ہر اہل حدیث کے نام۔۔۔ پڑھیے
اور سوچیے!
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
میرے بھائی! ﷲ کا شکر
ہے کہ ﷲ نے ہمیں اہل حدیث بنایا جو کہ خالص اسلام ہے۔ جسے محمد صلی ﷲعلیہ وسلم لے
کر آئے تھے۔ دنیا میں کتنے مسلمان ہیں جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کو خالص
محمدی اسلام نصیب نہیں۔ انھوں نے اپنے اپنے مذہب بنائے ہوئے ہیں۔ ہمارا مذہب اہل
حدیث ہے جو کہ خالص محمدی اسلام ہے۔ جو لا الہ الا ﷲ محمدر سول ﷲ پر مبنی ہے۔ جس کی
تفسیر قرآن وحدیث ہے۔ جس کی تعبیر ما انا علیہ واصحابی ہے۔ اس نعمت کا ہم جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے‘ بلکہ اگر ہم اس کی خاطر جان بھی
قربان کر دیں تو حق یہ ہے کہ حق ادا نہیں ہوتا۔ لیکن افسوس ہے کہ ہم نے اس نعمت کا
حق ادا نہ کیا نہ ہم نے جماعتی طو رپر لوگوں کو اہل حدیث کے اسلام سے متعارف کرایا
۔ نہ کوئی اپنا جماعتی کردار بنا کر لوگوں کے سامنے اصلی اسلا م کا عملی نمونہ پیش
کیا حال آنکہ آج دنیا کی نگاہیں اسلام کا عملی نمونہ دیکھنے کو ترستی ہیں۔
اب ہم خواب غفلت میں پڑ
گئے ہیں ہمیں یہ معلوم نہیں کہ اصلی اہل حدیث کون ہوتا ہے اور اس کی کیا ذمہ
داریاں ہیں۔ اہل حدیث اگر اصلی اور خالص ہوں تو وہ دنیا میں اﷲ کی پارٹی ہے اور ﷲ
کی پارٹی کا دنیا میں غالب ہونا اور آخرت میں فوز وفلاح پانا یقینی ہے۔ اﷲ تعالیٰ
قرآن میں فرماتا ہے( فَاِنَّ حِزْبَ ﷲِ ھُمُ الْغَالِبُوْنَ )[5:المائدہ:56](
اَلاَّ اِنَّ حِزْبَ ﷲِ
ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ )[58:المجادلہ:22]یقیناً ﷲ کی پارٹی دنیا میں غالب رہے گی اور
آخرت میں فلاح پائے گی ‘ لیکن نظر آتا ہے کہ اب ہم اصلی اور خالص اہل حدیث نہیں
رہے۔ اب ہم نام کے اہل حدیث ہیں ‘ کام کے اہل حدیث نہیں۔اب ہم صرف گفتار کے غازی
ہیں ‘ کردار کے غازی نہیں کہ ہم اب اپنے مقام اور ذمہ داریوں کو بھول کر غلط راہوں
پر پڑ گئے ہیں۔
خلیفہ اور وارث رسول ؐ
ہونے کی حیثیت سے اقامت دین ہمارا فرض تھا۔ اسی کے لیے جدو جہد کرنا ہمارا مشن
تھا‘ لیکن اب بحالی جمہوریت کو ہم اپنا مشن سمجھتے ہیں اور اسی کے لیے کوشش کرتے
ہیں ۔ صرف اس امید پر کہ شاید بے نظیر یا نوازشریف سے ہمیں بھی کوئی بچی کھچی کرسی
مل جائے۔ ظاہر ہے کہ جمہوریت سے اہل حدیث اگر کوئی بہت بڑا تیر ماریں بھی ایک آد ھ
کرسی ہی مل سکتی ہے اسلا م نہیں مل سکتا۔ جمہوریت سے لادینیت یا پھر بریلویت یا
دیوبندیت ہی آ سکتی ہے ‘ کیوں کہ ملک میں ان کی اکثریت ہے۔ جمہوریت سے اہل حدیث
جیسا خالص اسلام کبھی نہیں آسکتا۔ اس لیے جمہوریت کے پیچھے پڑنا ہماری بے راہ روی
ہے۔ جس کی سزا ہمیں یہ ملی ہے کہ اﷲ نے ہم سے نگاہ پھیر لی ہے۔ (نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی )[4:النساء:115]کا مصداق ٹھہر ا کر ہمیں اپنی پارٹی سے نکال دیا
ہے جس کا اثر یہ ہے کہ آج ذلت ہمارا مقدر بن گئی ہے۔ دنیا کی ہر جماعت میں کچھ نہ
کچھ اتحاد اور تنظیم ہے‘ لیکن ہم میں کوئی اتحاد اور تنظیم نہیں۔ ہم آپس میں لڑ
رہے ہیں‘ آج دنیا کی ہر جماعت کی کچھ نہ کچھ آواز ہے۔ لیکن ہماری کوئی آواز نہیں۔
ہم بالکل بے آواز ہیں۔ لاہور میں ہمارے ساتھ کتنا بڑا حادثہ ہوا ‘ ہم نے جمہوری طریقوں
سے کتنی ’’ہائے !ہو!‘‘ کی۔ لیکن کسی نے ہماری ایک نہ سنی۔ یہ کسمپرسی صرف اس وجہ
سے ہے کہ اب ہم اﷲ کی پارٹی نہیں رہے۔ اﷲ نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ اﷲ نے قرآن
میں سچ کہا ہے:
( وَ اَنْ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنْ ذَالَّذِیْ
یَنْصُرُکُمْ مِّنْم بَعْدِہٖ )[3:آل عمران:160]جس کا اﷲ ساتھ چھوڑے پھر کون ہے جو ا س کی مدد
کرے۔ کیا یہ ہماری بدبختی نہیں کہ اﷲ تو (وَعَدَﷲُ الِّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَ عَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ
لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ )[24:النور:55]کے تحت پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ آؤ میری
پارٹی بنو ‘ میں تمھیں دنیا میں خلافت دوں گا۔ ( وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ )[30:الروم:47]اور(
اِنَّا لَنَنْصُرُ
رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا )[40:الغافر:51]کے تحت اﷲ دعوت دے رہا
ہے کہ آؤ میری پارٹی بنو ‘ میں تمھاری مدد کروں گا اور اﷲ جس کی مدد کرے ‘ پھر اس
پر کون غالب آ سکتا ہے۔ ( اِنْ یَّنْصُرْکُمُ ﷲُ فَلاَ غَالِبَ لَکُمْ )[3:آل عمران:160]لیکن ہم ہیں کہ اﷲ کی
طرف توجہ ہی نہیں کرتے اور صحیح اہل حدیث بننے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ اپنی دنیا
داری اور جمہوریت کی طرف دوڑے جا رہے ہیں۔ اور ہماری حالت صاف بتا رہی ہے کہ اب
اﷲہمارے ساتھ نہیں۔ کیوں کہ اب ہم بجائے اہل حدیث کے جمہوری بن گئے ہیں۔ اب اقامت
دین ہماری منزل نہیں رہی۔ اب بحالی جمہوریت ہماری منزل بن گئی ہے۔ اب نفاذ اسلام
