بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
حرف اول
یہ رسالہ افغانی صاحب اور نعمانی صاحب کے رسالہ ’’ مسئلہ رفع الیدین اور اہل حدیث ‘‘ کا جواب ہے۔ اہل حدیث اور حنفی کا اختلاف کوئی وقتی یا فروعی اختلاف نہیں بلکہ بنیادی اختلاف ہے۔ اور یہ اس وقت سے چلا آ رہا ہے جب سے حنفیت نے موجودہ تقلیدی جمود کی صورت اختیار کی ہے۔ احناف کو جو بغض اہل حدیث سے ہے وہ کسی اور سے نہیں۔ باقی سارے فرقے چونکہ تقلید میں ان کے ہمنوا ہیں اس لیے ان کی ملی بھگت ہو جاتی ہے لیکن اہل حدیث سے جو فرقہ بندی کے سخت خلاف ہیں ان کا نبھاؤ بہت مشکل ہے۔ فرقہ بندی کی اصل روح تقلید ہے ۔ فرقہ بندی سے جو اسلام کو نقصان پہنچا ہے اس کی تمام تر ذمہ داری تقلید اور اہل تقلید پر عائد ہوتی ہے۔ حنفی مذہب تقلید کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل حدیث کی سیدھی سادھی قرآن و حدیث کی تبلیغ کو حنفی برداشت نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ اس سے اس کی تقلید حرام ہوتی ہے حنفی علما نے جب دیکھا کہ اہل حدیث کی تبلیغ تو گھر کرتی جا رہی ہے تو وہ بوکھلا گئے۔ بعض نے یہاں تک کہنا شروع کر دیا کہ یہ غیر مقلد ہیں‘ یہ ایک نیا فرقہ ہے۔ یہ منسوخ حدیثوں پر عمل کرتے ہیں۔ چنانچہ رفع الیدین شروع اسلام میں تھی پھر منسوخ ہو گئی اذان ان کی غلط ہے ‘ آمین اور الحمد کے مسئلے ان کے غلط ہیں‘ الغرض اہل حدیث کے خلاف جو کہہ سکتے تھے کہا۔ ہمیں اس بات پر افسوس نہیں کہ حنفی علما ہمارے خلاف کیا کہتے ہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ جب ہم پوچھتے ہیں تو پھر بولتے نہیں۔ پھر چھپتے ہیں۔ اوچھے ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ نکلواؤ عبداﷲ کو ساری شرارتیں یہ کرتا ہے۔ نعرے لگاتے ہیں‘ سکیمیں تیار کرتے ہیں۔ اب کوئی پوچھے قرآن و حدیث کی بات سنانا تو شرارت ہو جائے قرآن و حدیث کے خلاف مسائل بیان کرنا‘دین کو بگاڑنا اور اقوال الناس اور آرائے رجال پر مذہب تعمیر کرنا شرارت نہ ہو۔ اس کے علاوہ سمجھ میں نہیں آتا کہ حنفی حضرات پروفیسر عبدﷲ پر دوڑ کر کیوں پڑتے ہیں‘ کیا اس وجہ سے کہ وہ عالم بڑا ہے یا اس وجہ سے کہ وہ ملازم آدمی ہے اور اس سے اپنی شکست کا انتقام باآسانی لیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ وہ بالکل نوآموز ہے۔ ہمارے سامنے پڑھا ہے اور وہ بھی گزارے کے لائق‘ نہ عالم نہ فاضل نہ تجربہ کار ۔ شیخ التفسیر وہ نہیں‘ شیخ الحدیث و ہ نہیں۔ مفتی وہ نہیں‘ معمولی استعداد کا سکولوں ‘ کالجوں میں پڑھنے پڑھانے والا آدمی ہے۔ اس میں کیا جرآت اور اسے کیا ضرورت کہ افغانی اور نعمانی صاحبان جیسے پہاڑوں سے ٹکرائے۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ یہ کیا تمھاری صداقت کا ثبوت ہے جو تم جواب تو نہیں دے سکتے اور’’ پکڑلو ‘ نکال دو‘‘ کی تیاریاں شروع کر دیتے ہو۔ انسان جب اصل موضوع سے ہٹ کر کوئی کارروائی کرتا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ اب اس کے پلے کچھ نہیں جو وہ اس بات پر اتر آیا ہے۔ اکثریت تمھاری ‘ زور تمھارا۔ اپنے مذہب کو اگر سچا ہے تو دلائل سے بچاؤ نہ کہ (وَانْصُرُوٓا اٰلِھَتَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ فَاعِلِیْنَ )[21:الانبیاء:68]کہہ کر انتقامی کارروائیوں پر اتر آؤ۔ اس سے عوام پر کوئی اچھا اثر نہیں پڑتا۔ بلکہ اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ اہل حدیث سچے ہیں اور یہ جھوٹے ۔ جبھی یہ اوچھے ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ افغانی صاحب والا اشتہار کیا نکلا؟ سارے حنفیوں میں کھلبلی مچ گئی ‘ حالانکہ اس میں کوئی قابل اعتراض یا دل آزاری کی بات نہ تھی۔ ادھر محمد معاذ خط لکھ رہا ہے کہ ہم یوں کر دیں گے ‘ ادھر سے مولوی لطافت الرحمٰن ‘ کبھی سلیم دھمکی دے رہا ہے اور کبھی رشید کہ ایسا ہو جائے گا۔
اﷲ کے بندو! اگر طاقت ہے تو جواب دو۔ نہیں تو چپ رہو۔ ان حرکتوں سے حق نہیں دبا کرتا۔ اﷲ کے دین خالص قرآن و حدیث کی تبلیغ ہوتی ہے ‘ ہونے دو۔ تمھارا بھی بھلا ہوگا ‘ ہمارا بھی ۔ ہم کوئی امام ابوحنیفہؒ صاحب کے مخالف تو نہیں‘ جو آپ کو تکلیف ہو۔ وہ آپ سے زیادہ ہمارے قریب ہیں۔ اگر شبہ ہو تو مقابلہ کر کے دیکھ لو۔
مخالفت تو غلط مذہب کی ہوتی ہے اور وہ ہر مسلمان کو کرنی چاہیے ۔ ذاتیات پر آنا اور لڑنا جھگڑنا ٹھیک نہیں۔ ہماری جو بات قرآن وحدیث کے خلاف ہو اس کو غلط ثابت کرو ہم چھوڑنے کے لیے تیار ہیں ۔ جو تمھاری غلطی ہو‘ اس کو غلط مانو اور چھوڑ دو ۔ بلکہ ہم تو اخلاص کے ساتھ آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ چھوڑیے اس فرقہ بندی کو آئیے قرآن و حدیث پر اتحاد کر لیں۔ امام ابوحنیفہ صاحب نے کہاں کہا تھا کہ میرے نام پر مذہب بنا کر حنفی بن جانا۔ ہم اس فالتو اور غیر ضروری چیز کو پھوٹ کا سبب کیوں بنائیں۔
کہا ابوحنیفہؒ نے کب یہ بھلا
کہ تقلید میری کرو تم سدا
کہی بات ایسی انھوں نے نہیں
نہ ملنی ہے ان کی کتب میں کہیں
اگر ہم آپ کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کے بعد کسی اور کے نام پر دعوت دیں تو آپ بڑی خوشی سے روکیں گے ‘ لیکن جب آپ کسی کانام لے کر دین میں پھوٹ ڈالیں تو ہم کیوں نہ ٹوکیں۔؟
پہلے تو افغانی صاحب نے اپنے رسالہ میں رفع الیدین ‘ آمین‘ اور الحمد شریف پر تحقیق کے دریا بہا دیے۔ جب پوچھا کہ حضرت ثبوت۔۔! تو چپ۔ فرمانے لگے میری قیمت پر اہل حدیث کے قادر بخش کی شہرت کیوں ہو؟ اگر میں نے اہل حدیث کو جواب دیا تو اہل حدیث کی شہرت ہو جائے گی۔ کوئی پوچھے خاں صاحب جب فتح ہی آپ کی ہوگی ‘ فاتح اہل حدیث آپ کا خطاب ہوگا تو شہرت اہل حدیث کی کیسے ہو جائے گی۔ وہ تو آپ کے ایک ہی وار سے مر جائیں گے۔ اس لیے جواب ضرور دیں۔ لیکن پھر بھی خاں صاحب کو جرأت نہ ہوئی۔ نعمانی صاحب کو اپنے ساتھ ملایا۔ ان سے کہا کہ چل بیٹا چڑھ سولی۔ رام بھلی کرے گا۔ تو ہی جواب لکھ۔ ہماری ساری جمعیت احناف تیری پشت پر ہے۔ نعمانی صاحب نے بادل نخواستہ ہاں تو کر دی‘ لیکن ڈرتے رہے۔ آخر کسی نے کہا‘ ڈرتے کیوں ہو ؟ نام بدل لو‘ جو پڑے گی اس نام پر پڑے گی۔ آپ تو بچے رہیں گے۔ چنانچہ انھوں نے اپنا نام بدل کر محمد بن ابی عائشہ رکھا۔ اور سب کی مدد سے یہ رسالہ ’’ر فع الیدین اور اہل حدیث‘‘ لکھا۔ا ب اس رسالے میں کیا لکھا ہے۔ یہ تو ان کا دل جانتا ہے یا افغانی صاحب کا ۔ بہرحال علمائے احناف کی طرف سے اتنا جواب ہے غنیمت۔! اس سے زائد وہ بے چارے کر بھی کیا سکتے تھے۔ کوئی کیسا ہی چالاک کیوں نہ ہو‘ سچ کو جھوٹ کر دکھانا‘ جھوٹ کو سچ بنا دینا ‘ یہ کسی کے بس کا کام نہیں۔ قلب ماہیت تو اﷲ ہی کر سکتا ہے ویسے نعمانی صاحب نے کام بڑا کیا۔ احناف کی وکالت کا حق ادا کر دیا۔ اگرچہ ہمارے اعتبار سے ان کی یہ کوشش طفلانہ حرکت سے زیادہ نہیں۔ نہ اپنے دعویٰ کو ثابت کر سکے‘ نہ ہمارے دعویٰ کو توڑ سکے۔ الٹے رکوع اور سجدے دونوں کی رفع الیدین کا قائل ہونا پڑا۔ بچوں کی طرح غلطیاں اس کے علاوہ اور کیں۔
اب یہ رسالہ قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ان کو چاہیے کہ احناف کے رسالے کو سامنے رکھ کر اس کا مطالعہ کریں‘ تاکہ اندازہ کر سکیں کہ سچ کدھر ہے اور جھوٹ کدھر۔ مسئلہ زیر بحث یہ تھا کہ رفع الیدین منسوخ یا نہیں۔ چونکہ افغانی صاحب نے دعویٰ کیا تھا کہ رفع الیدین منسوخ ہے ۔ ان کا فرض تھا کہ وہ یا تو اسے کسی صحیح حدیث سے ثابت کرتے ورنہ صاف اقرار کرتے کہ رفع الیدین منسوخ نہیں ‘ ہماری غلطی ہے۔
برخوردار محمد معاذ کی زبانی معلوم ہوا کہ افغانی صاحب اب نسخ سے انکار کرتے ہیں۔ ہمیں افغانی صاحب سے کوئی ذاتی عداوت نہیں اور نہ ان کا اور ہمارا کوئی ذاتی جھگڑا یا اختلاف ہے تو مذہب کا ہے۔ جھگڑا تو حق و باطل کا ہے۔ اگر ان کی اب یہ تحقیق ہو گئی ہے کہ رفع الیدین منسوخ نہیں تواس امر کا اعلان کر دیں‘ بات ختم ہو جائے گی۔
اصل میں بڑھاپے میں اﷲ تعالیٰ نے ایک عجیب ابتلا میں ڈال دیا ہے کہ وہ سنت رسول ؐ کو دیکھتے ہیں‘ یا اپنی عزت کو ۔ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں یا آخرت کو دنیا پر۔ افغانی صاحب نے بڑا تکلف کیا جو یہ بتیس صفحے کا رسالہ لکھوایا۔ جواب تو صرف ’’ اتنا‘‘ سا کافی تھا کہ رفع الیدین منسوخ ہے۔ اور یہ اسکی دلیل ہے۔ یا رفع الیدین منسوخ نہیں۔ اب یہ رسالہ بتیس صفحے کا لکھا ‘ لیکن نسخ کی ایک حدیث بھی نہیں لکھی۔ پھر ادھر ادھرکی غیر ضروری باتوں کی بھرمار کی۔ تطویل لاطائل کی۔ جس کی وجہ سے ہمیں بھی اپنے رسالے کو طول دینا پڑا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ قارئین کرام اکتائیں گے نہیں۔ بلکہ دلچسپی سے پڑھیں گے۔ آخر دین کا مسئلہ ہے ‘ حق اور باطل کامعرکہ ہے۔ اصل جھگڑا رفع الیدین کا نہیں۔ اصل جھگڑا حنفیت اور اہل حدیثیت کا ہے۔ رفع الیدین اس جھگڑے میں ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے افغانی صاحب نے اس مسئلہ کو لیا ہے۔
آپ کو شکایت ہے کہ مسجد اہل حدیث بہاول پور کا خطیب مسلک احناف پر تنقید کرتا ہے میں پوچھتا ہوں کیا مسلک احناف تنقید سے بالا تر ہے۔ جو اس پر تنقید کرنا جرم ہے۔ تنقید سے بالا تر تو صرف حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات ہے ‘ ان پر یا ان کے مسلک پر تو تنقید کرنا جرم ہے۔
مسلک احناف یا کسی اور مسلک پر جو اس سے ٹکرائے‘ تنقید کرنا جرم نہیں۔ اب جو جرم نہیں اس کو آپ جرم کہتے ہیں۔ اور جو جرم ہے اس کا خود ارتکاب کرتے ہیں۔ آپ پر کتنا افسوس ہے کہ ہم پر تو اعتراض کرتے ہیں مسلک احناف پر تنقید کرنے کا اور خود مسلک محمدی کو مٹائے چلے جاتے ہیں۔ جب آپ مسلک محمدی کو مٹاتے ہوئے نہیں شرماتے ‘ نہیں ڈرتے تو ہم کسی غلط مسلک پر تنقید کرتے ہوئے کیوں ڈریں۔ ابراہیم علیہ السلام نے باطل کے پجاریوں سے یہی تو کہا تھا :
( وَکَیْفَ اَخَافُ مَا اَشْرَکْتُمْ وَ لاَ تَخَافُوْنَ اَنَّکُمْ اَشْرَکْتُمْ باللہ مَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا )[6:الانعام:81]
’’جب تم حق سے نہیں ڈرتے تومیں باطل سے کیوں ڈروں۔‘‘
آپ نے قرآنی آیت ( اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ )[2:البقرۃ:44]لکھ کر ہم پر فٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ یہ ان ہی لوگوں کے لیے ہے جو آپ کی طرح حق کو چھپاتے تھے۔ مسئلے خود بناتے تھے اور لگاتے تھے اﷲ کے ذمے۔ آپ آیت کا الزام ہمیں دیتے ہیں‘ حالانکہ یہ فٹ آپ پر آتی ہے۔ اپنے لیے تو آپ چاہتے ہیں کہ ہمارے غلط مسئلوں پر بھی کوئی تنقید نہ کرے اور خود حق کو مٹانے کے درپے ہیں۔ آپ مقلد ہی تھے جو آپ کو یہ آیت نظر آئی اورا س سے پہلی آیت جس میں اصل جرم بیان کیا گیا ہے ‘ نظر نہ آئی۔ اگر نظر آجاتی تو شاید شرم بھی آ جاتی۔ ہم پر چسپاں کرنے کی بجائے خود کو دیکھ لیتے۔
(وَلاَ تَلْبِسُوْا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ )[2:البقرۃ:42]
آیت یہی تو کہتی ہے کہ خود تو تم حق کو چھپاتے ہو اور باطل سے ملاتے ہو‘ یعنی اتنے بڑے بڑے جرم کرتے ہو ‘ اور دوسروں کو نیکی کی تلقین کرتے ہو۔ اب آپ سوچیے کہ یہ جرم کون کرتا ہے۔ کتنے شریعت محمدی کے مسئلے ہیں جن پر آپ نے مٹی ڈالی ہے‘ کتنے مسئلے ہیں جو آپ لوگوں نے خود بناکر کھوٹے سکوں کی طرح کھرے سکوں کے ساتھ ملا کر چلائے ہیں۔ آپ اپنی پرائیویٹ مجلسوں میں صاف اقرار کرتے ہیں کہ رفع الیدین منسوخ نہیں‘ لیکن پبلک میں کہتے ہیں منسوخ ہے۔ یہ کتمان حق نہیں تو اور کیا ہے ؟ اس کے علاوہ آپ کی یہ تلبیس بھی کوئی کم تلبیس نہیں جو حنفی مذہب کو عین اسلام بنائے پھرتے ہیں۔ اسلام کی طرح سے معصوم ظاہر کرتے ہیں۔ تنقید سے بالا قرار دیتے ہیں اور جو کوئی اس پر تنقید کرتا ہے اس کو مجرم اور لائق گردن زدنی گردانتے ہیں۔
آپ نے یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ اہل حدیث کا خطیب احناف کے خلاف تلقین کرتا رہتا ہے۔ میں کہتا ہوں جناب! اہل حدیث کا خطیب مذہب احناف کے خلاف ہی تلقین کرتا ہے ‘ مذہب اسلام کے خلاف وہ کچھ نہیں کہتا۔ جرم تو عنداﷲ اسلام کے خلاف بولنا ہے۔ نہ کہ کسی اور مذہب کے خلاف۔ اگر مذہب احناف اسلام ہی ہے تو آپ مذہب اسلام کو مذہب احناف کیوں کہتے ہیں؟ سیدھا مذہب اسلام یا مذہب محمدی کیوں نہیں کہتے۔ آپ نے جو اسلام یا مذہب محمدی کو چھوڑ کر مذہب احناف نام رکھا ہے تو کچھ تو دال میں کالا ہے۔ آپ کو دیکھ کر دوسروں نے بھی اپنے اپنے مذہب بنا لیے ہیں۔ مذہب شافعیہ‘ مذہب مالکیہ‘ مذہب حنبلیہ ۔ اگر وہ بھی آپ کی طرح اپنے اپنے مذاہب کو عین اسلام کہیں اور پھر آپ چاروںآپس میں لڑیں بھی تو پھر اسلام کس کے مذہب کو کہیں گے۔ اسی لیے قرآن نے یہ اعلان کیا ہے۔ (وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلاَمِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ )[3:آل عمران:85]اسلام کے علاوہ ہر مذہب مردود ہے ‘ کوئی بھی مقبول نہیں۔ اسلام صرف محمد ﷺ کے مذہب کو کہیں گے۔ مذہب احناف یا کسی اور کے مذہب کو اسلام نہیں کہہ سکتے۔ جناب اب یا تو یہ کہیں کہ مذہب احناف عین مذہب اسلام ہے ‘ کوئی فرق نہیں۔ پھر خطیب اہل حدیث کو مجرم قرار دیں‘ یا پھر تسلیم کریں کہ عین تو نہیں کچھ فرق ہے۔ اگر کچھ بھی فرق ہے ‘ کم یا زیادہ تو خالص اور پورا اسلام تو نہ ہوا۔ اب جو پورا اسلام نہ ہوا تو ادھورا ہوا۔ پھر ادھورے کے خلاف تنقید کرنا کیسے جرم ہوگا۔ اگر مذہب احناف کو عین مذہب اسلام کہیں گے تو پھر آپ سے اختلا ف رکھنے والے فرقے شافعی‘ مالکی‘ حنبلی‘ وغیرہ کہاں جائیں گے۔ ان کا کیا مذہب ہوگا؟ اگر آ پ کہیں کہ ان کا مذہب بھی عین اسلام ہے تو اختلاف کی صورت میں مذہب احناف عین اسلام کیسے ہوا؟ اب یا تو کل اسلام کے دعوے دار بن کرباقی فرقوں کو اسلام سے محروم کر دیں یا حصہ رسدی اسلام لے کر اقرار کریں کہ کچھ اسلام ہمارے پاس ہے اور کچھ اوروں کے پاس ہے۔ کچھ مسئلے ہمارے ٹھیک ہیں اور کچھ اوروں کے۔ اگر آپ برا نہ مانیں تو ہم اس کو یوں سمجھ سکتے ہیں :
حنفیت = کچھ اسلام + خانہ ساز مذہب یا حنفی مذہب
= (1/2یا2/3یا3/4)اسلام + (1/2یا1/3یا (1/4
خانہ ساز مذہب بہرکیف ماننا پڑے گا۔ کہ حنفی مذہب خالص اسلام نہیں۔ اس میں بھرتی ضرور ہے۔ اگر آپ کو اب بھی اصرار ہو کہ نہیں‘ ہمارا مذہب احناف خالص اسلام ہے تو پھر بتائیے کہ مندرجہ ذیل مسائل کس مذہب کے ہیں؟ مذہب اسلام کے یا مذہب احناف کے؟
1—’’لَوْ رَعُفَ فَکَتَبَ الْفَاتِحَۃَ بِالدَّمِ عَلٰی جَبْھَتِہٖ وَ اَنْفِہٖ جَازَ لِلاِسْتَشْفَاءِ وَ بِالْبَوْلِ اَیْضًا ‘‘ ۱
’’ اگر نکسیرپھوٹتی ہو تو علاج کے لیے سورہ فاتحہ کو اپنی پیشانی اور ناک پر خون اور پیشاب کے ساتھ لکھنا جائز ہے ۔‘‘
2—امامت کے لیے اگر کئی امیدوار ہوں ‘ اور دیگر اوصاف مثلا علم‘ تقویٰ ‘ عمر وغیرہ میں برابر ہوں تو پھر امام وہ ہوگا :
’’ثُمَّ الْاَحْسَنُ زَوْجَۃٌ ثُمَّ الْاَکْبَرُ رَاْسَہ‘ وَالْاَصْغَرَ عُضْوًا ‘‘۲
’’جس کی بیوی سب سے زیادہ خوب صورت ہو ‘ پھر جس کا سر بڑا اور عضو یعنی آلہ تناسل چھوٹا ہو۔ ‘‘ یہ امامت کا معیار مذہب اسلام نے مقرر کیا ہے یا مذہب احناف نے؟
3–وَ بِالزِّنَا بِالْمُسْتَاجِرَۃِ ‘‘ ۳
’’ اور اجرت پر لی ہوئی عورت ہو تو اس سے زنا کرنے پر کوئی حد نہیں۔
جیسے دوسرے زانی کو رجم یا سو دُرّے کی سزا دی جائے گی اس کو نہیں دی جائے گی۔
4—کسی مرد کو پکڑ کر ڈرا دھمکا کر زبردستی طلاق لکھوائی جائے یا زبانی ہی لے لی جائے تو طلاق ہو جاتی ہے ‘ عورت آزاد ہو جاتی ہے ‘ پھر جو چاہے اس سے نکاح کر لے۔ ۴
5—اگر کوئی سلام کی جگہ قصداً گوز یا پاد مار دے‘ یا کوئی ایسی حرکت کرے جو نماز کے منافی ہو تو نماز پوری ہو جائے گی‘ لیکن اگر پاد خود بخود نکل جائے ‘ پیشاب نکل جائے تو پوری نہ ہوگی۔ ۵
مطلب یہ ہے کہ حنفی مذہب میں سلام کی جگہ پاد کام دے سکتا ہے۔
6—نماز میں مرد ہاتھ ناف کے نیچے باندھے اور عورت سینے پر‘ مرد رفع الیدین کانوں تک کرے اور عورتیں کاندھوں تک یہ فرق کس نے رکھا ہے ؟ مذہب احناف نے یا مذہب اسلام نے۔
نمونے کے لیے یہ پانچ چھ مسئلے پیش کیے جاتے ہیں‘ علما بھی غور کریں اور عوام بھی کہ یہ مسئلے مذہب اسلام کے ہیںیا صرف مذہب احناف کے؟ا س کے بعد فیصلہ کریں کہ مذہب حنفی کیا خالص اسلام ہے یا ملاوٹی۔ اگر ملاوٹی ہے اور یقیناًملاوٹی ہے تو اس کے خلاف تنقید کرنے پر اہل حدیث خطیب پر ناراضگی کیسی ؟آ پ کہتے ہیں کہ افغانی صاحب ہمیں درخور اعتنا نہیں سمجھتے ‘ میں کہتا ہوں ہمیں تو درخور اعتنا نہ سمجھیں‘ نہ ہم اس کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن مذہب حنفی کے حال پر رحم کریں اس کا دفاع کریں۔ آخر سب کچھ اسی کا کھاتے ہیں۔ ہاں اگر ان کا دل مانتا ہے کہ مذہب احناف کوئی مذہب اسلام تو ہے نہیں جو بچا ہو جس کا میں دفاع کروں تو مجھے ثواب ملے‘ پھر بڑی خوشی سے خاموش رہیں‘ لیکن لوگوں کو تو دھوکے میں نہ رکھیں۔ ان کو تو بتا دیں کہ بھائی حقیقت یہ ہے‘ اس لیے میں خاموش ہوں ۔ آپ کہتے ہیں کہ ہم حنفی عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ ارے بھئی!ہم گمراہ نہیں کرتے۔ ہم تو ان کو حنفیت سے نکال کر قرآن و حدیث کی طرف لاتے ہیں۔ ہم ان کو یہ صاف کہتے ہیں کہ حق کا کوئی جواب نہیں۔ تمھارے مولوی رفع الیدین کو منسوخ ثابت نہیں کر سکتے۔ خواہ مخواہ دھوکے میں نہ رہو۔سنت رسول ؐ کو نہ چھوڑو‘ اس کو چھوڑے رکھنے میں بڑا خطرہ ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے آپ حنفی مذہب کے خلاف عوام کو ورغلانا چھوڑ دیں پھر مولانا افغانی سے شکوہ کریں۔ میں پوچھتا ہوں کہ کس انصاف کا یہ تقاضا ہے کہ آپ سنت رسولؐ کو مٹائیں ا ور ہم خاموش رہیں۔ اﷲ کا انصاف تو یہ کہتا ہے کہ
( وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہ‘ مِنَ ﷲِ )[2:البقرۃ:140]
(وَلاَ تَکْتُمُوْا الشَّھَادَۃَ وَ مَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّہ‘ٓ اٰثِمٌ قَلْبُہ‘)[2:البقرۃ:283]
(اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْھُدٰی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِ اُولٰئکَ یَلْعَنُھُمُ ﷲُ وَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُوْنَ )[2:البقرۃ:159]
جو حق چھپائے وہ ظالم ہے‘ پاپی ہے‘ ملعون ہے۔ حق کو چھپانا جرم ہے۔ آپ کہتے ہیں حق کہنا جرم ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے۔ ہم کہتے ہیں رفع الیدین حضور ﷺ کی سنت متواترہ ہے‘ آپ اسے ورغلانا کہتے ہیں ۔ اگر حنفیت میں کچھ پول ہے تو اس کا کھولنا ورغلانا نہیں اور اگر حنفیت ٹھوس ہے تواس کے خلاف بولنا یقیناًورغلانا ہے۔ ہم اوپر ثابت کر چکے ہیں کہ حنفیت ٹھوس نہیں‘ اس میں ضرور کچھ پول ہے۔ اس کے خلاف ہم بولتے ہیں۔ ہم حنفیت کے صرف اس حصے کی مخالفت کرتے ہیں جو قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔ نہ ہم حق کو برا کہتے ہیں نہ کسی امام کو۔ آپ اس کو ورغلانا کہیں یا کچھ اور یہ آپ کی زبان ہے۔ ان مقلدوں پر تو افسوس یہ ہے کہ ان کے مولوی سنت رسول ؐ کو ایک ایک کرکے مٹاتے جائیں اور ان کو عبرت نہ آئے ۔ اگر مولوی سے کوئی پوچھ لے اجی!حضرت آپ یہ کیا ظلم کر رہے ہیں جو سنتوں پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں ۔ یہ کپڑوں سے باہر ہو جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ مقلد رسول ﷺ کو کماحقہ مان ہی نہیں سکتا۔آخر دو کی وفا داری کیسے ہو سکتی ہے ؟ اگر یہ ممکن ہوتا تو شرک بھی جائز ہوتا۔ بیوی کو بھی دو خاوندوں کی اجازت ہوتی۔ اس حنفیت کو سمجھانے کے لیے تو اﷲ نے فرمایا ہے :
(ضَرَبَ ﷲُ مَثَلاً رَّجُلاً فِیْہِ شُرَکَآءُ مُتَشَاکِسُوْنَ وَ رَجُلاً سَلَمًا لِّرَجُلٍ ط ھَلْ یَسْتَوِیَانِ مَثَلاً ) [39:الزمر:29]
ﷲ مشرک کی مثال بیان کرتا ہے۔ ایک شخص تو وہ ہے جس کے کئی آقا ہیں‘ کوئی کچھ حکم دیتا ہے‘ کوئی کچھ۔اور ایک اورشخص ہے جس کا آقا صرف ایک ہے۔ اس کو ایک ہی وفاداری کرنا ہوتی ہے۔ کیا ایسے دوشخص کبھی برابر ہو سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں‘ بالکل یہی مثال مقلد اور اہل حدیث کی ہے۔ اہل حدیث صرف ایک رسول ؐ کا وفادار ‘ رسولؐ کی خاطر ہر ایک کو ٹھکرانے کے لیے تیار۔ مقلد بے چارہ دو بیڑیوں میں سوار ۔ رسول ؐ کی مانیں تو حنفیت گئی ‘ حنفیت کی مانیں تو محمدیت گئی۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ دونوں کی بات ایک ہو۔ اگر یہ ممکن ہوتا تو قرآن میں جہاں یہ آیت ہے: ( وَ مَنْ یُّطْعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ ﷲَ ) [4:النساء:80]وہاں یہ بھی ہوتا۔مَنْ یُّطْعِ الْاِمَامَ فَقَدْ اَطَاعَ الرَّسُّوْلَیعنی امام کی وفاداری میں رسول ؐ کی وفاداری ہے۔ جب یہ قرآن میں نہیں تو یہ ممکن بھی نہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ مولانا افغانی صاحب نے ذرا سی بحث کی‘میں کہتاہوں کہ ذرا سی کیوں ؟ آخر کیا ڈر تھا جو ذرا سی کی۔ اگر حق تھا تو کھل کر کرتے۔ اگر باطل تھا تو زبان نہ کھولتے۔ کرتے بھی ہیں اور ڈرتے بھی ہیں اور پھر آپ کہتے ہیں کہ انھوں نے اذان میں ترجیع اور مسئلہ رفع الیدین پر روشنی ڈالی۔ پہلے کہتے ہیں ذرا سی بحث کی ‘ پھر کہتے ہیں روشنی ڈالی۔ اگر روشنی حقیقتًا روشنی تھی تو ذرا سی کیا معنی ۔ ؟ کیا حق کی روشنی بھی ذرا سی ڈالی جاتی ہے ؟ﷲ تو کہتا ہے( وَ مَا ھُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ)[81:التکویر:24]میرا رسولؐ حق کی روشنی ڈالنے والا۔ بخل نہیں کرتا۔خوب دل کھول کر روشنی ڈالتا ہے۔ وہ تو سورج ہے ‘ پتا نہیں یہ آپ کی روشنی کیسی ہے جو ذرا سی ڈالتے ہیں۔ اسلام کی تو یہ ہے نہیں۔ اگر اسلام کی ہوتی تو کبھی کبھار اور ذرا سی نہ ہوتی ۔ آپ کہتے ہیں احناف کے صبر کو دیکھیے کہ جمعیت اہل حدیث بہاول پور نے ہمارے خلاف رسالہ نکالا تو ہم نے اتنا لمبا صبر کیا ۔ آپ کے تفقہ فی الدین کے بھی کیا کہنے؟ کہ غلط بات پر چپ رہنے کو صبر کہتے ہیں۔ یہ مذہب اسلام کا مسئلہ ہے یا مذہب احناف کا؟ طاقت ہوتے ہوئے بھی باطل کے مقابلہ میں چپ رہنا صبر ہے ؟اگر یہ اسلام کا مسئلہ ہے تو نبی تو ہمیشہ اس کے خلاف چلتے رہے ہیں۔ وہ تو بس لگتے ۔ کبھی چپ نہیں رہے۔ اجی !جناب‘ اگر آپ سچے تھے اور آپ کے مخالف جھوٹے تو آپ کا یہ صبر ایمان کی کمزوری اور بے دینی کی دلیل تھا۔ اہل حق ایسا صبر نہیں کیا کرتے ۔ اور اگر آپ جھوٹے تھے اور آپ کے مخالف سچے تو آپ کا یہ صبر نہیں تھا‘ بلکہ احساس کم تری اور بزدلی تھا۔ اب بھی آپ نے جوجواب لکھا ہے وہ لوگوں کے عار دلانے پر ‘ اورصرف ان کا منہ بند کرنے کے لیے لکھا ہے۔ ورنہ آپ کبھی جواب نہ دیتے‘ ہمیشہ صبر ہی کرتے رہے۔ آپ کو تو اپنے کھوکھلا پن اور کمزوری کا پورا پتا ہے ۔ اگرچہ عوام بے چارے نہیں مانتے۔ آپ جو کہتے ہیں کہ آپ نے کئی سال صبر کیا۔ میں پوچھتا ہوں اگر آپ کا یہ صبر نیکی تھا تو اب صبر کو چھوڑ کر گناہ گار کیوں بنے؟ اب بھی صبر کرتے رہتے اور اگر یہ صبر نیکی نہیں تھا ‘ بلکہ بزدلی اور بے دینی تھا تو صاف کہیں کہ ہمیں لوگوں نے تنگ کر دیا ہے‘ وہ چپ نہیں رہنے دیتے۔ اس لیے ہم نے لوگوں کا منہ بند کر نے کے لیے اس صبر کو چھوڑا ہے۔ آپ نے مسئلہ تراویح نامی رسالہ کے مکالمہ پر اعتراض کیا ہے کہ ایسے جھوٹے مکالموں کا قرآن و سنت سے کیا جواز ؟ میں کہتا ہوں ایسے مکالموں کا جواز تو قران و سنت سے ہے۔ جواز تو آپ کے مذہب کے بیشتر مسائل کا نہیں جو خلاف عقل بھی ہیں ‘ اور خلاف قرآن و حدیث بھی وہ تو مکالمہ ہے ‘ ہر ایک جانتا ہے کہ یہ سمجھانے اورپڑھانے کا ایک طریقہ ہے۔ ایسے مکالموں میں مقصود واقعہ نہیں ہوتا کہ صدق اور کذب کا سوال پیدا ہو۔ نہ ہی ذہن ادھر جاتا ہے ‘ اس کی نظیر قرآن و سنت میں بکثرت موجود ہے۔ قرآنی تمثیلات اکثر و بیشتر اسی قبیل سے ہیں۔
( اِنَّ ھٰذَا اَخِیْ لَہ‘ تِسْعٌ وَّ تِسْعُوْنَ نَعْجَۃً وَّ لِیَ نَعْجَۃٌ وَّاحِدَۃٌ )[38:ص:23]
کیا یہ واقعی دو بھائی تھے؟ اور ان کا جھگڑا دنبیوں کا تھا۔ ابراہیم علیہ السلام نے بت خانے میں جو نقشہ بنایا تھا‘ جیسا کہ بت آپس میں لڑے ہیں‘ تو کیا یہ واقعہ تھا؟ یا صرف سمجھانے کے لیے تھا؟ استفتاء میں کیا ہوتا ہے؟ نام فرضی‘ مثال فرضی‘ طلاق کوئی دینے والا ہوتا ہے ‘ ملتی کسی کو ہے ‘ فرض کر لیتے ہیں ‘ سمجھانے کے لیے۔ زید نے ہند ہ کو طلاق دی۔ ہمیں تو مذہب احناف کے تقویٰ پر حیرت ہوتی ہے ۔ ہم افغانی صاحب کو ایک حدیث دکھانے پر انعام پیش کریں تو احناف کہیں کہ یہ جوا ہے ‘ سٹہ ہے‘ قمار بازی ہے۔ ہم مکالمہ لکھیں تو یہ کہیں کہ جھوٹ ہے ‘ جائز نہیں اور خود فتویٰ دینے پر آئیں تو حلال کو حرام کر ڈالیں اور حرام کو حلال۔
آپ اپنے جواز کے فتوے دیکھیے۔۔!
