جماعت المسلمین ایک نظر

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ وہ ہر طریقے سے انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نیک کو نیکی کے رنگ میں‘ بدکو بدی کے رنگ میں۔  اس کا زیادہ تر وار اہل حق پر ہوتا ہے۔خصوصاً اہل حدیث پر‘ کیوں کہ یہی اہل حق ہیں ‘ جن کو چومکھی لڑائی لڑنی پڑتی ہے۔ کبھی اس محاذ پر کبھی اس محاذ پر۔

اہل حدیث پر وار کرنے کے لیے پہلے تو شیطان اغیار سے کام لیتا ہے ‘ لیکن جب دیکھتا ہے کہ اغیاراہل حدیث کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہوتے تو پھر قرآن و حدیث کا نام لینے والوںمیں سے ہی وہ کسی کو منتخب کر کے اپنا کام لیتا ہے۔ کراچی کے مسعود بی۔ایس سی صاحب اب شیطان کے ہاتھ لگے ہوئے ہیں۔ وہ آج کل ان سے اپنا کام لے رہا ہے۔ اس لیے مسعود صاحب‘ اپنی سادہ لوحی اور علم و فہم کی کمی کی وجہ سے دین داروں کے لیے فتنہ بنے ہوئے ہیں۔ وہ نام قرآن و حدیث کا لیتے ہیں‘ لیکن مخالفت اہل حدیث کی کرتے ہیں۔اگر مسعود صاحب شیطان کے ہتھے چڑھے ہوئے نہ ہوتے  تو وہ اہل حدیث کی مخالفت نہ کرتے۔

آخر غربا والوں نے بھی تو اپنی جماعت بنائی ۔ اپنا سلسلہ چلایا‘ لیکن اہل حدیث کی مخالفت نہیں کی۔ اپنی کارکردگی کو غربا کے نام سے نمایاںکیا‘ لیکن جماعت حق سے اپنا سلسلہ نہیں توڑا۔اگر مسعود صاحب عقل والے ہوتے ‘ ان کی قسمت سیدھی ہوتی تو وہ ضرور سوچتے کہ جب اہل حدیث بھی قرآن وحدیث کو مانتے ہیں‘ میں بھی قرآن و حدیث کا نام لیتا ہوں تو میں اہل حدیث کی مخالفت کیوں کروں۔ اگر کسی اہل حدیث سے کوئی اختلاف ہو تو اس سے گفتگو کروں ‘ نہ کہ اہل حدیث جماعت  کی مخالفت شروع کردوں۔ اب مسعو د صاحب نے اہل حدیث کی مخالفت پر کمر باندھ رکھی ہے‘ وہ اس کی مخالفت میں ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی جہالت اور تعصب  کی وجہ سے اہل حدیث  کو بدعتی اور گمراہ بتاتے ہیں اور خود اہل حق بنتے ہیں  اور لوگوں کو اہل حدیث سے متنفر کرتے ہیں۔ ظاہر  ہے جو اہلحدیث سے متنفر ہوگا وہ پھر کہاں جائے گا۔ ترقی کرکے تو آدمی  اہل حدیث بنتا ہے۔اہل حدیث سے ترقی کرکے پھر وہ کدھر جا سکتا ہے۔ {فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلاَّ الضَّلاَلُ فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ } 

:10]یونس[32:

 اہل حدیث کے بعد تو پھر گمراہی ہی گمراہی ہے۔ شیطان کے گمراہ کرنے کی تکنیک بھی یہی ہے۔ پہلے وہ حق میں تشکیک پیدا کرتا ہے ‘ پھر لوگوں کو حق سے ہٹاتا ہے۔ جب کوئی حق سے ہٹ جاتا ہے تو پھر وہ اس کو اپنا بنا لیتا ہے۔{ فَاَنْسَلَخَ مِنْھَا فَاَتْبَعَہُ الشَّیْطٰنُ فَکَانَ مِنَ الْغَاوِیْنَ } :7] الاعراف[175:

مسعود صاحب  نے جماعت المسلمین نام کا ایک جال تیار کیا ہے ‘ جو بہت غضب کا  اور بڑا دلفریب ہے جس میں وہ قرآن و حدیث کا نام لے کر اہل حدیث کو پھانستے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اہل حدیث فرقہ وارانہ نام ہے۔ اس لیے یہ ناجائز ہے۔ اہل حدیث جماعت ہندوستان میں بنی ہے اور جماعت المسلمین قدیم سے ہے۔اس کاذکر بخاری و مسلم میں بھی ہے۔ اور یہی اصل جماعت ہے ‘ حال آنکہ ’’جماعت المسلمین‘‘  بالکل ایک نئی جماعت ہے جس کا ماضی ‘ نہ مستقل جڑ نہ بنیاد۔ ہر لحاظ سے {مَالَھَا مِنْ قَرَارٍ } ۔ 1385ھ میںمسعود صاحب  نے اس کی بنیاد رکھی ۔  یہ جماعت خاص بیسیویں صدی کی پیداوار ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے بھی بعد یہ پیدا ہوئی۔ یہ اس زمانے میں پیدا ہوئی جب فتنوں کا دور اور انحاط کا زور تھا۔ ظاہر ہے کہ جس ’’مسلمین‘‘ کی بنیاد بیسویں صدی میں مرزا قادیانی کے بھی بعد رکھی گئی ہو وہ کیسی  ’’مسلمین ‘‘ ہوگی؟

مسعود صاحب کا حال اس عقل والے  کا ہے جو ہلدی کی ایک گھٹی لے کر پنساری بن بیٹھا تھا۔ مسعود صاحب کو کہیں حدیث میں ’’ جماعت المسلمین ‘‘ کا لفظ نظر آ گیا‘ پھر آؤ دیکھا‘ نہ تاؤ فوراً دکان کھول دی اور جماعت المسلمین کا بورڈ لگا دیا ۔ یہ نہ سوچا کہ جماعت المسلمین کا لفظ جس معنی میںمیں لے رہا ہوں حدیث میں اس معنی میں ہے بھی یا نہیں۔ بورڈ لگانے کی کی۔ اگر جماعت المسلمین کا لفظ حدیث ((فَیَشْھَدْنَ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ ))   ( عورتیں جماعت المسلمین کے ساتھ عید گاہ جائیں) میں اس  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ( بخاری‘ کتاب العیدین ‘ باب اعتزال الحیض المصلی ‘ ص 77‘ رقم 981: ۔۔ مشکوۃ ‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب صلوۃ العیدین ‘فصل اول‘ رقم 1431)


معنی  میں ہوتا جس معنی میں مسعود صاحب نے لے کر ایک نیا فرقہ کھڑا کر دیا ہے تو کیا رسول اﷲ ﷺ صرف عورتوں  کو ہی حکم دیتے  کہ وہ جماعت المسلمین کے ساتھ عید گاہ جائیں۔ مردوں  کو حکم نہ دیتے کہ وہ بھی جماعۃ المسلمین  کے ساتھ عید گاہ جائیں‘ کسی اور فرقے  کے ساتھ نہ جائیں۔  کیا جماعت المسلمین  صرف عورتوں کے لیے ہی ہے جو رسول اﷲ ﷺ نے عورتوں  کو ہی حکم دیا۔ اگر یہ لفظ اس معنی میں ہوتا جس معنی میں مسعود صاحب نے لیا ہے تو سب سے پہلے محدثین جماعت المسلمین کی بنیاد رکھتے۔ مسعود صاحب  ہی بتائیں ‘ کیا محدثین  نے ان کی طرح جماعت المسلمین نام کی کوئی جماعت بنائی ؟ اگر بنائی تو اس کا حوالہ دیں۔ اگر نہیں بنائی  تو کیوں؟ یا جماعت المسلمین کا لفظ جو بخاری اور مسلم میں ہے ‘ امام بخاری ‘ امام مسلم یا کسی اور محدث کو نظر نہ آیا ۔ اگر آیا اور یقینا نظر آیا تو انھوں نے جماعت المسلمین نام کی کوئی جماعت کیوں نہ بنائی۔

جب مسعود صاحب جیسا ایک بے علم جماعت المسلمین کی بنیاد رکھ سکتا ہے تو محدثین نے جماعت المسلمین نام کی کسی جماعت کی بنیاد کیوں نہ رکھی ‘ وہ کیوں اہل حدیث ہی کہلواتے رہے۔ جب انھوں نے ایسا نہیں کیا‘ تو صاف ظاہر ہے کہ حدیث میں جماعت المسلمین  کا لفظ اس معنی میں نہیں جس معنی میں مسعود صاحب نے لے کر بیسویں صدی کے ایک نئے فرقے کی بنیاد رکھ دی۔ مسعود صاحب ایک طرف اپنی جماعت کی کڑیاں بخاری و مسلم کی حدیث سے ملا کر اس کو قدیم ترین ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف اپنے رسالے ’’جماعت المسلمین کا پس منظر‘‘ میںلکھتے ہیں ۔ چند دردمند حضرات نے اہل حق کی اصلاح کے لیے 1385ھ میں جماعت المسلمین کی بنیاد ڈالی ‘ میں پوچھتا ہوں جب جماعت المسلمین کی بنیاد 1385ھ میں رکھی گئی تو کیا اس سے پہلے  اس نام کی کوئی جماعت نہ تھی ؟ اگر کوئی جماعت نہ تھی تو وہ اہل حق کون تھے جن کی اصلاح کے لیے اس جماعت کی بنیاد رکھی گئی؟ اور کس جماعت سے وہ تعلق رکھتے تھے؟ کیا آج بھی وہ اہل حق ہیں یا نہیں ؟اگر آج  بھی وہ اہل حق ہیں تو وہ کون ہیں اور اگر آج ان میں سے کوئی اہل حق نہیں رہا ‘ سب گمراہ ہو گئے تو جماعت المسلمین نے اچھی اصلاح کی کہ سارے اہل حق گمراہ ہو گئے۔اور اگر 1385ھ سے پہلے بھی جماعت المسلمین نام کی کوئی جماعت تھی تو پھر 1385ھ میں بنیاد ڈالنے کے کیا معنی ؟ اگر مسعود صاحب یہ کہیں کہ اور جگہ تو یہ جماعت اس سے پہلے بھی تھی  لیکن کراچی میں اس کی بنیاد 1385 ھ میں رکھی گئی تو میں پوچھتا ہوں دوسری جگہ دنیا میںکہاں کہاں یہ جماعت تھی؟ کون کون اس کے امیر تھے؟ آج تک اس جماعت کے بڑے بڑے علما کون کون  ہوئے ہیں ؟ انھوں نے کون کون سی کتابیں لکھی ہیں؟ جن پر جماعت المسلمین کا مرغوب ٹھپہ ایسے ہی ہو جیسے آج  کل مسعود اور مرغوب صاحبان لگاتے ہیں۔