ہمارا مشن نہیں رہا۔ اب حصول کرسی ہمارا مشن بن گیا ہے۔ اس کے علاوہ آج ہمارا
کردار وہ ہو گیا ہے جو کبھی یہودیوں کا تھا کہ دین کے کچھ حصے پر عمل ہو گیا ‘ کچھ
پر نہیں۔ جو مسئلہ دل کو اچھا لگا اور آسان ہوا اور ہماری دنیا داری میں مخل نہ
ہوا س کو مان لیا ورنہ نہیں۔ اس کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:(اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ
)[2:البقرہ:85]اے یہودیو! تمھارا یہ کیا کردار ہے کہ تم دین کی بعض باتوں کو
مانتے ہو اور بعض کو نہیں۔ یاد رکھو ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں بھی ذلت و رسوائی
ہے اور آخرت میں بھی عذاب ۔ ہماری ذلت و رسوائی کا سبب یہی ہے کہ ہم آمین ‘ رفع
الیدین کے تو اہل حدیث ہیں‘ معاشرت ‘ معیشت اور سیاست کے اہل حدیث نہیں۔
جب عمل اور کردار کا یہ
حال ہو تو بلند بانگ دعاوی کچھ نہیں کرتے۔ یہود ( نَحْنُ اَبْنَآءُ ﷲِ وَ اَحِبَّائہ‘ )[5:المائدہ:18]کا دعویٰ کرتے تھے‘ اﷲ
نے ان کے ان کھوکھلے دعووں پر فرمایا: ( یٰاَھْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْءٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا
التَّوْرَاۃَ ۔۔ الخ )[5:المائدہ:68] اے اہل کتاب!جب تک تم
اﷲ کے دین کو قائم نہ کرو‘ تمھارا کوئی دین ایمان نہیں۔ زبان سے ہم خواہ کچھ بنیں
جب تک ہمارا عمل ہمیں کچھ نہیں بناتا ہم کچھ نہیں بن سکتے۔ جب تک اسلام کو ہم اپنے
گھروں میں‘ اپنے ملک میں بلکہ ساری دنیا میں حاکم نہیں بناتے‘ یا کم از کم حاکم
بنانے کے لیے سرگرم عمل نہیں ہو جاتے اﷲ کے ہاں ہماری کوئی قدرو منزلت نہیں۔ اگر
ہم سربلند ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اسلام کو سربلند کرنا چاہیے ۔ہم تو اسلام کے
ساتھ ہیں۔ اگر اسلام کی عزت ہے تو ہماری عزت ہے۔ اگر اسلام کی ذلت ہے تو ہماری ذلت
ہے۔ اسلام کو پاکستان میں قائم کیے بغیر چارہ نہیں۔ اسلام کے بغیر نہ ہم عزت
پاسکتے ہیں نہ پاکستان بچ سکتا ہے۔ پاکستان کے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان
میں اسلام جلد از جلد نافذ ہو ۔ اسلام پاکستان کی روح ہے۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے
جو اسلام کے نام پر بنا ہے۔ اگر یہاں اسلام نافذ نہ ہوا تو پاکستان کا بچنا
ناممکنات سے ہے۔ اسلام کے ساتھ رشتہ ٹوٹ جانے کی وجہ سے ہی تو مشرقی پاکستان ٹوٹا
تھا اور اب اسی بنیاد پر سندھ اور بلوچستان کا خطرہ ہے۔ اس لیے ہمیں اسلام کو نافذ
کرنے کی جلد از جلد کوشش کرنی چاہیے۔ جمہوری طریقوں سے تو ملک میں نہ اسلام آیا ہے
‘ نہ آ سکتا ہے‘ نہ حکومت اس سلسلے میں مخلص ہے۔ ملک میں اسلام لانے کے لیے پہلے
ہمیں اہل حدیث میں اسلام نافذ کر کے ایک مثال قائم کرنی چاہیے ‘ہمیں اپنے عمل سے
لوگوں کو دکھا دینا چاہیے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ اسلام صرف عبادات کا
نام ہی نہیں بلکہ اسلام کی رہنمائی زندگی کے ہر شعبہ میں ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے
کہ اسلام جو اﷲ کا دین ہے اور دین فطرت ہے وہ ناقص ہو اور زندگی کے کسی خاص شعبے
میں رہنمائی نہ کرے۔ یہ نظریہ کہ اسلام کا اپنا کوئی سیاسی نظام نہیںیا معیشت و
معاشرت میں انگریز کی تقلید کرنے میں ہی ترقی ہے۔ سب غلط نظریات ہیں جو شیطان نے
گمراہ کرنے کے لیے مسلمانوں کے ذہن میں ڈالے ہیں۔ اسلام دین فطرت ہے اور ایک مکمل
نظام حیات ہے۔ اس کے سب نظام اپنے ہیں اس لیے مسلمان ہونے کے لیے زندگی کے تمام
شعبوں میں مسلمان ہونا ضروری ہے۔ جس کی عبادت تو اسلامی ہو لیکن اس کی سیاست
جمہوری یا کوئی اور غیر اسلامی ہو ‘ اس کی معیشت و معاشرت انگریز ی ہو وہ کبھی
پورا مسلمان نہیں ہو سکتا۔ ہم دعوے تو آج تک یہ کرتے آئے ہیں مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ ۱کا مصداق ہم ہیں۔ لاَ تَزَالُ طَاءِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ ۲والی حدیث ہمارے بارے میں ہے ‘لیکن ہم نے اپنے دعووں کو عملا ثابت
نہ کیا۔اپنی جماعت کو اسلامی سیاست کے اصولوں پر منظم کرکے اسلامی سیاست کا عملی
نمونہ کبھی پیش نہیں کیا۔ ہماری جمعیتوں کے دستور‘ جمعیتیں مرکزی ہوں یا غیر
مرکزی۔۔۔ سب غیر اسلامی ہیں۔ ہمارے علما بجائے اس کے کہ اسلام کی گاڑی کا انجن بن
کر مسلمانوں کی قیادت کرتے ‘ ڈبے بن کر مختلف سیاسی اور لامذہب جماعتوں میں شامل
ہو گئے جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ ان کے نزدیک اہل حدیث کا اپنا کوئی سیاسی نظام
نہیں‘ جب ہی وہ مختلف سیاسی جماعتوں میں صرف کرسی کے حصول کے لیے شامل ہو گئے‘ یا
انھوں نے اپنی جماعت کو جمہوری خطوط پر سیاسی جماعت بنا دیا۔ اگر ان جمہوری اہل
حدیثوں کے نزدیک اپنا کوئی نظام ہوتا تو وہ ضرور اپنی جماعت کو منظم کر کے مضبوط
بناتے۔
میرے بھائی !ہم نے صرف
یہی کوتاہی نہیں کی کہ اپنی جماعت کو اسلامی سیاست کے اصولوں پر منظم نہیں کیا‘ ہم
نے یہ جرم بھی کیا کہ جمہوریوں کی طرح دین اور سیاست میں تفریق تسلیم کر لی۔ جس کا
