نماز عید و مسائل قربانی

نماز عید و مسائل قربانی

عشرہ ذوالحجہ میں عبادت کی فضیلت

ماہ ذوالحجہ حرمت والے مہینوں میں سے ہے۔ اس کے پہلے عشرہ کے لیل و نہار کی عبادات رمضان المبارک کی عبادات کے برابر ہیں۔ اس کی نو تاریخ کو خالق کائنات اﷲ عزوجل کے مہمان حجاج کرام عرفات و مزدلفہ کے وسیع میدانوں میں اپنے رب اعلیٰ کے حضور حاضر ہو کر سعادت حج سے مشرف ہوتے ہیں اور اس کی دس تاریخ کو جملہ مسلمانان عالم اپنے آقا و مالک کی جناب میں حاضر ہو کر دوگانہ عیدالاضحی ادا کر کے اس کے حضور بطور تشکرو احسان جانوروں کی قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ اس مہینے کے پہلے دس دنوں کی فضیلت و بزرگی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’ ذوالحجہ کے (پہلے ) دس دنوں کی عبادت اﷲ تعالیٰ کو بہت ہی محبوب ہے۔ ان ایام میں ہر روز ے کا ثواب پورے ایک سال کے روزوں کے برابر اور ہر رات کا قیام لیلۃ القدر کے برابر ہے۔‘‘ ۱
ترجمہ: ’’ ذوالحجہ کے (پہلے ) دس دنوں کے اعمال صالحہ خداوند کو جس قدر محبوب ہیں اتنے دیگر دنوں کے اعمال محبوب نہیں ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا: یارسول اﷲ ! دیگر ایام کا جہاد فی سبیل اﷲ بھی ان کی برابری نہیں کر سکتا ؟ آپ نے فرمایا: ہاں دیگر ایام کا جہاد فی سبیل اﷲ بھی ان کی برابری نہیں کرسکتا ہے البتہ ایسا جہاد فی سبیل اﷲ برابری کر سکتا ہے جس میں کوئی آدمی اپنی جان و مال سمیت شریک ہوا اور ان میں سے کوئی بھی واپس نہیں آیا۔ ۲
یوم عرفہ یعنی ذوالحجہ کی نویں تاریخ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ عرفہ کا روزہ رکھنے سے اﷲ تعالیٰ دو سالوں کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ سابقہ سال اور آئندہ سال۔‘‘ ۳البتہ حاجی کو عرفات میں عرفہ کا روزہ رکھنا منع ہے‘ نیز عام مسلمانوں کو13-12-11-10 ذوالحجہ کا روزہ رکھنا منع ہے۔ کیونکہ یہ دن کھانے پینے اورا ﷲ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے دن ہیں۔ ۴
حضور اکرم ﷺ ارشادفرماتے ہیں کہ ذوالحجہ کے پہلے دس دن اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بڑی عظمت و بزرگی والے ہیں ‘ ان میں تہلیل و تکبیر بکثرت بیان کرو۔
ذوالحجہ کا چاند دیکھ کر تکبیریں شروع کرنی چاہئیں اور تیرہ تاریخ کی عصر تک برابر صبح و شام نمازوں سے پہلے اور بعد میں گھر کے اندر اور گھر سے باہر اٹھتے بیٹھتے اور راستوں میں چلتے پھرتے باآواز بلند کہنی چاہئیں۔ (بعض حضرات عید والے دن سے تکبیریں کہنی شروع کرتے ہیں۔ یہ درست نہیں۔ ۵

تکبیر کے الفاظ

اﷲ اکبر اﷲ اکبر لاالہ الا اﷲ واﷲ اکبر اﷲ اکبر و للہ الحمد ۶
احادیث مقدسہ میں تکبیرات مختلف الفاظ کے ساتھ وارد ہیں۔
اﷲاکبر اﷲ اکبر اﷲ اکبر کبیرا والحمد ﷲ کثیرا و سبحان اﷲ بکرۃ واصیلا