اگر مسعود صاحب ماضی میں اس جماعت کا کوئی اتا پتا نہ بتا سکیں تو انھیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ یہ ایک نئی جماعت ہے جو بیسویں صدی کے آخر میں معرض وجود میں آئی ہے۔ جس کا بخاری و مسلم میںمذکور جماعت المسلمین سے کوئی تعلق نہیں۔  یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہو جماعت المسلمین اور اس کی بنیاد بیسویں صدی میں رکھی جائے۔ کیا رسول اﷲ ﷺ کی امت اتنی صدیاں بغیر جماعت المسلمین کے ہی رہی؟ رسول کریم  نے اس جماعت المسلمین کے بارے میں تو فرمایا تھا ((لاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ )) کہ وہ ہمیشہ رہے گی ۔ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے اس  کے مذہب کے بارے میں فرمایا تھا: ((مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ )) کہ ان کا مذہب اہل سنت والجماعت والا ہوگا۔ مسعود صاحب یا تو اپنی جماعت کا اس نام کے ساتھ ہر زمانہ میں موجود ہونا ثابت کریں‘ ورنہ تسلیم کریں کہ ’’جماعت المسلمین ‘‘ آپ والی جماعت نہیں بلکہ وہ جماعت المسلمین اہل حدیث ہی ہے جو شروع زمانے میں اپنے اصلی نام سے موسوم تھی۔ جب فرقے بن گئے تو وہ اہل سنت اور اہل حدیث کے نام سے مشہور ہوئی۔ مسعود صاحب جتنی اہل سنت ‘ اہل حدیث ناموں کی مخالفت کریں گے اتنا ہی ان کی جماعت کا جھوٹا اور بے بنیاد ہونا واضح ہوگا۔ کیوں کہ پہلے ان کی جماعت نہیں تھی  اور جو جماعت حقہ اہل سنت اور اہل حدیث کے نام سے پہلے سے چلی آ رہی ہے اس کو وہ مانتے 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (بخاری‘ کتاب الاعتصام ‘ باب قول النبیؐ ص 609‘ رقم 7311:)

  (مشکٰوۃ ‘ کتاب الایمان ‘ باب الاعتصام  بالکتاب والسنۃ رقم 171)

نہیں۔ آخر یہ خلا کیسے پورا ہوگا۔

اگر مسعود صاحب کی قسمت سیدھی ہوتی تو وہ ضرور تسلیم کرتے کہ اہل حدیث ہی وہ جماعت المسلمین ہے جس کا ذکر بخاری و مسلم میں ہے۔ کیوں کہ اہل حدیث ہی وہ جماعت ہے جو قدیم سے ہے‘ جس کی ایک زبردست تاریخ  ہے جس کا شاندار ماضی ہے اور درخشاں مستقبل ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام  اور امام مہدی جب آئیں گے تو اسی مذہب اہل حدیث پر ہوں گے‘ کیوں کہ یہی اصل اسلام ہے۔

مسعود صاحب کہتے  ہیں اصل جماعت المسلمین ہم ہیں جس کا خیر القرون  کی جماعت المسلمین کی طرح کوئی فرقہ ورانہ نام نہیں۔ ہمارا ایک ہی نام ’’مسلم‘‘  ہے  جو اﷲ نے رکھا ہے۔ میں کہتا ہوں مسعود صاحب آپ کی جماعت المسلمین وہ نہیں جو رسول اﷲ ﷺ کے زمانے  میں تھی ‘ کیوں کہ آپ کی جماعت المسلمین کی بنیاد 1385ھ میں رکھی گئی۔ اگر یہ پہلے والی جماعت المسلمین ہوتی  تو 1385ھ میں اس کی بنیاد رکھنے کی کیا ضرورت تھی ؟ وہ تو پہلے سے ہی چلی آ رہی تھی۔ جب آپ نے 1385ھ  میں بنیاد  رکھی تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ جماعت المسلمین اور ہے۔

مسعود صاحب!آپ کی جماعت المسلمین اس لیے بھی خیر القرون والی جماعت المسلمین نہیں کہ آپ کے عقائد و مسلمات وہ نہیں جو پہلے کی جماعت المسلمین  کے تھے۔ اُس جماعت المسلمین کا یہ دعویٰ ہر گز نہیں تھا کہ ’’ مسلم‘‘ کے سوا کوئی  اور نام رکھنا جائز نہیں۔ جو کوئی اسلام کا مترادف لقب رکھے وہ بھی فرقہ پرست ہے۔ مسعود صاحب! اگر پہلی جماعت المسلمین کا بھی یہی دعویٰ تھا جو آپ کا ہے تو اس کا ثبوت کسی کتاب سے دیں۔ بلکہ رسول کریم ﷺ نے جہاں گمراہ فرقوں کاذکر کرکے ایک ناجی فرقے کا ذکر کیا ہے وہاں انھوں نے جماعت المسلمین کا نام نہیں لیا۔اگر مسعود صاحب کامذہب صحیح ہو تا کہ اہل حق کا جماعت المسلمین کے سوا کوئی دوسرا نام ہی نہیں تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم  ضرور جماعت المسلمین کا نام لیتے۔ جب آپ ﷺ نے جماعت المسلمین کا نام نہیں لیا بلکہ ((مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ )) کہا توا س کا صاف مطلب  یہ ہوا کہ مسعود  صاحب والی جماعت المسلمین غلط ہے جو کہتی ہے کہ جماعت المسلمین کے سوا تمام نام فرقہ پرستی اور گمراہی کے نام ہیں۔ حالا نکہ آج تک کوئی اہل حق ایسا نہیں گزرا جس نے کہا ہو کہ جماعت المسلمین کے سوا کوئی اچھا لقب رکھنا بھی گمراہی ہے۔ مسعود صاحب پہلے ہی ’’ مسلمینی ‘‘  ہیں  جنھوں نے یہ دعویٰ کیا ہے۔

مسعود صاحب !اگر آپ یہ کہیں کہ نام تو ہمارا وہی ’’جماعت المسلمین ‘‘ہے جو بخاری و مسلم میں ہے تو میں کہتا ہوں فقط نام سے کیا ہوتا ہے‘ نام تو جعلی چیز وںکا بھی وہی ہوتا ہے جو اصلی چیزوں کاہوتا ہے ۔ نام سے ہی تو لوگوں کو دھوکا دیا جاتا ہے۔ اس لیے فقط نام نہیں دیکھا جاتا ‘ خصوصیات بھی دیکھی جاتی ہیں۔ جن سے پتا چل جاتا ہے کہ یہ چیز جعلی ہے یا اصلی ‘ احادیث کو دیکھ کر ہی تو مرزا قادیانی نے مسیح موعود نام رکھا تھا۔ مہدی نام کو دیکھ کر ہی تو جھوٹے اور نقلی مہدی بنے۔مسعود صاحب !بے شک نام آپ کا وہی ہے جو بخاری و مسلم  میں ہے ‘ لیکن آپ کی جماعت وہ نہیں کیوں کہ یہ تو پیدا ہی 1385ھ میںہوئی ہے۔ اگر وہ ہوتی تو مسلسل چلی آتی۔ 1385ھ میں بنیاد رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟

مسعود صاحب !آپ کہتے ہیں ہمار انام جماعت المسلمین ہے۔ میںکہتا ہوں جماعت المسلمین  تو یہود و نصاریٰ بھی تھے۔ کیا اﷲ  نے آپ کی طرح ان کا نام مسلمین نہیں رکھا تھا۔ جب یہود و نصاریٰ بھی جماعت المسلمین ‘ امت محمدیہ ساری مسلمین‘حتی کہ ہمارے ملک کے بنگالے اور میراثی بھی مسلمین ‘ آپ بھی مسلمین ‘ بلکہ شیعہ تو مومنین۔۔۔ تو فرق کیا رہا؟ مسعود صاحب فقط جماعت المسلمین نام رکھنے سے کچھ نہیں بنتا۔ جب تک آپ کا سلسلہ اس جماعت حق سے نہ جڑ جائے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ جس کے بارے میں رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا تھا: ((لاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ )) اور (( وَ مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ )) 

آپ’’ جماعت المسلمین ‘‘ نام کو اچھالتے ہیں حال آنکہ ایسے رسمی ناموں کے بارے میں رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ((لاَ یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلاَمِ اِلاَّ اِسْمُہ‘ )) ایک زمانہ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (بخاری‘ کتاب الاعتصام ‘ باب قول النبیؐ ص 609‘ رقم 7311:)

  (مشکٰوۃ ‘ کتاب الایمان ‘ باب الاعتصام  بالکتاب والسنۃ رقم 171)

 (مشکوۃ ‘ کتاب العلم رقم 276)

ایسا بھی آجائے گا کہ اسلام کا صرف نام رہ جائے گا۔ مسعود صاحب!  آپ بھی صرف نام کوپیٹتے ہیں‘ یہ نہیں دیکھتے کہ اصل اسلام کیا ہے  اور وہ کہاں ہے ؟ اہل حدیث جو اصل اسلام کے علمبردار ہیں۔ ان کی آپ مخالفت کرتے ہیں اور جماعت المسلمین جو بالکل ایک نیا فرقہ ہے اس کو آپ اہل حق بتاتے ہیں۔ مسعود صاحب! آخر آپ کو نظر کیوں نہیں آتا کہ تیرہ چودہ سو سال سے کونسی جماعت اہل باطل کا مقابلہ کر رہی ہے۔ کیا وہ آپ کی جماعت المسلمین 

ہے جو 1385ھ میں بنی ہے۔؟ آپ قدیم سے باطل کا مقابلہ کرنے والوں کو بدعتی بتاتے ہیں اور خود جو کل پیدا ہوئے ہیں ‘ اہل حق بنتے ہیں۔ مسعود صاحب یاد رکھیے جو اہل حق کو گمراہ بتاتا ہے وہ خود گمراہ ہوتا ہے۔ آخر اس کے ذہن میں کوئی کجی ہوتی ہے تو اس کو سیدھا الٹانظر آتا ہے۔ اور الٹا سیدھا۔

مسعود صاحب! آپ نے1385ھ میں جماعت المسلمین کی بنیاد رکھی تو کیا آپ کو معلوم  نہیں کہ جماعت المسلمین کی بنیاد نہیں رکھی جاتی۔ جب لوگ مسلمان بنتے جاتے ہیں تو جماعت المسلمین خود بخود بن جاتی ہے۔ جماعت المسلمین کی بنیاد رکھنا تو ایسے ہی ہے جیسے اسلام کی بنیاد رکھنا۔ اس لیے احیاء اسلام یا تجدید اسلام کی تحریکیں تو دنیا میںبہت اٹھیں ۔ یہ تو مسعود صاحب !ماشاء اﷲ آپ ہی ہیں جنھوں نے جماعت المسلمین کی بنیاد رکھی ہے۔ بعید نہیں کہ آپ کا کوئی بھائی اسلام کی بنیاد رکھنے والا بھی اٹھ کھڑا ہو۔

مسعود صاحب !یقین جانیں ‘ جب آپ نے جماعت المسلمین کی بنیاد رکھی تھی تو اہل نظر تو اسی وقت کہتے تھے کہ مسعود بے چارہ مخلص ہو تو  ہو لیکن بے عقل ضرور ہے کیوں کہ مسلمانوں میں جماعت المسلمین نام کی کوئی جماعت بنانا کسی عقل مند کا کام نہیں۔ اگر اس کو مسلم نام ہی کی کوئی جماعت بنانا منظور تھی تو تنظیم المسلمین یا اصلاح المسلمین نام کی کوئی جماعت بنا کر اپنا شوق پورا کرلیتا ‘ مسلمانوں میں جماعت المسلمین نام کی جماعت بنانا  مسلمانوں میں ایک  نئے فرقے کے اضافے کے سوا اور کچھ نہیں۔غیر مسلمانوں کے مقابلے میں توا س نام کا کوئی فائدہ ہو بھی سکتا ہے اور کچھ نہیں تو مسلمان اس نام پر اکٹھے ہی ہو جاتے ہیں  جیسا کہ مسلم لیگ میں ہوئے  اور یہ حقیقت ہے کہ کانگریس کے مقابلے میں مسلم لیگ کی کامیابی کی بڑی وجہ مسلم لیگ کا یہ نام تھا ‘ لیکن اب پاکستان میں اس نام کا کچھ اثر نہیں کیوں کہ پاکستان میں سارے مسلمان ہیں اور مسلمانوں کے مقابلے  میں مسلم لیگ کا نام کوئی کشش نہیں رکھتا ‘ بلکہ مسلمانوں میں جماعت المسلمین نام کی کوئی جماعت بنانا لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنا ہے کیوں کہ اس سے دوسرے مسلمان کی تحقیر  بلکہ تکفیر کا پہلو نکلتا ہے۔ اس سے اپنے فخر اور تعلی کا اظہار ہوتا ہے۔ عام مسلمانوں سے علیحدگی کا تصور پیداہوتا ہے جو بھی جماعت المسلمین کا نام سنتا ہے وہ طنزاً پوچھتا ہے آپ جماعت المسلمین ہیں تو کیا ہم جماعت الکافرین ہیں۔جماعت اسلامی پر بھی یہی اعتراض تھا کہ یہ جماعت اسلامی ہے ‘ تو باقی کیا غیر اسلامی ہیں- مسعود صاحب! آپ نے کچھ نہ سوچا سمجھا ‘ مسلم لیگ کا ریڈی میڈ نام لے کر جماعت المسلمین کی بنیاد رکھ دی۔

