بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
کہاں مقلد اور کہاں اتباع رسول
تقلید بھی ایک ایسی آفت ہے کہ اگر بندہ ایک دفعہ اس کے چنگل میں پھنس جائے تو پھر سنت رسول ﷺ پر عمل کے قابل نہیں رہتا۔ وہ پھر اندھا اور بہرہ ہو کر اپنے تقلیدی مذہب پر ہی چلتا ہے۔ خواہ وہ سنت رسول ؐ کے مطابق ہو یا مخالف۔ رفع یدین سنت نبویؐ ہے اس میں کوئی شک نہیں جو صحیح احادیث سے ثابت ہے اور یقیناًمنسوخ نہیں ‘ لیکن چونکہ یہ مقلدوں کے تقلیدی مذہب کے مخالف ہے۔ اس لیے مقلدین اس کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ ضعیف سے ضعیف احادیث کا سہارا لے کر اعلیٰ درجے کی صحیح حدیثوں کا انکار کر جاتے ہیں۔ اپنے غلط مذہب کی حمایت میں اگر انھیں احادیث میں توڑ مروڑ بھی کرنا پڑے تواس سے بھی نہیں چوکتے۔ مہتمم مدرسہ غوثیہ کروڑپکا حافظ عبدالستار صاحب نے اپنے رسالہ میں اسی کردار کا مظاہرہ کیا ہے۔ انھوں نے ایک رسالہ لکھا ہے جو حنفیوں کی نماز کو آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرامؓ کی نماز کے مطابق ثابت کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ مہتمم صاحب کو یہ معلوم ہی نہیں کہ مقلد کی نماز کبھی آنحضرت ﷺ کی نماز کے مطابق نہیں ہو سکتی کیوں کہ مقلد کبھی متبع رسول ؐ نہیں ہو سکتا۔ اگر مقلد کو اتباع رسول ؐ کرنا ہو تو وہ کسی کا مقلد ہی کیوں بنے۔ جب وہ کسی کا مقلد بن گیا تو وہ اتباع رسولؐ کیسے کر سکتا ہے؟ تقلید مقلد کو اجازت نہیں دیتی کہ وہ کسی اور کا اتباع کرے۔ تقلید تو طوق اور بیڑی ہے جو مقلد کو اپنے امام کی تقلید سے آزاد نہیں ہونے دیتی۔ مقلد جس امام کی تقلید کرتا ہے ‘ آنکھیں بند کرکے اسی امام کے پیچھے جاتا ہے مقلد اندھا ہوتا ہے اور اتباع کرنے والا بینا۔ جو فرق بینا اور نابینا میں ہے وہی فرق متبع اور مقلد میں ہے۔ جیسے مشرک موحد نہیں ہو سکتا ‘ بدعتی اہل سنت نہیں ہو سکتا‘ ایسے ہی مقلد متبع رسول ؐ نہیں ہو سکتا۔ مقلد کی بے بسی کا یہ حال ہے کہ اگر اس سے پوچھا جائے کہ تو اپنے امام کی تقلید کیوں کرتا ہے ؟ اس کی تقلید کے لیے تجھے کس نے کہا ہے ‘ کیا اﷲ تعالیٰ نے کہا ہے کہ تو حنفی بن یا اس کے رسولؐ نے تو وہ کہتا ہے کہ مجھے تو کچھ پتا نہیں ۔ لوگ جس کی تقلید کرتے ہیں ‘ میں بھی اس کی تقلید کرتا ہوں۔ برعکس اس کے متبع رسول ؐ یا اہل حدیث سے کوئی اگر پوچھے کہ تو اہل حدیث کیوں ہے ؟ تو حدیث پر عمل کیوں کرتا ہے تو وہ فوراً کہے گا کہ اتباع رسول ؐ کا اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حکم دیا ہے اور اتباع رسولؐ رسول ﷺ کی حدیث پر عمل کرنے سے ہو سکتی ہے۔ اس لیے میں حدیث پر عمل کرتا ہوں اور اہل حدیث کہلاتا ہوں ۔ رسول اﷲ ﷺ کے سوا نہ کوئی ہمارا امام ہے اور نہ ہم کسی کے مقلد۔ ہمارے امام صرف حضرت محمد ﷺ ہیں۔ جو رسول ؐ ہیں اور رسول کی تقلید نہیں ہوتی اور مسلم الثبوت میں ہے جو حنفیوں کی معتبر کتاب ہے۔
*۔۔ لَیْسَ الرَّجُوْعُ اِلَی النَّبِیِّ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ اَوْ اِلَی الاِجْمَاعِ لَیْسَ مِنْہُ لاَنَّ اْلاَخْذَ عَنِ الْمُؤَیِّدِ لَیْسَ تَقْلِیْدٌ بَلْ عِلْمٌ نظریٌ
نبی ﷺ کی حدیث پر عمل کرنا تقلید نہیں۔ تقلید ان لوگوں کی ہوتی ہے جن کو لوگوں نے امام بنایا ہوتا ہے‘ اﷲ کی طرف سے ان کے پاس امامت کا کوئی سرٹیفیکیٹ نہیں ہوتا اور یہی قرآن کہتا ہے۔
(اِنْ ھِیَ اِلاَّ اَسْمَآءٌ سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اَبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اﷲُ بِھَا مِنْ سُلْطاَنٍ ) [53:النجم:23]
تحریر مصنفہ ابن ہمام حنفی میں ہے۔
’’ اَلتَّقْلِیْدُ الْعَمَلُ بِقَوْلِ مَنْ لَیْسَ قَوْلُ اِحْدٰی الحُجَّۃِ بِلاَ حُجَّۃٍ مِّنْھَا‘‘
تقلید اس آدمی کی بات پر بلا دلیل عمل کرنے کو کہتے ہیں جس کی بات کی شریعت محمدیہ میں کوئی حیثیت نہیں۔ یعنی تقلید خود ساختہ اماموں کی ہوتی ہے ۔ اﷲ کے بنائے ہوئے امام یعنی نبی ﷺ کی تقلید نہیں ہوتی۔ نبی ﷺ کی اتباع اور اطاعت ہی ہوتی ہے۔
حنفیوں نے اپنا ایک امام بنا لیا اور دوسرے مقلدوں نے اپنے امام بنا لیے۔ اس طرح سب مقلد اپنے اپنے امام کی تقلید کرنے لگ گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام اور مسلمانوں میں تفرقہ پڑ گیا جو مٹنے میں نہیں آتا۔ اﷲ تعالیٰ نے صرف ایک امام بنایا تھا۔ حضرت محمد ﷺ اور اس کے اتباع کا حکم دیا تھا تاکہ مسلمانوں میں فرقے پیدا نہ ہوں ‘ لیکن مقلدین نہ ٹلے اور اپنے اماموں کی تقلید شروع کر دی۔
مہتمم صاحب کے پیش کردہ دلائل کا جائزہ
—–رفع یدین—–
رفع یدین کے سلسلے میں مہتمم صاحب نے پہلی دلیل یہ پیش کی۔
1….(( عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اﷲِ فَقَالَ مَالِیَ اَرَاکُمْ رَافِعِیْ اَیْدِیْکُمْ کَاَنَّھَا اَذْنَابُ خَیْلٍ شُمْسٍ اسْکُنُوْا فِی الصَّلٰوۃِ )) ۱
مہتمم صاحب کو تقلید کے اندھیرے میں نظر نہ آیا جو انھوں نے یہ روایت پیش کردی ورنہ اس روایت کا متنازع رفع یدین سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ روایت متنازع رفع یدین کے خلاف دلیل نہیں بن سکتی‘ کیوں کہ
1- دعویٰ اور دلیل میں کوئی مطابقت نہیں‘ دعویٰ تو یہ کیا ہے کہ رکوع والی رفع یدین منع ہے او دلیل میں نہ رکوع کا ذکر ہے ‘ نہ کندھوں تک اٹھانے کا ‘ نہ یہ وضاحت ہے کہ ایسی تشبیہ کس رفع یدین کی ہے۔
2- اس روایت میں کَاَنَّھَا اَذْنَابُ خَیْلٍ شُمْسٍ کی جو تشبیہ ہے وہ کندھوں تک ہاتھ اٹھانے والی رفع یدین پر کسی طرح بھی فٹ نہیں آتی۔
3- حضرت جابر بن سمرہؓ جو اس حدیث کے راوی ہیں وہ خود بیان کرتے ہیں کہ یہ تشبیہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے سلام والی رفع یدین کے لیے دی تھی۔ کیوں کہ ہم لوگ سلام پھیرتے وقت ہاتھوں کو اٹھا کر دائیں بائیں اشارے کیا کرتے تھے۔ آپ ؐ نے یہ تشبیہ دے کر ہمیں سلام والی رفع یدین سے جس میں ہاتھ دائیں بائیں مارے جاتے تھے منع فرما دیا۔
4- حضرت جابرؓ بن سمرہ والی روایت خواہ تمیم بن طرفہ کے طریق سے ہو یا عبیداﷲ بن القبطیہ کے طریق سے ‘ ایک حدیث ہے کیوں کہ ان دونوں روایتوں میں تشبیہ کَاَنَّھَا اَذْنَابُ خَیْلٍ شُمْسٍ ایک ہے جو دلیل ہے اس بات کی کہ حضرت جابر بن سمرہؓ کی دونوں سندوں والی حدیث میں فعل بھی ایک جیسا ہی ہوگا جو گھوڑوں کی دمیں ہلانے کے مانند ہوگا اور وہ ہاتھوں کو اٹھا کر دائیں بائیں مارنا ہی ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ گھوڑے دم مارتے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک حدیث میں تو کندھوں تک ہاتھ اٹھانے والی رفع یدین مراد ہو اور دوسری میں سلام پھیرتے وقت رفع یدین مراد ہو اور پھر تشبیہ دونوں کی ایک ہو۔ جب فعل مختلف ہو تو تشبیہ ایک کیسے ؟ جب دونوں روایتوں میں تشبیہ ایک ہے تو مشبہ بھی ضرور ایک ہی ہوگا۔ یعنی دونوں حدیثوں میں رفع یدین ایک ہی طرح کی ہوگی اور وہ وہی ہو سکتی ہے جو حضرت جابر بن سمرہؓ نے بیان کی ہے کہ ہم سلام پھیرتے وقت ہاتھوں کو دائیں بائیں مارا کرتے تھے تو آپ ﷺ نے یہ تشبیہ دی اور منع فرمایا۔
5- مہتمم صاحب ! اس حدیث سے رکوع والی رفع یدین نہ کرنے پر استدلال کرتے ہیں حالانکہ کوئی محدث اس حدیث کو رکوع والی رفع یدین کے باب میں نہیں لایا بلکہ سب محدث اس کو سلام کی رفع یدین کی ممانعت کے باب میں لائے ہیں حتی کہ امام طحاوی جو سخت قسم کے حنفی تھے وہ بھی اس کو سلام کے باب میں ہی لائے ہیں۔ وہ بھی اس کو متنازع رفع یدین کے باب میں نہیں لائے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام محدثین کا اجماع ہے کہ یہ حدیث متنازع رفع یدین کے بارے میں نہیں۔ مہتمم صاحب اور دیگر مقلدوں کی یہ فوجداری ہے جو وہ اس حدیث سے غلط مطلب نکالتے ہیں اور متنازع رفع یدین کی ممانعت پر اس سے استدلال کرتے ہیں۔
6- کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ رسول اﷲ ﷺ نے رکوع والی رفع یدین سے صراحتاً منع فرمایا ہو۔ برعکس اس کے سلام والی رفع یدین سے آپ نے صراحتاً منع فرمایا ہے جو قوی قرینہ ہے۔ اس بات کا کہ جس حدیث میں رفع یدین سے ممانعت ہے ۔ وہ حدیث سلام والی رفع یدین کے بارے میں ہے۔ رکوع والی رفع الیدین وہاں قطعاً مراد نہیں لی جا سکتی۔
7- ائمہ مذاہب مثلاً امام ابوحنیفہؒ ‘ امام مالک ؒ ‘ امام شافعی ؒ ‘ امام احمد بن حنبل ؒ وغیرھم میں سے کوئی بھی اس حدیث سے عدم رفع یدین پر استدلال نہیں کرتا اور تو اور امام ابوحنیفہ ؒ جو رفع یدین کے قائل نہ تھے ان کی دلیل بھی یہ حدیث نہیں۔ کیا امام صاحب کو اس حدیث کا علم نہ تھا؟ اگر تھا تو ان کو یہ استدلال جو آج ہر حنفی کو سوجھتا ہے کیوں نہ سوجھا۔ صاحب ہدایہ جو حنفی مذہب کی تائید میں بہت دور دور کی کوڑیاں لاتے ہیں‘ اس حدیث سے وہ بھی استدلال نہیں کرتے ۔ کیا ائمہ احناف کو حدیث کا علم کم تھا جو ان کو یہ حدیث نہ ملی یا ان کی قوت استنباط و اجتہاد وہ نہ تھی جو آج کل کے ہر گئے گزرے اور بے علم مقلد کو حاصل ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ائمہ احناف میں سے کوئی بھی اس حدیث سے ایسا استدلال نہیں کرتا جیسا کہ آج کل کے حنفی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پہلے حنفی کیسے بھی ہوں ‘ ان کے دلوں میں خدا کا خوف تھا‘ وہ قرآن و حدیث میں تحریف کرنے سے ڈرتے تھے۔ آج کل کے حنفی متعصب بھی ہیں اور بے خوف بھی اور یہ ساری ایمان کی بات ہے۔
