محترم
پروفیسر حافظ محمد عبداللہ بہاولپوریؒ (وفات 1991ء) ایک خاص وضع کے آدمی تھے ۔ جس
بات کو حق جانا اسے ببانگ دہل کہا ، ڈنکے کی چوٹ کہا ، علی الاعلان کہا، سرراہ کہا
، برسرمنبر کہا ، بغیر کسی لگی لپٹی کے کہا ، بھاری بھر کم الفاظ کے لبادے میں
لپیٹ کر کہنے کی بجائے انتہائی سادہ الفاظ میں کہا ، الفاظ کی قافیہ بندی کی بجائے
دلائل و حقائق کی پابندی سے کہا گلا پھاڑ پھاڑ کر کہنے کی بجائے انتہائی متانت و
سنجیدگی سے کہا ، علمی تفوق و برتری ثابت کرنے کی بجائے سراسر اصلاح کی غرض سے کہا
، پھسپھا اور ڈھیلا ڈھالا کہنے کی بجائے ٹھوس اور قطعی کہا ، بلا دلیل کہنے کی
بجائے ہمیشہ بادلیل کہا ، عقل و فکر سے خالی کہنے کی بجائے عین عقل کو ہلا دینے
والا کہا۔
جسے
غلط جانا اسے کھل کر کہا ۔ خواہ اپنوں کے بارے میں کہنا پڑا’ خوب کہا’ بغیر کسی رو
رعایت کے کہا ‘مخاطب خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ تھا پھر بھی کہا ؛ اور جو کچھ
کہا بڑوں بڑوں کو لا جواب کر دینے والا کہا اور جو بڑوں بڑوں سے نہ کہا جا سکا وہ
بھی کہا ۔ یہ سب کچھ اپنوں میں کہا ‘بیگانوں میں کہا ‘ صرف احباب جماعت کی مخالفت
کے باوجود نہیں حکومت وقت کی مخالفت کے باوجود کہا ‘ عام حالات میں کہا اور
انتہائی کٹھن ایام میں بھی کہا۔ لیکن جو کچھ بھی کہا بڑے ہی خلوص سے کہا ۔ عدل کے
طور پر خطبات کا یہ سلسلہ پیش خدمت ہے ۔ اس کا فیصلہ آپ خود کریں گے کہ یہ تعریف
میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئےہیں ‘ مبالغہ آرائی کی حد کی گئی ہے یا واقعتا
خطبات مذکورہ بالا حقائق سے بھی کہیں بڑھ کر ہیں ۔
ہر طرح
کے حالات میں کیوں کہا ؟ صرف اس وجہ سے کہا کہ وہ حق کو صرف اپناتے ہی نہ
تھے علی الاعلان کہنے میں ہی نجات پر یقین رکھتے تھے ۔ لومۃ لائم کا خوف ‘ سیاسی و
مالی مفادات کا لالچ ‘ جاہ منصب کی بیڑیاں ‘ مقبولیت عامہ کے فتنے ‘ دل
آزاری کے اندیشے اور رواداری کے پُر فریب دھوکے اکثر بیشتر بڑے بڑے اساطین علم و
فن کو احقاق حق اور ابطال باطل کی جراءت نہیں بخشتے ۔ لیکن بفضل اللہ
ان میں سے کوئی چیز بھی حضرت حافظ صاحبؒ کی راہ میں حائل نہ ہو سکی۔
وہ حق کی صدا برابر بلند کرتے چلے گئے ۔ بہالپور میں
پہلے سے براجمان علم کے بعض پہاڑوں نے اس نووارد سے ٹکرانے کی کوشش کی ۔
لیکن حق و صداقت کا مقابلہ باطل کے بس کی بات نہیں ۔ بالآخر انہیں بہاولپور سے راہ
فرار اختیار کرنی پڑی اور حافظ صاحب ؒ کے خطبات بہاولپور کی تمسک قرآن و سنت سے
محروم روحوں کے لیے اکسیر حیات کا کام کرتے چلے گئے ۔ صرف عقائد و افکار اور دلوں
کی دنیا ہی نہیں بدلی ۔ ظاہر و باطن دلے ‘ طور اطوار بدلے’ گھر بار اور دردیوار
بدلے حتی کہ کاروبار بدلے۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں بدلے۔