برادران اسلام! عشرہ ذی الحجہ دوڑا جا رہا ہے اور سنت ابراہیمی کا دن آ رہاہے جو ہمارے اخلاص و ایثار کا امتحان ہے۔ جب ہم سب لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ پڑھنے والے ہیں تو ہم سب کا مذہب بھی ایک ہونا چاہیے۔ یہ فرقہ بندی ‘ حنفی شافعی کوئی چیز نہیں‘ یہ حنفی ‘ وہ شافعی ‘ یہ ہماری حدیث ‘ وہ ان کی یہ جھگڑے ہمارے پیدا کردہ ہیں۔ نماز اﷲ کی‘ حدیث رسولؐ کی۔ اگر حدیث صحیح ہے تو سب کی ورنہ کسی کی بھی نہیں۔ پہلے مذہب بنا لینا پھر صحیح احادیث کو چھوڑ کر ضعیف احادیث سے اس کی تشبیہ کرنا دین اسلام کے ساتھ کوئی انصاف نہیں۔ خدارا ان تقسیموں کو چھوڑو اور متحد ہو کر سنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تلاش کرو۔ اﷲ ہم سب کو رسول ؐ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔
قربانی کا تصور ہر آسمانی مذہب میں پایا جاتا ہے۔ جذبہ ایثار کا یہ ایک بہترین محرک ہے۔ اس کی ابتدا قابیل کے واقعہ سے ہوتی ہے‘ لیکن جس کی یاد گار کو ہم مناتے ہیں اس کا اجرا ابراہیم علیہ السلام سے ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم سے صحابہؓ نے دریافت کیا تھا کہ یہ قربانی کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا تھا کہ یہ تمھارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔
قربانی کی اہمیت
((عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ مَنْ وَجَدَ سَعَۃً فَلَمْ یُضَحِّ فَلاَ یَقْرَبَنَّ مُصَلاَّنَا )) ۱
یعنی جو طاقت رکھتے ہوئے قربانی نہ کرے ‘ وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔
((عَنْ حَنَشٍ قَالَ رَأیْتُ عَلِیًّا یُضَّحِیْ بِکَبْشَیْنِ فَقُلْتُ لَہ‘ مَا ھٰذَا؟ قَالَ فَقَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ اَوْصَانِیْ اَنْ اُضَحِّیَ عَنْہُ فَاَنَا اُضَّحِی عَنْہُ ))۲
حنشؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علیؓ کو دو مینڈے قربان کرتے ہوئے دیکھا ‘ میں نے کہا: حضرت یہ کیا ؟ انھوں نے فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ و سلم نے وصیت کی تھی کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کروں چنانچہ اب یہ میں ا ن کی طرف سے کر رہا ہوں۔
قربانی کی فضیلت
((عَنْ عَائشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ مَا عَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ یَوْمَ النَّحْرِ اَحَبُّ اِلَی اﷲِ مِنْ اِھْرَاقِ الدَّمِ وَ اِنَّہ‘ لَیَاْتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقُرُوْنِھَا وَ اَشْعَارِھَا وَاَظْلَافِھَا وَ اِنَّ الدَّمَ مِنَ اﷲِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ بِالْاَرْضِ فَطِیِّبُوْا بِھَا نَفْسًا ))۳
یعنی حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا قربانی کے دن اﷲ کے ہاں خون بہانے سے کوئی عمل زیادہ محبوب نہیں۔ قربانی کے جانور کے سینگ ‘ بال کھر قیامت کے روز سب اجر وثواب بن جائیں گے۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اﷲ تعالیٰ کے ہاں بلند درجہ پا لیتا ہے۔ لہذا ایسی قربانیوں سے اپنے دل خوش کرو۔