8- اس حدیث میں اُسْکُنُوْا فِی الصَّلٰوۃِ کا لفظ بھی ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حدیث اس رفع یدین کے بارے میں ہے جو منافی سکون ہے اور وہ سلام والی رفع یدین ہی ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ ممنوع وہی ہوئی متنازع رفع یدین ممنوع نہ ہوئی‘ حنفی اب بھی یہ رفع یدین کرتے ہیں ۔ چنانچہ احناف کے ہاں افتتاحی رفع یدین عیدین کی تکبیروں کی رفع یدین اور وتر کی قنوت کی رفع یدین اب بھی مشروع ہے۔ تو ثابت ہوا کہ یہ منافی سکون نہیں کیوں کہ جو چیز منافی سکون ہو وہ نماز میں مشروع نہیں رہ سکتی جیسے کہ سلام والی رفع یدین مشروع نہ رہی۔
9- نماز ایک عبادت ہے جو تعبدی امور پر مشتمل ہے اور متنازع رفع یدین چونکہ نما ز کا جزو ہے جو بالاتفاق اہل حدیث اور احناف نماز میں کی جاتی ہے ۔ اس لیے یہ بھی ایک تعبدی فعل ہے ۔ وہ نماز کی زینت ہے ‘ اس میں خشوع و خضوع ہے جو نماز میں مطلوب ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ اب بھی نماز میں مشروع ہے ۔سلا م کا جواب دینا یا تشہد کے بعد کا سلام کرنا جو دائیں بائیں ہاتھ اٹھا کر کیا جاتا تھا اور اسی طرح نماز میں کلام کرنا نماز سے خارج ہو گئے کیوں کہ یہ تعبدی فعل نہ تھے۔ چونکہ نماز ہے ہی مجموعہ مختلف حرکات و سکنات کا ۔ اس لیے ہاتھوں کی حرکت کی وجہ سے اس کو منافی سکون نہیں کہہ سکتے۔ نماز کا جزو ہونے کی وجہ سے اس کو تعبدی فعل ہی کہیں گے اور جو تعبدی فعل ہو اور نماز کی تدریجی تکمیل کے بعد بھی مشروع ہو وہ منافی سکون نہیں ہوسکتا اور جب یہ رفع یدین منافی سکون نہ ہوئی تو حدیث زیربحث متنازع رفع یدین کے بارے میں بھی نہ ہوئی ۔ یہ اسی رفع یدین کے بارے میں ہوگی جو منافی سکون ہے اور وہ سلام والی رفع یدین ہی ہے۔
10- اگر متنازع رفع یدین سکون کے منافی ہوتی جیسا کہ احناف کہتے ہیں تو آنحضرت ﷺ نے ( اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلاَتِھِمْ خٰشِعُوْنَ ) [23:المومنون:2]کے نزول کے بعد کیوں کہ عند البعض اس آیت میں نماز میں سکون کا حکم دیا گیا ہے اور آنحضرت ﷺجابر بن سمرہؓ والی اس روایت کے بعد کہ جس میں ((اُسْکُنُوْا فِی الصَّلٰوۃِ ))کا حکم ہے نما ز میں رفع یدین نہ کرتے‘ لیکن مالک بن حویرث اور وائل بن حجرؓ کی حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ متنازع رفع یدین آخر عمر تک کرتے رہے کیوں کہ یہ دونوں صحابی ۹ ھ میں مسلمان ہوئے اور انھوں نے حضور ﷺ کو رفع یدین کرتے دیکھا۔ وائل بن حجرؓ کا جو 10ھ میں مدینہ منورہ آئے‘ حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کو رفع الیدین کرتے دیکھنا جو مہتمم صاحب کو بھی تسلیم ہے ۔ چنانچہ پانچویں حدیث جو مہتمم صاحب نے نقل کی اس میں موجود ہے کہ وائل بن حجرؓ نے آنحضرت ﷺ کورفع الیدین کرتے دیکھا تو اب مہتمم صاحب ہی بتائیں کہ اگر یہ رفع یدین سکون کے منافی ہوتی تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم یہ رفع یدین آخر عمر تک کیوں کرتے رہتے ۔ اب مہتمم صاحب یا تو یہ تسلیم کریں کہ رفع الیدین منافی سکون نہیں یا تسلیم کریں کہ آنحضرت ﷺ آخر عمر تک نماز میں منافی سکون کام کرتے رہے ہیں۔ یہ تو مہتمم صاحب کہہ نہیں سکتے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نماز میں منافی سکون کام کرتے رہے۔ لازماً ان کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ رفع یدین منافی سکون نہیں۔ جب متنازع رفع یدین منافی سکون نہیں تو ثابت ہو گیا کہ حضرت جابر بن سمرہؓ والی حدیث زیر بحث متنازع رفع یدین کے بارے میں نہیں مہتمم صاحب کا اس حدیث کو رفع یدین نہ کرنے کی دلیل بنانا بالکل غلط ہے۔
11- سرکش گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دینا ہی بتا رہا ہے کہ یہ حدیث رکوع والی رفع یدین کے بارے میں نہیں‘ کیوں کہ یہ رفع یدین تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بھی کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے اور نہیں تو افتتاحی رفع یدین تو حنفیوں کو بھی تسلیم ہے ۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ پھر جس فعل کو خود حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کرتے ہوں اس فعل کی ایسی تشبیہ دینا حضور ﷺ کی شان سے بہت بعید ہے۔
مہتمم صاحب ! آپ مقلدوں کا حال بھی عجیب ہے ۔ آپ لوگ مقلد بھی بنتے ہیں اور اپنے امام سے آگے بھی بڑھتے ہیں جو آپ کے امام کو کبھی نہ سوجھی آج وہ آپ کو سوجھتی ہے۔ یہ تقلید کی کون سی قسم ہے کہ آپ کا امام تو اس حدیث کو عدم رفع یدین کی دلیل نہیں بناتا ‘ لیکن آپ بنا رہے ہیں۔ مہتمم صاحب اس حدیث سے آپ کا رفع یدین پر استدلال کرنا سراسر زیادتی ہے۔ ائمہ حدیث اور ائمہ فقہ نے جو اس حدیث سے عدم رفع یدین پر استدلال نہیں کیا تو آخر اس کی کوئی وجہ تھی۔ امام بخاری فرماتے ہیں۔لاَ یَحْتَجُّ بِھٰذَا مَنْ لَّہ‘ حَظٌ فِی الْعِلْمِ ۲جس کو تھوڑا سا بھی علم ہوگا وہ بھی اس حدیث سے عدم رفع یدین پر استدلال نہیں کرے گا۔ مہتمم صاحب کیا آپ لوگوں کو ڈر نہیں لگتا کہ آپ رسول اﷲصلی اﷲعلیہ و سلم کے سر وہ بات لگاتے ہیں جو آپ ﷺ نے نہیں کہی۔ امام بخاری کہتے ہیں :فَلْیَحْذِرْ اَمْرَہ‘ اَنْ یَّتَقَوَّلَ عَلٰی رَسُوْلِ ﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَالَمْ یَقُلْ۳ ان لوگوں کو اﷲ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے جواﷲ کے رسول ﷺ کے سر وہ بات تھوپتے ہیں جو انھوں نے نہیں فرمائی۔ اس حدیث کے بارے میں امام نووی فرماتے ہیں
اَلْاِسْتِدْلاَلُ بِہٖ عَلَی النَّھْیِ عَنِ الرَّفْعِ وَ عِنْدَ الرَّکُوْعِ مِنْہُ قَبِیْحٌ اس بات سے رکوع والی رفع یدین نہ کرنے پر استدلال کرنا زبردست جہالت ہے۔ مہتمم صاحب یہی وجہ ہے کہ ائمہ میں سے کسی امام نے بھی ایسا استدلال نہیں کیا جیسا آپ اور آپ کے ہم مذہب کرتے ہیں۔
مہتمم صاحب کی رفع یدین نہ کرنے پر دوسری دلیل
((عَنْ عَلْقَمَۃَ قَالَ قَالَ عَبْدُاﷲِ بْنُ مَسْعُوْدٍ اَلاَ اُصَلِّیْ بِکُمْ صَلٰوۃَ رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلَّی فَلَمْ یَرْفَعْ یَدَیْہِ اِلاَّ فِیْ اَوَّلِ مَرَّۃٍ))۔۴
مہتمم صاحب نے اس حدیث کے لیے ترمذی اور ابوداؤد کا حوالہ دیا ہے حالانکہ ان دونوں کتابوں میں اس حدیث کی حقیقت خوب واضح کی گئی ہے‘ لیکن مہتمم صاحب اس کو پی گئے ہیں۔ ابوداؤد میں ہے: ’’ھذا الحدیث لیس بصحیح علی ھذا المعنی‘‘ یہ حدیث اس معنی میں صحیح نہیں ۔ حقیقت میں یہ حدیث کچھ اور تھی ۔ راوی نے غلطی سے بیان کچھ اور کر دیا ہے اور ترمذی شریف میں اس حدیث کے بارے میں عبداﷲ ابن المبارک کا یہ قول موجود ہے: ’’حدیث ابن مسعود لم یثبت‘‘ یعنی عبداﷲ بن مسعود والی یہ حدیث ثابت ہی نہیں۔ حنفیوں کے پاس رفع یدین کی مخالفت میں سب سے بہتر یہی حدیث ہے‘ لیکن یہ بھی ضعیف ہے چنانچہ ابن حبان نے اس کی تصریح کی ہے ۔ اس حدیث کو بڑے بڑے امام مثلاً امام احمدؒ ‘ امام بخاریؒ ‘ امام ابوداؤد ؒ وغیرھم سب ضعیف کہتے ہیں۔
تیسری دلیل
((عَنْ بَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ اِذَا کَبَّرَ لِلْاِفْتِتَاحِ الصَّلٰوۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی یَکُوْنَ اِبْھَامَاہُ قَرِیْبًا مِنْ شَحْمَتِیْ اُذُنَیْہٖ ثُمَّ لاَ یَعُوْدُ)) ۵
یہ حدیث بھی ضعیف ہے۔ امام احمد ؒ جیسے بڑے محدث اس کے بارے میں فرماتے ہیں۔ ھذا حدیث واہ یہ حدیث بالکل کمزور ہے۔ اس حدیث کا دارومدار یزید بن ابی زیاد پر ہے جو بالاتفاق ضعیف ہے‘ بڑی عمرمیں اس کا دماغ چل گیا تھا۔ وہ جب تک مکہ میں تھا اس حدیث کو بیان کرتے وقت ثُمَّ لاَ یَعُوْدُ کا لفظ بیان نہیں کرتا تھا۔ جب کوفہ چلا گیا اور حافظہ متغیر ہو گیا تو جو کوفی حنفی سکھاتے ‘ بیان کر دیتا. قریباً تمام محدثین متفق ہیں کہ ثُمَّ لاَ یَعُوْدُ کا لفظ جس سے حنفی رفع یدین نہ کرنے پر استدلال کرتے ہیں اس حدیث میں اضافہ ہے جو کوفے میں کیا گیا۔ اسی وجہ سے تمام بڑے بڑے ائمہ حدیث اس حدیث کو بالکل ضعیف قرار دیتے ہیں۔ امام یحییٰ بن معینؒ ‘ امام دارمیؒ امام بخاریؒ ‘ امام بیھقی وغیرھم سب اسے ضعیف کہتے ہیں۔
مہتمم صاحب کی چوتھی دلیل
یہ ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ رفع یدین نہیں کیاکرتے تھے۔ یہ حدیث بھی بہت کمزور ہے۔ امام یحیٰ بن معین اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں لا اصل لہ اس حدیث کی کوئی جڑ بنیاد ہی نہیں ۔ یہ بالکل بے اصل ہے۔ اس میں ابوبکر بن عیاش ایک راوی ہے جس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا ۔ وہ کچھ کا کچھ بیان کر دیتا تھا۔ عبداﷲ بن عمرؓ تو جو رفع یدین نہ کرتا اسے کنکر مارتے کہ یہ رفع یدین کیوں نہیں کرتا۔ ابوبکر بن عیاش کا یہ روایت کرنا کہ خود حضرت عبداﷲ بن عمرؓ رفع یدین نہیں کرتے تھے کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔ عبداﷲ بن عمرؓ کے بیٹے اور شاگرد سبھی یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ملاحظہ ہو رسالہ امام بخاری ؒ جزء رفع یدین۔ ۶