عید کا دن

عید اس خوشی کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹتی ہے ‘ مسلمان اس خوشی کے شکرانے میں جو نماز پڑھتے ہیں اسے نماز عید کہا جاتا ہے۔ اسلام میں عیدیں صرف دو ہی ہیں جو سال میں دو مرتبہ آتی ہیں: ایک عیدالفطر اور دوسری عیدالاضحی ہے۔ ذوالحجہ کی دس تاریخ کو صبح سویرے عورتیں اور بچے بوڑھے نہا دھو کر اور شریعت کے مطابق اچھے کپڑے پہن کر مرد باآواز تکبیریں کہتے ہوئے میدان عید کی طرف نکلیں ‘ عورتیں روزمرہ کے معمولی سادہ لباس میں جائیں۔ نماز عید کے لیے پیدل جانا سنت ہے اور دوری عذر ہو تو علیحدہ بات ہے۔ نماز عیدا لاضحی کے لیے کچھ کھائے پیے بغیر نکلنا سنت ہے۔

نماز عید کہاں ادا ہو؟

عیدین کی نماز جنگل اور کھلے میدان میں پڑھنا سنت ہے۔ البتہ بارش آندھی یا دیگر شرعی عذر کے وقت مسجد میں یا کسی اور جگہ پڑھنے میں مضائقہ نہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ بارش ہوگئی تو آپ ؐ نے نماز عید مسجد میں پڑھائی ۷ شاہ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں ‘ نماز عید کھلے میدان میں پڑھنی چاہیے۔ جامع مسجد میں بلا عذر عید پڑھنی مکروہ ہے۔

راستہ بدلنا مسنون ہے

میدان عید سے واپسی کے وقت راستہ تبدیل کرنا سنت ہے۔ آپ ؐ عید کے دن آنے جانے کا راستہ علیحدہ اختیار کرتے تھے اور راستے میں واپسی پر تکبیریں بلند آواز سے کہتے ہوئے آتے۔ ۸

عورتوں کو عیدگاہ جانے کا حکم

آپ نے عورتوں کو نماز عید عیدگاہ میں پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ عورتیں روز مرہ کے معمولی سادہ لباس میں عید گاہ جائیں۔ اسی طرح بغیر زیب و زینت کے خوشبو اور میک اپ(Make Up) سے سخت پرہیز کریں۔ نماز عید کے لیے سب عورتیں آئیں۔ پردہ داری کا خاص خیال رکھتے ہوئے ادھیڑ عمر اور بڑھیا اورحائضہ عورتیں بھی ضرور آئیں۔ البتہ حائضہ نماز نہ پڑھے اورمسلمانوں کی دعا میں شریک ہو جائیں۔
چنانچہ حدیث نبوی ہے کہ آپ ؐ نے حضرت ام عطیہؓ کو حکم دیا کہ وہ حیض والی عورتوں اور پردہ نشین عورتوں کو بھی عیدین میں نکالیں‘ لیکن حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔ صرف دعا میں شریک ہو جائیں۔ایک عورت نے پوچھا بعض دفعہ ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو تو آپ ؐ نے فرمایا اس کی سہیلی یا پڑوسن اپنی چادر میں لے آئے ۔ یعنی دونوں ایک ہی چادر میں آ جائیں۔۹

وعظ و خطبہ نماز عید کے بعد ہو

حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ عید الاضحی اور عید الفطر میں باہر نکلتے ‘ سب سے پہلے نماز عید ادا کرتے اور پھر لوگوں کی طرف وعظ و نصیحت کرنے کے لیے متوجہ ہو جاتے ۔ ۱۰ لوگ اپنی اپنی نماز کی جگہ بیٹھے رہتے ۔ آپ انھیں اوامر ونواہی کرتے اگر کسی لشکر کے بھیجنے کی ضرورت ہوتی تو بھیج دیتے یا کوئی اور ضرورت ہوتی تو اس کا حکم کرتے اور فرماتے صدقہ کرو‘ صدقہ کرو‘ صدقہ کرو۔ زیادہ صدقہ کرنے والی عورتیں ہی ہوتیں ۔ پھر آپ عید سے فارغ ہو جاتے۔

