رہ۔(وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَ لاَ تَتِّبِعْ
اَھْوَآءَ ھُمْ وَ قُلْ اٰمَنْتُ بِمَا اَنْزَلَ اﷲُ مِنْ کِتٰبٍ)[42:الشوری:15]اے نبی ﷺ اﷲ کے حکم کے مطابق زندگی گزار ‘ لوگوں
کے پیچھے نہ جا (جمہوریت کی راہ نہ چل ) اور لوگوں کو بتا دے کہ میں تو اﷲ کی کتاب
کو ہی مانتا ہوں جو اس نے اتاری ہے۔ پھر فرمایا:( فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَا اَنَزَلَ اﷲُ وَ لاَ تَتِّبِعْ اَھْوَ
اءَ ھُمْ عَمَّا جَاءَ کَ مِنَ الْحَقِّ )[5:المائدہ:48]لوگوں میں اﷲ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق
فیصلہ کر۔ اﷲ کو چھوڑ کر لوگوں کے پیچھے نہ لگ ‘ یعنی جمہوریت کے پیچھے نہ جا۔
قرآن مجید میں تو اﷲ تعالیٰ نے یہاں تک فرمایا ہے( وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اﷲُ
فَاُولٰءِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ )[5:المائدہ:44] جو اﷲ کے قانون کو نہ
چلائے وہ کافر ہے۔ جب اﷲ کے قانون کو جاری نہ کرنے سے آدمی کافر ہو جاتا ہے جو
اپنا قانون بنا کر چلائے وہ کافر بلکہ اکفر کیوں نہ ہوگا۔ اسی لیے تو جمہوریت کفر
ہے کہ اس نظام میں الیکشنوں سے جو اسمبلیاں بنتی ہیں ان کاکام ہی قانون بنانا ہوتا
ہے۔
الیکشن حرام ہیں
جب جمہوریت کا نظام
صریحا کفر ہے‘ کیوں کہ اس نظام میں حکومت عوام کی ہوتی ہے ‘ وہی دستور و قانون
بناتے ہیں تو اس نظام کے اعمال بھی کفر کے اعمال ہوں گے اور حرام ہوں گے۔ چنانچہ
الیکشن جو ایک جمہوری عمل ہے بالکل حرام ہے۔ اس عمل سے عوام کی حکومت کا حق ثابت
کیا جاتا ہے۔
اعتراض کا جواب
بعض لوگ یہ بھی اعتراض
کرتے ہیں کہ اگر الیکشن حرام ہیں تو یہ حرام کہنے والے پہلے کہاں تھے؟ آج تک تو ان
لوگوں نے کبھی حرام کہا ہی نہیں ۔ حال آنکہ اتنے الیکشن ہوئے۔ اب یہ حرام کہتے ہیں
۔ ان جاہلوں سے کوئی یہ پوچھے کہ اب کیا یہ کہنا زائد المیعاد ہوگیا ہے۔ جواب
الیکشنوں کو حرام کہنا جائز نہیں ہے۔ اگر کسی حرام کو کچھ عرصہ تک کوئی حرام نہ
کہے تو کیا وہ حرام نہیں ہوتا۔ ایمان والوں کو دیکھنا یہ چاہیے کہ یہ چیز فی
الواقع حرام ہے کہ نہیں یہ نہ کہے کہ آپ نے پہلے جو حرام نہیں کہا تو اب میں حرام
نہیں مانتا۔ ایسے حیلے بہانے کرنا بنی اسرائیل کی خصلت تو ہو سکتی ہے ایک ایمان
والے کی عادت نہیں ہو سکتی۔ ایمان والے کے لیے حرام حرام ہے۔جب بھی معلوم ہو جائے۔
الیکشنوں کو پہلے حرام نہیں کہا گیا‘ تو اس لیے نہیں کہ وہ پہلے حرام نہ تھے ‘
بلکہ اس لیے کہ پہلے یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی۔ بلکہ پہلے یہ کہنا عبث تھا۔
الیکشنوں کو حرام کہنے کی ضرورت اب اس لیے پیش آئی کہ اسلام کے نفاذ کا مسئلہ چھڑا
ہی اب ہے۔ آج تک نہ اسلام کے نفاذ کا مسئلہ چھڑا ‘ نہ الیکشنوں کو ناجائز کہنے کی
نوبت آئی۔ بننے کو تو پاکستان بن گیا لیکن نظام وہی کفر کا رہا۔ الیکشن ہوتے رہے ‘
جائز و ناجائز کا سوال پیدا نہ ہوا۔ کفر کے نظام میں جائز و ناجائز کا سوال بھی
کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔ اب جب ضیاء آیا ‘ نظام اسلام کا چرچا ہوا۔ نفاذ اسلام کا
اعلان ہوا تو الیکشنوں کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا ۔ حقیقت کھلی کہ الیکشن حرام ہیں۔
الیکشنوں کا مقصد
الیکشنوں کا مقصد صرف
انتخابات ہی نہیں۔ انتخاب تو اور بھی کئی طریقوں سے ہو سکتا ہے ۔ معینہ مدت کے بعد
الیکشن کروانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عوام اپنے حکومت کے حق کو استعمال کرے۔ ایک
ہی کیوں حکومت کرتا رہے‘ عوام جس کو چاہیں لائیں جس کو چاہیں ہٹائیں۔ اگر الیکشن