مہتمم صاحب کی پانچویں دلیل
جو مہتمم صاحب نے ابراہیم نخعی کے حوالے سے پیش کی ہے ۔ وہ خود حنفیوں کے خلاف ہے۔ اس حدیث سے تو بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اﷲﷺ اپنی آخری عمر میں بھی رفع یدین کیا کرتے تھے کیوں کہ وائل بن حجر جنھوں نے رسول اﷲ ﷺ کو رکوع والی رفع یدین کرتے دیکھا ہے وہ 9ھ کی سردیوں میں شوال کے لگ بھگ مسلمان ہوئے۔ اس وقت بھی انھوں نے حضور ﷺ کو رفع یدین کرتے دیکھا اور پھر اگلے سال 10ھ میں بھی سردیوں میں جب وہ دوبارہ آئے توا نھوں نے پھر بھی سب کو رفع یدین کرتے دیکھا۔۷ رہ گیا ابراہیم نخعی کایہ کہناکہ اگر وائلؓ نے رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کو رفع یدین کرتے ایک دفعہ دیکھا تو حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ نے پچاس مرتبہ نہ کرتے دیکھا ہے تو یہ بات بالکل جذباتی اور بغیر ثبوت کے ہے کیوں کہ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں نے حضور ﷺ کو پچاس مرتبہ بغیر رفع یدین نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ ابراہیم نخعی نے جو کہا ہے وہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہوتا۔ ابراہیم نخعی نے تو حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کو دیکھا تک نہیں لہذا ان کی یہ بات کیسے صحیح ہو سکتی ہے؟ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر عبداﷲ بن مسعودؓ نے حضور ﷺ کو بغیر رفع یدین کے نماز پڑھتے دیکھا ہے تو کب ؟ کیا حضرت وائل بن حجرؓ کے اسلام لانے سے پہلے یا بعد میں ؟ اگر پہلے دیکھا ہے تواس کا کوئی اعتبار نہیں کیوں کہ اعتبار آخری فعل کا ہوتا ہے‘ پہلا منسوخ سمجھا جاتا ہے۔ اگر بعد میں دیکھا ہے تو اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ ساری حنفی دنیا کو چیلنج ہے کہ وہ ایک حدیث صحیح یا ضعیف ایسی پیش کردیں جس میں یہ صراحت موجود ہو کہ حضور ﷺ نے وائل بن حجرؓ کے دیکھنے کے بعد رفع یدین چھوڑ دیا تھا تواس حدیث کے ہر ہر حرف کے بدلے ایک ہزار روپیہ ہم سے انعام لے لیں۔ دنیا کا جو حنفی چاہے قسمت آزمائی کر سکتا ہے۔ مہتمم صاحب سے تو خاص طور پر درخواست ہے کہ اگر ان میں ہمت و جرآت ہو تو وہ ہمارے انعامی چیلنج کو ضرور قبول فرمائیں۔ اگر مہتمم صاحب میں ہمت نہ ہو تو پھر دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ وہ تسلیم کریں کہ ان کو اپنی پیش کردہ دلیل کی رو سے ہی رسول اﷲ ﷺ کا آخری عمر میں رفع یدین کرنا ثابت ہو گیا ہے ۔ وہ حنفیت سے توبہ کرکے رفع یدین شروع کردیں ۔ دیکھتے ہیں کہ اب مہتمم صاحب کا ایمان کیا فیصلہ کرتا ہے۔مہتمم صاحب! آپ ایمان لائیں یا نہ یہ حقیقت ہے کہ رفع یدین نبی ﷺ کی آخری اور دائمی سنت ہے اور اس حدیث سے جو آپ نے پیش کی ہے یہ بات بالکل واضح ہے۔
مہتمم صاحب نے رفع یدین نہ کرنے کے بارے میں کل پانچ حدیثیں نقل کی ہیں جن میں سے پہلی حدیث کا اس رفع یدین سے کوئی تعلق ہی نہیں‘ مہتمم صاحب کی فوج داری ہے جو وہ اس حدیث کو خواہ مخواہ گھسیٹ لائے ہیں ۔ مہتمم صاحب کی آخری حدیث خود ان کے خلاف ہے جو ان کے گلے پڑ گئی ہے۔ رہ گئیں باقی تین تو وہ تینوں ضعیف ہیں۔ ایسی ضعیف کہ ان کی صحت مہتمم صاحب کبھی ثابت کر ہی نہیں سکتے۔ تو کیا ایسی ضعیف روایات کی بنیاد پر مہتمم صاحب کو یہ کہنا زیب دیتا ہے کہ حنفیوں کی نماز حضور ﷺ کی نماز کے مطابق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حنفیوں کی نماز حضور ﷺ کی نماز کے مطابق نہیں۔ اگر حنفیوں کو یہ فکر ہو کہ ان کی نماز حضور ﷺ کی نماز کے مطابق ہو تو یہ کبھی حنفی نہ رہیں فوراً اہل حدیث ہو جائیں ۔ کیوں کہ جب تک وہ حنفی رہیں گے وہ فقہ حنفی ہی کی طرف دوڑیں گے۔ صحیح احادیث کی طرف ان کا رخ کبھی نہ ہوگا اورصحیح احادیث کے بغیر نبی ﷺ کی سنت کا ملنا محال ہے۔ سنت کا گھر احادیث ہیں‘ فقہ حنفی نہیں۔فقہ حنفی میں تو حنفیوں کی باتیں ہوتی ہیں۔اگر اﷲ ‘رسول ﷺ کی باتیں لینی ہوں تو صحیح حدیثوں سے ہی ملتی ہیں۔ اور یہ کام بغیر حنفیت کو چھٹی دیے نہیں ہو سکتا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا رفع یدین کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ رفع یدین نہ کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ ذیل میں ہم چند احادیث نقل کرتے ہیں۔ جن سے رفع یدین کرنے کا مسئلہ بالکل مبرھن ہو جاتا ہے۔
1ٓ بخاری شریف میں حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم شروع میں اور رکوع کو جاتے اور رکوع سے اٹھتے ‘ رفع یدین کیا کرتے تھے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔
((کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَۃَ وَ اِذَا کَبَّرَ لِلرَّکُوْعِ وَ اِذَا رَفَعَ رَاْسَہ‘ مِنَ الرُّکُوْعِ رَفَعَھُمَا کَذٰلِکَ))۸
2- بخاری شریف میں ہی مالک بن حویرثؓ کی روایت بھی ہے کہ حضور ﷺ تینوں رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ۹مالک بن حویرثؓ 9ھ رجب میں مسلمان ہوئے ۔ جب کہ جنگ تبوک کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ا س سے ثابت ہوا کہ رفع یدین آپ کی آخری زندگی کا فعل ہے۔ یہ منسوخ نہیں جیسا کہ بعض جاہل مولوی کہہ دیا کرتے ہیں۔
3- مسلم شریف میں حضرت وائل بن حجر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تینوں رفع یدین کیا کرتے تھے‘ ۱۰ یہ وائل بن حجرؓ وہ صحابی ہیں جو یمن سے آ کر مسلمان ہوئے۔ یہ 9ھ میں شوال‘ ذی قعد کے لگ بھگ سردی کے موسم میں مدینہ منورہ آئے‘ انھوں نے اس وقت رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کو رفع یدین کرتے دیکھا ۔ اگلے سال انہی دنوں میں وہ پھر آئے ‘ انھوں نے آ کر پھر سب کو رفع یدین کرتے دیکھا۔ یہ دیکھنا 10ھ کے آخر میں ہے۔ا س کے قریباً چھ ماہ بعد حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فوت ہو جاتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ رفع یدین کرنا بالکل آپ کی آخری زندگی کا فعل ہے۔کوئی ایسی روایت نہیں جو حضرت وائل بن حجرؓ کی ر وایت کے بعد کی ہو۔ جس میں صراحت ہو کر حضور ﷺ نے کبھی نماز بغیر رفع یدین کے پڑھی ہے۔
4- ابوحمید ساعدی رضی اﷲ عنہ کی روایت بھی اس سلسلے میں بہت وزن رکھتی ہے‘ یہ
روایت مختصراً تفصیلاً ‘ قریباً حدیث کی ہر کتاب میں ہے۔ اس سے بھی ثابت ہوتا
ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ و سلم رفع یدین آخر تک کرتے رہے اور صحابہ کرامؓ بھی آنحضرت کے بعد رفع یدین کیا کرتے تھے۔۱۱ چنانچہ ابوحمید ساعدی رضی اﷲعنہ دس صحابہ کی موجودگی میں فرماتے ہیں کہ میں رسول اﷲ ﷺ کی نماز کے متعلق تم سے زیادہ علم رکھتا ہوں ۔ صحابہ کرامؓ نے کہا کہ آپ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نماز پیش کریں‘ ہم دیکھ لیتے ہیں کہ آپ کا کہنا کس حد تک صحیح ہے۔ چنانچہ حضرت ابوحمید ساعدی رضی اﷲ عنہ نے حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کی نماز پیش کی جس میں انھوں نے تینوں رفع یدین کیے۔ صحابہ کرامؓ نے کہا آپ کا کہنا بجا ہے۔آنحضرت ﷺ ایسی ہی نماز پڑھا کرتے تھے۔
5- حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ بھی رفع یدین کیا کرتے تھے اور وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم بھی رفع یدین کیا کرتے تھے۔ چنانچہ بیہقی میں بھی ان کی یہ روایت موجود ہے۔ ۱۲
6- بیہقی میں حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا رفع یدین کرنا بھی ثابت ہے۔ ۱۳
-7 ترمذی اور ابوداؤد میں حضرت علیؓ سے بھی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم رفع یدین کیا کرتے تھے۔ اتنی صحیح اور صریح روایات کے بعد نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ حضور ﷺ کی نماز کے مطابق وہی نماز ہے جو رفع یدین کے ساتھ ہو۔ ۱۴
حنفیوں کی نماز جس میں رفع یدین نہیں ہوتی بلکہ اور بھی بہت سی سنتیں غائب ہوتی ہیں‘حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی نماز کے مطابق نہیں ہو سکتی‘ یہ بات بڑے دعوے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ رفع یدین نہ کرنے کے بارے میں حنفیوں کے پاس کوئی ایک بھی صحیح حدیث نہیں‘ وہ ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مار کر ضعیف اور موضوع احادیث سے ہی اپنے حنفی بھائیوں کو تسلی دیتے ہیں‘ ورنہ ہیں وہ بالکل تہی دست ۔ اﷲ ان کو ہدایت دے۔
۔۔۔۔آمین۔۔۔۔
مہتمم صاحب نے آمین پر بھی خامہ فرسائی کی ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے پہلی حدیث طحاوی سے نقل کی ہے جو صحیح نہیں۔ اس میں ابوسعد ایک راوی ہے جو حد درجہ کا ضعیف ہے اس کے بارے میں میزان الاعتدال میں لکھا ہے:
’’ تَرْکَہ‘ الفَلاَّسُ وَ قَالَ ابْنُ مَعِیْنٍ لاَ یُکْتَبُ حَدِیْثُہ‘ وَ قَالَ الْبَخَارِیُّ مُنْکَرُ الْحَدِیْثِ‘‘
