بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
ناظرین کرام!
متعجب ہوں گے کہ یہ اشتہار بازی کیسی ؟ لیکن جو عیسیٰ اور اویسی کے کردار سے واقف ہیں ان کے لیے یہ کوئی نئی چیز نہیں‘ وہ جانتے ہیں کہ بے پر کی اڑانا اور ایسے جھوٹے اشتہار نکالنا ان کا پرانا مذہب ہے‘ یہ کوئی ان کی پہلی اشتہار بازی نہیں‘ اس سے پہلے بھی وہ ’’دوست محمد قریشی کا فرار‘‘۔۔۔’’ عبدالستار تونسوی بھاگ گیا‘‘ کی قسم کے اشتہار نکالتے رہیں ہیں۔ جب اس میں ہی ان کی کمائی ہے تو وہ یہ کام کیوں نہ کریں۔ تخریب کاری ان کا مشن ہے ‘ انتشار پیدا کرنا اور منافرت پھیلانا ان کا پیشہ ہے اور کیچڑ اچھالنا ان کا’’ محبوب مشغلہ ‘‘ ان کی ساری زندگی ایسی حرکتوں میں گزری ہے ‘ وہ لٹریچر جو انھوں نے شائع کیا ہے اس پر شاہد عدل ہے خاص کر عیسیٰ کا رول تو بہت گھناؤنا ہے ۔ وہ ایک سے پیسے کھا کر دوسرے کے خلاف لکھتا ہے۔ اسے چند ٹکے دے کر جس کے خلاف مرضی ہو لکھوا لو۔ وہ ایک فرقہ کے خلاف لکھ کر دوسروں سے پیسے بٹورتا ہے۔ کبھی محب صحابہ بن کر شیعوں کے خلاف زہر اگلتا ہے اور کبھی حب اہل بیت ظاہر کر کے اہل سنت کے خلاف ‘ کبھی جماعت اسلامی کا رکن رکین بن کر پیسے کماتا ہے۔ کبھی جماعت اسلامی کا مخالف ہو کر پیسے کھاتا ہے۔ آٹھ دس کتابچے جو اس نے لکھے ہیں اس کی سیاہ کاریوں کا بین ثبوت ہیں۔ جب اس نے بریلویوں ‘ خاص کر اویسی کے خلاف کتابچہ لکھا تو ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں اویسی کا ماضی و حال اور خاص کر اس کے ’’ پکا لاڑاں‘‘ کے افعال سے خوب واقف ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اسے فلاں مسجد سے کن حرکات کی وجہ سے نکالا گیا۔ اگر اہل حدیث میر ی مدد کریں تو میں اس کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دوں گا۔ چوں کہ ہماری جماعت ایسی کمینی حرکتوں کو پسند نہیں کرتی اس لیے اسے منہ نہ لگایا۔میں نے خود اسے پیسوں کی خاطر چکر لگاتے اور جامعہ اہل حدیث کا طواف کرتے دیکھا ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا کہ یہ عیسیٰ پیسوں کی خاطر عبداﷲ صاحب کے پیچھے نمازیں پڑھتا اور درسوں میں شریک ہوتا تھا۔ آج وہی اویسی کے منبر سے عبداﷲ صاحب کو گالیاں دیتا ہے۔ یہی دیوبندی عیسیٰ اویسی کے خلاف کتابچے لکھتا تھا اور اسے اخلاق سوز حرکات کا مرتکب گردانتا ہے۔ آج وہی دیوبندی عیسٰی چندٹکوں کی خاطر بریلوی اویسی کی کفش برداری کرتا ہے۔
حضور ﷺ نے سچ فرمایا تھا
طَئسَ عَبْدُ الدِّیْنَارِ وَ الدِّرْھَمِ اِنْ اُعْطِیَ رَضِیَ وَ اِنْ لَّمْ یُوْتٰی سَخِطَ ۱