جماعت المسلمین کا نام رکھا تو آپ نے نادانی میں ہے ‘ لیکن اب قرآن وحدیث کا سہارا لے کر اس کو (Justify)کرتے ہیں۔ قرآ ن و حدیث میں وہ وہ  تاویلیں کرتے ہیں کہ مرزا قادیان کو بھی باوجود اس کی کمال تاویل بازی کے مات کر دیتے ہیں اور آیات و احادیث کے غلط ترجمے کرتے ہیں۔ عبارتوں کا مطلب بگاڑتے ہیں۔ غرض  یہ کہ اپنی جماعت المسلمین کو بچانے کے لیے الٹے سیدھے استدلال کو دیکھ کر بسوں اور گاڑیوں میں فولاد کا کشتہ بیچنے والوں کا طرز استدلال یاد آ جاتا ہے کہ بیچنا تو ہوتا ہے ان کو اپنا کشتہ فولاد ‘ لیکن پڑھتے ہیں آیت : {وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ }:57]الحدید[25: تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ ان کا کشتہ فولاد اﷲ تعالیٰ کا تیار کیا ہو ا ہے۔ اور اس کا نسخہ قرآن مجید میں موجود ہے اور اس کشتے میں ان کی تمام بیماریوں کا علاج ہے۔ مسعود صاحب! آپ بھی اپنی جماعت المسلمین کا تاثر کچھ اسی قسم کا دیتے ہیں کہ جیسے یہ جماعت خود اﷲ نے بنائی ہے‘ اﷲ نے ہی اس کا نام رکھا ہے اور اﷲ نے ہی مسعود بی۔ایس سی صاحب کو اس کا امیر مبعوث کیا ہے۔ کیوں کہ ایک مسعود صاحب کی ذات ہی دنیا میں ایسی رہ گئی تھی جو ذہن پرستی سے محفوظ تھی‘ باقی ساری دنیا ذہن پرست ہو گئی تھی۔ اس لیے اب جماعت المسلمین ہی دنیا میں ایک ایسی جماعت ہے جو ضلالت کے سمندر میں سفینہ نجات ہے جو اس میں سوار ہوگا گمراہی سے بچ جائے گا ورنہ گمراہی کے سمندر میں غرق ہو جائے گا۔

مسعود صاحب!اپنی جماعت المسلمین کے دفاع کے لیے جو کچھ جائز ‘ ناجائز آپ کر سکتے تھے آپ نے کیا‘ لیکن بات وہی رہی کہ باطل خواہ کتنی بھی  ملمع سازی کر لے باطل ہی رہتا ہے۔ جھوٹ کتنا بھی سچا بنے جھوٹ ہی رہتا ہے۔ آپ کی جماعت المسلمین 1385ھ میں بنی ہے  ‘ پہلے نہیں تھی حالانکہ اسلام اور مسلمین پہلے سے چلے آ رہے ہیں۔ اگر آپ کی جماعت المسلمین اصلی ہوتی ‘ نقلی نہ ہوتی تو آپ کو 1385ھ میں اس کی بنیاد رکھنے کی کیا ضرورت تھی ؟ جس جماعت المسلمین کی بنیاد آپ نے 1385ھ میں رکھی ہے وہ ایک نیا فرقہ ہے اور نیا فرقہ سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔

مسعود صاحب سب کو معلوم ہے کہ آپ نے جماعت المسلمین اب بنائی ہے اور یہ بالکل جعلی ہے۔ یہ وہ نہیں جو ’’خیر القرون ‘‘ میں تھی‘ لیکن آپ کہتے ہیں  یہ جماعت المسلمین وہی ہے ۔ لوگ پوچھتے ہیں مسعود صاحب! آپ  کی یہ جماعت المسلمین وہ کیسے ہو سکتی ہے ۔ یہ تو ہمارے سامنے بنی ہے۔ آپ کہتے ہیں نام تو وہی ہے ‘ مسعود صاحب! آپ کا اور آپ کی جماعت المسلمین  کا حال اس سید کا ہے جو بیسویں صدی  میںلوگوں کے سامنے سید بنا تھا۔ کسی نے اس پر دھوکا دہی کا مقدمہ دائر کر دیا جس میں وہ ماخوذ ہوگیا۔ اس نے اپنی صفائی میں گواہ پیش کیا۔ گواہ نے گواہی دی کہ یہ سید ہے کیوں کہ ہمارے سامنے بنا ہے۔ عدالت نے کہا جوا ب سید بنا ہو سید کیسے ہو سکتا ہے۔ سید تو وہ ہوتا ہے جو سیدوں کی اولاد ہو اور نسلاً  بعد نسلاً  چلا آ رہا ہو۔ یہ سید کیسا ؟ سو یہی حال آپ کا ہے اور آپ کی جماعت کا ۔ جماعت المسلمین کی بنیاد رکھی تو  آپ نے سمندر کے کنارے کراچی میں‘ اور حوالے دیتے ہیں بخاری و مسلم کے کہ یہ وہی جماعت ہے جو خیرالقرون میں تھی۔ مسعود صاحب! یہ جماعت وہ تو تب ہوتی جب یہ نسلا ً بعد نسل مسلسل چلی آ رہی ہوتی۔جب اس کی بنیاد ہی 1385ھ میں رکھی گئی ہے تو  یہ وہ کیسے ہو سکتی ہے؟ 

مسعود صاحب! آپ نے ’’جماعت المسلمین‘‘  کی بنیاد رکھ کر ’’مسلم‘‘ نام کا پمفلٹ نکال کر یہ ثابت کیا ہے کہ آج تک {ھُوَ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ}  کا مطلب سمجھنے والا کوئی نہیں ہوا۔سلف سے خلف تک سب فرقہ پرست ہی تھے جنھوں نے فرقہ وارانہ نام رکھے۔ جماعت المسلمین کی بنیاد نہ رکھی۔ کچھ مقلد بن گئے ‘ کچھ اہل حدیث۔۔ وہ تقلید کرکے گمراہ ہو گئے ‘ یہ اہل حدیث نام رکھ کر تباہ ہو گئے۔ جب مسلم کوئی نہ رہا تو مسعود بے چارے کو از سر نو 1385ھ میں جماعت المسلمین کی بنیاد رکھنا پڑی۔

مسعود صاحب!مسعود عثمانی کا حال بھی آپ جیسا ہی ہے۔ وہ بھی آپ کا بھائی ہے۔ وہ کہتا ہے توحید آج تک میرے سوا کسی کی سمجھ میں نہیںآئی۔ توحیدخالص کا نسخہ اب بیسویں صدی میںمجھے ہی ملا ہے۔ پہلے سب مشرک ہو گئے ۔ آپ کو ’’مسلمینی‘‘ ڈ س گئی‘ اس کو ’’توحید ‘‘ لڑ گئی۔ آپ دونوں نے سلف و خلف کو مشرک ‘ گمراہ اور فرقہ پرست قرار دیا۔ اس طرح آپ دونوںمسعودین شقیقین بن گئے۔ یہ ساری مار آپ پر اس لیے پڑی کہ آپ سلف کی راہ سے ہٹ گئے اور نئی راہ نکال لی۔اگر آپ دونوں سلف کی لائن میں رہتے تو یوں شیطان کے ہتھے نہ چڑھتے۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:(( اِنَّ الشَّیْطٰنَ ذِئْبُ الْاِنْسَانِ کَذِئْبُ الْغَنَمِ یَاْخُذُ الشاذَّۃَ وَالْقَاصِیَۃَ وَالنَّاحِیَۃَ وَ اِیَّاکُمْ وَالشِّعَابَ وَ عَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ وَالْعَامَّۃِ )) شیطان انسان کا بھیڑیا ہے جیسے بکریوں کے لیے بھیڑیا ہوتا ہے جو علیحدہ  رہنے والی بکری کا شکار کرلیتا ہے‘ اسی طرح شیطان ان لوگوں کا شکار کر لیتا ہے جو سلف کی لا ئن سے نکل جاتے ہیں اور بالآخر ((مَنْ شَذَّ شُذَّ فِی النَّارِ)) کے تحت دوزخ میں چلے جاتے ہیں۔

مسعود صاحب !سلف کی لائن میں رہنا بہت ضروری ہے۔ اﷲ نے اپنے نبی ﷺ کو بھی یہی تاکید کی ہے اور ہمیں بھی۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے: {اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اﷲُ فَبِھُدَاھُمُ اقْتَدِہْ }:6]الانعام [90: اے نبیؐ! پہلے نبیوں کی لائن میں رہیے۔ ۔۔۔ صحابہ کو حکم ہے: { فَاتَّبِعُوْنِیْ} میرے نبی ﷺ کی لائن میں رہو۔پھر فرمایا: {وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ } :31]لقمان[15: میری راہ پر چلنے والے پیشروؤں  کی  لائن میں  رہو۔ نئی  لائن  نہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (مشکوۃ ‘ کتاب الایمان‘ باب الاعتصام بالکتب والسنۃ‘ الفصل الثالث رقم 184۔۔ مسند احمد ‘ 243/5 رقم 21602 ایضا 233/5 رقم 21524) 

 (مشکوۃ ‘ کتاب الایمان ‘ باب الاعتصام بالکتب والسنۃ رقم 173 ۔۔ جامع ترمذی ‘ ابواب الفتن ‘ باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ‘ ص 1869 رقم 2167 )

بناؤ۔گارنٹی دی ہے کہ میری راہ پر چلنے  والے اہل حق لازماً  ہمیشہ رہیں گے تاکہ لائن  نہ ٹوٹے ۔ اسی لیے اﷲ نے حکم دیا ہے کہ تم اہل حق کی لائن  میں رہو ۔ ان کی لائن سے باہر نہ نکلو ۔ا گر تم اہل حق کی لائن سے باہر نکلو گے تو شیطان فوراً  تمھارا شکار کر لے گا۔ شیطان شکار کرتا ہی اس وقت ہے جب آدی سلف کی لائن سے نکل کر نئی راہ نکالتا ہے۔