لَوْ رَعُفَ فَکَتَبَ الْفَاتِحَۃَ بِالدَّمِ عَلٰی جِبْھَتِہٖ وَ اَنْفِہٖ جَازَ لِلاِسْتَشْفَاءِ وَ بِالْبَوْلِ ایضاً ۶
دوسرے کی بیوی کو لینے کا جواز دیکھیے:
وَ طَلَاقُ الْمُکْرَہِ وَاقِعٌ ۷ کسی کومارپیٹ کر زبردستی طلاق لی جا سکتی ہے۔
بغیر نکاح کے عورت کو حلال کرنے کا فتویٰ :
وَ مَنْ اِدَّعَتْ عَلَیْہِ اِمْرَأۃٌ اِنَّہ‘ تَزَوَّجَھَا وَ اَقَامَتْ بِیِّنَۃً فَجَعَلَھَا الْقَاضِیُّ اِمْرَأتَہ‘ وَ لَمْ یَکُنْ تَزَوَّجَھَا وَسَعَھَا الْمَقَامَ مَعَہ‘ وَ اِنْ تَدْعُہٌ یُجَامِعَھَا ۸
’’اگرکوئی عورت یہ دعویٰ کرے کہ فلاں مرد سے میرا نکاح ہے حالانکہ نکاح وغیرہ کچھ نہیں ہوا تھا‘ وہ جھوٹی تھی ‘ لیکن قاضی نے فیصلہ اس کے حق میں دے دیا۔ اب وہ مرد اگر اس سے صحبت کرے تو جائز ہے۔‘‘
تقویٰ آتا بھی دیکھو اور جاتا بھی:۔
مَنْ مَسَّ اِمْرَ أَۃً بِشَھْوَۃٍ۹ کسی مرد نے کسی عورت کو شہوت سے ہاتھ لگا دیا ۔ اب اس عورت کی ماں اور بیٹی اس مرد پر حرام (قربان اس تقویٰ کے) لیکن اگر ہاتھ لگانے سے انزال ہو گیا یا اسی عورت سے فعل لواطت کر لیا یا اس سے ایسے زور سے کیا کہ اس کی اگلی اور پچھلی جگہ کو پھاڑ کر ایک کردیا تو حرمت ثابت نہ ہوئی ۔ نہ ماں حرام ‘ نہ بیٹی حرام۔ یعنی آپ کا سارا تقویٰ نکل گیا۔
آپ کہتے ہیں اہل حدیث کے لیے اس قسم کی افترا پردازی کیوں کر جائز ہے ؟ میں کہتا ہوں اہل حدیث کے لیے تو بالکل جائز نہیں کیوں کہ ان کو ضرورت نہیں‘ لیکن آپ کے لیے تو بہت ضروری ہے کیوں کہ آپ کو بڑے بڑے کام کرنے ہوتے ہیں۔ آخر حرام کو حلال کرنا ہوتا ہے اور حلال کو حرام کرنا بغیر افتراپردازی کے کیسے ہو سکتا ہے؟ آپ کہتے ہیں رسالہ تراویح کے مکالمہ میں کون حنفی جاہل تھا ؟ میں کہتا ہوں مقلد کوئی بھی ہو جاہل ہی ہوتا ہے۔ اگر جاہل نہ ہو تو تقلید کیوں کرے۔ تقلید ہے ہی جاہلوں کے لیے اور کرتا بھی جاہل ہی ہے۔ جو علم و عقل والا ہو وہ تقلید کیوں کرے ۔ اگر آپ کو یہ خیال ہے کہ اس مکالمے میں حنفیوں کی طرف سے جواب ٹھیک نہیں دیے گئے تو آپ خود جواب دے کر دیکھ لیں‘ آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ جاہل تھا یا عالم ۔! ویسے آپ کے علم و خرد کا نمونہ تو ہم نے اس رسالے میں دیکھ ہی لیا ہے۔ جانتے تو ہم پہلے بھی تھے کہ مقلد کوئی کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو جب وہ تقلیدی رنگ میں سامنے آتا ہے تو بالکل ایسے جیسے اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہو اس کے گلے میں رسہ ڈال کر کوئی گھسیٹے لیے جا رہا ہو۔ لیکن اس رسالے کے بعد تو یقین ہو گیا کہ حقیقتا مقلدکا حال تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ نہ وہ دیکھے اور نہ وہ سوچے۔ اب یہ افغانی اور نعمانی صاحبان حنفیت کے کتنے بڑے بڑے پہاڑ ہیں‘ لیکن وہ بھی جب مقلد بن جاتے ہیں تو ان میں اور ایک جاہل سے جاہل آدمی کی بات میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ یہ رسالہ اس کا بین ثبوت ہے۔
ایسے مکالموں کے لیے محل وقوع تلاش کرنا ‘ گواہ اور کاتب جمع کرنا‘ مقلد کے دماغ ہی کی اختراع ہے ۔ عقل والا آدمی ایسا سوچ نہیں سکتا۔ وہ جانتا ہوتا ہے کہ ایسے مکالمات واقعات نہیں ہوتے کہ ان میں جگہ اور حاضرین کی ضرورت ہو ‘ ان میں تو صرف دلائل کا تقابل ہوتا ہے۔ اشخاص کا مقابلہ نہیں ہوتا۔ وہ تو صرف مکالمہ تھا جس کی حنفی اور محمدی میں فرق بنانے کے لیے ضرورت تھی۔ اب آپ بتائیے آپ کا مذہب جو مسئلے بناتا ہے ان کا کیا موقع ہوتا ہے اور کیا ضرورت۔۔!۔۔۔ اور کیا ان میں صداقت اور واقعیت ہوتی ہے۔۔۔ مذہب حنفی کا چوتھا پایہ درمختار صفحہ 16 جلد 1میں یہ مسئلہ ہے‘ یعنی اگر کوئی اپنی شرم گاہ کو اپنی دبر یعنی مقعدمیں داخل کرے تو حنفیوں کا مذہب صحیح یہ ہے کہ غسل واجب نہیں ہوتا‘ جب تک کہ انزال نہ ہو۔۱۰اب آپ بتائیے کہ ایسا واقعہ کبھی ہوا تھا یا یہ صرف خیالی پرواز ہے ۔ اگر کبھی واقعہ ہوا تھا تو کس زمانے میں اور کس ملک میں۔ وہ شخص کون تھا؟ اس کا نام کیا تھا؟ ولدیت کیا تھی ‘ قوم اور پیشہ کیا تھا؟ مذہب اور مشرب کیا تھا؟ ایسے عجیب و غریب واقعہ کے گواہ کون کون تھے؟ یہ واقعہ کس سائل کو پیش آیا تھا؟ یا کسی حنفی مفتی کو؟
اگر یہ واقعہ پیش نہیں آیا تھا‘ بلکہ کسی فقیہ کی خیالی پرواز ہی ہے تو ان کانام بھی لکھیں۔ وہ تو بہت بڑے بزرگ ہوں گے۔ آخر انھوں نے ایسی اونچی بات کیسے سوچ لی کہ اپنا آلہ اپنی مقعد میں بھی داخل کیا جا سکتا ہے۔ وہ کتنے عالی دماغ فقیہ ہوں گے۔ حنفی مذہب میں ان کا کتنا اونچا مقام ہوگا۔ ایسے ہی بہشتی زیور کا یہ مسئلہ کہ کہیں پاخانہ لگا ہوا ہو تو تین دفعہ چاٹ لو تو پاک ہو جائے گا۔۱۱ بتائیے اس مسئلے کا شان نزول اور محل نزول کیا ہے ؟ یہ ہے آپ کا علم و عقل۔ ہم سے تو مکالمہ کا موقع و محل اور اس کا ثبوت پوچھتے ہیں اور خود ایسے مسئلوں کو قبول کیے ہوئے ہیں جو اسلام تو اسلام اور خود مذہب احناف کے لیے باعث و ننگ و عار ہیں۔ آپ ایسے مسائل کی تو تحقیق نہیں کرتے ‘ ہمارے مکالمے کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کو کس نے قلم بند کیا؟ آپ پہلے ان مسئلے بنانے والوں کو تلاش کر لائیں پھر ہم آ پ کو مکالمہ کے گواہ لا دیں گے۔ اجی! حضرات‘ آپ اپنے گھر میں‘ مقلدوں میں بیٹھ کر جو مرضی کر لیا کریں ‘ اہل حدیث سے ایسی سوال بازی نہ کیا کریں۔ اہل حدیث اور مقلد کا کیا مقابلہ ؟ کہاں اہل حدیث اور کہاں بے چارہ مقلد۔!وہ مذہب محمدی کے مضبوط و بلندو بالا محلوں میں بسنے والا‘ یہ ظن و تخمین اور ہوائے نفس کے بیت عنکبوت میں رہنے والا۔ اُس کے ہاتھ میں قال اﷲ و قال الرسول کے عروۃ وثقی۔۔۔ جو کبھی ٹوٹے ہی نہ اور اِس کے گلے میں ’’ ہمارے حضرت یوں فرماتے ہیں‘‘ کا پھندا جس سے وہ کبھی چھوٹے ہی نہ ۔۔۔ وہ صرف حق حق لینے والا اور یہ کوڑا کرکٹ ساتھ سمیٹنے والا۔۔ وہ صرف قرآن و حدیث کا پابنداور یہ پابند ہر دیوبند۔!
آپ کہتے ہیں ہم نے اس پر اب تک کچھ نہیں کہا۔ میں کہتا ہوں بتائیے آپ کہتے کیا؟ جو اب اس رسالہ میں کہا ہے وہی کچھ کہتے۔ اگر کہنے کے قابل ہوتے تو کبھی چپ نہ رہتے۔ چپ رہے تو بے بسی میں کہ جواب نہ تھا۔ اب بولے تو بے بسی میں کہ لوگوں نے چین نہ لینے دیا۔۔۔ دو جواب‘ دو جواب۔۔۔ سے تنگ کر دیا۔
آپ کہتے ہیں کہ یہ وقت ان فروعی مسائل میں الجھنے کا نہیں۔ میں پوچھتا ہوں یہ صرف آپ کی زبان کہتی ہے یا دل بھی کہتا ہے کہ رفع الیدین فروعی مسئلہ ہے ‘ اگر دل کہتا ہے تو پھر شروع کر دیں ۔ سنت پر بھی عمل ہو جائے گااور فرق بھی کوئی نہیں پڑے گا۔ بقول آپ کے کہ ہے تو مسئلہ فروعی۔
لیکن آپ کبھی ایسا نہیں کریں گے۔ کیوں کہ دل آپ کا جانتا ہے کہ اگر میں نے رفع الیدین شروع کر دی تو میں اہل حدیث ہو جاؤں گا۔ پیری مریدی ختم ہو جائے گی۔ سب خطابات اڑ جائیں گے۔ صرف غیر مقلد او ر وہابی کا نام رہ جائے گا۔ مقلد بھی کیا چالاک ہوتا ہے ‘ سنت کو مٹانے کے لیے کیا کیا حربے استعمال کرتا ہے۔ کبھی کہتا ہے کہ یہ فروعی مسئلہ ہے ‘ یعنی کوئی اہم مسئلہ نہیں‘ معمولی مسئلہ ہے۔ تاکہ لوگ ہلکا سمجھ کر اس کی طرف توجہ نہ دیں ۔ اگر توجہ کر لی تو ہمارا پول کھل جائے گا۔ سارا طلسم ٹوٹ جائے گا۔ کبھی کہتا ہے کہ یہ وقت ان مسائل میں الجھنے کا نہیں ۔ یعنی لڑائی جھگڑے کی دھمکیاں دیتا ہے۔ کوئی پوچھے مسائل اور پھر خاص کر فروعی ۔۔۔ ان میں الجھنا کیسا؟ مسائل سمجھنے سمجھانے کی چیز ہیں نہ کہ لڑنے جھگڑنے کی۔ نہیں اسے بس ایک ہی خطرہ ہے کہ اگر لوگوں تک اہل حدیث کی آواز پہنچ گئی تو ہمارا بنابنایا کام خراب ہو جائے گا۔ اصل میں ان کے دل میں چور ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ زبان سے ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں جن سے فراخ دلی ظاہر ہو۔ لیکن چونکہ دل میں عصبیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے اس لیے عمل ان کا ان کی تکذیب کرتا ہے۔ اصل میں تقلید چلتی ہی عصبیت کے ساتھ ہے۔ اگر مقلدین عصبیت کو چھوڑ دیں تو انصاف سے کام لیں اور فراخ دلی دکھانے لگ جائیں تو تقلید تو گئی جہاں سے آئی تھی۔ ایسی صورت میں تقلید کہاں رہتی ہے۔؟
آپ کہتے ہیں:اہل حدیث عوام کو توڑ کر اپنے مذہب میں شامل کر لیتے ہیں ‘ میں یہ کہتا ہوں کہ اگر عوام کو توڑ کر اپنے مذہب میں شامل کرتے ہیں تو کوئی گناہ تو نہیں کرتے۔ ان کا مذہب بھی تو آخر اسلام ہے۔ اگر ان کا مذہب بھی اسلام ہے اور وہ حنفی عوام کو بھی اس اسلام میں داخل کرتے ہیں تو آپ کو تکلیف کیوں۔؟ یا پھر صاف یہ کہیں کہ ان کا مذہب اسلام نہیں۔ اگر ان کا مذہب اسلام نہیں تو پھر آپ کا یہ کہنا یہ مسائل جن کی ہم تبلیغ کرتے ہیں فروعی ہیں بالکل جھوٹ ہے۔ ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ جن کی ہم تبلیغ کرتے ہیں فروعی ہیں اور دوسری طرف آپ کہتے ہیں کہ اہل حدیث حنفی عوام کو توڑ کر اپنے مذہب میں شامل کرتے ہیں ۔ اب جن مسائل کے بدلنے سے مذہب بدل جائے وہ فروعی کیسے ہیں تو آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ اہل حدیث عوام کو توڑ کر اپنے مذہب میں شامل کرتے ہیں۔ فروعی مسائل سے آخر مذہب کیسے بدل جاتا ہے۔ مذہب تو بدلتا ہے اصولوں کے بدلنے سے ‘ لہٰذا مقلد کا یہ کہنا کہ یہ فروعی مسائل ہیں‘ یا ان مسائل میں الجھنے کا یہ وقت نہیں‘ سب منافقت کی باتیں ہیں۔
آپ کہتے ہیں کہ اہل حدیث خاموش نہیں بیٹھتے۔ میں پوچھتا ہوں اہل حدیث خاموش کیوں بیٹھیں؟ آپ سنتوں کو مٹائیں۔ تلبیس حق کریں‘ اور ہم خاموش بیٹھیں۔ کیا اس حالت میں خاموش بیٹھنا جائز ہے ؟ حضور ﷺ نے تو فرمایا : فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَاءِ الَّذِیْنَ یُصْلِحُوْنَ مَا اَفْسَدَ النَّاسُ مِنْ سُنَّتِیْ۔۔۔۱۲’’ ان غربا کو مبارک ہو کہ لوگ میری سنتوں کو بگاڑیں گے اور وہ درست کریں گے۔بتائیے اس بشارت کے بعد ہم خاموش کیسے بیٹھیں۔ اس خاموشی سے تو باطل ابھرتا ہے ‘ اہل حق کی اسی سستی سے تو آپ کی قوم پیدا ہوئی ہے۔
آپ کہتے ہیں کہ ہمیں اختلافی مسائل اٹھانے سے دلچسپی ہے۔ میں کہتا ہوں اختلافی مسائل ہی سے تو پتا چلتا ہے کہ کون جھوٹا ہے اور کون سچا ۔!تبلیغ کہتے ہی اس بات کو ہیں کہ جس میں جو غلطی ہو اس کا ازالہ کیا جائے۔ ہم یہی کام کرتے ہیں لیکن آپ اس پر لڑتے ہیں اور یہ آپ کی بے سمجھی کی دلیل ہے۔
آپ پوچھتے ہیں کہ ہم فروع میں غیر مقلد ہیں یا اصول میں۔ ہم کہتے ہیں کہ نہ تو اصول میں کسی کے مقلد ہیں نہ فروع میں۔ ہمیں تو مقلد کا لفظ ہی برا لگتا ہے۔ نہ جانے آپ کواس سے کیوں عشق ہے۔ کیا تقلید کا لفظ کوئی اچھا لفظ ہے؟ کیا یہ انسان کے لائق ہے ؟ کیا قرآن وحدیث نے اس لفظ کو کہیں انسانوں کے لیے استعمال کیا؟ جب اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی زبان میں یہ لفظ جانوروں کے لیے ہے انسانوں کے لیے نہیں تو آپ مقلد کہلانے میں کیا فخر محسوس کرتے ہیں۔ مقلد بننا تو انسانیت کی تذلیل ہے‘ لیکن مقلد ہونے کی وجہ سے یہ بات آپ کی سمجھ میںآتی ہی نہیں۔ جو چیز انسان کے لیے ذلت تھی اس کو آپ نے عزت سمجھ لیا۔ خیر آپ کی قسمت۔ اصل میں جب کوئی بدبو میں عرصہ تک رہ لیتا ہے اور عادی ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ ا س کی حس ختم ہوجاتی ہے۔ آپ ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہم کسی کے مقلد ہیں ؟ میں کہتا ہوں کہ ہم کوئی جانور ہیں جو کسی کے مقلد بنیں۔ ہم تو انسان ہیں‘ انسانوں کی طرح اﷲ کے بتایے ہوئے طریقے کے مطابق علما کے علم سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ قرآن نے کہا
: ( فَاسْئلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ )[16:النحل:43]’’ اگر تمھیں کسی بات کا علم نہ ہو تو اہل علم سے پوچھ لو۔ پھر فرمایا
(اَلَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہ‘ )[39:الزمر:18]یعنی اہل خرد کے علم لینے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ پہلے توجہ سے سنتے ہیں ‘ پھر بہتر کو اپنے لیے منتخب کرلیتے ہیں۔ یہی ہمارا طریقہ ہے۔ ہم کسی ایک کے پابندنہیں۔ کیوں کہ کوئی ایسا کامل نہیں کہ ہم اسی ایک کے ہو کر رہ جائیں اور کسی سے فائدہ نہ اٹھائیں۔ مقلد اسی لیے تو تنگ رہتا ہے کہ وہ صرف ایک دکان سے سودا خریدتا ہے۔ بعض دفعہ اسے ملتا ہے اور بعض دفعہ نہیں۔ دکان پر مال نہیں ہوتا تو مقلد بے چارہ محروم رہ جاتا ہے۔ کبھی اس کو سودا گھٹیا او ر ردی ملتا ہے کیوں کہ اس کی دکان پر وہ چیز ردی ہوتی ہے۔ مقلد کو وہی قبول کر نا ہوتی ہے۔ اسی پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ اہل حدیث جس کو آپ لوگ غیر مقلد کہتے ہیں ہر دکان پر مال دیکھتا ہے‘ جس دکان پر اچھا مال ہو وہاں سے لے لیتا ہے۔ ہم تمام ائمہ کے اصول دیکھتے ہیں جو بہتر ہو وہ لے لیتے ہیں ‘ کسی ایک کے مقلد نہیں بنتے۔
آپ پوچھتے ہیں ہمارا صول استنباط کیا ہے ؟ میں کہتا ہوں جواہل علم وخرد کے ہوتے ہیں۔ آخر صحابہؓ کے اصول استنباط کیا تھے؟ کیا وہ پہلے کسی کے اصول دیکھتے تھے پھر استنباط مسائل کرتے تھے۔ جہاں کسی کو مسئلے کی ضرورت پڑی ‘ اگر اس میں قرآن و سنت سے صحیح نص مل گئی تو مسئلہ طے ہو گیا۔ اگرصحیح نص نہیں ملتی تو غور وفکر کرکے قرآن و حدیث سے اس کی نظیر تلاش کرتے۔ جو حکم اس کا ہوتا اس پر لگا دیتے۔ایسا بھی نہ ہوتا کہ نص بھی موجود ہو اور قیاس بھی چلے۔جیسا کہ مذہب احناف میں ہے۔ یعنی تَحْرِیْمُھَا التَّکْبِیْرُ وَ تَحْلِیْلُھَا التَّسْلِیْمُ ۔۔۔حضور ﷺ کا طریقہ یہ تھا کہ اﷲ اکبر سے نماز کوشروع کرتے اور السلام علیکم ورحمۃ اﷲ پر ختم کرتے‘ لیکن حنفیوں نے نص ہوتے ہوئے یہ مسئلہ بنا لیا کہ نماز اﷲ ا جل اور اﷲ اعظم وغیرہ سے بھی شروع کی جا سکتی ہے۱۳ اور سلام کی جگہ پاد مارنے سے ختم ہو جاتی ہے۔۱۴اب بتائیے کہ اس مسئلے کے بنانے کی کیا ضرورت تھی ؟
عَنِ الْاَوْزَاعِیْ قَالَ کَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِیْزِ اَنَّہ‘ لاَ رَاْیَ لِاَحَدٍ فِیْ کِتٰبِ ﷲِ وَ اِنَّمَا رَاْیُ الْاَئمَّۃَ فِیْمَا لَمْ یُنْزَلْ فِیْہِ کِتٰبٌ وَّ لَمْ تَمِضْ فِیْہِ سُنَّۃٌ مِّنْ رَسُوْلِ ﷲِ وَ لاَ رَاْیُ لِاَحَدٍ فِیْ سُنَّۃٍ سَنَّھَا رَسُوْلُ ﷲِ ۱۵
امام اوزاعی ؒ فرماتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیزؒ نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ قرآن و حدیث میں قیاس اس وقت کیا جائے جب کہ کوئی حکم واضح موجود نہ ہو۔سو یہی طریقہ صحابہ ؓ کا تھا۔ یہی مجموعی طور پر تابعین اور تبع تابعین کا تھا اور یہی اہل حدیث کا ہے۔
آپ نے کہا ہے کسی روایت کے جانچنے پر کھنے کے ہمارے کیا قواعد ہیں۔ میں کہتا ہوں وہی قواعد ہیں جو ائمہ محدثین کے تھے۔ وہ ہمارے سلف اور ہم ان کے خلف اور وہ کتابوں میں موجود ہیں۔ آپ پوچھتے ہیں سنت کی کیا تعریف ہے ؟ میں کہتا ہوں وہی جو امام اعظم کیا کرتے تھے۔ آپ کہتے ہیں اس کا ثبوت کیسے ہوتا ہے ؟ میں کہتا ہوں جیسے امام صاحب کرتے تھے ۔ پھر آپ نے پوچھا کہ نسخ کے کیا اصول ہیں اور ناسخ اور منسوخ کی معرفت کیسے حاصل ہوتی ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ نسخ کے وہی اصول ہیں جو امام صاحب کے تھے اور ناسخ و منسوخ کی معرفت ویسے ہی حاصل ہوتی ہے جیسے امام صاحب کو حاصل ہوئی تھی۔
آپ پوچھتے ہیں کہ ہم حنفی اصول فقہ کو تسلیم کرتے ہیں‘ میں کہتا ہوں آپ حنفی اصول فقہ کو تسلیم نہیں کرتے‘ کیوں کہ وہ سارے امام صاحب کے بنائے ہوئے نہیں۔ بہت سے گمراہ لوگوں نے اس میں کام کیا ہے۔ اگر اعتبار نہ آئے تو مولوی عبدالحی لکھنوی فرنگی محل جو کہ احناف کے امام ہیں ان کی کتاب الرفع والتکمیل دیکھ لیں۔ وہ کہتے ہیں:
وَ بِالْجُمْلَۃِ فَالْحَنْفِیَّۃُ لَھَا فُرُوْعٌ بِاِخْتِلاَفِ الْعَقِیْدَۃِ فَمِنْھُمُ الشِّیْعَۃُ وَ مِنْھُمُ الْمُرْجِیْئۃُ وَ مِنْھُمُ الْمُعْتَزِلَۃُ
حنفیہ کی باعتبار اختلاف عقیدہ کئی شاخیں ہیں ‘ ان میں شیعہ بھی ‘ معتزلی بھی ہیں اور مرجیہ بھی۔ اور یہ بات ہے بھی صحیح۔ اب عوام کو دیکھ لیں قبریں پوجتے ہیں تو حنفی۔ تعزیے نکالتے ہیں تو حنفی ‘ بھنگ رگڑتے ہیں تو حنفی‘ بدعات پر بدعات ایجاد کرتے ہیں تو حنفی۔ اور پھر کمال یہ ہے کہ حنفی ہونے پر ہی اکتفا نہیں کرتے۔ سنی ہونے کا بھی دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ کہاں حنفی ‘ کہاں سنی۔۔۔!حنفی پورا سنی ہو ہی نہیں سکتا؟ اگر تسلی نہ ہو تو شاہ ولی اﷲ صاحب کی حجۃ اﷲ البالغہ دیکھ لیں۔
وَ بَعْضُھُمْ یَزْعَمُ اِنَّ بِنَاءَ الْمَذْھَبِ عَلٰی ھٰذِہِ الْمُحَاوَرَاتِ الْجَدْلِیَّۃِ الْمَذْکُوْرَۃِ فِیْ مَبْسُوْطِ السُّرْخُسِّیْ وَالْھَدَایَۃِ وَالتَّبِیْنِ وَ نَحْوِ ذٰلِکَ وَ لاَ یَعْلَمُ اِنَّ اَوَّلَ مَنْ اَظْھَرَ ذٰلِکَ فِیْھِمْ مُعْتَزِلَۃَ ۱۶
اور بعض حنفی یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ مبسوط سرخی ‘ ہدایہ اور تبیین وغیرہ کتب احناف میں جو جدلی مباحثات اصول فقہ کے متعلق پائے جاتے ہیں حنفی مذہب کی بنیاد ہیں۔ حالانکہ واقع یہ ہے کہ ان کے موجد معتزلہ ہیں۔ مزید تسلی کے لیے امام ابن تیمیہ ؒ کا فیصلہ سنتے جائیں۔ آپ نے بھی ان کا ایک حوالہ پیش کیا ہے ‘ اس لیے ہم بھی پیش کر دیتے ہیں۔
وَکَذٰلِکَ الْحَنْفِیُّ یَخْلِطُ بِمَذْھبِ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ شَیْئا مِنْ اُصُوْلِ الْمُعْتَزِلَۃِ وَ الْکَرَامِیَۃِ وَالْکَلاَبِیَّۃِ وَ یُضِیْفُہ‘ اِلٰی مَذْھبٍ ۱۷
حنفیوں نے امام ابوحنیفہ ؒ کے مذہب میں معتزلہ ‘ کرامیہ ‘ کلابیہ جیسے گمراہ فرقوں کے اصول بھی ملا دیے ہیں اور حنفی مذہب کو معجون مرکب بنا چھوڑا ہے۔
آپ کہتے ہیں ہم حنفی اصول فقہ پر نسخ رفع الیدین ثابت کر دیں گے ‘ میں کہتا ہوں آپ کسی امام کے اصول پر نسخ رفع الیدین ثابت کریں گے تواس امام سے ہی ثابت کیوں نہیں کروا دیتے۔ کس امام نے کہا ہے کہ رفع الیدین منسوخ ہے۔ جب کسی امام نے منسوخ نہیں کہا تو اس امام کے اصول پر منسوخ کیسے ہو سکتی ہے ۔ آپ جو حنفی اصول فقہ پر رفع الیدین منسوخ کرکے دکھائیں گے تو آپ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ امام صاحب نے کہا ہے کہ رفع الیدین منسوخ ہے۔ جب امام صاحب نے ہی رفع الیدین کو منسوخ نہیں کیا تو آپ ان کے اصولوں پر نسخ ثابت کر دینے والے عالم کہاں سے آئے ؟
آپ لوگ نبیؐ کے بے وفا تو تھے اپنے امام کے بھی وفادار نہ نکلے ۔ جو حنفی ہو کر ایسی بات کہتے ہیں جو امام صاحب نے نہیں کہی۔ آپ جو کسی امام کے اصول پر نسخ رفع الیدین ثابت کریں گے تو سیدھی بات کیوں نہیں کہتے کہ ہمارے پاس رفع الیدین کو منسوخ کرنے والی صحیح حدیث نہیں۔ پھر ہیر پھیر سے کام لیتے ہیں۔ نماز میں جو اور چیزیں منع ہوئیں مثلاً تطبیق یا باتیں کرنا‘ یا سلام کا زبان سے جواب دینا۔ سلام پھیرتے وقت سرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح سے ہاتھ مارنا یہ سب کچھ امام کے اصول پر ہے ۔ آخر آپ کو ڈر کیوں نہیں لگتا جو سنت رسول ؐ کو مٹانے کے لیے یہ چالیں چلتے ہیں۔
آپ کہتے ہیں کہ جب تک اصول متعین نہ ہوں اس مسئلے میں گفتگو بے کار ہے۔ میں کہتا ہوں اصول متعین ہوں یا نہ‘ سوال یہ ہے کہ رفع الیدین کے بارے میں حضور ﷺ کا طریقہ کیا تھا۔یہ توآپ مانتے ہیں کہ آپ نے رفع الیدین کی اب سوال ہے کہ پھر آپ نے چھوڑ دی یا کرتے رہے۔ اگر چھوڑ دی تو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی یا کبھی کی اور کبھی چھوڑ دی۔ اب اس بات کا اماموں کے اصول سے کیا تعلق ۔ اس کا تعلق تو نقل سے ہے۔ یعنی حدیث میں ہے کہ آپ وہ صحیح حدیث پیش کریں جس سے آپ کا دعویٰ ثابت ہو اور آپ کی جان چھوٹے ۔ بے کار ٹال مٹول سے کیا فائدہ ؟ ہزار چالیں چلیں ‘ کبھی اصول کی آڑ میں‘ کبھی فروع کی ‘ کبھی تحقیق کی اور کبھی تقلید کی۔ ظاہر ہے کہ پلے آپ کے کچھ نہیں۔
آپ نے پوچھا ہے کہ اتنے سارے صحابہؓ کے نام ‘ ہم نے شاہ شہید کی تقلید میں لکھے ہیں یا خود بھی تحقیق کی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ تقلید تو آپ ہی کو مبارک ہو اﷲ کا شکر ہے ہم تواس گندی چیز کے قریب نہیں جاتے۔ آئندہ بھی اﷲ بچائے۔ ہم نے یہ نام تحقیق کر کے لکھے ہیں۔ ہم نے شاہ اسماعیل کی کتاب میں دیکھا کہ رفع الیدین کے کتنے راوی ہیں۔ ہم نے اس کی تحقیق شروع کی کہ کوئی اور بھی عالم یہ بات کہتا ہے یا صرف شاہ شہید ہی۔ ہم نے دیکھا کہ امام حاکم کہتے ہیں ۔
اِتَّفَقَ عَلَی رِوَایَتِھَا الْخُلَفَاءُ الاَرْبَعَۃُ ۱۸
کہ رفع الیدین پر حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ حضرت عثمانؓ و علیؓ کا اتفاق ہے۔ پھر بھی ہمیں اطمینان نہ ہوا۔ ہم نے مزید تحقیق کی‘ ہم نے دیکھا کہ امام بیہقی بھی یہی فرماتے ہیں
اِتَّفَقَ عَلٰی رِوَایَتِھَا الْخُلَفَاءُ الاَرْبَعَۃُ ثُمَّ الْعَشْرَۃُ فَمَنْ بَعْدَھُمْ مِنْ اَکَابِرِالصَّحَابَۃِ
کہ رفع الیدین کی روایت پر چاروں خلیفوں عشرہ مبشرہ اور دیگر اکابر صحابہؓ کا اتفاق ہے۔ پھر حافظ الحدیث ‘ حافط ابن حجر عسقلانی ؒ سے پوچھا جو روایت کے سب سے بڑے ناقد ہیں ۔ اصول حدیث کے بہت بڑے عالم ہیں تو انھوں نے بھی فرمایا
اِتَّفَقَ عَلٰی رِوَایَۃِ ھٰذِہِ السُّنَّۃِ الْعَشْرَۃُ الْمُشْہُوْدَۃُ بِالْجَنَّۃِ فَمَنْ بَعْدَھُمْ مِنْ اَکَابِرِالصَّحَابَۃِ ۱۹
کہ روایت رفع الیدین پر عشرہ مبشرہ اور دیگر اکابر صحابہؓ کا اتفاق ہے۔
پھر ابوقاسم بن مندہ سے تحقیق کی تو انھوں نے بھی یہی فرمایا کہ رفع الیدین کی روایت ایسی ہے کہ اس کو عشرہ مبشرہ اور دیگر صحابہ نے روایت کیا ہے۔
مِمَّنْ رَوَاہُ الْعَشْرَۃُ الْمُبَشَّرَۃُ ۲۰
پھر علامہ مجددالدین محمد بن یعقوب صاحب القاموس سے پوچھا تو انھوں نے بھی یہی کہا ۲۱ علامہ سبکی نے بھی اس کی تصدیق کی۔۲۲
یا معشر المقلدین! اب بتائیں کہ اس کو تقلید کہتے ہیں یا تحقیق ؟ یہ لوگ اتنے بڑے بڑے محدث ہیں ۔ ان کی نقل پر سب کو اعتماد ہے۔ یہ کوئی حنفی تو نہیں کہ جن پر اعتماد نہ کیا جائے۔ یہ تو محدثین ہیں۔ سرتاج احناف ملا علی قاری اپنی کتاب ’’موضوعات کبیر‘‘میں فرماتے ہیں:
لاَ عِبْرَۃَ بِنَقْلِ النِّھَایَۃِ وَ بَقِیَّۃُ شُرَّاحِ الْھَدَایَۃِ فَاِنَّھُمْ لَیْسُوْا مِنَ الْمُحَدِّثِیْنَ ۲۳
ہدایہ کے شارحین کی نقل کا کوئی اعتبار نہیں۔ وہ کوئی محدث نہ تھے۔ یعنی حوالہ محدث سے ہی لینا چاہیے۔ چنانچہ ان محدثین سے ہم نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ حقیقتا اتنے سارے صحابہ اس روایت کے راوی ہیں آپ کہتے ہیں کہ اگر شاہ صاحب موصوف کی تقلید میں لکھتے ہیں توپھر حنفی حضرات امام صاحب کی تقلید کو خیر باد کہہ کر شاہ اسماعیل کی تقلید کیوں کریں۔ میں کہتا ہوں آپ لوگ امام صاحب کی تقلید بھی کہاں کرتے ہیں؟ اگر ان کی بھی تقلید کرتے تو اتنے گمراہ نہ ہوتے آج کل حنفی جو کچھ کر رہے ہیں کیا امام صاحب کی تقلید میں کر رہے ہیں۔ افغانی صاحب سے بھی پوچھ لیں تو وہ رفع الیدین کو منسوخ کہتے ہیں۔ کیا امام صاحب کی تقلید میں کہتے ہیں ‘ پیری مریدی جو کرتے ہیں کیا امام صاحب کی تقلیدمیں کرتے ہیں ۔ قبروں سے فیض لیتے دیتے ہیں تو کیا امام صاحب کی تقلید کرتے ہیں ؟ خیر باد توآپ نے امام صاحب کو اسی روز کہہ دیا جب رفع الیدین کو اپنی طرف سے منسوخ کر دیا۔ جب اور باتوں میں اوروں کی مانتے ہیں تواگر اس مسئلے میں شاہ اسماعیل شہید کی مان لیں تو کیا حرج ہے؟ شاید بچ ہی جائیں‘ ورنہ اِنَّ الْمُقَلِّدَ فِیْ سَبِیْلِ الْہَالِکِ تو ہے ہی ۔ اس کے بعدآپ کہتے ہیں اگر خود تحقیق کرکے ان صحابہؓ کے نام دریافت کیے ہیں تو براہ کرم اپنی اسناد ان صحابہؓ تک بیان کرکے ان کی صحت کا ثبوت دیجیے۔ میں کہتا ہوں ‘ ثبوت کی کس لیے ضرورت ہے۔ اگر مسئلے کی تحقیق کے لیے تو مسئلہ اظہر من الشمس ہے۔ بخاری مسلم‘ ابوداؤد ‘نسائی ‘ ترمذی‘ ابن ماجہ‘ مسند احمد۔۔۔ غرض حدیث کی کوئی کتاب نہیں جس سے یہ مسئلہ ثابت نہ ہو۔ اگر صرف بحث کے لیے ہی یہ مطالبہ ہے توآپ امام ابوحنیفہ صاحب کی چار ہزار احادیث گنوائیں۔ ہم ان میں آپ کو تمام صحابہؓ کی روایات مع صحت دکھا دیں گے۔ مولانا عبدالرشید نعمانی اپنی کتاب ’’ ماتمس الیہ الحاجۃ ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اِنْتَخَبَ اَبُوْحَنِیْفَۃُ الْاٰثَارَمِنَ اَرْبَعِیْنَ اَلْفَ حَدِیْثٍ آگے لکھتے ہیں قَالَ اَبُوْحَنِیْفَۃُ عِنْدِیْ صَنَادِیْقُ مِنَ الْحَدِیْثِ مَا اَخْرَجْتُ مِنْھَا اِلاَّ الْیَسِیْرَ الَّذِیْ یُنْتَفَعُ بِہٖ ۲۴ امام ابوحنیفہ صاحب نے اپنی چالیس ہزار احادیث میں سے الاثار منتخب کی اور امام صاحب نے فرمایا کہ میرے پاس احادیث کا صندوق ہے میں صرف بقدر ضرورت نکالتا ہوں۔ آپ کا مطالبہ کیا ہے کہ اگر کسی مشہور و متواتر کتاب میں آپ نے ان سب روایات کو پایا ہے تو ان کی اسانید و متون نقل کر کے حوالہ دیجیے اور ہر روایت کی صحت کو ثابت کیجیے۔ میں کہتا ہوں کہ ان میں سے کچھ کو ہم نے اعلیٰ درجہ کی کتابوں مثلاً مؤطا امام مالک‘ بخاری و مسلم میں پایا ہے‘ کچھ کو درمیانے درجے کی کتب میں اور بعض کو تیسرے اور چوتھے درجے کی کتب میں۔ لیکن مجموعی طور پر یہ تمام روایات صحت سند امام صاحب کی کتاب الجامع الصحیح للامام ابی حنیفہ میں ملتی ہیں۔وہ آپ کے پاس ہوگی آپ وہاں دیکھ لیں۔
