مسنون تراویح
ح: تراویح میں سنت رسولؐ کیا ہے ؟
م: تراویح میں سنت رسولؐ آٹھ رکعت ہے۔
ح: کیا یہ صحیح حدیث سے ثابت ہے؟
م: جی ہاں۔! بخاری اور مسلم میں ہے:
((عَنْ اَبِیْ سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ اَنَّہ‘ سَاَلَ عَاءِشَۃَؓ کَیْفَ کَانَتْ صَلٰوۃُ رَسُوْلِ اﷲِ فِیْ رَمَضَانَ فَقَالَتْ مَا کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ وَ لاَ فِیْ غَیْرِہٖ عَلٰی اِحدٰی عَشَرَۃَ رَکْعَۃً)) ۱
’’ ابوسلمہ نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا :حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کا قیام رمضان کتنا تھا۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا ‘ رمضان ہو یا غیر رمضان حضور گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔‘‘
ح: اس میں تراویح کا تو نام بھی نہیں؟
م: تراویح کا نام تو کسی حدیث میں بھی نہیں۔
ح: پھر تراویح لیتے کہاں سے ہیں ؟
م: لیتے تو حدیثوں سے ہی ہیں‘ لیکن حدیثوں میں تراویح کا لفظ نہیں آتا بلکہ صلوٰۃ رمضان یا قیام رمضان کا لفظ آتا ہے جس سے مراد تراویح ہی ہوتی ہے۔
ابوسلمہ نے بھی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی تراویح کا ہی سوال کیا تھا جس کا جواب حضرت عائشہؓ نے یہ دیا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی تراویح اور تہجد ایک ہی تھیں اور وہ گیارہ رکعت سے زیادہ نہ تھیں۔
ح: حضرت عائشہؓ نے توا س نماز کا ذکر کیا ہے جو رمضان اور غیر رمضان دونوں میں پڑھی جاتی ہے‘ یعنی تہجد کا ۔ اگر ان کی مراد تراویح ہوتی تو غیر رمضان
کا ذکر نہ کرتیں۔ کیونکہ تراویح غیر رمضان میں نہیں ہوتیں۔
م: حضرت عائشہؓ تہجد کا ذکر کیسے کر سکتی تھیں جب سوال رمضان کا تھا۔ کیا تہجد صلوٰۃ رمضان ہے؟
ح: اگرچہ تہجد رمضان کی نماز نہیں‘ لیکن رمضان میں تو تہجد ہو سکتی ہے‘ ممکن ہے حضرت ابوسلمہؓ نے یہ سوال کیا ہو کہ حضور کی رمضان کی تہجد کتنی تھی؟
م: اول تو صلوۃ رمضان سے تہجد مراد نہیں ہو سکتی کیونکہ صلوٰۃ جو کہ عام ہے اور تہجد اور تراویح دونوں کو شامل ہے رمضان کی قید سے خاص ہو گئی
جس سے رمضان کی خاص نماز یعنی تراویح ہی مراد ہو سکتی ہے ‘ لیکن اگر مان بھی لیا جائے کہ ’’ ما کان یزید‘‘ کہہ کر حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے حضور ﷺ کی تہجد ہی بیان کی ہے تو اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضور ﷺ رمضان میں تراویح بھی پڑھتے تھے یا صرف تہجد پر ہی اکتفا کرتے تھے۔ اگر تہجد پر ہی اکتفا کرتے تھے تو یہی ہمارا دعویٰ ہے کہ حضور ﷺ کی تراویح اور تہجد ایک ہی تھیں اور وہ گیارہ رکعت سے زیادہ نہ تھیں۔ اگر تہجد کے علاوہ تراویح بھی پڑھتے تھے تو ثابت کریں کہ رمضان میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی تہجد اور تراویح علٰیحدہ علٰیحدہ تھیں اور ثابت ہو نہیں سکتا‘ بلکہ ثابت یہ ہے کہ رمضان میں حضور ﷺ کی تہجد ہی تراویح تھیں۔ مولانا انور شاہ حنفی فرماتے ہیں:
’’لاَ مَنَاصَ مِنْ تَسْلِیْمِ اَنَّ تَرَاوِیْحَۃً عَلَیْہِ السَّلاَمُ کَانَتْ ثَمَانِیَۃَ رَکْعَاتٍ وَّ لَمْ یَثْبُتْ فِیْ رِوَایَۃٍ مِنَ الرِّوَایَاتِ اَنَّہ‘ عَلَیْہِ السَّلاَمُ صَلَّی التَّرَاوِیْحَ وَالتَّہَجُّدَ عَلٰی حِدَۃٍ فِیْ رَمَضَانَ بَلْ طَوَّلَ التَّرَاوِیْحَ وَ بَیْنَ التَّرَاوِیْحِ وَالتَّھَجُّدِ فِیْ عَھْدِہٖ عَلَیْہِ السَّلاَمُ لَمْ یَکُنْ فَرْقٌ فِی الرَّکَعَاتِ بَلْ فِی الْوَقْتِ وَالصِّفَۃِ ‘‘۲
’’ یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ حضور ؐ کی تراویح آٹھ رکعت ہی تھیں۔ کسی بھی روایت سے یہ
ثابت نہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے کبھی تراویح اور تہجد علیحدہ علیحدہ پڑھی ہوں۔ آپ تراویح کو ہی لمبا کر دیتے تھے۔ حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں تراویح اور تہجد میں رکعتوں میں فرق نہیں تھا۔ صفت ادائیگی اور وقت میں فرق تھا۔‘‘
تمام محدثین بھی حضور ﷺ کے قیام رمضان کو اسی حدیث حضرت عائشہؓ سے ثابت کرتے ہیں اور تو اور امام محمد ؒ جو کہ حنفی مذہب کے بانیوں میں سے ہیں ‘ مؤطا امام محمد میں تسلیم کرتے ہیں کہ یہ حدیث حضور ﷺ کی تراویح کے بارے میں ہے۔ ایسے ہی امام ابن ہمام‘ ابن نجیم‘ طحاوی‘ علامہ عینی‘ ملا علی قاری‘ شیخ عبدالحق محدث دہلوی ‘ علامہ ابوالحسن شرنبلالی وغیرہ سب اجلہ احناف تسلیم کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کی تراویح آٹھ رکعت ہی تھیں اور یہ حضرت عائشہؓ کی حدیث سے ثابت ہے۔ چنانچہ ابن الہمام فتح القدیر شرح ہدایہ میں فریقین کے دلائل ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’فَتَحَصَّلَ مِنْ ھٰذَا کُلِّہٖ اَنَّ قَیَامَ رَمَضَانَ سُنَّۃً اِحدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً بِالْوِتْرِ فَعَلَہ‘ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ‘‘ ۳
’’ یعنی اوپر کی ساری بحث سے نتیجہ نکلا کہ سنت قیام رمضان گیارہ رکعت ہی ہے جو کہ آپ نے خود کیا ہے۔‘‘
شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں:
’’ لَکِنَّ الْمُحَدِّثِیْنَ قَالُوْا اِنَّ ھٰذَا الْحَدِیْثَ ضَعِیْفٌ وَالصَّحِیْحُ مَا رَوَتْہُ عَائشَۃُ اَنَّہ‘ صَلَّی اِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکَعَۃً کَمَا ھُوَ عَادَتُہ‘ فِیْ قِیَامِ الَّیْلِ وَ رُوِیَ اَنَّہ‘ کَانَ بَعْضُ السَّلْفِ فِیْ عَھْدِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِیْزِ یُصَلُّوْنَ بِاحْدٰی عَشْرَۃَ رَکَعَۃً قصدا لِلتَّشَبُّہِ بِرَسُوْلِ اﷲِ (مَا ثَبَتَ بِالسُّنَّۃِ )
’’ یعنی محدثین کے نزدیک صحیح حدیث تو حضرت عائشہ ؓ والی ہے کہ حضور ﷺ عادت کے مطابق رمضان میں بھی وتر سمیت گیارہ رکعت ہی پڑھا کرتے تھے۔ عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں بعض سلف اتباع سنت کے خیال سے آٹھ تراویح ہی پڑھتے تھے۔ بیس رکعت والی روایت محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔‘‘