دوسری حدیث میں ہے:
((قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اﷲِ مَا ھٰذَا الاضَاحِی؟ قَالَ سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرٰھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ قَالُوْا فَمَا لَنَا فِیْہِ یٰارَسُوْلَ اﷲِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ قَالُوْا فَالصُّوْفُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِنَ الصوفِ حَسَنَۃٌ ))۴
یعنی صحابہ کرام نے آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یہ قربانی کیا ہے ؟ فرمایا یہ تمھارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ نے عرض کی یاحضرت ! ہمیں اس میں کیا ملے گا۔ فرمایا جانور کے ہر بال کے عوض ایک نیکی ۔ سوال کیا گیا اگر اون ہو تو فرمایا اگر اون ہو تو اون کے ہر بال کے عوض بھی نیکی ملے گی۔
عشرہ ذی الحجہ میں حجامت
جب عید قربان کا چاند نظر آ جائے تو اس کے بعد حجامت وغیرہ نہیں بنوانا چاہیے‘ عید کے دن قربانی کے بعد حجامت بنوائے۔
((قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ مَنْ رَاَی ہِلاَلَ ذِی الْحَجَّۃِ وَ اَرَادَ اَنْ یُّضَحِّیَ فَلاَ یَاْخُذْ مِنْ شَعْرِہٖ وَ لاَ مِنْ اَظْفَارِہٖ ))۵
یعنی جو قربانی کا ارادہ رکھتا ہو‘ وہ چاند دیکھ کر نہ بال کٹوائے ‘ نہ ناخن ۔ جو قربانی کا ارادہ نہ رکھتا ہو اسے بھی چاہیے کہ حجامت نہ بنوائے تاکہ وہ بھی ثواب سے محروم نہ رہے۔
قربانی کا جانور دو دانت ہونا ضروری ہے
سوائے دنبہ کے جو گائے ‘ بکری ‘ اونٹ دو دانت نہ ہوں وہ قربانی میں ٹھیک نہیں۔
((عَنِ الْبَرَاء بِنْ عَازِبٍؓ قَالَ ضَحّٰی خَالٌ لِیْ یُقَالُ اَبُوْبُرْدَۃَ قَبْلَ الصَّلٰوۃِ فَقَالَ لَہ‘ رَسُوْلُ اﷲِ شَاتُکَ شَاۃُ لَحْمٍ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اِنَّ عِنْدِیْ داجنًا جَذَعَۃً مِّنَ الْمَعْزِ فَقَالَ اِذْبَحھٰا وَ لاَ تَصْلُعُ لِغَیْرِکَ ثُمَّ قَالَ مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلٰوۃِ فَاِنَّمَا یَذْبَحُ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلٰوۃِ فَقَدْ تَمَّ نُسْکُہ‘ وَ اَصَابَ سُنَّۃَ الْمُسْلِمِیْنَ))۶
حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ میرے خالو ابوبردہ نے نماز سے پہلے قربانی کر دی آپ نے فرمایا تیری بکری تو صرف گوشت کی ہوئی۔ اس نے کہا یارسول اﷲ ﷺمیرے پاس گھرکی پلی ہوئی چھ ماہ کی بکری ہے۔ آپ نے فرمایا اس کو ذبح کر دے ‘ لیکن یہ تیرے سوا کسی کو کافی نہ ہوگی۔ پھر آپ نے فرمایا جو نماز عید سے پہلے قربانی کر دیتا ہے اس نے تو اپنے جانور کو ذبح کیا ‘ قربانی نہیں کی۔ جو نماز عید کے بعد ذبح کرے اس کی قربانی پوری ہوئی اور مسلمانوں کا طریقہ بھی یہی ہے۔
دوسری حدیث میں ہے:
(( لاَ تَذْبَحُوْا اِلاَّ مُسِنَّۃً اِلاَّ اَنْ یَعُسَرَ عَلَیْکُمْ فَتَذْبَحُوْا جِذَعَۃً مِنَ الضَّانِ ))۷
یعنی قربانی دو دانت والے جانور کی کرو‘ مگر جب میسر نہ آے توچھ ماہ کا دنبہ ذبح کر سکتے ہیں۔ اگر گائے ‘ بکری دو دانت نہ ہوں تو قربانی نہیں کرنی چاہیے۔ کیوں کہ خطرہ ہے کہ قربانی قبول نہ ہو جیسے کہ عیوب والی قبول نہ ہو۔