آپ پوچھتے ہیں کہ ہمیں مسئلہ تراویح کی پیش کردہ عبارت تسلیم ہے‘ میں کہتا ہوں کہ ہمیں تسلیم ہے۔ آپ فرمائیے کہ آپ کو تسلیم ہے یا نہیں؟ یہ اصول ہم نے نہیں بنایا ‘ آپ کے بہت بڑے عالم شاہ ولی اﷲ کا بنایا ہوا ہے ۔ آپ کو تسلیم نہیں تو بتائیے کہ اس میں کیا غلطی ہے ۔ اگر تسلیم ہے تو ہم پر اعتراض کیسا؟ اور پھر آپ اس کے خلاف کیوں کرتے ہیں؟ آپ کہتے ہیں کہ ہم نے مسئلہ تراویح شائع کرکے عوام کو دھوکہ دیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ دھوکا نہیں دیا ‘ بلکہ آپ پر حجت قائم کی ہے تاکہ قیامت کو آپ کو عذر نہ ہو‘ کہ ہم کو کسی نے متنبہ نہیں کیا۔ آپ پوچھتے ہیں کہ رفع الیدین کی پیش کردہ روایات کس درجے کی ہیں؟ میں کہتا ہوں ہر درجے کی ہیں۔ جو بخاری مسلم اور مؤطا میں حضرت عبداﷲ بن عمرؓ‘ مالک بن حویرثؓ اور وائل بن حجرؓ کی ہیں وہ اعلیٰ درجے کی ہیں۔ جو باقی صحاح ستہ میں ہیں وہ درمیانے درجے کی ہیں اور جو دیگر کتب حدیث میں ہیں وہ تیسرے اور چوتھے درجے کی ہیں۔ ہماری رفع الیدین کی روایت کوئی کتنی ہی گھٹیا کیوں نہ ہو آپ کی نسخ کی روایت سے اچھی ہے۔ آپ پیش کر کے دیکھ لیں کس قدر شرم کی بات ہے کہ عبداﷲ بن عمر ‘ مالک بن حویرث ‘ وائل بن حجر‘ حضرت علی ‘ حضرت ابوحمید الساعد ی‘ ابن زبیر‘ انس ‘ جابر ‘ عمیر اللیثی رضوان اﷲ علیھم اجمعین اتنے صحابہ کی روایات کے بعد بھی جو کہ صحاح ستہ میں ہیں‘ آپ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اور دکھاؤ اور خود منسوخ کی ایک بھی پیش نہیں کرسکتے۔ اس سے بڑی ڈھٹائی اور کیا ہو سکتی ہے۔ چہ دلاور است و زدے کہ بکف چراغ دارد۔
آپ کہتے ہیں ہمیں بڑی خوشی ہو جو رفع الیدین کی یہ سب روایتیں اعلیٰ درجے کی نکلیں۔ میں کہتا ہوں آپ کو رفع الیدین کی روایتوں کے ملنے پر تو خوشی ہوتی ہے نسخ کی کوئی نہ ملنے پر غم کیوں نہیں ہوتا۔ اگر آپ میں غیرت ہوتی کہ رفع الیدین کی تو اتنی اور نسخ کی ایک بھی نہیں تو شرم کے مارے مر جاتے یا توبہ کر لیتے لیکن خیراب آپ خوشیاں ہی کر لیں ۔ ہم آپ کو تمام روایات بشمول عشرہ مبشرہ آپ کے امام کی کتاب ہی سے دکھاتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ اگر عشرہ مبشرہ کی تمام روایات صحیح بخاری ‘ مسلم‘ مؤطا امام مالک میں سے نکل آئیں تو سبحان اﷲ میں کہتا ہوں اگر عشرہ مبشرہ کی روایات صحیح بخاری‘ مسلم‘ مؤطا کی بجائے صحیح ابی حنیفہ سے دکھا دی جائیں تو پھر الحمد اﷲ پڑھوگے یا نہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ آپ کے نزدیک جو درجہ امام اعظم کا ہے وہ امام بخاری یا کسی اورامام کا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ہم آپ کو عشرہ مبشرہ کی روایات صحیح ابی حنیفہ سے ہی دکھائیں گے۔ بخاری ‘ مسلم سے نہیں کیوں کہ جب وہ صحیح ابی حنیفہ میں مل جائیں گی تو پھر کسی اور کتاب میں دکھانے کی ضرورت نہیں۔ امام صاحب کی سند سب سے صحیح ہے۔ لہٰذا آپ ان کی کتاب نکالیں تاکہ ہم اس سے ہی دکھائیں۔
آپ نے یہ بھی ایک بے کار سا اعتراض کیا ہے کہ ہم نے ضعیف روایتوں کو الگ کر کے بیان کیوں نہیں کیا۔ میں کہتا ہوں کہ جب کوئی روایت حد تواتر کو پہنچ جائے تو پھر چھانٹ چھٹائی کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ رؤیت ہلال کے معاملے کو دیکھیں ایک دو دیکھیں تو شہادت لی جاتی ہے۔ دیکھنے والوں کی عدالت و ثقاہت دیکھی جاتی ہے ۔ اگر جم غفیر دیکھیں تو پھر جانچ پڑتال کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب رفع الیدین کی روایات صحاح ستہ میں بکثرت موجود ہیں اور مفید علم بھی ہیں تو اب علیحدہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن مقلد کو سوائے اس کے کیا کہا جائے۔ تقلیدی خمر نے کیا باؤلا۔ نہ شرم پیغمبر نہ خوف خدا۔
آپ نے یہ بھی لکھا ہے اور ہمیں تو نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آپ نے شاہ اسماعیل کی تقلید میں محض بے سند غلط اور بے اصل روایات کو بھی پیش کرنے سے دریغ نہیں فرمایا۔ ہائے تقلید تیرا ستیاناس ہو کہ تو بھی کتنی ظالم اور متعصب ہے کہ تو نے بے چارے شاہ شہید کو بھی نہ بخشا۔ مقلد جب دیکھتا ہے کہ کسی نے میرے مطلب کے خلاف بات کہہ دی تو وہ بغیر سوچے سمجھے اس پر پڑ جاتا ہے۔ اجی !مقلد صاحب آپ کا کیا خیال ہے کہ شاہ صاحب کو آپ جتنی بھی عقل نہ تھی کہ انھوں نے محض بے سند ‘ غلط اور بے اصل جو بات لکھ دی جس کو پیچھے ائمہ کہتے آئے ہوں وہ بے اصل کیسے ہو سکتی ہے۔ آپ کا مذہب بے اصل‘ مسئلے بے اصل‘ تقلید بے اصل۔ سارا سلسلہ بے اصل ۔ تو آپ کو شرم نہ آئے اور جو شاہ صاحب رفع الیدین کے بارے میں ایک بات کہہ دیں جو تواتر سے ثابت ہو تو آپ اسے بے اصل کہناشروع کر دیں۔
آپ نے لکھا ہے ‘ برا نہ مانیے۔ اگر اس تنبیہ کے باوجود بھی آپ کو اپنے دعویٰ کی صحت پر اصرار ہے تو ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ براہ کرم حضرات عشرہ مبشرہ میں سے سات کی کوئی ایک سی روایت مختلف فیہ رفع الیدین کے بارے میں پیش تو کریں او ر بتائیں کہ حدیث کی کس کتاب میں ان حضرات کی روایات مع سند بیان کی گئیں ہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ آپ بھی برا نہ مانیے اگر آپ کو ابھی تک سمجھ نہیں آئی اور ابھی تک اصرار ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ صاحب محدث تھے اور ان کے پاس چند حدیثوں سے زائد حدیثیں تھیں توہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ براہ کرم ان کی کوئی کتاب جو انھوں نے خود جمع کی ہو دکھا دیں۔ آپ کی حنفیت کی لاج بھی رہ جائے گی اور ہماری عشرہ مبشرہ کی روایات بھی مل جائیں گی۔ اور اگر آپ کوئی کتاب نہ دکھا سکے تو آپ کی حنفیت گئی اور ہماری عشرہ مبشرہ کی روایات گئیں۔ عشرہ مبشرہ کی روایات نہ ملیں تو ہمارا کوئی نقصان نہیں کیوں کہ ہمارا مسئلہ پھر بھی اعلیٰ درجہ کی روایات کثیرہ سے ثابت ہے۔ لیکن آپ کا بڑا نقصان ہے ۔امام بھی گیا ‘ اعظمیت بھی گئی۔ مذہب تو پہلے ہی صاف تھا‘ مزید صفائی ہو گئی۔ پہلے آپ عشرہ مبشرہ روایات کا مطالبہ کرتے رہے ہیں یہاںآپ نے صرف سات کی روایات کا مطالبہ کیا ہے۔ تین کم کردئیے ۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو ان کی روایات مل گئی ہیں ۔ آپ یہ بتائیں آپ نے جو حضرت ابوبکر صدیق ؓ حضرت عمرؓ اور حضرت علی ؓ کی روایات رفع الیدین کے بارے میں دیکھیں تو آپ پر کیا اثر ہوا ۔ کیا آپ نے مان لیا؟ اب آپ سوچیے کہ شرم والے کے لیے تو ایک بھی کافی ہے۔آپ نے پتا نہیں کتنی دیکھ لی ہیں ۔ اس کے باوجود بھی آپ مطالبہ کرتے ہیں کہ فلاں کی دکھاؤ ‘فلاں کی دکھاؤ ۔ یہ آپ کے ایمان اور اہلیت کا حال ہے۔اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں ٹھیک کہا ہے
(اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْھِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ O وَ لَوْ جَآءَ تْھُمْ کُلُّ اٰیَۃٍ حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ ) [10:یونس:96-97]جن پر ٹھپہ لگ جائے وہ کبھی نہ مانیں گے اگرچہ ان کا ہر مطالبہ پورا ہوجائے۔ اب بتائیے کسی سنت کے ثابت ہونے کے لیے کیا یہ شرط ہے کہ اس کو عشرہ مبشرہ روایت کریں ۔ جب دین کے مسائل ایک ایک حدیث سے بھی ثابت ہو سکتے ہیں تو جس کی روایت تواتر کے درجے کو پہنچ جائے ‘ وہ نہ ثابت ہو آپ اس کے لیے عشرہ مبشرہ کی شرط لگائیں یہ کیا عجیب بات ہے ؟ رفع الیدین کی روایت کا متواتر ہونا اور تو اور مولانا انور شاہ تک نے بھی تسلیم کیا ہے۔ جس کا حوالہ ہم پہلے اشتہار میں دے چکے ہیں۔ اور جس کی روایت متواتر ہو اور اس پر آپ طرح طرح کے لغو اعتراض کریں ۔ یہ کہاں کی دیانت ہے؟ مکے والے بہت سے نشانات دیکھنے کے باوجود کہتے تھے کہ یہ معجزہ دکھاؤ‘ یہ معجزہ دکھاؤ۔ آپ بھی اسی طرح بہت سی روایات دیکھنے کے باوجود مطالبہ کرتے ہیں کہ فلاں کی روایت دکھاؤ ‘ فلاں کی روایت دکھاؤ۔ اﷲ ان کو معجزہ دکھا سکتا تھا‘ لیکن اﷲ نے ان کا مطالبہ پورا نہ کیا۔ اﷲ کو معلوم تھا کہ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ یہ صورت اﷲ نے آپ کے ساتھ کر دی۔جہاں اﷲ نے موجودہ روایات محفوظ کر دیں وہاں اوروں کو بھی کر سکتا تھا۔اﷲ نے جیسے اس کی عادت ہے آپ کے فتنے کے لیے یہ نہیں کیا۔ اﷲ نے سچ فرمایا ہے:
(لِیَجْعَلَ مَا یُلْقِی الشَّیْطَانُ فِتْنَۃً لِلَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرْضٌ وَّالْقَاسِیَۃِ قُلُوْبُھُمْ )[22:الحج:53]
(اِنَّا جَعَلْنٰھَا فِتْنَۃً لِّلظَّالِمِیْنَ)[37:الصافات:63]
(وَ مَا جَعَلْنَا عِدَّتَھُمْ اِلاَّ فِتْنَۃً لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا)[74:المدثر:31]
آپ نے عشرہ مبشرہ سے سات کی روایتوں کا مع سند مطالبہ کیا ہے۔ میں کہتا ہو ں امام بیہقی اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:
فَقَدْ رُوِیَ ھٰذِہِ السُّنَّۃُ عَنْ اَبِیْ بَکْرِ الصِّدِّیْقِ وَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَ عُثْمَانَ وَ عَلِیًّ وَ طَلْحَۃَ وَ زَبَیْرً وَّ سَعْدً وَّ سَعِیْدً وَ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ وَّ اَبُی عَیَبْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ
یہ سنت ‘ رفع الیدین ان دس صحابہ سے بھی مروی ہے جن کو عشرہ مبشرہ کہتے ہیں۔ نشان تو امام بیہقی نے دے دیا ہے۔ چونکہ بیہقی تیسرے درجے کی کتاب ہے‘ اتنی معتبر نہیں جتنی مسند ابی حنیفہ اصلی۔ اس لیے انھوں نے مسند ابی حنیفہ پر اعتماد کرتے ہوئے کہ اس میں ساری سندیں موجود ہیں۔ خود سندیں نہیں لکھیں۔ اگر آپ کو مزید شوق سند بازی کا ہو تو سندیں وہاں دیکھ لیں۔ حضرت حسن کی ایک مرفوع حدیث ابونعیم اورعبدالرزاق میں ہے لیکن یہ اتنی صحیح نہیں جتنی کہ وہ جوصحیح ابی حنیفہ صفحہ 420پر ہے۔ وہ سند سنہری سند ہے۔ اسی طرح حضرت زبیرؓ حضرت ابومسعودؓ حضرت بریدہؓ حضرت عمارؓ کی روایات بیہقی کے علاوہ مسند ابی حنیفہ اصلی صفحہ 420پر بسندات صحیح موجود ہے۔
آپ نے ہماری اس بات پر جو اعتراض کیا ہے کہ رفع الیدین کا ثبوت ہر کتاب میں موجود ہے۔ بتائیے کس کتاب میں ثبوت نہیں۔ آپ اپنے گھر کی حدیث کی کوئی کتا ب لے آئیں اگر اس کتاب میں متنازع فیہ کا ثبوت نہ ملے تو آپ اعتراض کریں۔ آج تک حدیث کی کوئی کتاب دیکھنے میں نہیں آئی جو کسی محدث نے لکھی ہو اور جس میں حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کی روایت موجود نہ ہوں۔ جہاں تک ثبوت کا تعلق ہے وہ تو حدیث کی ہر کتاب سے مل سکتا ہے۔ رہ گئیں ان اصحاب سے روایات رفع الیدین در بارہ تو وہ یقیناًکسی ایک کتاب میں سوائے کتاب ابی حنیفہ کے نہیں مل سکتیں۔ اصل میں محدثین میں سے کسی کے پاس فردا فردا اتنا ذخیرہ احادیث نہ تھا جتنا امام ابوحنیفہ کے پاس تھا۔ ان کو اسی لیے امام اعظم کہتے ہیں۔انھوں نے تمام ائمہ کی روایات کو ایک جگہ جمع کر لیا تھا۔ وہ اپنے ذخیرے کو بہت حفاظت سے صندوق میں بند رکھتے تھے۔ جیسا کہ ان کے روحانی فرزند حضرت مولانا نعمانی صاحب بیان کرتے ہیں ۔ وہ تمام ذخیرہ وراثت میں حضرت نعمانی صاحب کو ہی منتقل ہو گیا۔ متعدد بار میں زیارت کے لیے حاضربھی ہوا ‘ لیکن حضرت نعمانی صاحب کچھ ایسے واقع ہوئے ہیں کہ امام صاحب کی کسی کتاب کا درشن ہی نہیں کراتے۔
آپ ہمیں کہتے ہیں کہ ذرا تو شرمائیں آخر اس قدر غلط بیانی اور دیدہ دلیری کی جرآت آپ میں کیسے ہوئی ؟ میں کہتا ہوں کہ آپ کودیکھ کر آپ ہمیں کہتے ہیں کہ ذرا تو شرمائیے‘ میں کہتا ہوں کہ آپ گلے میں تقلید کا طوق ڈالتے ہوئے نہ شرمائیں ‘ ہم اتباع رسول کرتے ہوئے شرمائیں۔ غلط بیانی اور دیدہ دلیری مقلد کا کام ہے۔ امام اعظم بھی کہیں اور کتاب ایک نہ دکھائیں۔
منسوخ بھی کہیں اور حدیث ایک نہ دکھائیں۔ چوری اور سینہ زوری۔ آپ جو جھنجھلا رہے ہیں۔ آپ نے یہ بھی دیکھا کہ ہمارا دعویٰ کیا ہے اور آپ کا کیا ؟ ہمارا دعویٰ تو یہ ہے کہ رفع الیدین حضور ﷺ کی سنت ثابتہ ہے اور آپ کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ سنت منسوخ ہے۔اگر ہم اپنا دعویٰ نہ ثابت کریں تو ہم جھوٹے ‘ بے شرم ‘ غلط بیان دیدہ دلیر اور جو کچھ آپ کہیں اگر آپ اپنا دعویٰ ثابت نہ کریں تو پھر آپ یہ سب کچھ۔ ہم نے ثبوت کے لیے بخاری ‘ مسلم‘ ابوداؤد‘ ترمذی‘ نسائی ابن ماجہ کا نام لیا ہے اور اس کے بعد یہ بھی کہا کہ یہ حدیث کی ہر کتاب سے ثابت ہے۔ اگر ہم حدیث کی ان کتابوں سے رفع الیدین ثابت نہ کرسکیں تو ہم جھوٹے۔ اب آپ اس طرف تو منہ کرتے ہی نہیں کہ ہم سے رفع الیدین کا ثبوت مانگیں اور خود نسخ کا ثبوت دیں۔ کیوں کہ آپ کو یہ یقین ہے کہ ہمارا دعویٰ ثابت اور آپ جھوٹے ہیں۔ ان صحابہؓ کی مرویات کا بصحت سند مطالبہ کرتے ہیں جن کے ثبوت کا نہ ہم نے دعویٰ کیا ہے نہ ضرورت ہے ۔ ہم رفع الیدین کے اثبات کے دعویٰ دار ہیں نہ کہ تمام روایات کے دکھانے کے ۔ یہ بات تو صرف تائید تھی اور وہ ثابت ہے ۔ آپ اصل دعوے کو چھوڑ کر ان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ چور اپنی ہیری پھیری سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ نہ سیدھی بات ‘ نہ سیدھی چال۔ سارے رسالے میں آپ نے نہ ہم سے رفع الیدین کا ثبوت مانگا نہ خود نسخ کا ثبوت دیا۔ روایتوں کے مطالبے میں ہی تقریباً آدھا رسالہ بھر دیا حالانکہ اگر یہ ساری روایات ثابت نہ بھی ہوں تو بھی نفس ثبوت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ وہ تو صحاح ستہ کی احادیث سے بھی ثابت ہے۔ پھر کمال یہ ہے کہ ہم سے پوچھتے ہیں کہ اتنی جرآت تمھیں کیسے ہو گئی۔ ہم کہتے ہیں کہ تمھیں دیکھ کر۔ تم نے جو کہا کہ امام صاحب کے پاس اتنا ذخیرہ تھا کہ چالیس ہزار میں سے آثار چھانٹی اورصندوق بھرے رہتے۔
آپ نے لکھا ہے اچھا ان بارہ حضرات کو تو چھوڑئیے کہ انکی روایت کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ آپ کی کس قدر غلط بیانی اور دیدہ دلیری ہے۔آخر کچھ تو شرمائیے۔ ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ ان بارہ حضرات کی روایت صحیح ابوحنیفہ او ر مسند ابی حنفیہ اصلی میں موجود ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ سرے سے موجود ہی نہیں۔ آخر امام صاحب کی کسی حدیث کی کتاب کا وجود ہے کہ نہیں۔ اگر نہیں تو پھر آپ کی تو لٹیا ڈوب گئی۔ اگر ہے تو آخر ان کتابوں میں حدیثیں ہی تو ہیں۔ نکالیے۔! ہم آپ کو ان بارہ کی کیا سب کی روایات دکھا دیں گے۔ آپ نے لکھا ہے کہ ان حضرات کے اسماء گرامی تو آپ نے شاہ اسماعیل شہید کی اندھی تقلید میں جکڑ بند ہو کر لکھے ہیں۔ شکر ہے آپ کو بھی پتا لگ گیا کہ تقلید اندھی ہوتی ہے اگر صرف تقلید اندھی ہو تو اتنا خطرہ نہیں جتنا کہ امام اندھا ہو تو خطرہ ہوتا ہے۔ اگر تقلید بھی اندھی ہو اور امام بھی اندھا ہو تو بیڑا ہی غرق۔ بقول آپ کے ہم نے شاہ شہید کی اندھی تقلید کی ہے۔ لیکن کم از کم سنت رسول ؐ سے تو نہیں ہٹے۔لیکن آپ نے اندھے اماموں کی اندھی تقلید کی اور سنت کے دشمن اور اس کے مٹانے والے بن گئے ۔ اسی لیے تو ہم بار بار کہتے ہیں کہ اگر موجودہ حنفی امام صاحب کے ہی مقلد رہتے تو اتنے گمراہ نہ ہوتے۔ کیوں کہ اگر تقلید اندھی تھی تو امام صاحب تو اندھے نہ تھے۔ وہ تو بہت دوربین تھے۔ اب جو حنفیوں نے معتزلیوں‘کلابیوں اور کرامیوں کی تقلید کی ‘ ان کو اپنا امام بنایا تو یہاں تک نوبت آ گئی کہ سنتوں کے دشمن اور بدعتوں کے عاشق بن گئے۔ اور اتنے دلیر ہو گئے کہ شرماتے ہی نہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ ایک روایت تواتر کے درجے کو پہنچ جائے تو پھر چھانٹنے اور علیحدہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی‘ کیوں کہ اس وقت ضعیف روایت بھی کام دیتی ہے۔ جب چاند کو بہت سے لوگ دیکھ لیں تو پھر یہ فرق کرنا بے کار ہوتا ہے کہ کتنے مسلمان تھے‘ کتنے ہندو ان پڑھ تھے۔ کتنے عالم ۔ اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ پچاس آدمیوں نے چاند دیکھا قطع نظر اس کے کہ وہ کیسے کیسے تھے۔
آپ کہتے ہیں ‘ آپ کے اہل حدیث ہونے کا ثبوت بھی جب ہی فراہم ہوگا جب آپ دیانت داری سے احادیث کی تحقیق میں مصروف ہوں گے۔ میں کہتا ہوں ‘ دیانت داری تو غیر مسلم بھی برت لیتے ہیں۔ فقط دیانت داری سے اہل حدیث ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ اہل حدیث ہونا تو دیانت داری کے ساتھ اتباع سنت سے ثابت ہوتا ہے۔ حنفی اور اہل حدیث میں یہی تو فرق ہے۔ اہل حدیث رسول ؐ کی سنت کا شیدائی۔۔۔ اور حنفی جو ’’حضرات کہیں‘‘ اس کا شیفتہ۔
آپ کہتے ہیں کہ ان میں سجدہ کی رفع الیدین کی روایت بھی ہے۔ میں کہتا ہوں جن روایات میں سجدہ کی رفع الیدین کا ذکر ہے ایک تو وہ صحیح نہیں دوسرے صحیح احادیث یعنی بخاری مسلم ‘ مؤطا کی احادیث کے خلاف ہے۔ اس لیے قابل عمل نہیں۔
آپ کہتے ہیں بعض روایتوں میں ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کا ذکر ہے۔چنانچہ آپ نے حضرت ابوہریرہؓ کی ایک روایت ابن ماجہ صفحہ 63سے پیش کی ہے حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت میں یہ بالکل نہیں۔ یہ تو صرف آپ کے ذہن کی پیدا وار ہے۔ اگر آپ یہ روایت ابن ماجہ میں نہ دکھا سکیں تو دیانت داری سے تسلیم کریں کہ آپ نے جھوٹ بولا ہے۔ رہ گئی ابن عباسؓ کی روایت تواس سے وہ معروف رفع الیدین مراد ہے جس کو علامہ سندھی حنفی نے ابن ماجہ کے حاشیہ میں وضاحت کے ساتھ لکھا ہے۔ اﷲ کی قدرت ہے کہ بنتے مقلد ہیں ‘ چھلانگیں اماموں سے بھی آگے لگاتے ہیں۔ آپ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ آپ ہمیں مزید سنتوں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں‘ میں کہتا ہوں رہنمائی مقلد بے چارہ کیا کرے گا وہ تو خود اندھا ہے اور اندھا بھی دل کا ۔ اس کی اپنی نیت سنت پر عمل کرنے کی نہیں ہوتی۔ لہٰذا س کی طرف سے سنت کی رہنمائی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ سنت کی رہنمائی کی ڈھینگ مارتے ہیں اور اہل نظر یہ کہہ گئے ہیں:
فَاھْرِبْ عَنِ التَّقْلِیْدِ فَاِنَّہ‘ ضَلاَلَۃٌ
اِنَّ الْمُقَلِّدَ فِیْ سَبِیْلِ الْھَالِکِ
آپ کہتے ہیں کہ ان تین جگہوں کے علاوہ باقی مقامات پر ہمیں حنفیہ سے اتفاق ہے۔ میں کہتا ہوں کہ حنفیوں سے اہل حدیث کو اتفاق کیسے ہو سکتا ہے؟وہ تقلید کی وادیوں میں بھٹکنے والے ‘ کبھی کوفے کا رخ کریں ‘ کبھی ماوراء النہر کا‘ کبھی ادھر کا ‘کبھی ادھر کا اور اہل حدیث صرف مدینہ کی راہ جاننے والے۔ نہ وہ ادھر دیکھیں ‘ نہ ادھر ۔
ہوتے ہوئے مصطفیؐ کی گفتار
مت دیکھ کسی کا قول و کردار
حنفی صرف ایک رفع الیدین کے قائل ہیں اور وہ بھی کسی کی تقلید میں۔اہل حدیث چار کے قائل اور صرف رسول اﷲ ﷺ کی پیروی میں۔ حنفی حدیث کو صحیح بھی کہیں اور عمل نہ کریں ۔اہل حدیث کو حدیثِ صحیح مل جائے تو جان دے دیں۔ آپ دیکھیں آپ نے سجدہ کی رفع الیدین کی کتنی حدیثیں لکھیں ہیں اور ان کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے‘ لیکن عمل کرنے کے لیے کبھی تیار نہیں۔ تعجب ہے آپ کے کہنے پر کہ حنفی اہل حدیث کو بھولی بسری سنت بتلائے ‘ سوائے مقلد کے اس کو کون مان سکتا ہے۔ آپ سوچیے اہل حدیث کے پاس سوائے سنت کے اور ہوتا ہی کیا ہے ؟ ہمارے تو صرف ایک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہی ہیں ۔ وہی امام‘ وہی پیر‘ وہی مرشد ‘ وہی ہادی۔ہم نے تو اور کوئی کیا ہی نہیں‘ تاکہ ان کی اطاعت میں قصور نہ ہو۔آپ نے تو کئی کر رکھے ہیں۔ نام لینے کے لیے محمد رسول اﷲ ﷺ ‘ آگے کرنے کے لیے امام ابوحنیفہؒ ‘ مذہب کے لیے معجون مرکب حنفی فقہ جس میں معتزلہ‘ مرجیہ‘کرامیہ‘ کلابیہ ‘ شیعہ سب کی کارستانیاں ہیں۔ سلوک کے لیے کہیں چشتیہ ‘ کہیں سہروردیہ‘ کہیں قادریہ‘ کہیں نقشبندیہ ۔۔۔ عقائد کے لیے ماتریدیہ۔۔ ۔ اب بتائیے جس کے اتنے ہوں سنتیں اس کو بھولیں گی یا اہل حدیث کو جن کا ہے ہی ایک۔
راہے است از ایں غم کدہ تا روضہ رضواں
ما غیر رہنما را نشاسیم
ما فرقہ اسلام بہ توفیق الٰہی
جز ہدی نبی غیر ہدی راہ انشاسیم
آپ کہتے ہیں ہمارا احسان مانیں‘ ہم کہتے ہیں کہ ہم آپ کا مانیں یا آپ ہمارا۔ خدارا کوئی بات تو سیدھی کیا کریں۔ دین اہل حدیث لائے یا حنفی ۔ حنفی بے چارے تو کہیں دو تین سو سال بعد جا کر پیدا ہوئے ہیں۔ بتلائیے امام ابوحنیفہ صاحب سے پہلے بھی حنفی تھے ‘اگر نہیں اور یقیناًنہیں ‘ کیوں کہ بیٹا باپ سے پہلے نہیں ہوتا تو بتائیے امام ابوحنیفہ سے پہلے کون لوگ تھے؟ حنفی ‘ شافعی وہ نہ تھے۔ مالکی‘ حنبلی وہ نہ تھے۔ چشتی قادری وغیرہ ۔۔ وہ نہ تھے۔ آخر وہ کیا تھے؟ کچھ تو خیال کریں۔ ہمیں کہتے ہیں کہ شرمائیے اورخود شرم کی چادر اتار کر امام ابوحنیفہ صاحب کے صندوق میں بند کر کے رکھ دی ہے۔ کتابیں ویسے ضائع کر دیں‘ شرم ایسی اتار دی ۔۔۔ وہ اولاد بھی کیسی نااہل ہوتی ہے جو اپنے باپ کے قیمتی اثاثے کو ضائع کر دے۔ کتابوں کے ضیاع سے علم بھی گیا۔ اب شرم بھی گئی۔
آپ کہتے ہیں جو جواب آپ سجدے میں جاتے اور اس سے سراٹھاتے وقت اور دونوں سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرنے کی روایت کا دیں وہی جواب ہماری طرف سے رکوع میں جاتے اور اس سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کا قبول فرمائیں۔ میں کہتا ہوں کہ آپ کا جواب وہی کیسے ہو سکتا ہے ؟ ہم سجدوں میں رفع الیدین کے مشروع ہونے کے ہی قائل نہیں‘ کیوں کہ یہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ‘ بلکہ صحیح حدیثوں میں اس کی سخت نفی ہے۔ لہٰذاسجدوں کی رفع الیدین کے منسوخ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ منسوخ تو تب ہو جب مشروعیت ثابت ہو۔ جب مشروعیت ہی نہیں تو نسخ کیسا؟ نسخ کا سوال تو رکوع کی رفع الیدین کا ہے۔ جس کا مسنون ہونا آپ کو بھی تسلیم ہے‘ اور ہمیں بھی ۔ لہذا آپ اس کا نسخ دکھائیں۔ ہمار ی اوٹ میں جان نہ بچائیں۔ ہمارا اور آپ کا معاملہ ایک نہیں۔ ہم تو کہتے ہیں کہ رفع الیدین جو ایک تعبدی فعل ہے‘ اس کے نسخ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عبادت مشروع ہونے والی چیز ہے‘ نہ کہ منسوخ۔ نماز میں جتنے ممنوعات ہوئے وہ سب عادی تھے۔ان میں سے عبادی کوئی نہ تھا۔ مسنون رفع الیدین پہلے ہی سے عبادی امور میں سے ہے اس لیے یہ منسوخ نہ ہوئی۔ جو رفع الیدین عبادی نہ تھی بلکہ عادی تھی وہ ختم کر دی گئی۔ جیسے سلام کے وقت دائیں بائیں ہاتھ اٹھانا۔ سجدہ کے رفع الیدین کے سلسلہ میں جو روایت آتی ہے ‘ اولاً تو وہ صحیح نہیں ۔ اگر کھینچا تانی سے کسی کو صحیح بنایا بھی جائے تو اس میں وہ رفع الیدین مراد ہے جو ضد جرالیدین ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب سجدہ سے سر اٹھائے تو ہاتھوں کو گھسیٹ کر رانوں پر نہ لائے بلکہ اٹھا کر لائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ چہرے کے ساتھ ہاتھ بھی سجدہ کرتے ہیں۔ جب پیشانی کا سجدہ کرو تو ہاتھوں کا بھی سجدہ ساتھ کرو۔ جب چہرہ اٹھے تو ہاتھ بھی اٹھائیں ۔۔۔ یعنی اٹھا کر رانوں پر رکھے جائیں۔ گھسیٹ کر نہیں۔ اس روایت کو بعض راویوں نے سجدے کی رفع الیدین سے تعبیر کیا ہے ‘ لیکن حقیقت میں یہ ویسی رفع الیدین نہیں جو تکبیر تحریمہ یا رکوع کے وقت کی جا تی ہے۔ اس طرح سے احادیث میں تطبیق بھی ہوجاتی ہے اور زیادہ احادیثوں کا اہمال بھی لازم نہیں آتا۔ ان حنفی مقلدوں کو پتا نہیں کیا ہو گیا ہے ۔ آٹھ دس حدیثیں سجدے کی رفع الیدین کی صحیح بنا دیں۔ اب نہ ان کو منسوخ ثابت کر سکتے ہیں‘ نہ ان پر عمل کرتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ ہمارا دعویٰ صرف دس فیصدی سچا ہے۔ میں کہتا ہوں ہمارا دعویٰ سو فیصدی سچا ہے۔ ہمارا دعویٰ تھا کہ رفع الیدین حضور ﷺ کی سنت ہے۔ جو صحاح ستہ کی بہترین سے بہترین روایت سے ثابت ہے۔ ہم نے اس کی تائید میں تنویر العینین کا حوالہ پیش کیا۔ ہمارے دعویٰ کا ثبوت صحاح ستہ کی احادیث ہیں نہ کہ تنویر العینین کا حوالہ۔تنویر العینین کا حوالہ تو صرف تائید کے لیے ہے۔ یہ آپ کی کم فہمی ہے جو اس کو دعویٰ کی دلیل بناکر اس پر بحث کر رہے ہیں۔ حوالہ ہمارا وہ بھی ٹھیک ہے جو تنویر العینین میں موجود ہے۔ یہ تنویر العینین والے نے آگے جن کا حوالہ دیا ہے‘ وہ حوالے بھی موجود ہیں۔ اب آپ بتائیے کہ ہمارے دعوے کے ثبوت میں کیا کمی رہی۔ آپ کہتے ہیں کہ ان صحابہ کی روایات پیش کریں۔ میں کہتا ہوں جب ہمارا دعویٰ صحاح ستہ کی احادیث سے ثابت ہے تو ہمیں ان تمام روایتوں کے پیچھے پڑنے کی کیا ضرورت ؟ خصوصاً جب کہ امام حاکم اور امام بیہقی جیسے ائمہ دعویٰ کے ساتھ کہتے ہیں کہ عشرہ مبشرہ یا دیگر اتنے صحابہ سے یہ بات مروی ہے۔ آپ ان کی نقل اور شہادت کو نہیں مانتے ۔ اس وجہ سے نہیں کہ آپ کو شک ہے۔بلکہ اس وجہ سے کہ حمیت جاہلیہ آپ کو مجبو ر کرتی ہے ورنہ یہ وہ امام ہیں جن کے بارے میں مشکوۃ شریف کے مقدمہ میں ہے اِنِّیْ اِذَا نَسَبْتُ الْحَدِیْثَ اِلَیْھِمْ کَاَنِّیْ اَسَنَّدتُ اِلَی النَّبِیِّ ۔ ’’یعنی یہ لوگ غلط نسبت کبھی نہیں کرتے۔ حدیث ہوتی ہے تو کرتے ہیں ورنہ نہیں‘‘