ح: اگر یہ حدیث تہجد کے بارے میں نہیں تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے غیر رمضان کا ذکر کیوں کیا؟
م: ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ حدیث تہجد کے بارے میں نہیں‘ ہم تو کہتے ہیں کہ اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے یہ بتایا ہے کہ رمضان ہو یا
غیر رمضان ہو حضور ﷺ گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ یعنی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی تہجد اور تراویح ایک ہی نماز تھی۔ حضرت ابوسلمہؓ نے’’ کیف‘‘ کے ساتھ سوال کیا تھا جس سے ان کی مراد یہ تھی کہ رمضان میں حضور ﷺ کی نماز اور مہینوں جتنی تھی یا زیادہ ؟ اگر اور مہینوں جتنی تھی ‘ یعنی آٹھ رکعت تو پھر رمضان کی کیا خصوصیت ‘ اگر زیادہ تھی تو اس کی کیفیت بتائیے۔ کیا رکعتیں زیادہ ہوتی تھیں یا آٹھ کو ہی لمبا کر دیتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے جواب میں فرمایا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم رکعتیں تو زیادہ نہیں کرتے تھے البتہ رکعتوں کو طویل کر دیتے تھے۔ یعنی حضور رمضان میں بھی پڑھتے تو آٹھ ہی تھے لیکن یہ نہ پوچھ کہ وہ کتنی اچھی ہوتی تھیں۔ حنفیوں کے مشہور علامہ عینی ؒ بھی فرماتے ہیں :
’’ یُحْمَلُ عَلَی الطَّوِیْلِ دُوْنَ الْکَثْرَۃِ ‘‘
’’ یعنی رمضان میں حضور صلی اﷲ علیہ و سلم رکعتیں زیادہ نہیں کرتے تھے ‘ صفت ادائیگی کو بہتر بنادیتے تھے۔‘‘
مولانا انور شاہ صاحب بھی فرماتے ہیں:
’’ وَ بَیْنَ التَّرَاوِیْحِ وَالتَّھَجُّدِ فِیْ عَھْدِہٖ عَلَیْہِ السَّلاَمُ لَمْ یَکُنْ فَرْقٌ فِی الرَّکَعَاتِ بَلْ فِی الْوَقْتِ وَالصِّفِّۃِ‘‘
’’ یعنی حضور ﷺ کے عہد میں تراویح اور تہجد میں رکعتوں میں فرق نہیں تھا‘ صفت ادائیگی اور وقت میں فرق تھا‘‘
ح: آپ کی بات تو ٹھیک معلوم ہوتی ہے۔
م: علاوہ ازیں یہ حدیث تراویح کے بارے میں نص ہے جس سے نہ صرف سنت تراویح آٹھ ثابت ہوتی ہیں بلکہ بیس اجماعی بھی نہیں رہتیں
ح: اجماعی کا کیا مطلب ؟
م: احناف کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے بیس تراویح کا حکم دیا تھا اور تمام صحابہؓ بیس پڑھنے لگ گئے تھے۔ یعنی بیس پر اجماع ہو گیا تھا۔
ح: حضرت عائشہ ؓ کی یہ حدیث اجماع صحابہؓ کے دعویٰ کو کیسے رد کر سکتی تھی۔
م: حضرت عائشہؓ جو آٹھ سے زیادہ کی نفی کرتی ہیں اگر اجماع ہوتا تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نفی نہ کرتیں۔ حضرت عائشہؓ کا ’’مَاکَانَ یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ‘‘