نماز عیدین کی تکبیرات

ہر مرد اور ہر عورت با وضو ہو کر قبلہ رخ ہو کر کھڑا ہو جائے اور تکبیر کہہ کر دونوں ہاتھ کاندھوں یا کانوں تک اٹھا کر (سینہ پر ) باندھ لیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم عیدین میں پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے ۔ تمام لوگ دعائے استفتاح پڑھ کر امام کے ساتھ سات تکبیریں تکبیر تحریمہ کے علاوہ کہیں اور ہرتکبیر کے ساتھ ہاتھ اٹھائیں اور سورہ فاتحہ سے فارغ ہو کر خاموش ہو جائیں۔ امام پہلی رکعت میں سورہ’’ ق‘‘ یا سورہ ’’اعلیٰ ‘‘ پڑھے اور دوسری رکعت میں امام سورہ قمر یا سورہ غاشیہ پڑھے۔ ۱۲

قربانی کیا ہے ؟

قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک دسویں ذوالحجہ کو قربانی سے بڑھ کر کوئی عمل محبوب نہیں ہے۔ زمین پر خون گرنے سے پہلے ہی جانور مکان قبولیت کو پہنچ جاتا ہے۔ قربانی کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملتی ہے۔ قیامت کے روز جانور سینگ ‘ کھر اور بال وغیرہ سمیت آئے گا۔۱۳ قربانی کے جانور کو ستر گنا کرکے قربانی والے کی میزان میں رکھا جائے گا۔ قربانی کی مشروعیت پر امت مسلمہ کے تمام علما فقہا کا اجماع ہے۔ قربانی صاحب استطاعت پر ہے خواہ کوئی سارا سال غریب رہا ہو اگر قربانی کے دنوں میں مال دار ہو گیا تو اس پر قربانی ہے۔ یہ قربانی اس وقت قبولیت کے درجہ پر پہنچتی ہے جب مسلمان قربانی سے قبل اسلام کے بنیادی ارکان کو پورا کرے ۔اگر ان بنیادی فرائض نماز ‘ روزہ ‘ حج ‘ زکوٰۃ میں استطاعت کے باوجود کوتاہی کرتا ہو تو نہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق ہے اور نہ قربانی سے۔ اگر توبہ کر لے اور فرائض کی طرف لوٹ آئے تو پھر ٹھیک ہے۔

قربانی کی اہمیت

حدیث نبوی ہے:
((مَنْ وَجَدَ سَعَۃً فَلَمْ یُضَحِّ فَلَا یَقْرَبَنَّ مُصَلاَّنَا)) ۱۴
یعنی جو شخص وسعت مال کے (یعنی قربانی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو‘) باوجود قربانی نہیں کرتا تواس کو ہماری عید گاہ کی طرف نہیں آنا چاہیے۔ (گویا وہ مسلم معاشرے کا فرد ہی گردانا نہیں جائے گا)

قربانی کی استطاعت نہ رکھنا

جس شخص میں قربانی کرنے کی استطاعت نہ ہو وہ ذوالحجہ کا چاند دیکھ کر اپنی حجامت نہ بنوائے ‘ بدن کے کسی بھی حصے کے بال نہ لے اور نہ ہی ناخن ترشوائے ۔نماز عید کے بعد حجامت بنوائے‘ بال کاٹے اور ناخن ترشوائے تو اﷲ تعالیٰ اس کو قربانی کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا۔
قربانی کرنے والے کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ نماز عید سے پہلے دس دن حجامت نہ بنوائے ۱۵

قربانی کا وقت

قربانی نماز عید پڑھ کر کرنی چاہیے۔ جو شخص نماز عید سے پہلے قربانی کرے گا اس کی قربانی نہیں ہوگی‘ وہ دوبارہ عید کے بعد قربانی کرے۔۱۶