فلاس نے اس کے ضعف کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا‘ وہ اس کی روایت نہیں لیتے تھے۔ ابن معین کہتے ہیں وہ اس قابل نہیں کہ اس کی حدیث لکھی جائے۔ امام بخاریؒ اسے منکر الحدیث کہتے ہیں‘ یہ ابوسعد ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ مدلس بھی ہے جو بہت بڑا عیب ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجرؒ اس کے بارے میں لکھتے ہیں:’’سعید بن المرزبان ابوسعدالبقال من اتباع التابعین مشہور بالتدلیس‘‘۱۵ ابوسعد مشہور مدلس ہے اورطحاوی میں اس کی روایت عنعنہ کے ساتھ ہے جو ہر گز قابل قبول نہیں۔ جب یہ حدیث صحیح ہی نہیں تو مہتمم صاحب کا اس حدیث سے اپنے مذہب پر استدلال بے کار ہے۔ جیسی حدیث ضعیف اور کمزور ‘ ویسا حنفی مذہب کمزور۔ ایسی احادیث کی مدد سے حنفی نماز کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نماز کے مطابق ثابت کرنا مہتمم صاحب کا ہی کام ہے‘ کوئی حق پسند اور منصف ایسا کام نہیں کر سکتا۔
آمین کے سلسلے میں دوسری روایت مہتمم صاحب نے ترمذی شریف سے نقل کی ہے ۔ مہتمم صاحب نے اپنے مطلب کے لیے روایت تو ترمذی سے نقل کر دی ‘ لیکن امام ترمذی نے جو اس حدیث کے بارے میں جرح کی ہے وہ نقل نہیں کی۔ پتا نہیں مہتمم صاحب نے اسے پڑھا ہی نہیں‘ یا صفائی سے کام لیا ہے۔ اگر مہتمم صاحب اسے بھی نقل کر دیتے تو کیا اچھا ہوتا ‘ بے خبر حنفی عوام کو بھی پتا تو چل جاتا کہ حنفی مذہب کتنا کمزور ہے اورحنفی علما کیسے منہ زور ہیں ۔ اس حدیث کو نقل کرکے امام ترمذی فرماتے ہیں کہ : صحیح مَدَّ بِھَا صَوْتَہ‘ ہے۔ خَفَضَ بِھَا صَوْتَہ‘ صحیح نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں ‘ میں نے اس حدیث کے بارے میں اپنے استاد امام بخاری ؒ سے پوچھا انھوں نے بھی یہی کہا۔ پھر میں نے امام ابوزرعہ سے پوچھا انھوں نے بھی یہی کہا کہ پہلی حدیث جس میں مَدَّ بِھَا صَوْتَہ‘کا لفظ ہے وہی صحیح ہے۔ ۱۶ خَفَضَ بِھَا صَوْتَہ‘کا لفظ صحیح نہیں۔ یعنی اونچی آواز سے آمین کہنے والی روایت درست ہے۔ آہستہ آواز سے آمین کہنے والی روایت درست نہیں۔ آمین کے بارے میں امام ترمذی نے دو روایتیں نقل کیں۔ پہلے صحیح روایت نقل کی‘ بعد میں وہ نقل کی جس میں تین غلطیاں ہیں۔ پھر ان غلطیوں کی نشاندہی کرکے اپنے دواستادوں کی تصدیق نقل کی کہ یہ دوسری حدیث صحیح نہیں ۔
مہتمم صاحب نے ان دو حدیثوں میں سے جو امام ترمذی نے نقل کیں صحیح کو چھوڑ دیا اور جس میں تین غلطیاں تھیں اس کو لے کر حنفی مذہب کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اب کوئی مہتمم صاحب سے پوچھے جناب آپ نے اتنا تکلف کیوں کیا؟ صحیح کو چھوڑ کر غلط کی طرف کیوں لپکے؟ کیا حنفی مذہب غلط حدیثوں کے سہارے ہی زندہ ہے ؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ صحیح کو چھوڑ کر غلط کو لینا اعلیٰ کو چھوڑکر ادنیٰ کو لینا اچھے لوگوں کا کام نہیں۔ جب آپ نے ترمذی شریف کو ہاتھ لگا ہی لیا تھا تو آپ کو چاہیے تھا کہ غلط کو چھوڑ کر صحیح کو لیتے۔
مہتمم صاحب افسوس ہے کہ رفع یدین کے بارے میں امام ترمذی ؒ نے عبداﷲ بن عمرؓ اور حضرت علیؓ کی روایات کو حسن اور صحیح کہا اور وہ آپ کو پسندنہ آئیں۔ عبداﷲ بن مسعودؓ کی روایت جس کے بارے میں انھوں نے کہا کہ محدثین کے استاد عبداﷲ بن مبارکؒ کہتے ہیں کہ عبداﷲ بن مسعودؓ والی حدیث ثابت نہیں ۔ وہ آپ کو پسند آئی۔ آمین کے بارے میں امام ترمذی نے کہا سفیان کی روایت جس میںآمین اونچی آواز سے کہنے کا ذکر ہے وہ صحیح ہے اور شعبہ کی روایت جس میں آمین آہستہ کہنے کا ذکر ہے وہ غلط ہے۔ آپ نے صحیح کو ناپسند کیا اور غلط کو پسند کیا۔ مہتمم صاحب ایسا ذوق کوئی اچھی علامت نہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جب معراج کو گئے تو آپ ﷺ کو کچھ ایسے دوزخی بھی دکھائے گئے جن کا ذوق ایسا ہی تھا ۔ وہ بھی اعلیٰ چیزوں کو چھوڑ کر گھٹیا چیزوں کی طرف لپکتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے ایسے گندے ذوق کی بہت مذمت کی۔ چنانچہ فرمایا:
( اُولٰئکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُاالضَّلاَلَۃَ بِالْھُدٰی فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُھُمْ وَ مَا کَانُوْا مُھْتَدِیْنَ )[2: البقرۃ :16] (اُولٰئکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَاوُ الضَّلاَلَۃَ بِالْھُدٰی وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَۃِ فَمَآ اَصْبَرَھُمْ عَلَی النَّارِ ):[2:البقرہ:175]اعلیٰ کو چھوڑ کر ادنیٰ کو لینا خسارے کا ہی سودا ہے۔ یہ ہدایت کے بھی منافی ہے۔ اور اس کا انجام بھی برا ہے۔ دوسری جگہ فرمایا :
( اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ھُوَ اَدْنیٰ بِالَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌ )[2:البقرۃ: 61]
اے بنی اسرائیل !تم اعلیٰ کو چھوڑ کر ادنیٰ کو لینا چاہتے ہو ۔ تمھارا کیسا ذوق ہے۔ پھر ان کا انجام ذکر کیا۔ (ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ )[2::البقرۃ:61] جس سے ثابت ہوا کہ ایسے ذوق کے لوگ بالآخر ذلیل ہی ہوتے ہیں۔ اﷲ کے بندے جن کی قسمت سیدھی ہوتی ہے اور انجام بخیر ہوتا ہے ان کا ایسا ذوق نہیں ہوتا ۔ ان کے بارے میں اﷲ فرماتے ہیں:
( فَبَشِّرْ عِبَادِ الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہ‘ ط اُولٰئکَ الَّذِیْنَ ھَدَاھُمُ اﷲُ وَ اُولٰئکَ ھُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ )[39:الزمر:17-18]اے نبیؐ! میرے ان نیک بندوں کو خوش خبری دے دیں جو سنتے تو ساری بات ہیں ‘ لیکن اپنے عمل کے لیے منتخب بہت بہتر کو ہی کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہدایت والے ہیں اور یہی عقل والے ہیں۔
مقلد بے چارے کو ہدایت اور عقل کہاں؟ جو وہ اپنے تقلیدی مذہب کی دھن میں اعلیٰ کو چھوڑ کر ادنیٰ کے پیچھے ہی اپنی جان گنواتا ہے۔ اونچی آواز سے آمین کہنے کی کتنی صحیح روایات ہیں‘ لیکن مقلدوں کو اپنے تقلیدی مذہب کی پاسداری میں اچھی نہیں لگتیں۔ ضعیف اور موضوع روایتیں ہی ان کو اچھی لگتی ہیں۔ مہتمم صاحب نے اپنے مذہب کو ثابت کرنے کے لیے آمین کے سلسلے میں دو روایتیں نقل کیں ۔ ایک پرلے درجے کی ضعیف اور دوسری میں تین غلطیاں۔ آخری روایت غلط ہونے کے باوجود مہتمم صاحب کے مفید مطلب نہیں۔ کیوں کہ حنفی مذہب آمین منہ میں کہنے کا قائل ہے ۔ ایسے کہ دوسرا کوئی نہ سن سکے اور خفض کے معنی منہ میں کہنا نہیں خفض رفع کے مقابلے میں ہے جس کے معنی ہلکے جہر کے ہیں۔ اس لیے حنفیوں کے آخری مجتہد ابن ہمام نے کہا ہے: ’’ وَ لَوْ کَانَ اِلٰی شَیْءٍ لَوَفَقْتُ بِاَنْ رِّوَایَۃَ الْخَفْضِ یُرَادُ بِھَا عَدْمُ الْقَرْعِ الْعَنِیْفِ ‘‘ خفض سے مراد منہ میں کہنا نہیں بلکہ ایسی ہلکی اونچی آواز سے کہنا ہے جو کانوں کو بری نہ لگے۔
اونچی آواز سے آمین کہنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ بخاری شریف اور دیگر کتب حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
1—((اِذَا اَمَّنَ الْاِمَامُ فَاَمِّنُوْا فَاِنَّہ‘ مَنْ وَافَقَ تَاْمِیْنُہ‘ تَاْمِیْنَ الْمَلاَءِکَۃِ غُفِرَلَہ‘ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ )) ۱۷
جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے ساتھ ہوئی اسکے تمام پہلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔
2— ((اِذَا قَرَاءَ وَلاَ الضَّالِّیْنَ قَالَ آمِیْنَ وَ رَفَعَ بِھَا صَوْتَہ‘))۱۸
جب آنحضرت ﷺ نے وَلاَ الضَّالِّیْنَ پڑھا تو بلند آواز سے آمین کہا۔
3—ابوداؤد میں ہی دوسری روایت میں فَجَھَرَ بِآمِیْنَ کے لفظ ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت نے آمین بالجہر کی۔ لہذا تینوں لفظ ترمذی اور ابوداؤد میں آگئے ۔مَدَّبِھَا صَوْتَہ‘ ‘ رَفَعَ بِھَا صَوْتَہ‘ جَھْرَ بِآمِیْنَ تینوں لفظ ثابت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ اونچی آواز سے آمین کہتے تھے۔
4—ابن ماجہ میں حضرت علیؓ کی روایت ہے۔ ((سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ اٰمِیْن)) یعنی جب آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم نے الحمد شریف ختم کی تو میں نے آپ ؐ کی آمین سنی۔۱۹
5— ابن ماجہ میں ہی حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے۔
((قَالَ تَرَکَ النَّاسُ التَّامِّیْنَ وَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ اِذَا قَالَ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلاَ الضَّالِّیْنَ قَالَ آمِیْنَ حَتّٰی یَسْمَعَھَا ‘ اَھْلُ الصَّفِّ الْاَوَّلِ فَیَرْتَجُ بِھَا الْمَسْجِدُ )) ۲۰ لوگوں نے آمین کہنا ترک کر دیا ہے حالا نکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جب ولا الضالین پڑھ لیتے تو آمین کہتے اونچی آواز سے کہ پہلی صف والے سن لیتے ۔ اس طرح آمین کی آواز سے مسجد میں گونج پیدا ہو جاتی۔
6—ابن ماجہ میں ہی حضرت عائشہؓ اور حضرت عبداﷲ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جتنا یہود تمھارے سلام اور آمین پر حسد کرتے ہیں اور جلتے ہیں