مسعود صاحب! دل آپ کا مانتا ہے کہ اہل حدیث ہی اہل حق ہیں۔ ان کے سوا کوئی اہل حق نہیں‘ لیکن اب جماعت المسلمین آپ کے لیے فتنہ بن گئی ہے۔ اب آپ اہل حدیث کی مخالفت میں ہی اپنی جماعت کی خیر سمجھتے ہیں۔ آپ ہی بتائیں کہ اگر اہل حدیث ’’اہل حق‘‘ نہیں تو کیا مقلدین اہل حق ہیں یا مرزائی اور اہل قرآن اہل حق ہیں‘ یا شیعہ مومنین اہل حق ہیں؟آخر آپ کی جماعت المسلمین کے وجود میںآنے سے پہلے کون اہل حق تھے۔ اگر وہ اہل حدیث ہی تھے تو وہ آپ کی جماعت المسلمین کے وجود میں آنے کے بعد فرقہ پرست اور گمراہ کیسے ہو گئے۔ اگر وہ اہل حدیث نہیں تھے تو وہ کون تھے؟اگر آپ کہیں کہ میں نے جماعت المسلمین کی بنیاد ہی اس وقت رکھی تھی جب کہ کوئی اہل حق نہ تھا۔ چاروں طرف گمراہی ہی گمراہی تھی ‘ گھٹاٹو پ اندھیراتھا تو میں کہوں گا کہ یہ جھوٹ ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا‘ کیوں کہ امت محمدیہ ؐ  پر ایسا دور کبھی آیا ہے نہ آئے گا کہ اہل حق معدوم ہوں ۔ آپ کی جماعت المسلین کے باطل ہونے کی بڑی دلیل ہی یہ ہے کہ اس کا پچھلی صدیوں میں کوئی نام و نشان  نہیں تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنی صدیاں امت محمدیہ اندھیرے میں رہے اور اب بیسویں صدی میںآپ روشنی کا مینار بن کر نمودار ہوں۔ قرآن پکار پکار کر کہہ رہا ہے اور قرآن ہر زمانے کے لیے ہے: { فَمَنْ شَآئَ اتَّخَذَا اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلاً} :73]المزمل[19: { وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ}:31]لقمان[15: میری راہ بھی موجود ہے‘ مٹی نہیں۔ اس کے راہی بھی موجود ہیں۔ ان کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا۔ جو کوئی چاہے اﷲ کی راہ اختیار کر لے۔ اگر اہل حق کوئی نہ ہو تو اﷲ کی راہ اختیار ہی نہیں کی جا سکتی۔ اس کے علاوہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ((لاَتَزَالُ طَائِفَۃً مِّنْ اُمَّتِیْ ۔۔ الخ)) اہل حق ہمیشہ رہیں گے۔

مسعود صاحب ! آپ کیسے کہ سکتے ہیں کہ جماعت  المسلمین سے پہلے اہل حق  نہیں 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 بخاری‘ کتاب الاعتصام باب قول النبی ؐ ص 609‘ رقم 7311:

تھے؟ جب آپ مانتے ہیں کہ دین قرآن و حدیث کا نام ہے تو پھر آپ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ آپ کے وجود میں آنے سے پہلے حاملین قرآن و حدیث کون تھے۔ قرآن و حدیث کن کا مذہب  تھا۔ کیا موجودہ  فرقوں میں سوائے  اہل حدیث کے آپ  کو کوئی ایسا فرقہ نظر آتا ہے جس کا مذہب صرف قرآن وحدیث ہو۔ جب نہیں اور یقینا نہیں تو آپ کیسے کہتے ہیں کہ اہل حدیث ’’اہل حق‘‘ نہیں؟

مسعود صاحب! یہ آپ کو کتنا مغالطہ ہے کہ مسلم کے سوا کوئی اور نام نہیں ہو سکتا۔ نام صرف ایک یعنی’’ مسلم ‘‘ ہی ہے۔ اس مغالطے کی وجہ سے ہی آپ نے جماعت المسلمین بنائی ہے اور اس مغالطے کی وجہ سے ہی آپ اہل حدیث کو گمراہ بتاتے ہیں۔ آپ کا یہ مغالطہ صرف لا علمی کی وجہ سے ہے‘ ورنہ قرآن و حدیث کی روسے  کوئی دوسرا وصفی اور امتیازی نام رکھنا منع نہیں۔ قرآن و حدیث سے آپ ایک دلیل ایسی پیش نہیں کر سکتے جو آپ کے اس مذہب کو ثابت کرے۔ آپ نے اپنے رسالے’’مسلم‘‘  میں بہت سی قرآنی آیات لکھی ہیں   جن میں ’’ مسلم‘‘  کا لفظ ہے۔ آپ اس سے استدلال  یہ کرتے ہیں کہ نام صرف ایک یعنی مسلم  ہی  ہے اور کوئی دوسرا نام نہیں‘ حال آ نکہ ان آیات سے ہر گز آپ کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا ۔ گفتگو اس میں نہیں  کہ مسلم نام  ہے یا نہیں۔ گفتگو اس میں ہے کہ مسلم کے علاوہ کوئی اور نام جائز ہے یا نہیں ؟  آپ کوئی ایسی دلیل پیش کریں جس سے یہ ثابت ہو کہ مسلم کے علاوہ کوئی اور نام جائز نہیں اور یہ آپ قطعاً نہیں کر سکتے۔ 

اگر آپ  کہیں کہ قرآن کہتا ہے { وَلاَ تَفَرَّقُوْا } فرقے فرقے نہ بنو۔۔ مختلف ناموں سے فرقے بنتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں مسعود صاحب!یہ استدلال بھی آپ کا غلط ہے۔ فرقے ناموں سے نہیں بنتے‘ فرقے مذہب کی تبدیلی سے بنتے ہیں۔ اگر مذہب ایک ہو اور تعارفی نام مختلف بھی ہوں تو کوئی فرقہ پرستی نہیں۔ وہ ایک ہی فرقہ ہے۔ ایک چیز کے کئی نام ہو سکتے ہیں۔ اگر مذہب صحیح ہو تو مذہب کی مناسبت سے کئی نام ہو سکتے ہیں۔ ناموں کو اتنی اہمیت  نہیں۔ اصل اہمیت مذہب اور دین کو ہے۔ اگر مذہب غلط ہو تو نام خواہ کتنا اچھا ہو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپ اپنا نام مسلم رکھتے ہیں ‘ مسلم کتنا اچھا نام ہے ‘ لیکن چونکہ آپ کا مذہب غلط ہے اس لیے آپ کو اس نام کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس طرح شیعہ مؤمنین کہلاتے ہیں‘ مومنین کتنا پیارا نام ہے ‘ لیکن جب مذہب صحیح نہیں تو مومن نام کا ان کو کوئی فائدہ نہیں۔

نام پر اصرار کرنا اور مذہب کو نہ دیکھنا یہ یہودو نصاریٰ کا شیوہ ہے۔ یہود ونصاریٰ کہتے تھے۔{کُوْنُوْا ھُوْدًااَوْ نَصٰرٰی تَھْتَدُوْا }:2]البقرۃ[135: یہود ونصاریٰ بن جاؤ ہدایت والے ہو جاؤ گے۔ وہ یہودی و نصاریٰ نام رکھنے کو ہی ہدایت سمجھتے تھے‘ اﷲ تعالیٰ نے جواب  میں فرمایا: {بَلْ مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا }:2]البقرۃ[135: دین ابراہیم کواپناؤ ‘ ناموں  پر نہ مرو۔ یہود و نصاریٰ کہتے تھے: { لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلاَّ مَنْ کَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی } :2]البقرۃ[111: جنت میں صرف یہود ونصاریٰ ہی جائیں گے‘ اور کوئی نہیں جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا: {بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہُ ﷲِ وَھُوَ مُحْسِنٌ ۔۔۔ الخ } :2]البقرۃ[112:  کیوں نہ جائے گا جو بھی اخلاص کے ساتھ اپنے آپ کو اﷲ کے آگے جھکا دے گا وہ جنت میں جائے گا۔۔۔ دوسری جگہ  اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: { اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰی وَالصَّابِئِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاﷲِ }:2]البقرۃ[62: جس کا مطلب یہ ہے کہ جنت کسی خاص نام کے گروہ کے ساتھ خاص نہیں ۔ جنت میں ہر وہ شخص  اور گروہ جائے گا جس کا ایمان اور عمل درست ہوگا‘ خواہ  وہ امت محمدیہ  کے مومنین ہوں یا پہلی امتوں مثلاً  یہود ونصاریٰ اور صابئین کے نیک لوگ ہوں۔

مسعو دصاحب! قرآن پاک کی یہ آیت واضح طور پر آپ کے مذہب کو  جھوٹا ثابت کرتی ہے۔ اس آیت میںو اضح  ہے کہ نا م بے شک مختلف بھی ہوں لیکن مذہب ایک ہونا چاہیے۔ دین اسلام ۔ مسعود صاحب! آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اﷲ ﷺ تک کتنے  نیک لوگ گزرے ہیں ۔  وہ مسلمین بھی تھے ‘ لیکن اپنی امتوں کے لحاظ سے انکے نام اور بھی تھے۔ ہر نبی کی امت مسلمین ہوتے ہوئے مختلف امتیازی ناموں سے مشہور رہی ہے۔ جیسے یہود و نصاریٰ  ‘ اہل کتاب‘ صابی‘ قوم تبع وغیرہ۔ لہٰذا آپ کا یہ کہنا کہ نام صرف ایک یعنی مسلم ہے اور کوئی نہیں ایجاد بندہ ہے اور یہ عقیدہ گندہ ہے۔ اس میں یہود یانہ رنگ ہے ‘ اسلامی رنگ نہیں۔ قرآن و حدیث میں اس کی کوئی دلیل نہیں۔ صرف یہی نہیں کہ یہ نظریہ قرآن و حدیث کے خلاف ہے ‘ بلکہ واقعہ  یہ ہے کہ یہ بات آج تک کسی عالم نے بھی نہیں کہی کہ مسلم کے سوا اور کوئی وصفی نام جائز نہیں۔ خواہ وہ اسلام کا معر ف و ممیز ہی کیوں نہ ہو۔ یہ صرف آپ کے ذہن کی پیدا وار ہے۔ 

مسعود صاحب! یہ آپ کی کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ لاعلمی کی وجہ سے قلابازیاں خود کھاتے ہیں‘ غلط فتوے اوروں پر لگاتے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ کا حال غلام محمد پرویز والا نہ ہو۔ وہ بھی آپ کی طرح سے دفتری آدمی تھا۔ ساری عمر تو کی کلرکی۔ جب ریٹائر ہو گیا تواسلام کو طلوع کرنے لگا۔ تھا بے علم ۔ فَضَلُّوْا وَاَضَلُّوْا  کا مصداق ہو گیا۔ آپ  بھی ساری عمر تو رہے بی ۔ ایس سی اور اب بنا  لی جماعت المسلمین  اور کرنے لگے تفسیر قرآن۔ اب اﷲ ہی خیر کرے۔

آپ کا رسالہ ’’ مسلم ‘‘ بتاتا ہے کہ آپ کو مغالطہ یہ ہے کہ مسلم نام ’’عَلم‘‘  ہے۔ اس لیے یہ بدلا نہیں جا سکتا۔ میں کہتا ہوں مسلم عَلم نہیں ‘ یہ ایک خطاب ہے‘ جو اﷲ کی طرف سے اپنے فرمان برداروں کو دیا جاتا ہے۔ لیکن مسعو صاحب ! اگر آپ کو سمجھانے کے لیے تھوڑی دیر کے لیے یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ مسلم ’’ عَلم ‘‘ہے تو پھر کیا علم کے بعد کوئی وصفی نام رکھا نہیں جا سکتا ۔؟ آخر یہ کس دین کا مسئلہ ہے؟ مسعود صاحب! جو بھی کوئی علم کے بعد وصفی نام رکھتا ہے وہ اپنے علم کو نہیں بدلتا‘ علم وہی رہتا ہے۔ القاب وغیرہ اور رکھ لیتا ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ جو اہل حدیث ہوتا ہے وہ مسلم بھی ہوتا ہے اور اہل حدیث بھی۔ بقول آپ کے مسلم اس کا اصلی نام ہے ‘ یعنی علم ہے‘ اہل حدیث اس کا وصفی نام ہے یعنی لقب ہے اور ایک ذات کے مختلف اوصاف کے لحاظ سے کئی کئی نام ہو سکتے ہیں۔ اﷲ کے کتنے نام ہیں ؟ رسول اﷲ ﷺ کے کتنے نام ہیں ؟ قرآن مجید کے کتنے نام ہیں؟ اسلام کے کتنے نام ہیں ؟ ہر شخص کے علم کے علاوہ کئی کئی نام ہوتے ہیں‘ بلکہ بعض دفعہ تو غیر علمی نام اتنا مشہور ہو جاتا کہ علم  کا پتا ہی نہیں رہتا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ  کا کیا نام تھا؟ یقین کے ساتھ کسی کو معلوم نہیں ‘ وہ اپنی کنیت سے ہی مشہو ر ہیں۔