صرف انتخابات کے لیے ہوں تو ایک دفعہ جب الیکشن ہو جائیں ‘ منتخب ہونے والے منتخب
ہو جائیں ‘ حکومت کا کام ٹھیک چل رہا ہے تو پھر پانچ سال بعد الیکشن کروانے کی
ضرورت؟ ظاہرہے بار بار الیکشن کروانا ‘ عوام کے استقرار حق کے لیے ہے۔ انتخاب کے
لیے نہیں‘ تاکہ سب باری باری حکومت میں اپنا حصہ لیں۔ اسلامی خلیفہ کی طرح ایک ہی
حاکم نہ بنا رہے۔
بہاول پور کی اہل حدیث جماعت میں الیکشنوں کے خلاف مہم کیوں
شروع کی؟
جب الیکشن ایک جمہوری
عمل ہے اور قطعاً حرام ہے اور الیکشن کروانے سے جمہوریت کے نظام کفر کی ترویج ہوتی
ہے تو جو لوگ الیکشنوں پر زور دیتے ہیں۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اسلام کی
مخالفت کرکے کفر کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اس لیے ان الیکشنوں کو روکنا تاکہ جمہورت کا
قلع قمع ہو‘ ہر مسلمان کا فرض ہے۔ جماعت اہل حدیث نے اپنا ایک دینی فریضہ سمجھتے
ہوئے ایک اشتہار شائع کیا جس میں الیکشنوں کو حرام قرار دیا۔ مفتی محمود صدر قومی
اتحاد سے اپیل کی کہ خدارا الیکشنوں کی انگریزی سیاست کوچھوڑ کر اسلام کے نفاذ پر
زور دیں۔ اسلام کے نفاذ میں پاکستان اور اسلامیان پاکستان دونوں کا فائدہ ہے اور
الیکشنوں کے حرام ہونے کے علاوہ ملک کی سلامتی کو بھی سخت خطرہ ہے‘ لیکن مفتی صاحب
آ ج کل فرنگی سیاست میں ایسے کھوئے ہوئے ہیں کہ ان کو اسلام کی بھی ہوش نہیں۔
جمہوریت نے ان پراتنا گہرا اثر کیا ہے کہ ان کی دینی حس بالکل بے حس ہو گئی ہے۔ اب
ان کو کفر اسلام کا بھی کوئی پتا نہیں لگتا وہ جمہوریت کو جو کفر ہے اسلامی بتاتے
ہیں اور موجودہ طریقہ انتخاب کوجو قطعاً غیر اسلامی ہے‘ اسلامی کہتے ہیں۔
مفتی صاحب ! فتوی دیں
موجودہ الیکشنوں میں
امیدوار پارٹی کے حصول کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں یا بطور آزاد امید وار خود کھڑے
ہوتے ہیں تو کیا اس طرح ٹکٹ کے لیے درخواست دینا یا خود کھڑا ہونا اسلام میں جائز
ہے؟
موجودہ طریقہ انتخاب
میں ووٹوں کے حصول کے لیے جو جو ہتھ کنڈے استعمال کیے جاتے ہیں کیا وہ اسلام میں
جائز ہیں؟ موجودہ الیکشنوں میں امیدوار مختلف طریقوں سے کنونسنگ(Convincing)
کرتے ہیں۔ کیا یہ
کنونسنگ اسلام میں جائز ہے ؟ الیکشن لڑنے کے لیے حشرات الارض کی طرح ملک میں سیاسی
پارٹیاں بنتی ہیں کیا اسلام میں ان کا کوئی جواز ہے ؟ خلافت راشدہ میں ایسی سیاسی
پارٹیاں تھیں ۔ اگر تھیں تو ان کے نام کیا تھے؟ اور ان کے لیڈر کون تھے؟
موجودہ طریقہ انتخاب
میں مختلف سیاسی پارٹیاں الیکشن لڑتی ہیں۔ ایک حکمران پارٹی ہوتی ہے ‘باقی ساری
اپوزیشن جیسے 1977ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی حکمران پارٹی تھی باقی سب
اپوزیشن۔ کیا اسلام میں اس طرح حزب اختلاف بنانے کی اجازت ہے ؟ کیا حضرت ابوبکرؓ
اور حصرت عمرؓ کے دورمیں حزب اختلاف تھی ؟ اور اگر تھی تو اس کے لیڈر کون تھے؟
مختلف سیاسی پارٹیاں جو انتخابی مہم چلاتی ہیں کیا اسلام میں اس کا کوئی جواز ہے؟
موجودہ طریقہ انتخاب میں ہر ووٹر انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے خواہ وہ کیسا ہی
بدکردار اور بے دین کیوں نہ ہو‘ کیا ایسے ووٹر کا امیدوار بننا اور ایسے امید وار
کو ووٹ دینا اسلام میں جائز ہے ؟
موجودہ طریقہ انتخاب
میں تارا مسیح کا ووٹ مفتی محمود کے ووٹ کے برابر ہے اب مفتی صاحب ہی فتویٰ دیں کہ
کیا ایک بھنگی اور مفتی اسلام برابر ہو سکتے ہیں؟ جب موجودہ طریقہ انتخاب میں ایک
بھنگی کا ووٹ ایک مفتی کے ووٹ کے برابر ہے تو مفتی صاحب کیسے کہتے ہیں کہ یہ طریقہ
انتخاب اسلامی ہے ؟ کیا مفتی صاحب نے دیوبند سے اسلام کی یہی تعلیم پائی ہے؟ کاش