اتنا اور کسی چیز پر نہیں۔ لہذا تم کثرت سے آمین کہا کرو۔۲۱ (آمین پر جلنے والے حنفیوں کے لیے عبرت کا مقام ہے)
7—(( عَنْ عَطَاءَ بْنِ اَبِیْ رِبَاحٍ قَالَ اَدْرَکْتُ ماءَتَیْنِ مِنْ اَصْحٰبِ رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذَا الْمَسْجِدَ یَعْنِیْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامِ اِذَا قَالَ الْاِمَامُ وَلاَ الضَّالِّیْنَ رَفَعُوْا اَصْوَاتَھُمْ بِآمِیْنَ )) ۲۲
حضرت عطا جو امام ابوحنیفہ ؒ کے استاد ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے مسجد حرام میں دو سو صحابہ کرام کو بلند آواز سے آمین کہتے ہوئے پایا۔
مقتدی کی قرآت
مہتمم صاحب نے قرآت مقتدی پر بھی زور آزمائی کی ہے اور ایک عام مغالطے کے تحت جس کا حنفی علما عام طور پر شکار ہیں وہی آیت
(وَاِذَا قُرِیءَ الْقُرْاٰنُ ۔۔۔ الخ ) [7:الاعراف:204] پیش کی ہے جس کو حنفی علما پیش کرتے ہیں۔ (وَاِذَا قُرِیءَ الْقُرْاٰنُ ۔۔۔ الخ ) کو پیش کرکے حنفی علما کہا کرتے ہیں کہ ہم قرآن پیش کرتے ہیں جو قطعی ہے اور اہل حدیث ‘ حدیث پیش کرتے ہیں جو ظنی ہے۔ پھر جاہلوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ حنفی لوگ قرآن کو زیادہ مانتے ہیں اور اہلحدیث حدیث کو اور یہی احناف اور اہل حدیث میں فرق ہے۔ بظاہر یہ بات بہت پرفریب ہے لیکن حقیقت میں یہ زخرف القول غرورا[6:الانعام:112]کے سوا کچھ نہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ حنفی حنفیت کو مانتے ہیں وہ نہ قرآن کو مانتے ہیں اور نہ حدیث۔ حنفی قرآن و حدیث کو صرف وہاں مانتے ہیں جہاں وہ حنفیت کے موافق ہوں ‘ جہاں قرآن و حدیث حنفیت کے موافق نہ ہو وہاں وہ حنفیت کو ہی مانتے ہیں۔ قرآن و حدیث کو نہیں مانتے۔ رہ گئے اہل حدیث تو وہ اہل حدیث ہیں وہ حدیث کو مانتے ہیں ۔ وہ حدیث اﷲ کی ہو یا اس کے رسول ﷺ کی۔ حدیث قرآن کو بھی کہتے ہیں اور حدیث‘ حدیث رسول ؐ کو بھی۔ قرآن خود کئی جگہ اپنے آپ کو حدیث کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے۔ مثلاً:۔
( فَذَرْنِیْ وَ مَنْ یُّکَذِّبُ بِھٰذَاالْحَدِیْثِ )[68:القلم: 44]( اَفَبِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُدْھِنُوْنَ)[56:الواقعۃ:81] (اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا) [18:الکہف:6] وغیرھم آیات قرانی۔
اہل حدیث اﷲ ‘ رسول ﷺ کی بات کو مانتے ہیں اور کسی کو نہیں مانتے۔ اسی لیے ان کو اہل حدیث کہتے ہیں۔ قرآن و حدیث ایک حقیقت کے دو رخ ہیں۔ ایک کے انکار سے دوسرے کا انکار لازم آتا ہے۔ حدیث رسولؐ کے بغیر اﷲ کی حدیث یعنی قرآن کو نہ مانا جا سکتا ہے ‘ نہ سمجھا ۔ حدیث رسولؐ قرآن کی تشریح و تفسیر بھی ہے اور احکام میں مثل قرآن بھی۔ حدیث رسول ؐ ہی قرآن کے منشا و مطلب کا تعین کرتی ہے۔ دنیا میں جتنے فرقے بھی گمراہ ہوئے وہ قرآن و حدیث میں فرق کرکے ہی گمراہ ہوئے ۔ ان کی تکنیک بھی یہی تھی۔ جو آج کل کے حنفی علما و عوام کی ہے۔ حدیثوں کا انکار وہ اسی تکنیک کے تحت کرتے تھے۔ کہ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے۔ حالانکہ صحیح حدیث کبھی قرآن کے خلاف نہیں ہوتی۔ قرآن کی مراد ہی ہوتی ہے جو صحیح حدیث بیان کرتی ہے۔ قرآنی آیت کا معنی وہ کرنا جو صحیح حدیث کے خلاف ہو یہ گمراہ فرقوں کا ہی شیوہ ہے۔ اہل حق کا یہ شیوہ نہیں جو حنفی علما اس آیت کو پیش کرکے فخر کرتے ہیں کہ ہم قرآت خلف الامام کے مسئلے پر قطعی دلیل یعنی قرآن پیش کرتے ہیں۔ وہ حقیقت سے بہت دور ہیں۔ ان کو اپنے گھر کا پتا ہے کہ ہمارے حنفی اصول کیا کہتے ہیں ۔ نہ ان کو یہ پتا کہ علم و عقل کا تقاضا کیاہے ؟ حنفیوں کے اصولی علما تو آیت (وَ اِذَا قُرِیءَ الْقُرْاٰنُ ۔۔۔ الخ ) مقتد ی کی عدم قرآت پر استدلال کرتے ہیں‘ کیوں کہ ان کے نزدیک یہ آیت سورہ مزمل آیہ قرآت سے متعارض ہے ان کے نزدیک سورہ مزمل کی آیت مقتدی پر قرآت کو فرض کرتی ہے اور آیت (وَ اِذَا قُرِیءَ الْقُرْاٰنُ ۔۔۔ الخ ) مقتدی کو قرآت سے روکتی ہے اور جب ان کے نزدیک ان دونوں آیتوں میں تعارض ہے تو دونوں معرض استدلال میں پیش نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے ان کے نزدیک دونوں ساقط ہیں۔ وہ حدیث کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہوں ۔ نور الانوار وغیرہ کتب اصول فقہ حنفی۔۔۔ لیکن جو حنفی عالم بے علم ہیں ‘اصول حنفیہ سے لابلد ہیں ‘ جو ہیں مقلد لیکن بنتے مجتہد ہیں وہ بے سوچے سمجھے اس آیت کو پیش کر دیتے ہیں۔ وہ آیت تو لکھتے ہیں قرآن کی لیکن اس سے استدلال کے لیے موقوف اور مقطوع ضعیف آثار پیش کرتے ہیں۔ جیسا کہ مہتمم صاحب نے کیا ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ اگر ان کی دلیل قرآنی آیت ہے تو پھروہ ضعیف آثار ساتھ کیوں پیش کرتے ہیں۔ اگر ان کا فقط اس آیت سے ہی استدلال ہو تو وہ ضعیف آثار ساتھ کیوں پیش کریں۔ ان کا آیت (وَ اِذَا قُرِیءَ الْقُرْاٰنُ ۔۔۔ الخ ) کے ساتھ ضعیف آثار پیش کرنا ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ان کو بھی معلوم ہے کہ آیت (وَ اِذَا قُرِیءَ الْقُرْاٰنُ ۔۔۔ الخ ) اکیلی عدم قرآۃ مقتدی پر دلالت نہیں کرتی۔ یعنی ان کی یہ دلیل قطعی نہیں۔ کیوں کہ قطعی دلیل وہ ہوتی ہے جو قطع الاثبات بھی ہو۔ اور قطعی الثبوت بھی۔ اگرقطعی الاثبات ہوقطعی الثبوت نہ ہو تو بھی دلیل ظنی اور اگرقطعی الثبوت ہو قطعی الاثبات نہ ہو وہ بھی دلیل ظنی۔ دلیل کی قطعیت کے لیے اثبات اور ثبوت کی قطعیت بھی ضروری ہے۔ آیت (وَ اِذَا قُرِیءَ الْقُرْاٰنُ ۔۔۔ الخ ) قطعی الثبوت ضرور ہے ‘ لیکن مقتدی کی عدم قرآت کے لیے قطعی الاثبات نہیں کیوں کہ آیت کا صیغہ اس معنی پر قطعاً دلالت نہیں کرتا کہ مقتدی امام کے پیچھے سراً بھی قرآت نہ کرے۔ یہ حنفیوں کی کھینچا تانی ہے جو ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مار کر صحابہ کرامؓ اور تابعین کے ضعیف اقوال کی مدد سے یہ معنی پیدا کرتے ہیں ورنہ آیت اس معانی کے بالکل متحمل نہیں۔آیت میں نماز کا کوئی لفظ ہے اور نہ نماز کا کوئی قرینہ ۔ پھر امام یا مقتدی اور قرآت خلف الامام کے معنی کہاں سے پیدا ہو گئے۔ مہتمم صاحب! آپ ہی بتائیں آپ نے جو آیت (وَ اِذَا قُرِیءَ الْقُرْاٰنُ ۔۔۔ الخ ) پیش کی ہے تو یا آپ کا استدلال اس آیت سے ہے یا تین تفسیری حوالوں سے جو آپ نے نقل کیے ہیں یا دونوں کے مجموعہ سے اگر آپ کا استدلال صرف آیت سے ہے تو کیا آیت کی عبارت مقتدی کی عدم قرآت پر دلالت کرتی ہے ۔ اگر کرتی ہے تو بتائیے دلالت کی یہ کون سی قسم ہے جس کے تحت آپ کا دعویٰ کہ مقتدی سراً بھی الحمد شریف کی قرآت نہ کرے ثابت ہوتا ہے۔ ثانیاً پھر آپ نے تین تفسیری حوالے کیوں پیش کیے ۔ اگر آپ کا استدلال ان تین تفسیری حوالوں سے ہے تو پھر اولاً تو آپ کی دلیل قطعی نہیں رہتی بلکہ ظنی ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ یہ تینوں حوالے ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ خبر واحد سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ثانیاً تفسیروں میں اس آیت کے نزول کے اور بھی کئی اسباب بیان کیے گئے ہیں۔پھر یہ اختلاف کیوں ہے ۔ یہ اختلاف ہی دلیل ہے اس بات کی کہ قرآت خلف الامام اس آیت کا قطعی شان نزول نہیں۔ یہ صحابہؓ اور تابعین کا اجتہاد ہے جو وہ آیت کو مختلف محامل پر محمول کرتے ہیں۔ اور اگر آپ کہیں کہ میرا ستدلال آیت اورتین تفسیری حوالوں کے مجموعہ سے ہے تو پھر آپ کو ماننا پڑے گا آپ کی دلیل قطعی اور ظنی مقدمات سے مرکب ہے ۔ آیت قطعی اور شان نزول کے بارے میں تفسیری حوالے ظنی جو دلیل قطعی اور ظنی مقدمات سے مرکب ہو وہ ظنی ہوتی ہے۔ کیوں کہ نتیجہ ارذل کے تابع ہوتا ہے۔ لہذا احناف کا یہ کہنا غلط ہے کہ (وَ اِذَا قُرِیءَ الْقُرْاٰنُ ۔۔۔ الخ )ہماری قطعی دلیل ہے۔ مہتمم صاحب !اصل میں اس مسئلے میںآپ کا سہارا یہ تفسیری حوالے ہیں جن میں سے ایک بھی سنداً صحیح نہیں‘ سب مخدوش ہیں اور پھر مرفوع بھی کوئی نہیں‘ سب موقوف یا مقطوع ہیں۔ مہتمم صاحب!آپ اس آیت کے عموم سے استدلال نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ یہ آیت اپنے عموم پر نہیں‘ ہر ایک ہی اس کو مَخْصُوْصٌ مِنْہُ الْبَعْضُ مانتا ہے۔ اور مَخْصُوْصٌ مِنْہُ الْبَعْضُ ظنی ہوتا ہے۔ تخصیص ہو جانے سے اس کی قطعیت جاتی رہتی ہے‘ اس لیے متین و فطین حنفی اس آیت سے استدلال نہیں کرتے۔ وہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے تحت مَنْ کَانَ لَہ‘ اِمَامٌ فَقِرْأۃُ الْاِمَامِ لَہ‘ قِرْأۃٌ ۲۳ کو ہی ہاتھ ڈالتے ہیں۔ جو سنداً اور معناً اتنی کمزور ہے کہ وہ حنفی مذہب کے ناجائز بوجھ کو اٹھا ہی نہیں سکتی۔ حنفی مذہب تویہ ہے کہ مقتدی کو ہر طرح کی قرآت منع ہے ۔ اونچی آواز سے ہو یا آہستہ‘ دل میں فاتحہ ہو یا مازاد علی الفاتحہ ہو‘ سب منع ہے اور یہ بات اس حدیث سے کہاں ثابت ہوتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ حنفی مذہب کسی دلیل سے بھی ثابت نہیں ہوتا نہ قرآن و حدیث سے ‘ نہ کسی صحابی کے قول و عمل سے۔ مہتمم صاحب نے اس موضوع پر جتنی دلیلیں بھی نقل کی ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی ان کے حق میں یا ہمارے خلاف نہیں۔ پہلے تین تفسیری حوالے اس لیے ہمارے خلاف نہیں کہ ان میں سراً الحمد شریف کی قرآت سے کوئی ممانعت نہیں بلکہ تیسری دلیل میں تو جہر کا لفظ موجود ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حوالہ جات جہری قرآت کی ممانعت میں ہیں جس کے ہم قائل نہیں۔ ہم تو مقتدی کے لیے سری قرآت فاتحہ کے قائل ہیں‘ جس سے ان حوالوں کا کوئی واسطہ نہیں۔
