دعوت حق و اتحاد

دعوت حق و اتحاد

حنفی بھائیو! آؤ مل کر سوچیں کہ ہمارا تمھارا اتحاد کیسے ہو سکتا ہے ؟قرآن مجید میں ہے:
(قُلْ یٰاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَنْ لاَّ نَعْبُدَ اِلاَّ ﷲَ وَ لاَ نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئا وَّ لاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ ﷲِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوْا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ)[3:آل عمران:64]

تو کہ اے اہل کتاب ! آؤ اس ایک کلمے پر جمع ہو جائیں جو ہمارے تمھارے درمیان مشترک ہے۔ آؤ یہ بھی اقرار کریں کہ اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں گے اور نہ ہی اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں گے اور نہ کسی بڑے کی تقلید کریں گے اور ( اگر وہ مان جائیں تو صلح ہے) ورنہ تم اعلان کردو کہ اے دنیا کے لوگو!تم گواہ رہنا کہ ہم صحیح معنوں میں مسلمان ہیں۔
اس آیت کریمہ میں اتحاد کا ایک اصول بیان کیا گیا ہے جو چار دفعات پر مشتمل ہے۔
ایک ایجابی تین سلبی۔۔۔۔ ایجابی یہ کہ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ ﷲُ مُحَمَّدَ رَّسُوْلُ ﷲِ (یعنی قرآن و حدیث پر کاربند رہنا ہوگا) اور سلبی یہ کہ نہ عملاً شرک کرنا ہوگااور نہ اعتقادًا اور تقلید بھی کسی کی نہ کرنا ہوگی۔
اتحاد ایک بڑی ضروری چیز ہے بلکہ اب وقت کی سب سے بڑی پکار یہی ہے۔ کہ ہم ایک ہو کر ‘ دین کو اغیار کے حملوں سے بچائیں۔
کتنا تعجب ہے کہ جب اﷲ ایک ‘ اس کا دین ایک‘ تو ہم حنفی ‘ شافعی‘ مالکی ‘ حنبلی کیوں؟ یہ حنفی نماز ‘ وہ شافعی ۔۔۔ یہ ہماری حدیث ‘ وہ ان کی۔۔۔ نماز اﷲ کی اور حدیث رسول اﷲ ﷺ کی۔ اگر حدیث صحیح ہے تو سب کی ‘ورنہ کسی کی بھی نہیں۔
سعودی حکومت کو اﷲ خیر دے کہ اس نے چاروں مصلوں کو لپیٹ دیا ہے۔ آپ بھی حنفی ‘ شافعی ‘ مالکی‘ حنبلی کی خانہ ساز تقسیم ختم کردیں اور قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح ایک ہو جائیں ۔ وہ نہ حنفی تھے نہ شافعی۔ وہ باوجود فروعی اختلافات کے ایک تھے۔ صرف اس لیے کہ ان میں شخصی تقلید کی آفت نہ تھی۔ جب وہ حنفی شافعی اور صدیقی فاروقی وغیرہ کچھ نہ تھے۔ لیکن ہم سے زیادہ دین دار تھے تو آخر آج ہم ان کے نقش قدم پر چل کر بغیر حنفی شافعی بنے دین دار کیوں نہیں ہو سکتے۔ ان کو مسئلے کی ضرورت ہوتی تو کسی ایک عالم سے بلا تعیین پوچھ لیتے۔ آج ہمیں بھی یہی کرنا چاہیے‘ اور قرآن کا حکم بھی یہی ہے۔

(فَاسْئلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ O بِالْبَیِّنٰتِ وَالزُّبُرِ )[16:النحل:43-44]

