ہر اہل حدیث کے نام

ہر اہل حدیث کے نام

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

جن حالات سے ہمارا ملک دوچار ہے ان کا تقاضا ہے کہ اب ہم خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں ‘ ہم بہت سو چکے اب وقت سحر قریب ہے۔ اگر ہم اب بھی نہ اٹھے اور سوئے رہے تو ملک میں اسلام کی بجائے کفر کا سورج طلوع ہو جائے گا۔ ملک میں اسلام لانا ہمارا کام تھا کیوں کہ اہل حدیث ہونے کی وجہ سے رسول ﷲ ﷺ کے جائز وارث اور خلیفہ ہم تھے۔ دین خالص کی امانت ہمارے سینوں میں تھی۔ اصلی اسلام جو دنیامیں چل سکتا تھا اور دوسرے مذہبوں اور ازموں کا مقابلہ کر سکتا تھا وہ ہمارے پاس تھا۔ ہم دعوے تو کرتے ہیں کہ ما اناعلیہ واصحابی کا مصداق ہم ہیں لاَ تَزَالُ طَائفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ ہمارے  بارے میں ہے‘لیکن ہم نے اپنے دعوؤں کو عمل سے ثابت نہ کیا‘ ہمارے اکابر بجائے اس کے کہ اسلام کی گاڑی کا انجن بن کر مسلمانوں کی قیادت کرتے ‘ڈبے بن کرمختلف سیاسی اور لامذہب جماعتوں میں شامل ہو گئے اور اپنا جماعتی تشخص کھو دیا۔ ہم نے بھی اوروں کی طرح دین اور سیاست میں تفریق پیدا کر لی۔ دین ہمارا عربی رہا ۔ سیاست ہماری فرنگی ہو گئی۔ ہم دوسری جماعتوں کے پیچھے لگے رہے۔ ہم نے اپنے جماعتی تشخص کو بلند نہ کیا ‘ ہم نے دنیا کو نہ بتایا کہ ہم کون ہیں اور کس لیے زندہ ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج لوگ ہمیں فروعی مسائل پر غیر ضروری بحث کرنے والا ایک فرقہ تو مانتے ہیں لیکن ایک فعال جماعت اور( خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ )[3:آل عمران:110]نہیں سمجھتے۔ جب کہ صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف ہمارا جماعتی تشخص ختم ہو رہا ہے اور دوسری طرف اسلام کو بے دخل کر کے پاکستان کو ختم کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں تو کیا یہ ہمار ا فرض نہیں کہ ہم اٹھیں اور الیکشن کی سیاست کو ختم کرکے اسلام کو نافذ کرنے کی عملی جدوجہد کریں۔ اسلام دشمن طاقتیں بیرونی ہوں یا اندرونی ‘ نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں اسلام آئے۔ اسلام کو روکنے کے لیے ان کے پاس واحد ذریعہ الیکشن ہے ‘ وہ جانتے ہیں کہ الیکشن کا تعلق عوام کالانعام سے ہے جن کو ہر طرح سے دھوکا دیا جا سکتا ہے۔ بھٹو نے بھی زمین و مکان کا دھوکا دے کر الیکشن جیتا تھا۔ فرنگی سیاست کے شاطر جو کل تک نظام اسلام کے نعرے لگاتے رہے ہیں آج الیکشن پر اسی لیے زور دے رہے ہیں کہ وہ بھی بھٹو کی طرح ایک دفعہ قسمت آزما لیں۔ جب پاکستان بنا ہی اسلا م کے لیے ہے تو ضیاء کا پاکستانی صدر کی حیثیت سے اولین فرض اسلام کو نافذ کرنا ہے‘ نہ کہ الیکشن کروانا۔ خاص کر جب الیکشن لڑنے والوں کے عزائم انتہائی خطرناک اور پاکستان لیو ا ہیں کوئی تو الیکشن بھٹو کا انتقام لینے کے لیے لڑ رہا ہے ‘ کوئی اسلام کو ہرا کر کفر کا نظام لانے کے لیے اور کوئی صوبائی خود مختاری کے نام پر پاکستان کو ختم کرنے کے لیے۔ ان حالات میں الیکشن خواہ کیسی بھی حدود و قیود کے ساتھ ہوں ‘ نہ پاکستان کے لیے مفید ہیں ‘ نہ اسلام کے لیے۔ پاکستان اور اسلامیان پاکستان کی بھلائی اسی میں ہے کہ ملک میں جلد از جلد اسلام نافذ ہو ‘ اسلام کے نفاذ میں جتنی تاخیر ہوتی جائے گی پاکستان کا شیرازہ بکھرتا جائے گا۔ اس سلسلے میں تاخیر پاکستان دشمنی کے مترادف ہے ۔