نتیجہ یہ نکلا کہ دین میں ہم اہل حدیث بنے رہے ‘ سیاست میں ہم فرنگی بن گئے۔ ہم نے
آمین‘ رفع الیدین کرکے مسجد کی حد تک ہی اہل حدیث بننے کو کافی سمجھا ۔ مسجد سے
باہر ہم نے اہل حدیث والا کوئی کام نہ کیا۔ حال آنکہ اہل حدیث ایک دو حدیثوں پر
عمل کرنے والے کو نہیں کہتے۔ اہل حدیث تو وہ ہوتا ہے جس کی پوری زندگی حدیث رسول ؐ
مقبول کے مطابق ہو۔ اس کی سیاست بھی حدیث ہو ‘ اس کی معیشت و معاشرت بھی حدیث ہو۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے پہلے اہل حدیث کو اہل حدیث بنایا جائے کیوں کہ آج
کا اہل حدیث‘ اہل حدیث نہیں ایسے لوگوں کے لیے اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا
ہے:
(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اَمَنُوْا اٰمِنُوْا
بِاللہ وَ رَسُوْلِہٖ)[4:النساء:136]اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو`اپنے ایمان کو اپنے
دعوے کے مطابق درست کرو۔ اﷲ اور اس کے رسولؐ پر صحیح طریقہ سے ایمان لاؤ۔ جیساکہ
ایمان لانے کا حق ہے۔ اے رسمی اور نام کے اہل حدیثوں صحیح معنوں میں اہل حدیث بنو۔
حدیث کے مطابق اپنے عمل اور کردار کو درست کرو۔ اپنی پوری زندگی میں اہل حدیث کے
نظام کو نافذ کرو۔ یہ نہ ہو کہ کوئی عمل حدیث کے مطابق کرو اور کوئی خلاف ۔ اب
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک جمہوری اہل حدیث کیسے ہو سکتا ہے؟ جمہوریت لادینیت کا
مطالبہ کرتی ہے اور اہل حدیث قرآن و حدیث کا۔ جس نظام سے ملک میں قرآن وحدیث کا
نفاذ نہ ہو ‘ وہ نظام ایک اہل حدیث کے لیے کیسے قابل قبول ہو سکتا ہے۔ کیا جمہوری
طریقوں سے ملک میں خالص قرآن و حدیث ‘ یعنی اہل حدیث کا مذہب نافذ کیا جا سکتا ہے
؟ اگر نہیں اور یقیناًنہیں تو ایک اہل حدیث کے آخر جمہوری ہونے کے کیا معنی؟ اگر
ایک اہل حدیث جمہوری بنتا ہے توا س کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ اہل حدیث مذہب کا نفاذ
نہیں چاہتا ‘ وہ صرف اپنے لیے کرسی چاہتا ہے ‘ جب ہی وہ جمہوری بنا ہوا ہے۔
اس کے علاوہ جو اپنے
باہمی مقدمات کا فیصلہ قرآن و حدیث سے نہیں کرتا وہ اہل حدیث کیسے ہو سکتا ہے ؟
قرآن مجید میں ہے‘ ( فَلاَ وَ رَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا
شَجَرَ بَیْنَھُمْ )[4:النساء:65]اﷲ قسم کھا کر کہتا ہے کہ اے نبی !جو اپنے
جھگڑوں کا فیصلہ تجھ سے ‘ یعنی قرآن وحدیث سے نہیں کرواتا ‘ وہ ایمان وا لا ہی
نہیں۔ قرآن کہتا ہے: ( یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ
اُمِرُوْا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ )[4:النساء:60]یہ کیسے مسلمان ہیں جو اپنے مقدمات کفر کی عدالت
میں لے جانا چاہتے ہیں‘ حال آنکہ ان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ قرآن و حدیث کی عدالت
کے سوا اور کسی عدالت کو نہ مانیں‘ بلکہ ہر ایسی عدالت کے ساتھ جو قرآن و حدیث کے
سوا ہو کفر کریں۔خواہ وہ انگریزی قانون کی عدالت ہو‘ یا فقہ حنفی اور فقہ جعفری
کی۔ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ کا معنی بھی یہی ہے کہ حکم صرف اﷲ کا چلے اور کسی کا نہ
چلے۔ ( اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ )[12:یوسف:40]اسی کی وضاحت کرتا ہے ۔ اب جو اہل حدیث اپنے
مقدمات کو انگریزی عدالتوں میں لے جاتا ہے وہ کیسے اہل حدیث رہ سکتا ہے؟ وہ اہل
حدیث اہل حدیث نہیں جو کفر کی عدالتوں کا رخ کرے اور وہ جماعت اہل حدیث کی جماعت
نہیں جو اہل حدیث قاضی مقرر کرکے اہل حدیث کے مقدمات کا فیصلہ کرنے کا انتظام نہ
کرے ۔ اہل حدیثوں نے بہت سی جماعتیں بنائیں ا ور وہ اپنے اپنے مفادا ور اقتدار کی
خاطر خوب گتھم گتھا ہوئیں‘ لیکن کسی نے قرآن کے اس حکم کو پورا نہ کیا۔جیسے وہ اہل
حدیث مجرم ہیں جو انگریز ی عدالتوں میں جاتے ہیں ایسے وہ جماعتیں اور ان کے قائدین
مجرم ہیں جنھوں نے اپنے اپنے مفاد کے تحت جماعتیں تو بنائی لیکن ان جماعتوں میں
قرآن وحدیث کا نفاذ نہ کیا۔ اہل حدیث کو اہل حدیث نہ بنایا‘ بلکہ کرسی کے حصول کے
لیے اپنی جماعت کو آلہ کار بنایا۔ جماعت کو پیچھے لگا کر ‘ اپنی پوزیشن کو مستحکم
بنا کر حصول کرسی کے لیے بے دین پارٹیوں سے ساز باز شروع کر دی۔ بعض نے جماعت بنا
کر اپنی پوزیشن بنائی ‘ پھر کرسی کی خاطر حکومت کی ہاں میں ہاں ملائی۔ اپنے اقتدار
کو اہل حدیث کی خدمت سمجھا۔ اس طرح اپنے نفس کو بھی دھوکا دیا اور جماعت کو بھی
دھوکے میں رکھا۔اگر کسی اہل حدیث لیڈر کو جمہوری طریقے سے کوئی کرسی مل بھی جائے
تو اس سے اسلام کو کیا فائدہ پہنچا؟ یہ دنیا کا مفاد ہے ‘ وہ اٹھائے یا اس کے
خوشامدی اٹھائیں۔اسلام کو کوئی فائدہ نہیں۔
جس گھر میں شرعی پردہ
نہ ہو بلکہ رسمی اور فیشنی پردہ ہو ‘ پھر ٹی وی اور وی سی آر کی بے حیائیاں ہوں وہ
گھر انگریزی تہذیب کا گہوارا ہووہ گھر کیسے اہل حدیث ہوسکتا ہے ؟اگر بالفرض رسول
اﷲ ﷺ دنیا میں تشریف لائیں تو کیا وہ ایسے گھر میں بطور مہمان داخل ہو سکتے ہیں
حاشا وکلا۔!