اس کے علاوہ امام بخاریؒ اپنے رسالہ جزء رفع الیدین میں لکھتے ہیں: ’’قَالَ الْحَسْنُ وَالْحُمَیْدُ بْنُ ہَلاَلٍ کَانَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ ﷲِ یَرْفَعُوْنَ اَیْدِیَھِمْ وَ لَمْ یَسْتَثْنَ اَحَدًا مِّنْ اَصْحَابِ رَسُوْلِ ﷲِ دُوْنَ اَحَدٍ‘‘ حضرت حسن اور حمید بن ہلال نے بیان کیا کہ حضور ﷺ کے صحابہؓ نماز میں رفع الیدین کرتے تھے۔ انھوں نے کبھی کسی صحابیؓ کو مستثنیٰ نہیں کیا کہ وہ کبھی رفع الیدین نہ کرتاا ور رفع الیدین بھی متنازع فیہ۔ چنانچہ امام بخاریؒ اپنے رسالہ میںآگے صراحت سے فرماتے ہیں۔ اِذَا رَکَعُوْا وَ اِذَا رَفَعُوْا رُؤُوْسَھُمْ ۲۵ یعنی رکوع کو جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت کی رفع الیدین کا ذکر ہے۔اسی طرح وائل بن حجرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں 10ھجری میں سردیوں میں آیا تو میں نے صحابہؓ کو رفع الیدین کرتے دیکھا۔ حضرت وائل بن حجرؓ صحابی رسول ؐ نے کسی صحابی کو مستثنیٰ نہیں کیا۔ اب آپ سوچیے کہ کیا یہ صحابہؓ جن کی شہادت ملی ہے سینکڑوں نہ تھے؟
آپ نے ہم پر غلط بیانی کا بھی الزام لگایا ہے۔ غلط بیانی تو تب ہوتی اگر ہمارا حوالہ تنویر العینین میںیا جن کے حوالے سے ہم نے نقل کیا ہے ‘ ان کے ہاں نہ ہوتا۔ جب تنویر العینین میں ہمارا پیش کردہ حوالہ موجود ہے اور دیگر ائمہ بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں تو غلط بیانی کیسی ‘ کسی روایت کا نہ ہونا اور نہ ملنا اور بات ہے۔ امام ترمذیؒ جو کہتے ہیں فی الباب عن فلان و فلاں ۔۔۔ تو کیا وہ ساری روایات مل جاتی ہیں ؟ اب اتنے بڑے بڑے ذخیرہ حدیث کے کہاں ہیں جو ساری روایات مل جائیں۔ جب چایس ہزار حدیثیں تو اکیلے نعمانی صاحب نے اپنے روحانی باپ کی گم کر دیں تو اور حنفیوں نے کیا کچھ نہیں کیا ہوگا۔ احادیث کے ذخیروں کے اتنے بڑے بڑے نقصانات کے بعد آپ کا یہ پوچھنا کہ فلاں کی روایتیں کہاں ہیں۔ ائمہ کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیاہے؟ غلط بیانی کا الزام اصل میں آپ لگا تو ان ائمہ پر رہے ہیں لیکن منافقت کی وجہ سے نام ہمارا لیتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں بارہ نام تو یوں خارج ہو گئے کہ ان کی روایت کا سرے سے خارج میں کوئی وجود ہی نہیں۔ صرف آپ کے ذہن میں ہے ‘ میں کہتا ہوں آپ جو اس بات کو یوں کہہ رہے ہیں کہ ان روایتوں کا سرے سے خارج میں کوئی وجود ہی نہیں تو سیدھے ان کو کیوں نہیں کہہ دیتے کہ امام بیہقی ‘ امام حاکم اور دیگر ائمہ جنھوں نے یہ بات کہی سب جھوٹے ہیں‘ تاکہ کم از کم آپ منافقت سے تو بچ جائیں اور جو ہو سو ہو۔
آپ یہ بتائیں کہ آپ نے جو امام صاحب کی چالیس ہزار حدیثوں کا دعویٰ کیا ہے کیا وہ خارج میں موجود ہیں‘ یا صرف اندھی تقلید کی وجہ سے آپ کے ذہن میں ہی ہیں۔ اگر اس وقت ایک بھی روایت امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲعلیہ کی صحیح سند کے ساتھ نہ ملے تو کیا اس سے آپ کے اصول کے مطابق یہ لازم نہیں آئے گا کہ ان کے پاس کوئی حدیث نہ تھی۔ کیا یہ جھوٹ ہے کہ انھوں نے چالیس ہزار حدیثوں میں سے آثار چھانٹی۔ اگر جھوٹ نہیں تو وہ
چالیس ہزار احادیث کہاں ہیں۔ اگر وہ حدیثیں خارج میں نہ ملیں تو آپ دیانت داری سے تسلیم کریں کہ آپ جھوٹے ہیں۔ امام بخاریؒ نے فرمایا ۔ مجھے ایک لاکھ احادیث صحیح یاد ہیں اور دو لاکھ غیر صحیح اکمال۔
اب کیا ان کی یہ تمام احادیث اس وقت خارج میں موجود ہیں ۔ اگر خارج میں موجود نہ ہوں تو کیا آپ کے اصول کے مطابق وہ جھوٹے ہوں گے۔ آخر کچھ تو اپنے پڑھے کی لاج رکھیں۔ جاہل سے جاہل آدمی بھی ایسی بات نہیں کہتا۔ سنت پر عمل کرنا تو آپ کی قسمت میں نہیں تھا۔ ایسی ہرزہ سرائی کرکے خدا کے غضب کو تو دعوت نہ دیں۔
آ پ نے ام درداءؓ کے بارے میں اعتراض کیا ہے کہ وہ صحابیہ ہیں یا نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ آپ امام بخاری ؒ کے رسالہ کو دیکھ لیں آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی۔ آپ کہتے ہیں جب کچی پکی روایتیں چھٹ جائیں تو پھر بتائیں کہ اب کیا باقی بچے؟ میں کہتا ہوں جو بھی باقی بچیں۔آپ کو منکر حدیث اور سنت ثابت کرنے کے لیے تو کافی ہیں۔آپ نے صحاح ستہ کی صحیح احادیث سے ثابت ہے کا مطلب بھی خوب سمجھا کہ صحاح ستہ کی ہر کتاب کی صحیح احادیث سے ثابت ہو۔ اگر آپ کے علم کو تقلید چاٹ گئی تھی اور سمجھنے کی صلاحیت بالکل ختم ہو گئی تھی تو افغانی صاحب سے ہی پوچھ لیتے ۔ وہ آپ کو بتا دیتے کہ برخوردار یہ قضیہ مہملہ ہے کہ جس میں حکم افراد پر ہوتا ہے لیکن یہ بیان نہیں ہوتا کہ بعض کے لیے ‘ یا سب کے لیے ‘ یا کتنوں کے لیے تمھیں اتنی سی بات بھی نہیں آتی۔ کیا پڑھتے ہو گے۔ تم پر تو بچے بھی ہنستے ہوں گے۔ ایک آپ جیسے ہی علامہ تھے جن کا عقیدہ تھا کہ پیغمبر جنوں میں بھی بہت آئے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ یا علامۃ الدھر آپ جو اتنی قطعیت سے کہہ رہے ہیں آخر اس کا ثبوت کیا ہے ؟ تو فوراً انھوں نے قرآن مجید کی یہ آیات پڑھیں۔(یٰامَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ )[6:الانعام:130]فرمانے لگے یہ عقیدہ تو نص قرآنی سے ثابت ہے۔ آپ کا طرز استدلال دیکھ کر مجھے وہ علامہ یاد آ گئے کہ وہ بھی آپ کی طرح ’’منکم‘‘ سے یہ استدلال کرتے تھے کہ دونوں میں سے ہر ایک میں رسول آئے۔ وہ یہ نہ سمجھے کہ اگر دونوں میں سے ایک میں بھی رسول آئے ہوں تو ’’منکم‘‘ صادق ہوگا۔ میں نے کہا ابھی دنیا میں علامہ بہت ہیں ‘ ابھی دنیا علاموں سے خالی نہیں ہوئی۔ پھر خصوصاً آپ کے مذہب میں تو ایسے بہت سے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
آپ کہتے ہیں ہمیں اس دعوے کی بھی صحت تسلیم نہیں کہ مسلم اور ابوداؤد کی وائل بن حجرؓ کی احادیث سے ثابت ہے کہ حضور ﷺ اپنی وفات سے چند ماہ قبل تک بھی رفع الیدین کرتے رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ آپ کو تسلیم ہے کیا ؟ جب آدمی لاَ یُؤْمِنُوْنَ کے درجے کو پہنچ جاتا ہے تو پھر یہی ہوتا ہے۔ مسلم شریف کی روایت میں حضرت وائل بن حجر کا بیان ہے کہ میں نے حضور ﷺ کو متنازع فیہ رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا۔ آپ بتائیں کہ وائل بن حجرؓ کب مسلمان ہوئے؟ علامہ عینی عمدۃ القاری میں لکھتے ہیں۔ ’’اَسْلَمَ فِی الْمَدِیْنَۃِ فِی سَنَۃِ تِسْعٍ مِنَ الْہِجْرَۃِ ‘‘ یعنی 9ھجری میں مدینہ میں مسلمان ہوئے۔ مسلم شریف کی حدیث سے معلوم ہوا کہ موسم سردیوں کا تھا۔ یعنی 9 ہجری کے آخر میں۔ چوں کہ جنگ تبوک رجب میں ہوئی جب کہ سخت گرمی تھی ۔ پھر ابوداؤد میں ہے ثُمَّ جِئتُ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فِیْ رَمَضَانَ فِیْ بَرْدٍ شَدِیْدٍ ۔ نسائی میں ہے: ثُمَّ اَتَیْتُھُمْ مِنْ قَابَلٍ۔۲۶ طحاوی میں اور صراحت ہے مِنْ عَامٍ قَابِلٍ یعنی وائل بن حجرؓ بیان کرتے ہیں کہ اگلے سال سردی کے موسم میں دوبارہ آیا (قریباً شوال 10ھ میں ) اور پھر ان کو رفع الیدین کرتے دیکھا۔ حضور ؐ ربیع الاول 11ہجری کو فوت ہوتے ہیں۔ اس حساب سے کل چھ سات مہینے کا وقفہ بنتا ہے۔ اس طرح یہ ثابت ہے کہ حضور ؐ اپنی وفات سے چند ماہ قبل تک بھی رفع الیدین کرتے رہے ہیں۔
مقلد بصیرت کا اندھا تو ہوتا ہی ہے اب معلوم ہوا کہ اس کا ذوق بھی گندا ہوتا ہے۔ اچھی چیز اس کے سامنے ہو تو اسے نہیں لے گا۔ ردی‘ بچی کھچی چیز کو دوڑ کر پکڑے گا۔ ابوداؤد میں وائل بن حجرؓ کی وہ حدیث بھی ہے جس میں سجدوں کی رفع الیدین کا ذکر نہیں ۔ مقلد نے اسے نہیں لیا‘ اس کو لیا جس میں سجدوں میں رفع الیدین ہے۔ حالانکہ خود امام ابوداؤد نے اس کے شذوذ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: رَوٰی ھٰذَا الْحَدِیْثَ حَمَامٌ عَنِ ابْنِ حُجَادَۃَ وَ لَمْ یَذْکُرِ الرَّفْعَ مَعَ الرَّفْعِ مِنَ السُّجُوْدِ‘‘ ۲۷ ابن حجادہ کا ایک شاگرد سجدے کی رفع الیدین کا ذکر کرتا ہے‘ دوسرا نہیں۔ ان کی مراد اس سے یہ ہے کہ یہ صحیح نہیں۔ اس کے بعد وہ وائل بن حجرؓ کی حدیث دوسری سند سے نقل کرتے ہیں ۔ اس میں سجدہ کی رفع الیدین کا ذکر نہیں۔ اس سے وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اصل میں وائل بن حجرؓ کی حدیث میں سجدہ کی رفع الیدین ہی نہیں۔ اگر کسی طریق میں ہے تو کسی نچلے راوی کی خطا ہے۔ ہمارے معترض نے وائل بن حجرؓ کی وہ روایت نہ لی جو مسلم میں ہے۔ حالانکہ مسلم کا درجہ بخاری کے بعد صحاح ستہ میں سب سے اونچا ہے۔ اس روایت میں بھی رفع الیدین کا ذکر نہیں۔ یعنی مسلم کی اعلیٰ روایت کو چھوڑا ‘ ابوداؤد کی صحیح روایت کو چھوڑا ‘ جو بخاری مسلم کی احادیث کے مطابق تھی۔ ابوداؤد کی اس روایت کو لیا جس کو خود امام ابوداؤد نے مجروح کیا ہے۔ آخر کیوں ؟ صرف اس وجہ سے کہ مقلد مطلبی ہوتا ہے۔ ہمیشہ ردی اور بچی کھچی چیز کو ہی لیتا ہے۔ اہل حدیث اور حنفی میں ہمیشہ یہی فرق ہوتا ہے۔ اول تو حنفی حدیث کو لیتا ہی نہیں‘ کیوں کہ اسے ضرورت ہی نہیں ہوتی ۔ ضرورت تو اسے ہو جسے نبیؐ کی اطاعت کرنی ہو۔ اسے تو فقہ کو ماننا ہے‘ خواہ حدیث کچھ کہے اور اگر مقلد حدیث لے بھی لے‘ تو بچی کھچی۔ جس کو اہل حدیث نے ضعیف سمجھ کر چھوڑ دیا ہو۔ غریب اول تو سبزی یا گوشت لیتا نہیں ‘ سوکھی روٹی کھا لیتا ہے لیکن اگر لے بھی تو بچی کھچی شام کو جا کر۔ اعلیٰ اور تازہ توکبھی اس کی قسمت میں ہوتی ہی نہیں۔ مقلدوں کا بالکل یہی حال ہے۔ اختلاف میں کبھی اس کو صحیح حدیث نصیب نہ ہوگی ‘ ادھر ادھر گری پڑی کو ہی ہاتھ ماریں گے۔
آپ غصے میں عقل سے باہر کیوں ہو رہے ہیں۔ کچھ سمجھیں تو سہی‘ بیہقی کی روایت کو ہم نے اپنے دعوے کے ثبوت میں پیش نہیں کیا۔ اگر یہ ہمارے دعویٰ کا مستدل ہوتا ہے تو آپ سے یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ نسخ کی کوئی حدیث دکھاؤ جو 10ھ کے بعد کی ہو۔ ہمارا 10ھجری کے بعد کی حدیث کا مطالبہ کرنا صاف دلالت کرتا ہے کہ ہم نے بیہقی کی روایت سے عدم نسخ پر استدلال نہیں کیا۔
اگر بیہقی کی روایت سے استدلال ہوتا تو 10ہجری مقرر کرنا بیکار تھا۔ کیوں کہ بیہقی کی روایت تو وفات تک کی رفع الیدین کو بیان کرتی ہے۔ رہ گیا اس کے پیش کرنے پر اعتراض تو وہ اس وجہ سے غلط ہے کہ ہم نے اس کو بطور ثبو ت کے پیش نہیں کیا بلکہ بطور تائید کے پیش کیا ہے۔ ثبوت اور تائید میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ تائید میں تو ضعیف روایت بھی پیش کی جا سکتی ہے۔ آپ نے ہمارے رسالے کی عبار ت کو نہیں سمجھا یا سمجھا لیکن تلبیس کرتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے خود بھی لکھا ہے: گروہ بندی اس لیے تو بری چیز ہے کہ ایک اعلیٰ چیز کو چھوڑ کر ایک گھٹیا چیز لینی پڑتی ہے۔ ہمارے رسالے کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ تیسرے چوتھے درجے کی روایت سے اول درجہ کی روایات کا مقابلہ کرنا یا ایسی ضعیف روایت کو کسی مسئلے کی بنیاد بنانا جس کا اصل صحاح ستہ میں نہ ہو ‘ یہ صرف گمراہ فرقوں کا کام ہے۔
آپ نے یہ کیسی جہالت کی بات کہی ہے کہ بیہقی کا حوالہ دینا ہی نہیں چاہیے تھا۔ ہم نے اپنے رسالہ میں یہ کہاں لکھا ہے ‘ یا پہلے ائمہ نے کہاں کہا ہے کہ تیسرے درجے کی کتابیں تائیدی حوالوں میں بھی پیش نہیں کی جا سکتی۔ تیسرے درجے کی کتابوں میں ہر طرح کی احادیث ہوتی ہیں۔ ایک ماہر فن ان سے تائید کے لیے متابعات اور شواہد کا کام لے سکتا ہے اور محدثین ہمیشہ ایسا کرتے رہے ہیں۔ البتہ ان کے تفردات سے استدلال ٹھیک نہیں۔ ہم نے بیہقی کی روایت کا حوالہ تائید کے لیے دیا ہے۔ اور تائید کے لیے تیسرے درجے کی کتابوں کی احادیث پیش کرنے کی نفی تو ہم نے نہیں کی۔ ہم نے نفی اس بات کی کی ہے کہ ان پر دارومدار اعمال کا نہیں۔ان کو بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ جب کسی حدیث کا اصل درجہ ادنیٰ و ثانیہ میں پایا جائے تو اس کی وضاحت کے لیے ‘ تائید کے لیے ان کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ رہ گیا آپ کا یہ کہنا کہ اس کی سند کی تحقیق کرتے تو آپ کا خیال ہے اہل حدیث اور پھر تحقیق نہ کرے۔ تحقیق تو مقلد نہیں کرتا‘ کیوں کہ تحقیق اور تقلید آپس میں ضد ہے۔ اگر تحقیق کی تو تقلید نہ رہی اگر تقلید کی تو تحقیق نہ رہی۔ لیکن اہل حدیث ہمیشہ تحقیق کرتا ہے کیوں کہ وہ تقلید نہیں کرتا۔ ہم نے اس روایت کی تحقیق کی تو ہم نے دیکھا کہ یہ اس قابل ہے کہ اس سے تائید کا کام لیا جائے۔ اگرچہ اس کا ایک راوی ساقط الاعتبار ہے‘ لیکن یہ حدیث معنی کے اعتبار سے ساقط نہیں۔ اس کی تائید دیگر روایات سے ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ جو متنازع رفع الیدین کے راوی بھی ہیں اور خود عامل بھی۔ اپنی نماز پڑ ھ کر فرماتے ہیں :’’ مَا زَالَ ھٰذِہِ صَلٰوتُہ حَتّٰی فَارَقَ الدُّنْیَا‘‘ ۲۸ کہ حضور ﷺ کے فوت ہونے تک ان کی نما ز یہی تھی۔ظاہر ہے کہ ان کی یہ نماز رفع الیدین کے ساتھ ہوگی‘ کیوں کہ وہ رفع الیدین کے عامل تھے۔ یہی مضمون حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کی بیہقی کی روایت کا ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ حضور کے بعد بھی رفع الیدین کیا کرتے تھے بلکہ جو رفع الیدین نہ کرتا اسے کنکر مارتے تھے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کے نزدیک رفع الیدین منسوخ نہ تھی تو یہ حضور کا معمول تھی۔ یہی بیہقی کی روایت بیان کرتی ہے حضرت وائل بن حجرؓ کا 10ہجری میں ‘ حضور ﷺ کی وفات سے چند ماہ قبل کی شہادت دینا یہ بھی مؤید ہے اس بات کا کہ رفع الیدین آپ کا آخر تک فعل تھا۔ اس کے علاوہ قریباً تمام صحابہؓ کا حضور ﷺ کے بعد بھی رفع الیدین کرنا دلالت کرتا ہے کہ رفع الیدین منسوخ نہ ہوئی تھی اور آپ آخر تک اسے کرتے رہے۔ یہی بیہقی کی روایت ہے۔ رہ گیا آپ کا ان روایات کے راویوں کو جھوٹا کہنا تو یہ تقلید ناپسندید کا قصور ہے۔ آپ نے اپنے رسالے میں لکھا ہے کہ عبدالرحمٰن بن قریش ھروی جھوٹا ہے اور حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔ کیا آپ دکھا سکتے ہیں کہ کسی معتبر کتاب سے کہ کسی نے اس کو جھوٹا کہا ہو۔یا یہ کہ وہ حدیثیں گھڑتا تھا ۔ سلیمانی نے صرف اس پر وضع کی تہمت لگائی لیکن اس کا وضاع ہونا ثابت نہیں ہوا۔ اس سے بڑی دلیل مقلد کے اندھا ہونے کی اور کیا ہو سکتی ہے؟ کہ ہمیں کہتا ہے کہ انھیں نصب الرایۃ میں اس کی سند نظر نہیں آتی اور خود یہ حال ہے کہ نصب الرایہ میں نیچے خطیب کے حوالہ سے اس عبدالرحمٰن بن قریش کے بارے میں صاف لکھا ہے :’’لَمْ اَسْمَعُ فِیْہِ اِلاَّ خَیْرًا‘‘ میں نے تو اس کی تعریف ہی سنی ہے۔ اس کا اچھا ذکر ہی سنا ہے۔ اب دیکھیے تقلید ناپسندید کیسے اندھا کر دیتی ہے اور تعصب میں کیا کیا کچھ کرواتی ہے۔ مردے بھائی کا گوشت تک کھلانے سے دریغ نہیں کرتی۔ (اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا )[49:الحجرات:12]عبدالرحمٰن بے چارے کو کذاب بھی کہا‘ اور وضاع بھی۔ اﷲ معاف کرے۔!اگر کسی روایت میں کوئی راوی ساقط الاعتبار بھی ہو تو اہل نظر جو کہ اہل حدیث ہی ہو سکتے ہیں دیکھ لیتے ہیں کہ اس کی یہ روایت کیسی ہے۔ آدمی کیسا ہی جھوٹا کیوں نہ ہو وہ بھی کبھی نہ کبھی سچ بول لیتا ہے۔ اس لیے جھوٹے کی بھی وہ بات جو جھوٹی نہ ہو لی جا سکتی ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے سنکھیا سے کوئی فائدہ اٹھا لینا۔ حکیم مضر سے مضر اور موذی سے موذی چیز سے بھی فائدہ اٹھا لیتا ہے۔ لیکن ایک جاہل اگر اس کو استعمال کرے تو خود بھی مرے گا اور دوسروں کو بھی مارے گا۔احادیث کے حکیم محدثین ہیں ۔ وہ خوب جانتے ہیں ‘ کون سی حدیث کس قابل ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ہم احناف کو ضعیف حدیث سے استدلال کی اجازت نہیں دیتے کیوں کہ وہ اس راہ کے راہی نہیں۔ وہ حدیثوں کو جانچ نہیں سکتے۔ تقلید کی وجہ سے ان کی بصارت و بصیرت کا م نہیں کرتی۔ اس لیے ہم ان کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ تم حدیث ‘ اہل حدیث سے لیا کرو۔ خود ٹکریں نہ مارا کرو۔ لیکن یہ خود سر ہو جاتے ہیں اور قلابازیاں کھاتے ہیں ۔ دنیا کی رسوائی بھی سر لیتے ہیں اور آخرت کا خطرہ بھی۔ آپ نے لکھا ہے:’’ آپ کو اگر روایت کا حال معلوم تھا اور باوجود اس کے آپ نے اس کو استدلال میں پیش کیا تو مرتکب حرام ہوئے۔ اس سے علی الاعلان توبہ کیجیے۔ میں پوچھتا ہوں اگر یہ کام نصب الرایہ والے حنفی بزرگ کریں تو ان سے بھی توبہ کرائیں گے یا مجھ سے ہی۔ پہلے آپ ان سے توبہ کرالیں۔ پھر میں کر لوں گا۔ نصب الرایہ والے نے دعویٰ النسخ کے وہم کو زائل کرنے کے لیے اس روایت کو نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو نصب الرایہ ص409 اور اس پر تنقید نہیں کی۔ بلکہ اس سے نسخ کا دعویٰ روکنا ہے۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بیہقی کی روایت حافظ جمال الدین زیلعی کے نزدیک بھی قابل استدلال ہے۔ اب دیکھ لیجیے آپ کے گھر والوں نے آپ کے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا یا اس کے علاوہ اس حدیث کو حافظ الحدیث ابن حجر عسقلانی ؒ نے بھی اس حدیث کے مالہ و ما علیہ جو جانتے ہوئے بغیر کسی تنقید کے ذکر کیا ہے۔ اب آپ اپنے بزرگ مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی کا فیصلہ بھی سن لیں۔ وہ لکھتے ہیں جو کتب معتبرہ میں مصرح موجود ہے کہ نقل روایت کے بعد سکوت کرنا یعنی روایت پر کسی قسم کا طعن و جرح نہ کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ ناقل کے نزدیک وہ روایت مقبول ہے۔ ورنہ ساکت متہم بہ تقصیر ہوگا جو اس اکابر کی نسبت خیال باطل ہے۔ رسالہ احسن القری ص 13محمد بن ابی عائشہ ۔۔۔ کہیے اب بھی کوئی کسر ہے ؟ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔۔ والی بات ہوئی کہ نہ۔
آپ نے 14 پر یہ شکوہ بھی کیا ہے کہ اہل حدیث چاہتے ہیں کہ حنفی ہماری روایتوں کو آنکھیں بند کرکے قبول کرلیں۔ میں کہتا ہوں بھئی! یہ آپ کے فائدے کے لیے ہے۔ ایک تو آپ سے یہ کام ہوتا نہیں‘ کیوں کہ آپ اس کام کے قابل نہیں۔ پہلے دن سے ہی حدیث میں یتیم و مسکین رہے ہیں ۔ دوسرے تقلید کی وجہ سے آپ کو نظر نہیں آتا۔ حدیث کے لیے بڑی صاف اور تیز نظر کی ضرورت ہے۔ تیسرے آپ کو مسئلے بنانے سے فرصت نہیں ملتی۔ اس کے لیے وقت بہت درکار ہے۔ چوتھے نیت اچھی ہونی چاہیے‘ جو حدیث کو عمل کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے ہاتھ لگاتے ہیں۔ ان کو حدیث نہیں آتی۔ مقلد چونکہ بدنیت بھی ہوتا ہے اور مطلبی بھی۔ اس لیے حدیث کے معاملے میں بے نصیب ہی رہتا ہے۔ مولانا روم نے کیا خوب کہا ہے:
نوحہ گر باشد مقلد در حدیث
جز طمع نہ بود مراد آں خبیث
صفحہ 15 پر آپ نے یہ شکوہ کیا ہے کہ اہل حدیث ہماری روایتوں پر تنقید بہت کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں اس لیے کہ آپ سے خطرہ بہت ہے۔ آپ لوگوں کو حدیث کی پہچان بالکل نہیں ہوتی۔ آپ کے نزدیک گدھا گھوڑا ایک برابر ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ حدیث کو جانچنا ‘ آپ کا کام نہیں۔ شاہ ولی اﷲ ’’ انصاف‘‘ میں فرماتے ہیں : وَاشْتِغَالُھُمْ بِعِلْمِ الْحَدِیْثِ قَلِیْلٌ قَدِیْمًا وَ حَدِیْثًا ۲۹
یعنی حنفیوں کی توجہ حدیث کی طرف ہمیشہ کم رہی ہے۔
امام احمد بن حنبل ؒ فرمایا کرتے تھے:
’’ھٰؤُلاَءِ اَصْحَابُ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ لَیْسَ لَھُمْ بَصَرٌ بِشَیْءٍ مِّنَ الْحَدِیْثِ مَا ھُوَ اِلاَّ الْجُرْأۃَ ‘‘ ۳۰
یعنی حنفیوں کو علم حدیث میں مہارت نہیں ہوتی خواہ مخواہ جرأت کرلیتے ہیں۔
صفحہ 15 پر آپ نے لکھا ہے:’’ گویا آپ ترک رفع الیدین کی سب روایتوں کی تحقیق کیے بیٹھے ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ مسند احمد ‘ سنن نسائی‘ سنن ابی داؤد‘ سنن ترمذی میں جتنی روایات اس باب میں ہیں ان میں کوئی صحیح نہیں۔‘‘ جنا ب ہم ترک رفع الیدین کی تمام روایتوں کی تحقیق کیے بیٹھے ہیں ۔ کسی کتاب میں ایک بھی روایت ایسی نہیں جو صحیح ہو اور مجروح نہ ہو۔ اگر ہو تو پیش کیجیے اور اپنی حیثیت کے مطابق ہم سے انعام وصول کیجیے۔
آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ پہلے صحیح غیر صحیح کا معیار مقرر کر لیں۔ میں کہتا ہوں ‘ ہمیں وہی معیار منظور ہے جس پر امام صاحب نے حدیثوں کو جانچا اور پاس کرکے صندوق میں بندکر دیا۔ اور پھر وہ صندوق نعمانی صاحب کو دے دیا کہ لو بیٹا سنبھال کے رکھنا ۔ اب نعمانی صاحب صندوق کھول کر حدیثیں دکھاتے جائیں اور ہم سے’’ پڑتال شد‘‘ کے دستخط لیتے جائیں۔ میں تو آپ کی جرآت سے حیران ہوں کہ حال یہ ہے اور دعویٰ کیا کرتے ہیں ؟
آپ جب سیدھے طریقے سے معروف رفع الیدین کا نسخ نہ دکھا سکے تو آپ نے ہمیں پھانسنے کے لیے سجدہ کی رفع الیدین کی حدیثوں کا جال بچھایا‘ لیکن جیسے انجان شکاری خود شکار ہو جاتا ہے ‘ اس جال میں خود ہی پھنس گئے۔ اب سوچیے آپ نے جو یہ پانچ چھ حدیثیں حضرت مالک بن حویرثؓ اور حضرت وائل بن حجرؓ کی پیش کی ہیں آپ کے خیال میں تو صحیح ہیں کیوں کہ آپ نے ان سے سجدے کی رفع الیدین ثابت کی ہے۔ رکوع کی بھی ان سے خود بخود ثابت ہو جاتی ہے۔ اور یہ ہیں بھی 9 اور 10 ہجری کی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آپ نے یہ تسلیم کر لیا کہ سن 10ہجری تک حضور ﷺ رکوع اور سجدہ کی رفع الیدین کرتے رہے۔ اب آپ بتائیے کہ سن 10ہجری کے بعد رکوع اور سجدہ کی رفع الیدین منسوخ ہوئی یا نہیں؟ اگر منسوخ ہوئی تو کس حدیث سے ۔ اگر آپ کہیں کہ عبداﷲ بن مسعودؓ والی سے یا کسی اور سے تو میں کہوں گا کہ ان کی تاریخ بتائیے کہ وہ کس زمانے کی ہیں۔ سن 10ہجری کے بعد کی ہیں یا پہلے کی۔ اگر پہلے کی ہیں تو ناسخ نہیں ہو سکتیں۔ اور اگر بعد کی ہیں تو ثبوت دیجیے اور یہ آپ قیامت تک نہیں دے سکتے۔لہذا ثابت ہوا کہ یہ رفع الیدین منسوخ نہیں۔ جب منسوخ نہیں تو آپ کے ذمہ دونوں رفع الیدین رکوع اور سجدے والی لازم ہو گئیں۔ اب اگر انکار کریں تو منکرین حدیث۔ اقرار کریں تو گئی حنفیت ۔ نہ جائے ماند نہ پائے رفتن۔ اٹھے تھے ہمیں شکار کرنے اور خود کس بری طرح سے شکار ہو ئے۔ہم سے تو رکوع والی رفع الیدین نہیں مانتے تھے۔ اب پھنس گئے رکوع اور سجدہ دونوں کی رفع الیدین میں۔ روافض کی طرح آپ بھی ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کے سنت ہونے کا اقرار کریں۔ اب خود رافضی بنیں ۔ آدھے تو پہلے ہی تھے۔ اب کسر پوری ہوجائے گی۔ بھاگ آپ اس سے سکتے نہیں‘ کیوں کہ خود آپ کی تسلیم ہے ان حدیثوں کی صحت سے بھی آپ انکار نہیں کر سکتے۔ ان کی تاریخ سن 9ہجری اور سن 10ہجری سے بھی آپ انکار نہیں کر سکتے۔ اب اگر نہ کرتے ہیں تو حدیث سے یا حنفیت سے ۔ حنفیت سے آپ نے کرنا نہیں۔ حدیث کو آپ نے ماننا نہیں۔ حجت تھی اﷲ نے قائم کروا دی۔ ٹھپہ لگنا تھا سوا ﷲ نے لگا دیا۔ یہ ہمیں پہلے ہی کا تجربہ ہے کہ حدیث کا انکار سب سے پہلے حنفی نے کیا۔ باقی انکار کرنے والے سب اس کے چیلے ہیں۔ حنفی مولوی آپ کا رسالہ پڑھ کر بہت خوش ہوئے۔ اہل حدیثو! یا رفع الیدین بالکل چھوڑ دو یا سجدے کی بھی کیا کرو۔ لیکن ان مولویوں نے یہ کبھی نہیں پوچھا کہ یا حضرت جب سجدہ کی رفع الیدین ان چھ حدیثوں سے ثابت ہو گئی تو رکوع کی بھی خود بخود ثابت ہو گئی۔ کیوں کہ ان روایتوں میں اس کا بھی ذکر ہے۔ جب ان روایتوں سے ہم اہل حدیث پر حجت قائم کرتے ہیں تو کیا ہمارے لیے یہ حدیثیں نہیں ‘ کیا ہم حدیثوں کو نہیں مانتے‘ لیکن ایسے نصیب کہاں کہ ہمارے مولویوں کو یہ بات سوجھ جائے۔ وَ اِلَی اﷲِ الْمُشْتَکیْ۔!