اے میرے اہل حدیث بھائیو!

ملک میں اسلام لانے کی اب ہمیں خود کوشش کرنی چاہیے۔ اس امید پر ہمیں بالکل نہیں رہنا چاہیے کہ جماعت اسلامی ہمیں اسلام لا کر دے گی۔ جماعت اسلامی کے اسلام کی امید پر بہت سے اہل حدیثوں نے اپنی اہل حدیثی بھی کھوئی اور ملا بھی کچھ نہیں۔ میرے بھائی یہ جماعت ضرور اسلامی ہے لیکن اس کی سیاست غیر اسلامی ہے۔ اس غیر اسلامی سیاست سے بھٹو تو آ سکتا ہے ‘ اسلام کبھی نہیں آ سکتا۔ بھٹو جماعت اسلامی کی فرنگی سیاست یعنی الیکشن سے ہی تو آیا تھا۔ یہ تو اﷲ کا شکر ہے کہ جماعت اسلامی کے اخلاص کی وجہ سے اﷲ نے ان کی جان بچالی ورنہ ان کا یہ جرم قابل معافی نہ تھا۔اب ہم اگر اس آزمائی فرنگی سیاست کو پھر آزمائیں تو سوائے(خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ)[22:الحج:11]کے اور کیا ہوگا؟ آپ سوچیں یہ کفران نعمت نہیں کہ اﷲ تو ہماری جان بخشی کرکے کفر کے ہاتھوں سے گیند چھین کرہماری طرف پھینکے کہ اسے قابوکر لو اور ہم الیکشن کروا کر وہی گیند پھر کفر کے ہاتھوں میں دے دیں۔ اگر جماعت اسلامی یا کسی اور کے کہنے سننے پر ہم یہ حماقت کر بیٹھے تو یہ گیند بھی دوبارہ ہاتھ نہیں آئے گی اور اﷲ بھی معاف نہیں کرے گا۔ اﷲ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے۔ ( وَ مَنْ یُّبَدِّلْ نِعْمَۃَ ﷲِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائتْہُ فَاِنَّ ﷲَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ )[2:البقرہ:211]جو ایک دفعہ ہاتھ آئی ہوئی اﷲ کی نعمت کو نالائقی سے ضائع کردے تو ﷲ کا عذاب اس کے لیے بہت سخت ہے۔ اگر ملک میں اسلام لانا ہے تو فرنگی سیاست کو چھوڑ کر اپنے اسلاف کو دیکھنا ہوگا۔ جیسے وہ دنیا میں اسلام لائے ‘ ویسے مردوں والے طریقے ہمیں اختیار کرنے ہوں گے۔ فرنگی طریقوں سے ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہمارے لیے یہ بہترین موقع ہے‘ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم ایک ملک گیر تحریک چلائیں اور تمام اسلام پسند مسلمانوں کو خواہ وہ کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں اسلام کے نام پر ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے پورے زور سے اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کریں اور الیکشن کو روکیں ۔ اس سے ہمارا جماعتی تشخص بھی ابھرے گا اور ملک وقوم کی خدمت بھی ہوگی۔ اگر ہم نے یہ موقع کھو دیا تو شاید ایسا موقع پھر کبھی نہ ملے۔ اس لیے اٹھیں اور اس مہم کو ضرور چلائیں۔ اﷲ ہماری مدد کرے گا اور ہم اﷲ کے نزدیک سرخرو ہوں گے۔

*****