جس گھر میں تصویر سے
کوئی نفرت نہ ہو ‘ بلکہ در و دیوار پر تصویریں آویزاں ہوں خواہ وہ تصویر کسی کی ہو
وہ گھر کیسے اہل حدیث ہو سکتا ہے؟ جو اہل حدیث اخبار میں بیان دے اور تصویر صاف
کھنچوائے‘جلوس نکالے‘تصویروں والے جھنڈے ہاتھوں میں لے ‘ اشتہار دے‘ نام کے ساتھ
تصویر دے وہ کیسے اہل حدیث ہو سکتا ہے؟
جن کی کمائی میں حلال و
حرام کی کوئی تمیز نہ ہو ‘ سود اور سٹہ‘ پرائز بانڈ اور بیمہ سب طرح کی کمائی چلتی
ہو ‘ کیا ایسے اہل حدیثوں کے گھررسول اﷲ ﷺ آ کر دعوت کھا لیں گے۔ کیا اہل حدیث
اپنے آپ کو اہل حدیث کہلانے کے مستحق ہیں۔
الغرض ‘ اہل حدیث ہونے
کے لیے سر سے پاؤں تک اہل حدیث ہونا ضروری ہے۔ صورت بھی اہل حدیث کی ہو ‘ سیرت بھی
اہل حدیث کی۔ داڑھی منڈا کر کافروں سے مشابہت کرنا اہل حدیثی کو بھٹہ لگانے والی
بات ہے۔اﷲ فرماتا ہے: (یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ
کَافَّۃً )[2:البقرہ:208]اے ایمان کا دعویٰ کرنے والوپورے پورے اسلام میں
داخل ہو جاؤ۔کفر کا کوئی رنگ تم پر نہ ہو۔ اسلام کے رنگ میں بالکل رنگے جاؤ۔
ادھورا اسلام اﷲ کے ہاں بالکل مقبول نہیں۔ اگر ہمیں اہل حدیث بننا ہے تاکہ اﷲ ہمیں
اپنی پارٹی بنا کر ہمارا ساتھ دے ‘ تو ہمیں مکمل اہل حدیث بن کر اہل حدیث جماعت کو
اسی نہج پر چلانا ہوگا‘ جیسے ہمارے اسلاف تھے۔جہاں بھی چند اہل حدیث ہوں وہ اپنا
امیر بنا کر ایک نظم کے تحت جماعتی زندگی گزاریں ‘ امارت اور جماعت کے بغیر کوئی
زندگی نہیں۔ رسول ﷲ ﷺ نے سفر میں بھی ایک امیر کے تحت جماعتی زندگی گزارنے کا حکم
دیا ہے‘ لیکن ہم ایسے اہل حدیث ہیں کہ حضر میں بھی یہاں ہماری خاصی تعداد ہوتی ہے۔
امیر نہیں بناتے‘ بغیر امیر کے ہی زندگی گزارتے ہیں جو ہماری بدبختی اور زوال کی
علامت ہے۔ جہاں بھی ہم رہیں ہمیں ایک امیر بنانا چاہیے۔ اس امیر کا فرض ہے کہ حتی
المقدور جماعت میں قرآن و حدیث کا نفاذ کرے۔ سردست چھوٹے چھوٹے یونٹ ہوں جس کی حد
مسجد ہے۔ مسجد کے نمازی جماعت ہوں اور امام ان کا امیر ہو۔ اس طرح سے امام بھی
اچھے لوگ بنیں گے ‘ کیوں کہ ان کو امارت کا فرض بھی ادا کرنا ہوگا۔ آج کل اماموں
کو جو بہت گھٹیا اور ذلیل سمجھا جاتا ہے توا س کا سبب یہی ہے کہ اب امامت کے اور
امارت کے منصب علیحدہ علیحدہ ہو گئے ہیں۔ خیر القرون میں جب امام ہی امیر ہو تا
تھا اور امیر ہی امام ہوتا تھا۔ یعنی ایک ہی ذات میں دونوں عہدے جمع ہوتے تھے تو
امامت کا عہدہ ذلیل نہ تھا۔ اب جب ہمیں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل کر اپنی تنظیم
نو کرنا ہے تو ہمیں امام اچھے لوگوں کو بنانا ہوگا ‘ کیوں کہ ہمیں اماموں سے امارت
کا کام بھی لینا ہے ‘ اچھے امام کے خصائل میں سے ایک خصلت یہ بھی ہے کہ وہ مقتدیوں
کا تنخواہ دار نوکر نہ ہو۔ جو امام لوگوں کا نوکر ہو وہ امارت کے فرائض سرانجام نہیں
دے سکتا۔ امام وہ ہونا چاہیے جوعلم اور تقویٰ کے ساتھ ساتھ اپنی روزی آپ کمانے
والا ہو خواہ اس کی اپنی دکان ہو یا کوئی اور کاروبار ہو‘ یا وہ کسی مدرسے میں
مدرس ہو۔ بہر کیف وہ خطابت و امامت کے پیسے نہ لیتا ہو۔ پھر ایسے چھوٹے یونٹوں سے
بڑے یونٹ بنائے جائیں جس میں تقریباً ہر تحصیل کا ایک امیر ہو۔ پھر تحصیل کے امیر
مل کر ایک ضلعی امیر بنائیں جو اس ضلع کے قاضی کے فرائض بھی سرانجام دے اور امیر
کا کام بھی دے ۔ پھر ضلعی امراء مل کر صوبائی امیر کا انتخاب کریں ۔ پھر صوبائی
امراء مل کر مرکزی امیر کا انتخاب کریں۔ اس طرح سے تمام اہل حدیث ایک ایسے نظم میں
منظم ہو جائیں جو بالکل سلفی طریقے کا ہو۔ جس کی کوئی شق بھی قرآن و حدیث کے خلاف
نہ ہو تاکہ اہل حدیث اسلامی نظام کے تحت جماعتی زندگی گزار سکیں اور ان کی عملی
زندگی کی پوری پوری نگرانی ہوسکے۔ جب اہل حدیث کسی حد تک منظم ہو جائیں شرعی نظام
ان میں حتی المقدور جاری ہو جائے تو پھر حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ ہمارے اس
نافذشدہ نظام کو قانونی شکل دے تاکہ ہمارے نظام اور ہماری عدالتوں کی ایک قانونی
حیثیت بھی ہو۔ جب یہ ملک اسلام کے لیے بنا ہے تو اس میں اسلام کے نفاذ کا عملی
نمونہ پیش کر کے اس کو حکومت سے منظور کروانا کوئی مشکل کام نہیں کیوں کہ یہ ہمارا