مفتی صاحب کو یہ آیات قرآنیہ نظر آتیں؟
1– (ھَلْ یَسْتَوِی
الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ
اُولُو الْاَلْبَابِ)[39:الزمر:9]
کیا عالم اور جاہل
برابر ہو سکتے ہیں؟ سمجھ کی بات تو عقل والا ہی کرتا ہے۔
2– (اَمْ نَجْعَلُ
الْمُتَّقِیْنَ کَالْفُجَّارِ)
[38:ص:28]
کیا ہم نیک اور بدکو
برابر کر دیں گے؟ کیا ایسا ممکن ہے ؟
3– (اَفَنَجْعَلُ
الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ Oمَالَکُمْ کَیْفَ
تَحْکُمُوْنَ ) :68]القلم[35: کیا کافروں کا یہ خیال ہے کہ ہم مسلمانوں کو کافروں
کے برابر کر دیں گے کہ ان کا اور ان کا درجہ ایک ہی ہو ۔ کافرو! تمھیں کیا ہو گیا
ہے؟ تم ایسی بہکی بہکی باتیں کیوں کرتے ہو؟
جس نظام میں عالم اور
جاہل نیک اور بد‘ مسلم اور کافر سب برابر ہوں وہ کیوں نہ کفر کا نظام ہوگا۔ اسی
لیے تو ہم کہتے ہیں کہ جمہوریت کفر ہے کیوں کہ اس نظام میں مسلم اور کافر نیک و بد
سب برابر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت میں مذہب اور اخلاق جیسی کوئی چیز نہیں کہ
اسلام اور کفر یا نیک و بد میں کوئی امتیاز ہو۔ پتا نہیں مفتی صاحب کیسے کہتے ہیں
کہ پاکستان میں مغربی جمہوریت نہیں۔ جب کہ کفر کی سب باتیں موجودہ طریقہ انتخاب
میں پائی جاتی ہیں۔
O موجودہ طریقہ انتخاب
میں عورت مرد کے برابر ہے کیا یہ برابری اسلام میں جائز ہے؟
O موجودہ طریقہ انتخاب
میں عورت پارٹی لیڈر بن سکتی ہے کیا یہ اسلام میں جائز ہے؟
O موجودہ طریقہ انتخاب
ایسا ہے کہ حکومت کے خزانے سے کروڑوں روپیہ الیکشن پر خرچ ہوتا ہے کیا الیکشن جیسے
ذلیل کام پر اتنی کثیر رقم خرچ کرنے کی اسلام اجازت دیتا ہے؟
O ہر الیکشن لڑنے والا اس
الیکشن بازی میں لاکھوں روپیہ خرچ کر دیتا ہے ۔ صرف حصول اقتدار کے لیے یا ممبر بن
کر اس سے کئی گنا زیادہ کمانے کے لیے ۔ کیا یہ سودے بازی اور کاروبار اسلام میں
جائز ہے ؟
یہ اور اس قسم کی اوربے
انتہا قباحتیں ہیں جو اس طریقہ انتخاب میں پائی جاتی ہیں۔ اس لیے ایسا انتخاب کبھی
اسلامی نہیں ہو سکتا‘ بلکہ یہ طریقہ انتخاب ہی دلیل ہے۔ اس بات کی کہ پاکستان میں
وہی مغربی جمہوریت ہے جو کفر ہے۔ اگر پاکستان میں مغربی جمہوریت نہ ہوتی تو یہ
طریقہ انتخاب کبھی نہ ہوتا۔ جس طریقہ انتخاب سے بھٹو اور مجیب جیسے شاطر اور اسلام
دشمن برسراقتدارآ جائیں وہ طریقہ اسلامی کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر طریقہ انتخاب اسلامی
ہو تونیک اور متقی لوگ منتخب ہوں نہ کہ بد۔
مفتی صاحب کاحال عوام
کا سا ہے
مفتی صاحب کا ایسے
طریقہ انتخاب کو اسلامی کہنا دلیل ہے اس بات کی کہ مفتی صاحب کا ذہن بھی جمہوریت
کے اثر سے جمہوری ہو گیا ہے۔ و ہ بھی عام مسلمانوں کی طرح یہی سمجھتے ہیں کہ جو
مسلمان کرتے ہیں وہ سب اسلام بن جاتا ہے۔ جاہل عوام کے ساتھ مفتی صاحب کا بھی یہی
مذہب ہے کہ اسلام کو مسلمانوں کے تابع ہونا چاہیے‘ مسلمانوں کو اسلام کے تابع نہیں
اسی اصول سے وہ موجودہ الیکشن کو اسلامی کہتے ہیں ‘ ورنہ جس کا اسلامی شعور ذرا
بھی بیدار ہووہ الیکشنوں کو کبھی اسلامی نہیں کہہ سکتا۔
مفتی صاحب کو مغالطہ
یہ ہے کہ مغربی جمہوریت
تو کفر ہے ‘ لیکن جو جمہوریت پاکستان میں ہجرت کر آئی ہے وہ مسلمانوں کے ساتھ لگ
کر اسلامی ہو گئی ہے۔ اب مغربی نہیں رہی۔ اس لیے اس کے تحت جو الیکشن ہوں گے وہ
بھی اسلامی ہوں گے۔ اس لیے پریس کانفرنس میں مفتی صاحب نے کہا کہ پاکستان میں
مغربی جمہوریت نہیں۔ مفتی صاحب کا حال بھی عجیب ہے ایک طرف تو کہتے ہیں کہ پاکستان
میں مغربی جمہوریت نہیں‘ دوسری طرف کہتے ہیں کہ پاکستان میں اسلام ابھی نافذ نہیں۔