رہ گئیں احادیت تو پہلی حدیث جو مہتمم صاحب نے نقل کی ہے وہ ہمیں اس لیے مضر نہیں کہ ہمارا دعویٰ خاص قرآت کا ہے اور حدیث میں قرآت عام ہے ۔ عام اور خاص میں کوئی تعارض نہیں ہوتا۔ عام سے خاص نکلتا رہتا ہے۔ ((و اذا قراء فانصتوا )) قرآت عام ہے جس سے تکبیر تحریمہ اورالحمد شریف خاص ہیں۔ تکبیر تحریمہ کو حنفی بھی خاص مانتے ہیں جبتکبیر تحریمہ خاص ہو سکتی ہے ۔ ((و اذا قراء فانصتوا )) ۲۴ اس کے منافی نہیں تو الحمد شریف بھی خاص ہو سکتی ہے۔ یہ حدیث الحمد شریف کے منافی بھی نہیں ہو سکتی۔
دوسری حدیث
حضرت جابر کا قول ہے وہ مرفوع حدیث نہیں کہ رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہو ۔ مہتمم صاحب نے فوجداری کی جو اس کو مرفوع بناکر آنحضرتؐ کا فرمان بنا دیا۔ ۲۵مہتمم صاحب نے ترمذی‘ مؤطا امام مالک‘ اور مؤطا امام محمد کا حوالہ دیا کہ یہ حضور ﷺ کا فرمان ہے۔ میں پوچھتا ہوں مہتمم صاحب کیا آپ نے ترمذی اور دونوں مؤطا خود دیکھے ہیں ؟ اگر دیکھے ہیں تو دیانت داری سے بتائیے! کہ ان میں عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم ایک لفظ ہے؟ کیا ان کتابوں میں یہ ہے کہ ’’حضور ﷺ نے یوں فرمایا‘‘؟ اگر یہ لفظ وہاں نہیں توآپ نے یہ غلط حوالہ کیوں دیا۔ اگر یہ لفظ وہاں موجود ہے اور آپ نے خود دیکھا ہے تو ہمیں دکھا کہ منہ مانگا انعام لیں۔ اور اگر آپ نہ دکھا سکیں تو پھر کم ازکم سزا جو اس جرم کی ہو سکتی ہے یہ ہے کہ آپ نماز عصر کے بعد اپنے مقتدیوں کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی غلطی کا اقرار کریں اور اﷲ سے معافی مانگیں اور آئندہ کے لیے حنفیت سے توبہ کریں کیوں کہ یہ حنفیت ہی ہے جو آپ سے ایسی حرکتیں کرواتی ہے۔ مہتمم صاحب یہ سب حنفیت کی برکات ہیں کہ آپ کو کبھی حدیثوں میں گڑبڑ کرنی پڑتی ہے اور کبھی توڑ مروڑ۔ صحیح حدیثوں سے آپ کو نفرت ہے کیوں کہ یہ آپ کے خلاف ہیں۔ ضعیف حدیثوں سے آپ کو محبت ہے کیوں کہ یہ آپ کا سہارا ہیں۔اس حدیث کو امام طحاوی ضرور مرفوع لائے ہیں لیکن انھوں نے ساتھ ہی یہ نشان دہی بھی کر دی ہے کہ یہ مرفوع صحیح نہیں۔ موقوف ہی صحیح ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسماعیل سدی نے جب اپنے استاد امام مالک ؒ سے پوچھا کہ کیا میں اس حدیث کو مرفوع بیان کروں تو امام مالک ؒ نے غضب میں آ کر فرمایا کہ پکڑو اس کی ٹانگ یہ کیسی غلط بات کہتا ہے۔ جب یہ حضرت جابرؓ کا قول ہے تواس کو حضور ﷺ کی حدیث کیسے کہہ دیا جائے۔ جب اس حدیث کا مدار حضرت امام مالک ؒ پر ہے اور وہ اس کو مرفوع نہیں مانتے بلکہ اپنے مؤطا میں بھی وہ اس کو موقوف ہی بیان کرتے ہیں تو یہ حدیث مرفوع کیسے ہو سکتی ہے۔ مہتمم صاحب نے اپنے تقلیدی مذہب کے جوش میں آ کر آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراً اس کو مرفوع بنا دیا۔ حالانکہ یہ موقوف ہے ۔ اگرچہ حضرت جابرؓ کا قول ہے جس کی مرفوع حدیث کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں‘ لیکن حنفی مذہب کے یہ بھی خلاف ہے۔اس میں صاف وضاحت ہے کہ ایک خاص صورت کے سوا الحمد شریف کے بغیر کوئی رکعت نہیں ہوتی‘ لیکن حنفی کہتے ہیں ہو جاتی ہے۔ صرف سجدہ کرنا پڑتا ہے۔
تیسری حدیث
جو مہتمم صاحب نے نقل کی ہے اولاً تو وہ صحیح نہیں جیسا کہ ابن کثیرؒ نے اپنی تفسیر میں امام بخاریؒ نے جزء القرآۃ میں اور حافظ ابن حجر ؒ نے اپنی مختلف تصانیف میں اس کا ذکر کیا ہے۔ ثانیاً ہمیں مضر نہیں کیوں کہ اس میں قرآت سے ممانعت نہیں۔ اس حدیث کا مفاد صرف اتنا ہے کہ امام کی قرآت مقتدی کو کفایت کر جاتی ہے۔ یعنی اگر مقتدی خود نہ پڑھے امام کی ہی سن لے تو اس کو بھی کافی ہے‘ لیکن اگر پڑھے تو منع نہیں اور یہ حکم اس قرآت کے لیے ہو سکتا ہے جو مقتدی کے ذمے فرض نہ ہو۔ جو مقتدی کے ذمے فرض ہو اس کا حکم یہ نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ مقتدی کے فرض کا امام متحمل نہیں ہوسکتا۔ مثلاً تکبیر تحریمہ مقتدی کو اپنی کہنی پڑتی ہے۔ امام کی کہی ہوئی تکبیر تحریمہ مقتدی کو کفایت نہیں کرتی۔ چونکہ (( لاَ صَلٰوۃَ اِلاَّ بِفَاتِحَۃِ الْکِتٰبِ)) کے تحت الحمد شریف بھی فرض ہے ۔ اس لیے یہ بھی مقتدی کو اپنی پڑھنی پڑھے گی۔ امام کی پڑھی ہوئی مقتدی کو کفایت نہیں کرتی۔ امام کی جو قرآت مقتدی کو کفایت کر سکتی ہے وہ مازاد علی الفاتحہ ہی ہو سکتی ہے۔ فاتحہ نہیں ہو سکتی کیوں کہ فاتحہ کے بغیر تو نماز ہی نہیں۔ جیسے تکبیر تحریمہ فرض ہے ایسے ہی الحمد شریف فرض ہے۔ مقتدی تکبیر تحریمہ بھی اپنی کہے اورالحمد شریف بھی اپنی پڑھے۔ اس کے بعد والی قرآت سنے ۔ وہ کیوں کہ مقتدی کے ذمے فرض نہیں اﷲ مقتدی کو بھی اس کے پڑھنے کا ثواب دے دے گا۔
چوتھی حدیث
جو مہتمم صاحب نے نقل کی ہے پتا نہیں کہاں سے نقل کی ہے ۔ اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ اگر وہ سندنقل کرتے یا کم از کم کتاب کا حوالہ ہی لکھ دیتے تو پتا چلتا کہ یہ روایت کیسی ہے ۔ حضرت علیؓ سے اس قسم کی کوئی روایت اولاً تو صحیح نہیں ہو سکتی کیوں کہ حضرت علیؓ خود قرآت خلف الامام کے قائل ہیں ۔ جیسا کہ امام بخاری ؒ امام دارقطنی اور امام بیھقی وغیرھم نے نقل کیا ہے۲۶لیکن اگر اس کو صحیح مان لیا جائے تواس قرآت سے وہی قرآت مراد ہوتی ہے جو اونچی آواز سے پڑھی جائے جس سے دوسروں کی نماز میں خلل واقع ہوتا ہو۔ اپنے منہ میں آہستہ آہستہ امام کے پیچھے پڑھنا خلاف فطرت نہیں ہو سکتا کیوں کہ صحابہ کرامؓ پڑھتے تھے اور تکبیر تحریمہ پڑھنے کے تو حنفی بھی قائل ہیں۔خلاف فطرت وہی قرآت ہوسکتی ہے جس سے طبیعت ابیٰ کرے۔ جو ہر کس و ناکس کو بری لگے اور وہ اونچی قرآت ہی ہو سکتی ہے۔ سری کا توکسی کو پتابھی نہیں لگتا اور اس سے خلل بھی کوئی واقع نہیں ہوتا۔ لہذا منہ میں امام کے پیچھے الحمد شریف پڑھنا اس حدیث کے منافی نہیں ۔ صحابہ کرامؓ پڑھا کرتے تھے کیوں کہ حضور ﷺ کا حکم تھا ملاحظہ ہوں چند روایات ۔
((عَنْ عَبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ قَالَ لاَصَلاَۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَاْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتٰبِ)) ۲۷
آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو نماز میں الحمد شریف نہ پڑھے اس کی کوئی نماز نہیں ہوتی یعنی ہر نماز کی ہر رکعت میں الحمد شریف ضروری ہے۔ امام ہو یا مقتدی۔
((عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّی صَلاَۃً لَمْ یَقْرَاْ فِیْھَا بِاُمِّ الْقُرْاٰنِ فَھِیَ خِدَاجٌ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ غَیْرُ تَمَامٍ قَالَ اَبُوالسَّاءِب فَقُلْتُ یٰاَبَاھُرَیْرَۃَ اِنِّیْ اَکُوْنُ اَحْیَانًا وَرَاَءَ الْاِمَامِ فَغَمَزَ ذِرَاعِیْ وَ قَالَ اِقْرَأ بِھَا فِیْ نَفْسِکَ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ یَقُوْلُ قَالَ اﷲُ تَعَالٰی قَسَمْتُ الصَّلاَۃَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ عَبْدِیْ نِصْفَیْنِ فَنِصْفُھَا لِیْ وَ نِصْفُھَا لِعَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَا سَألَ )) ۲۷
یہ حدیث مختلف الفاظ کے ساتھ مسلم‘ ابوداؤد‘ ترمذی‘ ابن ماجہ اور دیگر بہت سی
کتب احادیث میں ہے۔ اس حدیث میں صاف ظاہر ہے کہ جو نماز میں الحمد شریف نہیں پڑھتا اس کی نماز پوری نہیں ہوتی‘ ابوالسائب شاگرد ابوہریرہؓ نے کہا میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں ۔ انھوں نے کہا مقتدی بن کر بھی الحمد پڑھا کر۔ حضور ﷺ کا یہی حکم ہے جو کہ اگلی حدیث سے مستفاد ہے چنانچہ انھوں نے پوری حدیث سنائی۔
3— (( عَنْ عَبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ صَلاَۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأ بِفَاتِحَۃِ الْکِتٰبِ خَلْفَ الْاِمَامِ )) ۲۸
آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص اما م کے پیچھے الحمد شریف نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔
4— ((عَنْ عَمْرو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللی علیہ وسلم تَقْرَءُ وْنَ خَلْفِیْ قَالُوْا نَعَمْ اِنَّا لَھذا ھَذَا قَالَ فَلَا تَفْعَلُوْا اِلاَّ بِاُمِّ الْقُرْاٰنِ ))۲۹
آنحضرت ﷺ نے پوچھا کیا تم میرے پیچھے قرآت کرتے ہو؟ ہم نے کہا :ہاں ‘ ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں ۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: سوائے الحمد شریف کے کچھ نہ پڑھا کرو۔ (جزء القرأۃ )