حق ہے۔
اہل حدیث جماعت کی
تنظیم کا یہ ایک ابتدائی سا خاکہ ہے جس میں اگر ترامیم ہوتی گئیں تو ان شاء اﷲ
امید ہے کہ بہت اچھا نظام قائم ہو جائے گا۔ سردست تو اہل حدیثوں کو ترغیب دینا
مقصود ہے۔ تاکہ انھیں ایک نظم کے تحت زندگی گزارنے کا احساس ہو۔ اس سلسلے میں
تفصیلی اور مبسوط پروگرام تو اہل حدیث علما کی مجلس ہی شائع کرے گی۔ جو اس دعوت کے
کام کو چلائے گی اور جماعت کو صحیح امارت کی طرف لے جائے گی۔ یہ کوئی جماعت ایسی
نہ ہوگی جس کے مقاصد سیاسی ہوں۔ یہ خالص دینی جماعت ہوگی جو اہل حدیث کو اہل حدیث
بنانے اور سلفی بنیادوں پر ان کو منظم کرنے کی کوشش کرے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اہل
حدیث اہل حدیثی سے بہت دور چلے گئے ہیں کیوں کہ عرصے سے صحیح اسلامی تنظیم سے
محروم چلے آ رہے ہیں۔ جمعیت کے قائدین نے جمہوریت زدہ ہونے کی وجہ سے سیاست کے
مفہوم کو نہ خود سمجھا‘ نہ اہل حدیثوں کو سمجھنے دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صحیح
اسلامی سیاست نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے قائدین بھی بہک گئے اور جماعت بھی غلط ڈکر
پر چل گئی۔ اسلام میں سیاست کا معنی نگرانی کرنا اور یہ دیکھنا ہے کہ جماعت اپنے مخصوص
عقائد و مسلمات کے مطابق با عمل زندگی گزار رہی ہے یا نہیں۔ اسلامی سیاست کا تقاضا
یہ ہے کہ معاشرے کو اسلامی تعلیمات کے مطابق باعمل اور باکردار بنایا جائے۔ جو
طریقے بھی مناسب ہوں ان کو بروئے کار لا کر انسانی زندگی کو دنیا و آخرت دونوں میں
کامیاب بنانے کی سعی کرنا اور کرانا اسلامی سیاست ہے۔ اس انداز سے ہماری جمعیتوں
نے کبھی نہیں سوچا ۔ جمعیتوں کے قائدین نے اپنے اپنے مفاد کو پیش نظر رکھا اور
کرسیوں کے خواب دیکھے ۔ اہل حدیث کی خبر گیری کبھی نہیں کی کہ وہ بھی صحیح اہل
حدیث بن جائیں حتی کہ جماعت بے دینی کی طرف دوڑتی چلی گئی۔ لاہور کے حادثے کے بعد
اب جب کہ اہل حدیث کا معاملہ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والا ہو گیا ہے۔ دینی
حالت تو پہلے ہی بگڑ گئی تھی اب دنیا بھی نہ رہی تو ہر درد دل رکھنے والے اہل حدیث
کو فکر ہوئی کہ اب جماعت کا کیا ہوگا۔ اب تو جماعت بے دین
(Leftists) کے اشاروں پر ناچنے لگ
گئی ہے ۔ اﷲ نے بعض مخلصین کے دل میں یہ بات ڈالی کہ اہل حدیث جہاں سے بھٹکے تھے
اگر وہیں واپس آ جائیں تو بچ سکتے ہیں ورنہ نہیں۔ اہل حدیث کی سیاست اسلامی جمہوری
نہیں۔اس لیے اہل حدیث کا بچاؤ اسلام میں ہے جمہوریت میں نہیں۔ اگر اہل حدیث اپنی
سیاست بروئے کار لائیں ‘ اپنی تنظیم نو کر کے اپنے آپ کو صحیح اہل حدیث بنائیں تو
بچ جائیں گے ورنہ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ[22:الحج:11]والا معاملہ ہوگا۔ اسی چیز کو مدنظر رکھ کر
ہمارے بعض علما نے یہ بیڑا اٹھایا ہے۔ اﷲ ان کی کوششوں کو کامیاب کرے۔
مقصد اس تحریک کا صرف
یہ ہے کہ اہل حدیث کو صحیح معنی میں اہل حدیث بنایا جا سکے۔ اس لیے پوری امید ہے
کہ ہر درد دل رکھنے والا اہل حدیث خواہ اس کا تعلق کسی پارٹی سے ہو ‘ ضرور اس دعوت
پر لبیک کہے گا۔ اس لیے یہ دعوت ہر اہل حدیث کے لیے ہے اور ہر اہل حدیث کا یہ حق
ہے کہ وہ یہ دعوت دے۔ اس دعوت کی صحت کا معیار قرآن وحدیث ہے۔ قرآن و حدیث ہی ہر
اختلاف میں فیصل ہوگا۔ اگرچہ جمعیتوں اور جماعتوں کی غلطیوں کی ہم نے واضح الفاظ
میں نشان دہی کی ہے ‘ لیکن ہمیں کسی جماعت سے کوئی کد وعناد نہیں۔ اگر ان جماعتوں
میں سے کوئی جماعت جمہوریت سے ہٹ کر دعوت و ارشاد کا کام شروع کر دے تو ہم دل و
جان سے اس کے ساتھ ہیں۔ ہمیں تو اہل حدیثوں کو صحیح اسلامی بنیادوں پر منظم کرنے
سے غرض ہے جو بھی یہ کام کرے گا ہم اس کو خوش آمدید کہیں گے۔
اہل حدیث ایک دینی
جماعت ہے جس کی اپنی سیاست ہے جو قرآن وحدیث کے عین مطابق ہے۔ یہ جماعت اسلامی یا
مسلم لیگ یا کسی بے دین جماعت کی طرح سیاسی جماعت نہیں۔ جن اہل حدیثوں نے اس کو
کفر کے نظام کی ایک سیاسی جماعت بنا دیا انھوں نے بڑی ناعاقبت اندیشی کا کام کیا۔
کہاں اہل حدیث اور کہاں کفر کی موجودہ سیاست۔ حقیقت یہ ہے کہ اہل حدیث کو مردہ