اس کا نفاذ ہمارے منشور میں شامل ہے۔ الیکشنوں کے بعد اسلام نافذ ہوگا۔ مفتی صاحب
سے کوئی پوچھے یا حضرت !جب پاکستان میں اسلام بھی نہیں اور مغربی جمہوریت بھی نہیں
تو پھر پاکستان میں ہے کیا ؟ ایک طرف مفتی صاحب کہتے ہیں پاکستان میں ابھی تک
اسلام نافذ نہیں ‘ دوسری طرف مفتی صاحب کہتے ہیں پاکستان کا موجودہ طریقہ انتخاب
بالکل اسلامی ہے۔ اب کوئی پوچھے کہ جب ملک میں اسلام نافذ ہی نہیں تو طریقہ انتخاب
اسلامی کیسے ہو گیا؟ طریقہ انتخاب تو کسی نظام کا بڑا جزو ہوتا ہے۔
مفتی صاحب کا یہ کہنا
غلط ہے کہ پاکستان
میں مغربی جمہوریت نہیں
مفتی صاحب نے پریس
کانفرنس میں کہا کہ پاکستان میں مغربی جمہوریت نہیں‘ کیوں کہ مغربی جمہوریت میں
حکومت عوام کی ہوتی ہے جب کہ پاکستان کے دستور میں حقیقی حاکم رب العالمین کو
تسلیم کیا گیا ہے۔ مفتی صاحب سے کوئی پوچھے کہ مفتی صاحب اگر پاکستان میں حکومت
عوام کی نہیں تو کیا پاکستان میں حکومت اﷲ کی ہے؟ آپ کو تسلیم ہے کہ ابھی پاکستان
میں اسلام نافذ نہیں تو پھر پاکستان میں حکومت اﷲ کی بھی نہیں۔ جب پاکستان میں
حکومت عوام کی بھی نہیں کیوں کہ اگر عوام کی بھی ہو تو مغربی جمہوریت ہو اور بقول
آپ کے پاکستان میں مغربی جمہوریت ہے نہیں۔ اور پاکستان میں حکومت اﷲ کی بھی نہیں۔
کیوں کہ ابھی اسلام نافذ نہیں تو پھر پاکستان میں حکومت ہے کس کی ؟ اگر آپ کہیں کہ
جب دستور میں تسلیم کر لیا گیا ہے کہ حقیقی حاکم رب العالمین ہے تو پھر حکومت عوام
کی نہیں بلکہ اﷲ کی ہے تو کہا جائے گاکہ جب عملاً حکومت اﷲ کی نہیں کیوں کہ ملک
میں قانون اﷲ کا نہیں چلتا تو دستور میں اﷲ کو حقیقی حاکم تسلیم کر نے سے کیا
فائدہ ؟ اور اگر مفتی صاحب کہیں کہ دستور میں یہ تسلیم کر لینے سے جمہوریت مغربی
نہیں رہتی بلکہ اسلامی ہو جاتی ہے تو کہاجائے گا کہ عملاً تو حکومت عوام کی رہتی
ہے کیوں کہ ملک میں قانون اﷲ کا نہیں چلتا۔ بلکہ عوام کا چلتا ہے اور اسی کو قرآن
کفر کہتا ہے:( وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فَاُولٰءِکَ ھُمُ
الْکٰفِرُوْنَ ):5]المائدہ [44: کہ جو اﷲ کے اتار ے ہوئے حکم کو جاری نہ کرے وہ
کافر ہے۔ اور جب پاکستان میں اﷲ کا قانون جاری نہ ہوا بلکہ عوام کا قانون رہا تو
عوام کی حکومت ہوئی تو پھر مغربی جمہوریت ثابت ہو گئی۔ مفتی صاحب کتنے بھی ایچ پیچ
کریں ان کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان میں وہ مغربی جمہوریت ہے جو کفر ہے۔
اس لیے اس کے تحت الیکشن کروانا کفر کو نافذ کرنا ہے جو ایک مسلمان کے لیے بالکل
ناجائز ہے ۔
جمہوریت اور اﷲ کی
حاکمیت جمع نہیں ہو سکتے
مفتی صاحب کو معلوم
ہونا چاہیے کہ جمہوریت میں اﷲ کی حاکمیت ہو ہی نہیں سکتی‘ خواہ دستور میں اسے
تسلیم بھی کر لیا جائے کیوں کہ جمہوریت کہتے ہی عوام کی حکومت کو ہیں۔ اگر عوام کی
حکومت نہ ہو تو پھر جمہوریت نہیں اور اگر جمہوریت ہو تو اﷲ کی حاکمیت نہیں۔
مفتی صاحب کو یہ پتا
نہیں کہ جمہوریت کہتے کسے ہیں؟
مفتی صاحب کے مغالطے کی
اصل وجہ یہ ہے کہ انھیں یہ شعور نہیں کہ جمہوریت کہتے کسے ہیں؟ اسی لیے وہ کہتے
ہیں کہ پاکستان میں مغربی جمہوریت نہیں ہے کیوں کہ مغربی جمہوریت میں حکومت عوام
کی ہوتی ہے انھیں یہ پتا نہیں کہ جمہوریت مشرق میں ہو یا مغرب میں حکومت عوام کی
ہی ہوتی ہے۔ عوام کی حکومت کو ہی جمہوریت کہتے ہیں۔اگر عوام کی حکومت نہ ہو تو اسے
جمہوریت کہتے ہی نہیں۔ مغربی جمہوریت اور پاکستانی جمہوریت میں فرق صرف عوام کا
ہے۔ جمہوریت کا کوئی فرق نہیں۔
مغربی جمہوریت میں عوام
انگریز ہیں‘ پاکستانی جمہوریت میں عوام انگریزی مسلمان ہیں ۔ وہاں عوام اپنے ذہن