طالب دینار و درہم پر پھٹکار ہو اس کا بھی کیا کردار ہے۔ اگر اسے کچھ دے دیا جائے تو راضی ورنہ ناراض۔
عیسیٰ کو جب اہل حدیث سے کوئی خیرات نہ ملی تو بگڑ گیا اور عبداﷲ صاحب اور جماعت کے خلاف زہر آلودہ پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔ ناظرین یہ اشتہار بازی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اب عیسیٰ کا حال یہ ہے کہ وہ عبداﷲ صاحب کے پیچھے پڑا ہوا ہے ۔ کبھی الٹا سیدھا خط لکھ دیتا ہے‘ کبھی عبداﷲ جواب دو نامی پمفلٹ شائع کرتا ہے۔ کبھی مناظرے اور مقابلے کے لیے للکارتا ہے۔ غرض کہ فساد پر آمادہ ہے اور اب اس نے ایک فرضی مناظرے کا ڈھونگ رچا لیا ہے اور اویسی کی مدد سے اشتہار نکال دیا ہے‘ کہ میں نے عبداﷲ کو ہر ادیا اور لاجواب کر دیا۔ حالانکہ کہاں مناظرہ اور کہاں بے چارہ عیسیٰ پینٹر ۔ !عیسیٰ کو مناظرے سے کیا نسبت؟ ایسا کون عقل مند ہے جو( فَمَالِ ھٰؤُلاَءِ الْقَوْمِ لاَ یَکَادُوْنَ یَفْقَھُوْنَ حَدِیْثًا)[4:النساء:78]کے صحیح مصداق عیسیٰ سے مناظرہ کرے ۔ مناظرے کے لیے صحیح علم و فہم اور درست ہوش و حواس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور جو ہو ہی صُمٌّ بُکْمٌ عُمّیٌ کی قسم سے وہ کیا مناظرہ کرے گا۔ اگرچہ عیسیٰ عرصے سے درپے فساد ہے لیکن ہماری جماعت نے اسے مرفوع القلم سمجھا۔ اس کا کبھی نوٹس نہیں لیا۔ اب جب کہ یہ ظاہر ہو گیا کہ عیسیٰ نہیں بلکہ اویسی ہے جو عیسیٰ کی زبان سے بول رہا ہے تو ہمیں نوٹس لیناپڑا۔ اس لیے میں بحیثیت ناظم اویسی اور عیسیٰ دونوں کو متنبہ کرتا ہوں کہ جس فرقہ ورانہ آ گ کو مشتعل کر رہے ہیں اس میں وہ خود جل جائیں گے۔لہذا باز آ جائیں اور اشتہار بازی کو بند کر کے مہذبانہ طریقے سے اپنے مسلک کی تبلیغ کریں۔ اپنے مذہب اور مسلک کی تبلیغ زبان سے یا قلم سے اس کا ہر ایک کوحق حاصل ہے۔ اس کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا لیکن الزام تراشی صحیح نہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ ہم نے چیلنج نہیں کیا‘ میں پوچھتا ہوں کہ اشتہار نکالنے میں پہل کس نے کی؟’’ عبداﷲ جواب دو ‘‘والا پمفلٹ کس نے نکالا اور پانچ سو روپے کا انعامی چیلنج کس نے کیا ؟ اب چیلنج سے انکار صریحا جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے ؟ اصل میں جھوٹ بولنا اویسی صاحب کی عادت مستمرا ہے۔ یہ ان کا کوئی پہلا جھوٹ نہیں ۔ اس سے پہلے بھی وہ عدالت میں جھوٹ بول چکے ہیں۔ جس کو ان کے تمام معتقدین بخوبی جانتے ہیں۔ اویسی صاحب نے پہلے ’’غیر مقلدین اور ان کے دلچسپ مسئلے ‘‘ نامی پمفلٹ اپنے نام اور مکتبہ سے شائع کیا ۔ جب غیر مقلدین نے بھی دلچسپی لی اور مقدمہ کر دیا اور اویسی صاحب کو اگلا جہان نظر آنے لگا تو صاف جھوٹ بول دیا کہ یہ رسالہ میرا نہیں۔ اویسی صاحب کو مسئلے تو دلچسپ نظر آئے لیکن جب ثبوت دینے کا وقت آیا تو دلچسپی جاتی رہی اور صاف مکر گئے۔ اویسی صاحب نے عبداﷲ صاحب پر تکفیر بازی کا الزام بھی لگایا ہے حالانکہ یہ صریحا جھوٹ ہے۔یہ جھوٹ بھی وہ اس لیے بولتے ہیں کہ ان کے جرم تکفیر بازی پر پردہ پڑا رہے‘ ورنہ ہم کسی مسلم کی تکفیر کب کرتے ہیں ؟ یہ مشغلہ تو اویسی صاحب کا ہے۔ جس کاتازہ ثبوت یہ ہے کہ اویسی صاحب نے حال ہی میں ایک کتاب تالیف کی ہے جس کی سرخی یہ ہے کہ’’کافر بریلوی یا دیوبندی‘‘ اس میں اس نے ثابت ہی یہ کیا ہے کہ دیوبندی کافر ہے۔ چنانچہ اویسی صاحب پہلے صفحے پر ہی تحریر فرماتے ہیں کہ رسالہ ھذا میں دلائل کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے کہ دیوبندی فرقہ اپنے اقوال سے خود کافر ہے۔ اویسی صاحب کا یہ کہنا کہ امن کو خطرہ ہم سے ہے ‘ بالکل غلط ہے۔ ہماری جماعت کوئی کام ایسا نہیں کرتی جو غیر آئینی ہو۔یہ عیسیٰ اور اویسی ہی ہیں جو امن سوز حرکتیں کرتے ہیں۔ عیسیٰ اور اویسی ہزار جھوٹ بولیں ۔ انتشار اور بدامنی پھیلانے کے مجرم یہی ٹھہریں گے کیوں کہ ان کا یہ جرم ان کے ریکارڈ سے ثابت ہے۔ میں اویسی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ رسالہ گورنمنٹ نے ہمارا ضبط کیا یا آپ کا۔ جب رسالہ گورنمنٹ نے آپ کا ضبط کیا کہ امن کے لیے آپ لوگ خطرہ ہیں عبداﷲ نہیں۔ اویسی صاحب آپ کا حال بھی عجیب ہے‘ خود ہی آگ لگاتے ہیں اورخود ہی خطرے کی گھنٹی بجاتے ہیں اور خود ہی چوری کرتے ہیں خود ہی چور چور کی دہائی دیتے ہیں۔ اویسی صاحب لوگ آپ کو مولوی کہتے ہیں۔ آپ کا تعلق مذہب سے ہے سیاست سے نہیں۔ آپ جھوٹ بولتے ہیں اور سیاسی چالیں چلتے ہیں۔ دین کی تبلیغ ایسے نہیں ہوتی اور نہ ہی مولوی کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ جھوٹ بولے اور جھوٹا پروپیگنڈہ کرے۔
خداوند یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