آپ نے ہمیں جواب دینے کے لیے یہ سب سے بڑا تیرا مارا ہے۔ چنانچہ آپ نے لکھا ہے : لہذا آپ کے پاس کوئی صریح حدیث ہو جو سن 10ہجری کے بعد کی ہو اورا سی میں یہ صاف تصریح ہو کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے سجدوں میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع الیدین سے منع فرمایا ہے تو براہ کرم اسے پیش کریں۔ ورنہ سجدوں میں رفع الیدین کی سنت نہ ہونے کا اقرار رکریں۔ حالانکہ اس سوال کی حقیقت سوائے اس کے اور کیا ہے کہ آپ نے ہماری نقل کی ہے۔ چونکہ نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ مقدر میں کہاں ؟ اس لیے نقل بھی نہ کر سکے۔ مقلد بے چارہ اہل حدیث کا مقابلہ تو کیا کرے گا اس کو تو نقل کرنی بھی نہ آئی۔ آپ نے ہم سے ہمارے جیسا مطالبہ تو کر دیا۔ لیکن یہ نہ دیکھا کہ بات بنتی بھی ہے یا نہیں۔ ہم نے آپ سے نسخ کے ثبوت کا مطالبہ کیا تھا۔ اس لیے کہ آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ رفع الیدین پہلے سنت تھی یعنی ہم نے جو مطالبہ کیا تو آپ سے منسوخ کہلوا کر کیا۔ آپ ویسے ہی لگ گئے۔ آپ کہتے ہیں اب سجدے کی رفع الیدین کو منسوخ ثابت کرو۔ ہم کہتے ہیں منسوخ تو تب ثابت کریں جب مسنون ثابت ہو۔ جب یہ مسنون ہی ثابت نہیں تو منسوخ ثابت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ رہ گئیں وہ احادیث جو آپ نے پیش کی ہیں۔ اولاً تو وہ صحیح نہیں۔ ثانیاً وہ اس قابل نہیں کہ بخاری ‘ مسلم کی احادیث کا مقابلہ کرسکیں۔بخاری و مسلم کو متقدمین اور متاخرین نے دیگر تمام کتب پر ترجیح دی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ صحت کا بہت التزام کرتے ہیں۔ ایک صحابی کی حدیث مختلف طرق سے مروی ہوتی ہے۔ بعض طرق اس کے صحیح ہوتے ہیں اور بعض نہیں۔ ان میں راوی ایسے کمزور حافظے کے ہوتے ہیں کہ بات کچھ ہوتی ہے ‘ وہ کچھ بنا دیتے ہیں۔ امام بخاری اور امام مسلم کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس حدیث کی وہ سند لیں‘ جو سب سے بہتر ہو۔ دوسرے محدثین یہ التزام نہیں کرتے‘ کہ اعلیٰ درجے کی صحیح حدیث کو ہی اپنی کتاب میں درج کریں۔ ان کے سامنے ایک غرض یہ بھی ہوتی ہے کہ حدیثوں کو جمع کر لیں۔ اگرچہ ان میں ضعیف بھی ہو‘ لیکن یہ دونوں حضرات جمع کرنے کو اتنا مدنظر نہیں رکھتے جتنا صحت حدیث کو۔ چنانچہ حضرت وائل بن حجرؓ کی حدیث مختلف طرق سے مروی ہے ‘ لیکن امام مسلم نے اس کا وہ طریق لیا جو سب سے بہتر تھا۔ اس میں سجدہ کی رفع الیدین کا ذکر نہیں۔ امام ابوداؤد اس کو دوسری سند سے لائے‘ لیکن ساتھ ہی اشارہ کر دیا کہ یہ شاذ ہے۔ ہمام والی سند میں جو مسلم میں ہے ۔ یہ سجدے کی رفع الیدین نہیں۔ جس میں سجدہ کی رفع الیدین نہ تھی ان کو امام مسلم نے اپنی کتاب میں درج کیا ۔ ا ب مطلبی مقلد مسلم شریف کی حدیث کو جو بہتر ہے‘ نہیں لے گا اور کتابوں کی روایت لے گا‘ جن کے بارے میں محدثین کی صراحت ہے کہ یہ صحیح نہیں۔ ایسے ہی مالک بن حویرثؓ کی حدیث بخاری میں بھی ہے اور مسلم میں بھی لیکن ان دونوں میں سجدہ کی رفع الیدین کا ذکر نہیں ۔ مقلد مالک بن حویرثؓ کی وہ روایت لے گا جس میں سجدہ کا ذکر ہے‘ اگرچہ وہ صحیح نہ ہو۔ اس لیے کہ ان کو عمل تو کرنا نہیں۔ دوسرے کو الزام دینا ہے یااپنا الو سیدھا کرنا ہے۔اہل حدیث کو چونکہ کسی کی پاسداری تو ملحوظ ہوتی نہیں اس لیے وہ ترتیب دے کر جو حدیث سب سے بہتر ہوتی ہے اس کو اپنے عمل کے لیے منتخب کر لیتے ہیں۔ دوسری روایات کو جو کمزور ہوتی ہیں تطبیق دے کر ساتھ ملا لیتے ہیں۔ یا زیادہ ضعیف ہونے کی وجہ سے نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن مقلد اپنا مطلب دیکھتا ہے جہاں پورا ہوتا ہو ۔ کبھی اعلیٰ درجے کی اور کبھی ادنیٰ درجے کی۔ اس حقیقت کو مولانا روم نے کیسے بیان کیا ہے ‘ وہ فرماتے ہیں
نوحہ گر باشد مقلد در حدیث
جز طمع نہ بود مراد آن خبیث
یعنی مقلد حدیث میں روئے ہی روئے گا۔ دھاندلیاں ہی کرے گا۔ اس بے نصیب کی سوائے اپنے مطلب کی حدیث سے اور کوئی غرض ہوتی ہی نہیں۔ وہ جب حدیث کو ہاتھ لگائے گا تو اپنے مطلب کے لیے‘ عمل کرنے کی کبھی نہیں سوچے گا۔ اب اس حنفی مقلد نے پانچ چھ حدیثیں پیش کر دیں ۔ کوئی پوچھے اگر یہ صحیح ہیں تو خود عمل کیوں نہیں کرتے؟ اگر صحیح نہیں تو دوسروں پر اس سے الزام کیوں قائم کرتے ہو؟ اصل میں یہ سجدہ والی رفع الیدین نہ حضرت وائل بن حجرؓ والی حدیث میں ہے ‘ نہ حضرت مالک بن حویرثؓ کی۔ ان کی اصل روایات جو زیادہ صحیح تھیں ان میں سجدہ کی رفع الیدین کا ذکر نہیں اور جو صحیح نہیں۔ ان میں اس کا ذکر ہے ۔ مالک بن حویرثؓ کے شاگردوں میں سے اس زیادتی کو نصر بن عاصم بیان کرتا ہے اور وہ بھی تردد کے ساتھ‘ کبھی کرتا ہے اور کبھی نہیں۔ چنانچہ نصر بن عاصم کی جو روایت مسلم شریف میں ہے اس میں رفع الیدین کا کوئی ذکر نہیں‘ نسائی شریف میں بھی ان کی دو روایتیں رفع الیدین ’’حیال الاذنین ‘‘کے عنوان کے تحت آئی ہیں‘ ان میں بھی اس رفع الیدین کا ذکر اسی طرح سے ابوداؤد اور ابن ماجہ میں بھی ایک ایک روایت نصر بن عاصم کی ہے۔ اس میں بھی ذکر نہیں‘ نصر بن عاصم کے بعد اس کو بیان کرنے والا صرف قتادہ ہے۔ وہ بھی اس میں منفرد ہے۔ مسلم اور نسائی کی تین روایتوں میں اس زیادتی کا ذکر نہیں کرتا اور نسائی کی بعض روایتوں میں ذکر ہے۔ پھر قتادہ کے شاگردوں میں بھی اختلاف ہے۔ کوئی اس زیادتی کو ذکر کرتا ہے ‘ کوئی نہیں اور جو کرتا ہے وہ بھی کبھی کرتا ہے اور کبھی نہیں کرتا۔ اس اضطراب کی وجہ سے امام بخاری نے نصربن عاصم کی سند کو چھوڑ کر ابوقلابہ کی سند لی ۔ ابوقلابہ کی روایت حضرت مالک بن حویرثؓ سے جس سند سے لی ہے اس میں سجدے کی رفع الیدین کا ذکر نہیں۔ ظاہر ہے نصر بن عاصم والی سند اتنے اضطراب کے بعد کیسے صحیح ہو سکتی تھی۔ اب ہمارے معترض نے جو پانچ حدیثیں نسائی کی ا ور دو مسند احمد کی پیش کی ہیں‘ ان پانچوں میں یہی نصر بن عاصم والی سند اتنے اضطراب کے بعد کیسے صحیح ہو سکتی تھی؟ اب پانچوں میں یہی نصر بن عاصم والی سند ہے۔ جس میں قتادہ راوی ہے جو مدلس ہے اور عن سے روایت کرتا ہے اس لیے اس کی حدیث صحیح نہیں۔ نسائی کی روایت جس میں سماع کی تصریح ہے اس میں یہ ذکر نہیں اس کے بعد دوحدیثیں حضرت وائل بن حجرؓ کی پیش کی ہیں۔ ایک ابوداؤد کی اور دوسری مسند احمد کی۔ ابوداؤد والی پہلے گزر چکی ہے جس کے بارے میں خود امام ابوداؤد نے یہ جرح کر دی ہے۔ ’’رَوَیٰ ھٰذَا الْحَدِیْثَ ھَمَّامٌ عَنْ ابْنِ حُجَادَۃَ وَ لَمْ یَذْکُرِ الرَّفْعَ مَعَ الرَّفْعِ مِنَ السُّجُوْدِ‘‘ ۳۱کہ ہمام اس زیادتی کو ذکر نہیں کرتا ‘ لہٰذا یہ شاذ ہے ۔ اسی لیے امام مسلم نے عبدالوارث کی سند سے یہ حدیث نہیں لی۔ بلکہ ہمام کی سند سے لی‘ جو محفوظ ہے۔ رہ گئی مسند احمد والی ۔۳۲ اس میں اشعث بن سوار الکندی ایک راوی ہے جس کے بارے میں حافظ ابن حجرؒ نے تقریب میں لکھا ہے۔ وَ ھُوَ ضَعِیْفٌ۳۳ کہ وہ ضعیف ہے۔
میزان میں ابن حبان کا قول نقل کیا ہے: فَاحِشُ الْخَطَاءِ کَثِیْرُ الْوَھْمِ ۔
سجدے کی روایت کے سلسلے میں آپ نے حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کی روایت بھی پیش کی ہے۔ اس میں بھی آپ نے اپنی وہی پرانی خصلت دکھائی ہے جو کہ مقلد کا خاصہ ہے۔ یعنی تمام مشہو ر و معروف روایتوں کو چھوڑ کر وہ روایت لی جو شاذ ہے اور پھر کمال یہ ہے کہ جہاں سے حوالہ لکھ رہے ہیں۔ وہیں یہ بھی لکھا ہے ۔ محفوظ وہ روایت ہے جس کو حضرت نافع سے پوری ایک جماعت نے روایت کیا ہے۔ چنانچہ امام بخاریؒ اپنے رسالہ میں اس روایت کے بعد لکھتے ہیں:
وَالْمَحْفُوْظُ مَا رَوَی عُبَیْدُاللہ وَ اَیُّوْبُ وَ مَالِکٌ وَ ابْنُ جُرَیْجٍ وَ اللَّیْثُ وَ عِدَّۃٌ مِنْ اَھْلِ الْعِرَاقِ وَ اَھْلِ الْحِجَازِ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنْ یُّرْفَعُ الْاَیْدِیْ عِنْدَ الرَّکُوْعِ وَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہ‘ عَنِ الرَّکُوْعِ ۳۴
العمری کی روایت نافع سے شاذ ہے۔ محفوظ وہ روایت ہے جس کو عبیداﷲ ‘ ایوب مالک‘ ابن جریج ‘ لیث اور بہت سے عراقی اور حجازی شاگردوں نے بیان کیا ہے۔ اس کے بعد امام بخاری العمری کی روایت اور دیگر روایات میں تطبیق دیتے ہیں۔ العمری نے دو دفعہ رفع الیدین کا ذکر کیا ہے۔ ایک وہ جو رکوع کو جانے کے لیے اور ایک وہ جو سجدہ میں جانے کے لیے اور دیگر صحیح روایات میں بھی دو دفعہ کا ہی ذکر ہوتا ہے۔ ایک رکوع کو جاتے اور ایک رکوع سے اٹھتے وقت۔ رکوع سے اٹھتے وقت جو رفع الیدین کی جاتی ہے وہ دراصل سجدہ کے لیے ہوتی ہے۔ کیوں رکوع سے اٹھنا اصل میں سجدہ کے لیے ہوتا ہے۔ نماز شروع ہوتی ہے قیام سے۔ چڑھتی ہے سجدے تک‘ پھر اترتی ہے قعدے کی طرف اور ختم ہو جاتی ہے۔ سجدہ اصل میں نماز کا نقطہ عروج ہوتا ہے۔ اسی لیے سجدے دو رکھے ہیں اور باقی ارکان ایک ایک‘ تین رفع الیدین میں سے ایک قیام کے لیے ‘ ایک رکوع کے لیے اور ایک سجدے کے لیے رکوع کو جاتے وقت جو رفع الیدین کی جاتی ہے وہ رکوع کی ہوتی ہے۔ رکوع سے اٹھتے وقت جو کی جاتی ہے وہ سجدے کی ہوتی ہے۔ قومہ تو اصل میں رکوع اور سجدہ کے درمیان فاصل ہوتا ہے‘ تاکہ رکوع اور سجدے کے درمیان فرق ہو جائے اور رکوع کے بعد کمر سیدھی کرکے سجدے کے لیے تیاری بھی ہو جائے۔ چنانچہ شاہ ولی اﷲ حجۃ اﷲ البالغہ ص10ج 2 میں لکھتے ہیں: ’’اَلْقَومَۃُ شُرِعَتْ فَارِقَۃً بَیْنَ الرَّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ فَاالرَّفْعُ مَعَھَا دَفْعٌ لِلسُّجُوْدِ فَلاَ مَعْنٰی لِلتَّکْرَارِ‘‘ ۳۵ یعنی قومہ ‘ رکوع اور سجدے کے درمیان بطور فاصل کے ہے۔ قومے کے ساتھ رفع الیدین کرنا یہی سجدے کی رفع الیدین ہے۔ رکوع کی دو رفع الیدین نہیں ہیں کہ تکرار کی صورت بنے۔ اسی لیے دوسری رفع الیدین کے لیے مختلف الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ کسی نے فی السجود کا لفظ کہا ۔ کسی نے حین یسجد ‘ کسی نے اِذَا سَجَدَ اور کسی نے وَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہ‘ لِلسَّجُوْدِ کا لفظ کہا۔ چنانچہ امام بخاری نے تطبیق یوں دی کہ العمری کی روایت میں جو اِذَا سَجَدَ کا لفظ ہے اس سے رکوع سے اٹھنے کی رفع الیدین مراد ہے۔ قرینہ یہ ہے کہ اس روایت میں رکوع سے اٹھنے کی رفع الیدین کا ذکر نہیں۔ چنانچہ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں۔ اِنَّہ‘ کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ اِذَا رَکَعَ وَ اِذَا سَجَدَ اب بتائیے اگر یہاں اِذَا سَجَدَ سے وہ رفع الیدین مراد ہو جو آپ کہتے ہیں یعنی سجدے کی تو رکوع سے اٹھنے کی رفع الیدین کہاں گئی۔ حالانکہ وہ تمام حدیثوں سے ثابت ہے ۔ امام بخاریؒ نے جو تطبیق دی ہے وہ بالکل صحیح ہے اس کی تائید بعض روایات سے بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ ابوداؤد میں حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث میں یہ الفاظ ہیں۔ اِذَا کَبَّرَ لِلصَّلٰوۃِ جَعَلَ یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکَبَیْہِ وَاِذَا رَکَعَ فَعَلَ مِثْلَ ذٰلِکَ وَ اِذَا رَفَعَ لِلسُّجُوْدِ فَعَلَ مِثْلَ ذٰلِکَ وَ اِذَا قَامَ مِنَ الرَّکَعَتَیْنِ فَعَلَ مِثْلَ ذٰلِکَ ۳۶ یعنی جب سجدے کے لیے رکوع سے سراٹھاتے تو رفع الیدین کرتے۔ ابن ماجہ میں ابوہریرہؓ
کی روایت یوں ہے۔ یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِی الصَّلٰوۃِ حَذْوَ مَنْکَبَیْہِ حِیْنَ یَفْتَتِحُ الصَّلٰوۃِ وَ حِیْنَ یَرْکَعُ وَ حِیْنَ یَسْجُدُ ۔۳۷ اس روایت پرمحمد بن عبدالہادی سندھی حنفی نوٹ لکھتے ہیں۔حِیْنَ یَسْجُدُ اِیْ حِیْنَ یَرْفَعُ رَاْسَہ‘ مِنَ الرَّکُوْعِ لِیُذْھِبَ مِنَ الْقَوْمَۃِ اِلَی السُّجُوْدِ فَوَافَقَ الْحَدِیْثُ الاَحَادِیْثَ الْمُتَقَدِّمَۃَ وَ ھٰذَا الْمَعْنٰی ھُوَ الَّذِیْ یَقْتَضِیْہِ الْذوْقَ حِیْنَ یَسْجُدُ کا معنی یہ ہیں کہ جب رکوع سے سجدے میں جانے کے لیے سر اٹھاتے تو بھی رفع الیدین کرتے وہ فرماتے ہیں اس طرح سے یہ حدیث اور صحیح احایث کے مطابق ہو جائے گی اور یہی معنی یہاں موزوں بھی ہے۔
حضرت وائل بن حجرؓ کی حدیث جو دارقطنی میں ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں‘ حِیْنَ یَفْتَتِحُ الصَّلٰوۃَ وَ اِذَا رَکَعَ وَ اِذَا سَجَدَ اس میں بھی اِذَا سَجَدَ کا لفظ ہے۔ یعنی رفع الیدین تین کا ہی ذکر ہے۔ جو عام صحیح احادیث کے مطابق ہے۔ لہٰذا اس اِذَا سَجَدَ سے بھی وہی رکوع سے اٹھتے وقت کی رفع الیدین مراد ہے۔ اس طرح سے بہت سی احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے۔ عبداﷲ بن زبیرؓ کی جو روایت نقل کی گئی ہے اگرچہ وہ صحیح نہیں لیکن اس کو بھی اہمال سے یونہی بچایا جا سکتا ہے۔ اس کی بھی یہی توجیہ کی جا سکتی ہے۔ اس میں تین رفع الیدین کا ذکرہے ۔ وہاں بھی حِیْنَ یَسْجُدُ کے وہی معنی ہوں گے جو اوپر حضرت ابوہریرہؓ والی روایت کے علامہ سندھی حنفی نے لکھے ہیں۔ اس طرح سے یہ اور صحیح حدیثوں کے مطابق ہو جائے گی۔ اس طرح حدیثوں کا تعارض جاتا رہے گا۔ مقلدین کو اس سے کیا غرض جس کا گھر ہوتا ہے ‘ درد تو اسے ہوتا ہے کہ خراب نہ ہو۔ اختلافات پیدا نہ ہوں اور جو اجنبی اور غیر ہوتا ہے اس کی بلا سے اس کا کام ہی لڑانا اور ٹکرانا ہوتا ہے۔ مقلدین کو حدیث سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ کیوں کہ اس کو اس سے کیا تعلق ۔ حدیث تو ہوئی اہل حدیث کی ۔ وہ بڑے کی بڑائی بھی برقرار رکھتے ہیں اور اختلافات کو بھی مٹاتے ہیں۔ اعلیٰ درجہ کی حدیث کو اعلیٰ درجہ دیتے ہیں ۔ اس پر عمل کرتے ہیں ضعیف روایات کے معنی ایسے کرتے ہیں کہ وہ ان اعلیٰ روایات کی مؤید بن جاتی ہیں۔ یہ نہیں کرتے جیسے مقلدین کرتے ہیں کہ صحیح کو پیچھے کر دیا ور ضعیف کو آگے کر دیا۔ مقلدین یہ کھیل اس لیے کھیلتے ہیں کہ ان کو عمل تو کرنا نہیں ہوتا ۔ اب سجدے کی رفع الیدین کی آٹھ دس روایتوں کو پیش کر دیا ‘ کوئی پوچھے اگر یہ صحیح ہیں تو تم خود عمل کیوں نہیں کرتے ‘ تو جواب نہیں دیتے۔
اب عبداﷲ بن عمرؓ کا عمل بھی صحاح ستہ کو چھوڑ کر محلی ابن حزم سے نقل کرتے ہیں ۔ کوئی پوچھے کیوں جناب ابن حزم سے محبت زیادہ ہے یا تمھیں اس پر اعتماد بہت ہے۔ جب ابن حزم بے چارے کی باری آ جاتی ہے تو اسے وہ جلی کٹی سناتے ہیں کہ الامان !.. ۔۔ اب یہاں عبداﷲ بن عمرؓ کا عمل اس سے نقل کرتے ہیں اگر کہا جائے کہ عبداﷲ بن عمرؓ کا یہ عمل اگر صحیح ہے توا سپر عمل کرکے دکھاؤ تو فوراً منہ پھیر لیں گے
آپ نے جوسنن کی عبداﷲ بن عباسؓ کی روایت بیان کی ہے۳۸ جس سے آپ نے دونوں سجدوں کے درمیان چہرے تک رفع الیدین کا استدلال کیا ہے‘ میں پوچھتا ہوں اگر یہ صحیح ہے توا س پر عمل کیوں نہیں کرتے۔ اگر یہ صحیح نہیں تواسے ہمارے خلاف پیش کرنے کا فائدہ ؟ ۔۔ ہم تو کہتے ہیں کہ یہ صحیح نہیں۔ اس میں نضربن کثیر ابوسہل الازدی ضعیف ہے۔ اس کے بارے میں میزان میں ہے کہ : قَالَ اَبُوْحَاتِمٍ فِیْہِ نَظَرٌ قَالَ ابْنُ حَبَّانٍ یُرْوِی الْمَوْضُوْعَاتِ عَنِ الثَّقَاتِ عَلٰی قِلَّۃِ رِوَایَۃٍ قَالَ الْبُخَارِیْ عِنْدَہ‘ مَنَاکِیْرُ۔۳۹ امام بخاری نے کہا ہے کہ اس کی حدیثیں منکر ہوتی ہیں۔ ابن حبان نے کہا قلیل الروایۃ بھی ہے اور ثقہ راویوں سے موضوع روایات نقل کرتا ہے۔ ابوحاتم نے کہا ہے کہ اس کو دیکھ لینا چاہیے یعنی وہ ٹھیک نہیں۔
آپ نے لکھا ہے ’’ہمارا احسان مانیں کہ ہم نے اتباع سنت کی راہ سمجھائی ۔‘ اب تک آپ اس سنت سے غافل رہے اورشکر کے طور پر کم از کم سترہ صد روپے ورنہ مزید جتنے چاہیں۔ ڈاکٹر نیاز صاحب کے پاس جمع کرادیں ‘‘ جناب !انعام کو کس کا دل نہیں چاہتا۔ انعام کے لیے تو ہر ایک ہی منہ کھولتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کسی کے منہ میں مکھیاں پڑتی ہیں اور کسی کے منہ میں تر نوالہ ۔ میں نے افغانی صاحب کو دعوت دی تھی کہ آئیے نسخ کی میز پر انعام کی دعوت کھائیے۔ لیکن افغانی صاحب سمجھدار تھے ‘ نہ نسخ کی حدیث ملی نہ دعوت کھانے آئے۔ آپ توایسے بھوکے طفیلی نکلے کہ ویسے ہی رالیں ٹپکنے لگیں اور منہ کھول لیا۔ جناب محمد بن ابی عائشہ صاحب! گستاخی معاف ‘ منہ بند کر لیجیے۔ ویسے ہی منہ نہیں کھولا کرتے ‘ مکھیاں پڑ جاتی ہیں۔ یہ کوئی جمعرات اور گیارہویں والوں کی دعوت تو نہیں‘ یہ اہل حدیث کی دعوت ہے۔ اگر کچھ کھانا ہے تو نسخ کی حدیث لائیے۔ انعام کسی کام پر ملتا ہے ‘ ہیری پھیری اور جھوٹ پر انعام نہیں ملتا۔ یہ آپ نے کتنا بڑا جھوٹ بولا کہ مقلد نے اہل حدیث کو اتباع سنت کی راہ سمجھائی ۔ سوائے آپ کے اس بات کو کون مان سکتا ہے۔ سوچیے مقلد بے چارہ سنت کی راہ کیا دکھائے گا۔ وہ تو خود اندھا ہوتا ہے۔ پھندااس کے گلے میں ہوتا ہے ۔ اگر اس کو خود راہ نظر آئے تو وہ تقلید کا پھندا کیوں ڈلوائے۔ جب کسی کی تقلید کا پھندا گلے میں ڈال لیا تو اتباع سنت کیا کرے گا۔ اب تو جس کی تقلید کرتا ہے اسی کے پیچھے مرے گا۔ کسی کی راہنمائی کیا کرے گا؟ آپ ہم سے اتباع سنت کی راہ دکھانے پر انعام مانگتے ہیں ‘ میں کہتا ہوں وہ راہ ہے کونسی ؟ آپ کہتے ہیں سجدوں کی رفع الیدین۔ میں کہتا ہوں اگر یہ راہ ہے تو اس پر آپ خود کیوں نہیں چلتے؟ کیا (لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالاَ تَفْعَلُوْنَ )[61:الصف:2]سے ڈر نہیں لگتا؟ حیرانی کی بات ہے رکوع کی رفع الیدین جو شاہراہ ہے وہ تو آپ کو نظر نہیںآتی ۔ سجدوں کی رفع الیدین جو راہ ہی نہیں وہ آپ کو نظر آتی ہے۔ آپ مقلد ہی تھے جو آپ کو متفق علیہ والی جرنیلی سڑک نظر نہ آئی ۔ ضعف و شذوذ کی وادیوں میں بھٹکتے پھرے۔ بھولے بھالے حنفی عوام کو آپ کی ان چالبازیوں کا کیا علم ۔ وہ تو آپ کے تقدس کے دھوکے میں رہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو ہمارے بڑے بڑے حضرات کہتے ہیں وہ حرف آخر ہے۔ قول فیصل ہے‘ فرمان نعمانی ہے ‘ صحیفہ آسمانی ہے۔ حالانکہ وہ ہوتا وسوسہ شیطانی ہے۔ اس کے بعد آپ لکھتے ہیں تو یہ سب روپے ناشر رسالہ ہذا کو پیش کردیں تاکہ آپ حضرات کی مزید تردید میں کام آئیں۔ تردید تو آپ کی دیکھ لی۔ تردید تو آپ کیا کریں گے ‘ بات کریں رقم کی۔ اس کے لیے تو سارے پاپڑ بیلے جاتے ہیں ورنہ کون سوات و قلات و کراچی سے بہاول پور گرد پھانکنے آتا ہے۔ سو بھئی اگر تنگی آ جائے اور جمعیت والے تردید کے بہانے سے پیسے نہ دیں تو خطیب جامع اہل حدیث کے پا س آ جانا ۔ وہ امریکی امداد میں سے جو ان کے پاس آئی ہے‘ کچھ آپ کو بھی دے دیں گے۔ یا چندہ کروا دیں گے۔۔۔
آپ لکھتے ہیں: ’’ تو پھر دو چار روایتوں کے علاوہ آپ کے پاس کیا بچے گا؟ میں کہتا ہوں وہ دو چار کونسی ہیں؟ جو ایسی سخت جان ہیں جن کو آپ کی اندھی تقلید کی ظالم چھری بھی نہیں کاٹ سکی۔ فوراً بتا دیں وہ کونسی ہیں۔ آپ کا کیا اعتبار ہے کل کو جب حمیۃ جاھلیۃ تیز ہو جائے تو آپ ان چار سے بھی منکر ہو جائیں ویسے آپ ہیں سنت پروف ۔ مجال کیا جو ایک قطرہ بھی سنت کی بارش کا آپ کی تقلیدبرانڈی میں سے گزر سکے۔ کتنا تعجب ہے کہ آپ کہتے ہیں :’’پھر دو چارروایتوں کے علاوہ آپ کے پاس کیا بچے گا؟ ‘‘ میں پوچھتا ہوں کہ سنت نبوی کو ثابت کرنے کے لیے کیا دو چار حدیثیں کافی نہیں ہوتیں۔ ایمان اور شرم کے ہوتے ہوئے تو نبی کی ایک بھی صحیح حدیث کافی ہوتی ہے۔ جس نے نہ ماننا ہو اس کے لیے سینکڑوں کیا بلکہ ہزاروں بھی کافی نہیں ہوسکتیں۔
( اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْھِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَOوَ لَوْجَآءَ تْھُمْ کُلَّ اٰیَۃٍ حَتّٰی یَرَوُاالْعَذَابَ الْاَلِیْمِ )[10:یونس:96-97](وَ لَئنْ اَتَیْتَ الَّذِیْنَ اُوتُواالْکِتٰبَ بِکُلِّ اَیَۃٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَکَ)[2:البقرۃ:145]جنھوں نے نہیں ماننا وہ نہیں مانیں گے۔ خواہ آپ جتنی چاہیں دلیلیں دکھا دیں۔ ہم نے نسخ کی ایک حدیث کا مطالبہ کیا تھا۔ آپ وہ نہیں دکھا سکتے۔ پھر نسخ پر اڑے ہوئے ہیں۔ ہماری چار سخت جان آپ کے پاس بچی ہوئی موجود ہیں پھر بھی آپ سنت کا انکار کرتے ہیں۔ سوچ لیجیے اس ہٹ دھرمی کا نتیجہ آخر کیا نکلے گا۔ آپ نے یہ بھی غلط لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر ‘ و عمر ؓ و علی ؓ سے وہ روایات بھی موجود ہیں۔ جو مذہب حنفی کی اس مسئلے میں تائید کرتی ہیں۔ میں کہتاہوں آپ کے مذہب کی تائید میں ان تینوں حضرات سے ایک بھی صحیح روایت موجود نہیں۔ اگر جرآت ہے تو لائیے۔ کراچی آنے جانے کا کرایہ مجھ سے لیجیے اسی مسئلے میں کیا‘ جہاں بھی اختلاف ہوگا ایک صحیح مرفوع حدیث تو درکنار موقوف بھی آپ کے حق میں نہ ملے گی۔ اگر شک ہو تو مناظرہ کرکے دیکھ لیں۔
آپ نے ایک یہ بھی گپ ماری ہے ۔ پھر سب علما کو یہ مسئلہ کیوں نہ معلوم ہوا ۔ اس کا اقرار تو امام بخاریؒ کو بھی ہے۔ وَ کَانَ الثَّوْرِیُّ وَ وَکِیْعُ وَ بَعْضُ الْکوفِیِیّٖنَ لاَ یَرْفَعُوْنَ اَیْدِیْھِمْ ۴۰ یہ کیسا صریح جھوٹ ہے کہ ثوری اور وکیع کو متنازع فیہ رفع الیدین کے مسئلہ کا علم نہ تھا امام بخاریؒ نے کہاں لکھا ہے کہ ان کو علم نہ تھا۔ انھوں نے صاف لکھا ہے۔
وَ قَدْ رَوَوا فِیْ ذٰلِکَ اَحَادِیْثَ کَثِیْرَۃً وَ لَمْ یَعْتَبُوْا عَلٰی مَنْ رَفَعَ یَدَیْہِ وَ لَوَ أنَّھَا حَقَّ مَا رَوَوْا ذٰلِکَ الْاَحَادِیْثَ لِاَنَّہ‘ لَیْسَ لِاَحَدٍ اَنْ یَّقُوْلَ عَلٰی رَسُوْلِ ﷲِ مَا لَمْ یَقُلْ وَ لَمْ یَفْعَلْ
کہ حضرت ثوری ؒ اور وکیع ؒ نے رفع الیدین کی بہت سی احادیث روایت کی ہیں ۔ اگر یہ مسئلہ سچا نہ ہوتا تو وہ یہ روایات لکھ کر نبی پر جھوٹ نہ باندھتے ۔ اس کے بعد آپ نے ترمذی کی عبارت لکھی ہے۔ وَ بِہٖ یَقُوْلُ غَیْرُ وَاحِدٍ اس عبارت سے یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ ان کو رفع یدین کا علم نہ تھا۔ کسی کا سستی سے رفع الیدین نہ کرنا اور بات ہے مسئلہ کا ہی علم نہ ہونا یا انکار کرنا اور بات ہے۔ آپ کا استدلال تو غضب کا ہوتا ہے ‘ میں نے آپ کے بڑے بھائی کو دیکھا وہ بھی استدلال کے فن میں آپ کی طرح طاق تھے۔ فرمانے لگے غیر مقلدین گیارہویں کا انکار کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ قرآن سے ثابت ہے۔ اس کے بعد آیات پڑھیں۔
(اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ )[108:الکوثر:1]
(وَالْفَجْرِOوَلَیَالٍ عَشْرِ )[89:الفجر:1-2]
آپ نے ابن حزم ؒ کے حوالے سے حضرت علیؓ و ابن مسعودؓ کے بارے میں لکھا ہے ۔ یہ پتا نہیں کیا بات ہے۔ آپ کو دور کی چیزیں بہت نظر آتی ہیں۔ قریب کی کوئی نظر نہیں آتی۔ حضرت علیؓ کی رفع الیدین کی روایات صحاح ستہ میں کئی موجود ہیں۔ وہ آپ کو نظر نہیںآتیں ‘آپ کو محلیٰ ابن حزم نظر آتا ہے۔
آپ نے یہ بھی غلط کہا ہے کہ ہم کسی امام کی رائے کو نہیں مانتے۔ ہم جو غلط ہو اس کو نہیں مانتے ‘ صحیح کو تو مانتے ہیں۔ یہی تو مقلد اور اہل حدیث میں فرق ہے۔ مقلد کو ہر غلط صحیح ماننی ہوتی ہے۔ قلادہ جو گلے میں پڑ چکا ہوتا ہے۔ اہل حدیث صرف صحیح کو مانتے ہیں غلط کو نہیں مانتے۔
آپ نے یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ ہم نے آراء رجال کو بھی بطور ثبوت کے پیش کیا ہے۔ یہ آپ کی سمجھ کا قصور ہے۔ آپ ثبوت اور تائید میں بھی فرق نہیں کرتے۔ ہم نے آراء رجال کو اپنے لیے بطور تائید کے اور آپ کے لیے بطور حجت کے پیش کیا ہے۔
آپ نے یہ بھی لکھا ہے آپ نے ائمہ اربعہ کو چھوڑ کر ان چاروں بزرگوں کو اپنا امام بنا لیا ہے۔ ائمہ اربعہ کو چھوڑ ا تو آپ نے ہے جو کہتے ہیں کہ رفع الیدین منسوخ ہے ۔ حالانکہ کسی امام نے یہ نہیں کہا۔ یہ چھوڑنا اور پکڑنا تو آپ کو ہی زیب دیتا ہے۔ نہ ہم نے کسی کو پکڑا ہے کہ چھوڑنے کا سوال پیدا ہو اور نہ چھوڑا ہے کہ پکڑنے کا ۔ پکڑتے آپ ہیں کسی کو پیر ‘ کسی کو امام ۔ یہ پکڑ دھکڑ ہمارے ہاں نہیں‘ ہمارے ہاں تو صرف یہ ہے۔
راہے ست ازیں غم کدہ تا روضہ رضوان
ما غیر نبی راہنما انشاسیم
آپ کہتے ہیں حضرت پیران پیر غیر مقلد نہیں حنبلی تھے۔ میں کہتا ہوں وہ حنبلی کیوں بنے۔ حنفی کیوں نہ بنے؟ کیا حنفیت میں کوئی قصور تھا یا ان میں جو وہ حنفی مذہب پر ایمان نہیں لائے۔ کیا حنفی مذہب سچا ہے یا حنبلی۔ اگر حنفی مذہب سچا ہے اور پیران پیر حنفی نہیں تو ان کا مذہب سچا نہ ہوا۔ پھر آپ لوگوں نے ان کو پیر کیوں پکڑ لیا۔ جس کا مذہب سچا نہ ہو وہ پیران پیر تو درکنا ر رہبر بھی نہیں ہو سکتا۔ اور اگر ان کا مذہب حنبلی سچا ہے تو تمھارے پیر پکڑنے کا کیا فائدہ ہوا؟ جو تمھارا مذہب تک درست نہ ہو ‘ تم نے حنفی مذہب سے توبہ نہ کی۔
آپ کہتے ہیں وہ غیر مقلد نہ تھے‘ میں پوچھتا ہوں پھر کیا وہ مقلد تھے؟ اگر مقلد تھے تو جو کسی کی تقلید کرے وہ پیر کیا ہوگا؟
(فَاسْئلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ )[16:النحل:43]
کے تحت تو تقلید کی ۔ اس لیے کہ علم نہیں تھا ۔ اب جسے علم نہ ہو وہ پیری کیا کرے گا۔ سوچ لیں کہ ہو کیا رہا ہے ۔ اتنی گت بننے کے بعد بھی اگر آپ کو احساس نہ ہو تو پھر آپ زندہ نہیں مردہ ہیں۔
آ پ فرماتے ہیں کہ حضرت پیر ان پیر نے لکھا ہے وَ ھِیَ عِشْرُوْنَ رَکَعَۃً کہ تراویح بیس رکعت ہیں۔ میں کہتا ہوں انھوں نے لکھا ہے اَمَّا الْھَیْئاتُ فَخَمْسٌ وَّ عِشْرُوْنَ ھَیْئۃً رَفْعُ الْیَدَیْنِ عِنْدَ الْاَفْتِتَاحِ وَالرَّکُوْعِ وَالرَّفْعِ مِنْہ ۴۱ُ متنازع فیہ رفع الیدین ہیئت نماز میں داخل ہے۔ اب دیکھیں مرید پیرکی مانتا ہے یا نہیں ۔ ہم تو کسی کو پکڑتے یا چھوڑتے نہیں کہ کسی کے مسئلے کے پابند ہوں۔ آپ نے تو پیر پکڑا ہے ۔ اب دیکھتے ہیں کہ پکڑ مضبوط رہتی ہے یا ڈھیلی پڑتی ہے۔