والا اعلان خلافت راشدہ کے آخری ایام کا ہے کیونکہ حضرت ابوسلمہ جنھوں نے یہ سوال کیا تھا‘ حضرت عمرؓ کی شہادت کے لگ بھگ پیدا ہوئے۔ شہادت علی ؓ کے وقت ان کی عمر سولہ سترہ سال کے قریب تھی۔ حضرت عائشہؓ کا اس وقت آٹھ تراویح کا اعلان فرمانا صاف بتاتا ہے کہ صحابہؓ بیس رکعت پر متفق نہیں تھے۔ اول تو یہ بات غلط ہے کہ حضرت عمرؓ نے بیس رکعت پڑھنے کا حکم دیا‘ کیونکہ حضرت عمرؓ کو جب یہ معلوم تھا کہ حضور کی سنت آٹھ ہی ہے تو وہ بیس کا حکم کس طرح دے سکتے تھے۔ اس کے علاوہ مؤطا امام مالک میں جو کہ درجہ اول کی کتاب ہے صراحۃً موجود ہے کہ حضرت عمرؓ نے ابی بن کعبؓ اورتمیم داریؓ کو گیارہ رکعتیں پڑھانے کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ عبارت یہ ہے:
’’اَمَرَ عُمَرُ اُبِیَّ بْنَ کَعْبٍ وَ تمیمًانِ الدَّارِیَّ اَنْ یَّقُوْمَا لِلنَّاسِ فِی رَمَضَانَ بِاِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً ‘‘ ۴
اوریہی وہ تعداد ہے جو حضرت عائشہ ؓ کی حدیث سے ثابت ہے ۔ امام جوزی حضرت امام مالک ؒ کا قول نقل کرتے ہیں:
’’ اَنَّہ‘ قَالَ الَّذِیْ جَمَعَ عَلَیْہِ النَّاسَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ اَحَبُّ اِلَیَّ وَ ھُوَ اِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً وَ ھِیَ صَلٰوۃُ رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ وَلاَ اَدْرِیْ مِن اَیْنَ اَحْدَثَ ھٰذَا الرَّکُوْعَ الْکَثِیْرَ ‘‘ ۵
امام مالک نے فرمایا‘ مجھے تو گیارہ رکعت ہی زیادہ پسند ہیں۔ کیونکہ گیارہ پر ہی حضرت عمرؓ نے لوگوں کو جمع کیا تھا۔ گیارہ ہی حضور ﷺ خود پڑھتے تھے۔ اس کے بعد امام مالک نے فرمایا : پتا نہیں لوگوں نے یہ بیس اور چالیس وغیرہ بہت سی رکعتیں کہاں سے نکال لی ہیں۔ یعنی رسول کریم ؐ سے تو ان کا کوئی ثبوت نہیں۔‘‘
ح: مولانا مودودی صاحب نے اپنے رسالے میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے تو بیس کا حکم دیا تھا اور اس پر تمام صحابہؓ نے اجماع کر لیا تھا۔
م: یہ بالکل غلط ہے۔ بیس تراویح پر صحابہؓ کا اجماع کبھی بھی نہیں ہوا۔ اگر شک ہو تو ترمذی شریف اٹھا کر دیکھ لیں۔ امام احمد سے تراویح کی تعداد کے
بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا : ’’رُوِیَ فِیْ ھٰذَا اَلْوَانٌ لَمْ یُقْضَ فِیْہِ بِشَیْءٍ‘‘۶ ’’اس بارے میں کافی اختلاف ہے‘ کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
اس کے علاوہ حدیث میں یہ صراحت بھی ہے کہ حضور ﷺ نے جو تین رات جماعت کروائی ہے وہ آٹھ رکعت تراویح اور تین رکعت وتر تھے۔ چنانچہ ابن خزیمہ‘ ابن حبان ‘ طبرانی‘ قیام اللیل اور مسند احمد میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ:
(( صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اﷲِ فِی شَھْرِ رَمَضَانَ ثَمَانَ رَکْعَاتٍ ثُمَّ اَوْتَرَ))۷
’’ رسول کریم نے رمضان شریف میں ہمیں آٹھ رکعت تراویح اور وتر پڑھائے‘‘
