الاستفتاء

مکرمی جناب مولانا عبدالرشید نعمانی صاحب!
السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ
سائل پکا حنفی المذہب ہے اور حنفی مذہب ہمارے گھر کا مذہب ہے ‘ والد محترم کو اس سے اتنی عقیدت تھی کہ وہ ابن ابی حنیفہ کہلوانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ انھوں نے میرا نام ہی حنفی الدین رکھا۔ سنا ہے کہ کسی نے ان سے کہا بھی کہ اس کا نام اسلام الدین رکھو ‘ لیکن انھوں نے کہا کہ نہیں‘ اسلام میں تو شافعی ‘ مالکی‘ حنبلی‘ اہل حدیث وغیرہ سارے آ جاتے ہیں‘ میں اس کو خالص حنفی المذہب بنانا چاہتا ہوں کہ اس کا نام حنفی الدین ہی ہوگا۔ مجھے بھی اس مذہب سے بڑی شیفتگی تھی‘ نماز میں اور نماز کے بعد میری دعا ہوتی تھی ’’ اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ حَنْفِیًّا اَمِتْنِیّ حَنْفِیًّا وَاحْشُرْنِیْ فِیْ زُمْرَۃِ الْحَنْفِیَّۃَ ‘‘اﷲ مجھے حنفی زندہ رکھ اور حنفی مار ۔۔۔ لیکن آج کل میں بڑی الجھن میں ہو ں‘ خیر باد کہوں تو مشکل۔۔۔ اس لیے کہ آبائی مذہب ہے۔ رکھوں تو مشکل۔۔ گھر خراب ہوتا ہے۔ بیوی کی صحت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے مجھے دوسری شادی کرنا پڑ گئی۔ پہلی بیوی سے ایک جوان لڑکا ہے جس کا نام محمد ہے‘ وہ نہیں چاہتا ہے کہ اس کی ماں پر ماں آئے ‘ وہ کچھ پڑھا ہوا بھی ہے۔ بہشتی زیور اس نے پڑھ رکھا ہے۔ بہشتی زیور میں کہیں اس نے یہ مسئلہ پڑھ لیا۔ مسئلہ نمبر20حصہ چہارم ص 47۔۔305 ۔۔ کسی لڑکے نے اپنی سوتیلی ماں پر بدنیتی سے ہاتھ ڈال لیا ۔ اب وہ عورت اپنے شوہر پر بالکل حرام ہو گئی۔ اب کسی صورت میں حلال نہیں ہو سکتی۔ اور اگر سوتیلی ماں نے لڑکے کے ساتھ ایسا کیا تو تب بھی یہی حکم ہے۔ اب جب میں نکاح کر کے بیوی لاتا ہوں تو وہ اس مسئلے سے کام لیتا ہے۔ محبت تو نہیں کرتا ‘ بدنیتی سے رات کو ہاتھ ڈال لیتا ہے اور بیوی کو مجھ پر حرام کر دیتا ہے۔ اسی طرح چار بیویوں کو اس نے حرام کر دیا۔ میں اتنا خرچ کرتا رہا‘ نہ میرے مطلب کی رہی ‘ نہ اس کے۔ اب میں نے پانچویں عورت سے شادی کی ‘ اسے بہت بچایا‘ چھے ماہ تک تو میں نے اسے حرام نہ ہونے دیا ‘ لیکن اس کے بعد ایک افتاد آن پڑی ‘ اتفاق سے بیوی نوعمر اور خوبصورت تھی ‘ میرے رشتے داروں نے جو میرے مخالف تھے کسی حیلے سے اپنے گھر بلالیا۔ ان کو بہشتی زیور سے مسئلہ نمبر3صفحہ نمبر 16؍ 274کا علم تھا ۔
مسئلہ: کسی نے زبردستی کسی سے طلاق دلوا دی ‘ بہت مارا کوٹا ‘دھمکایا کہ طلاق دے دے ‘ نہیں تو تجھے مار ڈالوں گا ‘ اس مجبوری سے اس نے طلاق دے دی ‘ تب بھی طلاق پڑ گئی۔ انھوں نے مار پیٹ کر‘ ڈرا دھمکا کر مجھ سے تین طلاقیں لکھوا لیں۔ میں اپنے عالموں کے پاس دوڑا ‘ بھاگا ۔ سب نے یہی کہا کہ طلاق تو ہو گئی اب حلالہ کے سوا کوئی چارہ نہیں۔حلالہ کو میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا۔ ویسے بھی حلالہ کے بعد بیوی کسی کام کی نہیں رہتی۔ اب مجھے بتائیے کہ بہشتی زیور کے یہ مسئلے جو ہمارے مذہب کے مسئلے ہیں ‘ کیسے مسئلے ہیں۔ ہمارا مذہب آخر بیویوں کے معاملے میں اتنا کچا کیوں ہے ‘ نکاح اتنی جلدی کیوں ٹوٹ جاتا ہے۔ میں ان مسئلوں کے سلسلے میں اہل حدیثوں سے بھی ملا ۔ وہ تو کہتے ہیں کہ یہ سب غلط مسئلے ہیں‘ گھر کے بنے ہوئے ہیں‘ دین محمدی کے یہ مسئلے نہیں ہیں۔ زبردستی کی طلاق کبھی واقع نہیں ہوتی۔ اگر زبردستی کی طلاق واقع ہونے لگے تو غریب بے چارہ تو کبھی بیوی رکھ ہی نہیں سکتا۔ یہ سب بادشاہوں کو خوش کرنے کے مسئلے ہیں۔ استبداد کے دور کی پیداوار ہے۔ جو عورت کسی بڑے کی نگاہ میںآ گئی اس کی زبردستی طلاق لے لی۔ میں اپنے ایک عالم کے پاس پہنچا ‘ انھوں نے مجھے ایک اور ہی گُر بتایا۔ انھوں نے مجھے شامی شریف کی یہ آیت سنائی۔ یُجَدِّدُ نِکَاحَ اِمْرَاَتِہٖ عِنْدَ شَاھِدَیْنِ فِیْ کُلَّ شَھْرٍ مَرَّۃً اَوْ مَرَّتَیْنِ اِذَا الْخَطَاءُ وَاِنْ لَمْ یَصْدُرْ مِنَ الرَّجُلِ فَھُوَ مِنَ النِّسَاءِ کَثِیْرٌ ۱یعنی تجدید کر لیا کرے ‘ اپنی بیوی کے نکاح کی دو گواہوں کی موجودگی میں۔ ہر ماہ ایک مرتبہ یا دومرتبہ کیوں کہ خرابیاں اگرچہ مردوں سے صادر نہ ہوں لیکن عورتوں سے تو بہت صادر ہوتی ہیں۔ آپ ماشاء اﷲ عالم ہیں اور پکے حنفی ہیں‘ مجھے بتائیے اس حکم پر عمل کیسے کیا جائے ؟ کیا یہ ہمارے مذہب کا مسئلہ ہے ؟ کتاب تو ہمارے مذہب کی ہے ‘ ہم حنفی لوگ تو اس کتاب پر پورا ایمان رکھتے ہیں۔ا ور کوئی رکھتا ہو یا نہ ہو ‘ یہ مسئلہ ہمارے امام اعظم کا ہے یا بعد میں کسی نے بنایا ہے۔ ہر ماہ دومرتبہ تجدید نکاح کرنا فرض کے درجے میں ہے یا واجب کے یا صرف مستحب ہی ہے۔ اگر مہینے میں دومرتبہ تجدید نکاح کی جائے تو مہر نیا ہونا چاہیے یا پرانا ہی کافی ہے۔ یہ نکاح بیوی سے خود ہی پڑھ لیا جائے یا نکاح خواں کو بھی بلانے کی ضرورت ہوگی۔ ایک ماہ میں دو دفعہ نکاح کیا تو ولیمہ ہر دفعہ ہونا چاہیے یا ایک ہی دفعہ کافی ہے۔ ہم لوگ فقہ کے مسائل سے اصل میں ٹھیک طرح واقف نہیں۔ لہٰذا تفصیل سے بتائیں کہ ہر ماہ اپنی بیوی سے دو دفعہ نکاح کیسے کروں؟ آپ ماشاء اﷲ عالم ہیں‘ جزئیات تک سے واقف ہیں ‘ ویسے بھی باعمل آدمی ہیں۔ آج کل اکثر عالم بے عمل ہوتے ہیں‘ لوگوں کومسئلے بتا دیتے ہیں ‘ خود عمل نہیں کرتے۔ لیکن آپ کی ذات ایسی نہیں۔ آپ ضرور فقہ شریف کے اس مسئلہ پر پورا پورا عمل کرتے ہوں گے۔لہٰذا اس مسئلے پر بھی آپ تفصیلی رسالہ لکھیں‘ تاکہ سارے حنفی بھائی اس سے مستفید ہوں۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو فقہ پر چلنے کی مزید توفیق عطا فرمائے۔