جمہوری سیاست سے جو نقصان پہنچا وہ ناقابل تلافی ہے۔ جماعت کو دین سے دور کرنے میں
اس جمہوری سیاست کا بہت دخل ہے۔ اﷲ جماعت کو اس شر سے محفوظ رکھے۔
*****
اہل حدیث کی سیاست امارت و خلافت کی سیاست ہے
جس کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے
اسلامی سوسائٹی میں امیر
کا ہونا واجبات دین سے ہے ۔ امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں
یَجِبُ اَنْ یُعْرَفَ
اِنَّ وِلاَیَۃَ اَمْرِ النَّاسِ مِنْ اَعْظَمِ وَاجِبَاتِ الدِّیْنِ بَلْ لاَ
قِیَامَ لِلدِّیْنِ اِلاَّ بِھَا ۳
یعنی یہ جاننا فرض ہے
کہ امیر کا تقرر اہم واجبات دین میں سے ہے‘ بلکہ اقامت دین اس کے بغیر ہو سکتا ہی
نہیں۔ اور اقامت دین کے بغیر مسلمان مسلمان نہیں۔ جیسا کہ اﷲ نے قرآن میں فرمایا
ہے: (لَسْتُمْ عَلٰی شَیْءٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا
التَّوْرَاۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ
)[5:المائدہ:68]یعنی تمھارا کوئی دین ایمان نہیں جب تک تم دین کو قائم نہ کرو۔
انسان مدنی الطبع ہے ۔
بغیر سوسائٹی کے اس کا گزارا مشکل ہے اور معاشرہ افراد کے اجتماع سے بنتا ہے۔ جہاں
بھی چند انسانوں کا اجتماع ہوگا ‘ ان کو ایک دوسرے سے کام پڑے گا جس سے کئی طرح کے
مسائل پیدا ہوں گے جس کے لیے امارت کا نظام ضروری ہے اس لیے رسول اﷲ ﷺ نے تین
آدمیوں میں بھی جب کہ وہ سفر میں ہوں امیر بنانے کا حکم دیا ہے۔ بلکہ مسندا حمد
میں تو یہاں تک ہے کہ : لاَ یَحِلُّ لِثَلاَثَۃٍ یَکُوْنُوْنَ بِفَلاَۃٍ
مِنَ الْاَرْضِ اِلاَّ اَمَّرُوْا عَلَیْھِمْ اَحَدَھُمْ ۴یعنی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ کسی جنگل میں ہو خواہ ان کی
تعداد تین ہو اور وہ اپنے میں سے کسی کو امیر نہ بنائیں یعنی سفر میں بھی تین
آدمیوں کا بغیر امیر کے رہنا حرام ہے۔ رسول اﷲ ﷺ کا تین میں سے ایک کو امیر بنانے
کو واجب قرار دینا ثابت کرتا ہے کہ جہاں بھی چند مسلمان ہوں وہ اپنا امیر ضرور
بنائیں۔ اس کے علاوہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر جو اہم واجبات دین میں سے ہیں
اس کا یہ کام بغیر امیر کے نہیں ہو سکتا۔ جہاد جو اسلام کی روح ہے ‘ یہ بھی بغیر
امیر کے ممکن نہیں۔ غرض یہ کہ امیر اسلامی معاشرے کا جزو لاینفک ہے۔ اس کے بغیر
صحیح اسلامی معاشرہ متحقق ہو ہی نہیں سکتا۔ جس جماعت میں امیر نہیں اس جماعت کی
مثال اس لاش کی ہے جس کا سر نہ ہو۔ جیسے سر کے بغیر دھڑ ہوتا ہے ویسے ہی امیرکے
بغیر جماعت۔ اسلامی تعلیم کے تحت مسلمانوں کا ایک دن بھی بغیر امیر کے نہیں گزرنا
چاہیے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو سب سے پہلے خلیفہ کا تقرر ہوا ۔
اس کے بعد پھر کوئی اور کام ہوا۔ حتی کہ آپ ﷺ کا کفن دفن بھی ابوبکر صدیقؓ کے
خلیفہ مقرر ہوجانے کے بعد ہوا۔ ادھر صحابہؓ کا جو ہما رے اسلاف ہیں اور پہلے اہل
حدیث ہیں یہ حال ہے کہ وہ ایک رات بغیر امیر کے نہیں گزارتے اور ادھر ہمارا یہ حال
ہے کہ ہم اپنی عمریں بغیر امیر بنائے گزار رہے ہیں۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ آج
اہل حدیث اہل حدیث نہیں۔ اہل حدیث تو صحابہؓ تھے جن کا ہر عمل حدیث کے مطابق تھا۔
جن کے نزدیک امارت کا نظام اتنا ضروری تھا کہ امیر کے بغیر ایک دن گزارنے کووہ
حرام سمجھتے تھے۔ اس لیے میرے بھائی اگر ہم اہل حدیث بننا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی
صحابہ کے نقش قدم پر چل کر جہاں بھی ہم رہتے ہیں فورًا اپنا امیر سفر مقرر کر لینا
چاہیے تاکہ ہماری زندگیاں حرام نہ جائیں۔ امیر کے تحت گزاریں جیسا کہ شریعت کا حکم
ہے۔
جیسے امیر کا تقرر فرض
ہے اس کے بغیر کوئی جماعتی زندگی نہیں۔ اسی طرح امیر کی اطاعت بھی فرض ہے۔اس سلسلہ
میں رسول اﷲ ﷺ نے بڑی تاکید فرمائی ہے۔آ پ نے فرمایا (( مَنْ یُّطْعِ الْاَمِیْرَ فَقَدْ اَطاَعَنِیْ وَ مَنْ یَعْصِ
الْاَمِیْرَ فَقَدْ عَصَانِیْ )) ۵ آپ نے امیرکی اطاعت کو
اپنی اطاعت قرار دیا اور امیر کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی ۔آپ ﷺنے فرمایا ((اِنْ اُمِّرَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ مُجَدَّعٌ یَقُوْدُکُمْ بِکِتٰبِ