مسعود صاحب! حقیقت یہ ہے کہ مسلم کوئی علم نہیں۔ یہ بھی مومن کی طرح ایک وصفی نام ہے جس کے معنی ہیں فرماں برداری  کرنے والا مطیع و منقاد۔ قرآن مجید اور وصفی ناموں کی طرح مسلم کو بھی ایک وصفی نام قرار دیتا ہے۔ یہ کوئی علم نہیں۔ چنانچہ ملاحظہ ہو:{ اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ۔۔الخ} :33]الاحزاب[35: اگر مسلم علم ہوتا تو انداز بیان  یہ  نہ ہوتا کہ مسلم معطوف علیہ اور مومن اور صادق وغیرہ معطوف ۔ اﷲ نے جب مسلمین پر باقی وصفی ناموں کا عطف کیا ہے  تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسلم علم نہیں۔ بلکہ ایک وصفی نام ہے۔ جیسا کہ مؤمن و صادق وصفی نام ہیں۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ جیسے اپنے آپ کو مومن و صادق کہنا اور جماعت المؤمنین اور جماعت الصادقین بناناجائز نہیں اسی طرح اپنے آپ کو مسلم کہنا اور جماعت المسلمین  بنانا جائز نہیں‘ کیوں کہ یہ اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی بات ہے اور شریعت ایسے نام رکھنے سے منع کرتی ہے جس میں اپنی مدح کا پہلو نکلتا ہو‘ یا اپنی پاک بازی اور بڑائی کا اظہار ہو یا اپنے کسی عمل کا سراہنا پایا جاتا ہو۔ اس لیے اپنے آپ کو ’’المصلی‘‘ (نمازی ) ’’ الصائم‘‘ (روزے دار ) ’’ الحاج‘‘ (حاجی ) کہلوانا جائز نہیں۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ مسلم یا مومن نہیں کہلواتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے جماعت المسلمین نام کی کسی جماعت  کی بنیاد نہیں رکھی۔ چونکہ وہ مسلم تھے اس لیے خود بخود جماعت المسلمین تھے۔ ان کو جماعت المسلمین نام رکھنے کی ضرورت نہ تھی ۔ یہ بیماری پہلے معتزلہ کو تھی کہ وہ اپنے آپ کو اہل التوحید واہل العدل کہتے تھے۔ یا شیعہ کو تھی کہ وہ مومنین بنتے تھے۔ اب یہ بیماری آپ کو لگ گئی ہے کہ آپ مسلمین کہلاتے ہیں‘ حال آنکہ جس طرح جماعت المؤمنین و اہل حق کہلانا جائز نہیں۔ اس طرح جماعت المسلمین کہلانا بھی جائز نہیں۔ 

--1 مسعود صاحب!اگر آپ کہیں کہ جب ہم مسلم ہیں تو مسلم کیوں نہ کہلائیں ‘ میں پوچھتا ہوں کہ آپ مومن ہیں یا نہیں ؟ اگر آپ مومن نہیں تو پھر آپ مسلم بھی نہیں اور اگر آپ مومن ہیں تو پھر آپ مومن کیوں نہیں کہلاتے؟ اس طرح آپ صادق ہیں تو صادق کیوں نہیں کہلاتے ۔؟ جماعت المسلمین کی بجائے  جماعت الصادقین کی بنیاد کیوں نہیں رکھتے۔؟ مسعود صاحب!یہ ضروری نہیں کہ آدمی جو ہو وہ کہلائے بھی ۔ صحابہؓ جن کو رسول اﷲ ﷺ نے جنتی کہا تھا ‘ وہ جنتی ہونے کے باوجود جنتی نہ کہلاتے تھے۔ 

--2 اگر آپ کہیں کہ مسلمین نام تو اﷲ نے رکھا ہے ‘ ہم مسلمین کیوں نہ کہلائیں ‘ میں کہتا ہوں کہ اﷲ کے مسلم نام رکھنے کے یہ معنی نہیں ۔  کہ مسلم ہمارا ذاتی نام ہے ‘اس لیے ہم مسلمین کہلاتے پھریں۔ مسلم نام رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ نے اپنے فرمانبرداروں کا نام مسلمین رکھا ہے ‘ جو اﷲ کے فرمانبردار بن جائیں  گے اﷲ کے نزدیک ان کا یہ نام ہوگا۔  اﷲ نے یہ نام اس وقت رکھا تھا جب ہم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ ہم نے کوئی عمل بھی نہیں کیا تھا ۔ اگر یہ نام ہمارے کہلانے کے لیے ہوتا تو اﷲ ہماری پیدائش سے پہلے یہ نام نہ رکھتا۔ جب تک عملاً فرماں برداری نہ ہو تو مسلم کیسا اور جب مسلم نہ ہو تو مسلم نام کیسا؟ مسعود صاحب!آپ ہی بتائیں کہ فرماں برداری سے پہلے آدمی مسلم کہلا سکتا ہے ؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر اﷲ تعالیٰ کا ہماری پیدائش سے پہلے کا رکھا ہوا نام ہمارے مسلم کہلانے کی دلیل کیسے ہو سکتا ہے ؟ ذاتی نام تو ذات کے وجود میںآنے سے پہلے بھی رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن کسی وصف سے متصف تو کوئی ذات اس وقت ہو سکتی ہے جب وہ وصف اس ذات میں موجود ہو۔ مسلم ایک وصفی نام ہے جس کے معنی ہیں فرمانبردار۔ جب کوئی انسان فرماں برداری کے وصف سے موصوف ہوگا  تو وہ مسلم نام کا مستحق ہوگا۔ پہلے کیسے مسلم کہلا سکتا ہے۔؟

--3 اگر آپ کہیں ہم مسلمین اس لیے کہلاتے ہیں کہ اﷲ نے ہمارا نام مسلمین رکھا ہے‘ میں پوچھتا ہوں اﷲ نے سب کا نام مسلمین رکھا ہے ‘  یا خاص خاص کا۔؟ اگر سب کا نام مسلمین رکھا ہے تو پھر دنیا میں سب مسلمین کیوں نہیں ؟ اتنے کافر کیوں ہیں ؟ کیا اﷲ نے کافروں کا نام بھی مسلمین رکھا ہے؟ اگر اﷲ نے سب کا نام مسلمین نہیں رکھا ‘ خاص خاص کانام مسلمین  رکھا ہے تو پھر وہ خاص کون ہیں؟ کیا وہ آپ کی جماعت المسلمین ہے یا اور بھی ہیں؟ اگر اور بھی ہیں تو کیا وہ اہل حق نہیں؟ اگراور نہیں بلکہ صرف آپ کی جماعت المسلمین ہے تو پھر اﷲ کی تیار کردہ مسلمین کی وہ لسٹ دکھائیں تاکہ ہم بھی دیکھیں کہ اس میں آپ کا نام بھی ہے یا نہیں؟ اگر آپ مسلمین کی وہ لسٹ نہ دکھا سکے اور آپ کبھی بھی نہیں دکھا سکتے تو آپ تسلیم کریں کہ اﷲ نے مسلم نام ضرور رکھا ہے ‘ لیکن یہ پتا نہیں کس کس کا؟۔۔۔ مسعود صاحب!جب آپ کو پتا  ہی نہیں کہ اﷲ نے کس کس کا نام مسلم رکھا ہے تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں اﷲ نے ہمارا نام مسلمین رکھا ہے۔ اس لیے ہم مسلمین کہلاتے ہیں۔

--4مسعود صاحب! آپ جو کہتے ہیں اﷲ نے { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } :22]الحج [78:کہا ہے ‘ اس لیے ہم مسلمین کہلاتے ہیں۔ میں کہتا ہوںاس { سَمَّاکُمُ }  میں ضمیر مخاطب ’’کُمْ‘‘ سے کون لوگ مراد ہیں ؟ کیا صرف صحابہ ؓ یا بعد والے بھی ؟ اگر بعد والے بھی ہیں تو پھر کیا آپ اس ’’کُمْ‘‘ میں  شامل ہیں یانہیں ؟ مسعود صاحب! جب تک آپ یہ ثابت نہ کرسکیں کہ اس ’’کُمْ‘‘میں آپ بھی شامل ہیں ‘ آپ  { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } سے استدلال  کیسے کر سکتے ہیں ؟ 

--5مسعو د صاحب!آپ جو کہتے ہیں کہ اﷲ نے  { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } کہا ہے  اس لیے ہم مسلمین کہلاتے ہیں‘ اسی لیے ہم نے جماعت المسلمین بنائی ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ فقط اﷲ کے { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } کہہ دینے سے کوئی آدمی مسلم کہلا سکتا ہے یا اﷲ کے { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } کہہ دینے کے بعد بھی مسلم کہلانے کے لیے مسلم بننے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ کہیں کہ فقط اﷲ کے { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ }  کہہ دینے سے ہر آدمی مسلم  کہلا سکتا ہے ‘ میں کہتا ہوں پھر عمل کرنے کی کیا ضرورت ؟ مسلم تو پھر ہر آدمی اس وقت سے ہی ہے جب سے اﷲ نے یہ نام رکھا ہے۔ اگر آپ کہیں کہ فقط اﷲ کے        { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } کہہ دینے سے کوئی آدمی مسلم نہیں کہلا سکتا‘ مسلم کہلانے کے لیے تو مسلم بننے کی ضرورت ہے‘ میں کہتا ہوں پھر آپ مسلمین کہلانے کے لیے  { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } سے  استدلال کیوں کرتے ہیں ؟ پھر تو مسلم کہلانے کی دلیل مسلم ہونا ہے ‘ نہ کہ اﷲ کا { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ }  کہنا ۔ اس لیے آپ پہلے اپنا مسلم ہونا ثابت کریں ‘ پھر مسلمین کہلائیں اور اپنا مسلم ہونا آپ ثابت نہیں کر سکتے۔ اس لیے آپ کا مسلم کہلانا اور جماعت المسلمین بنانا غلط ہے۔ 

--6مسعود صاحب آپ جو مسلمین کہلاتے ہیں اس وجہ سے کہ اﷲ نے { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } کہا ہے‘ میں پوچھتا ہوں اﷲ کے  { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } کہہ دینے سے کیا ہر ایک کو مسلم کہلانے کا حق مل جاتا ہے؟ اگر آپ کہیں کہ { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ }  کے تحت ہر ایک کو مسلم کہلانے کا حق ہے پھر تو ہر کوئی مسلم کہلا سکتا ہے ‘ خواہ مرزائی ہو یا مشرک  ۔ اگر آپ کہیں کہ ہر کوئی مسلم نہیں کہلا سکتا ‘ مسلم صرف وہی کہلا سکتا ہے جو مسلم ہو۔ میںکہتا ہوں پھر  { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } سے مسلم کہلانے پر آپ کا استدلال کرنا  بے کار ہے۔  { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } کے تحت پھر یا تو ہر مشرک او ر مرزائی بھی مسلم کہلا سکتا ہے یا پھر اس کے تحت کوئی بھی مسلم نہیں کہلا سکتا ؟ مسلم صرف وہی کہلا سکتا ہے جو مسلم ہو اور یہ پتا نہیں کہ مسلم کون ہے ؟ اﷲ ہی سب کو بہتر جانتا ہے اس لیے آپ کا { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } کے تحت مسلم کہلانا اور جماعت المسلمین بنانا باطل ہے۔ 