’’یعنی اگر مسئلے کا علم نہ ہو تو اہل علم سے بلا تعیین پوچھ لیا کرو۔‘‘
آپ نے پہلا ستم یہ کیا کہ ائمہ دین میں سے چار کو چھانٹا اور پھر چار میں سے ایک کو لیا اور اس کے مقلد بن گئے۔
اگر اہل سنت کے امام صرف اور لازماً چار ہیں تو پھر خود صرف حنفی بن کر کیوں رہ گئے ۔ کیا صرف حنفی بننے سے بقیہ تین اماموں کا انکار لازم نہیں آتا ؟ اگر آتا ہے تو پھر آپ میں اور شیعہ میں کتنا فرق رہ جاتا ہے۔انھوں نے چار میں سے تین خلیفوں کا انکار کیا اور آ پ نے چار میں سے تین اماموں کا ہم نے ان کو بھی سمجھایا اور آپ کو بھی لیکن آپ لوگ نہ مانے۔ وہ ایک خلیفہ کو لے کر علیحدہ ہو گئے اور آپ ایک امام کو لے کر ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت علی کرم اﷲ وجہ ان کے ساتھ نہیں اور حضرت امام ابوحنیفہ ؒ آپ کے ساتھ نہیں۔ وہ یقیناًقیامت کے دن اس سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔ اﷲ والے ‘ اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ نہیں جایا کرتے اور نہ ہی وہ ایسی امتیں بنایا کرتے ہیں۔ کیوں کہ نہ حضرت علیؓ نے شیعہ کو کہا کہ یوں کرنا اور نہ امام ابوحنیفہ ؒ نے آپ کو ایسا کرنے کا حکم دیا۔ کیا دنیا کا کوئی حنفی یہ دکھا سکتا ہے کہ امام صاحب نے کبھی یہ حکم دیا ہو یا خواہش ظاہر کی ہو کہ میری تقلید کرنا۔ وہ تو یہی کہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے کہ:
’’
بغیردلیل کے میری بات کو نہ لینا ‘ یعنی تقلید نہ کرنا‘‘
لیکن حنفی علما ہیں کہ دین محمدی کو چھوڑکر دین حنفی کی تبلیغ کرتے ہیں اور امام ابوحنیفہؒ کی تقلید کی دعوت دیتے ہیں اور حقیقت میں یہ امام صاحب پر ظلم ہے۔
یاد رکھئیے! آپ صرف حنفی بن کرپورے اہل سنت کبھی نہیں بن سکتے‘ کیوں کہ آپ کے خیال میں اہل سنت کے چار امام ہیں۔ اب اگر چاروں حق پر ہیں تو آپ ایک چوتھائی اہل سنت ہیں۔ کیوں کہ چاروں میں آپ صرف ایک امام کے مقلد ہیں۔
اگر اس کے باوجود آپ اہل سنت ہونے کا دعویٰ کریں تو پھر باقی تین امام اہل سنت نہیں رہتے کیوں کہ ’’ جہاں اختلاف ہوگا وہاں حق ایک کے پاس ہوگا‘‘ جیسے امام کے پیچھے الحمد کا پڑھنا ہے۔
امام شافعی ؒ کہتے ہیں:
’’
الحمد کے بغیر نماز نہیں ہوتی‘ خواہ امام کے پیچھے ہی ہو۔‘‘
’’
امام ابوحنیفہ ؒ پڑھنے سے منع کرتے ہیں بلکہ منھ میں آگ پڑنے کی وعید سناتے ہیں۔‘‘
اب جس کا مسئلہ سنت رسولؐ کے مطابق ہوگا وہ ٹھیک اور دوسرا غلط۔ مسئلہ خلاف سنت میں تقلید کرنے والا اہل سنت کہاں ؟
اگر آپ یہ کہیں کہ اہل سنت کے چار امام ہونے کے معنی یہ ہیں کہ حق ان چاروں کے اندر دائر ہے یعنی کبھی کسی کی بات حق ہوتی ہے ‘ کبھی کسی کی تو بھی کسی خاص امام کی تقلید کرنے والے شخص کے بعض مسائل ضرور خلاف سنت ہوں گے۔
غرض کسی ایک کی تقلید کرنے والا ناقص العقل والدین ضرور رہے گا اس کو اصل اور مکمل چیز کبھی نہیں مل سکتی۔
اگر آپ صحیح معنوں میں اہل سنت بننا چاہتے ہیں تو سنت کی تلاش کریں
خواہ وہ کسی امام سے ملے‘ اگر آپ نے کسی ایک خاص امام کی تقلید کی تو آپ کا دین کبھی مکمل نہیں ہوگا ۔ کیوں کہ نبی کا سارا علم کسی ایک سینے میں جمع نہیں ہو سکتا۔ ہاں اگر آپ کا یہ دعویٰ ہو کہ رسول کریم ﷺکا سارا علم امام صاحب کے پاس تھا تو پھر خوشی سے تقلید کریں۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ یہ دعویٰ بڑا خطرناک ہے۔ اگر یہ دعویٰ نہیں تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ مقلد کا دین ہمیشہ ناقص رہتا ہے۔ کیوں کہ اس کو اپنے امام سے سب مسائل نہیں مل سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہ حنفی کے ایک نہیں‘ دو نہیں۔ سینکڑوں مسائل ایسے ہیں جو غلط ہیں ‘ جو یا تو خودساختہ ہیں یا صحیح حدیثوں کے خلاف ہیں یاموضوع اور ضعیف احادیث پر مبنی ہیں۔
آپ سمجھتے ہوں گے کہ فقہ کی یہ کتابیں جو پڑھی پڑھائی جاتی ہیں ‘ جن سے آپ کی زندگی موت کے فیصلے ہوتے ہیں‘ جن کے مقابلے میںآپ بخاری و مسلم کو بھی خاطر میں نہیں لاتے‘ امام صاحب کی ہیں۔ حاشا وکَلاًّ۔۔! نہ یہ کتابیں امام صاحب کی ہیں ‘ نہ ان کے اکثر مسئلے امام صاحب کے ہیں۔
حق تو یہ ہے کہ موجودہ کتب فقہ میں سے کوئی کتاب بھی امام صاحب کی نہیں‘ بلکہ ان کے اکثر مسائل کی نسبت بھی امام صاحب کی طرف صحیح نہیں۔
آج ساری حنفی دنیا بھی سر جوڑ کر بیٹھ جائے تو فقہ کے صرف چند مسائل کو بھی امام صاحب تک بطریق محدثین مسند نہیں کر سکتے۔
یہ کتنا بڑا دھوکا ہے کہ عوام تو موجودہ فقہ کو امام صاحب کی فقہ سمجھ کر سینے سے لگائے پھرتے ہیں اور حقیقت میں یہ ان کی ہے نہیں۔! عوام یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صرف ایک امام کی تقلید کرتے ہیں اور حقیقت میں ان کی تقلید شخصی نہیں ‘ لکھی کروڑی ہے۔