قربانی کا جانور بے عیب ہونا چاہیے
جانور جتنا پلا ہوا ہو اور پیارا ہوگا اتنا ہی ثواب زیادہ ہوگا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا قربانی کا جانور ایسا نہ ہو جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو‘ جس کا بھینگا پن واضح ہو‘ جس کا مرض نمایاں ہو اور جو اتنا کمزور ہو کہ ہڈیوں میں مغز نہ ہو۔
اونٹ اورگائے کی قربانی
اونٹ اور گائے کی قربانی میں سات حصے دار ہو سکتے ہیں۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ اونٹ میں دس آدمی بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ حصے دار نیک ہونے چاہئیں۔ بے نمازی کو حصہ دار نہ بنایا جائے کیوں کہ اس کی قربانی مشکوک ہے۔ اس طرح جس کی کمائی رشوت کی ہو یا سود کی ہو اس کو بھی حصہ دار نہ بنایا جائے۔ جو لوگ گائے میں سات حصے بنا کر عقیقہ کر لیتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں ۔ جو عیب تعیین کے بعد پیدا ہوجائے اس کا کوئی حرج نہیں۔
((عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ قَالَ اِشْتَرَیْتُ کَبَشًا اُضَحِّی بہ فعداالذِئبُ فاخذ اِلْیَتَہ‘ قَالَ فَسَئلْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ضَحِّ بِہٖ)) ۸
حضرت ابوسعید فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مینڈھا خریدا ‘ قربانی کے لیے‘ بھیڑیے نے حملہ کر کے اس کو پیچھے سے زخمی کر دیا ‘ میں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا قربانی کر دے‘ ایک قربانی ایک گھرکی طرف سے کافی ہے۔ خواہ گھر کے افراد کتنے ہی ہوں۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
((عَنْ عَطَاءِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ سَأَلْتُ اَبَا اَیُّوْبَ الْاَنْصَارِیَّ کَیْفَ کَانَتِ الضَّحَایَا فِیْکُمْ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اﷲِ قَالَ کَانَ الرَّجُلُ فِیْ عَھْدِ النَّبِیِّ یُضَحِّیْ بِالشَّاۃِ عَنْہُ وَ عَنْ اَھْلِ بَیْتِہٖ فَیَاْکُلُوْنَ وَ یُطْعِمُوْنَ حَتّٰی تَبَاھَی النَّاسُ فَصَارَکَمَا تَرَی )) ۹
حضرت عطاء نے ابوایوب سے پوچھا کہ آنحضور ﷺ کے عہد میں قربانیوں کا کیا حال تھا؟ انھوں نے جواب دیا کہ عہد نبوی میں ایک آدمی ایک بکری اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی دیتا تھا۔۔۔ کبھی کھاتے اور کبھی اوروں کو کھلاتے۔ یہاں تک کہ فخرو مباہات شروع ہو گیا‘ جیسے تم دیکھ رہے ہو۔
(( عَنْ اَبِیْ سَلْمَۃَ عَنْ عَائشَۃَ وَ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ کَانَ اِذَا اَرَادَ اَنْ یُّضَحِّیَ اِشْتَرٰی کَبَشَیْنِ عَظِیْمَیْنِ سَمِیْنَیْنِ اَقْرَنَیْنِ اَمْلَحَیْنِ مَوْجُوْءَیْنِ فَذَبَحَ اَحَدَھُمَا عَنْ اُمَّتِہٖ لِمَنْ شَھِدَ لِلّٰہِ بِالتَّوْحِیْدِ وَ شَھِدَ لَہ‘ بِالْبَلاَغِ وَ ذَبَحَ الْاٰخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَّ عَنْ اٰلِ مُحَمَّدٍ ))۱۰