--7مسعود صاحب !جب یہ طے ہے کہ اﷲ کی فرماں برداری کے بغیر کوئی بھی مسلم نہیں ہو سکتا کیوں کہ مسلم کا معنی ہی فرماں برداری کرنے والا ہے ‘ جو فرماں برداری نہ کرے وہ مسلم نہیں تو آدمی زندگی میں مسلم کیسے کہلا سکتا ہے ؟ کیوں کہ فرماں برداری کا عمل موت تک جاری رہتا ہے اورجب تک فرماں برداری مکمل نہ ہو اﷲ کے نزدیک مسلم نہیں بن سکتا‘ لہٰذا آپ کا مسلمین کہلانا اور جماعت المسلمین بنانا غلط ہے۔ 

--8مسعود صاحب! اگر آپ کہیں اﷲ نے ہمارا نام مسلمین رکھا ہے ‘ اس لیے ہم مسلمین کہلاتے ہیں‘ میں کہتا ہوں مسلمین نام اﷲ نے ہرایک کا نہیں رکھا۔ مسلمین نام اﷲ نے ان ہی کا رکھا ہے جو اﷲ کے نزدیک مسلمین بننے والے ہیں اور اﷲ کے نزدیک مسلم وہی بنتا ہے جس کا خاتمہ اسلام پر ہو۔ کیوں کہ اپنے  خاتمے کا کسی کو پتا نہیں‘ اس لیے زندگی میںمسلم ہونے کا دعویٰ کرنا یا جماعت المسلمین نام کی جماعت بنانا ایک چھچھوری حرکت ہے۔ اپنے انجام سے ڈرنے والا کوئی دانا بینا ایسی حرکت نہیں کر سکتا۔ مسعود صاحب!آپ نے جماعت المسلمین تو بنا لی اس وجہ سے کہ اﷲ نے ہمارا نام مسلمین رکھا ہے۔ لیکن یہ کبھی غور نہیں کیا کہ جب اﷲ نے ہمارا یہ نام رکھا ہے تو اس نام سے اﷲ ہم سے خطاب کیوں نہیں کرتا؟ سارے قرآن مجید میں اﷲ نے ایک دفعہ بھی ہمیں اس نام سے نہیں پکارا ۔ بلکہ جہاں بھی پکار اہے  {یٰاَیُّھَا الْمُؤْمِنُوْنَ }۔۔۔ { یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا }۔۔۔ { یٰا عِبَادِیْ } سے پکار ا ہے تو ثابت ہوا کہ مسلم نام ضرور ہے ‘ لیکن زندگی میں زندہ رہتے ہوئے کوئی اس نام کا مستحق نہیں‘ کیوں کہ فرماں برداری مکمل ہونے سے پہلے یہ نام رکھا ہی نہیں جا سکتا‘ کہ اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں    یٰاَیُّھَاالْمُسْلِمُوْنَ سے خطاب نہیں کرتا۔ 

--10مسعود صاحب !اگر آپ کہیں کہ جب ہم زندگی میںمسلم نہیں کہلا سکتے تو اﷲ نے { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } کیوں کہا ہے ؟ میں کہتا ہوں  { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ }  ہمیں مسلمان بنا نے کے لیے کہا ہے۔ مسلمان کہلانے کے لیے نہیں کہا۔ اﷲ نے { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } اس لیے کہا ہے کہ ہمیں مسلم بننے کی ترغیب ہو تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ مسلمین ایک خطاب ہے جو اﷲ اپنے فرمانبرداروں کو دیتا ہے۔ اگر ہم فرمانبردار بنیں گے تو یہ ہمیں ملے گا ۔ اﷲ نے  { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } اس  لیے نہیں کہا کہ ہم فرماں برداری کا کورس پورا کرنے سے پہلے مسلم کہلانے لگ جائیں۔ مسعود صاحب!آپ نے  { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ }  کا منشا و مطلب  تو سمجھا نہیں ‘ جماعت المسلمین کی بنیاد رکھ دی۔ مسلم دنیا میں فرداً فردا ہمارا نام  نہیں کہ ہم مسلم کہلاتے پھریں۔ مسلمین تو دراصل  فرمان برداروں کی اس کلاس کا نام ہے جس میں مسلم بننے کے لیے کلمہ پڑھ کر داخلہ لیا جاتا ہے۔ اس کلاس کا نام تو اﷲ نے پہلے سے ہی مسلمین رکھ دیا ہے ‘ لیکن کلمہ پڑھ کر کوئی داخلہ لینے والا س وقت تک مسلم نہیں کہلا سکتا جب تک وہ اسلام کا امتحان پاس کرکے اﷲ سے مسلم ہونے کی سند نہ حاصل کرلے۔

ایم ۔اے  کی کلاس کو تو ایم ۔اے  پہلے ہی کہہ دیتے ہیں ‘ لیکن ایم اے کہلانے اور اپنے نام کے ساتھ ایم اے لکھنے کا مجاز کوئی اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ ایم اے پاس کرکے ایم اے کی ڈگری لے لے۔ جب تک وہ ایم اے کی ڈگری نہ لے لے ‘ ایم اے نہیں کہلا سکتا۔ اسی طرح جب تک وہ مسلم ہونے کی ڈگری نہ لے لے ‘  مسلم نہیں کہلا سکتا۔ جو ایسا کرے وہ احمق ہے۔ فرعون نے یہی حماقت تو کی تھی کہ اپنی موت کے وقت کلمہ پڑ ھ کر {وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ }:10]یونس [90: کہہ دیا۔ ڈگری نہیں لی‘ فرماں برداری کا کورس پورا نہ کیا۔ اﷲ نے { اَلاٰن } کہہ کر ڈانٹ دیا کہ داخلے کا اب وقت نہیں۔ زندگی  میں تومسلم بنا نہیں۔ اب تیرے  {وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ } کہنے کا کیا تک؟

مسعودصاحب! مسلم ہونے کی ڈگری زندہ رہتے ہوئے نہیں ملتی‘ کیوں کہ زندہ رہتے ہوئے فرماں برداری کا کورس ختم  نہیں ہوتا‘ فرماں برداری کا کورس تو موت تک جاری رہتا ہے اس لیے آدمی موت تک مسلم بنتا ہی رہتا ہے۔ موت سے پہلے اسلام کی تکمیل نہیں ہوتی۔ حتی کہ موت کے وقت بھی مسلم بننے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے اﷲ نے فرمایا ہے{ وَلاَ تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ }:3]آل عمران [102 یعنی تم پر موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔۔۔۔ یوسف علیہ السلام  نے بھی موت کے وقت مسلم ہونے کی دعا کی { تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا }:12]یوسف[101: اﷲ مجھے مسلم ہونے کی حالت میں موت دینا‘ یعنی مسلم بناکر مارنا‘ عام مسلمانوں کے لیے بھی یہ دعا ہے۔ {رَبَّنَا اَفْرِغ ْعَلَیْنَا  صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ}:7]الاعراف[126: چوںکہ موت سے پہلے کوئی آدمی مکمل مسلم نہیں ہوتا اس لیے اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں  یٰاَیُّھَاالْمُسْلِمْ  سے خطاب بھی نہیں کرتا۔ ابراہیم علیہ السلام نبی ہیں‘ اس کے  باوجود اﷲ حکم دیتا ہے۔ {اَسْلِمْ } مسلم بن۔ یعنی فرماں برداری کرتا رہ۔ابراہیم علیہ السلام نے کہا:{ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ } :2]البقرۃ[131: میں نے  اپنے آپ کو رب العالمین کے سپرد کر دیا ہے ‘ میں فرماں برداری کرتا رہوں گا۔۔۔ نوح علیہ السلام  کہتے ہیں: {اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ } :27]النمل [91: اگرچہ  میں نبی ہوں ‘ لیکن مجھے یہی حکم ملا ہے کہ میں فرماں برداری کر تا رہوں۔۔۔ رسول اﷲ ﷺ کو بھی یہی حکم ہے: {اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ }    {اُمِرْتُ لِاَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ  الْمُسْلِمِیْنَ }:39]الزمر[12:   { اِنِّیْ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ }:6]انعام[14:  جوں ہی اﷲ کا حکم  آئے سب سے پہلے فرماںبرداری تو کر۔

مسعو د صاحب اگر آپ کہیں کہ رسول اﷲ ﷺ تو فرماتے ہیں { وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ }  میں سب سے پہلے مسلم ہوں‘ میں کہتا ہوں یہاں مسلم لغوی معنوں میں ہے کہ حکم آنے پر سب سے پہلے  ’’ فرماں برداری کرنے والا‘‘ میںہوں۔ اگر اول المسلمین کے معنی پہلامسلم ہو تو پھر { اُمِرْتُ اَنْ اَسْلَمَ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ } کہنے کی کیا ضرورت ؟ مسلم تو  وہ پہلے ہی تھے۔ اول المسلمین سے مکمل اور اول مسلم ہونا مراد نہیں بلکہ سب سے پہلے فرماں برداری کرنے والا ہے۔ یہی وضاحت ان آیات میں ہے {اُمِرْتُ لِاَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ  الْمُسْلِمِیْنَ } ۔۔۔  { اِنِّیْ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ } اگر رسول اﷲ ﷺ  اول المسلمین تھے تو پھر  {اَوَّلَ  الْمُسْلِمِیْنَ }  اور {اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ }  بننے کے کیامعنی ؟

مسعود صاحب! جب انبیا موت تک مسلم ہونے کی دعا کرتے رہے تو آپ کا زندگی میں مسلم ہونے کا دعویٰ کرنا ‘ مسلمین کہلانا اور جماعت المسلمین نام کی جماعت بنانا بچگانہ حرکت نہیں تو اور کیا ہے ؟ہم جب میراثیوں کے بارے میں سنتے تھے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمین کہتے ہیں تو ہم ہنستے تھے۔ آپ بی ۔ ایس سی ہو کر بھی ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔آخر آپ بی۔ ایس سی ہی نکلے‘ عالم تو نہ نکلے۔ مسعود صاحب! اگر آپ عالم ہوتے تو کبھی جماعت المسلمین بنانے کی غلطی نہ کرتے۔ آپ کو اس سے بھی خیال نہ آیا کہ آج تک کسی نے سلف سے لے کر خلف تک مسلم کہلانے اور جماعت المسلمین بنانے  کا شوق نہیں کیا ‘ اس بے عقلی کا شوق میں کیوں کروں؟

---11مسعو د صاحب!اگر آپ کہیں کہ جب ہم زندگی میں مسلم نہیں کہلا سکتے تو پھر ہم ایک دوسرے کو مسلمان کیوں کہتے ہیں۔ میںکہتا ہوں دوسرے کو مسلم کہنا اور بات ہے اور خود مسلم کہلانا یا جماعت المسلمین نام کی جماعت بنانا اور بات ہے۔ ایم اے کے طالب علموں کا تعارف تو ایم اے کے نام  سے ہی کرایا جاتا ہے‘ لیکن ایم اے  کا کوئی طالب علم خود کو ایم اے کہہ یالکھ نہیں سکتا۔ دوسرا جو مسلم کہتا ہے وہ عرف کے اعتبار سے کہتا ہے ‘ مسلمانوں والے نام اور کام  دیکھ کر اپنے خیال کی بنا پر کہتا ہے۔ اس لیے دوسرے  کو مسلمان کہنے والا  گناہ گار نہیں‘ کیوں کہ وہ کسی کے باطن اور اس کے خاتمے سے با خبر ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا۔ اس کادوسرے کو مسلم کہنا اپنے حسن ظن کی بنا پر اور مجازاً ہوتا ہے اور مجاز حقیقت نہیں ہوتا۔ برعکس اس کے جو مسلم کہلاتا ہے یا جماعت المسلمین نام کی جماعت بناتا ہے وہ مسلم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ گناہ گار ہے کیوں کہ مسلم ہونے کا دعویٰ کرنا گویا اپنے انجام سے باخبر ہونے کا دعویٰ کرنا ہے کہ میراخاتمہ اسلام پر ہوگا۔ حال آنکہ  کسی کو اپنے خاتمے کا پتا نہیں۔ اس لیے قرآن مجید { فَلاَ تُزَکُّوْا اَنْفُسَکُمْ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی }:53] نجم[32:کے تحت ایسے ناموں اورد عاوی سے منع کرتا ہے۔

