اہل سنت کی دعوت

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

میں اہل سنت والجماعت ہوں اور تھا اور اﷲ کرے کہ رہوں ‘ لیکن اصلی‘ نقلی نہیں‘ جیسے آج کل نقلی سید ‘ اصلی سیدوں پر غالب ہیں۔ ایسے ہی آج نقلی اہل سنت اصلی اہل سنتوں پر چھا گئے ہیں۔ اس لیے اصلی اہل سنت آج کل خال خال نظر آتے ہیں اور نقلی اہل سنت ہر جا۔ اﷲ تمام مسلمانوں کو اصلی اہل سنت بنائے اور نقلی اہل سنتوں سے بچائے۔! جب امام ابوحنیفہ ؒ جیسے اصلی اور مثالی اہل سنت کو دیکھا جاتا ہے تو آج کل کے بڑے بڑے علامہ بھی نقلی نظر آتے ہیں۔
اویسی صاحب چونکہ آپ بھی بہت بڑے علامہ ہیں‘ بڑے فخر ومباہات سے اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں ۔ اویسیہ رضویہ ‘ قادریہ وغیرہ وغیرہ پتا نہیں کتنے سلسلوں سے آپ منسلک ہیں‘ بیعت دینا آپ کا مذہب ہے‘ میں آپ سے دریافت کرتا ہوں کہ کیا بیعت لینے دینے کا یہ سلسلہ امام ابوحنیفہؒ کے ہاں بھی جاری تھا؟ جب تک امام ابوحنیفہ صاحب کامل نہیں تھے ‘ ان کا پیرومرشد کون تھا؟ وہ کس سے بیعت تھے۔ جب کامل ہو کر مسند پر جلوہ افروز ہوگئے تو انھوں نے بیعت لے کر کس کس کو مرید بنایا اور کس کو خلیفہ مجاز۔؟
پھر امام صاحب کے بعد ان کے شاگردان رشید امام ابویوسف‘ امام محمد وغیرہ بھی مرید بناتے اور بیعت لیتے تھے یا نہیں ؟ اصحاب ثلاثہ امام ابوحنیفہ ؒ ‘ امام ابو یوسف ؒ ‘ امام محمد ؒ میں سے کسی نے اگر یہ کام کیا ہو تو اس کا مستند ثبوت دیں اور اگر کسی نے بھی یہ کا م نہیں کیا جیسا کہ ظاہر و باہر ہے تو آپ کیوں کرتے ہیں ؟ کیا یہ حنفیت ہے ؟ یہ کیسا عجیب تضاد ہے کہ حنفی دنیا تو ساری پیری مریدی کے چکر میں ہو اور ان کے اماموں کو اس کا پتا تک نہ ہو۔ کیا ان ائمہ کو اس مسئلہ کا علم نہ تھا یا پیری مریدی اس وقت کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ اگر ان کو اتنے بڑے مسئلہ کا علم نہیں تھا تو وہ امام کیسے ؟ اور اگر یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا تو ایسی بدعت کرنے والے آپ حنفی کیسے ؟ امام ابوحنیفہ ؒ سے اگر یہ پیری مریدی ثابت نہیں تو کیا اہل سنت کے چاروں اماموں میں سے کسی سے ثابت ہے؟ اگر چاروں میں سے کسی سے بھی ثابت نہیں اور یقیناًثابت نہیں تو پھر پیری مریدی کرنے والے آپ لوگ اماموں کے منکر ہوئے یا نہیں ؟ اگر آپ کہیں کہ بیعت تو حضور ﷺ بھی لیتے تھے یہ تو سنت نبوی ہے اور قرآن و حدیث سے ثابت ہے تو میں پوچھتا ہوں کہ اگر یہ سنت ہے تو کس کس صحابی نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں اس سنت پرعمل کیا اور کس کس نے بعد میں؟ اگر یہ سنت ہے تو اماموں نے اس پر عمل کیوں نہیں کیا ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک سنت ہو اور صحابہؓ اور ائمہ اس پر عمل نہ کریں ۔ اب آپ کو چاہیے کہ یا اصحاب رسول مقبول ﷺ اور ائمہ اربعہ سے اس پیری مریدی کو ثابت کریں ورنہ اہل سنت والجماعت کے پاک نام کو ترک کر دیں تاکہ یہ مقدس نام تو بدنام نہ ہو ۔ آپ تو جو ہیں سو ہیں۔
