دعوت حق و اتحاد کے متعلق خطوط کا جواب

دعوت حق و اتحاد کے متعلق خطوط کا جواب

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

اول توجماعت اہل حدیث کا نام ہی حنفی عوام کے لیے کافی ہے ۔ جب سے جماعت اہل حدیث کی مسجد بہاول پور میں بنی ہے اور جماعت نے اپنا تبلیغی کام شروع کیا ہے عام حنفی حلقوں میں کہرام مچ گیا ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ جماعت اہل حدیث کے اندر کوئی خرابی ہے یا وہ کسی کو برا کہتی ہے بلکہ اس وجہ سے کہ یہ جماعت حق سناتی ہے اور حق کی لوگ ہمیشہ مخالفت کرتے ہیں۔ جماعت بڑے سکون کے ساتھ مثبت انداز میں قرآن وحدیث کی تبلیغ کرتی تھی۔ اہل شعور اس سے بہت متاثر ہوئے ۔ چنانچہ اچھی خاصی جماعت بن گئی۔ لیکن حنفی مولویوں نے طرح طرح کے اتہام لگا کر لوگوں کو جماعت سے متنفر کرنے کی پوری کوشش کی اور تبلیغی کام میں روڑے اٹکائے۔ جماعت نے تنگ آ کر ماہر حنفیات مولانا ابوالسلام محمد صدیق صاحب کی خدمات حاصل کرکے دعوت حق و اتحاد نامی ایک پمفلٹ شائع کیا۔ جس کا مقصد لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ موجودہ حنفیت جو اہل حدیث سے ٹکراتی ہے کیا چیز ہے اور غلط مسائل جو اہل حدیث کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں ‘ اہل حدیث کے نہیں بلکہ فقہ حنفی کے ہیں۔ فقہ حنفی صرف امام صاحب کی نہیں بلکہ اور بھی بہت سے ذمہ دار لوگوں کا اس میں دخل ہے۔ اسی وجہ سے اس کے بہت سے مسائل لغو بھی ہیں اور قرآن و حدیث کے خلاف بھی۔ مولوی صاحبان نے بجائے اس کے کہ جماعت کی اس دعوت پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرتے اور اپنی اصلاح کرتے جوابی حملے شروع کر دیے۔ چنانچہ متعدد خطوط آئے جن میں اہل حدیث کو بھی اپنے جیسا ننگا ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے جماعت کا ارادہ تھا کہ ان کا جواب جلدی دے دیا جائے‘ لیکن مولانا ابوالسلام صاحب کے میسر نہ آنے کی وجہ سے جواب میں تاخیر ہو گئی۔ اب جماعت ان خطوط کا جواب شائع کر رہی ہے تاکہ افادہ عام ہو۔
ایک حنفی صاحب لکھتے ہیں کہ وقت کی سب سے بڑی پکار اتحاد پر آپ نے خامہ فرسائی فرمائی ہے۔ یہ پیسے بھی ضائع کیے اور اتحاد کی بجائے مزید افتراق پیدا کیا۔یہ وہ اعتراض ہے جو حنفی مولوی دعوت حق و اتحاد پر کرتے ہیں۔ اصل میں یہ اعتراض جہالت اور تعصب کے ملے جلے اثرات کی پیداوار ہے‘ حقیقت پر مبنی نہیں۔ اسلام کی نگاہ میں حق صرف قال اﷲ و قال الرسول۔۔ یعنی قرآن و حدیث ہے اور اتحاد صرف اسی پر جمع ہونے کا نام ہے۔ اس کے علاوہ نہ حق ہے ‘ نہ اتحاد ۔ جو بھی اس ایک اصل پر جمع ہونے کی دعوت دیتا ہے اس کی دعوت یقیناًحق و اتحاد کی دعوت ہے۔ یہی دعوت اس رسالہ میں دی گئی ہے ۔ اب اگر کسی کو یہ دعوت اس رسالہ میں نظر نہ آئے تو یہ اس کی نگاہ کا قصور ہے۔ رسالہ قصور نہیں۔ اس کو اپنی نگاہ بدلنی چاہیے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ متعصب حنفی دعوت حق و اتحاد کے آئینہ میں اتحاد کی صورت دیکھ کر ایسے کھو گئے ہیں کہ اب ان کو اتحاد افتراق نظر آتا ہے‘ ورنہ رسالہ تو پکار پکار کر اتحاد کی دعوت دے رہا ہے۔ صرف آنکھوں سے تعصب کی پٹی کھول کر پڑھنے کی ضرورت ہے۔ آئیے ذرا پڑھیے آپ کو یہ لکھا ہوا صاف نظر آئے گا ’’ کتنا تعجب ہے کہ جب خدا ایک اور اس کا دین ایک تو ہم حنفی‘ شافعی ‘ مالکی‘ حنبلی چار کیوں ؟ کیوں نہ ہم یہ خانہ ساز تقسیم ختم کر کے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح ایک ہو جائیں۔ وہ باوجود فروعی اختلافات کے بھی ایک تھے۔ صرف اس لیے کہ ان میں شخصی تقلید کی آفت نہ تھی۔‘‘
کیسی صاف دعوت اتحاد ہے۔ اسے پڑھ کر کون عقل مند کہہ سکتا ہے کہ یہ دعوت اتحاد نہیں۔ اگر یہ دعوت اتحاد نہیں تو پھر اتحاد کا تصور ہی باطل ہے۔ اصل میں یہ اتہاد حنفیوں کو اس لیے نہیں بھاتا کہ اس اتحاد میں ان کو حنفیت بچتی نظر نہیں آتی اور جس اتحاد میں حنفیت کو خطرہ ہو اس کے تو تصور سے بھی حنفی بدکتے ہیں حال آنکہ بغیر حنفی ‘ شافعی کی تفریق مٹائے اتحاد ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ اتحاد ہی کیا ہوا جس میں حد بندیاں ہوں۔
ایک صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ بہاول پوراب تک مذہبی مناقشات سے محفوظ تھا‘ اہل حدیثوں نے اختلاف کی بنیاد ڈالی ہے۔‘‘ اگر حق کا کہنا اختلاف پیدا کرنا ہے تواس کے مجرم ہم ہی نہیں۔ انبیاء اور صلحائے امت بھی ہیں۔ پہلے لوگوں نے بھی تو انبیاء علیھم السلام کو(اِنَّا تَطَیَّرْنَا بِکُمْ )[36:یسین:18]کہہ کریہ الزام دیا تھا جو آپ ہمیں دے رہے ہیں۔ لہٰذا اب ہم بھی آپ کو وہی جواب دیتے ہیں جو انبیاء نے ان لوگوں کو دیا تھا۔ یعنی

(قَالُوْا طَائرُکُمْ مَّعَکُمْ اَئنْ ذُکِّرْتُمْ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ )[36:یسین:19]

یعنی اے نادانو! اختلافات اور دیگر آفات کی نحوست تو تمھاری ہی وجہ سے ہے۔ قال اﷲ وقال الرسول کی دعوت دی جائے اور اختلاف پیدا ہو یہ ہر گز نہیں ہو سکتا۔ تمھارا ہی تو قصور ہے جس کی وجہ سے اختلاف ہے۔ کیوں کہ تم صراط مستقیم سے بھٹک گئے ہو اور زیادتیاں کرتے ہو۔