--12 مسعو د صاحب! اگر آپ کہیں کہ اپنے آپ کو مسلم کہنا تو قرآن مجید سے ثابت ہے ‘ میں کہتا ہوں وہ بطور دعویٰ اور نام کے نہیں‘ وہ بطور اعتراف و تعارف اور اقرار و اظہار کے ہے۔جیسے ہم اشھد کہہ کر کلمہ پڑھتے ہیں۔۔۔ یہ مستقل طورپر مسلم کہلانے اور جماعت المسلمین بنانے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ کبھی کبھار تحدیث نعمت کے طور پر یا اظہار عبودیت یا کفار سے امتیاز کے لیے اپنے آپ کو مسلم و مومن کہنا اور ظاہر کرنا جائز ہے ۔ قرآن مجید میں جہاں کہیں :{ رَبَّنَا اٰمَنَّا }۔۔ { وَ نَحْنُ لَہ‘ مُسْلِمُوْنَ } ۔۔{ اِشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ } :3]آل عمران[64: ۔۔ {  اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ }:41]فصلت[33:  کی قسم کے الفاظ آتے ہیں۔ سب اسی طور پر ہیں۔ ان سے مسلم کہلانے اور جماعت المسلمین بنانے پر استدلال کرنا صحیح نہیں۔ 

مسعود صاحب! آپ بڑے دعوے سے اپنے آپ کو مسلم  کہتے ہیں ‘ اسی لیے آ پ نے جماعت المسلمین بنائی۔ میں پوچھتا ہوں آپ کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ آپ مسلم ہیں۔ آپ اپنے مسلم کہلانے کی سند تو دکھائیں۔ اگر آپ کہیں کہ  { ھُوَ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ }  ہمارے مسلم کہلانے کی سند ہے۔  میں کہتا ہوں { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } تو مسلم نام کی سند ہے کہ اﷲ کے نزدیک اس کے فرمان بردار کا نام مسلم ہے۔ { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ }  کسی کے مسلم کہلانے کی سند نہیں ہو سکتا۔ اگر کسی کے مسلم کہلانے  کی یہی سند ہو تو اس کو پیش کرکے تو ہر کوئی  مشرک اور مرزائی مسلم ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ آپ کی سند تو  وہ ہو سکتی ہے جو آپ کے نام کی ہو۔ جب آپ اپنے نام کی ’’مسلم ہونے کی‘‘ سند نہیں دکھا سکتے تو آپ کو مسلم کہلانے کا کیا حق ہے ؟

مسعود صاحب! آپ کا یہ استدلال مرزائیوں جیسا ہے کہ دعویٰ خاص دلیل عام‘ مرزائی دعویٰ تو مرزا قادیان کی نبوت کا کرتے ہیں ‘ دلائل اجرائے نبوت کے دیتے ہیں‘ اس طرح آپ دعویٰ تو اپنے مسلم ہونے  کا کرتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں { سَمَّاکُمُ  الْمُسْلِمِیْنَ }جب کہ { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } سے یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ اﷲ کے ہاں آپ کا نام بھی مسلم ہے۔ ایسا بھی تو ہوا ہے کہ بڑے بڑے نعت خواں اور امام مسجد ہندو  جاسوس نکلے۔

مسعود صاحب! اگر آپ کہیں رسول اﷲ ﷺ نے بھی تو جماعت المسلمین نام رکھا ہے ‘ میں کہتا ہوں رسول اﷲ ﷺ نے کسی خاص جماعت کا نام جماعت المسلمین  نہیں رکھا۔ آپ نے عام مسلمانوں کو ہی جماعت المسلمین کہا ہے۔ آپ نے اس نام کی کوئی خاص جماعت نہیں بنائی جیسے آپ نے بنا لی ہے۔ جماعت المسلمین سے آپ کی مرادعام مسلمان ہی تھے جیسا کہ دوسری حدیث میںآپ نے فرمایا:(( عَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ وَالْعَامَّۃَ )) جسے سواد اعظم بھی کہتے ہیں۔ اس سے کوئی علیحدہ مخصوص جماعت مراد نہیں۔ وہی اہل حق مراد ہیں جن کی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میںاکثریت تھی جو بعد میں اہل السنۃ والجماعۃ اور اہل حدیث کے نام سے مشہور ہوئے۔ مسعود صاحب رسول اﷲ ﷺ نے تو عام مسلمانوں کو جماعت المسلمین کہا ہے جس میں عبداﷲ بن ابی اور اس کی پارٹی بھی شامل تھی آپ نے اس کو اپنے بیسوی صدی کی جماعت المسلمین کی دلیل بنا لیا۔ مسعود صاحب حقیقت یہ ہے کہ آپ نے جماعت المسلمین کی بنیاد رکھ کر بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ اب بجائے اس کے کہ آپ توبہ کرکے اصلاح کرلیں آپ اپنی غلطی کو ثابت کرنے کے لیے ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارتے ہیں۔ کبھی  { سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } سے استدلال کرتے ہیں‘ کبھی ایک دوجگہ جو حدیث میں جماعۃ المسلمین کا لفظ آ گیا ہے اس کو سہارا بناتے ہیں‘ لیکن بات پھر بھی نہیں بنتی۔ بنے بھی کیسے ۔ ایک تو بات غلط ‘ دوسرے مسعود صاحب آپ نے ساری عمر تو کی دفتروں میںغلامی‘ اب ریٹائرمنٹ پر سوچ لی امامت وخلافت کی۔ سمجھ تھی نہیں‘ مشورہ کسی سے لیا نہیں۔ جماعت المسلمین کا لفظ حدیث میں کہیں نظر آ  گیا۔ میدان بھی خالی پایا کہ اس نام کی دنیا میںجماعت بھی کوئی نہیں۔ جماعت المسلمین نام بھی بہت اچھا ہے‘ خوب چمکدار رہے گا۔سب کے لیے قابل قبول ہے۔  اس نام سے کوئی انکار بھی نہیں کرے گا ۔ دھڑا دھڑ لوگ جماعت المسلمین کے جال میں پھنسیں گے۔ اس لیے ریٹائرمنٹ کے بعد جماعت المسلمین بنا کر امام المسلمین بن کر خلیفۃ المسلمین  بننے کا اچھا چانس ہے۔ اب دن رات آپ  کا (( تَلْزَمُ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ اِمَامَھُمْ )) پر زور ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے فرمایا: 

جماعت المسلمین میں شامل ہو جانا  اور اس کے امام (مسعود بی ۔ ایس سی )  سے چمٹ جانا ‘ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ( بخاری : کتاب الفتن ‘ باب کیف الامر اذا لم تکن جماعۃ‘ ص 591 رقم 7084 ۔۔  مسلم :کتاب الامارۃ ‘ باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین عند ظہور الفتن ‘ ص 1009 رقم 51)


اسے نہ چھوڑنا  ورنہ دوزخ میں جاؤ گے۔

مسعود صاحب! آپ نے دیوانے ہو کر جماعت المسلمین تو بنا لی ‘ یہ نہ سوچا کہ اتنے فرقے ہوئے ‘ اتنے بڑے بڑے عالم ہوئے اگر جماعت المسلمین نام رکھنے کا ہوتا تو ایسا پیارا اورجاذب نظر نام تو یوں فارغ پڑا رہتا۔ کسی کی تو نظر پڑتی ۔ کوئی  تو اپنی جماعت کا یہ نام رکھتا‘ کوئی توا س نام کی جماعت بناتا جو فرقہ پرستی کو ختم کرنے والی ہوتی۔ جب آج تک کسی نے اس نام کی جماعت نہیں بنائی  تو ظاہر ہے ‘یہ نام رکھنے کا نہیں  ‘ لیکن آپ نے ایک نہ سوچی‘ جماعت المسلمین کی بنیاد رکھنے کی کی۔ مسعود صاحب! آپ نے اپنی حیثیت کو نہ دیکھا کہ میں انجان آدمی  نا سمجھ‘  ناتجربہ کار‘ صرف بی ۔ایس سی‘ ساری عمر تو گزاری دفتروں میں نوکری کرنے میں اب خلیفۃ المسلمین دیکھنے کا خواب دیکھ رہا ہوں۔ کہاں ایک بی ۔ ایس سی بابو اور کہاں سارے جہان کا خلیفۃ المسلمین ۔  پھر بدقسمتی یہ کہ آپ سے ضبط بھی نہ ہو سکا کہ چپکے چپکے اپنا کام چلاتے رہتے ‘ شیطان کے اکسانے پر شور مچانا شروع کر دیا کہ سب فرقوں کے نام غلط ہیں ‘ نام صرف ایک میرا ہی ٹھیک ہے جو میں نے رکھا ہے ‘یعنی جماعت المسلمین۔ باقی سب فرقہ پرستی اور گمراہی کے نام ہیں۔

مسعود صاحب!خلیفۃ المسلمین بننے کے شوق میں آپ نے جماعت المسلمین بھی بنا لی اور امام المسلمین بھی بن گئے‘ لیکن آپ یہ نہیں دیکھتے کہ آپ کام کیا کرتے ہیں ؟ کیا امام المسلمین والے ایسے کام کرتے ہیں‘ یا مولویوں والی حرکتیں۔ کسی کو کافر بنا دیا ‘ کسی کو مشرک کہہ دیا ‘ کسی کو فرقہ پرست اور گمراہ قرار دے دیا۔ کچھ فتوے بازی کر لی ‘ کچھ پمفلٹ بازی کرلی۔ کیا امام المسلمین کا یہ کام ہوتا ہے؟ مسعود صاحب ! اگر آپ اپنا امام المسلمین والا ایک کام بھی دکھا دیں تو ہم آپ کو فوراً امام مان لیں۔ حرکتیں کرتے ہیں مولویوں والی اور خواب دیکھتے ہیں خلیفۃ المسلمین کے‘ فٹ کرتے ہیں اپنے اوپر حدیث۔(( تَلْزَمُ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَاِمَامَھُمْ )) کو اور رہتے ہیں جنرل ضیاء کے ڈنڈے کے نیچے۔ کبھی امام المسلمین بھی کسی کا  تابع اور محکوم ہوتا ہے ؟

مسعود صاحب!جب آپ اقامت دین نہیں کر سکتے ‘ باطل کے خلاف سینہ سپر نہیں ہو سکتے تو آپ امام المسلمین  کیسے ؟ اگر آپ(( تَلْزَمُ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَاِمَامَھُمْ )) کا مصداق ہیں تو بتائیے آپ کے پلے ہے کیا ؟ طاقت آپ کے پاس نہیں‘ اختیار آپ کو کوئی حاصل نہیں‘ ایسے خصی اور ناکارہ امام سے چمٹے رہنے کا حکم رسول اﷲ ﷺ کیسے دے سکتے ہیں۔ مسعود صاحب  (( تَلْزَمُ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَاِمَامَھُمْ ))  آپ سے زیادہ صدر ضیاء پر فٹ آتی ہے۔ وہ صاحب اقتدار اور بااختیار بھی ہے۔ا س کے ساتھ مسلمان بھی ہیں۔ اسلام کا بھی کچھ نہ کچھ کر ہی رہا ہے  اور نہیں تو آپ سے تو زیادہ ہی کر رہا ہے۔ ((فَاعْتَزِلُ تِلْکَ الْفِرَقَ کُلِّھَا )) کا مطلب اصل میں یہی ہے کہ جو پارٹیاںاقتدار کی بھوکی ہیں‘ دین کو ان سے کوئی سروکار نہ ہو‘ جیسا کہ ہمارے ملک کی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ ان سے علیحدہ رہو۔ مسعود صاحب!کر تو آپ کچھ سکتے نہیں اور دعوے آپ امام المسلمین بننے کے کرتے ہیں۔یقین جانیں جیسے مرزا قادیان کی نبوت ‘ ویسی آپ کی امامت۔ اس کی نبوت نقلی اور آ پ کی امامت اور مسلمینی نقلی۔ اس نےآیات و احادیث کو توڑ مروڑ کر اپنی نبوت پر سیٹ کیا۔ آپ نے غلط طور پراپنی امامت پر فٹ کیا۔ 