جب حضور قربانی کا ارادہ فرماتے تو بڑے مینڈے خریدتے جو کہ موٹے سینگوں والے عمدہ رنگ والے اور خصی ہوتے۔ ایک کو اہل توحید کی طرف سے ذبح کرتے اور دوسرے کو اپنی آل کی طرف سے ۔
ذبح کا طریقہ
جانور کو ذبح کرتے وقت قبلہ رو لٹانا چاہیے ۔ بہتر ہے کہ قربانی کرنے والا اپنے ہاتھ سے ذبح کرے۔ ذبح کرتے وقت چھری کو خوب تیز کرے۔ ایک جانور کو دوسرے کے پاس ذبح نہیں کرنا چاہیے۔ ذبح کرتے وقت ایک قدم اس کے پہلو پر رکھے اور وَجَّھْتُ وَجْہِیَ پڑھے۔ اور کچھ نہیں کم از کم بِسْمِ اﷲِ وَاﷲُ اَکْبَرُ پڑھے۔ دعا بھی کرے۔ اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ فَلاَنٍ یااﷲ اس کو فلاں کی جانب سے قبول فرما۔
ایام قربانی
ایام تشریق ایام قربانی ہیں۔ یعنی دسویں سے لے کر تیرھویں کی عصر تک درست ہے۔ ان دنوں میں روزہ رکھنا منع ہے۔ آنحضرت نے فرمایا:
(( ھٰذَہِ الْاَ یَّامُ اَکْلٍ وَّشُرْبٍ)) ۱۱
یہ دن کھانے اور پینے کے ہیں۔
قربانی کا گوشت تقسیم بھی کیا جا سکتا ہے اور حسب ضرورت رکھا بھی جا سکتا ہے۔ کوئی پابندی نہیں۔ ہاں اگر تنگی ہو تو پھر گوشت تقسیم کرنا چاہیے۔ تاکہ سارے مسلمان خوشی میں شریک ہو سکیں۔
تکبیرات
اگر تکبیریں ذی الحج کا چاند دیکھ کرشروع کر دی جائیں تو بھی ٹھیک ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ نویں تاریخ کی نما ز صبح سے شروع کر سکتا ہے اور تیرھویں کی عصر تک جب موقع ملے باآواز بلند تکبیریں کہنی چاہئیں۔ خاص طور پر نمازوں کے بعد اور عید پڑھنے جائیں تو بھی آتے جاتے بلند آواز سے تکبیریں پڑھیں۔ عید گاہ کو جائیں تو ایک راستے سے اور آئیں تو دوسرے راستے ۔ عید کے لیے عورتوں کا ساتھ لے کر جانا ضروری ہے۔ چنانچہ بخاری مسلم کی حدیث ہے
(( عَنْ اُمِّ عَطْیَۃَ قَالَ اَمَرَنَا اَنْ نَخْرُجَ الْمَحِیْضَ یَوْمَ الْعِیْدَیْنِ وَ ذَوَاتِ الْخُدُوْرِ وَیَشْھَدْنَ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَدَعْوَتَھُمْ وَ تَعْتَزِلُ الْحُیَّضُ عَنْ مُصَلاَّھُنَّ قَالَتْ اِمْرَاۃٌ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اِحْدَانَا لَیْسَ لَھَا جِلْبَابٌ قَالَ لِتُلْبِسَھَا صَاحِبَتُھَا مِنْ جِلْبَابِھَا)) ۱۲
حضرت ام عطیہؓ بیان کرتی ہیں کہ ہمیں یہ حکم تھا کہ عیدین کے دن عیدگاہ میں حائضہ اور نوجوان لڑکیوں تک کو نکالیں تاکہ وہ بھی مسلمانوں کی جماعت اور عبادات میں شامل ہو سکیں اور نماز کے وقت حائضہ الگ ہو جائیں۔ کسی عورت نے دریافت کیااگر کسی کے پاس چادر نہ ہو تو فرمایا اس کی بہن سہیلی اس کو چادر دے۔
عیدقربان میں نماز سے پہلے کچھ نہ کھائے‘ عید پڑھ کر قربانی کا گوشت کھائے۔
نما ز عید کی تکبیریں
((عَنْ کَثِیْرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ کَبَّرَ فِی الْعِیْدَیْنِ فِی الْاُولٰی سَبْعًا قَبْلَ الْقِرْأ ۃِ وَ فِی الْاٰخِرَۃِ خَمْسَا قَبْلَ الُقِرْأۃِ قَالَ التِّرْمَذِیُّ ھُوَ اَحْسَنُ شَیْءٍ رُوِیَ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ )) ۱۳