بات یہ ہے کہ کسی پر اختلاف کا چارج لگانے سے پہلے یہ اطمینان کر لینا چاہیے کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر۔ جو حق پر ہو اس کو اختلاف پیدا کرنے والا نہیں کہتے۔ خواہ وہ پہلے ہو یا پیچھے۔ اگر آپ کی حنفیت حق ہے اور ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں تو اختلاف کرنے کے مجرم ہم ہیں‘ ورنہ آپ۔ جو حق کی مخالفت کرتے ہیں۔ آپ اپنی دعوت کو بھی دیکھیں اور ہماری دعوت کو بھی۔ آپ لوگوں کو حنفی بنانا چاہتے ہیں اور ہم محمدی۔ آپ لوگوں کو فقہ حنفی کی دعوت دیتے ہیں اور ہم قرآن و حدیث کی ۔ حنفیت کی دعوت ایک بدعت ہے جو قرون اولیٰ میں نہ تھی ‘ جس کا حکم نہ رسول ﷺ نے دیا‘ نہ کسی امام نے۔ ہماری دعوت قرآن کی دعوت ہے‘ ہمارا دعویٰ ہے کہ موجودہ حنفیت حق نہیں ہے۔ حق صرف قرآن و حدیث ہے۔ یہ حنفیت بعد کی پیداوار ہے جو کہ شخصی تقلید کی بدعت سے پیدا ہوئی ہے۔ آج اگر امام ابوحنیفہ ہوتے تو یقیناً آپ کا ساتھ نہ دیتے۔ ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ وہ قیامت کو بھی آپ کا ساتھ نہ دیں گے۔ اگر آپ ان فرقہ بندیوں سے تائب نہ ہوئے ۔
ایک صاحب فرماتے ہیں کہ آپ کی جماعت نے پمفلٹ منافرت کے لیے شائع کیے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں منافرت کس سے ۔ اگر آپ کہیں کہ انسان کو انسان سے تو میں کہوں گا یہ غلط ہے۔نہ یہ ہمارا مقصد ہے ‘ نہ اسلام کی یہ تعلیم ہے۔ اگر آپ کہیں حنفیت سے تو میں کہوں گا ہاں‘ یہ صحیح ہے۔ ہر سچے مسلمان کا فرض ہے کہ جو چیز اسلام میں افتراق پیدا کرے اس سے لوگوں کو نفرت دلائے۔ تاکہ لوگ اصل دین قرآن و حدیث سے دور نہ ہوں۔
ایک صاحب فرماتے ہیں کہ غلطیاں آپ کی کتابوں میں بھی ہیں اور ہماری کتابوں میں بھی۔ میں کہتا ہوں کہ یہ تو آپ نے ٹھیک تسلیم کیا ہے کہ آپ کی کتابوں میں غلطیاں ہیں لیکن ہمارے بارے میں جو آپ نے کہا ہے کہ وہ صرف اپنے عیب کو چھپانے کے لیے ۔ آپ پہلے یہ تو بتائیں کہ ہماری کتابیں ہیں کون سی ؟ جن کتابوں کے آپ نے نام لکھے ہیں وہ اہل حدیث عالموں کی تو ہو سکتی ہیں لیکن اہل حدیث مذہب کی نہیں۔ اہل حدیث کا مذہب وہ نہیں جو عالموں نے بنایا ہے ‘ اہل حدیث کا مذہب تو قرآن اور صحیح حدیث ہے۔ اہل حدیث کا عقیدہ تو یہ ہے جو قرآن و حدیث کے باہر ہے وہ صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی۔ ماننے کے قابل صرف وہ ہے جو صحیح ہو‘ غلط ماننے کے قابل نہیں۔ یہیں سے تو آپ ہم سے جدا ہوتے ہیں۔ جب تک حنفی نسبت رسمی تھی تقلیدی نہ تھی اس وقت تک تو حنفی بھی اہل سنت تھے ۔ جب سے یہ جذبہ پیدا ہو گیا کہ جو کچھ ہماری فقہ کہے وہ حق ہے خواہ حقیقت میں وہ غلط ہی ہو۔ تو پھر آپ لوگ اہل سنت نہ رہے۔ آج بھی اگر حنفیت اس بات پر آمادہ ہو جائے کہ چاروں‘ نہ صرف چاروں بلکہ جتنے بھی ائمہ اہل سنت گزرے ہیں ان کی تمام وہ باتیں جو صحیح ہیں‘ قابل قبول ہیں اور جو غلط ہیں‘ وہ قابل ترک ہیں‘ خواہ وہ کسی امام کی ہوں یا کسی کتاب کی ۔ تو وہ اہل سنت بن سکتے ہیں‘ لیکن تقلید کہاں ہونے دیتی ہے۔ کہ حنفی جرأت کرکے فقہ حنفی کے غلط مسائل سے دست بردار ہو جائیں۔ اہل حدیث حنفی مذہب کی طرح گروہ بندیوں کی پیداوار نہیں کہ جن کے مخصوص عالم اور مخصوص کتابیں ہوں ‘ جن کا دفاع کرنا ان کا مذہبی فرض ہو۔ مذہب اہل حدیث تو اصل اسلام ہے۔ اسلام کی بات خواہ کسی کے پاس ہو‘ اہل حدیث کی ہے۔ اس کے لینے میں اہل حدیثوں کو قطعاً باک نہیں۔ فرمان نبوی ؐ الحکمۃ ضالۃ المؤمن کا یہی تو مطلب ہے‘ کہ ہر اچھی بات ہماری ہے خواہ کسی امام سے ملے یا کسی عالم سے۔
جناب ! اگر ہم بھی آپ کی طرح اپنے عالموں کے غلط مسئلوں کے پابند ہو جائیں تو پھر آپ میں اور ہم میں‘ ایک مقلد میں اور ایک محقق میں فرق ہی کیا ہے ؟ ہم میں اور آپ میں یہی تو فرق ہے کہ آپ اپنے اماموں اور عالموں کی ہر بات مانتے ہیں ۔ خواہ غلط ہو یا صحیح۔ کیوں کہ تقلید کی وجہ سے مجبور ہیں اور ہم صرف صحیح مانتے ہیں کیوں کہ مجبور نہیں۔ آپ کو کھرا کھوٹا سب کچھ لینا پڑتا ہے ‘ ہم صرف کھرا لیتے ہیں۔ کھوٹا نہیں لیتے۔ ہم احترام تو سب کا کرتے ہیں اور سن بھی ہر ایک کی لیتے ہیں ‘ لیکن عمل اسی پر کرتے ہیں جو صحیح اور اعلیٰ ہو۔ ہم ہی تو ہیں جن پر یہ آیت صادق آتی ہے۔
( فَبِشِّرْ عِبَادِO الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہ ط اُولٰئکَ الَّذِیْنَ ھَدٰھمُ ﷲُ وَ اُولٰئکَ ھُمْ اُولُو الْاَلْبَابِ )[39:الزمر:17-188]

’’یعنی اے رسول پاک میرے ان بندوں کو خوش خبری دے دیں جو سن تو سب کے اقوال لیتے ہیں لیکن پیروی اسی کی کرتے ہیں جو بہتر ہو۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو اﷲ نے ہدایت دی ہے اور یہی عقل والے ہیں۔‘‘
آپ یہ بتائیں کہ جن کتابوں اور عالموں کا نام لے کر آپ ہمیں الزام دیتے ہیں کیا ہم ان کے مقلد ہیں ؟ اگر آپ کے نزدیک مقلد ہیں تو آپ ہمیں غیر مقلد کیوں کہتے ہیں اور اگر مقلد نہیں تو ہمیں ان کا الزام کیوں دیتے ہیں۔ یہ کیا عجیب تضاد ہے۔ ایک طرف تو آپ ہمیں غیر مقلد کہتے ہیں اور دوسری طرف آپ ہمیں بعض عالموں کے غلط مسئلوں کا الزام دیتے ہیں۔ اگر ہم غیر مقلد ہیں تو ہم پر کسی کی غلطی کا الزام کیسا اور اگر مقلد ہیں تو پھر ہم پر غیر مقلد کا طعن کیسا ؟ حقیقت یہ ہے جیسا کہ شاہ عبدالقادر جیلانی نے اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں بھی فرمایا ہے ۔ بدعتی فرقے اہل حق کے نام تو عجیب عجیب رکھتے ہیں۔ لیکن سوچتے نہیں کہ ہم کیا کہتے ہیں۔ صورت حال بالکل وہی ہے جو قرآن نے نبی پاک کے بارے میں بیان کی ہے۔ کبھی اہل مکہ رسول کریم ﷺ کو شاعر کہتے‘ کبھی مجنوں ‘ کبھی ساحر کہتے ‘ کبھی مسحور ‘ کبھی صادق کہتے ‘ کبھی کذاب اس پر اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:
(اُنْظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوْا لَکَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلًا )[17:الاسراء:48]

یعنی دیکھ وہ کیا کیا مثالیں بیان کرتے ہیں ‘ کس قدر بہکے ہوئے ہیں۔ کبھی کچھ کہتے ہیں اور کبھی کچھ ‘ ان کو کوئی سیدھا راستہ سوجھتا ہی نہیں۔
جناب! آپ کوشش تو جواب دینے کی کرتے ہیں ‘ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ جواب بنتا بھی ہے یا نہیں؟ ہم آپ کو الزام آپ کے اماموں کا دیتے ہیں‘ جن کی آپ تقلید کرتے ہیں اور آپ ہمیں الزام ان مولویوں کا دیتے ہیں جن کی ہم تقلید تو درکنار غلطیاں تک نکال سکتے ہیں۔ آپ کا یہ جوابی الزام تب صحیح ہوتا جب ہمارا اعتراض یہ ہوتا کہ حنفی امام اور عالم تو غلطیاں کرتے ہیں اور اہل حدیث عالم نہیں کرتے۔ یہ تو ہمارا اعتراض ہی نہیں۔ اعتراض تو یہ ہے کہ آپ تقلید کی وجہ سے اپنے اماموں اور عالموں کی غلطیوں کو بھی مذہب بنا لیتے ہیں۔ اور ہم ایسا نہیں کرتے۔ اب اگر آپ اس طعن سے بچنا چاہتے ہیں تو ہماری طرح اعلان کردیں کہ ہم کسی کے مقلد نہیں جو مسئلے فقہ حنفی کے خلاف عقل و نقل ہیں ‘ ہم ان سے بھی دست بردار اور جو کسی اور کے ہیں ہم ان سے بھی بیزار۔ جب تک آپ یہ اعلان نہیں کریں گے آپ پر یہ اعتراض قائم رہے گا‘ خواہ آپ ہزار بھاگیں۔
آپ سوچیں اگر ہم کسی کے غلط مسئلے ماننے والے ہوتے تو امام صاحب کے نہ مان لیتے۔ جب ہم غلط مسئلے امام صاحب کے نہیں مانتے تو پھر نواب صاحب کے یا عبدالجلیل صاحب کے کیوں مانیں‘ جو امام صاحب سے کئی درجے نیچے ہیں۔ اصل میں آپ لوگوں نے مذہب اہل حدیث کو سمجھا ہی نہیں۔ اگرآپ سمجھ لیتے تو کبھی اس قسم کے خط لکھنے کی جرأت نہ کرتے۔ آپ ضد اور تعصّب سے کا م نہ لیں۔ حق کے قریب آنے کی کوشش کریں۔ مصیبت یہ ہے کہ آپ کے مذہب میں تعصّب ضروری ہے۔ اگر تعصّب نہ ہو تو تقلید کی گاڑی نہیں چلتی۔ اس کے برعکس اہل حدیث کے لیے تعصّب کی ضرورت ہی نہیں۔ اگر اہل حدیث حنفیوں کے مسئلے کو درست پائے گا تو بلا تکلف عمل کر سکتا ہے۔ اس مسئلے میں وہ حنفی مسلک اختیار کرنے کے بعد بھی اہل حدیث ہی رہے گا۔برعکس اس کے آپ اگر کسی مسئلے کو بدلیں گے تو آپ کا مذہب بدل جائے گا۔ مثال کے طور پر آمین اور رفع الیدین کو ہی لے لیجیے ۔ اگر آپ کی قسمت اچھی ہو اور آپ کو یہ تحقیق ہو جائے کہ رفع الیدین اور آمین رسول کریم ﷺ کی دائمی سنتیں ہیں لہٰذا ان پر عمل کرنا چاہیے تو آپ حنفی رہتے ہوئے ان پر عمل نہیں کر سکتے یا حنفیت جائے گی یا سنت رسول ؐ ۔ جب ہی توہم کہتے ہیں کہ متعصّب حنفی کبھی اہل سنت نہیں بن سکتا آپ خواہ مخواہ ناراض ہوتے ہیں حال آنکہ یہ ایک حقیقت ہے جس سے آپ بھی انکار نہیں کر سکتے۔