قربانی کے دن

شریعت محمدیہ کی رو سے ذوالحجہ کی دس تاریخ سے لے کر تیرھویں تاریخ کی عصر تک قربانی کرنی جائز درست ہے۔ یعنی چار دن لیکن تیرہ تاریخ کی قربانی آج کل متروک ہے اور اہل بدعت اس دن قربانی جائز نہیں کہتے۔ اس نیت سے کہ سنت زندہ ہو اور بدعت کا ازالہ ہو تیرہ ذوالحجہ کی قربانی کی جائے تو قربانی کے ساتھ سو شہیدوں کا ثواب بھی ملے گا‘ کیوں کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’ کُلُّ اَیَّام التَّشْرِیْقِ ذِبْحٌ‘‘ ۱۸ اور ایام تشریق 13-12-11-10 تاریخ ہیں۔ جس میں کوئی اختلاف نہیں۔

قربانی کا جانور کیسا ہونا چاہیے؟

سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ جانور عیب دار نہ ہو ‘ ایسے جانور کی قربانی نہیں ہوتی۔ مثلا دانت نہ ہونا ‘ لنگڑا لولا‘ اندھا‘ کانا‘ آگے سے یا پیچھے سے یا درمیان سے کان کٹا یا چرا ہوا۔ سوراخ دار بوڑھا‘ کمزور غرضیکہ ہر قسم کی بیماریوں اور عیبوں سے پاک ‘ صحیح سالم جانور ہونا چاہیے۔ ۱۹ ہاں خریدنے کے بعد اگر کوئی عیب پیدا ہوجائے تو کوئی حرج نہیں۔
عام طور پر یہ مشہور ہے کہ بھیڑ بکری اور دنبہ ایک سال کے اور گائے ڈھائی سال کی ہو تو قربانی ہو جاتی ہے۔سالوں والا عمر کا مسئلہ بالکل غلط ہے‘ کیوں کہ آپ نے فرمایا:((لاَ تَذْبَحُوْا اِلاَّ مُسِنَّۃً ))۲۰ یعنی قربانی کے جانور کا دو دانت ہونا ضروری ہے ورنہ ذبح نہ کیا جائے۔مجمع البحار میں ہے کہ مسّنہ کا لفظ گائے اور بکری دونوں پر بولا جاتا ہے جب کہ دو دانت ہو جائیں ۔ گائے اونٹ تقریباً تیسرے سال میں دو دانت ہوجاتی ہیں لیکن اصل میں مسّنہ کہتے ہی اس کو ہیں جو دو دانت ہو جائے خواہ کتنے ہی سال میں دو دانت ہوں۔

قربانی میں حصے

ایک گائے میں سات اور ایک اونٹ میں دس گھر شریک ہو سکتے ہیں۔اور ایک گھر والوں کی طرف سے ایک بکرا یا ایک بکری یا ایک حصہ کافی ہے ۔ چاہے وہ کتنے ہی ہیں۔۲۱ مرنے والے کی طرف سے بھی قربانی کی جا سکتی ہے۔

قربانی میں سب حصہ داروں کا اہل توحید ہونا ضروری ہے

گائے‘ بکری‘ دنبہ‘ اونٹ کی جان چونکہ ایک ہی ہے اس لیے شریک بھی ایک ہی قسم کے ہونے ضروری ہیں۔ ایک گائے کے سات (حصے) قائمقام ہونا اﷲ تعالیٰ کا فضل خاص ہے۔ اس لیے تمام حصے داروں کا توحید پرست ہونا ضروری ہے۔ مشرک نہ ہوں ۔ بے نماز بھی نہ ہوں۔
اﷲ تعالیٰ مشرک کی کوئی چیز قبول نہیں کرتا۔ حرام کمائی والے کی بھی اﷲ تعالیٰ قربانی قبول نہیں کرتا۔ کیوں کہ رزق حلال اسلام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ عقیدے کے صحیح ہونے کے بعد عبادت قبول ہونے کا دارومدار رزق حلال پر ہے۔
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا کوئی آدمی حرام کما کر صدقہ اور خرچ نہ کرے اور نہ ہی اپنے پیچھے مال چھوڑے ایسا کرنے سے وہ اپنے لیے آگ کی زیادتی کر رہا ہے۔ کیوں کہ برائی برائی کو نہیں مٹاتی اورگندگی گندگی کو ختم نہیں کرتی۔ اس لیے حرام کمائی سے لی گئی قربانی حرام ہو جائے گی۔