مسعو د صاحب!اگر آپ کی قسمت سیدھی ہے تو اب بھی واپس اپنے ٹھکانے پر آ جائیے ۔اگرآپ اسی طرح خلیفۃ المسلمین بننے کے خواب دیکھتے رہے تو مزید گمراہ ہوں گے۔ آپ کے پچھے کوئی زبردست شیطان لگا ہوا ہے جو آپ کودھکیل رہا ہے ۔ اگر آپ نے رجوع نہ کیا تو وہ آپ کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ آپ کا حال اب{ کَالَّذِی اسْتَھْوَتْہُ الشَّیٰطِینُ فِی الْاَرْضَ حَیْرَانَ  لَہ‘ اَصْحَابٌ یَّدْعُوْنَہ‘ اِلَی الْھُدَی ائْتِنَا }:6]الانعام[71: والا ہو گیا ہے۔ اہل حدیث آپ کو دعوت دے رہیں ہیں۔ ادھر آ جائیں‘ شیطان کے ہتھے نہ چڑھیں‘ لیکن آپ کوئی نہیں سن رہے۔

مسعود صاحب ہم تو پتا نہیں کہ اﷲ کے نزدیک مسلم ہیں بھی یا نہیں ۔ صحابہ جو یقینا  مسلم ‘ مومن ‘متقی وغیرہ سب کچھ تھے وہ بھی آپ کی طرح جماعت المسلمین نہیںکہلواتے تھے‘  جماعت  المسلمین والمؤمنین نہیں بناتے تھے۔ صرف اس وجہ سے کہ وہ اس مسئلہ سے واقف تھے۔ ان کے پیش نظر قرآن  تھا۔ وہ جانتے تھے کہ قرآن {فَلاَ تُزَکُّوْا اَنْفُسَکُمْ وَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی }:53]النجم[32: کے تحت مسلم اور مومن کہلانے سے منع کرتا ہے۔یہودیوں کا کردار بھی ان کے سامنے تھا جو بڑے ادعائی نام رکھتے تھے۔ خود ہی ابناء اﷲ اور احباء اﷲ بنے پھرتے تھے۔ اﷲ نے یہ کہہ کر ان کی مذمت فرمائی۔ { اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یُزَکُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ  بَلِ اﷲُ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَائُ }:4]نساء[49: کیا تو ان یہودیوں کو نہیں دیکھتا (جو اپنے ناموں کے ذریعے) اپنی پاکبازی کا اظہار کرتے ہیں۔ حال آنکہ پاک تو وہ ہوتا ہے جسے اﷲ پاک کرے یا پھر اﷲ پاک کہے۔ یہ حدیث رسول بھی ان کے سامنے تھی۔ ایک عورت کا نام برہ تھا۔ آپ نے بدل کر زینب رکھ دیا‘ صرف اسی وجہ سے کہ اس نام میں اپنی نیکی کا ادعا پایا جاتا ہے‘ کیوں کہ برہ کا مطلب ہے نیک۔ اس لیے مسعود صاحب آپ کا مسلم کہلانا اور جماعت المسلمین بنانا ایک ناجائز حرکت ہے۔

اس کے علاوہ جماعت المسلمین نام رکھنے سے اپنی تعلی اور فخر کا اظہار ہوتا ہے۔ جس سے لوگوں کے دلوں میں نفرت پید اہوتی ہے اور یہ نفرت افتراق کا موجب بنتی ہے۔ {سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } کو دلیل بنا کر ہر مشرک و بدعتی کو مسلمان کہلانے کا جواز ملتا ہے۔ اگر اسی اصول پر ہر ایک مسلمان کہلانے لگ جائے‘ تو مسلمانوں کے کفر و شرک پر پردہ پڑتا ہے۔ اس طرح اہل حق اور اہل باطل میں امتیاز نہیں رہتا۔ سب مسلم ٹھہرتے ہیں۔ مسعود صاحب!جماعت المسلمین بنا کر آپ نے بہت غلطی کی ہے۔ کسی جماعت کی قیادت کے آپ بالکل لائق نہ تھے۔ نہ علم ‘ نہ تجربہ۔ امام المسلمین بن کر آپ اس حدیث کا مصداق ہو گئے۔ اِتَّخَذَ النَّاسُ رُؤُوْسًا جُھَّالاً ۔۔ فَضَلُّوْا  وَاَضَلُّوْا   آپ بھی گمراہ ہوئے ۔ لوگوں کو بھی گمراہ کیا۔ کاش آپ کسی سے مشورہ کر لیتے۔ اب آپ کو جماعۃ المسلمین کا ایسا خبط ہو گیا ہے کہ آپ اپنی جماعت اور امامت کی خاطر قرآن و حدیث کی تحریف کرنے لگ گئے ہیں۔ یہاں قرآن مجید میں آپ کو مسلم کا لفظ نظر آ جاتا ہے ‘ آپ اس کو جماعت المسلمین بنا لیتے ہیں۔ آپ نے حضرت حذیفہؓ والی حدیث(( تَلْزَمُ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَامَامَھُمْ ))کو توڑ مروڑ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  (بخاری: کتاب العلم ‘ باب کیف یقبض العلم ص 11رقم 100 ۔۔ مشکوۃ :کتاب العلم ‘ فصل اول ‘ رقم 206:)

کر اپنے اوپر فٹ کیا  حالانکہ اس کا مصداق آپ کسی صورت بھی نہیں۔ ترمذی کی حدیث ((فَادْعُوْا بِِدَعْوَی اﷲِ الَّذِیْ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ عِبَادَاﷲِ ))  کا ترجمہ اور مطلب آپ نے بگاڑا۔بہت سی قرآنی آیات کا جن میں مسلم کا لفظ ہے آپ نے مطلب غلط لیا۔ سلیمان علیہ السلام اس عورت کو جو ابھی مسلمان بھی نہیں ہوئی تھی خط لکھتے ہیں۔ { اَلاَّ تَعْلُوْا عَلَیَّ وَاٰتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ }:27]النمل[31: یعنی سرکشی نہ کرو۔مطیع و فرمان بردار ہو کر میرے پاس حاضر ہو جاؤ۔ آپ نے اپنے مطلب کے لیے اس کا ترجمہ یوں کیا کہ ’’میرے ساتھ سرکشی نہ کرو اور مسلم بن کر میرے پاس آ جاؤ۔‘‘ مسلمین کا لفظ یہاں بالکل اپنے لغوی معنوں میں تھا۔ یعنی مطیع و فرمان بردار ‘ لیکن آپ نے ترجمہ میں مسلم لکھ کر صرف اپنا پوائنٹ بنایا۔اسی طرح { اِشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ }:3]آل عمران[64: کا ترجمہ بھی آپ نے غلط کیا کہ ہم تو صرف مسلم ہیں ‘ حالانکہ قرآن کے الفاط اس معنی کے بالکل متحمل نہیں۔ سورہ ھود کی آیت { فَھَلْ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ}:11]ہود[14: کا ترجمہ کرنے میں تو آپ نے غضب ہی کر دیا ۔ ترجمہ کرتے وقت آپ کو ذرا خوف خدا نہ رہا۔ آپ ترجمہ کرتے ہیں کہ کیا آپ  اپنے آپ کو صرف مسلم کہنے کے لیے تیار ہیں؟ مسعود صاحب اگرآپ میں رتی بھر بھی ایمان ہے تو آپ ہی یہ بتائیں کہ کیا یہ آیت اس ترجمہ یااس معنی اور مطلب کی متحمل ہے ۔ کیا یہ آیت کا ترجمہ پکار پکار کر نہیں کہہ رہا کہ یہ کسی خبطی اور ذہن پرست کا ترجمہ ہے‘ کیا یہ قرآن میں تحریف نہیں۔ ایسی حرکت سے تو مرزا بھی شرما جاتا۔ یہودی جو  {کُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصَارٰی  تَھْتَدُوْا }:2]البقرۃ[135: کہتے تھے۔ یہ تحریف ہی کیا کرتے تھے۔ آپ بھی امام المسلمین ہو کر یہ تحریف کرتے ہیں۔ مسعود صاحب حقیقت یہ ہے کہ آپ جماعت المسلمین کی بنیاد رکھ کر بہت گناہ گار ہوئے۔ پہلا گناہ آپ نے یہ کیا کہ جماعت المسلمین نام کی جماعت بنائی‘ حالانکہ اس نام کی جماعت بنانا شرعاً بالکل ناجائز ہے۔ دوسرا گناہ یہ کیا کہ جماعت المسلمین کے دفاع میں اہل حدیث کی مخالفت شروع کر دی۔ اس کی شامت آپ پر یہ پڑی کہ آپ قرآن و حدیث میں تحریف کرنے لگ گئے۔جب آدمی ایک گناہ کرکے اﷲ سے توبہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (صحیح ابن خزیمۃ ‘ کتاب الصیام ‘ باب ذکر تمثیل الصائم فی طیب ریح  المسک اذ ھواطیب الطیب 196/3 رقم  1895۔۔ جامع ترمذی  کتاب الادب ‘ابواب الامثال‘ باب جاء  فی مثل الصلوۃ  والصیام والصدقہ ص 1939 رقم (2863:

نہیں کرتا تو شیطان اس کو اس سے بڑے گناہ میں الجھا دیتا ہے۔ اس طرح ایک  گناہ دوسرے گناہ کا موجب بن جاتاہے۔قرآن مجید میںہے { اِنَّمَا اسْتَزَلَّھُمُ الشَّیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْا  } ۔:3]آل عمران[155:

مسعود صاحب !  اگر آپ  نے توبہ نہ کی تو بعید نہیں کہ اﷲ آپ کو مزید کسی گنا ہ میں دھکیل دے۔ اس لیے جتنی جلدی ممکن ہو توبہ کرلیں۔ سب سے پہلے اپنی جماعت کا  نام بدلیں۔ یہ نام رکھنا آپ کی گمراہی کی اصل بنیاد ہے۔ اس کے علاوہ اہل حدیث کی مخالفت بندکر دیں‘ یہ بھی اﷲ کے غضب کا سبب ہے۔ اگر آپ اہل حدیث کی مخالفت نہ کرتے  تو شاید اﷲ آپ کو یوں دھکا  نہ دیتا کہ آپ قرآن و حدیث میں تحریف کرنے لگ جاتے۔ مسعود صاحب جو نئی راہ نکالتا ہے اس کو تاویل بازی اور تحریف کرنی  ہی پڑتی ہے۔ جب آپ اہل حدیث کی راہ سے ہٹ گئے۔ جماعت المسلمین بنا لی تو آپ کو یہ تاویلیں کرنی پڑیں۔ آپ کے  رسائل خاص کر آپ کا  رسالہ  ’’مسلم‘‘ تو اس بات کی پوری نشان دہی کرتا ہے کہ آپ کے ذہن میں بہت کجی ہے۔ مسعود صاحب !خدا سے ڈرئیے ایسا نہ ہو کہ { فَلَمَّا زَاغُوْا اَزَاغَ اﷲُ قُلُوْبَھُمْ  وَاﷲُ  لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ }:61]الصف[5: والا معاملہ ہو۔


٭٭٭٭٭