خط میں یہ بھی اعتراض کیا گیا ہے کہ ہم آپ کو رسوا کرنے کے لیے ہدایہ اور درمختار وغیرہ سے ایسے مسئلے نکالتے ہیں جن پر خواہ عمل متروک ہی ہو۔ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ آپ اپنی رسوائی کیوں کرواتے ہیں ‘ کیوں نہیں ایسے مسئلوں کو رد کر دیتے؟ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ کیوں ان کے متروک العمل ہونے کا عذر لنگ پیش کرکے ان مسائل کو محل بحث بناتے ہیں اور اپنی رسوائی کرواتے ہیں۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ مسائل متروک العمل ہیں تو اس کے صاف معانی یہ ہوتے ہیں کہ پہلے حنفی تو ان پر عمل کرتے تھے موجودہ نہیں کرتے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب پہلے حنفی موجودہ حنفیوں سے علم وعرفان میں بھی زیادہ تھے اور زہد و ورع میں بھی ۔ ان مسائل پر عمل کرتے تھے تو موجودہ حنفی ان کو متروک العمل کیوں قرار دیتے ہیں؟ آخر اس کی وجہ ؟ کیا یہ مسئلے غلط ہیں جن کی غلطی موجودہ حنفیوں کو معلوم ہوئی اور پہلوں کو نہ ہوسکی۔ یا یہ مسئلے تو صحیح ہیں لیکن ایمان کی کمزوری کی وجہ سے ان پر عمل کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔آپ جو کہتے ہیں کہ یہ مسائل متروک العمل ہیں کھل کر یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ یہ غلط ہیں۔ متروک العمل کے معنی تویہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ مسئلے تو صحیح ہیں ‘ لیکن سستی یا ایمان کی کمزوری کی وجہ سے عمل نہیں ہو رہا۔ شاید کبھی احیاے فقہ کا جذبہ موجزن ہوتو ان پر عمل شروع ہو جائے۔ یا آپ کے نزدیک متروک العمل کے معنی ہی منسوخ کے ہیں۔ اگر منسوخ ہیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مسائل منسوخ کس نے کر دئیے ؟ کیا ایک مقلد کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اپنے ائمہ کے بنائے ہوئے مسئلوں کو منسوخ کردے۔ مقلد کا وظیفہ تو امام کی تقلید ہے‘ نہ کہ اس کے احکام کی تنسیخ۔
ایک صاحب نے تین حدیثیں بخاری و مسلم کی لکھی ہیں اور کہا ہے کہ کیا یہ حدیثیں بخاری و مسلم میں نہیں؟ مقصد ان کا یہ ہے کہ اگر ایسی حدیثیں بخاری و مسلم میں بھی ہیں تو پھر اہل حدیث بھی تو ہمارے جیسے ہی ہیں۔ ہم پر اعتراض کیوں کرتے ہیں‘ ہمیں ایسے حنفی مولویوں پر یہ دیکھ کر بڑا ترس آتا ہے کہ اب جب ان کو یہ یقین ہو گیا کہ ہماری فقہ کے مسئلے ضرور گندے ہیں جن سے ہماری ناک کٹتی ہے تو وہ اس فکر میں ہیں کہ کچھ حدیثیں ایسی نکال کر اہل حدیثوں کو بھی اپنے ساتھ گندا کریں‘ تاکہ وہ ہم پر اعتراص نہ کر سکیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ رسول ﷺ کی حدیث ہی کیا ہوگی جس کو کوئی گندا اور غلط ثابت کر سکے۔ اولا تو ہم ان مولویوں سے پوچھتے ہیں کہ آپ جو ہم پر حدیثوں کا اعتراض کرتے ہیں ‘ کیا آپ حدیثوں کو مانتے ہیں یا نہیں ؟ اگر آپ بھی حدیثوں کو مانتے ہیں تو پھر ہم پر اعتراض کیسا؟ اور اگر نہیں مانتے تو کھل کر کیوں نہ کہہ دیتے کہ ہم پرویزی ہیں‘ ہم منکر حدیث ہیں تاکہ آ پ بھی علما کے متفقہ فتویٰ کفر کا اجرا ہو ۔ اکیلا پرویز ہی بے چارہ کیوں اس کی زد میں آئے؟ آپ پر بھی تو پھر اس کے بھائی ہیں۔ ہم ان مولویوں کی خدمت میں عرض کریں گے کہ آپ نے تو ناک کٹوائی ۔ اب آپ اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ اور بھی کوئی آپ کا ساتھ دے گا۔ یہ زمانہ تقلید کا نہیں تقلید کا زمانہ بیت گیا۔ آپ حدیث کی بھی آڑ نہ لیں۔ حدیث باطل کو ننگا کرنے آئی ہے‘ چھپانے نہیں آئی۔ حدیث کی حیثیت فقہ سے مختلف ہے‘ فقہ حنفی تو حنفی قانون ہے‘ جو حنفیوں کو قرآن و حدیث سے بے نیاز کرنے کے لیے حنفی عالموں نے بنایا ہے‘ جس کی ہر جزئی حنفیوں کے لیے واجب العمل ہے۔ برعکس حدیث کے کہ حدیث کا ایک پہلو تاریخی بھی ہے۔ وہ جہاں احکام بتاتی ہے وہاں ان کا تدریجی ارتقا بھی بتاتی ہے۔ جیسا کہ شراب اور متعہ کی حدیثیں ہیں۔ مولوی صاحبان کی آخری دو حدیثیں جو متعہ کے بارے میں ہیں یہ بتاتی ہیں کہ پہلے اسلام میں متعہ حرام نہیں تھا۔ لوگ یوں کیا کرتے تھے ‘ مسلم اور بخاری کی دوسری حدیثیں بتاتی ہیں کہ پھر متعہ ہمیشہ کے لیے حرام ہو گیا۔ ملاحظہ ہو مسلم شریف ص 482 ج 1 بخاری شریف ص 767 ج 2۔ بعض صحابہ کو اس کی حرمت کا علم نہ ہوا۔حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے زمانہ میں بھی اس کی حرمت کا خاص طور پر اعلان کرا دیا۔ ان مولویوں کا ایسی حدیثوں کا پیش کرنا یا بچوں جیسی حرکت ہے یا پرویزیوں جیسی جرأت ‘ ان کو خدا سے ڈرنا چاہیے۔
رہ گئی حدیث حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا والی ‘ تو اس حدیث کا پیش کرنا بھی ان مولویوں کی عجیب بوکھلاہٹ ہے۔ جو کام پرویز بھی نہ کرتا تھا اب وہ کرنے لگے ہیں۔ پرویز تو صرف غلط مطلب لیتا ہوگا یا انکار کرتا ہوگا ان حضرات نے تحریف بھی کی ہے اور خیانت بھی۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی حدیث میں مباشرت کا لفظ ہے لیکن ساتھ ہی د کان اَمْلَکُکُمُ لِاِرْبِہِ بھی ہے جس کو وہ کھا گئے۔ اگر عبارت پوری ہو تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا والی حدیث پر کوئی  اعتراض ہی نہیں۔ اس میں صرف مباشرت کا لفظ ہے جس سے یہ پرویزی مولوی لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ حالا نکہ مباشرت کا معنی جسم سے جسم ملانا ہے ‘ نہ کہ صحبت کرنا۔ حدیث کی پوری عبارت یہ ہے۔