فقہ حنفی کے مسائل

فقہ حنفی کے مسائل کسی ایک شخص کے بنائے ہوئے نہیں‘ جو آتا گیا‘ بناتا گیا۔ جن میں بعض غیر محتاط تھے اور بعض حدیث سے بے خبر۔ بعض معتزلی‘ جہمی‘ رافضی وغیرہ گمراہ فرقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ملاحظہ ہو الفوائد البھیہ للفاضل الکہنوی ‘ حجۃ اﷲ البالغہ ‘ منہاج السنۃ وغیرہ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج فقہ حنفی میں بھانت بھانت کی چیزیں ملتی ہیں۔ کہیں صحابہ کرامؓ کی توہین ہے‘ کہیں ائمہ کرام کی تحقیر‘ کہیں صحیح حدیثوں سے انکار ہے ‘کہیں حیاسوز مسئلے ہیں اور کہیں ہو شربا چٹکلے۔ نمونے کے لیے چند ایک ملاحظہ ہوں۔

صحابہ کرام پر جرح

دون الفقہ کانسؓ و ابی ہریرۃؓ ۔۔ یعنی حضرت ابوہریرہؓ اور حصرت انسؓ غیر فقیہ ۔ یعنی سمجھ دار عالم نہ تھے۔ ان کی صحیح حدیث کو بھی قیاس کے مقابلے میں ترک کر دیا جائے گا۔ ۱
وابصہ بن معبدؓ صحابی رسول مجہول تھے۔
صحابہ کرام ؓ پر بہتان
وَ قَدْ رُوِیَ اَنَّ اَبَابَکْرٍ کَانَ یُصَافِحُ الْعِجَائزِ ۲
(
یعنی حضرت ابوبکر ؓ بوڑھی عورتوں سے مصافحہ کیا کرتے تھے) حال آنکہ یہ بالکل جھوٹ ہے‘ کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں۔
وَ کَانَ ابْنُ عُمَرَ یَقُوْلُ الاَوْلٰی اَنْ یَنْظُرْ لِیَکُوْنَ اَبْلَغَ فِیْ تَحْصِیْلِ مَعَنَی الَّلذَّۃِ ۳
(
یعنی حضرت ابن عمرؓ فرماتے تھے کہ بہتر یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کی شرمگاہ کو دیکھ لیا کرے تاکہ مجامعت میں خوب لذت حاصل ہو)۔۔۔۔ حال آنکہ یہ ان پر بہتان ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ پر الزام
اپنا مسئلہ ثابت کرنے کے لیے چار رکعت والی نماز میں نمازی کو اختیار ہے کہ پچھلی دو رکعتوں میں کچھ پڑھے یا نہ۔۔ اگر چاہے تو سبحان اﷲ کہہ لے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے ذمے یہ الزام لگایا کہ ان سے یہی مروی ہے۔ وَ ھُوَ الْمَاْثُوْرُ عَنْ عَائشَۃَ ۴ حالا نکہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے قطعاً یہ ثابت نہیں۔
حضرت عثمانؓ کے خلاف غلط بیانی
حضرت عثمانؓ کے بارے میں یہ گھڑا ہے اِنَّہ‘ قَالَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ فَارْتَجَ عَلَیْہِ وَ نَزَلَ وَ صَلَّی ۵ (یعنی حضرت عثمانؓ جمعہ کے خطبہ کے لیے منبر پر چڑھے ۔  الحمدﷲ کے سوا کچھ نہ کہہ سکے ‘ اتر آئے اور نماز پڑھا دی۔ ) یعنی وہ منبر پر چڑھ کر دو لفظ بھی عربی نہ بول سکے۔ یہ حدیث اس لیے گھڑی کہ اپنا مسئلہ ثابت ہو جائے کہ اگر صرف اﷲ کا ذکر ہی جمعہ کے خطبہ میں کر لے تو کافی ہے۔