ﷲِ فَاسْمَعُوْا لَہ‘ وَ اَطِیْعُوْا ))۶ اگر تم پر کسی ناک یا
کان کٹے غلام کو بھی امیر بنا دیا جائے جو اﷲ کے قانون کے تحت تمھیں حکم دے تواس
کی اطاعت کرو۔ آپ نے مزید فرمایا: (( اَلسَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ عَلَی الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِیْمَا
اَحَبَّ وَ کَرِہَ وَ مَالَمْ یُؤْمَرْ بِمَعْصِیَۃٍ فَاِذَا اُمِرَبِمَعْصِیَۃٍ
فَلاَ سَمْعَ وَ لاَ طَاعَۃَ فِیْ مَعْصِیَۃٍ اِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِیْ
الْمَعْرُوْفِ ))۷ امیر کی سننا اور اطاعت
کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘خواہ اس کا دل چاہے یا نہ چاہے ۔ ہاں اگر امیر گناہ کا
حکم دے تو پھر اس کا وہ حکم نہ مانے‘ اطاعت نیکی کے کاموں میں ہے۔ گناہ میں کوئی
اطاعت نہیں۔ حدیث میں ہے:(( لاَطَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخاَلِقِ
))۸ یعنی مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں جب کہ خالق کی
نافرمانی ہو۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے امیر کی اطاعت کو موکد کرتے ہوئے
فرمایا : (( مَنْ رَاَی مِنْ اَمِیْرِہٖ شَیْئا یَکْرَھُہ‘ فَلْیَصْبِرْ
فَاِنَّہ‘ لَیْسَ اَحَدٌ یُفَارِقُ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا اِلاَّ مَاتَ مَیْتَۃً
جَاھِلِیَّۃَ ))۹ جو اپنے امیر سے کوئی
ناپسندیدہ چیز دیکھے تواس کو چاہیے کہ صبر کرے ‘ کیوں کہ جو جماعت سے ایک بالشت
بھی علیحدہ ہو کر مر گیا وہ جاہلیت کی موت مرا۔
اس سلسلے میںآپ نے مزید
فرمایا: ((مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَۃِ وَ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ فَمَاتَ ۔۔۔
مَاتَ مَیْتَۃً الْجَاہِلِیَّۃً ))۱۰ جو امیر کی اطاعت سے
نکل جائے ‘ اور جماعت سے علیحدہ ہو جائے ‘ پھر اس حالت میں مرجائے تو اس کی موت
جاہلیت کی موت ہے۔ امیر کی اطاعت اتنی ضروری ہے کہ آپ نے فرمایا
:(( اَلاَ مَنْ وُلِّیَ عَلَیْہِ وَالٍ فَرَاہُ
یَأتِیْ شَیْئا مِنْ مَعْصِیَۃِ ﷲِ فَلْیَکْرَہْ مَا یَاْتِیْ مِنْ مَّعْصِیَۃِ ﷲِ
وَ لَا یَنْزِعَنَّ یَدًا مِنْ طَاعَتِہٖ)) ۱۱سن لو! جب کسی کو امیر مقرر کر دیا جائے ‘ پھر وہ امیر کوئی گناہ
کا کام کرے تو ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس گناہ سے نفرت کرے ‘ لیکن اس کی وجہ سے
امیر کی اطاعت سے انکار نہ کرے ‘ اس سے ثابت ہوا کہ اگر امیر برا بھی ہو پھر بھی
ہر نیکی کے کام میں اس کا حکم مانا جائے‘ البتہ اس کے گناہوں کو براجانا جائے اور
گنا ہ کے کاموں میں اس کی فرمان برداری نہ کی جائے۔ اس کے علاوہ اس کے تمام احکام
کو تسلیم کیا جائے ۔
افسوس تو یہ ہے کہ اہل
حدیث جمہوریوں نے بھی اپنے نظام میں صدر کو امیر کا نام دے دیا ہے جو سراسر دھوکا
ہے ‘ حال آنکہ وہ امیر نہیں ہوتا۔ کہاں شرعی نظام کا امیر ‘کہاں جمہوری نظام کا
صدر! چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔ شرعی نظاموں کے امیر کی اطاعت کو تو قرآن بھی
فرض قرار دیتا ہے۔ (یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اَمَنُوْا اَطِیْعُوا ﷲَ وَاَطِیْعُوا
الرَّسُولَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ )[4:النساء:59]لیکن جمہوری نظام میں
صدر کا تعلق پارٹی پالیٹکس سے ہوتا ہے۔ وہ صرف سیاست کے میدان میں ہی امیر ہوتا ہے
اس کو دیگر شعبہ ہائے زندگی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ لیکن شرعی نظام کا امیر
پوری زندگی کا نگران ہوتا ہے۔اس کا فرض ہے کہ اسلامی تعلیمات کے تحت اپنی جماعت کا
ایسا کردار بنائے جس سے ان کی دنیا اور آخرت دونوں درست ہو جائیں۔ جمہوری نظام میں
صدر بااختیار نہیں ہوتا کیوں کہ اس کی پارٹی کے تمام عہدے دار بذریعہ انتخاب آتے
ہیں اس لیے وہ صدر کی اطاعت کے پابند نہیں ہوتے۔ وہ ہمیشہ صدر کے لیے درد سر بنے
رہتے ہیں بلکہ ساری چابی ناظم یا وزیر اعلیٰ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ صدر بے چارہ تو