آپ اور آپ کے سلسلے کے تمام علما مسلکاً حنفی ہیں اور مشرباً چشتی‘ قادری‘ سہروردی۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ کا مسلک حنفی ہے تو مشرب حنفی کیوں نہیں ؟ کیا امام صاحب کا مشرب صحیح نہیں تھا یا اس میں کامل نہیں تھے تو وہ امام کیسے بن گئے۔ جس کا مشرب صحیح نہ ہو تو وہ صحیح مسلمان نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ کہ وہ امام ہو۔ جب عقائد مسلک اور مشرب دین کا لازمی جزو ہیں اگر ان میں سے ایک بھی صحیح نہ ہو تو دین صحیح نہیں ہوتا اور پھر یہ بھی مسلم ہے کہ ان تینوں کا سرچشمہ بھی ایک ہے۔ یعنی مسلک ‘ مشرب اورعقائد میں سب کا ماخذ صرف قرآن و حدیث ہیں۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں ۔ پھر کیا وجہ کہ مشرب اور عقائد میں آپ نے امام ابوحنیفہ ؒ کو چھوڑ دیا۔ کیا مشرب اور عقائد میں امام صاحب کامل نہ تھے۔ اگر کامل نہ تھے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ قرآن و حدیث میں کامل نہ تھے‘ کیوں کہ یہ قرآن و حدیث سے ہی تو مستنبط ہیں۔ جب امام صاحب قرآن و حدیث سے اپنے مشرب اور عقائد کو کماحقہ اخذ نہ کر سکے تو انھوں نے فقہی استنباط کیا کیا ہوگا اور اس کا کیا اعتبارہوگا؟ جب آپ نے امام صاحب کے عقائد اور مشرب کو قبول نہیں کیا بلکہ عقائد میں ’’ماتریدی‘‘ اور مشرب میں قادری چشتی وغیرہ بن گئے تو ان کے مسلک کو کیوں قبول کر لیا۔ حال آنکہ عقائد مشرب و مسلک پر مقدم ہیں۔ عقائد بنیاد ہیں باقی سب اس کی فرع۔ اگر آپ کہیں امام صاحب مشرب و مسلک پر مقدم ہیں ۔ عقائد بنیاد ہیں ‘ باقی سب اس کی فروع۔ اگر آپ کہیں امام صاحب کو مشرب و عقائد میں امامت کا درجہ حاصل تھا تو میں کہوں گا یہ بالکل درست ہے ‘ لیکن پھر آپ مشرب وعقائد میں ان کو چھوڑ کر آدھے تیتر آدھے بٹیر یعنی چشتی ‘ حنفی ‘ قادری حنفی کیوں بن گئے۔ خالص حنفی کیوں نہ رہے‘ کہ مشرب بھی حنفی ہوتا اور مسلک بھی حنفی اور عقائد بھی حنفی۔ کیا صرف اس لیے کہ خالص حنفیت میں بدعات کی وہ کھل کھیل نہیں جو مختلف ناموں کے تحت مل سکتی ہے۔
آخر یہ وقت آنا تھا حضور نے سچ فرمایا کہ :
((وَ اِنَّہ‘ سَیَخْرُجُ فِیْ اُمَّتِیْ اَقْوَامٌ تَتَجَارٰی بِھِمْ تِلْکَ الْاَھْوَاءُ کَمَا یَتَجَارٰی الْکَلْبُ بِصَاحِبِہٖ لاَ یَبْقٰی مِنْہُ عِرْقٌ وَ لاَ مَفْصِلٌ اِلاَّ دَخَلَہ‘ )) ۱
میری امت میں ایسی جماعتیں ضرور پید ا ہوں گی کہ ان میں بدعات اور خود ساختہ دین کا مرض اس طرح سرایت کر جائے گا جیسے پاگل کتے کے کاٹے کا مرض تمام جسم میں سرایت کر جاتا ہے کہ کوئی رگ اور جوڑ اس سے نہیں بچتا۔ یہی حال آج کل کے اہل سنت کا ہے کہ بدعتوں سے ان کا دل بھرتا ہی نہیں ۔ نت نئی بدعت گھڑتے ہیں ‘ اول تو یہ تقلید خود بدعت ہے‘ لیکن اگر خالص حنفیت ہی رہتی تو بھی اتنی بدعات کبھی نہ آتیں جو اب ہیں۔ چونکہ مزاج میں بدعت سرایت کر گئی ہے اس لیے ا ب سادہ حنفیت پر قناعت نہیں ہوتی بلکہ چشتی قادری ‘ اویسی ‘ رضوی وغیرہ پتا نہیں کیا کچھ بنتے ہیں اور ذکر و سلوک کے نام پر ایسی ایسی بدعتیں کرتے ہیں جو کہ امام صاحب کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوں۔