بھینس کی قربانی

قرآن مجید میں’’ بھیمۃ الانعام‘‘ کی چار قسمیں بیان کی گئی ہیں۔ دنبہ بکری‘ اونٹ گائے لیکن بھینس ان چاروں میں شامل نہیں اور قربانی کا حکم’’ بھیمۃ الانعام‘‘ میں سے ہے۔ آپؐ اور صحابہ کرامؓ سے بھی صرف اِن ہی چار وں قسم کے جانوروں کی قربانی ثابت ہے۔ لہذا اختلاف سے بچنا چاہیے ۔ اس کے علاوہ آپ صلی اﷲ علیہ و سلم سے بڑے حلال جانوروں کی قربانی ثابت نہیں۔

خود ذبح کرنا افضل ہے۲۲

جانور اپنے ہاتھ سے خود ذبح کرنا افضل ہے۔ اگر اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا ناممکن ہو تو پھر اس کے پاس بوقت ذبح حاضر ضرور رہے۔ بے نماز مشرک کو کوئی حق نہیں کہ جانور کی گردن پر اپنے ہاتھ سے چھری پھیرے۔ ہاں عورتیں بھی اپنے ہاتھ سے ذبح کر سکتی ہیں۔ چھری کا تیز رکھنا سنت ہے اور جانور پر احسان کرنا ہے۔ جانور کو قبلہ رخ لٹائے اور یہ دعا پڑھے:
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ عَلٰی مِلَّۃِ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا وَّ مَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o اِنَّ صَلٰوتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لاَ شَرِیْکَ لَہ‘ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَامِنَ الْمُسْلِمِیْنَo اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَ لَکَ عَنْ۔ ۔۔۔یہاں پر اپنا نام یا جس کی طرف سے ذبح کر رہا ہے اس کا نام لے۔ اور بِسْمِ اﷲِ وَاﷲُ اَکْبَرُ کہہ کر چھری پھیر دے۔ ۲۳

قربانی کا گوشت کسے دیا جائے؟

قربانی کاگوشت مشرک‘ بدعتی‘ بے نماز اور غیر مذہب والوں کو دینا درست نہیں کیوں کہ یہ خدا کا حق ہے اور صرف اہل حق کو ہی دیا جا سکتا ہے۔ حدیث نبوی ہے:
((لاَ یَاْکُلْ طَعَامَکَ اِلاَّ تَقِیٌّ ))۲۴
اے مسلمان تیرا کھانا پرہیز گار ہی کھا سکتا ہے۔ قصاب کو گوشت اور چمڑا بطور اجرت دینا ناجائز ہے۔