اویسی صاحب آپ خوش نہ ہوں کہ عیسیٰ آپ کے ہتھے چڑھ گیا ہے اور آپ اسے جیسے چاہتے ہیں جائز ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ یہ کٹھ جوڑ ( تَحْسَبُھُمْ جَمِیْعًا وَّ قُلُوْبُھُمْ شَتّٰی )[59:الحشر:14]والا گٹھ جوڑ ہے جو کبھی نہ رہے گا۔ کیوں کہ دونوں کے دل ایک نہیں۔ یہ حب علیؓ نہیں ‘بغض معاویہؓ ہے‘ جو آپ کا کلک بن گیا ہے۔ آپ کے دل بھی مختلف‘ قبلے بھی مختلف ۔ اگر ایک بریلوی ہے تو دوسرا دیوبندی۔ دل میں آپ اسے کافر ہی کہتے ہیں وہ آپ کو ۔ آپ نے حال ہی میں جو رسالہ ’’کافر بریلوی یا دیوبندی ‘‘ شائع کیا ہے اور جس میں بڑے اخلاص کے ساتھ آپ نے ثابت کیا ہے کہ دیوبندی کافر ہے‘ عیسیٰ کی نظروں سے اوجھل نہیں۔ ٹھیک ہے کہ اﷲ نے اس کے کان لے لیے ہیں او ر اسے سنتا نہیں لیکن اس کی آنکھیں تو ہیں۔ آنکھوں پر تو پردہ نہیں آیا۔ اسے نظر تو آتا ہے کہ اویسی نے اپنے رسالے میں دیوبندیوں کو کافر ثابت کیا ہے۔ کیوں نہ وہ دل ہی دل میں خون کے آنسو روتا ہوگا۔ لیکن کیا کرے پلے پیسے نہیں۔ اور پیسے کی خاطر ہی وہ آپ سے ملا ہوا ہے۔ جونہی اسے دیوبندی ایڈ مل گئی ‘ وہ ریڈ کر دے گا اور ایسا ریڈ کرے گا کہ آپ کی ٹیڈ ہو جائے گی۔ پھر وہ فاتحانہ انداز میں کہے گا کہ میں نے اویسی کی ایسی کی تیسی کر دی۔ اگرچہ کسی عالم کی ایسی تیسی کرنا ٹھیک نہیں۔ چہ جائیکہ علامہ اویسی کی ایسی تیسی ہو۔ لیکن کیا کیا جائے کہ عیسیٰ ہی ایسا ہے‘ جس کا اس نے کھایا اس کی اس نے ضرور ایسی تیسی کی۔ کسی نے ٹھیک کہا ہے۔
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟
سنتا اسے ویسے نہیں۔ دیکھتا وہ خود نہیں ۔ اسے نہیں معلوم کہ یہ میرا محسن ہے ‘ بے عزتی وہ ہر ایک کی کر دیتا ہے ۔ اس کے بھوکے بے وفا قلم سے نہ مودودی ؒ بچا ‘ نہ ہزاروی ‘ نہ شیعہ بچا نہ سنی۔ نہ اپنا نہ پرایا۔ نہ ایسا نہ ویسا۔ پھر اویسی کیسے بچ جائے گا۔ وہ جہاں کھائے بقول آپ کے وہیں پاخانہ کرے گا۔ بلی تو پاخانہ کر کے مٹی ڈال دیتی ہے۔ آپ کا یار آپ کی جھولی میں ڈالے گا۔ تیار رہیں۔ آپ خوش نہ ہوں‘ کہ وہ آپ کے دانا ڈالنے سے آج عبداﷲ صاحب کو عبداﷲ بن ابی اور نور دین کہتا ہے ‘ کل کو اگر اسے کوئی دیوبندی سخی سرور مل گیا تو وہ ضرور آپ کو ابوجہل ‘ اور ابولہب بلکہ ان کا باپ بتائیے گااور آپ سے زیادہ قوی دلائل سے ثابت کرے گا کہ آپ کا کفر ان کے مقابلے میں سہ آتشہ ہے۔ کیوں کہ آپ کا معاملہ ان سے بہت آگے ہے۔لہٰذا اویسی صاحب جو کچھ کیا کریں سوچ سمجھ کر ‘ انجام کو دیکھ کر کیا کریں ۔ ایسا نہ ہو کہ پھر پچھتانا پڑے کہ ہائے میں نے یہ حماقت کیوں کی۔
چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی
*****
۱ (صحیح البخاری‘ کتاب الجہاد ‘ باب الحراسۃفی الغزو فی سبیل اﷲ‘ ص 232 رقم 2887-2886۔۔ و کتاب الرقاق‘ باب ما یبقی من فتنۃ المال‘ ص 540 رقم 6435 ۔۔۔ ابن ماجۃ ‘ ابواب الزھد ‘ باب فی المکثرین‘ ص 2728 رقم 4135)