خود ساختہ مسئلے
درمختار میں ہے ’’ وَ لاَ صَلٰوۃَ حَامِلُہ‘ وَ لَوْ کَبِیْرًا‘‘ یعنی اگر بڑے کتے کو بھی اٹھا کر نماز پڑھے تو نماز فاسد نہ ہوگی۔
درمختار میں ہے: ’’یَتَّخِذُجِلْدَہ‘ مُصَلًّی وَّدَلْوًا ‘‘۶ کتے کی کھال کا مصلی بھی بنایا جاسکتا ہے اور ڈول بھی۔
شامی میں صاحب ہدایہ کے حوالہ سے ہے: لَوْ رَعَفَ فَکَتَبَ الْفَاتِحَۃَ بِالدَّمِ عَلٰی جِبْھَتِہٖ وَ اَنْفِہٖ جَازَ لِلْاِسْتِشْفَاءِ وَ بِالْبَوْلِ اَیْضًا ۷ (یعنی اگر نکسیر پھوٹتی ہو تو بطور علاج سورہ فاتحہ کو اپنی پیشانی اور ناک پر خون اور پیشاب سے لکھنا جائز ہے )
بسم اﷲ پڑھ کر
وَ مَا طَھُرَ جِلْدُہ‘ بِالدَّبَاغِ طَھُرَبِالذَّکَاۃِ وَ کَذٰلِکَ جَمِیعُ اَجْزَائہٖ ۸
(
یعنی اگر بسم اﷲ پڑھ کر کتے کو ذبح کیا جائے تو اس کی کھال گوشت بلکہ تمام اجزاء پاک ہو جائیں گے )
امامت کے مدارج
امامت کے مدارج میں یہ مدارج بھی قابل لحاظ ہیں:
’’ثُمَّ الْاَحْسَنُ زَوْجَۃً‘ ثُمَّ الْاَکْبَرُ رَاْسًا وَالْاَصْغَرُ عُضْوًا‘‘۹
یعنی اگر اور اوصاف میں برابر ہوں تو پھر امام وہ ہوگا جس کی بیوی زیادہ حسین ہو‘ پھر جس کا سر بڑا اور عضو چھوٹا۔‘‘
محرمات ابدیہ سے نکاح پر حد نہیں
مَنْ تَزَوَّجَ اِمْرَاَۃً لاَ یَحِلُّ لِنَکَاحِھَا فَوَطَیَھَا لاَ یَجِبُّ عَلَیْہِ الْحَدُّ عِنْدَ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ۔ ۱۰
(
اگر کوئی شخص جانتے ہوئے بھی اپنی محرمات ابدیہ (ماں ‘بہن‘ بیٹی ) وغیرہ سے نکاح کر کے صحبت کرے تو امام صاحب کے نزدیک اس پر حد نہیں بلکہ تعزیر ہے۔
اگر کوئی حنفی ‘ شافعی بن جائے تو بھی تعزیر ہے۱۱
اجرت دے کر زنا کیا تو کوئی حد نہیں
وَبِالزِّنَا بِمُسْتَاجِرَۃٍ (الکنز ) ۱۲
اگرکوئی اجرت دے کر زنا کرے تو کوئی حد نہیں۔
مَنْ مَسَّ اِمْرَأۃً بِشَھْوَۃٍ۔۔۔ الخ۱۳
یعنی کسی مرد نے کسی عورت کو شہوت سے ہاتھ لگادیا تو اس عورت کی ماں اور بیٹی اس مرد پر حرام‘ لیکن اگر ہاتھ لگانے سے انزال ہو گیا یا اسی عورت سے فعل لواطت کر لیا تو حرمت ثابت نہ ہوگی۔
یہ چند ایک معتبر حوالے ہیں جن سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کتب فقہ یا ان کے مسائل امام صاحب کے ہیں یا نہیں؟
حوالہ جات سے کوئی عالم انکار نہیں کر سکتا ۔ اگر حوالے غلط ہوں تو ہم مجرم ‘ اور اگر صحیح ہوں اور ان شاء اﷲ لازماً صحیح ہیں تو آپ ہم پر خفا نہ ہوں خود کو ملامت کریں کہ قرآن و حدیث کو چھوڑ کرآپ کہاں دلدل میں پھنس گئے۔
(وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ ﷲِ جَمِیْعًا وَّ لاَ تَفَرَّقُوْا)[3:آل عمران:103]