تنبیہ

مسلمان بھائیو! قربانی کوئی رسم نہیں بلکہ ایک عبادت ہے جسے صحیح طور پرپوری شرائط سے بجا لانا ضروری ہے‘ کیوں کہ قرآن مجید میں ہے اﷲ تعالیٰ کے پاس نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔
لمحہ فکریہ
اﷲ کی راہ میں قربانی والے کیا اپنے اندر یہ جذبہ پاتے ہیں کہ اﷲ کے حکم کے مقابلے میں اولاد او ر مال کی محبت ثانوی چیز ہے اور اولاد ومال کی محبت میں اﷲ تعالیٰ کے حلال و حرام کی حدود نہیں توڑنی چاہئیں۔
اس قربانی سے نہایت عظیم درس عبرت بھی حاصل ہوتا ہے کہ جس طرح دوسری مخلوق اﷲ تعالیٰ کی امانت تھی اور اس کی راہ میں قربان ہو گئی۔ اسی طرح مجھے بھی اپنے آپ کو اس طور پر تیار رکھنا چاہیے کہ اگر کبھی جہاد یا دوسری صورتوں میں باطل قوتوں کو نیچا دکھانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگانی پڑ جائے تو دریغ نہ کروں گا‘ بلکہ میدان کارزار میں کود پڑوں گا۔ صرف یہ سوچے کہ یہ محض رسم ہی نہیں بلکہ مشق ہے جو کروائی جا رہی ہے۔