اویسی صاحب عیسیٰ کو تو چھوڑیں اس کا تو ذکر ہی کیا کرنا ہے وہ بے چارہ تو مرفوع القلم اور طفیلی محض ہے۔ آپ بتائیں یہ ذکر کی ضربیں یہ یا علی کے نعرے‘ یہ ادرکنی اور اغثنی کے نالے ‘ امام صاحب بھی لگایا کرتے تھے یا آپ کا ہی حصہ ہیں۔ اگر یہ آپ ہی کا حصہ ہیں تو خدارا! اس وقت سے ڈرئیے جب آپ کے معتقد (رَبَّنَا ھٰؤُلاَءِ اَضَلُّوْنَا فَاْتِھِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ)[7:الاعراف:38]کہ کر فریادیں کریں گے۔ اور اﷲ ( لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَّ لٰکِنْ لاَّ تَعْلَمُوْنَ )[7:الاعراف:38]کہ کر داخل کرے گا۔

میں آخر میں اپنے اہل سنت بھائیوں سے درد مندانہ اپیل کرتا ہوں کہ خدارا! ہر ذکر‘ ہر فکر ‘ ہر عمل سے پہلے دیکھ لیں کہ یہ حضور ﷺ سے ثابت بھی ہے کہ نہیں۔ اﷲ کے ہاں ثواب نبیؐ کی پیروی میں ہے ‘ عمل میں نہیں۔ عمل تو تھوڑا ہو یا بہت اگر سنت کے مطابق ہے تو اجر ہے ورنہ زجر۔ عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کی غلط محبت میں ہی تو مارے گئے۔ نام عیسیٰ کا چومتے رہے اور مرضی اپنی کرتے رہے۔ اﷲ نے فرمایا: ( وَ رَھْبَانِیَّۃَ اِبْتَدَعُوْھَا مَا کَتَبْنَاھَا عَلَیْھِمْ )[57:الحدید:27]عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں نے رہبانیت کی بدعت گھڑ لی حال آنکہ ہم نے اس کا حکم نہیں دیا تھا۔ چنانچہ وہ رو سیاہ ہو گئے ۔ آج ہمارا حال بھی ایسا ہی ہے ‘ ہم بھی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں‘ لیکن صرف نام کی حد تک۔ باقی کام اپنے کرتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں دیکھتے کہ حضور ﷺ کا طریقہ کیا تھا اور ہم کیا کرتے ہیں؟ اگر ہم ذرا بھی غور کریں تو بہت سی بدعات سے بچ جائیں ۔ صرف اتنی سی ضرورت ہے کہ اپنے مولوی سے کہیں یا حضرت جو آپ فرماتے ہیں مجھے ذرا دکھا دیں قرآن و حدیث میں کہاں لکھا ہے ‘ ہمیں نہ تو فرقوں کے پیچھے جانا ہے ‘ نہ مولویوں کے ۔ یہ سب اپنے بنائے ہوئے ہیں ۔ بریلوی فرقہ ہندوستان میں بنا ہے ‘ وہابی عرب میں۔۔ ہمیں کسی کو نہیں دیکھنا چاہیے۔ ہمیں قرآن و حدیث کو لینا چاہیے۔ دین تو نہ عبداﷲ وہابی کا ہے ‘ نہ اویسی بریلوی کا ۔ دین تو اﷲ کے رسول ﷺ کا ہے جو عرب سے آیا ہے‘ جو اﷲ کے رسولؐ کہیں وہ دین ہے‘ جو عبداﷲ اور اویسی کہیں وہ دین نہیں ۔ ہمیں نہ عبداﷲ سے دشمنی ‘ نہ اویسی سے بغض۔ ہمیں تو حق سے سروکار ہے۔ میں تو خدا کا ہزار ہزار شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اصلی اہل سنت بننے کی توفیق دی ورنہ پہلے میرا حال بھی ایسا ہی تھا ۔ مجھے اویسی صاحب سے عقیدت تھی لیکن عبداﷲ صاحب سے بھی نفرت نہ تھی۔ میں اویسی صاحب کا درس بھی سنتا تھا اور عبداﷲ صاحب کی مجلس میں بھی چلا جاتا تھا۔ لیکن میرے عقائد وہی تھے جو رسمی طورپر عام اہل سنت کے ہوتے ہیں۔ میں اہل سنت تھا ‘ لیکن اہل سنت کی حقیقت سے واقف نہ تھا۔ مجھے اب معلوم ہوا ہے کہ صحیح معنوں میں اہل سنت ہی مسلمان ہے۔