کے مطابق حکومت کرتے ہیں‘ یہاں پاکستانی عوام اپنے ذہن کے مطابق حکومت کرتے ہیں۔
اور یہی وجہ جمہوریت کے کفر ہونے کی ہے کہ اس میں عوام کی حکومت ہوتی ہے۔ جیسے بھی
وہ عوام ہوں ۔ اگر عملاً حکومت عوام کی ہو تو دستور میں یہ تسلیم کر لینے سے کہ
حقیقی حاکم رب العالمین ہے۔ جمہوریت میں فرق نہیں آتا۔ جمہوریت کا فرانہ ہی رہتی
ہے‘ کیوں کہ حکومت جو عوام کی ہوتی ہے البتہ دستور میں ایسا تسلیم کر لینے سے منافقت
ضرور ظاہر ہو جاتی ہے کہ یہ قوم کیسی منافق ہے کہ جو دستور میں کچھ تسلیم کرتی ہے
اور عمل اس کا کچھ ہے۔
جس ملک کا دستور و
قانون عوام کے ہاتھ میں ہو
وہاں مغربی جمہوریت ہی
ہوتی ہے
مفتی صاحب کہتے ہیں کہ
پاکستان میں مغربی جمہوریت نہیں کیوں کہ پاکستان کے دستور میں حقیقی حاکم رب
العالمین کو تسلیم کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس دستور میں یہ تسلیم کیا گیا ہے وہ
قرآن تو نہیں جو بدلہ نہیں جا سکتا‘ ہے تو وہ عوام ہی کا دستور ہے اور عوام کے
بنائے ہوئے دستور کا کیا اعتبار؟ اگر آج عوام دستور میں یہ بات تسلیم کر سکتے ہیں کہ
حقیقی حاکم اﷲ ہے تو کل کو جب پیپلزپارٹی کی حکومت ہو گی تو عوام یہ کہہ سکتے ہیں
کہ حقیقی حاکم اﷲ نہیں بلکہ عوام ہیں۔ چنانچہ مساوات مورخہ 14اکتوبر1978ء کے
اداریے میں یہی مطالبہ ہے کہ جمہوریت کو آگے بڑھایا جائے اور عوام کی حاکمیت کو
تسلیم کیا جائے۔ مفتی صاحب خوش ہیں کہ پاکستان کے دستور میں حقیقی حاکم اﷲ کو
تسلیم کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہی دلیل ہے پاکستان میں مغربی جمہوریت کے ہونے کی کیوں
کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کا دستور عوام کے ہاتھ میں ہے۔ جس ملک کا دستور
و قانون عوام کے ہاتھ میں ہو وہاں مغربی جمہوریت ہوتی ہے۔
جمہوریت انگریز کا ورثہ
ہے
مفتی صاحب!حرام
الیکشنوں کو حلال کرنے کے لیے بار بار یہی کہتے ہیں کہ پاکستان میں مغربی جمہوریت
نہیں حالانکہ مفتی صاحب کو معلوم ہے کہ یہ جمہوریت وہی ہے جو انگریز بہادر اپنے
ساتھ لایا تھا ورنہ انگریز کے آنے سے پہلے یہ جمہوریت یہاں کہاں تھی ؟ یہ انگریز
کی آوردہ ہے اور اسی کا ترکہ ہے۔ مفتی صاحب جو الیکشنوں پر زور دیتے ہیں تو گویا
انگریز کے ترکے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن تسلیم کرتے ہوئے شرماتے ہیں کیوں کہ ساری
عمر تو انگریز سے لڑتے رہے اب اس کے وارث کہلائیں تو کس منہ سے؟ اس لیے وہ بار بار
انکار کرتے ہیں۔ پنجابی کی مثال مشہور ہے:’’ شورا ککڑ دا نالے ملاں کھاندا نالے
مکردا‘‘۔ مفتی صاحب کو چاہیے یا تو انگریز کے وارث نہ بنیں ‘ نبی کریم ﷺ کے وارث
بنیں ۔ اور عالم نبیوں کے وارث ہی ہوتے ہیں۔ (( اَلْعُلَمَاءُ وَرَثَۃُ
الْاَنْبِیَاءُ )) الیکشن کا نام نہ لیں ۔ اسلام کو نافذ کروائیں۔ جہاں انگریز گیا
اس کے ترکے کو بھی وہیں بھیج دیں اور اگر انگریز کے وارث بن کر اس کی باقیات کو
لیتے ہیں تو پھر شرم نہ کریں صاف اقرارکریں کہ یہ جمہوریت وہی ہے جو ہمارے بزرگ
انگریز چھوڑ گئے تھے۔ اب ہم ان کے وارث ہیں۔ جب مفتی صاحب کو انگریز کاورثہ لینے
میں کوئی شرم نہیں تو تسلیم کرنے میں کیا شرم ہے ؟
جمہوریت :مشرقی ہویا
مغربی ایک ہی ہے
مفتی صاحب ہزار تاویلیں
کریں تاویلوں سے حرام کبھی حلال نہیں ہوتا۔ حرام حرام ہی رہتا ہے۔پلیدی پلیدی ہی
رہتی ہے۔ یہ کہہ کر کہ جمہوریت مغربی نہیں ‘ جمہوریت اسلام نہیں بن سکتی۔ جمہوریت
جمہوریت ہی رہتی ہے۔ جمہوریت کے مغربی یا مشرقی ہونے سے جمہوریت میں کوئی فرق نہیں
پڑتا۔ جیسے اسلام ہر جگہ اسلام ہے‘ مغرب میں ہو یا مشرق میں ‘ مفتی صاحب عالم دین
ہوتے ہوئے یہ نہیں سمجھتے کہ کفر اور اسلام کہیں بھی چلیں جائیں بدلا نہیں کرتے۔