ایک اور حدیث بھی ہے جس میں یہ ہے کہ حضرت ابی بن کعبؓ نے رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں آکر کہا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آج رات اپنی سمجھ سے ہی میں نے ایک کام کر لیا ۔ حضور ﷺ نے پوچھا وہ کیا ؟ حضرت ابی نے کہا: گھر میں عورتیں کہنے لگیں کہ ہمیں قرآن یاد نہیں۔ آج ہمیں تراویح ہی پڑھا دو۔ سو میں نے ان کو آٹھ رکعت پڑھا کر وتر پڑھا دیے۔ آپ خاموش رہے گویا آپ نے پسند فرمایا۔ یہ روایت ابویعلیٰ ‘ طبرانی اور قیام اللیل میں ہے: ۸
ح: بات تو بڑی صاف ہے ‘ پتا نہیں پھر یہ اختلاف کیوں ہے ؟
م: صرف فرقہ پرستی کی وجہ سے۔
ح: یہ تو بڑی بری بات ہے ‘ مسئلے میں ضد کیسی ؟ اچھا کہیں بیس کا ذکر بھی آتا ہے یا نہیں ؟
م: بیہقی‘ اور ابن ابی شیبہ میں عبداﷲ بن عباسؓ سے ایک روایت ہے کہ حضور علیہ السلام رمضان شریف میں بیس تراویح اوروتر پڑھتے تھے‘
لیکن یہ روایت بالکل ضعیف ہے۔
ح: حنفی بھی اسے ضعیف مانتے ہیں ؟
م: ہاں‘ تمام حنفی علما بھی اسے ضعیف مانتے ہیں۔ چنانچہ مولانا انور شاہ عرف الشذی میں لکھتے ہیں:
’’ وَ اَمَّا النَّبِیُّ فَصَحَّ عَنْہُ ثَمَانَ رَکَعَاتِ وَّ اَمَّا عِشْرُوْنَ رَکَعَۃً فَھُوَ عَنْہُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ بِسَنَدٍ ضَعِیْفٍ وَ عَلٰی ضُعْفِہٖ اِتَّفَاقٌ ‘‘ ۹
’’ حضور ﷺ سے تو آٹھ رکعت تراویح ہی ثابت ہیں۔ بیس رکعت والی حدیث تو ایسی ضعیف ہے کہ اس پر سب کا اتفاق ہے۔‘‘
ح: پھر یہ مقلد علما بیس لیتے کہاں سے ہیں ؟
م: وہ کہتے ہیں رسول اﷲ کی سنت تو آٹھ ہی ہے ‘لیکن خلفا ء کی سنت بیس ہے۔
ح: کیا یہ صحیح ہے؟
م: صحیح کیسے ؟ آپ خود ہی سوچیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خلفاء رسو ل ؐ کی سنت کے مقابل اپنی سنت جاری کرتے۔
ح: یہ تو نہیں ہو سکتا کہ رسول کریم ﷺ کی سنت اور ہو اور صحابہؓ کی سنت اور۔ لیکن آخر وہ کیسے کہتے ہیں کہ بیس خلفاء کی سنت ہے ؟
م: صرف ضعیف روایتوں کی بنا پر ۔ گروہ بندی اسی لیے تو بری ہے کہ ایک اعلیٰ چیز چھوڑ کر ایک گھٹیا چیز لینی پڑتی ہے۔ مؤطا امام مالکؒ میں جو کہ درجہ اول کی
کتاب ہے حضرت عمرؓ کا گیارہ تراویح کا حکم موجود ہے ‘ لیکن ہمارے بھائی اپنا مطلب نکالنے کے لیے مؤطا امام مالک کی روایت تو نہیں لیتے‘ حالانکہ وہ صحیح بھی ہے اور سنت نبوی کے مطابق بھی۔ بیہقی وغیرہ تیسرے درجے کی ضعیف روایات کو لیتے ہیں تاکہ اپنا مذہب ثابت ہو جائے۔
ح: بیس تراویح پڑھنے کی کوئی صحیح روایت ہے ہی نہیں ؟
م: ایک بھی نہیں ۔
ح: تو پھر یہ بات ہی ختم۔ پھر تو بیس پڑھنی ہی نہیں چاہئیں۔
م: بیس پڑھنا منع نہیں ‘ کیونکہ نفل ہیں جتنے کوئی چاہے پڑھے‘ بات سنت ہونے کی ہے کہ آیا بیس سنت ہیں یا نہیں ؟
ح: کیا بیس سنت نہیں؟
م: سنت تو وہ تعداد ہو سکتی ہے جو حضور ﷺ نے خود پڑھی ہو۔ جب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا بیس پڑھنا کسی صحیح روایت سے ثابت ہی نہیں تو بیس
سنت کیسے ؟ اس بات کو تو محقق حنفی علما بھی تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ بحر الرائق میں ہے:
’’اِنَّ الدَّلِیْلَ یَقْتَضِیْ اَنْ تَکُوْنَ السُّنَّۃُ مِنَ الْعِشْرِیْنَ مَا فَعَلَہ‘ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْہَا ثُمَّ تَرَکَہ‘ خَشْیَۃَ اَنْ تُکْتَبَ عَلَیْنَا وَالْبَاقِیْ مُسْتَحَبٌّ وَقَدْ ثَبَتَ اِنَّ ذٰلِکَ وَ کَانَ اِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً بِالْوِتْرِ کَمَا ثَبَتَ فِی الصَّحِیْحَیْنِ مِنْ حَدِیْثِ عَائشَۃَ فَاِذَنْ یَکُوْنَ المَسْنُوْنٌ مِنْھَا عَلٰی اُصُوْلِ مَشَائخِنَا ثَمَانِیَۃً وَالْمُسْتَحَبُّ اِثْنَاعَشَرَ ‘‘ ۱۰
دلیل کا تقاضا تو یہی ہے کہ بیس رکعات تراویح میں سے سنت اسی قدر ہوں جس قدر رسول اﷲ ﷺ نے خود پڑھی ہوں۔ باقی رکعات مستحب ہوں اور یہ صحیحین کی حضرت عائشہؓ کی روایت سے ثابت ہے کہ آپؐ نے تراویح مع وتر گیارہ رکعت ہی پڑھی ہیں۔ اس تحقیق کے بعد یہ کہنا پڑے گا کہ آٹھ رکعت تو سنت ہیں‘ باقی بارہ رکعتیں مستحب ‘‘
ح: اگر سنت آٹھ ہی ہے تو پھر آٹھ سے زیادہ کیوں پڑھی جائیں؟
م: سنت تو وہی ہے جو رسول اﷲ ﷺ نے خود پڑھیں‘ لیکن جیسے عشاء کی دوسنتوں کے بعد نفل پڑھنا منع نہیں ‘ ایسے ہی آٹھ رکعت سے زیادہ پڑھنا
منع نہیں۔ بعض صحابہؓ بھی پڑھ لیتے تھے۔ اور ما بعد زمانوں میں بھی پڑھی جاتی رہی ہیں۔ مولانا عبدالحی لکھنوی اپنی کتاب تحفۃ الاخیار میں لکھتے ہیں:
’’ فَاِنَّ الزَّیَادَۃَ عَلٰی مَقَادِیْرِ السُّنَنِ جَاءِزَۃٌ اِتِّفَاقًا لٰکِنْ لاَّ عَلٰی سَبِیْلِ السُّنَّۃِ بَلْ عَلٰی سَبِیْلِ التَّطُوُّعِ‘‘
سنتوں پر زیادتی بالاتفاق جائز ہے ‘لیکن سنت کے طور پر نہیں بلکہ نفل کے طور پر‘‘
احناف پر اگر اعتراض ہے تو یہ کہ وہ بیس کو سنت کہتے ہیں اور مقرر کر دیتے ہیں حالانکہ صحیح چیز یہ ہے کہ بیس نہ سنت نبوی ہے نہ سنت خلفاء۔ بیس رکعت یا اس سے کم و بیش پڑھنے میں کوئی اعتراض نہیں‘ اعتراض صرف سنت سمجھنے اور سنت کہنے پرہے۔
ح: یہ تو میں نے بھی سنا ہے کہ بیس خلفاء کی سنت ہے۔
م: آپ سوچیں کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بیس تراویح خلفاء کی سنت ہے تو پھر سوال پیداہوتا ہے کہ تراویح میں سنت رسول ؐ کیا ہے ؟
اگر کہا جائے کہ یہی سنت رسولؐ بھی ہے تو پھر سوال ہوگا کہ جب بیس رکعت سنت رسول ؐ ہے تو پھر اسے خلفاء کی سنت
کیوں کہتے ہیں‘ سنت رسول ؐ کیوں نہیں کہتے؟ کیا خلفاء کی سنت‘ سنت رسول ؐ سے اہم ہے؟ کیا مسلمان سنت رسول ؐ کو ہلکا سمجھتے ہیں اور خلفاء کی سنت کو زیادہ جو بیس کوسنت خلفاء کہہ کر پڑھوایا جاتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ نہیں تو پھر خلفاء نے یہ تراویح کی بدعت کیوں جاری کی۔ انھوں نے بیس کی تعداد کہاں سے لے لی۔ اگر کہا جائے کہ حضور ﷺ نے تراویح تو پڑھی تھیں ‘ ہم کہیں گے پھر وہ کیوں نہیں پیش کی جاتیں جوحضورصلی اﷲ علیہ وسلم نے پڑھیں تھیں۔ بیس کو کیوں پیش کیا جاتا ہے ؟ رسول صلی اﷲعلیہ وسلم کی سنت ہوتے ہوئے پھر کسی اور کی سنت کی کیا ضرورت ؟
ح: تراویح کو خلفاء کی سنت اس لیے کہتے ہیں کہ یہ حضرت عمرؓ نے جاری کروائی تھی۔