آپ نے ہماری تردید میں ترمذی شریف کا وَاَکْثَرُ اَھْلَ الْعِلْمِ مَا رَوٰی کا حوالہ دیا ہے ۔ میں کہتا ہوں اس سے ہماری تردید کیسے ہو گئی؟ ہم نے ان صحابہؓ سے روایت نہ ہونے کی روایت تو نہیں کی۔ ہم نے تو یہ کہا ہے کہ کوئی صحیح نہیں۔ صحیح آٹھ کی ہی ہے۔ امام ترمذی نے یہ کب کہا ہے کہ جو ان سے مروی ہیں وہ صحیح بھی ہیں۔ مقابلہ تو کرتے ہیں اہل حدیث سے اور بات ایک بھی پتے کی نہیں کرتے۔ اگر آپ کے نزدیک فقط امام ترمذی کی نقل ہی سے کوئی چیز ثابت ہو سکتی ہے تو اکتالیس کے بھی قائل ہوجائیں۔ انھوں نے جہاں بیس لکھی ہیں وہاں اکتالیس بھی تو ہیں۔ آپ نے ڈرتے ڈرتے مؤطا امام مالک کا بھی حوالہ دیا ہے۔ میں پوچھتا ہوں آپ اس سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کہیں حضرت عمرؓ نے بیس کا حکم دیا تو میں کہوں گا کہ عقل کے ناخن لو۔ اس میں کہاں ہے کہ حضرت عمرؓ نے بیس کا حکم دیا تھا بلکہ اس میں تو صراحت کے ساتھ ہے کہ انھوں نے آٹھ کا حکم دیا تھا۔ آگے آپ نے شیخ سلام اﷲکا حوالہ بھی دیا ہے آپ کا بھی عجیب حال ہے جو مطلوب ہے وہ دکھا نہیں سکتے اور جو دکھاتے ہیں اس کا فائدہ کچھ نہیں۔اس بوتے پر پوچھتے تھے کہ تراویح والے مکالمے میں وہ کون جاہل حنفی تھا‘ اور کون اہل حدیث عالم تھا؟ اب پتا لگا کہ وہ کون تھا؟ وہ آپ جیسا ہی تھا۔آپ کہتے ہیں کہ شاہ ولی اﷲ نے تو حجۃ اﷲ البالغہ میں رفع الیدین کا جھگڑا ہی ختم کر دیا۔ میں پوچھتا ہوں فیصلہ آپ کے حق میں دیا یا ہمارے۔ اگر انھوں نے فیصلہ آپ کے حق میں دیا ہے تو خوشی میں اس فیصلے کا اشتہار نکال دیں‘ عنوان لکھ دیں۔ ’’افغانی صاحب کی فتح‘‘ نیچے فیصلہ لکھ دیں۔
’’وَالَّذِیْ یَرْفَعُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّنْ لاَّ یَرْفَعُ ‘‘ یعنی حنفی بھائیو!سن لو۔ ہمارے محدث دہلوی کی عدالت عالیہ سے فیصلہ یہ ہوا ہے کہ عدالت کو اہل حدیث حنفیوں سے زیادہ پسند ہیں اور پیارے بھی‘ کیوں کہ وہ رفع الیدین کرتے ہیں اور حنفی نہیں کرتے۔ اہل حدیث سنت پر عمل کرتے ہیں حنفی اس سے محروم ہیں۔ آپ یہ اشتہار نکال کر بل مجھے پہنچا دیں‘ میں ادائیگی کر دوں گا۔ محمد بن ابی عائشہ صاحب علم تو گیا بھاڑ میں ‘ میں تو آپ کی عقل پر حیران ہوں۔ آپ کچھ سمجھتے ہی نہیں۔ ہمارا اور افغانی صاحب کا جھگڑا تھا کہ رفع الیدین منسوخ ہے کہ نہیں وہ کہتے تھے منسوخ ہے اور ہم کہتے ہیں نہیں۔ افغانی صاحب نے آپ کو وکیل مقرر کیا ۔ آپ نے مقدمہ بڑے زور شور سے لڑا۔ مقدمہ کا فیصلہ کرایا ۔ افغانی صاحب کو آپ کے اعلان شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی حنفی نے تو جھگڑا ہی ختم کر دیا۔‘‘ سے بڑی خوشی ہوئی ہوگی۔ جب افغانی صاحب اس اشتہار کو پڑھیں گے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے کہ ہیں۔۔۔ شاہ ولی اﷲ نے بھی ہمارے خلاف فیصلہ کر دیا۔ کہ انھیں حنفیوں سے زیادہ اہل حدیث پیارے ہیں۔ کیوں کہ رفع الیدین کرتے ہیں اور حنفی نہیں کرتے۔ سوچیے ان کوکتنا دھکا لگے گا۔ آپ تو خوش ہیں کہ جھگڑا ختم ہو گیا ۔ ان کو صدمہ ہے کہ رفع الیدین منسوخ ثابت نہ ہوئی ۔ بات تو اہل حدیث کی سچی نکلی ۔ جرمنی کی جنگ میں برطانیہ جب پٹ رہا تھا تو وہ ایسے اعلان کیا کرتا تھا کہ ہماری فوجیں بڑی کامیابی کے ساتھ پسپا ہو گئیں۔ آپ سوچ لیں آپ افغانی صاحب کے وکیل ہیں ‘ آپ نے مقدمہ لڑا‘ خوب داؤچلائے۔ داؤ چلاتے چلاتے خود پھنس گئے۔ کہاں تو رکوع کی رفع الیدین کا انکار کرتے تھے۔ کہاں سجدہ کی بھی گلے پڑ گئی۔ آخر مقدمے کا فیصلہ شاہ ولی اﷲ صاحب سے کروایا۔ دونوں باتوں میں جھوٹے نکلے۔ نہ رکوع کی رفع الیدین کو منسوخ ثابت کر سکے نہ سجدہ کی رفع الیدین کو مسنون ثابت کر سکے۔ چنانچہ شاہ ولی اﷲ صاحب کا فیصلہ ان دونوں امور میں سن لیں۔
رفع الیدین منسوخ نہیں بلکہ کرنی چاہیے۔ سجدے کی رفع الیدین ثابت نہیں اس لیے نہیں کرنی چاہیے۔ عبارت یہ ہے:
وَاِذَا کَبَّرَ رَفَعَ یَدَیْہِ وَ اِذَا اَرَادَ اَنْ یَّرْکَعَ رَفَعَ یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ اَوْ اُذُنَیْہِ وَ کَذٰلِکَ اِذَا رَفَعَ رَاْسَہ‘ مِنَ الرَّکُوْعِ وَ لاَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ فِی السَّجُوْدِ۔۔ ۴۲
شروع میں تکبیرکے ساتھ رفع الیدین کرے ۔ جب رکوع کرے تو رفع الیدین کرے۔ جب رکوع سے اٹھے تو رفع الیدین کرے‘سجدوں میں نہ کرے۔
آپ کی سمجھ اونچی ہے اور یہ آپ کو ورثہ میں ملی ہے۔ شاہ ولی اﷲ صاحب تو آپ جیسے متعصبوں کی مذمت کرتے ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ وہ آپ کے حق میں بولتے ہیں۔ ان کی عبارت دیکھیے‘ وہ فرماتے ہیں:
فَالَّذِیْ یَرْفَعُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّنْ لاَّ یَرْفَعُ فَاِنَّ اَحَادِیْثَ الرَّفْعِ اَکْثَرُ وَ اَثْبُتُ فَاِنَّہ‘ لاَ یَنْبَغِی للْاِنْسَانَ فِیْ مِثْلَ ھٰذِہِ الصُّوَرِ اَنْ یُّثِیْرَ عَلٰی نَفْسِہٖ فِتْنَۃَ عَوَامِ بَلَدِہٖ ۴۳
یعنی رفع الیدین کرنے والے نہ کرنے والوں سے بہتر ہیں کیوں کہ رفع الیدین کی حدیثیں ہیں بھی زیادہ اور ہیں بھی صحیح لیکن مقلد قوم بڑی ضدی اور متعصب ہے۔ اس لیے کسی انسان کو جو سنتوں پر چلنے والا ہو نہیں چاہیے کہ کسی ایسی سنت پر عمل کرکے اپنی جان کو خطرے میں ڈالے کہ اس کے شہر کے عوام مشتعل ہو کر اس کے درپے آزار ہوں۔ آپ دیکھیے۔ اس میں آپ کی جماعت کی جو رفع الیدین یا دیگر سنتوں پر جلتے ہیں کتنی مذمت ہے۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ رفع الیدین نہیں کرنی چاہیے۔ رفع الیدین کے بارے میں تو وہ اوپر کہہ چکے ہیں کہہ کرنی چاہیے ۔ وہ کہتے ہیں ان فساد کرنے والے علما سے اور عوام سے ڈرنا چاہیے۔ یہ تو مانیں گے نہیں۔ اس لیے میں جن کو پسند کرتا ہوں ان کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان کے شر سے بچیں۔ اس کے بعد وہ حدیث سے مثال دیتے ہیں :
لَوْ لاَحِدْثَانُ قَوْمِکِ بِالْکُفْرِ لَنَقَضَتُ الْکَعْبَۃَ ۴۴ کہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے عائشہؓ یہ لوگ کچے مسلمان ہیں ۔ ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہیں۔ اگر یہ پختہ ہوتے تو میں کعبہ کو گرا کر پھر سے بنا دیتا ۔ اس سے ثابت ہوا کہ کسی دینی امر پر بگڑنا خواہ وہ مستحب ہی کیوں نہ ہو اس کا کام ہے جس کا زمانہ کفر بہت قریب ہو۔ اب آپ سوچ لیں وہ لوگ تو کفر سے اسلام کی طرف آ رہے تھے۔ اس لیے حضور ﷺ کو ان سے خطرہ تھا لیکن آپ نسلی مسلمان ہوتے ہوئے کدھر جا رہے ہیں۔ جو آج سنت کو آپ سے خطرہ ہے۔آپ کا شاہ صاحب کی عبارت پر خوش ہونا ایسا ہی ہے جیسا کہ حنفی مقلدین اس عبارت پر خوش ہوتے ہیں ۔
قَالَ الشَّافِعِیُّ قِیْلَ لِمَالِکٍ ھَلْ رَاَیْتَ اَبَاحَنِیْفَۃَ قَالَ نَعَمْ رَاَیْتُ رَجُلاً لَوْ کَلِّمَکَ فِیْ ھٰذِہِ السَّارِیَۃِ اَنْ یَجْعَلَھَا ذَھَبًا لَقَامَ بِحُجَّتِہٖ
آپ کہتے ہیں شاہ ولی اﷲ صاحب رفع الیدین نہ کرنے کو بھی سنت مانتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کیا کہنے آپ کی سمجھ کے۔ آپ حقیقتاً بہت بڑے فقیہ ہیں اور پہلے فقہا کی جن کے مسئلے آپ دیکھ چکے ہیں یاد گار ہیں مجھے بتاتے جائیے پھر آپ جیسا کوئی فقیہ نہ آئے‘ کہ ترک رفع الیدین جو سنت ہے۔ وہ کون سی سنت ہے موکدہ یا غیر موکدہ اور اس پر کتنا ثواب ہے اور جو اس پر عمل نہ کرے اسے کتنا گناہ ہے۔ اجی !فقیہ صاحب اتنی بھی فقہ نہیں برتا کرتے کہ آدمی دین دنیا کہیں کا نہ رہے۔ کبھی عقل سے بھی کام لے لیا کرتے ہیں۔ شاہ صاحب نے جو’’ الکل سُنَّۃٌ ‘‘ کہا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ رفع الیدین کرنا بھی سنت ہے اور نہ کرنا بھی ۔ دونوں مثاب ہیں۔ یہ مطلب تو اندھوں کو مزید اندھا کرنے کے لیے آپ نے لیا ہے۔ شاہ صاحب کا مطلب یہ ہے کہ یہ بھی ایک طریقہ ہے اور وہ بھی ایک طریقہ ہے۔ ان کی مراد ہر گز یہ نہیں کہ ترک رفع الیدین بھی ایک سنت ہے۔ جس پر کبھی ثواب ملے‘ آپ سوچیے سنت ایک وجودی چیز ہو سکتی ہے‘ نہ کہ عدمی۔ عدمی چیز سنت نہیں ہوا کرتی۔ ایسے موقعوں پر جو سنت کا لفظ بولا جا تا ہے‘ اس سے مراد سنت نہیں ہوتی‘ جس پر ثواب ملتا ہے بلکہ سنت معنی طریقہ ہوتا ہے۔ یعنی اس کام کو کرنے کی ایک یہ صورت بھی ہے۔ اگرچہ اس پر ثواب نہیں۔ ثواب تو فعل کی صورت میں ہوگا‘ شاہ شہید تنویر میں لکھتے ہیں:
فَمَعْنٰی کَوْنِ الْعَدَمِ سُنَّۃٌ مَعَ کَوْنِ الْفِعْلِ سُنَّۃً اِنَّہ‘ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَکْتَفِیْ بِعَدَمِہٖ اَیْضًا وَ لاَ شَکَّ مِثْلُ ھٰذِہِ السُّنَّۃِ لاَ یُثَابُ فَاعِلُہٌ ۴۵
علامہ سندھی حنفی حاشیہ نسائی پر بھی یہی فرماتے ہیں: ’’وَالسُّنَّۃُ ھِیَ الرَّفْعُ لاَ التَّرْکُ ‘‘ یعنی ثواب کے اعتبار سے تو فعل رفع ہی سنت ہے ۔ عدم رفع سنت نہیں۔ ترک رفع جب حضور ﷺ سے صحت سند کے ساتھ ثابت ہی نہیں تواس کے سنت ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سب سے بہتر روایت جو ترک رفع الیدین میں حنفیہ پیش کر سکتے ہیں وہ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ والی ہے۔ لیکن اس کے بارے میں امام ابن حبانؒ فرماتے ہیں :
ھٰذَا اَحْسَنُ خَبَرٍ رُوِیَ لِاَھْلِ الْکُوْفَۃِ فِیْ نَفِیْ رَفْعِ الْیَدَیْنِ فِی الصَّلٰوۃِ عِنْدَ الرَّکُوْعِ وَ عِنْدَ الرَّفْعِ مِنْہُ وَ ھُوَ فِی الْحَقِیْقَۃِ اَضْعَفُ شَیْءٍ یَقُوْلُ عَلَیْہِ لِاَنَّ لَہ‘ عِلَلاً تُبْطِلہٌ ۴۶
ان حنفیوں کے پاس رفع الیدین نہ کرنے میں سب سے بہتر حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ والی روایت ہے اور درحقیقت یہ سب سے کمزور ہے کیوں کہ اس کے اندر ایسی خرابیاں ہیں جو اس کو باطل قرار دیتی ہیں۔ جس حدیث کو امام بخاری‘ امام ابوداؤد‘ امام احمد بن حنبل ‘ امام دارقطنی‘ اور امام بیہقی جیسے بڑے بڑے ائمہ ضعیف قرار دے دیں۔ اب اس حدیث سے صحیحین کی حدیث کا معارضہ کرنا اور اپنے مذہب کی بنیاد بنانا حنفیوں کا ہی کام ہے۔ اس کے علاوہ عبداﷲ بن مبارک اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں قَدْ ثَبَتَ حَدِیْثُ مَنْ یَرْفَعُ وَ لَمْ یَثْبُتْ حَدِیْثُ ابْنُ مَسْعُوْدٍ ۴۷ یعنی عبداﷲ بن مسعودؓ کی رفع الیدین نہ کرنے کی حدیث ثابت نہیں اور عبداﷲ بن عمرؓ کی رفع الیدین والی حدیث ثابت ہے۔ بہر کیف حنفیوں کے لیے ہر دو صور ت میں خسارہ ہے۔ اول تو تارک سنت ورنہ ثواب سے محروم تو یقینا۔ لیکن تقلیدی تعصب ہے جو خسارے سے نکلنے ہی نہیں دیتا۔
آپ کہتے ہیں ’’ چلیے!شاہ صاحب ہی کی بات مان لی جائے‘ ترک رفع الیدین کو بھی سنت کہیے ‘ جھگڑا چھوڑیے۔‘‘ میں کہتا ہوں کیا آپ نے نسخ ثابت کر دیا ہے ‘ یا شاہ صاحب کے فیصلے کو مان لیا ہے جو ہم آپ کو چھوڑ دیں۔ جب تک نسخ ثابت نہ کریں ‘ یا غلطی کا اقرار نہ کریں آپ نہیں چھوٹتے ‘ نہ دنیا میں نہ آخرت میں۔ شاہ صاحب ترک رفع الیدین کو سنت کہیں‘ یا نہ لیکن وہ منسوخ نہیں کہتے۔ بلکہ نماز پڑھنے کا طریقہ رفع الیدین کے ساتھ بتلاتے ہیں ۔ افغانی صاحب اور دیگرپھنسے تو اس وجہ سے ہیں کہ منسوخ کہہ بیٹھے ۔ اب مانیں تو کیسے ؟ رسوائی کے مارے اب یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ بھائی غلطی ہو گئی جانے دو ‘ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ رفع الیدین منسوخ نہیں ہے۔ اب بہانے لگا کر کبھی کہتے ہیں شاہ ولی اﷲ کی یہی ایک بات مان لو کہ ترک بھی سنت ہے‘ کبھی کہتے ہیں کہ بندہ خدا!اب چین سے بیٹھو۔ یہ بھی ایک رائے ہے‘ جو شروع سے چلی آتی ہے۔ٹھیک ہے دوسرے علما اس رائے کو تسلیم نہیں کرتے اور وہ رفع الیدین کو منسوخ نہیں مانتے۔ صاف منہ سے نہیں کہتے کہ رفع الیدین منسوخ نہیں ہے۔ اﷲ کی قدرت ہے ‘ یہ کیسے مولوی ہیں کہ سب کچھ کہیں گے لیکن حق ان کے منہ سے نہیں نکلے گا۔ (فَاَبَی الظّٰلِمُوْنَ اِلاَّ کُفُوْرًا)[17:الاسراء:99]ان مولویوں کے نامہ اعمال میں سرفہرست یہی گنا ہ ہوگا کہ انھوں نے غلطی کو غلطی کبھی تسلیم نہیں کیا اور ہمیشہ جھٹلایا۔ ویسے ان مولویوں کی زبان وقلم سے پھوٹ پھوٹ کر نکلتا ہے کہ رفع الیدین منسوخ نہیں‘ یہ ہماری غلطی ہے ‘ لیکن کھل کر کبھی تسلیم نہیں کرتے کہ معافی کی صورت ہو جائے۔ پھر آپ نے دبی زبان سے یہ بھی جھوٹ کہا ہے کہ ’’ مسئلہ اختلافی ہے‘‘ یہ بھی ایک رائے ہے جو شروع سے چلی آتی ہے‘ تاکہ کوئی سمجھے کہ نسخ ایک اختلافی مسئلہ ہے جو شروع سے چلا آ رہا ہے‘ حالانکہ یہ سفید جھوٹ ہے کہ نسخ ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ نسخ کا اختلاف نہ کبھی صحابہ میں ہوا نہ کبھی اماموں میں۔ یہ اختلاف پیدا کرنا تو اﷲ نے افغانی اور نعمانی صاحبان جیسوں کی قسمت میں ہی رکھا ہے۔
آپ جب لکھتے لکھتے تھک گئے اور نسخ کے اثبات میں کچھ نہ ملا تو جھنجھلا کر کہنے لگے آپ کی ابلہ فریبی کا یہ حال ہے کہ ایک طرف تو آپ ترک رفع الیدین کو سنت نہیں مانتے‘ ترک کی حدیثوں کی صحت کا انکار کرتے ہیں اور پھر حجۃ اﷲ البالغہ اور نیل الفرقدین کے حوالے دینے بیٹھے ہیں‘ میں کہتا ہوں‘ ڈھٹائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ہم آپ کی کتابوں سے آپ کے عالموں کے حوالے دکھا رہے ہیں کہ رفع الیدین منسوخ نہیں۔ آپ اسے تو نہیں مانتے ‘ ہم سے کہتے ہیں کہ تم ترک رفع الیدین کو سنت کیوں نہیں کہتے ؟ تر ک کی حدیثوں کو صحیح کیوں نہیں مانتے۔ میں کہتا ہوں اس ترک کا نسخ سے کیا تعلق ؟ آپ بات کریں رفع الیدین منسوخ ہے یا نہیں ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارنے سے کیا فائدہ ۔ اول تو تر ک رفع الیدین سنت نہیں کیوں کہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ لیکن اگر ہو بھی تو کیا اس سے نسخ ثابت ہو جائے گا۔ ہم نے شاہ ولی اﷲ اور مولانا انور شاہ صاحب کی کتابوں کے حوالے آپ کا منہ بند کرنے کے لیے دئیے تھے کیوں کہ وہ آپ کے مسلمہ عالم ہیں۔ یہ حوالے آپ پر حجت ہیں‘ نہ کہ ہم پر ۔ آپ اپنی جہالت سے ان کی رائے کو ہم پر ٹھونستے ہیں جہالت تو مقلد کی مسلم ہوتی ہے لیکن واﷲ یہ امید نہ تھی کہ آپ اتنے گر گئے ہوں گے۔ آپ کی سی باتیں تو جاہل سے جاہل بھی نہیں کرتا۔آخر آپ کے وہ مناظرانہ جدلیات و حدسیات کہاں گئے جو آپ کا سرمایہ حیات ہیں۔ حدیثوں کو تو آپ لوگوں نے صندوقوں میں بند کرنا ہی تھا کیوں کہ آپ کو ان کی ضرورت نہ تھی ۔ ان کو کیوں بند کر دیا۔یہ تو آپ کے ہتھیار تھے۔ حضرت صاحب اگر میں آپ پرترس کھا کر تر ک رفع الیدین کو سنت مان بھی لوں تو آپ کو کیا فائدہ ہوگا ؟ کیا رفع الیدین منسوخ ثابت ہو جائے گی۔ ترس تو آپ پر مجھے بھی بہت آتا ہے لیکن کیا کریں آپ نے بات ہی ایسی کہہ دی ہے کہ اب آپ کو کوئی بچا نہیں سکتا۔ آپ کسی کی بھی آڑ لیں ‘ یہی آواز آئے گی
(مَالَھُمْ مِّنَ اﷲِ مِنْ عَاصِمٍ )[10:یونس:27]
(وَ مَنْ یُّضْلِلِ اﷲُ فَمَالَہ‘ مِنْ ھَادٍ)[40:الغافر:33]
آپ نے شاہ شہید کے بارے میں تو کہہ دیا ’’ خوب ہوتا اگر یہ رسالہ قلم بند نہ کرتے۔‘‘ اب مولانا انور شاہ کے بار ے میں کیا فرمائیں گے۔اصل کمرتوڑ بلکہ ریڑھ توڑ تو اعلان ان کاہے۔’’وَلَیَعْلَمْ اِنَّ الرَّفْعَ مُتَوَاتِرٌ اِسْنَادًا وَ عَمَلاً لاَّ شَکَّ فِیْہِ وَ لَمْ یُنْسَخْ وَ لاَ حَرْفُ مِنْہُ‘‘سارے حنفی بھائی کیا مولانا افغانی اور کیا نعمانی سن لیں کہ رفع الیدین کے بارے میں اہل حدیثوں سے نہ الجھنا ‘ مار کھا جاؤ گے۔ یہ ایک ایسی سنت ہے جو سنداً بھی متواتر ہے‘ اور عملاً بھی‘ جس میں کوئی شک نہیں۔ اب بھی اگر جمعیت احناف بہاول پور کی آنکھیں نہ کھلیں تو ان کی قسمت۔ افغانی صاحب اور نعمانی صاحب کو تو خاص طور پر مولانا انور شاہ صاحب کے فیصلے کے بعد چوں تک نہیں کرنی چاہیے۔ ہمیں تو ان مقلدوں کے شرم پروف ہونے پر تعجب ہے۔ کہ سنت ہو نبیؐ کی اور پھر یہ ایسے بے غیرت ‘ نہ پہلوں کی شرم نہ پچھلوں کی۔ ‘ نہ اپنوں کی ‘ نہ غیروں کی۔شرم ہوتی ہے آنکھ کی۔ جب آنکھ ہی نہ ہو تو شرم کیسی ؟ تو مقلد بے چارے کی آنکھ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر شرم کہاں سے آئے۔مولانا محمد بن ابی عائشہ صاحب اپنی مزید تکذیب بھی مولانا انور شاہ صاحب کی زبان سے ہی سنتے جائیے۔ وَ بَقِیَ الْکَلاَمُ فِی الْاَ فْضَلِیَّۃِ یعنی محمد بن ابی عائشہ کا یہ کہنا بھی جھوٹ ہے کہ نسخ ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ مولانا انور شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اختلاف نسخ کا نہیں اختلاف افضلیت کا ہے۔ نسخ کا تو نام تک نہیں یہ صاحبان ہمیں تو کہتے ہیں کہ شاہ ولی اﷲ اور انور شاہ صاحب کی مان لو۔
اب دیکھتے ہیں کہ آپ اپنے مذہب: (وَ لاَ تُؤْمِنُوْا اِلاَّ لِمَنْ تَبِعَ دِیْنَکُمْ )[3:آل عمران:73]کے تحت اپنے ہم مذہبوں کی مانتے ہیں یا نہیں۔۔۔ آپ کہتے ہیں کہ مولانا انور شاہ صاحب نے ترک رفع الیدین کے سنت ہونے کے اثبات میں اپنا رسالہ لکھا ہے۔ میں کہتا ہوں کسی چیز کے اثبات میں لکھیں۔ آپ کا تو گلا گھونٹ گئے۔ یہ تو صاف کہہ گئے کہ رفع الیدین سنت متواترہ ہے نسخ کاتو نام و نشان تک نہیں۔ رسالہ کے آخر میں آکر ہمارے حضرت بالکل رہ گئے ہیں پتا نہیں دل ٹوٹ گیا۔ دل بھی کیسے نہ ٹوٹتا ۔ شاہ ولی اﷲ صاحب مولانا انور شاہ صاحب شاہ اسماعیل شہید اور پیران پیر کے حوالے ایسے ننگے تھے کہ انھوں نے تو پردہ بالکل ہی اٹھا دیا۔ حدیثوں میں تو سو دھوکا فریب چل سکتا تھا لیکن اب ان کاکیا جواب ۔ ہر ایک ہی پوچھتا ہے یا حضرت !حدیثیں تو ٹھیک ہے اہل حدیث کو نہیں آتیں۔ آپ ہی زیادہ سمجھتے ہیں لیکن یہ کیا بات ہوئی مولانا انور شاہ اسماعیل صاحب تو ہمارے اکابر الاکابرین میں سے ہیں ۔ وہ کیوں کہتے ہیں کہ رفع الیدین منسوخ بالکل نہیں۔ کیا ان کی سمجھ میں بھی حدیثیں نہیں آئیں۔ اب بے چارے کیا جواب دیں ؟ یہی وجہ ہے کہ سارے رسالے میں ہمارے حضرت اتنے گرم نہیں ہوئے جتنے یہاں ہوئے ہیں۔ آدمی آخر آدمی ہی ہے مرتا کیا نہ کرے۔
آپ کہتے ہیں کہ شاہ صاحب کی ہدایت پر عمل کرکے رفع الیدین کا مسئلہ نہ اٹھائیے ‘ میں کہتا ہوں شاہ صاحب کو رفع الیدین کرنے والوں سے ہمدردی ہے وہ تو آپ جیسے سنت دشمن لوگوں کے فتنے سے ان کوڈراتے ہیں۔ ان کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ رفع الیدین نہ کی جائے۔ آپ ان کی ہدایت پر چلنے کی ہمیں فہمائش کرتے ہیں۔ اپنی اصلاح نہیں کرتے۔ آپ کی مثال ایسے لڑکوں کی ہے کہ جن کی وجہ سے ایک باپ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتا ہے کہ بیٹا ان شریروں سے بچنا ۔ ان سے میل جول نہ رکھنا۔ اب اگر بیٹا ان شریروں کو نصیحت کرنے کے لیے بھی ان کے پاس جاتا تو وہ شریر کہتے ہیں اجی !ناصح صاحب ‘ ہم سے دور رہو۔ تمھارے باپ بیٹا والی نصیحت ہے اس پر عمل کرو۔ بالکل وہی حال آپ کا ہے۔ آپ شاہ صاحب کی نصیحت پر خود تو تائب نہیں ہوتے کہ سنت رسول ؐ پر فساد نہ کریں‘ ہمیں سناتے ہیں کہ تم یہ مسئلہ کھڑا نہ کرو۔ اگر کسی بدنیت لڑکے سے یہ کہہ دیا جائے کہ تم پڑھتے نہیں ہو اس لیے تم پاس نہیں ہو گے ۔ وہ فوراً کہتا ہے اچھا جی!پھر میں پڑھنا چھوڑ دوں۔ بے وقوف یہ تو نہیں سمجھتا کہ میں محنت کرنے لگ جاؤں ‘ تاکہ پاس ہو جاؤں۔ وہ الٹا تعلیم ہی کو بند کرنے کا نتیجہ نکالتا ہے۔ ایسا ہی نتیجہ آپ نے نکالا ہے۔ اس کے بعد آپ اپنی مقلدانہ چالاکی کا ایک اور نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔ آپ لکھتے ہیں شاہ ولی اﷲ صاحب نے حضرت ابن مسعودؓ کے متعلق جو اظہار خیال کیا ہے وہ یہی تو ہے کہ حضرت ممدوح نے ترک رفع الیدین کو نبی کی آخری سنت مقررہ سمجھا‘‘ یہ وہی نسخ رفع الیدین والی بات ہوئی کہ نہیں ؟ جس کے ثابت کرنے کا آپ نے مولانا افغانی کو چیلنج دیا ہے۔ آپ اپنی اس عبارت کو پڑھ کر اپنے مذہب کی کمزوری کا خیال کرلیں کہ کیسے سارا مذہب ہی تخیلات پر مبنی ہے۔ جس کی کوئی بھی حقیقت نہیں۔ رفع الیدین حضور ﷺ کی سنت ہے ۔ یہ آپ کو تسلیم ہے ۔ اب اس کا نسخ کیسے ثابت ہو رہا ہے کہ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ نے خیال کیا ہوگا کہ یہ سنت متروکہ ہے ‘ کوئی پوچھے ‘ کون کہتا ہے کہ شاہ ولی اﷲ صاحب کا خیال ہے۔
س۔ شاہ صاحب کو خیال کیوں ہوا؟
ج۔ حنفی یہی کہتے ہیں۔
س۔ حنفی کیوں کہتے ہیں ؟
ج ۔ یہ ان کا خیال ہے۔
س۔ ان کو ایسے خیال کیوں ہوئے ہیں؟
ج۔ کیوں کہ ان کا مذہب خیالی ہے۔
اگر آپ ذرا عقل سے کام لیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ آپ کا یہ سارا سلسلہ ہی بے بنیاد ہے۔ یہ کہیں ثابت نہیں کہ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ نے کہیں بھی ترک رفع الیدین کو سنت کہا ہو۔ یہ تو شاہ ولی اﷲ صاحب کا حنفیوں کے کہنے کی وجہ سے ایک خیال ہے‘ کہ شاید وہ یہ سمجھتے ہوں اور پھر وہ ان کے اس فرض کیے ہوئے خیال کی تغلیط کر رہے ہیں۔ لیکن آپ ہیں کہ اس کو نسخ کی دلیل بنا کر خوش ہو گئے۔ آپ سوچیں ایسے خیالوں سے بھی نسخ ثابت ہوا کرتے ہیں۔ آپ کیوں ہمیشہ خیالی دنیا میں رہتے ہیں‘ کبھی تو حقیقت کی دنیا میں آ جایا کریں۔
شاہ صاحب کی عبارت کو دیکھیں کہ وہ کیسے رفع الیدین کو ایک فعل تعظیمی کہہ کر عبادت قرار دے رہے ہیں۔ عبداﷲ بن مسعودؓ کے اس احتمال کو غلط قرار دے کر اس کی تردید کر رہے ہیں کہ عبداﷲ بن مسعودؓ نے اگر کبھی ترک رفع الیدین کیا تو اس کی وجہ وہی تھی جو ترک تکبیرات انتقال اور دو سنت قبل از مغرب کی۔ یہ ہر گز نہیں کہ وہ اسے منسوخ سمجھتے تھے یا ترک رفع الیدین کو سنت سمجھتے تھے۔ یہ تو سب کے سب مقلدوں کے اضافات ہیں۔
پھر آپ یہ بھی فرمائیں کہ اتنی چھوٹی سی عبارت کا ترجمہ کیا ہے ۔لما جو کہ ’’لام تعلیل ‘‘ اور ’’ما ‘‘سے مرکب ہے۔ آپ نے اس کا ترجمہ ’’جب سے ‘‘ یعنی کلمہ واحد سمجھ کر کیا ہے اور اس کے بعد تلقن کا ترجمہ ’’تلقین ہوئی‘‘ سے کیا ہے‘ جو بالکل غلط ہے۔آدھی عبارت کو ویسے ہی چھپا گئے تاکہ شاہ ولی اﷲ صاحب نے جو حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کے خیال کی تردید کی ہے وہ ظاہر نہ ہو۔ یہ ہے آپ کی علمیت اور دیانت۔ عبارت ملاحظہ ہو۔
وَ لاَ یُبْعِدُ یَکُوْنُ ابْنُ مَسْعُوْدٍ ظَنَّ اِنَّ السُّنَّۃَ الْمُتَقَرَّرَۃَ اٰخِرًا ھُوَ تَرْکُہ‘ لِمَا تَلَقَّنَ مِنْ اَنَّ مَبْنَی الصَّلٰوۃِ عَلٰی سَکُوْنِ الْاَطْرَافِ وَ لَمْ یَظْہُرْ لَہ‘ اِنَّ الرَّفْعَ فِعْلٌ تَعْظِیْمِیٌّ وَ لِذٰلِکَ اِبْتَدَاَ بِہٖ فِی الصَّلٰوۃِ اَوْ لَمَّا تَلَقَّنَ مِنْ اَنَّہ‘ فِعْلٌ یُّنَبِیَ عَنِ التَّرْکِ فَلاَ یُنَاسِبُ کَوْنُہٌ فِیْ اَثْنَاءِ الصَّلٰوۃِ وَ لَمْ یَظْھُرْ لَہ‘ اَنَّ تَجْدِیْدَا التَّنْبہ‘ لِتَرْکِ مَا سَوِی ﷲِ عِنْدَ کُلِّ فِعْلٍ اَصْلٌ مِنَ الصَّلٰوۃِ مَطْلُوْبٌ وَﷲُ اَعْلَمُ ۴۸
اور کچھ بعید نہیں کہ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کا یہ گمان ہو کہ آخر میں جو سنت مقرر ہوئی وہ ترک رفع الیدین ہے‘ کیوں کہ انھوں نے یہ سمجھا کہ نماز کا مدار اعضاء کے سکون پر ہے اور وہ یہ نہ سمجھے ہوں کہ رفع الیدین ایک تعظیمی فعل ہے۔ اسی لیے اس سے نماز کی ابتداء ہوتی ہے یا انھوں نے یہ سمجھا ہو کہ رفع الیدین کا فعل ترک پر دلالت کرتا ہے۔ پس اس کا نماز میں ہونا مناسب نہیں۔ اور وہ یہ بات نہ سمجھے ہوں کہ ہر فعل کی ادائیگی کے وقت ترک ما سوی اﷲ کے احساس کو بار بار تازہ کرنا نماز کا اصل مقصود ہے۔
آپ نے لکھا ہے ’’ اور شاہ اسماعیل شہید جیسے مجاہد اور بطل جلیل کے بارے میں بھی آپ نے نری ابلہ فریبی سے کام لیا ہے۔ انھوں نے رفع الیدین کے مطلق مسنون ہونے پر کتاب نہیں لکھی بلکہ اس کو سنت غیر مؤکدہ ثابت کرنے کے لیے کتاب لکھی ہے۔ ‘‘ حضرت مولانا محمد بن ابی عائشہ صاحب! آپ فرمائیے! جو چیز مسنون ہو کیا وہ غیر مؤکدہ نہیں ہو سکتی۔ اگر غیر مؤکدہ نہیں ہو سکتی تو موکدہ بھی نہیں ہو سکتی۔ کیوں کہ یہ اس کا قسیم ہے۔ جب مسنون نہ سنت مؤکدہ نہ غیر مؤکدہ۔ فرض واجب ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ تو پھر مسنو ن کے افراد کیا ہوں گے؟ کیا مسنون اور سنت مؤکدہ میں تعارض ہے؟ آخر آپ کی منطق کیسی ہے جو آپ کو اتنا اونچا اڑاتی ہے کہ آپ جاہل نظر آنے لگتے ہیں۔ کیا مقید مطلق کے ضمن میں پایا نہیں جاتا؟ کیا سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ مسنون کے افراد نہیں؟ آخریہ ہماری ابلہ فریبی تھی جو آپ ابلہ فریبی سے کام لے رہے ہیں۔ آپ کو یہاں تو سنت غیر مؤکدہ اور مسنون میں فرق نظر آ گیا ‘ لیکن ترک رفع الیدین میں مطلق ترک اور دائمی ترک کافرق نظر نہ آیا۔