((عَنْ عَائشَۃَ قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ ﷲِ صَلَّی ﷲُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمْ یُقَبِّلُ وَ یُبَاشِرُ ھُوَ صَائمٌ وَ کَانَ اَمْلَکَکُمْ لِاِرْبِہِ))۱
جس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ آنحضور ﷺ روزے کی حالت میں بوسہ بھی لیتے تھے اور گلے بھی مل لیتے تھے لیکن آپ کو جو اپنی خواہش پر قابو تھا۔ تم میں سے کسی کو نہیں۔ لہٰذا تمھارے لیے اتنا بھی جائز نہیں۔ جیسا کہ ایک دوسری حدیث اس کی وضاحت کرتی ہے جس کے الفاظ ہیں:
(( وَ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَجُلاً سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی ﷲُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ عَنِ الْمُبَاشِرَۃِ لِلصَّائمِ فَرَخَّصَ لَہ‘ وَ اَتَاہُ اٰخَرُ فَسْئالَہ‘ فَنَھَاہُ فَاِذَا الَّذِیْ رَخَصَ لَہ‘ شَیْخٌ وَ اِذَا الَّذِیْ نَھَاہُ شَابٌّ ))۲
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضور ﷺ سے روزے کی حالت میں مباشرت کے بارے میں سوال کیا۔ آپ نے اس کو اجازت دے دی۔ ایک اور شخص نے وہی سوال کیا۔ لیکن آپ نے اس کو اجازت نہ دی۔ جس کو آپ نے مباشرت کی اجازت دی تھی وہ بوڑھا تھا اور جس کو اجازت نہ دی تھی وہ جوان تھا۔ اس حدیث سے واضح ہے کہ حضرت عائشہؓ کی حدیث میں مباشرت کے معنی صحبت نہیں ۔ بلکہ پیار و محبت کے ہیں۔ پتا نہیں ان مولویوں کو حدیث کا علم نہیں یا ان کی نیت اچھی نہیں۔ ہمارا تو پہلے ہی ایمان ہے کہ ایک مقلد کے دل میں حدیث کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ اسے تو صرف اپنی فقہ کی
فکر ہوتی ہے ‘ جسے وہ ہر قیمت پر بچاتا ہے۔ خواہ اسے حدیث کو ہی بطور قیمت دینا پڑے۔ ہم یہ کہا کرتے تھے ‘ لیکن بعض کی سمجھ میں یہ بات نہیںآتی تھی ‘اب دعوت حق و اتحاد نے آخر یہ حقیقت بھی آشکار کر دی کہ کیسے ایک مقلد اپنی فقہ کے لغو اور غلط مسائل کو بچانے کی خاطر حدیث کو پامال کرتا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک مقلد بیک وقت دو آقاؤں کو خوش نہیں کر سکتا۔ یا وہ حنفی ہوگا یا محمدی ۔۔۔ یا وہ فقہ کی ڈوبنے والی کشتی میں ہوگا یا قرآن وحدیث کے سفینہ نجات میں ۔ کسی پنجابی شاعر نے کیا خوب کہا ہے؂

کی نقص نبیؐ وچ ڈٹھا جو نسبت  نبیوں توڑی
نسبت توڑ مدینے ولوں کوفے دے ول جوڑی

و ما علینا الا البلاغ

*****
۱ ( صحیح مسلم‘ کتاب الصیام ‘ باب بیان ان القبلۃ فی الصوم لیست محرمۃ علی من لم تحرک شھوتہ‘ ص 854 رقم 65 ۔۔۔ صحیح البخاری ‘ کتاب الصوم ‘ باب المباشرۃ للصائم ص 150 رقم1927)
۲ (ابوداؤد‘ کتاب الصوم ‘ باب کراھیتہ للشاب‘ ص 1400 رقم 2387۔۔ مشکوۃ ‘کتاب الصوم ‘ باب تنزیہ الصوم‘ رقم 2006)