کافر اور مسلمان تو بدل سکتے ہیں کفر اور اسلام نہیں بدل سکتے۔کفر جہاں بھی جائے
کفر ہے۔ جمہوریت جہاں بھی جائے جمہوریت ہے‘ جمہوریت اس لیے کفر نہیں کہ وہ مغربی
ہے جمہوریت اس لیے کفر ہے کہ وہ جمہوریت ہے ‘اسلام نہیں۔ اور جو اسلام نہ ہو وہ
کفر ہوتا ہے۔ (وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُقْبَلَ
مِنْہُ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ):3]آل عمران [85: ۔۔( فَمَاذَا
بَعْدَ الْحَقِّ اِلاَّ الضَّلاَلُ ):10]یونس[32: اسلام کے سوا سب کفر ہے۔
مفتی صاحب کا المیہ
مشرقی پاکستان کا غلط تجزیہ
اپنے بیان میں مفتی
صاحب نے المیہ مشرقی پاکستان کا تجزیہ بھی خوب کیا ہے۔ ان کا یہ تجزیہ بھی ان کے
استنباط کا شکار ہے ۔ اس تجزیے میں بھی ان کا الیکشنی ذہن کام کر رہا ہے۔ وہ کہتے
ہیں کہ سقوط مشرقی پاکستان کا المیہ اس لیے رونما ہوا کہ ایک فوجی آمر نے مجیب کو
اقتدار نہ دیا۔ اگر مفتی صاحب سوچتے کہ مجیب کو اقتدار نہ دینا تو بعد کی بات پہلے
تو یہ دیکھنا ہے کہ مجیب کو مجیب کس نے بنایا۔مجیب کو یہ درجہ کس نے دیا؟ اس فوجی
آمر نے یا الیکشنوں نے۔ مجیب نے الیکشن کس بنیاد پر لڑا۔ پھر ادھر ہم ادھر تم کا
فیصلہ کس نے کیا ؟ فوجی آمر کو اقتدار منتقل کرنے سے کس نے روکا؟ تعجب ہے کہ مفتی
صاحب کو فوجی آمر تو نظر آگیا جو نہ تین میں‘ نہ تیرہ میں۔ جمہوری الیکشن کی برکت
بھٹو نظر نہ آیا۔ وہ مشرقی پاکستان کے المیے کا سب سے بڑا کردار ہے جس نے اس المیے
کا سارا پلان تیار کیا ہے۔ جس نے جمہوریت کی دھونس میں اس فوجی آمر کو اپنا آلہ
کار بنا کر پاکستان کا گلا کاٹا۔المیہ مشرقی پاکستان کا اصل سبب یہ جمہوری الیکشن
ہیں جس کی وجہ سے یہ بھٹو اور مجیب آئے اور انھوں نے سارا ڈرامہ کھیلا۔
بڑھاپے میں کرسی بہت
بڑا سہارا ہے
اس المیے میں اس فوجی
آمر کا اتنا قصور نہیں جتنا جمہوریت کے علمبردار مجیب اور بھٹو کا ہے۔ لیکن مفتی
صاحب نے فوجی آمر کو مورد الزام ٹھہرایا‘ صرف اس وجہ سے کہ آج کل مفتی صاحب اپنے
فوجی نجات دہندوں پر سخت خفا ہیں کہ وہ جلدی الیکشن نہیں کروا رہے۔ کیوں کہ وہ
محبوب کرسی کے وصل میں فصل بنے ہوئے ہیں۔ بڑھاپے میں مضبوط کرسی مل جائے تو کتنا
بڑا سہارا ہے اور بھٹو کے بعد وہ مضبوط کرسی مفتی صاحب کو خالی بھی نظر آ رہی ہے
۔یہی ضیاء ہے جس کو مفتی صاحب اور ان کے ہم مشرب فرشتہ رحمت بتاتے تھے‘ اب وہی
ضیاء ہے جو فوجی آمر نظر آتا ہے ‘ مفتی صاحب کی نظر میں اگر فوجی آمر ایسے ہی برے
ہیں اور جمہوری شاطر ایسے ہی اچھے ہیں تو مفتی صاحب بھٹو کو ہی سینے سے لگائے
رکھتے۔ اس کوعلٰیحدہ نہ کرتے۔ وہ تو فوجی آمر نہ تھا ‘ وہ تو جمہوریت کا تاجدار ‘
قائد عوام تھا۔ مفتی صاحب نے اس کو بھی گلے نہ لگایا‘ اس کو بھی تختہ دار پر لٹکوا
کر ہی دم لیا۔
جمہوریت پرستوں کی
سیاست بھی عجیب ہے
بھلے دن ہوئے تو الیکشن
الیکشن کرتے ہیں‘ جمہوریت کی رٹ لگاتے ہیں ۔ جب جمہوریت کا لایا ہوا بھٹو جمہوریت
کے دانت دکھاتا ہے تو اسلام کو یاد کرتے ہیں‘ کبھی نظام مصطفی کا ورد کرتے ہیں ‘
کبھی نظام مصطفی کو الیکشنوں کی نظر کرکے جمہوریت کا ورد کرتے ہیں۔ جمہوریت پرستی
اصل میں موقع پرستی کا دوسرا نام ہے‘ جس نظام میں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کا نام نہ
ہو ‘ اخلاق حسنہ کا کوئی نام نہ ہو‘ اس نظام کے پرستاروں میں سوائے مطلب پرستی کے
اور ہو بھی کیا سکتا ہے؟
مفتی صاحب مفتی ہو کر
علامہ احسان الٰہی ظہیر کے مقلد ہو گئے
پریس کانفرنس ملتان میں
مفتی محمود صاحب سے اہل حدیث کی طرف سے سوال کیا گیا کہ موجودہ الیکشنوں کے اسلامی