5— ((عَنْ اَنَسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی بِاَصْحَابِہٖ فَلَمَّا قَضٰی صَلاَتَہ‘ اَقْبَلَ عَلَیْھِمْ بَوَجْہٍ اَتَقْرَءُ وَنَ فِیْ صَلٰوتِکُمْ وَالْاِمَامُ یَقْرَءُ فَسَکَتُوْا فَقَالَھَا ثَلٰثَ مَرَّاتٍ فَقَالَ قَائلُ اوْ اِنَّا لَنَفْعَلْ قَالَ فَلاَ تَفْعَلُوْا وَ لْیَقْرَا اَحَدُکُمْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتٰبِ فِیْ نَفْسِہٖ )) ۳۰
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں آنحضرت ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو نماز پڑھائی پھر ان کی طرف منہ کرکے پوچھنے لگے کیا تم قرآت خلف الامام کرتے ہو تو کسی نے کہا ہاں ہم پڑھتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا ایسا نہ کیا کرو البتہ تم میں سے ہر ایک کو الحمد شریف ضرور آہستہ آہستہ پڑھنی چاہیے۔
نماز تراویح
رکعات تراویح پرمہتمم صاحب نے دو حوالے نقل کیے ہیں ایک مؤطا امام مالک ؒ سے دوسرا ترمذی شریف سے مؤطا امام مالکؒ سے جو یزید بن رومان کا اثر نقل کیا ہے وہ منقطع ہے ۳۱ وہ صحیح نہیں کیوں کہ یزید بن رومان حضرت عمرؓ کے زمانے میں پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ملاحظہ ہو نصب الرایہ مہتمم صاحب کا کمال یہ ہے کہ مؤطا امام مالک سے یزید بن رومان والا اثر تو لے لیا جو صحیح نہ تھا اور وہ صحیح حدیث چھوڑ دی جس میں صراحت ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے تراویح باجماعت کا اہتمام کیا تو قاریوں کو حکم دیا کہ وہ گیارہ رکعت پڑھائیں آٹھ تراویح اور تین وتر مہتمم صاحب نے دوسرا حوالہ جو ترمذی سے نقل کیا ہے وہ بھی پورا نہیں کیا ہے۔ یہ چوری بھی مہتمم صاحب نے اپنے تقلیدی مذہب کو بچانے کیلیے کی ہے اگر پورا حوالہ نقل کر دیا جاتا تو مہتمم صاحب کے معتقدین کو معلوم ہو جاتا کہ تراویح کے بارے میں بھی حنفی مذہب صحیح نہیں۔ حنفی مذہب میں بیس تراویح مقرر ہیں نہ کم ہو سکتی ہیں۔ نہ زیادہ حالانکہ تراویح نفلی عبادت ہے۔ اس کی کوئی تعداد مقرر نہیں کہ جس سے کم و بیش جائز نہ ہو ۔مسنون تعداد آٹھ رکعت ہی ہے کیوں کہ حضور ﷺ سے آٹھ ہی ثابت ہیں ‘ لیکن زائد منع نہیں اور زائد کی کوئی حد نہیں۔ ترمذی شریف میں امام احمدؒ کا قول منقول ہے ۔ رُوِیَ فِیْ ھٰذَا اَلْوَانٌ لَمْ یُقْضَ فِیْہِ بِشَیءٍ۳۲ تراویح کی رکعات کے بارے میں کوئی قطعی بات نہیں کہی جا سکتی۔ یہ نفلی نماز ہے جتنی کسی کی مرضی پڑھ لے۔ حنفیوں نے یہ ظلم کیا جو فرض نماز کی طرح بیس مقرر کر دیں۔ حالانکہ تراویح کی کوئی تعداد مقرر نہیں۔ مہتمم صاحب کا ایک اور کمال یہ ہے کہ اپنے رسالہ کے عنوان میں تو یہ دعویٰ کیا ہے کہ حنفیوں کی نماز حضور ﷺ کی نماز کےمطابق ہے ‘ لیکن تراویح کے مسئلے میں حضرت ﷺ کی تراویح کا نام تک نہیں لیا کہ حضور صلی اﷲعلیہ و سلم کتنی پڑھتے تھے۔ مہتمم صاحب!کیا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم تراویح نہیں پڑھتے تھے‘ جو آپ نے ان کا نام نہیں لیا ۔ اگر پڑھتے تھے تو کتنی ؟ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو تین دن جماعت کرائی اس میں کتنی رکعات تراویح پڑھائی تھیں۔ آپ اس کا نام کیوں نہیں لیتے۔ جب کہ آپ کا دعویٰ حنفیوں کی نماز کو حضرت ﷺ کی نماز کے مطابق دکھانے کا ہے ۔ تو آپ دکھائیں کہ کیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مطابق آپ کی تراویح ہیں۔ کیا کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کبھی بیس تراویح پڑھیں یا پڑھائیں؟ اگر نہیں تو آپ کیسے کہ سکتے ہیں کہ حنفیوں کی نماز حضور ﷺ کی نماز کے مطابق ہے۔ اگر آپ کہیں کہ آپ کی تراویح صحابہ کرامؓ کی تراویح کے مطابق ہیں تو یہ بھی غلط ہے۔ کبھی کسی صحابی نے تراویح کی تعداد بیس مقرر نہیں کی ۔ اگر آپ ایک حوالہ ایسا دکھا دیں جس سے حنفی مذہب ثابت ہو جائے یعنی کہ تراویح بیس ہیں‘ نہ کم ‘ نہ زیادہ تو منہ مانگا انعام لیں۔
مہتمم صاحب! آپ لوگوں نے تو دین کو ایسا مسخ کیا ہے کہ اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ تراویح کی تعداد بیس مقرر کر دی حالانکہ بیس کی تعداد نہ اﷲ نے مقرر کی ہے ‘ نہ رسول صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے‘ نہ کسی خلیفہ نے ‘ نہ کسی صحابی نے۔ جب اﷲ رسول ؐ نے مقرر نہیں کی تو بیس کی تعداد مقرر کرنا شریعت سازی نہیں تو اور کیا ہے ؟ جب آٹھ رکعت کو مقرر نہیں کر سکتے حالانکہ یہ سنت تعداد ہے تو بیس رکعت کیسے مقرر ہو سکتی ہے۔ اﷲ اس دین سازی سے بچائے۔
تراویح کی مسنون تعداد
1— حضرت ابوسلمہؓ نے حضرت عائشہؓ سے حضرت ﷺ کی تراویح کے بارے میں سوال کیا تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا: مَا کَانَ یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ وَ لاَ فِیْ غَیْرِہٖ عَلٰی اِحْدٰی عَشَرَۃَ رَکْعَۃً ۳۳کہ حضور ﷺ کی تراویح کی تعدا د و ہی تھی جو آپ ؐ اور دنوں میں بطور تہجد پڑھتے تھے یعنی رمضان شریف میں آپ رکعتوں کی تعداد نہیں بڑھاتے تھے‘
رکعتیں اتنی ہی ہوتی تھیں ‘ البتہ ان کو لمبا زیادہ کرتے تھے۔ قرآن کی تلاوت زیادہ کرتے تھے‘ قیام زیادہ طویل ہوتا تھا۔ چنانچہ حدیث کے لفظ ہیں
((لاَ تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِھِنَّ وَ طُوْلِھِنَّ )) نہ پوچھ کہ وہ کتنی عمدہ اور طویل ہوتی تھیں۔ یہ حدیث نص ہے اس بارے میں کہ آپ ؐ کی تراویح کی تعداد آٹھ تھی ‘ حنفی کہا کرتے ہیں کہ یہ حدیث تہجد کے بارے میں ہے اور یہ ان کی حدیث کو ٹالنے والی بات ہے۔ اس سے بڑی شہادت اور کیا ہو سکتی ہے کہ حنفیوں کے مسلمہ امام ‘ امام محمد ؒ اس حدیث کو قیام رمضان یعنی تراویح کے سلسلے میں لائے ہیں۔ یعنی ان کے نزدیک بھی حضور ﷺ نے تراویح کی جماعت کرائی اس میں تعداد آٹھ رکعت تھی۔
حضرت جابرؓ کی روایت سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ جو تین دن تراویح کی جماعت کرائی اس میںآٹھ رکعت تراویح پڑھائی تھیں۔ ملاحظہ ہو’’قیام اللیل فتح الباری عمدۃ القاری شرح بخاری‘‘ جو حنفیوں کی مشہور کتاب ہے۔ ۳۴
3— حضرت عمرؓ نے جب تراویح باجماعت کا انتظام کیا تو ابی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم دیا ۔ بیھقی کی حضرت عمرؓ کی بیس رکعت والی روایت قطعاً صحیح نہیں۔ اس کے مقابلے میں مؤطا امام مالک کی یہ حدیث جو سائب بن یزید سے مروی ہے اعلیٰ درجے کی صحیح ہے اس صحیح روایت سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا حکم آٹھ تراویح پڑھنے پڑھانے کا تھا ۔ بیس رکعت والی روایت جو عام طور پر حنفی پیش کرتے ہیں بالکل ضعیف ہے۔
دعاے قنوت
مہتمم صاحب نے دعائے قنوت کے بارے میں بھی اپنے مذہب کی تائید میں ایک حدیث نقل کی ہے جس سے ثابت کیا ہے کہ دعائے قنوت رکوع سے پہلے ہے جہاں تک قنوت کا تعلق ہے قنوت رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دونوں طرح ثابت ہے۔ مہتمم صاحب نے صرف ایک حدیث دیکھی ہے باقی احادیث پر ان کی نظر نہیں گئی اور مقلد کی نظر اتنی دور جاتی بھی نہیں۔
((عَنْ اَنَسٍ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقْنُتُ بَعْدَالرَّکْعَۃِ وَ اَبُوْبَکْرِ وَ عمرُ حَتّٰی کَانَ عُثْمَانُ فَقَنَتَ قَبْلَ الرَّکْعَۃِ لِیُدْرِکَ النَّاسُ )) ۳۵ (قیام اللیل) قال العراقی اسنادہ جید ۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ‘ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمرؓ رکوع کے بعدقنوت کیا کرتے تھے۔ حضرت عثمان نے آ کر رکوع سے پہلے قنوت شروع کی تاکہ لوگ رکعت پا لیں۔
(( عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ کَانَ اِذَا اَرَادَ اِنْ یَّدْعُوَ عَلٰی اَحَدٍ اَوْ یَدْعُوَ لِاَحَدٍ قَنَتَ بَعْدَالرَّکُوْعِ ))۳۶
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جب کسی کے لیے دعا یا بددعا کرنا چاہتے تو رکوع کے بعد قنوت کرتے ۔ اسی طرح بخاری شریف میں حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کی روایت بھی ہے اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ قنوت کے بارے میں اکثر عمل رکوع کے بعد کا ہی ہے۔ اگرچہ جائز رکوع سے پہلے بھی ہے ‘لیکن ترجیح رکوع کے بعد کو ہے۔ البتہ جائز دونوں صورتیں ہیں۔ اہل حدیث کا یہی مذہب ہے ‘ لیکن حنفی مذہب چوں کہ ایک تقلیدی مذہب ہے وہ جائز کو ناجائز بنا دیتا ہے اورناجائز کو جائز ۔ اﷲ تعالیٰ نے دین میں جو سہولت اور وسعت رکھی ہے حنفی مذہب اسے ویسا نہیں رہنے دیتا ۔ وہ اسے مشکل اور تنگ کر دیتا ہے۔ حضور ﷺ کے عمل سے تو قنوت دونوں طرح جائز ہے‘ لیکن حنفی مقلد کے لیے دونوں طرح جائز نہیں۔ اس کے لیے ایک طرح ہی جائز ہے۔ جیسے حنفی مذہب میں ہے۔ اگر کوئی حنفی رکوع کے بعد قنوت کرنا شروع کر دے تو اس کی حنفیت خطرے میں پڑ جائے گی۔ حنفی مقلد کائیں کائیں کرنے لگ جائیں گے کہ ہمارا ایک مقلد بھائی غیر مقلد اور لا مذہب ہو گیا کیوں کہ وہ رکوع کے بعد قنوت کرنے لگ گیا۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ مقلد پورے طور پر کبھی سنت رسول ؐ پر عمل کر ہی نہیں سکتا۔ وہ یا سنت رسول ﷺ کو چھوڑے گا یا اس میں رد وبدل کرے گا۔ ورنہ اس کی مقلدیت جاتی رہے گی۔
رکوع کے بعدکی قنوت ۔۔۔ وجوہ ترجیح