ایک عضو معطل کی طرح ہوتا ہے۔ شرعی امیر کلی طور پر خود مختار ہوتا ہے۔ وہ مشورہ
کرکے جس کو مرضی کوئی عہدہ دے وہ اس معاملے میں بالکل آزاد ہوتا ہے ۔ کسی کا پابند
نہیں ہوتا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمرؓ امیر المؤمنین بنے تو کوئی ان کا
ناظم یا وزیر اعلیٰ نہ تھا۔ وہ جس کو جو چاہتے تھے بناتے تھے‘ جس کو چاہتے تھے ہٹا
دیتے تھے۔ شرعی امیر کے بعد کسی کا کوئی انتخاب نہیں ہوتا۔ سب عہدے دار اس کے
نامزد اورا س کے تابع ہوتے ہیں۔ اس لیے اہل حدیثوں کے موجودہ امیروں کو شرعی امیر
نہیں کہہ سکتے نہ ان کی اطاعت فرض ہے‘ کیوں کہ وہ کفر کے نظام جمہوریت کے تحت امیر
بنے ہیں۔ ان کے نظام بھی غیر شرعی ‘ ان کے دستور بھی غیر شرعی۔ جو ایک صحیح اہل
حدیث کو کبھی بھی قابل قبول نہیں ہو سکتے۔
اہل حدیثو ! کیا یہ
افسوس کا مقام نہیں کہ صحابہؓ بھی اہل حدیث تھے اور ہم بھی اہل حدیث ہیں۔ لیکن ہم
میں اور ان میں بعد المشرقین ۔ صحابہؓ میں غیرت تھی‘ دینی حمیت تھی ۔ ہم ان صفات
سے بالکل عاری ہیں۔ صحابہ کرام دینی جذبے سے سرشار تھے‘ باطل سے ٹکراتے تھے۔ ہم
سست و پست ہمت ہیں۔ باطل سے دبتے ہیں۔ یہ سارا فرق صرف اس وجہ سے ہے کہ صحابہ کرام
اسلام کی پیداوار تھے‘ ہم جمہوریت کی پیداوار ہیں۔
اب چودہویں صدی ختم ہو
گئی ہے۔ کایا پلٹ رہی ہے۔ زمانہ کروٹ لے رہا ہے ‘ اسلام پھر ابھر رہا ہے اور
بالآخر اس کو ابھر کر رہنا ہے۔ اگر ہم اب بھی نہ اٹھے اور اپنے منصب کو نہ سنبھالا
تو اﷲ تعالیٰ ہمارا انتظار نہیں کرے گا۔ اﷲ یہ کام کسی اورسے لے لے گا اور ہم کف
افسوس ملتے رہ جائیں گے۔
(وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا
غَیْرَکُمْ ثُمَّ لاَ یَکُوْنُوْا اَمْثَالَکُمْ )[47:محمد:38]
سقوط بغداد کے بعد اﷲ
نے اسلام کو مٹانے والوں سے اسلام کا کام لیا۔ تاتاری جو اسلام کے دشمن تھے وہی
اسلام کے پاسبان بن گئے۔ اس لیے میرے بھائی اٹھ۔ اپنے مقام کو پہچان۔ اپنے فرض کو
پورا کر۔ اہل حدیث ہونے کی وجہ سے تیرا مقام خلافت رسول ﷺ اور تو وارث رسولؐ ہے۔
اپنے عمل سے ثابت کر کہ واقعۃ اہل حدیث ہی وارث رسول ؐ ہیں۔ یہی اسلام پر صحیح طور
سے عمل پیرا ہیں۔ اقامت دین ہمارا کام ہے۔ اس کے لیے تبلیغ بھی کر اور جہاد بھی۔
اہل حدیث کا یہ فرض منصبی ہے ۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو صحیح اہل حدیث بننے کی توفیق
عطا فرمائے اور کفر کے فتنوں سے بچائے ۔ آمین یارب العالمین ۔!
و ما علینا الا البلاغ
المبین
*****
۱ مشکٰوۃ ‘ کتاب الایمان
‘ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ‘رقم 171:
۲ بخاری ‘ کتاب الاعتصام
‘ باب قول النبی ؐ لا تزال طائفۃ من امتی‘ ص 609 ‘رقم 7311
۳
(السیاسۃ الشرعیۃ فی
اصلاح الراعی و الرعیۃ ص 218 باب الثانی الحدود والحقوق الفصل الثامن وجوب اتخاذ
الامارۃ )
۴
(مسند احمد‘ `177/2 رقم
6609)
۵
( مسلم : کتاب الامارۃ‘
باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ و تحریمھا فی المعصیۃ‘ ص 1007 رقم 33-32 ۔۔
مشکوۃ: 1085/2 کتاب القضاء والامارۃ ‘ فصل اول‘ رقم 3661)
۶
( مسلم: کتاب الامارۃ ‘
باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ وتحریمھا فی المعصیۃ ص 1008رقم 37۔۔ مشکوۃ ‘
کتاب الامارۃ والقضاء رقم 3662)
۷
(بخاری : کتاب الجہاد ‘
باب السمع والطاعۃ للامام‘ ص 238رقم 2955۔۔ صحیح مسلم : کتاب الامارۃ ‘ باب وجوب
طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ و تحریمھا فی المعصیۃ ‘ص 1008۔۔ جامع الترمذی: کتاب
الجہاد ‘ باب ماجاء لا طاعۃ لمخلو ق فی معصیۃ الخالق‘ ص 1826 رقم 1707۔۔ مشکوۃ
:کتاب الامارۃ والقضاء‘ رقم 3665-3664)
۸
( مشکوۃ : کتاب ا لقضاء
والامارۃ ‘ فصل الثانی ‘ رقم 3696)
۹
( مسلم : کتاب الامارۃ ‘
باب وجوب الملازمۃ جماعۃ المسلمین عند ظہور الفتن ص 1010 رقم 56-55۔۔ مشکوۃ ‘ کتاب
القضاء والامارۃ فصل اول‘ رقم 3668)
۱۰
( صحیح مسلم‘ کتاب
الامارۃ ‘ باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین عندظھور الفتن ‘ ص 1010 رقم 54)
۱۱
( صحیح مسلم‘ کتاب
الامارۃ ‘ باب خیار الائمۃ و شرارھم‘ ص 1011 رقم `66۔۔ مشکوۃ :کتاب القضا
والامارۃ‘ رقم 3670)