ہونے کی کیا دلیل ہے؟ چوں کہ مفتی صاحب آج کل مفتی تو ہیں نہیں‘ وہ تو سیاست کے
کھلاڑی ہیں‘ اس لیے انھوں نے سیاسی جواب دیا کہ جو دلیل پچھلے الیکشنوں میں انتخاب
لڑنے کی اہل حدیث علما مولانا معین الدین ‘ اور علامہ احسان الٰہی ظہیرؔ وغیرہ کی
تھی وہی اب ہماری ہے۔ کوئی مفتی صاحب سے پوچھے آپ ان اہل حدیثوں کے کب سے مقلد بن
گئے ؟ کیا صرف الیکشن کے مسئلے میں آپ ان اہل حدیث عالموں کی تقلید کریں گے یا اور
مسائل میں بھی ؟ الیکشنوں کے شرعی جواز کی ان عالموں کے پاس ‘ نہ تو پہلے کوئی
دلیل تھی ‘ نہ اب ہے ۔ مفتی صاحب کا بھی عجیب حال ہے کہ جس مسئلے میں اہل حدیث
عالموں کے پاس کوئی دلیل نہیں اس مسئلے میں تو ان کی تقلید کرتے ہیں اورجن مسائل
میں ان عالموں کے پاس قطعی دلائل موجود ہیں ان میں ان کی تقلید نہیں کرتے۔
سازشی کون ہے ؟
پتا نہیں پاکستان میں
یہ کیا سازش ہے کہ جو اسلام یا پاکستان کی خیرخواہی میں الیکشن نہ کروانے کی بات
کرتا ہے۔ اس پر فوراً سازش کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ چنانچہ مفتی صاحب نے بھی
ایسے لوگوں پر کئی دفعہ سازش کا الزام لگایا۔ فیصلے کی بات یہ ہے کہ سازش کا خطرہ
ہمیشہ دشمن سے ہوتا ہے۔ جو خیرخواہ ہو وہ کبھی سازش نہیں کرتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ
پاکستان کے دشمن کیا چاہتے ہیں۔ اگر پاکستان کے دشمن الیکشن چاہتے ہیں تو سازش کا الزام
الیکشن کا مطالبہ کرنے والوں پر آتا ہے۔ اگر پاکستان کے دشمن الیکشن نہیں چاہتے تو
سازش کا الزام الیکشن نہ کروانے والوں پر آتا ہے۔ لیکن پاکستان کا کوئی دشمن ایسا
نہیں جو الیکشن نہ چاہتا ہو۔ پاکستان کے جتنے دشمن ہیں ‘ اندرون ملک ہوں یا بیرون
ملک سب الیکشن کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ اس لیے سازشی الیکشن کا مطالبہ کرنے والوں میں
سے ہی ہو سکتے ہیں۔ الیکشن روکنے والوں میں سے نہیں۔
سازشی کانگریسی ہو سکتے
ہیں
مفتی صاحب خوب جانتے
ہیں کہ سازش کا شبہ ہمیشہ دشمن پر ہی ہو سکتا ہے‘ خواہ وہ دشمن اب بنا ہو جیسا کہ
بھٹو یا وہ قدیم سے جیسے کانگرسی ۔کانگرسی کتنے بھی پاکستان کے خیرخواہ بنیں ان سے
خطرہ ضرور ہے کیوں کہ ماضی میں وہ ہندو اثر کے تحت پاکستان کے وجود کے ہی مخالف
تھے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کا ماضی عود کر آئے‘ ان کے خفیہ جذبات بیدا رہو جائیں۔ وہ
بھارت کے گانگرسی یا ران طریقت کے اشاروں پر چلتے ہوئے الیکشن کا مطالبہ کرنے لگ
جائیں۔ اپنی سازش کو چھپانے کے لیے وہ سازش ‘ سازش کا ڈھنڈورا پیٹنے لگ جائیں۔
کانگرسیوں سے احتمال ہر طرح کاہے۔ اس لیے سازش کا شبہ کانگرسی ذہن رکھنے والوں پر
تو ہو سکتا ہے الیکشن کے مخالفوں پر نہیں۔ ملک میں الیکشن کی مخالفت اسلام اور
پاکستان کے خیرخواہ ہی کرتے ہیں۔ دشمن تو الیکشن ہی چاہتے ہیں۔ کیوں کہ ان کا
آزمودہ ہتھیار ہے‘ جس سے پاکستان کو کاٹا جا سکتا ہے۔
الیکشن کی مخالفت کیوں؟
مفتی صاحب کو معلوم
ہونا چاہیے کہ اہل حدیث الیکشن کی مخالفت دو وجہ سے کرتے ہیں۔ ایک تو اس وجہ سے کہ
الیکشن شرعاً حرام ہیں۔ اس سے کفر کے نظام جمہوریت کی ترویج ہوتی ہے ‘ دوسرے
الیکشن موجودہ حالات میں پاکستان کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔ ان الیکشنوں سے
پاکستان کی سلامتی کو سخت خطرہ ہے۔ اسی لیے ملک کا اکثر سنجیدہ حلقہ اور دین دار
طبقہ الیکشن نہیں چاہتا۔ الیکشن پاکستان کے لیے کسی صورت میں بھی مفید نہیں۔ یہ
سازش ہے جو بحالی جمہوریت کے نام پر فوری الیکشنوں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اﷲ
ضیاء کو بصیرت دے کہ اس سازش کا ادراک کر سکے ۔تاکہ پاکستان الیکشنوں کے شر سے