سچ کہتے ہیں مقلد مطلبی اندھا ہوتا ہے۔ مطلب کی چیز دیکھتا ہے ‘ جو مطلب کی نہ ہو اسے نہیں دیکھتا۔ مقلد کی تقلید بھی مطلب کی ہوتی ہے جس سے مطلب پورا ہوتا ہو اسی کی تقلید کرتا ہے ۔ اگرچہ نام ایک کا ہی لیتا رہے۔ شاہ شہید کی عبارت نقل کر کے آپ کہتے ہیں ’’ کہیے کیا رہی ‘‘ آپ تو رفع الیدین نہ کرنے والے کو تارک سنت کہہ کر قابل ملامت قرار دیتے ہیں۔ اور زمرہ اہل حدیث سے خارج سمجھتے ہیں اور میں کہتا ہوں رہی تو آپ کی نہیں ۔ عزت تواس لیے نہ رہی کہ انھوں نے رفع الیدین کو سنت ہدی کہا‘ منسوخ نہیں کہا‘ کوئی کچھ کہے‘ آپ کی تب رہتی ہے جب نسخ ثابت ہو جائے ورنہ آپ کی ساری اتر گئی اور اتری بھی چوراہے میں۔آ پ سمجھیں یا نہ سمجھیں۔ بے عقلی آپ کی یوں ثابت ہوئی کہ آپ اتنا نہیں سمجھتے کہ جو حوالہ جات شاہ ولی اﷲ اور مولانا انور شاہ صاحب اور پیران پیرکے ہم نے دئیے ہیں ‘ یہ ہمارے دعوے کا ثبوت نہیں۔ آپ پر حجت قائم کرنے کے لیے ہیں۔ آپ پر یوں حجت قائم ہوئی کہ آپ کے مسلمہ علما آپ کے خلاف عدم نسخ کا اقرار کرتے ہیں۔ آپ کی بے عقلی اس سے بھی ثابت ہوئی کہ آپ یہ نہیں سمجھتے کہ موضوع بحث کیا ہے اور آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ موضوع بحث تو صرف نسخ اور عدم نسخ ہے نہ کہ نسخ کے بعد اس کی حیثیت کہ تارک قابل ملامت ہے یا نہیں ایک معمولی سے معمولی طالب علم بھی اسے خوب سمجھتا ہے‘ پتا نہیں آپ کو کیا ہو گیا ہے جو آپ ایسے بوکھلا گئے کہ بات کچھ ہوئی ہے اور کہتے کچھ ہیں۔ شاہ شہید رفع الیدین نہ کرنے والوں کو قابل ملامت قرار دیں یا نہ‘ اس سے ہمارا کیا تعلق ؟ اگر ہماری یہ بحث ہوتی کہ رفع الیدین ضروری ہے یا نہیں ‘ تارک ملام ہے یا نہیں ؟ پھر ہم اس حوالے کو پیش کرتے تو آپ کہتے ۔ حوالہ تو صرف آپ کو عدم نسخ دکھانے کے لیے ہے۔کیوں کہ بحث اسی سے ہے۔ رہ گیا تارک ملام ہے یا نہیں تو اس سے ہماری بحث کا کیا تعلق؟ الغریق یتثبت بالحشیش ڈوبتا کیا نہ کرتا کی طرح آپ کو معمولی سی بات خواہ وہ آپ کے خلاف ہی مل جائے ‘ آپ اس کو بھی ہاتھ ڈالتے ہیں۔ آپ اپنی بے وقوفی سے و لا یلام تارکہ کے شاہ صاحب کے حوالے پر بہت خوش ہوئے۔۔ کہ چلو کچھ تو ہماری تائید ہوئی ‘ لیکن یہ نہ سوچا یہ ہمارے بارے میں ہے یا نہیں۔ ہائے مقلد تیری حالت بھی کس قدر قابل رحم ہے ۔ کیسے کیسے سہارے تکتا ہے۔خوش ہوگیا ہے کہ شاہ صاحب نے کہہ دیا و لا یلام تارکہ کہ اگر رفع الیدین نہ کرے تو کوئی ملامت نہیں۔ یہ معاملہ تو اﷲ اور اس کے رسول کے درمیان ہوگا۔ اگر رسول ؐ کھڑا ہو گیا کہ اے اﷲ! اس نے ساری عمر میری سنت کی پرواہ نہیں کی تو کیا کچھ نہ ہوگا؟ رسول ﷺ کی سنت کا دائمی تارک ہو اور ملامت نہ ہو۔ کس اہل سنت کا دل اس بات کو مانتا ہے ۔ شاہ شہید کی مراد کچھ بھی ہو آپ اس و لا یلام تارکہ میں نہیں آتے۔ آپ کی قسم تو انھوں نے علیحدہ بنائی ہے۔چنانچہ لکھتے ہیں:
وَ اَمَّا الطَّاعِنُ الْعَالِمُ بِالْحَدِیْثِ اَیْ مَنْ ثَبَتَ عِنْدَہُ الْاَحَادِیْثُ الْمُتَعَلِّقَۃَ بِھٰذَہِ الْمَسْئلَۃِ فَلاَ اِخَالُہٌ اِلاَّ فِیْ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ
یعنی جو جانتے ہوئے کہ رفع الیدین حضور ﷺ کی سنت ہے احادیث سے ثابت ہے طعن کرے اور جلے میرے خیال میں دشمن رسول ہے ۔
آپ جیسوں کے لیے یہ ہے‘ کیوں کہ آپ رفع الیدین کرنے والوں پر طعن کرتے ہیں‘ ان پر جلتے ہیں‘ ان سے ان مسئلوں پر لڑتے جھگڑتے ہیں۔ و لا یلام تارکہ آپ کے لیے نہیں ‘ وہ تو شاہ ولی اﷲ صاحب جیسوں کے لیے ہے ۔
آپ بار بار کہتے ہیں کہ آپ چوتھی جگہ رفع الیدین کے قائل ہو جائیے میں کہتا ہوں آپ کو اتنا پتا نہیں کہ اہل حدیث قریباً سارے چوتھی جگہ رفع الیدین کے قائل ہیں۔ یہ تو آپ کی جہالت ہے ‘ آپ جانتے نہیں‘ بار بار یہی کہتے ہیں۔ اہل حدیث کے نزدیک رفع الیدین چار جگہ ہے ‘ شروع میں‘ رکوع کو جاتے ہوئے‘ رکوع سے اٹھتے ہوئے‘ تیسری رکعت کو اٹھتے وقت۔آپ فرماتے ہیں ’’آپ کی عبارت فہمی کا سلیقہ بھی قابل داد ہے۔ ‘‘ مجھے تو تعجب اس پر ہوتا ہے کہ حنفیوں کے چوٹی کے علما کا جب یہ حال ہے ‘ یہ معیار علم و فہم ہے تو ان کے عام مولویوں اور عوام کا کیا حال ہوگا؟ یہود کے جہلا کے بارے میں اﷲ فرماتے ہیں:
(وَ مِنْھُمْ اُمِّیُّوْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ الْکِتٰبَ اِلاَّ اَمَانِیَّ وَ اِنْ ھُمْ اِلاَّ یَظُنُّوْنَ )[2:البقرۃ:78]اور یہاں مولویوں کا یہ حال ہے۔( لاَ یَکَادُوْنَ یَفْقَھُوْنَ حَدِیْثًا)[4:النساء:78]آپ نے اپنی اس عملی فتح پر تقریباً تین صفحے ضائع کر دئیے۔ اگر کوئی عالم دیکھے تو یہ تین صفحے آپ کی جہالت کی سند ہیں۔ کوئی پوچھے نحوی منطقی صاحب ہم نے کیا غلطی کی ؟ ’’لم ینسخ و لم یترک ‘‘ کا مرجع رفع الیدین کو بنایا۔
س۔ کس کو بنانا چاہیے تھا؟
ج۔ فعل کو ۔
س ۔ فعل سے یہاں کیا مراد ہے ؟
ج۔ سنت ہدی
س۔ سنت ہدی سے یہاں کیا مراد ہے ؟
ج۔ رفع الیدین
س ۔ تو پھر فرق کیا ہوا ؟
ج۔ مقصود تو وہی ہے۔
اگر اب بھی آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو یوں سمجھیے کہ رفع الیدین سنت ہدی ہے۔ سنت ہدی وہ فعل ہوتا ہے جو نہ فرض ہو‘ اور نہ منسوخ ومتروک بالاجماع۔ نتیجہ یہ نکلا کہ رفع الیدین وہ فعل ہوتا ہے جو نہ فرض ہوتا ہے اور نہ منسوخ و متروک بالاجماع ۔اب ’’لَمْ یُنْسَخْ وَ لَمْ یُتْرَکْ ‘‘کی تفسیر کا مرجع رفع الیدین کو قرار دیں تو وہی مطلب‘ فعل کو قرار دیں تو وہی مطلب ۔ سنت ہدٰی کو قرار دیں تو وہی مطلب ۔ کیوں کہ مطلب ایک ہی ہے آپ اپنی بے وقوفی کو بار بار دہرا رہے ہیں۔ چنانچہ آپ نے لکھا ہے ۔ پھر بھی سنت ہدیٰ کی تشریح کی بجائے اس کو رفع الیدین کی تشریح سمجھ رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ جب رفع الیدین ہے ہی سنت ہدیٰ تو سنت ہدیٰ کی تشریح کو رفع الیدین کی تشریح کیوں نہ سمجھا جائے۔ آپ یہ نہیں سمجھتے کہ جب رفع الیدین کو سنت ہدیٰ بتا رہے ہیں اور سنت ہدی کو غیر متروکہ اور غیر منسوخ بالاجماع کہہ رہے ہیں تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ اگر ہم سے یہ معمولی سی بات سمجھتے ہوئے شرم آتی ہے تو جامعہ کے کسی مبتدی سے ہی پوچھ لیں۔ ان کو اکثر قیاس اقترانی کی شکل اول یوں رٹتے ہوئے سنا ہے اتے کتے اتی کتی کرتے ہیں۔اتی کتی کرنے والے کم عقل ہوتے ہیں لہٰذا اتے کتے کم عقل ہوتے ہیں کہ میں تو حیران ہوں کہ جمعیت احناف بہاول پور نے اور خاص کر افغانی صاحب نے آپ جیسے کامل عقل والے کو اپنا وکیل کیسے بنا لیا۔ آپ خود تو تھے جو تھے آپ نے تو تمام حنفیوں کی ناک کاٹ دی۔آگے آپ پھر لکھتے ہیں:
’’ گویا سرے سے اس مسئلے میں کبھی اختلاف ہوا ہی نہیں‘‘ ہاں جناب کبھی اختلاف نہیں ہوا۔ یہ نسخ کا اختلاف تو اسی وقت پیدا ہوا جب سے آپ جیسے علم و عقل کے پورے پیدا ہو گئے‘ ورنہ بتائیے صحابہؓ میں نسخ اور عدم نسخ کا اختلاف کس نے کیا؟ ائمہ میں کس نے کیا ؟ آپ ایسے خطئ واقع ہوئے ہیں کہ مولانا انور شاہ صاحب کی عبارت دیکھ کربھی آپ کو مت نہ آئی کہ اختلاف نسخ میں کبھی نہیں ہوا۔ ’’اختلاف ہوا تو فضیلت میں ہوا۔‘‘ وجوب وا ستجاب میں ہوا۔ نسخ ‘ عدم نسخ میں اندھی تقلید سے پہلے کبھی اختلاف نہیں ہوا۔
آپ کہتے ہیں شاہ صاحب نے سجدہ میں رفع الیدین کو جو صحیح احادیث سے ثابت ہے سنن متروکہ میں شمار کیا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک رکوع کی رفع الیدین کا بھی یہی حکم ہے میں کہتا ہوں شاہ صاحب نے کہاں لکھا ہے کہ سجدے کی رفع الیدین صحیح احادیث سے ثابت تھی‘ پھر متروکہ ہوئی۔ یہی تو آپ کی ہوشیاریاں ہیں جن سے آپ عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔ اسی پر تو حنفی مذہب کی ساری گاڑی چلتی ہے۔ پھر آپ کہتے ہیں حنفیہ کے نزدیک رکوع کی رفع الیدین کو متروک کہا ‘ آپ نے نتیجہ نکال لیا کہ چلو رکوع کی رفع الیدین بھی متروک ہو گئی ۔ آپ کا حال تو ان لڑکوں جیسا ہے کہ ایک نے تو کسی کام سے چھٹی لی ‘ دوسرا ایسے ہی اٹھ کر چل دیا کہ اس کو جو چھٹی ہوئی تو مجھے بھی ہو گئی۔ اب استاد ڈنڈے لگاتا ہے ۔ بے وقوف اس کو تو میں نے چھٹی دی تھی تو نے خود ہی کرلی۔ سجدہ کی رفع الیدین اول تو شروع نہیں ہوئی لیکن ہو سکتا ہے لوگ عادتا جیسے سلام پھیرتے وقت کرتے تھے سجدوں کے وقت بھی کرلیتے ہوں پھر اسی سے منع کر دیا گیا ہو۔ لہٰذا متروک ہو گئی۔ لیکن رکوع کی رفع الیدین تو ایک عبادت تھی ہمیشہ ہوتی رہی ‘ کبھی متروک نہیں ہوئی۔ آپ نے اس کو اس پر کیسے قیاس کر لیا۔ اس کومتروک کیسے قرار دے دیا۔
آپ نے لکھا ہے ’’ خوب ہوتا اگر شاہ اسماعیل شہید اپنے جد امجد حضرت شاہ ولی اﷲ کی رائے سے اتفاق کرتے۔‘‘ میں کہتا ہوں انھوں نے تو اتفاق کیا‘ لیکن آپ تقلید کی وجہ سے نہیں سمجھ سکتے۔ شاہ ولی اﷲ کی رائے یہی تھی: وَالَّذِیْ یَرْفَعُ اَحَبُّ اِلَیَّ مَنْ لاَّ یَرْفَعُ یعنی رفع الیدین کرنے والے مجھے زیادہ پسندیدہ ہیں۔ اسی پر شاہ اسماعیل شہید نے عمل کیا ہے۔ چنانچہ احیائے سنت کا ثواب بھی لیا اور اپنے جد امجد کی رائے سے بھی اتفاق کیا۔ ہم خوما و ہم ثواب۔۔ لیکن آپ بدقسمت ہی رہے کہ کسی سے اتفاق بھی نہ ہوا اور اماتہ سنت بھی کی ۔ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ ۔[22:الحج:11]آپ لکھتے ہیں:خوب ہوتا اگر شاہ شہید یہ رسالہ قلم بند نہ فرماتے۔ میں کہتا ہوں قیامت کو شاہ صاحب کو پکڑ لینا کہ تو نے ہمارے خلاف رفع الیدین کا رسالہ کیوں لکھا تھا۔ کیوں ہماری جڑ پر کلہاڑا مارا تھا۔ اصل میں شاہ شہید کا خاندان حنفی تھا‘ لیکن اﷲ نے ان کو ہدایت دی۔ تقلید سے ان کی جان چھوٹ گئی۔ اسی کا اثر تھا کہ شاہ صاحب نے رفع الیدین پر ایک رسالہ لکھا اور مقلدوں کا رد ان الفاظ میں کیا۔
1–وَقَدْ غَلاَ النَّاسُ فِی التَّقْلِیْدِ وَ قَدْ تَعَّصَّبُوْا فِی الْتِزَامِ تَقْلِیْدِ شَخْصٍ مُعَیِّنٍ حَتّٰی مَنَعُوْا الْاِجْتِہَادَ فِیْ مَسْئلَۃٍ وَ مَنَعُوْا تَقْلِیْدَ غَیْرِ اِمَامِہٖ فِیْ بَعْضِ الْمَسَائلِ وَ ھٰذَا ھِیَ الدَّاءُ الْعِضَالُ الَّتِیْ اَھْلَکْتِ الشِّیْعَۃَ فَھٰؤُلاَءِ اَیْضًا اَشْرَفُوْا عَلٰی ھِلاَکِ ۔ ۴۹
2– فَعُلِمَ مِنْ ھٰذَا اِنَّ اِتِّبَاعَ شَخْصٍ مُعَیِّنٍ بِحَیْثُ یَتَمَسَّکُ بِقَوْلِہٖ وَ اِنْ ثَبَتَ عَلٰی خَلاَفِہٖ دَلاَئلٌ مِنَ السُّنَّۃِ وَالْکِتٰبِ وَ یُاَوِّلُ اِلٰی قَوْلِہٖ لَوْنٌ مِنَ النَّصْرَانِیَّۃِ وَ حَظٌّ مِنَ الشِّرْکِ وَالْعَجَبُ مِنَ الْقَوْمِ لاَ یَخَافُوْنَ مِنْ مِثْلِ ھٰذَا الَّاِتِّبَاعِ بَلْ یُحِیْفُوْنَ تَارِکَہ‘ –
تقلیدیوں کو تقلیدکا مرض ایسا لگ گیا ہے جو ان کو شیعہ کی طرح ہلاک کر کے چھوڑے گا۔ مقلدین جو قرآن وسنت کی پرواہ کیے بغیرشخصی تقلید کرتے ہیں تو یہ ان کا نصاریٰ و مشرکین والا رنگ ہے ۔ تعجب ہے کہ ان مقلدوں کو ایسی تقلید سے ڈر نہیں لگتا بلکہ جو تقلید نہیں کرتے ان پر جو روجفا کرتے ہیں۔(جیسا کہ اہل حدیث کو بطور طنز کے غیر مقلد کہتے ہیں )
آپ نے لکھا ہے کہ’’ بعض علما کوفہ رفع الیدین نہیں کیا کرتے تھے۔‘‘ میں کہتا ہوں جب کوفہ میں بہت سے رفع الیدین کرنے والے بھی تھے تو نہ کرنے والوں سے کیا فرق پڑتا ہے کیوں کہ نہ کرنے والے بھی اسے منسوخ نہیں سمجھتے تھے۔ یہ صرف ان کا تساہل تھا‘ یا بے خبری جو وہ نہیں کرتے تھے۔ جوں جوں اہل کوفہ کو علم ہوتا گیا ۔ وہ رفع الیدین کے قائل و فاعل ہوتے گئے۔ چنانچہ دارقطنی میں ہے کہ امام احمد بن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ پہلے میں بھی کوفیوں کی طرح رفع الیدین نہیں کیا کرتا تھا۔ میں نے حضور ﷺ کو خواب میں دیکھا کہ وہ رفع الیدین کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں تو میں نے بھی رفع الیدین شروع کر دی۵۰ اور تو اور امام عصام بن یوسف جو امام صاحب کے پوتا شاگرد ہیں وہ بھی معلوم ہو جانے پر متنازع فیہ رفع الیدین کرنے لگ گئے۔ ملاحظہ ہو مولانا عبدالحی لکھنوی کی الفوائدالٰہیہ۔۔۔ حضرت عبداﷲ بن مبارک جو کہ امام صاحب کے خاص شاگرد تھے وہ بھی کوفے میں رہتے تھے‘ رفع الیدین کرتے تھے۔ ان کے شاگرد بھی رفع الیدین کرتے تھے۔ اب تہجد پڑھنے والے کو نہ دیکھنا اور سوئے ہوئے کو دیکھ کر سوئے رہنا آپ ہی کا حصہ ہے۔ آپ کو رفع الیدین نہ کرنے والے نظر آئے ‘ کرنے والے نظر نہیں آتے۔ یہ آپ کی نگاہ کا قصور ہے۔ اتباع فعل کی ہوتی ہے نہ کہ عدم فعل بلکہ سستی کی۔
آگے آپ لکھتے ہیں: فتاویٰ عزیزی میں ہے ’’ ترک رفع الیدین مے کنم ‘‘ میں کہتا ہوں آپ کو شاہ عبدالعزیز نظر آتے ہیں حضور ﷺ اور آپ کے سینکڑوں صحابہؓ نظر نہیں آتے‘ جو رفع الیدین کرتے تھے۔ پیروی کسی کی نیکی میں کی جاتی ہے‘ نہ کہ ترک نیکی میں۔ ہائے مقلد! تیرے بھی کیا کہنے۔ تو بھی کیسا عقل والا ہے۔ آپ کی نعمانیات بھی کیسی عجیب عجیب ہوتی ہیں۔
اب آپ نے یہ کہہ دیا کہ ’’ نظر بلند تر کیجیے ‘‘ میں پوچھتا ہوں کہ حضور ﷺ سے بھی کوئی بلند تر ہے۔ اگر نہیں اور یقیناًنہیں تو اہل حدیث نظر کو بلند تر کیا کریں۔ آپ جانتے ہیں اور یہی ہمارا اور آپ کا جھگڑا ہے کہ ہماری نظر حضور ﷺ سے نیچے کسی پر جمتی ہی نہیں اور آپ کی امام سے اوپر اٹھتی ہی نہیں۔
ہم ہمیشہ حدیث رسولؐ کو دیکھتے ہیں اور آپ ہمیشہ اقوال الناس کو ۔ اب سوچیے نظر بلند تر ہمیں کرنی چاہیے یا آپ کو۔ ہم نبی ؐسے بلند کرکے نظر کو کہاں لے جائیں؟ قرآن صاف کہتا ہے:(فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلاَّ الضَّلاَلُ ج فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ )[10:یونس:32]یعنی حق کے بعد تو گمراہی ہے۔ لہٰذا نبیؐ سے بلند تر کہاں لے جاؤ گے۔ کیوں کہ نظر کا بلند اور بلند تر ہونا تو نظر والے کے لیے ہوتا ہے جو بے نظر ہو وہ کیا بلند کرے گااور کیا بلند تر؟ مقلد بے چارہ اندھا ہوتا ہے‘ تقلیدی تعصب کی پٹی اس کی آنکھوں پر ہوتی ہے‘ کسی کے سہارے پر چلتا ہے‘ اس کے بلند نظر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ بند نظر تو ہو سکتا ہے بلند نظر نہیں ہو سکتا۔ لہذا آپ کا یہ کہنا کہ ’’ نظر کو بلند کیجیے‘‘ آپ کی بے عقلی کا شاہ کار ہے۔
آپ کہتے ہیں ’’ اقلیم ہند کو جن غازیوں نے فتح کیا اور یہاں اسلام کا بول بالا کیا وہ حضرات حنفیہ ہی تھے‘‘ میں کہتا ہوں اگر انھوں نے اسلام کا بول بالا کیا تو وہ حنفیہ کہاں تھے؟ اگر وہ حنفیہ ہوتے تو آپ کی طرح سے حنفی مذہب کا بول بالا کرتے یا پھر یہ نہ کہیں کہ انھوں نے اسلام کا بول بالا کیا۔ صاف کہیں کہ انھوں نے حنفیت کا بول بالا کیا اور وہ حنفی تھے۔ اگر وہ حنفی تھے اور حنفیت کا ہی بول بالا کیا تو ان کوکیا ملے گا؟ ثواب کا مستحق تو وہی ہو سکتا ہے جو اسلام کا بول بالا کرے۔ اسی کا ڈنکا بجائے۔‘‘
بہرکیف وہ غازی تو اپنی نیت اور اپنے کیے کا پھل پائیں گے۔ اگر اسلام کی اشاعت ان کا مقصد تھا تو اﷲ سے اجر پائیں گے اگر کسی اور مذہب کی اشاعت ان کا مقصد تھا تواس سے انعام پائیں گے۔( تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ ج لَھَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ ج وَ لاَ تُسْءَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ )[2:البقرۃ:141]آپ اپنے عقائد و اعمال کو دیکھیں کہ آپ کون ہیں ۔ ان غازیوں کا اسلام آپ کو کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ آپ کے لیے پدرم سلطان بود کی شیخی بے کار ہے۔ آپ کو فائدہ تو اپنے اسلام کے خالص رکھنے میں ہے‘ نہ کہ ملاوٹ کرنے میں۔ اگر آپ نے اسلام میں حنفیت کی ملاوٹ کر دی تو سراسر نقصان میں رہیں گے۔ اس لیے سو چ لیں الٹا فخر نہ کریں۔
آپ کہتے ہیں ملک کے فاتح حنفی تھے تو مذہب حنفی کو یہاں فروغ ہوا ‘ میں کہتا ہوں مذہب حنفی کو فروغ ہوا تو اسلام کے باقی تین فرقوں شافعی ‘ مالکی حنبلی کو زوا ل ہوا ۔ یعنی مجموعی طور پر 3/4 اسلام کو نقصان پہنچا۔ فرقہ بندی زوروں پر ہو گئی جو بالآخر اسلام کی سطوت کو لے ڈوبی
تفرقے جو موجودہ آئے ہوئے ہیں
یہ سب حنفی مذہب کے لائے ہوئے ہیں
اس کے علاوہ اس فروغ سے حنفی مذہب ایسا بگڑا کہ وہ درحقیقت امام ابوحنیفہ صاحب کا سیدھا سادہ مذہب نہ رہا بلکہ اوروں کا مذہب بن گیا۔ اہل سنت دشمن لوگوں نے لفظ حنفیت کا نام رکھا لیکن اندر سے اسے اعتزال و تشیع سے بھر دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ جو بگاڑ آج حنفیت میں ہے ‘شافعیت ‘ مالکیت اور حنبلیت میں وہ نہیں۔ مسئلے ایسے ایسے بنے جو اسلام تو درکنار مذہب حنفی کے لیے بھی باعث شرم ہیں۔ حنفی عالم کوئی بھی کیوں نہ ہو اپنے مذہب حنفی کے فروغ کے مسئلے نہ سن سکتا ہے ‘ نہ شریف انسانوں کو سنا سکتا ہے۔ میں حضرت علامہ صاحب سے پوچھتا ہوں کہ آپ یہ بتائیے کہ اپنی دبر میں اپنے ہی عضو تناسل کو داخل کر کے غسل کے وجوب و عدم وجوب۵۱کا مسئلہ حنفی مذہب کے فروغ کے زمانے کا ہے یا بچپن کا‘ اگر حنفی مذہب کے بچپن کے زمانے کا ہے تو شیخین اور صاحبین کو اس کا علم تھا یا نہیں اور اگر یہ مسئلہ بچپن کے زمانے کا نہیں بلکہ فروغ کے زمانے کا ہے تو مہربانی فرما کر یہ بتائیے کہ یہ مسئلہ پہلے پیدا کیوں نہ ہوا۔ فروغ کے زمانے میں کیوں پیدا ہوا۔ کیا یہ ذہنوں کے فروغ کا اثر ہے جو وہ ایسے مسئلے سوچنے لگ گئے یا اعضاء کو ہی ترقی ہو گئی۔ جو وہ اتنی جست لگانے لگ گئے کہ رخ دیکھا نہ حد۔ جہاں دیکھا گھس گئے۔ آخر یہ کیا فروغ تھا جس پر آپ فخر کرتے ہیں۔
آپ نے بڑے فخر سے کہا ہے کہ ملک کے فاتح حنفی تھے۔ اس لیے مذہب حنفی کو فروغ ہوا۔ میں کہتا ہوں جب تک حنفی مذہب کو فروغ حاصل نہیں ہوا تھا ابھی بچہ تھا تو سیدھا سا یہ مسئلہ تھا کہ اگر کوئی حنفی کسی عورت کو شہوت سے ہاتھ بھی لگا دے تواس عورت کی ماں اور بیٹی حرام ہو جائے گی۔ جب اسے فروغ حاصل ہوگیا۔ وہ پورا جوان ہو گیا اور زوروں پر آ گیا تو مسئلہ یوں ہو گیا کہ اگر کوئی حنفی کسی عورت سے ایسے زور سے کام کرے کہ اس کی اگلی اور پچھلی جگہ کو پھاڑ کر ایک کر د ے تو کچھ نہ ہوگا۔ نہ ماں حرام ہوگی نہبیٹی۔۵۲
حنفی مذہب کے بچپن کا مسئلہ یہ تھا کہ امامت کا مستحق وہ ہے جو علم تقویٰ میں سب سے بڑ ھ کر ہو ۔ جب مذہب کو ترقی ہوگئی تو مسئلہ یہ بن گیا۔ ثم الاحسن زوجہ ۵۳کہ جس کی بیوی زیادہ خوبصورت ہوگی۔ امام وہ بنے گا ۔ اب بتائیے مینا بازار لگائے بغیر اس کا فیصلہ کیسے ہوگا۔ کیا اس سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ حنفی مذہب کے فروغ کے ساتھ ساتھ حسن کے فروغ کے بھی بڑے بڑے امکانات ہیں۔ اس کے بعد ایک معیار یہ مقرر ہوا۔ ’’ثم الاکبر رأ سا والاصغر عضوا‘‘ ۵۴کہ امام وہ ہوگا جس کا سر بڑ ا ہو اور عضو خاص چھوٹا ہو۔‘‘ اب عضو کی پیمائش کس حالت میں ہوگی ‘ عام حالات میں یا غیر معمولی حالات میں‘ پھر کون کرے گا؟ شخص واحد اس کام کو سرانجام دے گا یا ججوں کا پورا بورڈ بیٹھے گا۔ یہ تحقیقات ایسی ہیں جن کا تعلق یقیناًبہت فروغ کے زمانے سے ہے۔ مغرب نے بہت ترقی کی ہے لیکن وہ ابھی تک حسن کے مقابلے تک ہی پہنچا ہے۔ اعضائے تناسل کے مقابلے تک وہ ابھی تک نہیں پہنچا۔ پھر مارپیٹ کر زبردستی طلاق لکھوانا بھی مذہب حنفی کے فروغ کے زمانے کی پیدا وار ہے۔آپ ناراض نہ ہوں ‘ ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ جب ایسے مسئلے بن گئے تو حنفیت کے
فروغ سے اسلام کو کیا فائدہ پہنچا؟ اسلام کافائدہ تواس میں ہے کہ سب مذاہب مٹ کر صرف ایک مذہب محمد ﷺ کا رہ جائے۔ اسلام کو فائدہ حنفیت ‘ شافعیت یا اور تمام مذاہب کے مٹنے میں ہے۔ نہ کہ اس کے فروغ میں کہ فرقہ بندی زور پر ہو۔ خدارا کچھ تو سوچیں برائی آپ کو خوبی نظر آتی ہے اور خوبی برائی تنزل۔ آپ کو ترقی نظر آتا ہے اور ترقی تنزل۔ آخر یہ الٹاپن کیا ہے
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
آپ فرماتے ہیں کہ’’ آپ کو حنفیوں کا احسان ماننا چاہیے کہ ان کے طفیل دولت اسلام سے مشرف ہوئے۔‘‘ میں کہتا ہوں حنفیوں کا احسان تو حنفی مانیں ۔ اہل حدیث حنفیوں کا احسان کیا مانیں‘ جنھوں نے ان کے مذہب کو قبول ہی نہیں کیا؟ یقین جانیں ہم تو آپ کو چھوڑ کر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اور بے ساختہ ہماری زبانوں سے یہ نکل جاتا ہے۔اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانَا مِمَّا ابْتَلاَکُمْ بِہٖ (اور قۤرآنی الفاظ میں)وَ فَضَّلَنَا ھم عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَنا تَفْضَیْلاً۔[17:الاسراء:70]ﷲ تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمیں مقلد نہیں بنایا۔ اگر تو ہمیں مقلد بنا دیتا تو ہمارا کیا زور تھا یہ تو تیرا ہی فضل ہے جو تو نے ہمیں تقلید سے بچایا‘ فرقہ بندیوں سے بچایا اور سنت کا راستہ دکھایا۔
آپ کہتے ہیں ’’اہل حدیث حنفیوں کی بدولت دولت اسلام سے مشرف ہوئے‘‘ میں کہتا ہوں اگر اہل حدیث حنفیوں کی بدولت ہوتے تو حنفی ہوتے‘ ہم جو اہل حدیث ہیں تو یہ اﷲ کا فضل ہے۔ہم حنفیوں کے طفیل سے نہیں ہوئے۔ اﷲ نے ہمیں حنفیوں کا مرہون منت نہیں بنایا‘ ہم تو سابقین اولین کے احسان مند ہیں جن کے طفیل ہم اہل حدیث ہوئے
اگر آپ سوچیں تو احسان مند آپ کو ہمارا ہونا چاہیے کیوں کہ دین اہل حدیثوں نے حنفیوں کو پہنچایا۔ حنفی امام ابوحنیفہ صاحب سے پہلے کہاں تھے؟ اہل حدیث تو اس وقت بھی موجود تھے جب اور کوئی فرقہ موجود نہ تھا۔ اہل حدیث نے حضور ﷺ سے قرآن و حدیث لیا اور آپ کو پہنچایا۔ لیکن یہ آپ کی بد ذوقی ہے کہ آپ نے قرآن و حدیث کو خالص نہ رہنے دیا۔ اس میں حنفیت کی ملاوٹ کر دی۔ وہی دین ہمارے پاس ہے تو خالص۔ آپ کے پاس ہے تو ملاوٹی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ حنفیت اسلام نہیں‘ ہم مانتے ہیں کہ حنفیت اسلام ہے‘ لیکن ملاوٹی ہے۔ دودھ میں پانی ملا ہوا بھی ہو تو بھی اسے سفید ہونے کی وجہ سے دودھ ہی کہتے ہیں۔ اور اگر خالص ہو تو بھی اسے دودھ ہی کہتے ہیں۔ ہمت اور سمجھ والا ملاوٹی دودھ کو کبھی قبول نہیں کرے گا۔ وہ خالص ہی تلاش کرے گا خواہ مشکل سے ملے۔ اور مہنگا ہی ملے۔ بے ہمت اور بدذوق کوجیسا مل جائے اسی کو قبول کر لیتا ہے۔ چونکہ آج کل خالص چیز عنقا ہوتی جا رہی ہے۔ اسی طرح سے اہل حدیث کا وجود بھی عزیز اور نادر ہوتا جا رہا ہے‘ جیسے ملاوٹ اور کھوٹ بڑھتا جا رہا ہے‘ ایسے ہی حنفیت بریلویت کے رنگ میں بڑھتی جا رہی ہے ۔ بے وقوف اس اکثریت کو سواد اعظم سمجھ کر صداقت کا معیار بنا رہے ہیں۔
آپ کہتے ہیں ’’ حنفیوں کی بدولت شرک و کفر سے نجات ملی‘‘ میں کہتا ہوں حنفیوں کی بدولت شرک و کفر سے نجات ملی ہوتی تو آج قبروں کے مجاور ‘ تعزیے نکالنے والے‘ میلادیے اور مولودیے کبھی حنفی نہ ہوتے۔ آپ یہ بتائیے کہ یہ قبوری شریعت کے ماننے والے ‘ اماموں کا رتبہ نبیوں سے بڑھانے والے حنفی ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو آپ کا اکثریت پر ناز اور سواد اعظم کا دعویٰ باطل ہے اور اگر حنفی ہیں اور یقیناًحنفی ہیں بلکہ بڑے حنفی ہیں تو آپ کی اس شیخی میں کیا وقعت رہ جاتی ہے۔ میں کہتا ہوں آج کفر و شرک کی کوئی قسم ایسی نہیں ہے جو حنفیوں میں نہ پائی جاتی ہو۔ آج حنفیت ہر کفر و شرک کے ساتھ چل سکتی ہے۔ اگر نہیں چل سکتی تو سنت کے ساتھ نہیں چل سکتی۔آج کسی عمل ا ور عقیدے سے حنفیت میں فرق نہیں آتا۔ اگر فرق آتا ہے تو رفع الیدین کرنے سے یا آمین بلند آواز سے کہنے سے۔ آپ تو کہتے ہیں حنفیت کفر و شرک سے نجات دیتی ہے۔ میں کہتا ہوں نجات کہاں دیتی ہے۔ یہ تو بلکہ ان سے خوب گلے ملتی ہے۔ لیکن سنت سے بھاگتی ہے۔ موجودہ حنفی مذہب میں اس قدر بگاڑ پیدا ہو چکا ہے کہ حنفیوں کے ہاں شرک و توحید میں ‘ سنت و بدعت میں‘ اتباع و تقلید میں کوئی فرق باقی نہیں رہ گیا۔ جبھی آپ کہہ رہے ہیں کہ حنفیوں کی بدولت شرک و کفر سے نجات ملی ہے۔ اگر آپ دانائے حقیقت ہوتے تو کبھی یہ بات نہ کہتے‘ بلکہ اعتراف کرتے کہ شرک و کفر سے نجات تو خالص اسلام یعنی قَالَ اﷲُ وَ قَالَ الرَّسُوْلُ میں ہے‘ حنفیت میں نہیں۔
آپ کہتے ہیں کیا آپ لوگوں کو تبلیغ کے لیے متفق علیہ مسائل نہیں ملتے جو مختلف فیہ مسائل چھیڑتے ہیں‘‘ میں کہتا ہوں نسخ رفع الیدین کا مسئلہ تو مختلف فیہ نہیں۔ یہ تو متفق علیہ مسائل میں سے ہے۔ کبھی صحابہؓ نے یا ائمہ نے اس میں اختلاف نہیں کیا۔ یہ تو آپ جیسوں کی بدبختی ہے جو آپ نے اس کو بھی مختلف فیہ بنا دیا۔ ویسے بتائیے کہ آج مسلمانوں کا متفق علیہ مسئلہ کون سا رہ گیا ہے۔سب میں تو آپ جیسے فرقہ پرستوں نے اختلاف پیدا کررکھا ہے۔ اسلام کی بنیاد توحید تھی ۔ وہ آپ نے خراب کر دی ۔آج توحید کی تبلیغ کر کے دیکھ لیں‘ سب سے زیادہ حنفیوں کو تکلیف ہوگی۔ وہ کب برداشت کرتے ہیں کہ تقلید اڑے ‘ پیرپرستی جائے ‘ قبرپرستی کا جنازہ نکلے ‘ اگر توحید کی تبلیغ ہوگی تو ان عقائد پر ضرور زد پڑے گی اور یہی عقائد آج حنفی مذہب کی اساس ہیں۔ دوسرا اہم مسئلہ حضور ﷺ کی رسالت کا ہے وہ آپ نے خراب کر دیا ۔ اماموں کو رسولوں کا درجہ دے دیا۔ اب اتباع رسول ؐ ہو تو کیسے ؟ اس کے علاوہ بنیادی چیز نماز تھی۔ وہ آپ نے حنفی بنا لی۔ مذہب تک آپ نے حنفی بنا لیا۔ یہ سب آپ کی دھوکے کی باتیں ہیں جو کہتے ہیں کہ تبلیغ متفق علیہ مسائل کی کرو۔ اس سے آپ کی مراد یہ ہے کہ وہ مسائل نہ لو جو ہمارے خلاف ہوں۔ جن میں ہماری چوری ظاہر ہو وہ مسائل لو جو بریلویوں یا کسی اور فرقے کے خلاف ہوں پھر بریلوی بھی آپ والا ہی ہاتھ برتتے ہیں۔ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ تم پیرپرستی ‘ نور بشر ‘ حاضر و ناظر اختلافی مسائل کیوں چھیڑتے ہو؟ تمھیں متفق علیہ مسائل : چوری نہ کرو‘ جھوٹ نہ بولو‘ رشوت نہ لو‘ نظر نہیں آتے۔ مقصد ان کا بھی یہی ہوتا ہے کہ تم ہمیں ننگا نہ کرو۔ شیعہ ‘ مرزائی‘ اور جس کے خلاف مرضی بولتے پھرو۔ غرضیکہ آج ہر فرقہ یہی چاہتا ہے کہ ہماری چوریاں چھپی رہیں ۔ ہمارے ڈاکے ڈھکے رہیں۔ جب بھی حق کی تبلیغ کی جائے گی جس کے خلاف ہوگی ‘ وہ یہی کہے گا جو آپ کہتے ہیں۔ آپ کے اہل باطل ہونے کی یہ بہت بڑی دلیل ہے کہ آپ وہی کہتے ہیں جو اہل باطل کہتے آئے ہیں۔چنانچہ قرآن مجید میں ہے:
(کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ مِّثْلَ قَوْلِھِمْ ط تَشَابَھَتْ قُلُوْبُھُمْ )[2:البقرۃ:118] (ذٰلِکَ قَوْلُھُمْ بِاَفْوَاھِھِمْ ج یُضَاھِئوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ )[9:التوبۃ:30] اگرآپ اہل حق میں سے ہوتے تو یہ بات کبھی آپ کے کام و دہن سے نہ نکلتی۔ قرآن مجید میں متعدد آیات میں یہ کہا گیا ہے کہ حق وہی ہے جو اﷲ کی طرف سے آئے۔ اس کے علاوہ سب گمراہی ہے‘ خواہ وہ کسی جماعت میں ہو یا کسی فرقے میں۔ تبلیغ اسی کے بلند کرنے کو اور باطل کے مٹانے کو کہتے ہیں۔ آخر آپ سوچیں آپ لوگوں کو جو رفع الیدین کے خلاف بغض ہے تو کیا اس وجہ سے ہے کہ یہ سنت رسول ؐ نہیں۔ بدعت ہے ‘ یہ مسئلہ اتفاقی نہیں۔ اختلافی ہے ‘ نہیں ہر گز نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ اس مسئلہ کے نمایاں ہونے سے آپ ننگے ہوتے ہیں کہ جب حنفی مولویوں نے ایسے متفق علیہ مسئلے کو جو متواتر احادیث سے ثابت ہے ٹھکرا دیا ہے تو اور مسائل میں جو اخبار احاد سے ثابت ہیں کیا کچھ خیانت نہ کرتے ہوں گے۔ بظاہر تو آپ اس مسئلے کو فروعی کہتے ہیں لیکن دل میں آپ جانتے ہیں کہ یہ مسئلہ حق و باطل میں فارق ہے۔ جیسے اہل حدیث ہمارے لیے موت ہیں ایسے ہی یہ مسئلہ ساری حنفیت کا جان لیوا ہے۔ یہ تو اﷲ نے ہی سب بنادیا جو افغانی صاحب نے یہ بحث چھیڑ کر آ بیل مجھے مار والی بات کر لی ورنہ شاید یہ موقع نہ ملتا کہ آپ لوگوں پر یوں حجت قائم ہوتی۔ اب اﷲ نے موقع دے دیا ہے کہ باطل کا بھی پوسٹ مارٹم ہو جائے اور حق بھی عوام کو دکھا دیا جائے‘ پھر اس کے بعد جس نے تقلید پر مرنا ہو مرے ‘ جس نے بچنا ہو بچے۔
ہمارا کام ہے کہنا بتا دینا
تمھارا کام ہے مانو یا نہ مانو
آپ کہتے ہیں : ’’ آخر مسلمانوں میں بلا وجہ افتراق و اختلاف پیدا کرنے سے سوائے اپنی عاقبت برباد کرنے کے اور کیا ملے گا؟‘‘ جناب یہ تو مجھے بھی تسلیم ہے کہ دین محمدی میں افتراق و اختلاف پیدا کرنا سوائے اپنی عاقبت برباد کرنے کے اور کچھ نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا تمھیں کیسے پتا لگا کہ یہ جرم آپ کرتے ہیں یا ہم۔۔۔ یہ تو آپ کو تسلیم ہے کہ مطلق اختلاف جرم نہیں۔ جرم وہ اختلاف ہے جو حق سے ہو اور فرقہ بندی پیدا کرے‘ آپ پہلے حق کو متعین کریں پھر کسی پر جرم فرد لگائیں۔آپ حنفی بننے کی دعوت دیتے ہیں ‘ ہم محمدی بننے کی۔ آپ سوچیں حنفی بننا اچھا ہے یا محمدی؟ آپ کی دعوت نہ دنیا میں‘ نہ آخرت میں۔ لَیْسَ لَہ‘ دَعْوَۃٌ فِی الدُّنْیَا وَلاَ فِی الْاٰخِرَۃِ[:ا40لمومن:43] امام ابوحنیفہ صاحب نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ لوگو! میری تقلید کرو۔ اگر دنیا کے سارے حنفی مل کر یہ دکھا دیں کہ امام صاحب نے کبھی حنفی بننے کے لیے کہا ہو یا اپنی تقلید کا حکم دیا ہو تو آپ سچے ‘ لیکن سارے جہاں کے حنفی بھی مل کر نہ دکھا سکیں اور پھر امام صاحب کے نام پر ایک غلط مذہب پھیلا دیں تو پھر آپ سے بڑا مجرم کون ہو سکتا ہے کہ زبردستی امام ابوحنیفہ صاحب کو حضور ﷺ کے مقابلے میں لا کر کھڑا کر دیا اور افتراق پیدا کیا اور دین حق کے چار ٹکڑے کر دیے
دین حق را چار مذہب ساختند
رخنہ در دین نبی انداختن
حنفی دعوت اس لیے بیکار ہے کہ قبر اور آخرت میں اس کے بارے میں پوچھا تک نہیں جائے گا۔قبر میں تو سوال یہ ہوگا مَنْ نَبِیُّکَ (تیرا نبی کو ن ہے ؟) جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ تو کس کے مذہب پر چلتا تھا ورنہ مَا دِیْنُکَ کے سوال کے بعد مَنْ نَبِیُّکَ کے سوال کے کیا معنی ہیں؟ اب حنفی کے لیے جو حنفی مذہب پر چلتا ہے اور حنفی کہلاتا ہے اس کا جواب بہت مشکل ہوگا جیسے مشرک کو مَنْ رَّبُّکَ کا جواب نہیں آسکتا کیوں کہ وہ اﷲ کو برائے نام مانتا ہے۔ حقیقت میں اولیاء ہی کو مانتا ہے ۔ وہی اس کے معبو د ہیں‘ ان کی رضا کو اﷲ کی رضا سمجھتا ہے۔ اسی طرح حنفی من نبیک کا جواب نہیں دے سکے گا۔ کیوں کہ عملی طور پر وہ نبی کی جگہ امام کو ہی مانتا ہے۔ اسی کے مذہب پر چلتا ہے۔ اسی کے نام پر اپنے کو حنفی کہتا ہے۔ اس کے نزدیک نبی صرف برائے نام ہی ہوتا ہے۔ حقیقت میں فیصلہ کن شخصیت امام کی ہی ہوتی ہے۔ اب اگر کہا جائے کہ امام بھی تو وہی کہتا ہے جو نبی کہتا تھا تو میں کہوں گا پھر حضور ﷺ نے یہ کیوں نہ فرمایا کہ میرے بعد حنفی بن جانا‘ شافعی بن جانا‘ مالکی بن جانا‘ حنبلی وغیرہ اور کچھ نہ بننا۔ میرا مذہب وہی ہے جو حنفیوں کا ہوگا اگر حنفی مذہب حضور ؐکا ہی مذہب ہے تو پھر اعلیٰ کو چھوڑ کر ادنیٰ کی طرف نسبت کرنا یعنی محمدی کی بجائے حنفی بننا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ اور اگر حنفی مذہب میں اور حضور ﷺ کے مذہب میں کوئی فرق ہے اور یقیناًفرق ہے جب ہی تو نام حنفی رکھا گیا ہے‘ تو ہمارا یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ حنفی ایک فرقہ ہے جو اسلام میں افتراق سے پیدا ہوا ہے‘ جس سے تائب ہونا از بس ضروری ہے‘ ورنہ قبر کے امتحان میں پاس ہونا بہت مشکل ہے۔
آپ کہتے ہیں :’’ ہم نے مانا کہ رفع الیدین آپ کے نزدیک مستحب ہے‘ پھراس کی دعوت دینا کونسا فرض ہے ؟‘‘ میں کہتا ہوں کہ جب حنفی مذہب کی دعوت دینا فرض ہو سکتی ہے تو نبی کی سنت کا احیاء فرض کیوں نہیں ہوگا؟ ہمارے نزدیک نبی کی ہر سنت کا احیاء فرض ہے‘ خواہ وہ سنت مستحب کے درجے میں ہی کیوں نہ ہو‘ کیوں کہ وہ بھی دین ہے ‘ لیکن اس کا ظالموں کے ہاتھوں سے بچانا تو فرض عین ہے۔ حضور ﷺ نے اسی فرضیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ مَنْ تَمَسَّکَ بِسُنَّتِیْ عِنْدَ فَسَادِ اُمَّتِیْ فَلَہ‘ اَجْرُمِائۃِ شَہِیْدٍ ۵۵ جب میری امت بگڑ جائے گی جیسا کہ اب ہے اس وقت جو میری سنت کو تھامے رکھے گا اس کو سو شہید کا ثواب ملے گا۔ اب آپ بتائیے کہ جس کام پر سو شہید کا ثواب ملے کیا وہ مستحب ہی ہوگا؟
آپ نے آمین بالجہر اور رفع الیدین کرنے کو جھگڑا کرنا بتایا ہے اور فتنہ انگیزی کہا ہے میں کہتا ہوں آپ سوچ لیں حنفی ہونے کی وجہ سے آپ کے زبان اور قلم سے کیا کیا کچھ نکل رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں آپ کا یہ کہنا حضور ﷺ کی پیش گوئی کی عین تصدیق ہے ۔ آپ نے فرمایا مَنْ اَحْیٰ سُنَّۃً مِّنْ سُنَّتِیْ قَدْ اُمِیْتَتْ فَلَہ‘ اَجْرُ کَذَا وَ کَذَا ۵۶ جو میری مردہ سنتوں کو اپنے عمل اور تبلیغ سے زندہ کرے گا اس کو اتنا اتنا اجر ہے۔ اس میں اس بات کی طرف صاف اشارہ ہے کہ حضور ﷺ کی امت بگڑے گی جیسا کہ اوپر والی حدیث سے واضح ہے اور ان کی سنتوں کو مٹائے گی ۔ ان کے مقابلے میں ایک ایسی جماعت بھی ہوگی جو اپنی کوششوں سے سنتوں کا احیاء کرے گی۔ اب آپ دیکھ لیں کہ آپ کس زمرے میں آتے ہیں اور آپ کا حشر کیا ہوگا؟
آپ نے امام ابن تیمیہؒ کے حوالے سے بھی دھوکا دینے کی کوشش کی ہے ۔ بندہ تقلید ان کی مراد وہ نہیں جو آپ نے لی ہے۔ اگر ان کی مراد وہ ہوتی جو آپ نے لی ہے تو تمام عمر جیلوں میں کیوں کاٹتے اور جن مسائل پر وہ جیلوں میں گئے تو کیا وہ فرائض و واجبات تھے؟
آپ سلیقہ دانی کے تو امام ہیں‘ لیکن سمجھتے کچھ نہیں۔ اس عبارت سے ان کا مطلب یہ ہے کہ کبھی کسی بڑی مصلحت کے پیش نظر مسلمانوں کو مستحب بھی چھوڑنا پڑ جائے تو چھوڑ دے۔ اس سے یہ کہاں نکل آیا کہ ایک سنت کو کسی کی خاطر ہمیشہ کے لیے چھوڑ دے۔ اور پھر یہ بھی کہاں سے نکل آیا کہ اہل حدیث سنت نبوی کی تبلیغ نہ کریں‘ یا اس پر عمل نہ کریں۔آخر وہ کونسی مصلحت ہے جس کے تحت ہم مسنون کو ترک کرتے جائیں ‘ کیا دشمنان سنت کا زیادہ ہونا ترک رفع الیدین کے لیے مصلحت ہو سکتا ہے ؟ جہاں سنت کا استخفاف ہو وہاں سنت پر زور دینا چاہیے تاکہ مخالفین سنت پر اتمام حجت ہو ۔
آپ ہمیں یہ کہہ کر ڈراتے ہیں ۔ خوب سوچ لیجیے اس ملک میں حنفی مذہب کے خلاف ایک الگ گروہ بندی فساد کے علاوہ اور کیا ہے ؟‘‘ میں کہتا ہوں جناب !آپ خوب سوچ لیں اﷲ کی اس سرزمین پر مذہب اسلام سے (جو کہ اس وقت مذہب محمدی ہی ہے) ہٹ کر کوئی علیحدہ حنفی وغیرہ مذہب بنانا سوائے اپنی عاقبت کی بربادی کے اور کیا ہے ؟ دنیا کا برباد ہونا اتنا خطرناک نہیں ہوتا بشرطیکہ مذہب صحیح ہو جتنا کہ آخرت کا برباد ہونا خطرناک ہے۔ آپ اپنی اکثریت کے زعم میں ہمیں فساد کی دھمکیاں نہ سنائیں۔ ہمارا ایمان وہ ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے: (فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ ج اِنَّمَا تَقْضِیْ ھٰذِہِ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَاOاِنَّا اٰمَنَّا بِرَبِّنَا )[20:طہ:72-73]
اے اکثریت کے فرعون جو تجھ سے ہو سکتا ہے کر لے تو زیادہ سے زیادہ اپنی اکثریت کے زور سے اور وہ بھی اگر اﷲ کو منظور ہو تو وہ دنیا کے ہی فیصلے کر سکتا ہے۔ مجھے تیرے فیصلوں کا کوئی ڈر نہیں۔ اﷲ کا شکر ہے ہمارا رب پرایمان ہے‘ ہمارا مذہب اسلام ہے جو ہمیں سکھاتا ہے :
( لَنْ یُّصِیْبَنَآ اِلاَّ مَا کَتَبَ ﷲُ لَنَا ج ھُوَ مَوْلاَنَا ج وَعَلَی ﷲِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ )[9:التوبہ:51]آپ لکھتے ہیں کہ’’ اتنا تو آپ کو بھی تسلیم ہے کہ رفع الیدین واجب نہیں۔‘‘ میں کہتا ہوں ‘ میں نے کب کہا ہے کہ واجب نہیں؟ جس عبارت سے آپ استدلال کرتے ہیں۔ اس سے یہ کہاں سے نکل آیا کہ میرے نزدیک واجب نہیں ہے۔ اس عبارت کا مطلب تو یہ ہے کہ جو ترک کرتا ہے ممکن ہے وہ اس کو واجب نہ سمجھتا ہو۔ اس لیے ترک کرتا ہو۔ رہ گئے ہم ہمارا مذہب تو حضور ﷺ والا ہے کہ آپ نے اگر کبھی ترک کی ہے تو ترک کرنا جائز ہے ورنہ ترک کرنا جائز نہیں۔ چونکہ کسی صحیح روایت سے حضور ﷺ کا ترک رفع الیدین ثابت نہیں بلکہ اس کے برعکس حضرت مالک بن حویرثؓ کی حدیث میں جو آپ کے آخر کے زمانے کی ہے یہ ثابت ہے کہ آپ نے رفع الیدین کے ساتھ نماز پڑھی اور فرمایا ((صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ )۵۷ یعنی میری نماز جیسی نماز ہی سب پر واجب ہے۔ یعنی رفع الیدین واجب ہے۔
علما اسی وجہ سے وجوب کے قائل ہیں۔ کَمَا قَالَہُ الاَوْزَاعِیُّ وَ بَعْضُ اَھْلِ الظَّاھِرِ امام شافعی کتاب الام میں فرماتے ہیں لاَ یَجُوْزُ لِاَحَدٍ عَلِمَہ‘ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ عِنْدِیْ اَنْ یَتْرُکَ اِلاَّ نَاسِیًا اَوْ سَاھِیًا۔ کسی مسلمان کو جسے رفع الیدین کے مسئلہ کا علم ہو جائے جائز نہیں کہ رفع الیدین کو جان بوجھ کر نماز میں تر ک کرے۔ ابن جوزی نزھۃ الناظر میں مزی سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے امام شافعی کو یہ فرماتے سنا ہے: لاَ یَحِلُّ لِاَحَدٍ سَمِعَ حَدِیْثَ رَسُوْلِ ﷲِ فِیْ رَفْعِ الْیَدَیْن اَنْ یَّتْرُکَ الْاِ قْتِدَاءَ بِفِعْلِہٖ کسی مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ حضور ﷺ کی رفع الیدین کرنے کی حدیث سن کر آپ کی اقتدا نہ کرے۔ یعنی رفع الیدین نہ کرے۔ یعنی ہر مسلمان کو جو متبع سنت بننا چاہتا ہے چاہیے کہ رفع الیدین ضرور کرے ۔ اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ رفع الیدین امام شافعی کے نزدیک واجب ہے۔ علامہ عینی حنفی شرح بخاری میں لکھتے ہیں قَالَ ابْنُ خُزَیْمَۃَ مَنْ تَرَکَ الرَّفْعَ فِیْ الصَّلٰوۃِ فَقَدْ تَرَکَ رُکْنًا مِنْ اَرْکَانِھَا جس نے نماز میں رفع الیدین چھوڑ دی اس نے گویا نماز کا ایک رکن چھوڑ دیا۔ امام بخاری فرماتے ہیں امام علی بن عبدﷲ کا فرمودہ ہے: رَفْعُ الْیَدَیْنِ حَقٌّ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ رفع الیدین بوجہ حدیث نبویؐ کے ہر مسلمان پر لازم ہے۔ طحاوی اپنی کتاب شرح معانی الاثار میں حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کی حدیث جو بخاری ‘ مسلم تو کیا بلکہ حدیث کی تمام کتابوں میں پائی جاتی ہے نقل کرکے لکھتے ہیں کہ قائلین وجوب کا مستدل یہی حدیث ہے۔ فَاوْجَبُوْا الرَّفْعَ عِنْدَ الرَّکُوْعِ وَ عِنْدَ الرَّفْعِ مِنْہُ وَ عِنْدَ الْنُھَوِّضِ اِلَی الْقِیَامِ مِنَ الْعَقُوْدِ اِلَی الصَّلٰوۃِ کُلِّھَا عبدﷲ بن عمرؓ کی حدیث کے تحت ہی علما نے رفع الیدین کو واجب قرار دیا ہے۔
سنت نبوی سے جو بغض آپ لوگوں کو ہے وہ نہ آپ کے علم و عقل کو چھوڑتا ہے ‘ نہ امانت و دیانت کو شاہ صاحب کی ایک ہی عبارت کوسامنے رکھ کر کبھی آپ یہ کہتے ہیں :’’ آپ کے اصول پر رفع الیدین نہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ‘‘ اور کبھی یہ لیجیے اب آپ ہی کی تقریر سے ثابت ہوا کہ ہمیشہ رفع الیدین کرنا صحیح نہیں۔ بلکہ کبھی کبھی اس کو ترک بھی کرنا چاہیے۔ اب کوئی پوچھے بندہ امام۔ یہ دونوں باتیں اس عبارت سے کیسے ثابت ہو گئیں ۔ اس عبارت سے تو یہ باتیں ثابت نہیں ہوتیں۔ البتہ ہوائے نفس سے ضرور ثابت ہوتی ہے۔ عبارت فہمی اور استدلال میں تو آپ نے ائمہ کو بھی مات کر دیا اگر وہ آپ کے اس کمال کو دیکھ لیتے تو یقیناًاپنی دستار آ پ کے سر رکھ دیتے‘ شاہ صاحب کی مراد اس عبارت سے کچھ ہو۔ ہمارے لیے حجت نہیں‘آپ کے لیے حجت ہے۔ کیوں کہ وہ آپ کے اصول فقہ سے ثابت ہے ۔ آپ بتائیے پہلی رفع الیدین آپ کے نزدیک کیا ہے ؟ سنت ہے یا واجب ۔ اس کے نہ کرنے میں کوئی قباحت ہے یا کہ نہیں۔ اگر وہ واجب ہے تو کس دلیل سے ‘ اگر وہ سنت ہے تو آپ اس کا ہفتے میں کم از کم دو تین دن ترک کیوں نہیں کرتے ۔ اسے کیوں لازمی سمجھتے ہیں۔ یہ آپ کا کیا مذہب ہے کہ سنت حنفیت تو اتنی لازم اور سنت رسولؐ کا یوں استہزا۔
میں سمجھتا ہوں ایمان والے کے لیے ہمارا یہ رسالہ ان شاء ﷲ کافی ہوگا۔ لیکن اگر تسلی نہ ہو تو اتمام حجت کے لیے ہم دعوت دیتے ہیں اگر آپ کو اہل حدیث کے مقابلے میں اپنی صداقت کا بھی خیال ہو تو ہم سے مباحثہ کریں تاکہ خدائی فیصلہ ہوجائے ۔ عوام الناس کو سچ جھوٹ کا پتا لگ جائے۔ وہ بھی گمراہ نہ ہوں اور آپ کے تقدس کا پردہ بھی کھل جائے۔
آپ کہتے ہیں بندہ خدا وہ دن بھول گئے جب آپ دھوبیوں کی مسجد کے امام تھے اور حنفی مذہب کے مطابق نماز پڑھایا کرتے تھے‘ نہ آمین بالجہر کا جھگڑا تھا نہ رفع الیدین کا۔ میں کہتا ہوں بندہ امام مجھے وہ دن نہیں بھولے۔ مجھے وہ دن خوب یاد ہیں ‘ میں تو ان دنوں کو یاد کر کے روتا ہوں کہ اﷲ میرے وہ دن کیسے گزرے۔ جن میں میں نے حنفی مذہب کے مطابق نماز پڑھی اور حنفیوں کی امامت کرائی۔ ایسی امامت سے تو حجامت بہتر ہے‘ جس میں اتباع رسولؐ نہ ہو‘اتباع سواداعظم ہو۔ آپ یقین جانیں مجھے اس کا سخت صدمہ ہے کہ میں نے پاکستانی چودہویں صدی کے سواد اعظم کو دیکھا۔ حضور ﷺ کے زمانے کے سواد اعظم کو نہ دیکھا۔ جب جن کی اکثر یت ہو وہی سواد اعظم ہو جائے تو پھر دین تو نہ ہوا ۔ دین ملک بہ ملک زمانہ بہ زمانہ تو نہیں بدلا کرتا۔ حق تو اٹل ہوتا ہے‘ وحدت اس کا خاصہ ہوتا ہے ۔ مشرق سے مغرب تک وہ ایک ہوتا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی انڈونیشیا میں وہاں کا سواد اعظم اسلام ہو ‘ افغانستان میں افغانستان کا اور سوات و قلات میں سوات وقلات کا۔ جب نبی ؐایک ‘ اس کا مذہب ایک ‘ پھر یہ کیا کہ اس کے چار ٹکڑے کر کے ہر ایک کو نبیؐ کا مذہب کہا جائے۔ کیا جزو بھی کل کے برابر ہوتا ہے؟ حق کا یہ خاصہ ہے کہ اسمیں تضاد نہیں ہوتا لیکن ان چار مذہبوں میں تو جو مقلدوں نے بنائے ہیں بڑا تضاد ہے۔ ایک کہتا ہے الحمد کے بغیر نماز نہیں ہوتی ‘ دوسرا کہتا ہے کہ ہو جاتی ہے۔ ایسی متضاد باتیں ایک ہی مذہب کی ہو سکتی ہیں ؟
دین حق را چار مذہب ساختند
رخنہ در دین نبی انداختند
آپ کہتے ہیں:آخیر عمر میں یہ کیا سودا سمایا کہ سواد اعظم سے منحرف ہو گئے‘‘ میں کہتا ہوں حضرت یہ کوئی کہنے کی بات ہے جب بھی اﷲ کسی کو ہدایت دے دے ‘ یہ اس کا فضل ہے ۔ اس کا ہزار ہزار شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ہندو پاک کے سواداعظم یعنی حنفیوں سے بچا کر صحابہؓ کے سواداعظم کی ہدایت کی ۔ یہی حضور ﷺ کا منشا تھا کہ کوئی ملک ہو‘ کوئی زمانہ ہو‘ صحابہؓ کا سواداعظم ہی راہ نجات ہے۔ ((مَااَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ )) کا یہی مفہوم ہے۔ میں نے صحابہؓ کے سواد اعظم کو دیکھا۔ وہ قریباً سارے کے سارے رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ پہلے ثابت ہو چکا ہے۔ سارے کے سارے آمین کہتے تھے۔
بخاری شریف میں ہے: حَتّٰی اِنَّ لِلْمَسْجِدِ لَلُجَّۃً ۵۸ کہ مسجد میں گونج ہوتی تھی۔ بلکہ آپ نے تو یہاں تک فرمایا ((مَا حَسَدَتْکُمُ الْیَھُوْدُ عَلٰی شَیْءٍ مَّا حَسَدَتْکُمْ عَلَی السَّلاَمِ وَالتَّامِّیْنَ )) ۵۹تمھارے آمین کہنے پر یہود بہت جلتے ہیں یعنی آمین کی آواز سن کر جلنا یہودیوں کی خصلت ہے۔ حضرت میں نے جب یہ حدیث دیکھی تو کانپ گیا۔ امامت کو وہیں مصلے میں لپیٹ کر کونے میں رکھ دیا اور دوڑ آیا۔ ویسے میں اپنی امامت کے زمانے میں بھی حنفیوں کو سنت کی تبلیغ کیا کرتا تھا لیکن میں نے دیکھا کہ تقلید کی وجہ سے کوئی اثر نہیں ہوتا تو میں نے سوچا ان کو سنت کی راہ پر لانے کے لیے تو میں نے یہ سنتیں چھوڑیں اب اگر وہ بھی راہ راست پر نہ آئیں تو میں توبے سنت ہو ں گا۔
جناب! اب میری اخیر عمر ہے‘ اپنے اسی گناہ کی تلافی کر رہا ہوں جو آپ صاحبان کی خدمت کر رہا ہوں ۔ اﷲ تعالیٰ اسے قبول فرمائے‘ آپ بھی آمین فرمائیں۔
آپ نے اپنے رسالہ میں جو کچھ لکھا ہے وہ آپ کو معلوم ہے غلط باتیںآپ نے لکھیں ‘ خیانتیںآپ نے کیں‘ اب آخر میںآپ ناصح بن گئے۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
’’آخر میں ہم کو جناب علامہ قادر بخش کی خدمت میں یہ گزارش کرنا ہے کہ جناب والا کو اس پیرانہ سالی میں فکر آخرت کرنا چاہیے ‘ نہ کہ گروہ بندی کے چکر میں پھنس کر آمین رفع الیدین کے جھگڑے اٹھانا ‘‘ جناب فکر آخرت کی وجہ سے ہی تو میں نے حنفیوں کی امامت چھوڑی اور آپ کی خدمت کرنی شروع کی ہے۔ میں نے سوچا جوانی تو گزر گئی ان کی امامتیں کرتے‘ ترک سنت کا جرم کرتے ‘ چلو اب اس پیرانہ سالی میں ہی کچھ کرلوں۔ عقیدہ تو اﷲ کے فضل سے اہل حدیث ہونے کی وجہ سے پہلے ہی ٹھیک تھا۔ قرآن و سنت کے مطابق تھا‘ صرف حنفیوں کی صحبت کی وجہ سے سنت کی قدر و محبت دل سے نکل گئی تھی۔ بہت سی سنتیں ترک کر بیٹھا تھا۔ خاص کر نماز تو بالکل ہی برباد ہو گئی تھی۔ آخر اﷲ نے دل میں ڈال دیا کہ بوڑھا ہو گیا ہے وقت قریب آ گیا ہے اب تو سنبھل جا۔ کب تک سنتوں کا یونہی خون کرتا رہے گا۔ اگر یہی حالت رہی حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کو کیا منہ دکھائے گا۔ چنانچہ جتنی سنتیں حنفیوں کی امامت کے دوران ترک کی تھیں سب پر عمل شروع کر دیا۔ اب اﷲ کا شکر ہے ‘ دل خوش ہے اور مطمئن ہوں کہ کم ازکم نماز تو سنت کے مطابق پڑھ لیتا ہوں۔ اب میں بوڑھا ہو چکا ہوں ‘ کوئی اور آرزو باقی نہیں رہی ۔ یہی کوشش ہے کہ جتنے زیادہ سے زیادہ حنفیوں کو سنت کی راہ دکھا سکوں دکھاؤں۔ تاکہ ان کوبھی جنت میں حضور ﷺ کا ساتھ نصیب ہو اور مجھے بھی۔ اس سے تو آپ کو بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کا ساتھ سنت کی محبت سے اور اس پر عمل کرنے سے ہی نصیب ہو سکتا ہے۔ چنانچہ فرمایا:۔ ((مَنْ اَحَبَّ سُنَّتِیْ فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَ مَنْ اَحَبَّنِیْ کَانَ مَعِیَ فِی الْجَنَّۃِ ))۶۰لہٰذاآپ بھی سنت ‘ حنفیت کو چھوڑ کر سنت رسول ﷺ پر عمل کرنے لگ جائیں۔ بچ جائیں گے ورنہ آپ کی مرضی ہے جب میں حنفیوں کی امامت کرواتا تھا تو آپ نے مجھ پر گروہ بندی کا الزام لگایا حالانکہ حنفی ایک گروہ ہے۔ جن کا مذہب قدرے اسلام سے مختلف ہے۔ اسلام صرف اﷲ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانے کو کہتے ہیں۔اسلام کسی تیسری ذات کو شامل نہیں کرتا۔ آپ نے بظاہر ایک کام کو اور درحقیقت بہت۔۔۔۔ کر دیا ہے۔ اب حنفی مذہب تین کے مجموعے کا نام ہے اور اسلام صرف دو کے ۔ ا س لیے حنفی ایک فرقہ ہے‘ ایک گروہ ہے‘ میں نے جب اس حقیقت کو سمجھا کہ اسلام صرف اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے ماننے کو کہتے ہیں تو میں نے حنفیت بھی چھوڑ دی اور حنفیوں کی امامت بھی ۔ اب میں (اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَ کَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْھُمْ فِیْ شَیْءٍ )[6:الانعام:159]کے تحت حضور کی راہ پر ہوں۔ اور کسی گروہ میں نہیں۔ اﷲ کا شکر ہے اہل حدیث ہوں‘ آپ خبیث مجھ پر گروہ بندی کا الزام لگاتے ہیں۔ آپ سوچیں اہل حدیث کیا کرے گا ‘ گروہ بندی ‘ گروہ بندی کرے دیوبندی‘ گروہ بندی اور دیوبندی میں مناسبت بھی ہے۔ اہل حدیث اور گروہ بندی میں کیا مناسبت ؟ گروہ بندی ہوتی ہے کسی کے نام پر نئے کام پر ‘ ہمارا نہ کام نیا ‘ نہ نام ۔ دو چیزیں حضور ﷺ دے گئے تھے۔ کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ ۔ وہی ہمارے پاس ہیں۔ نہ ہم نے ان دو کو چھوڑا ۔ نہ کسی اور کو ساتھ جوڑا۔ لیکن آپ نے بڑا ظلم کیا جو حنفیت کو ساتھ ملا دیا۔ اب حنفی بننے کے لیے تین کا کلمہ پڑھنا پڑتا ہے۔ اہل حدیث بننے کے لیے صرف دو کا لاَ اِلٰہَ اِلاَّ ﷲُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ ﷲِ ۔۔ لہٰذا آپ ہماری دعوت کو قبول کیجیے اور ٹکٹ لیجیے۔
راہ سنت پر چلا جا تو اے سالک بے دھڑک
جنت الفردوس کو جاتی ہے سیدھی یہ سڑک
و ما علینا الا البلاغ المبین
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا
۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱ (شامی شریف‘ کتاب الطہارۃ‘ باب المیاہ مطلب فی التداوی بالمحرم ج 1ص 154۔۔ فتاویٰ قاضی خان بر حاشیہ عالمگیری(404/1
۲ ( درمختار : کتاب الصلوۃ ‘ باب الامامۃ ج 1ص (290:
۳ ( رد المختار 29/4 ‘کتاب الحدود ‘باب الوط الذی یوجب الحد والذی لا یوجبہ )
۴ (بہشتی زیور حصہ چہارم مسئلہ نمبر3 )
۵ (ہدایہ : کتاب الصلوۃ ‘ باب الحدث فی الصلاۃ (130/1
۶ (شامی شریف :کتاب الطھارۃ‘ باب المیاہ مطلب فی التداوی بالمحرم ج 1ص 154۔۔ فتاوٰی قاضی خان برحاشیہ عالمگیری (404/1
۷ (بہشتی زیور حصہ چہارم مسئلہ نمبر3)
۸ (ہدایہ :کتاب النکاح‘ فصل فی المحرمات 313/1)
۹ (فتاویٰ عالمگیری ج 2ص 139 ‘ ہدایہ : کتاب النکاح‘ فصل فی المحرمات ج 1ص (309:
۱۰ (درمختار‘ کتاب الطہارۃ مسائل غسل 93/1)
۱۱ (بہشتی زیور حصہ دوم مسئلہ نمبر26ص (5
۱۲ (مشکٰوۃ ‘ کتاب الایمان ‘باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ‘ رقم ..170مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان ان الاسلام بدأ غریباً و سیعود غریبا و انہ بارز المسجدین ص 702 رقم 233/232)
۱۳ (ہدایہ :کتاب الصلاۃ ‘ باب صفۃ الصلوۃ (101/1
۱۴(ہدایہ :کتاب الصلاۃ ‘ باب الحدث فی الصلوۃ (130/1
۱۵ (حجۃ اﷲ البالغۃ 150/1باب الفرق بین اھل الحدیث و اھل الرائے)
۱۶ (حجۃ اﷲ البالغۃ 160/1بحث الکلام علی حال الناس قبل الماءۃ الرابعۃ )
۱۷( منہاج السنۃ ج 3 ص 66)
۱۸ (تعلیق المغنی ص 111)
۱۹ (تلخیص ص 13)
۲۰ (تحفۃ الاحوذی ص (219
۲۱ (سفر السعادۃ ص (15:
۲۲(جزء رفع الیدین سبکی ص (10:
۲۳( موضوعات کبیر ص (74
۲۴ (’’ماتمس الیہ الحاجۃ ‘‘ صفحہ (10
۲۵ (جز رفع الیدین ص 134‘ تحفۃ الاحوذی 219/1‘کتاب الصلوۃ‘ باب رفع الیدین‘ محلی ابن حزم (79/4
۲۶ ( جزء رفع الیدین رقم 31‘ ابوداؤد‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب رفع الیدین فی الصلوۃ ص 1276 رقم 727)
۲۷ (بذل المجہود 12/2کتاب الصلوۃ ‘ باب رفع الیدین )
۲۸ (نسائی کتاب التطبیق ‘ باب التکبیر للنہوض ص 2162 رقم 1157۔۔۔ تلخیص الحبیر218/1 کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ رقم 327)
۲۹ ( الانصاف فی سبب لاختلاف لشاہ ولی اﷲ الدھلوی ‘باب حکایۃ الناس
قبل الماءۃ الرابعۃ )
۳۰ (قیام اللیل لمحمد بن نصر المروزی ص 272باب ذکر الوتر بثلاث عن الصحابہ والتابعین )
۳۱ (بذل المجہود 12/2 کتاب الصلوۃ باب رفع الیدین )
۳۲ (مسند احمد 414/5‘ رقم 183-82:)
۳۳ (تقریب التہذیب ص 49)
۳۴ (جزء رفع الیدین رقم 82: )
۳۵ (حجۃ البالغۃ 10/2مبحث الامور التی لاتبعھا فی الصلوۃ و اذکارھاو ھیئتھا
۳۶ (ابوداؤد‘ کتاب الصلوۃ ‘باب افتتاح الصلوۃ‘ ص 1277 رقم 738)
۳۷ (ابن ماجۃ ‘ابواب اقامۃ الصلوۃ ‘باب رفع الیدین اذا رکع و اذا رفع رأسہ من الرکوع ص 2527 رقم 860)
۳۸ ( سنن نسائی ‘ کتاب الصلوۃ‘ باب رفع الیدین بین السجدتین تلقاء الوجہ‘ ص 2161)
رقم 1147)
۳۹ (تقریب التھذیب ص 523 )
۴۰ ( جزء رفع الیدین رقم (75:
۴۱ (غنیۃ الطالبین مترجم 23/1 پہلا باب : ایمان ۔ اسلام )
۴۲ ( حجۃ اﷲ البالغہ (10/2
۴۳ حجۃ اﷲ البالغہ 10/2 مبحث فی اذکار الصلوۃ وھیئات المندوب الیھا )
۴۴ (ارواء الغلیل306-305/4 رقم 1106۔۔۔مسند احمد 113/6رقم 24306من حدیث السیدۃ عائشۃ ص 282 ۔۔صحیح مسلم ‘ کتاب الحج‘ باب نقض الکعبۃ فبناءھا‘ ص 899رقم 401-399)
۴۵ (تنویر العینین از شاہ اسماعیل شہید ص 40)
۴۶ (تلخیص الحبیر‘ 222/1کتاب الصلوۃ‘ باب صفۃ الصلوۃ )
۴۷ (الترمذی ‘ کتاب الصلوۃ ‘باب رفع الیدین عند الرکوع رقم 256)
۴۸ ( حجۃ اﷲ البالغۃ 11/2 اذکار الصلوۃ و ھیئتھا المندوب الیھا )
۴۹ ( تنویر العینین فی اثبات رفع الیدین ص (25
۵۰( دارقطنی : کتاب الصلوۃ ‘باب ذکر التکبیر و رفع الیدین عند الافتتاح والرکوع والرفع منہ
ج 1ص 292 )
۵۱ (درمختار ‘ کتاب الطہارۃ ‘ مسائل غسل ج 1 ص (93
۵۲ (عالمگیری: کتاب النکاح ‘ باب المحرمات ج 2ص 139)
۵۳ (درمختار :کتاب الصلوۃ ‘ باب الامامۃ ج 1ص (290:
۵۴ (ایضاً )
۵۵ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ (333/1
۵۶ (ترمذی: ابواب العلم ‘ باب ما جاء فی الاخذ بالسنۃ ‘ رقم 2677: ‘ابن ماجۃ: کتاب السنۃ ‘ باب احیاء سنۃ قد امیتت رقم 210)
۵۷ (صحیح البخاری‘کتاب الاذان‘ باب الاذان للمسافر اذا کانوا جماعۃ والاقامۃ ص 51 رقم 631۔۔۔مسند احمد 53/5‘رقم 20007۔۔ ارواء الغلیل 291/1رقم 328-324-262)
۵۸ (صحیح البخاری ‘ کتاب الاذان ‘ باب جہر الامام بالتامین ص 62 رقم (780
۵۹ (ابن ماجۃ ‘ ابواب الاقامۃ الصلٰوٰت ‘باب الجہر بآمین‘ ص 2527رقم 856)
۶۰(مشکوۃ 62/1 کتاب الایمان ‘ باب الاعتصام بالکتب والسنۃ ‘ رقم 175۔۔ترمذی کتاب العلم باب ما جاء فی الاخذ بالسنۃ و اجتناب البدعۃ ‘ص 1921‘ رقم 2678)