اگر آپ تکلیف محسوس نہ کریں تو ایک عرض کروں ۔ آپ نے جو محمد بن ابی عائشہ کے نام سے ایک رسالہ اہل حدیث کے خلاف لکھا ہے اس نے تو کہرام مچا دیا ہے۔ آپ نے اس میں اہل حدیثوں سے رفع الیدین کی تمام روایات بشمول عشرہ مبشرہ کا مطالبہ کیا ہے ‘ وہ بھاگے دوڑے پھرتے ہیں ‘ وہ سب اماموں کی حدیثیں تلاش کر رہے ہیں۔ ہر امام کی انھیں کچھ نہ کچھ مل گئی ہیں۔ لیکن ہمارے امام صاحب کی نہیں ملتیں۔ آپ کو کچھ پتا ہو تو بتائیں وہ کہاں ہیں؟ وہ کہتے ہیں نعمانی صاحب کو سارا پتا ہے ۔ انھوں نے اپنی کتاب’’ ماتمس الیہ الحاجۃ ‘‘ صفحہ 10میں لکھا ہے: قَالَ الاِمَامُ اَبُوْحَنِیْفَۃَ عِنْدِیْ صَنَادِیْقُ مِنَ الْحَدِیْثِ مَا اَخْرَجْتُ مِنْھَا اِلاَّ الْیَسِیْرَ الَّذِیْ یُنْتَفَعُ بِہٖ۔۔۔ یعنی امام صاحب فرمایا کرتے تھے ۔ میرے پاس حدیثوں کے صندوقوں کے صندوق بھرے ہوئے ہیں جتنی ضرورت ہوتی ہے اتنی ہی نکالتا ہوں ۔اِنْتَخَبَ اَبُوْحَنِیْفَۃُ الاٰثَارَ مِنَ الْاَرْبَعِیْنَ اَلْفَ حَدِیْثٍ یعنی امام صاحب نے کتاب الاثار چالیس ہزار احادیث سے منتخب کی تھی۔ وہ کہتے ہیں جب ہر امام کی کوئی نہ کوئی کتاب ملتی ہے تو امام صاحب کی کیوں نہیں ملتی‘ حال آنکہ وہ امام اعظم تھے ۔ ان کا ذخیرہ علم سب سے زیادہ ہونا چاہیے۔ یہ مسانید‘ یہ فقہ کی کتابیں جو ہمارے پاس ہیں ‘ یہ تو ان کی ہیں۔ نہیں‘ یہ تو سب بعد والوں کی بنائی ہوئی ہیں۔ پھر ان میں تو علم بہت کم ہے امام صاحب کا علم تو بہت زیادہ تھا۔ کم از کم چالیس ہزار حدیثیں تھیں جو صندوقوں میں بند تھیں۔ امام صاحب تو اتنی حفاظت کرتے تھے ‘ لیکن ان کے مقلدوں نے سب غائب کر دیں۔ سترہ لاکھ مسئلے تھے ‘ جو انھوں نے بنائے تھے۔ اب ساری مسندوں کو جو امام صاحب کے نام سے چلتی ہیں جمع کر لو‘ کبھی ان کا مجموعہ چالیس ہزار نہیں ہو سکتا۔ ساری فقہ کی کتابوں کو جمع کر لو ‘ کبھی ان کے مسئلے سترہ لاکھ نہیں ہو سکتے۔ آخر یہ سب کچھ کہاں گیا۔اہل حدیث کا دعویٰ ہے کہ یہ کام نعمانی صاحب اور ان کے بھائیوں نے صرف اہل حدیث دشمنی میں کیا ہے۔ اصل میں امام ابوحنیفہ پکے اہل حدیث تھے۔ وہ حنفی بالکل نہ تھے۔ حنفیوں نے ان کے نام پر حنفی مذہب بنا لیا۔ چونکہ وہ سب سے بڑے امام تھے۔ سب سے زیادہ ذخیرہ احادیث ان کے پاس تھا۔ ان کا جو مواد اہل حدیث کے حق میں ہے وہ سارا حنفیوں نے گم کر دیا۔ رفع الیدین کی حدیثیں سینکڑوں تھیں۔ عشرہ مبشرہ کی روایات ہیں۔ چنانچہ امام حاکم ‘ امام بیہقی ‘ امام حافظ ابن حجر اور امام سبکی وغیرہ سب اپنی اپنی کتابوں میں ان کا ذکر کرتے ہیں۔ اب جب تلاش کرتے ہیں تو ملتی نہیں۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ امام صاحب کا ذخیرہ احادیث غائب ہے۔جس میں یہ ساری روایات تھیں۔ وہ سارا الزام آپ پر لگاتے ہیں۔ اب آپ اپنی بریت کی سوچ لیں یا تو امام صاحب کی چالیس ہزار حدیثوں کی گنتی پوری کریں یا تسلیم کریں کہ سب جھوٹ ہے۔

السائل ابو محمد بن ابوحنیفہ

*****

1 (شامی ج 1 ص 39)