ایک دفعہ میں عبداﷲ صاحب کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی جو غالباً حاصل پور کا تھا اس نے آ کر ایک پرچہ نکالا جس پر اویسی صاحب کی کچھ حدیثیں لکھی ہوئی تھیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا۔ا س نے سوال کیا آپ تو کہتے ہیں کہ حضور ﷺ بشر تھے ‘ میں اویسی صاحب سے یہ حدیثیں لکھو اکر لایا ہوں ‘ ان میں تو صاف ہے کہ حضور پرنور کا سایہ نہیں تھا۔ لٰہذا وہ بشر بھی نہ تھے۔ عبداﷲ صاحب نے کہا کہ آپ اویسی صاحب سے پوچھیں ان حدیثوں کا امام ابوحنیفہؒ کو علم تھا کہ نہیں ؟ اگر تھا تو امام صاحب سے تصدیق کروائیں کہ یہ حدیثیں صحیح ہیں ۔ پھر ان سے استدلال کریں ۔ اگر علم نہیں تھا تو پھر ان حدیثوں کا کیا اعتبار۔ جس حدیث کو مقلد لیے پھر ے اور اس کے امام کو اور پھر امام بھی امام اعظم‘ اس کا پتا نہ ہو تو وہ بھی کوئی حدیث ہوگی۔ لہٰذا آپ جاکر پہلے تحقیق کریں پھر بات کریں گے۔ وہ شخض پڑھا لکھا تھا۔ اتنی بات سن کر چل دیا۔ میں بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔ میں نے کہا اب کیا خیال ہے ‘ چلنا ہے اویسی صاحب کے پاس۔ اس نے کہا ضرور۔ میں تو ضرور جاؤں گا۔ ہم دونوں اویسی صاحب کے پاس پہنچے اور بات کی ۔ لیکن میں نے دیکھا کہ اویسی صاحب بات سنتے ہی کٹ گئے اور پھر فورا ہی اؤٹ ہو گئے۔ میں حیران تھا کہ اتنا بڑا علامہ لیکن اتنی جلدی کٹ آؤٹ ہو گیا۔ میں نے اس شخص سے پوچھا کیوں کیسی رہی ؟ اس نے کہا خاک بھی نہ رہی۔ اویسی صاحب نے تو کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ الٹے ناراض ہو کر چلے گئے۔ خیر وہ شخص تو چلا گیا لیکن میری سمجھ میں بات آ گئی کہ ہم نہ اصلی حنفی ہیں اور نہ اصلی اہل سنت۔اصلی حنفی تو تب ہوں جب ہر لحاظ سے امام ابوحنیفہ صاحب کے نقش قدم پر چلیں اور اصلی اہل سنت اس وقت ہوں جب ہر قول و فعل میں آنحضرت ﷺ کی پیروی کریں اور ہم میں یہ دونوں باتیں نہیں ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اصلی اہل سنت بنیں ۔ اس کے بغیر نجات نہیں۔ کیوں کہ یہی اصل اسلام ہے۔ اس لیے میں نے شرک و بدعت سے توبہ کی اور اہل سنت بن گیا۔ اب دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہر ایک کو اصلی اہل سنت بنائے اور خاتمہ بالخیر کرے۔

منجانب
خادم اہل سنت

۱ (مشکوۃ 61/1‘ کتاب الایمان ‘باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ‘رقم 172 ۔۔ ابوداؤد ‘کتاب السنۃ ‘ باب شرح السنۃ ‘ص 1061‘ رقم 4597)