م: کون کہتا ہے کہ تراویح حضرت عمرؓ نے جاری کروائی ہے۔ تراویح خود حضور ﷺ پڑھتے تھے اور لوگوں کو پڑھنے کی ترغیب دیتے تھے۔ بلکہ آپ ؐ نے تین
رات تراویح کی جماعت بھی کروائی۔
ح: حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے صرف تین رات جماعت کرائی۔ حضرت عمرؓ نے سارا مہینہ کرانے کا حکم دیا۔
م: اگرچہ حضور ﷺ نے تین رات جماعت کرائی ‘ لیکن آپ سارا ماہ جماعت کرانے کے خلاف نہ تھے بلکہ چاہتے تھے کہ سارا ماہ جماعت ہو ۔ صرف
فرضیت کے خوف سے آپؐ نے ایسا نہیں کیا۔ حضرت عمرؓ نے یہ دیکھ کر کہ اب فرضیت کا خطرہ نہیں رہا باقاعدہ جماعت شروع کروا دی۔ یہ حضرت عمرؓ کا اپنا اجتہاد نہیں بلکہ حضور ﷺ کی خواہش کی تکمیل تھی۔ لہذا سارا ماہ تراویح باجماعت بھی ہو سکتی ہے۔ پھر جماعت چھوڑ کر یہ بھی بتا دیا تھا کہ جماعت کوئی ضروری نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے صحابہؓ حضرت عمرؓ وغیرہ تراویح گھر پڑھتے تھے۔
ح: حضرت عمرؓ نے جب جماعت باقاعدہ شروع کروائی تو شاید رکعتیں بڑھا دی ہوں۔
م: حضرت عمرؓ رکعتیں کیسے بڑھا سکتے تھے‘ جب کہ ان کو حضور ﷺ کی سنت کا علم تھا۔بلکہ مؤطا امام مالک میں صراحتاً موجود ہے کہ حضرت عمرؓ نے
ابی بن کعبؓ اور تمیم داریؓ کو رمضان شریف میں گیارہ رکعتیں پڑھانے کا حکم دیا تھا اور یہ وہی تعداد ہے جو حضور ﷺ خود پڑھتے تھے۔
ح: اگر بیس رکعت منع نہیں تو پھر بیس کا ثواب آٹھ سے زیادہ ہوگا جو بیس پڑھتے ہیں وہ تو پھر اچھے ہوئے۔
م: ثواب تو سنت کی پیروی میں ہے۔ جب سنت آٹھ رکعت ہے تو آٹھ کو ہی اچھی طرح سے پڑھنے میں زیادہ ثواب ہے۔ بیس پڑھنے والے اچھے کیسے ؟
وقت تو وہ بھی اتنا ہی لگاتے ہیں جتنا آٹھ میں لگتا ہے بلکہ اس سے بھی کم ۔ رکعتیں جتنی زیادہ ہوتی ہیں ‘ نماز کا درجہ اتنا ہی گرتا جاتا ہے کیونکہ اعتدال و اطمینان کم ہوتا جاتا ہے۔
*****************************************************************
۱ (بخاری ‘کتاب صلوۃ التراویح ‘باب فضل من قام رمضان ‘ رقم2008:۔۔ مسلم :کتاب صلٰوۃ المسافرین‘ باب صلوۃ اللیل و عدد رکعات النبی‘ رقم 121:)
۲ (عرف الشذی ص (309:
۳ ( فتح القدیر ج 1؍ 334 ‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب النوافل‘ فصل فی قیام شھر رمضان )
۴ (مؤطا ‘ کتاب الصلوٰۃ فی رمضان ‘ باب ما جاء فی قیام رمضان ۔۔۔ مشکوۃ المصابیح ‘ کتاب الصلوٰۃ ‘ باب قیام شھر رمصان‘ 405/1 ‘رقم1302 )
۵ (المصابیح مع اردو ترجمہ مسنون تراویح ص 15: طبع مکتبہ سلفیہ لاہور)
۶ (ترمذی‘ ابواب الصوم‘ ما جاء فی قیام شھر رمضان ‘ رقم(806
۷ ( ابن خزیمۃ ‘ کتاب جماع ‘ ابواب ذکر قیام شھررمضان‘ باب ذکرہ عدد صلٰوۃ النبیؐ باللیل فی رمضان والدلیل علی انہ لم یکن یزید فی رمضان علی عدد الرکعات فی الصلوٰۃ باللیل ما کان یصلی من غیر رمضان 341/3۔۔۔ مجمع الزوائد 74/2قیام اللیل مروزی ص (90:
۸(مجمع الزوائد ج 2ص74 قیام اللیل ص (90
۹ ( عرف الشذی ص (309:
۱۰( بحر الرائق ج ۱ ص (72