یعنی رسول کریمؐ نے پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات تکبیریں کہیں اور دوسری رکعت میں قرأۃ سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔ امام ترمذی اور امام بخاری کہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں اس حدیث سے بہتر کوئی حدیث نہیں۔ لہذا یہی طریقہ صحیح ہے ۔ اختلاف ضرور ہے لیکن بہتر پر عمل ہونا چاہیے۔ بڑے بڑے صحابہؓ کا عمل اسی طریقے پر ہے۔ پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری میں پانچ تکبیریں تحریمہ کے علاوہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱ ( ابن ماجۃ : ابواب الاضاحی ‘ باب الاضاحی و اجبۃ ام لا؟ ` رقم 3122: ۔۔ مسند احمد: 321/2 عن ابی ہریرۃ ‘ رقم 8074:)
۲ ( مشکوٰۃ : کتاب الصلوٰۃ‘ باب فی الاضحیۃ ‘رقم 1641: ۔۔ جامع ترمذی : ابواب الاضاحی ‘ باب ما جاء فی الاضحیۃ عن المیت‘ رقم 1495:۔۔ ابوداؤد : کتاب الضحایا ‘ باب الاضحیۃ عن المیت‘ رقم (2890:
۳( ترمذی : ابواب الاضاحی ‘ باب ما جاء فی فضل الاضحیۃ ‘ رقم 1493: ۔۔ ابن ماجۃ ابواب الاضاحی ‘ باب ثواب الاضحیۃ ‘ رقم 3126:)
۴ ( مشکٰوۃ : کتاب الصلٰوۃ ‘ باب فی الاضحیۃ‘ 464/1 ‘رقم 1468:۔۔ ابن ماجۃ : ابواب الاضاحی ‘ باب ثواب الاضحیۃ ‘ رقم 3126:)
۵(مسلم‘ کتاب الاضاحی باب نھی من دخل علیہ عشرۃ ذی الحجۃ و ھو یرید التضحیۃ ان یاخذ من شعرہ و اظفارہ شیئا‘ رقم 39 ۔۔نسائی :کتاب الضحایا ‘ باب من اراد ان یضحی فلا یاخذ شعرہ‘ رقم 4366:۔۔۔ابن ماجۃ: ابواب الاضاحی ‘ باب من اراد ان یضحی فلا یاخذ من شعرہ ‘ رقم 3150:)
۶ ( مسلم : کتاب الاضاحی‘ رقم: 4 ۔۔۔ ابوداؤد:کتاب الضحایا ‘ باب ما یجوز فی الضحایا من السن ‘ رقم 4400۔۔۔ ابن ماجۃ : ابواب الاضاحی ‘ باب النہی عن ذبح الاضحیۃ قبل الصلوٰۃ ‘ رقم 3152:)
۷( مسلم‘ کتاب الاضاحی‘ باب سنن الاضحیۃ ‘ رقم 13:۔۔ ابن ماجۃ: ابواب الاضاحی‘ رقم 3141:‘ باب ما یجزی من الاضاحی ۔۔ نسائی: کتاب الضحایا ‘ باب المسنۃ والجذعۃ رقم 4383:۔۔۔ ابی داؤد: کتاب الضحایا‘ باب مایجوز فی الضحایا من السن ‘ رقم (2797:
۸ ( مسند احمد: 32/3 رقم 10881 ‘ ابن ماجہ ‘ ابواب الاضاحی‘ باب من اشتری أضحیۃ صحیحۃ فاصابھا عندہ شیء ‘ رقم 3146:)
۹ ( ابن ماجہ : ابواب الاضاحی ‘ باب من ضحی بشاۃ عن اھلہ‘ رقم 3147: ۔۔ ترمذی : ابواب الاضاحی‘ باب ما جاء ان الشاۃ الواحدۃ تجزی عن اھل البیت ‘ رقم 1505:)
۱۰ ( ابن ماجۃ : ابواب الاضاحی ‘ باب الاضاحی رسول اﷲ رقم 3122:)
۱۱ (ابن ماجۃ : کتاب الصیام ‘ باب ما جاء فی النھی عن صیام التشریق‘ رقم 1720:۔۔ جامع الترمذی : کتاب الصوم ‘ باب ما جاء فی کراھیۃ صوم ایام التشریق ‘ رقم 773 ۔۔۔ ابوداؤد : کتاب الصیام ‘ باب صیام ایام التشریق ‘رقم 2418)
۱۲(ترمذی: کتاب الصلٰوۃ‘ باب فی خروج النساء یوم العیدین ‘ رقم 539۔۔۔ بخاری: کتاب العیدین ‘ باب خروج النساء والحیض الی المصلی ‘رقم 974۔۔۔ نسائی: کتاب صلوۃ العیدین ‘ باب اعتزال الحیض مصلی الناس ‘ رقم 1560:)
۱۳ (ابوداؤد: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب بالقرأۃ فی الجمعۃ ‘ رقم 1122 و باب التکبیر فی العیدین رقم 1149 ۔۔۔ جامع الترمذی : ابواب العیدین‘ باب ما جاء فی القرأۃ فی العیدین‘ رقم 533 وباب ما جاء فی التکبیر فی العیدین ‘ رقم 536:)
*****