1—رکوع کے بعد قنوت کرنے کی روایات زیادہ ہیں جیسا کہ اوپر مذکورہوئیں۔قَالَ الْبَیْھَقِیُّ رُوَّاۃُ الْقُنُوْتِ بَعْدَالرَّکُوْعِ اَکْثَرُ وَ احْفَظُ فَھُوَ اُوْلی وَ عَلٰی ھٰذَا دَرَجَ الْخُلَفَاءُ الرَّاشِدُوْنَ ۳۷ امام بیہقی فرماتے ہیں کہ رکوع کے بعد کی قنوت کے راوی تعداد میں زیادہ ہیں اور حافظہ کے لحاظ سے بھی بہتر ہیں۔ اور خلفاء راشدین کا عمل بھی رکوع کے بعد کا ہی تھا۔
2— ((قَالَ الْعَرَاقِیّ وَ یَعْضُدُ کَوْنُہُ بَعْدَ الرَّکُوْعِ اَوْلیٰ فِعْلُ الْخُلَفَاءِ الاَرْبَعَۃِ وَالْاَحَادِیْثُ الْوَارِدَۃُ فِی الصُّبْحِ ))
عراقی کہتے ہیں کہ رکوع کے بعد والی قنوت کو ترجیح اس لیے بھی ہے کہ خلفاء راشدین کا معمول یہی تھا اور صبح کی نماز میں قنوت کی احادیث بھی اس کو ترجیح دیتی ہیں۔
3– سُئلَ اَحْمَدُ عَنِ الْقَنُوْتِ فِی الْوِتْرِ قَبْلَ الرَّکُوْعِ اَمْ بَعْدَہ‘ وَ ھَلْ تُرْفَعُ الْاَیْدِی فِی الدُّعَاءِ الْوِتْرِ فَقَالَ الْقُنُوْتُ بَعْدَالرَّکُوْعِ وَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ عَلٰی قَیَاسِ فَعْل النَّبِیِّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ فِی الْقُنُوْتِ بَعْدَ الْغَدَاۃِ
امام احمدؒ سے پوچھا گیا کیا وتروں کی قنوت رکوع سے پہلے ہے یا بعد میں اور کیا وتروں کی قنوت میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے جائیں یا نہ تو انھوں نے فرمایا قنوت رکوع کے بعدہے اور قنوت میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے جائیں جیسا کہ حضور ﷺ صبح کی نماز کے قنوت میں
ہاتھ اٹھاتے تھے۔
4— ترمذی شریف میں ہے: وَ قَدْ رُوِیَ عَنْ عَلِیِّ بْنِ اَبَیْ طَالِبٍ اِنَّہ‘ کَانَ لاَ یَقْنُتُ اِلاَّ فِی النِّصْفِ الْاٰخِرِ مِنْ رَمَضَانَ وَ کَانَ یَقْنُتُ بَعْدَ الرَّکُوْعِ ۳۸
کہ حضرت علیؓ سارا رمضان قنوت نہ کرتے بلکہ پچھلے نصف حصے میں قنوت کرتے اور قنوت بھی رکوع کے بعد کرتے۔
ان روایتی دلائل کے علاوہ ایک وجہ ترجیح کی یہ بھی ہے کہ رکوع سے پہلے کا قیام قرأت کے لیے خاص ہے۔ اس قیام کے علاوہ قرأت اور کسی حالت میں نہیں کی جا تی البتہ دعا ہر حالت میں کی جا سکتی ہے۔ حدیث شریف میں ہے:
((اِنَّمَا الصَّلاَۃُ لِقَرْا ءَ ۃِ الْقُرْاٰنِ وَ ذِکْرِ اﷲِ )) ۳۹
یعنی نماز قرأت قرآن اور اﷲ کے ذکر کے لیے ہے جب پہلا قیام قرأت کے لیے مخصوص ہو گیا تو دوسرا قیام ہی جس کو قومہ بھی کہتے ہیں قنوت کے لیے موزوں ہو سکتا تھا۔ اس لیے قنوت کا قومہ میں ہونا ہی زیادہ قرین قیاس ہے۔
*****
۱ )صحیح مسلم ‘ کتاب الصلٰوۃ ‘ باب الامر باالسکون فی الصلٰوۃ ‘ ص 737 رقم 119۔۔ ابن خزیمہ ‘ کتاب الصلٰوۃ ‘ باب الزجر عن الاشارۃ باالید یمینا و شمالا عند السلام من الصلوۃ ‘ 361/1 رقم 733)
۲ (جزء رفع الیدین ‘ رقم (37: ۳ (جزء رفع الیدین رقم (38:
۴ (ابوداؤد: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع ‘ رقم 748 ۔۔ ترمذی : کتاب الصلوۃ ‘ باب ما جاء ان النبی ﷺ لم یرفع الا فی اول مرۃ ‘ رقم (257:
۵ (جلاء العینین بتخریج روایات البخاری فی جزء رفع الیدین ‘ ص 94/92 رقم 34 و تمھید ابن عبدالبر 64/5 ۔۔۔الموضوعات الکبری: ملا علی قاری ص 355 رقم 1352)
۶ (جلاء العینین بتخریج روایات البخاری فی جزء رفع الیدین ص 56,54 رقم 16)
۷ ( جلاء العینین بتخریج روایات البخاری فی جزء رفع الیدین ‘ص 82 رقم 31 معانی الاثار 116/1 نصب الرایۃ 310/1)
۸ ( بخاری : کتاب الاذان ‘باب رفع الیدین فی التکبیرۃ الاولیٰ مع الافتتاح سواء ‘ رقم 736: ۔۔۔ مسند الحمیدی: ص 176 رقم 614 )
۹ ( بخاری ‘ کتاب الاذان‘ باب رفع الیدین اذا کبر و اذا رکع و اذا رفع ‘ رقم 737:۔۔ مسلم: کتاب الصلوۃ ‘ باب استحباب رفع الیدین حذو منکبین مع تکبیرۃ الاحرام والرکوع و فی الرفع بعد الرکوع و انہ لا یرفعہ اذا رفع بعد السجود ‘ رقم 24:۔۔ ابن خزیمہ :کتاب الصلوۃ ‘ باب الدلیل علی ان النبی ﷺ امر برفع الیدین عند ارادۃ الرکوع و عند رفع الراس من الرکوع‘ 295/1 رقم 585)
۱۰(نسائی : کتاب التطبیق ‘ باب مکان الیدین من السجود ‘ رقم 1103۔۔ ابوداؤد : ابواب تصریح استفتاح الصلوۃ‘ باب رفع الیدین فی الصلٰوۃ و باب افتتاح الصلوۃ ‘ رقم 729-725,723:)
۱۱ ( ابوداؤد ‘ ابواب تفریع استفتاح الصلوۃ ‘ استفتاح الصلوۃ باب ‘رقم 730:۔۔۔ صحیح ابن خزیمہ : کتاب الصلوۃ ‘ باب لاعتدال فی الرکوع والتجا فی ووضع الیدین علی الرکبتین‘ 298-297/1 رقم 588-587:)
۱۲ ( سنن الکبری بیہقی 73/2 )
۱۳ ( سنن الکبری بیہقی 25/2 )
۱۴(ابوداؤد: کتاب الصلوۃ ‘ باب من ذکر انہ یرفع یدیہ اذا قام من الثنتین ‘ رقم 744:۔۔۔ جامع الترمذی : کتاب الصلوۃ ‘ باب رفع الیدین عند الرکوع قال ابوعیسیٰ و فی الباب عن عمرو علی ‘ رقم 256: ۔۔ نصب الرایۃ زیلعی 406/1)
۱۵ (ابوسعد البقال اسمہ سعد بن المرزبان قال احمد منکر الحدیث ‘ الکاشف للذہبی 374/1 رقم 1974۔۔۔خلاصۃ تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ص 134قال النسائی ‘ ضعیف و قال الذھبی مات سنۃ بضع و اربعین ماءۃ و ما علمت احدا وثقہ ۔۔۔ میزان الاعتدال ص 158 رقم 3371 ترکہ الافلاس و قال ابن معین لا یکتب حدیثہ و قال ابوزرعہ صدوق مدلس و قال البخاری منکر الحدیث)
۱۶ (ترمذی ‘ کتاب الصلوۃ‘ باب ماجاء فی التامین‘ ص 1662 رقم 248)
۱۷ (صحیح البخاری: کتاب الاذان ‘ باب جہر الامام بالتامین ‘ رقم 111:۔۔۔ مسلم :کتاب الصلوۃ ‘ باب التسمیع والتحمید ‘ والتامین ‘ رقم 72:۔۔۔ صحیح ابن خزیمہ: کتاب الصلوۃ ‘ باب الدلیل علی ان الامام اذا جہل فلم یقل آمین‘ 288/1 رقم 575:۔۔۔ جامع ترمذی : کتاب الصلوۃ باب ما جاء فی فضل التامین ‘رقم 250:)
۱۸ ( ابوداؤد: کتاب الصلوۃ ‘ باب التامین وراء الامام ‘ رقم 933-932:۔۔ جامع ترمذی : کتاب الصلوۃ ‘ باب ما جاء فی التامین ‘ رقم 248: )
۱۹ ( ابن ماجہ: ابواب اقامۃ الصلوات‘ باب الجہر بآمین ‘ رقم (854:
۲۰ ( ابن ماجۃ: ابواب اقامۃ الصلوات والسنۃ فیھا ‘ باب الجھر بامین ‘ رقم 853: )
۲۱ (ابن ماجہ:کتاب اقامۃ الصلوۃ ‘ باب الجہر بآمین ‘ رقم `857:مسند احمد‘ 135/6عن عائشۃؓ ‘ ابن خزیمۃ ‘ کتاب الصلٰوۃ ‘ باب ذکر حسد الیہود المؤمنین علی التامین282/1 رقم (574
۲۲(سنن الکبری ‘ بیہقی 59/2 کتاب الصلوۃ )
۲۳ ابن ماجۃ ‘کتاب الصلوۃ ‘باب اذا قرء الامام فانصتوا ‘ رقم 850:‘ ارواء الغلیل 268/2 رقم 500‘ قال الزیلعی فی نصب الرایۃ 7/2 مجروح ‘روی عن ابی حنیفۃ انہ قال ما رایت اکذب من جابر الجعفی
۲۴ ( نسائی : کتاب الافتتاح‘ باب قراء ۃ ام القرآن خلف الامام فیما جہر بہ الامام ‘ رقم 923:۔۔۔۔۔ مسلم : کتاب الصلوۃ ‘ باب التشہد فی الصلوۃ ‘ رقم 63: ۔۔ ارواہ الغلیل: 267/2 رقم 394,499 )
۲۵ ( ترمذی : کتاب الصلوۃ ‘ باب ما جاء فی ترک القراء ۃ خلف الامام اذا جھر الامام بالقراء ۃ ‘ رقم 313۔۔۔ مؤطا کتاب الصلوۃ ‘ باب ما جاء فی ام القرآن )
۲۶ بیہقی 68/2کتاب الصلوۃ ‘ عن علی ابن ابی طالب)
۲۶ (بخاری:کتاب الاذان ‘ باب وجوب القرأۃ للامام والماموم۔۔۔ مسلم: کتاب الصلوۃ ‘ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ ص 740 رقم 36: ۔۔۔ نسائی : کتاب الافتتاح ‘ باب ایجاب قراء ۃ فاتحۃ الکتاب فی الصلوۃ‘ رقم 912-911: ۔۔۔ ترمذی : کتاب الصلوۃ ‘ باب ما جاء فی قراء ۃ خلف الامام ‘رقم 311:)
۲۷ (مسلم ‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ ‘ ۔۔۔ ابوداؤد ‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب من ترک القراء ۃ فی صلاتہ بفاتحۃ الکتاب رقم 831:‘ابن ماجۃ‘ کتاب اقامۃ الصلاۃ ‘ باب القراۃ خلف الامام رقم 838‘ ترمذی ‘ باب ما جاء فی ترک القرأۃ خلف الامام اذا جھر الامام رقم 312)
۲۸ ( بیہقی: 168/2کتاب الصلٰوۃ ‘ کتاب القراۃ خلف الامام ‘ باب ذکر اخبار خاصۃ دالۃ علی وجوب فاتحۃ علی الماموم رقم 120:)
۲۹ ( کتاب القراء ۃ خلف الامام ‘بیہقی: رقم 167 باب ذکر الشواھد اللتی لروایۃ عبادۃ بن الصامت رضی اﷲ عنہ )
۳۰ (کتاب القراء ۃ خلف الامام ۔ بیہقی ‘ رقم 144: باب ما یستدل علی ان النبی ﷺ انما نہی الماموم عن الجہر بالقراء ۃ لاعن اصل القراء ۃ )
۳۱( مؤطا امام مالک‘ کتاب الصلوۃ فی رمضان‘ باب ما جاء فی قیام رمضان )
۳۲ ( ترمذی : کتاب الصوم ‘ باب ما جاء فی قیام شہر رمضان ‘رقم 806:)
۳۳ (بخاری: کتاب التہجد ‘ باب قیام النبی ﷺ فی رمضان وغیرہ ‘ رقم 1137:)
۳۴ ( قیام اللیل محمد بن نصر المروزی ص 200 باب عدد رکعات اللتی یقوم بھا الامام للناس فی رمضان )
۳۵ ( قیام اللیل ‘ محمد بن نصر المروزی ص 294 باب القنوت بعد الرکوع)
۳۶ ( بخاری : کتاب التفسیر ‘ باب( لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِشَیْءٍ ) (آل عمران (128/3 رقم 4560:)
۳۷ (السنن الکبری:کتاب الصلاۃ ‘ باب الدلیل علی انہ یقنت بعد الرکوع )
۳۸ ( جامع الترمذی: ابواب الوتر‘با ب ما جاء فی القنوت الوتر ‘ رقم 464:)
۳۹ ( ابوداؤد ‘ کتاب الصلوۃ‘ باب تشمیت العاطس فی الصلوۃ ‘ رقم 930: و لفظہ ان ھذہ الصلوۃ لا یحل فیھا شیء من کلام الناس ھذا انما ھو التسبیح والتکبیر و قراء ۃ القران ۔۔۔ مصنف ابن ابی شیبۃ کتاب الصلوۃ 432/2)