اﷲ کی رسی یعنی قرآن و حدیث کو پکڑو اور فرقے نہ بنو۔

وَ مَا عَلَیْنَا اِلاَّ الْبَلاَغ
*****

۱(نورا الانوار ‘ باب اقام السنۃ ص 179)
۲ (ہدایہ459/4کتاب الکراھیۃ فصل الوطی والنظر والمس )
۳(ہدایہ ک461/4 کتاب الکراھیۃ )
۴ (ہدایہ 128/1کتاب الصلوۃ ‘ باب النوافل)
۵ ہدایہ ‘ کتاب الصلاۃ ‘ باب الجمعۃ 149/1
۶ درمختار ‘ کتاب الطہارۃ ‘ باب المیاہ 153/1
۷ رد المختار کتاب الطہارۃ ‘ باب المیاہ مطلب فی التداوی بالمحرم 154/1
۸ ہدایہ کتاب الطہارۃ ‘باب الماہ الذی یجوز بہ الوضوء و مالا یجوز بہ۔41/1
۹ درمختار ‘ کتاب الصلاۃ ‘ باب الامامۃ 568/1
۱۰ ہدایہ ‘ کتاب الحدود‘ باب الوطی الذی یوجبہ الحد والذی لا یوجبہ علیہ الحد 496/2
۱۱ درمختار ‘ کتاب الحدود‘ باب التعزیر 80/4
۱۲ فتاویٰ عالمگیری‘ کتاب الحدود‘ باب الوطی الذی یوجب الحد والذی لا یوجبہ 147/2‘ درمختار کتاب الحدود ‘ باب الوطی الذی یوجب الحد و الذی لا یجبہ 29/4) ۱۳ فتاوٰی عالمگیری ‘ کتاب النکاح ‘ باب محرمات 141/2