و آخر دعوانا ان الحمد ﷲ رب العالمین

*****
۱ (ترمذی: کتاب الصوم‘ باب ما جاء فی العمل فی ایام العسر‘ رقم 758:۔۔ ابن ماجۃ: کتاب الصیام ‘ باب صیام العسر‘ رقم 1727:)
۲ ( بخاری: کتاب العیدین ‘ باب فضل العمل فی ایام التشریق رقم969:۔۔۔ترمذی : کتاب الصوم ‘ باب ما جاء فی العمل فی ایام العسر ‘ رقم757:۔۔۔ ابن ماجۃ : کتاب الصیام‘ باب صیام العسر ‘رقم 1728:)
۳ (ترمذی: کتاب الصوم ‘باب ما جاء فی فضل الصوم یوم عرفہ ‘ رقم 739:۔۔۔ ابن ماجۃ: کتاب الصیام‘ باب صیام عرفہ ‘ رقم 1730:)
۴ (ترمذی: کتاب الصوم ‘ باب ما جاء فی کراھیۃ صوم ایام التشریق ‘ رقم 773: ۔۔۔ ابن ماجۃ : کتاب الصیام ‘ باب ما جاء فی النھی عن صیام ایام التشریق‘ رقم (1720-1719:
۵ ( بخاری: کتاب العیدین‘ باب التکبیر ایام منی و اذا غدا الی عرفۃ ‘ رقم 970:)
۶ (فتح الباری462/2کتاب العیدین‘ باب التکبیر ایام منی و اذا غدی الٰی عرفۃ‘ رقم 971: ۔۔۔ سنن دارقطنی: 51/2 کتاب العیدین)
۷(ابوداؤد: کتاب الصلوۃ‘ باب یصلی بالناس العید فی المسجد اذا کان یوم مطر‘ رقم 1160: ۔۔۔ ابن ماجۃ : کتاب الصلٰوۃ ‘ باب ما جاء فی صلٰوۃ العید فی المسجد اذا کان مطر رقم 1313:)
۸ (بخاری: کتاب العیدین‘ باب من خالف الطریق اذا رجع یوم العید ‘ رقم 986:۔۔۔ جامع ترمذی : ابواب العیدین ‘ باب ما جاء فی خروج النبیؐ الی العید فی طریق ورجوعہ من طریق آخر رقم (541:
۹(ترمذی: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب فی خروج النساء یوم العیدین ‘ رقم 539:۔۔۔ بخاری : کتاب العیدین ‘ باب خروج النساء والحیض الی المصلی ‘رقم 947:)
۱۰ (بخاری: کتاب العیدین ‘ باب الخروج الی المصلی بغیر منبر ‘ رقم 956:۔ ۔۱۱
۱۱ مسلم : کتاب صلٰوۃ العیدین ‘ رقم 9: ۔۔۔ ابوداؤد : کتاب الصلٰوۃ ‘ صلٰوۃ العیدین ‘باب خروج النساء الی العیدین رقم 1141:)
۱۲ (ابوداؤد : کتاب الصلٰوۃ ‘ باب بالقرأۃ فی الجمعۃ ‘ رقم 1122 و باب التکبیر فی العیدین رقم 1149: ۔۔۔ جامع الترمذی : ابواب العیدین‘ باب ما جاء فی القرأۃ فی العیدین‘ رقم 533 وباب ما جاء فی التکبیر فی العیدین ‘ رقم 536:)
۱۳( ترمذی : ابواب الاضاحی ‘ باب ما جاء فی فضل الاضحیۃ ‘ رقم 1493: ۔۔۔ ابن ماجۃ: ابواب الاضاحی ‘ باب ثواب الاضحیۃ ‘ رقم 3126:)
۱۴ ( ابن ماجۃ : ابواب الاضاحی ‘ باب الاضاحی و اجبۃ ام لا؟ رقم 3122: ۔۔ مسند احمد: 321/2 عن ابی ہریرۃ ‘ رقم 8074:)
۱۵ ( ابوداؤد : کتاب الضحایا ‘ باب الرجل یاخذ من شعرہ فی العشر و ھو یرید ان یضح رقم 2791:۔۔ مسلم :کتاب الاضاحی ‘ باب نہی من دخل علیہ عشر ذی الحجۃ و ھو یرید التضحیۃ ان یاخذ من شعرہ و اظفارہ شیئا ‘ رقم 39:)
۱۶ ( بخاری: کتاب الاضاحی‘ باب سنۃ الاضحیۃ رقم 554: ۔۔۔۱۷
۱۷ مسلم کتاب الاضاحی باب وقتھا ‘ رقم (1960:
۱۸ (مسند احمد: 38/5 رقم 16309/عن جبیر بن مطعم ۔۔۔ تفسیر ابن کثیر 238/3 سورہ الحج 36:۔۔۔ دارقطنی 5/2 رقم 31کتاب العیدین )
۱۹ ( ابن ماجۃ: ابواب الاضاحی ‘ باب ما یکرہ ان یضحی بہ ‘رقم3144:۔۔۔ نسائی: کتاب الضحایا ‘ باب ما نہی عنہ من الاضاحی‘ رقم 4382-4374:۔۔۔ ترمذی :ابواب الاضاحی ‘ باب ما لا یجوز من الاضاحی‘ رقم 1498-1497:۔۔۔ ابوداؤد: کتاب الضحایا ‘ باب ما یکرہ من الضحایا ‘ رقم 2803-2802:)
۲۰ ( مسلم: کتاب الاضاحی باب سنّ الاضحیۃ رقم 13۔۔ ابن ماجۃ‘ ابواب الاضاحی‘ رقم 3138 ‘باب ما یجزی من الاضاحی ۔۔ نسائی :کتاب الضحایا ‘ باب المسنۃ والجذعۃ‘ رقم 4383۔۔۔ ابوداؤد: کتاب الضحایا‘ باب مایجوز فی الضحایا من السن ‘ رقم (1797:
۲۱ (سنن ابی داؤد: کتاب الضحایا‘ باب البقر والجزور عن کم تجزی ؟ رقم 2807:۔۔ جامع ترمذی: ابواب الاضاحی‘ باب ما جاء فی الاشتراک فی الاضحیۃ ‘ رقم 1501:)
۲۲ ( مسلم کتاب الاضاحی ‘ باب استحباب استحسان الضحیۃ ص 1028 رقم 19-17‘ارواہ الغلیل: 293/7 ‘ رقم (2231:
۲۳ ( مشکوۃ : کتاب الصلوٰۃ ‘ باب فی الاضحیۃ رقم 1461:۔۔ ترمذی : کتاب الاضاحی ‘ باب ما یقول اذا ذبح رقم 1521:۔۔ ابن ماجۃ: کتاب الاضاحی باب الاضاحی رسول اﷲ ﷺ رقم 3121:)
۲۴ ( جامع الترمذی : کتاب الزہد‘ باب ما جاء فی صحبۃ المؤمن ‘ رقم 2396 ۔۔ مسند احمد: 38/3 رقم 10944:)