محفوظ رہے۔ خدا ہی اپنی اس مملکت خداداد کا حامی و ناصر ہے‘ ورنہ پاکستان کے
دشمنوں کی کوئی کمی نہیں۔
اسلامیان پاکستان کے
لیے لمحہ فکریہ
معزز قارئین!جس دور سے
اب پاکستان گزر رہا ہے وہ پاکستان کے لیے سخت ابتلا کا دور ہے۔ اب یہ فیصلہ کرنا
ہوگا کہ ملک میں حکمرانی کفر کی ہو یا اسلام کی تیس سال تک تو جمہوریت کے نام پر
اسلام کو ٹالا جاتا رہا ہے۔ لیکن اب جمہوریت کی قلعی کھل گئی ہے کہ یہ کفر ہے اور
یہی اسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اب جمہوریت کا فریب زیادہ دیر نہیں چلے
گا۔ کہ اسلام کو نعروں سے ٹرخایا جائے اور کفر حکومت کرتا رہے۔ کم از کم دین دار
طبقے کو اب یہ معلوم ہو گیا ہے کہ جب تک یہ جمہوریت ہے اسلام کبھی نہیں آئے گا۔ اس
کے علاوہ بھٹو کو یوں ہٹا کر ضیاء کا برسراقتدار آنا اور آتے ہی اسلام کے نفاذ کا
اعلان کرنا یہ بھی ایک ایسا حادثہ ہے کہ جس سے کفر اور اسلام دونوں حرکت میںآگئے۔
دونوں اپنے اپنے انجام اور مستقبل کے بارے میں سوچنے لگ گئے۔ اگرچہ ضیاء نے نفاذ
اسلام کا کوئی خاص کام نہیں کیا لیکن اس کا آغاز کر کے ایک طرف اس نے کفر کو
ہوشیار کر دیا ہے ‘ دوسری طرف اس نے مسلمانوں کو جھنجوڑ دیا ہے کہ اسلام کو نافذ
کرنا ہے تو مسلمان بنو‘ فقط نعروں سے اسلام نہیں آئے گا۔
اسلام کا نام رسمی طور
پر تو ماضی میں بھی لیا جاتا رہا ہے‘ لیکن یہ خیال کسی کو بھی نہیں ہواکہ یہ نافذ
بھی ہوگا۔ یہ خیال تو صرف ضیاء کی آمد سے ہی ہوا ہے کیوں کہ ضیاء جمہوریت کا
دروازہ توڑ کر آیا ہے۔ اسلام کے دشمنوں نے اسلام کی آمد کا خطرہ کبھی محسوس نہیں
کیا ‘ کیوں کہ ان کے لیے جمہوریت کی ضمانت اسلام کے عدم نفاذ کے لیے کافی تھی۔ اب
جب ضیاء آیا توا نھیں ڈر ہوا کہ کہیں سچ مچ اسلام آ ہی نہ جائے۔ اب جمہوریت تو رہی
نہیں جو اسلام کو روک سکے۔اب تو شخصی حکومت ہے اور شخصی حکومت میں ہی اسلام آ سکتا
ہے‘ کیوں کہ یہ اسلام کے مزاج کے موافق ہے۔ شخصی حکومت میں طاقت ایک ہاتھ میں ہوتی
ہے۔ اگر وہ ہاتھ اسلامی ہو ‘ کام آنے والا ہو‘ تواسلام کے نافذ ہونے میں دیر نہیں
لگتی۔ یہ تو ضیاء کی بدقسمتی ہے کہ اﷲ نے اسے ایسا موقع بھی دیا لیکن اس نے اسلام
کو نافذ کرکے آخرت کا تاج نہ لیا۔ اسلام کے نافذ کرنے جیسی نیکی کو ئی نہیں۔ موقع
ملے اور نافذ نہ کیا جائے تو اس جیسا کفر بھی کوئی نہیں۔ یا پھر مفتی صاحب اور
جماعت اسلامی کی کم بختی ہے کہ انھوں نے اس موقع کونہیں سنبھالا۔ جماعت اسلامی
اپنے ایمان کی کمی کی وجہ سے ڈرتی رہی کہ پتا نہیں اسلام آئے یا نہ۔۔۔ جمہوریت کے
قتل میں ہم کیوں شریک ہوں۔ کہیں ہمارا مستقبل تاریک نہ ہو جائے۔ جماعت اسلامی کو
یہ پتا نہیں کہ اگر اسلام نہ آیا تواس کا مستقبل تاریک ہی تاریک ہے اور جمہوریت کے
ہوتے ہوئے اسلام نہیں آ سکتا۔ اس لیے جب تک وہ جمہوریت نہیں چھوڑیں گے ان کا مستقبل
تاریک ہی رہے گا۔ مفتی صاحب یہ سوچتے رہے کہ اگر اسلام ضیاء لے آیا تو پھر ہم کیا
کریں گے۔ پھر ہمارا کھیل تو ختم۔۔۔ مختصراً یہ کہ نہ تو ضیاء نے جرأت ایمانی سے
کام لیا ‘ حال آنکہ خمینی مسلسل یہی درس دے رہا ہے۔ نہ جماعت اسلامی اور مفتی صاحب
نے ساتھ دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام بھی نافذ نہ ہوا اور کفر بھی ہوشیار
بلکہ انتقامی ہو گیا۔ اب یہ ضیاء اور غیرت مند مسلمانوں کے سر ہے کہ وہ کیا اختیار
کرتے ہیں۔ اسلام کو نافذ کرکے دنیا و آخرت میں سرخرو ہوتے ہیں یا کفر کے آگے
ہتھیار گر ا کر خائب و خاسر ہوتے ہیں۔
وَاِلَیْہِ یُرْجِعُ
الْاَمْرُ کُلُّہ‘ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوْا وَ اِلَیْہِ اَنِیْبُوْا
*****