مسعود بی ایس سی کے نام خط

مسعود بی ایس سی کے نام خط

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

جناب مسعود احمد صاحب!

السلام علیکم و رحمۃ اﷲ !
آپ کا خط موصول ہوا ‘ آپ نے لکھا ہے کہ آپ کو اس بات پر بڑا تعجب ہے کہ اہلحدیث کا نام قرآن و حدیث میں نہیں ملتا۔ میں کہتا ہوں مسعود صاحب! قرآن و حدیث میں اہل حدیث کا نام نہ ملنے پر تعجب نہ کریں۔ تعجب اپنی عقل پر کریں کہ آپ چیز کو بے موقع و بے محل تلاش کرتے ہیں یہ کیسی بے عقلی کی بات ہے کہ عمارت کا نام عمارت کی بنیاد میں تلاش کیا جائے؟
مسعود صاحب!آپ کو سوچنا چاہیے کہ بنیاد تو بنیاد ہوتی ہے ‘ بنیاد عمارت تو نہیں ہوتی کہ اس پر نام نظر آئے۔ اگر کوئی بنیاد میں عمارت یا عمارت کی چھت اور اس کی منڈیر کو تلاش کرے یاعمارت کے رنگ و روغن اور اس کے نام کو تلاش کرے کہ یہ مسجد ہے‘ یا مدرسہ ہے سٹیشن ہے یا ہسپتال تو اس کے بے وقوف اور احمق ہونے میں کیا شبہ ہے۔ جو چیز کسی عمارت کے لیے بنیاد ہوتی ہے وہ عمارت کے مالہ کے لیے بھی بنیاد ہوتی ہے۔یہ تو آپ کی عقلمندی ہے جو بنیاد کے اندر عمارت کا نام تلاش کرتے ہیں اور پھر نہ ملنے پر تعجب ہم پر کرتے ہیں۔ اگر آپ کو جماعت المسلمین کا خبط نہ ہوتا تو آپبنی الاسلام علی خمس سے ہی ’’بنا اور مبنی ‘‘کی حقیقت کو سمجھ لیتے۔
مسعود صاحب جیسے اہل حدیث مذہب کی بنیاد قرآن و حدیث ہے ایسے ہی اہل حدیث نام کی بنیاد بھی قرآن و حدیث ہے۔ بنیاد سپورٹ کرتی ہے۔ بنیاد Base کا کام دیتی ہے۔ بنیاد عمارت اور عمارت کے مالہ کے لیے ظرف نہیں ہوتی۔ مجھے تو آپ کی عقل پر تعجب ہے کہ آپ بنیاد بھی کہتے ہیں اور پھر جس کی بنیاد ہے اس کو بنیاد کے اندر تلاش بھی کرتے ہیں۔ وہ شاید آپ جیسا ہی عقل والا تھا جس کی سوئی گم تو ہوئی تھی کہیں گھر میں تلاش کرتا تھا باہر کہیں سڑک پر ۔ لوگوں نے پوچھا کیا تلاش کرتے ہو۔ کہنے لگا سوئی۔ پوچھا کہاں گم گئی ؟ کہنے لگا گھر میں۔ لوگوں نے کہا پھر یہاں کیوں تلاش کرتے ہو؟ کہنے لگا گھر میں اندھیرا ہے۔ ہم اس حکایت کو جھوٹ سمجھا کرتے تھے کہ ایسا کون پاگل ہوگا جو گھر میں گم شدہ چیز باہر سڑک پر تلاش کرے۔ لیکن اب آپ کا حال دیکھ کر یقین ہوگیا کہ یہ کہانی ضرور صحیح ہوگی۔ جب جماعت المسلمین کا امام ایسا ہو سکتا ہے کہ کہیں کی چیز کہیں تلاش کرے تو ایک عام آدمی سے کیا بعید ہے کہ وہ ایسی حرکت کرے۔ مسعود صاحب! جس جماعت کاامام ایسا کامل العقل ہو اس جماعت میں کسی فاتر العقل کی کیا ضرورت ہے۔ ایک امام ہی عقلی کمالات کے لیے کافی ہے۔
مسعود صاحب! جماعت المسلمین کے خبط اور اہل حدیث دشمنی نے آپ کی مت مار دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ عمارت کے نا م کو عمارت کی بنیاد میں تلاش کرتے ہیں۔ اگر جماعت المسلمین کا بھوت آپ پر سوار نہ ہوتا تو آپ سوچتے کہ میں نے کیسا احمقانہ سوال کیا ہے۔ نام عمارت کا درودیوار پر ہوتا ہے ‘ نہ کہ عمارت کی بنیاد میں۔ مسعود صاحب!ہمارے مذہب کا نام اہل حدیث ہے جس کی بنیاد قرآن و حدیث ہے۔ اس طرح کہ حدیث کا اطلاق کلام اﷲ اور حدیث رسول اﷲ دونوں پر ہوتا ہے۔ قرآن بڑے دعوے اور فخر سے اپنے آپ کو حدیث کہتا ہے ہے۔ ملاحظہ ہوں یہ چند آیات قرآنی۔
1–
(اَفَبِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُدْھِنُوْنَ )[56:الواقعہ:81]

2– (اَفَمِنْ ھٰذَ االْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ)[53:النجم:59]

3–( اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا )[18:الکہف:6]

4–(فَذَرْنِیْ وَ مَنْ یُّکَذِّبُ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ )[68:القلم:44]

5–( فَلْیَاْتُوْا بِحَدِیْثٍ مِثْلِہ‘ )[52:الطور:34]

جب حدیث کا لفظ قرآن و حدیث دونوں کو شامل ہے اور اہل حدیث کی ترکیب قرآنی ترکیبوں ‘ اہل کتاب اور اہل انجیل کے عین مطابق ہے۔ تو ہمارا دعویٰ بالکل صحیح ہے کہ جیسے ہمارے مذہب کی بنیاد قرآن وحدیث ہے‘ ایسے ہی ہمارے نام اہل حدیث کی بنیاد بھی قرآن وحدیث ہے۔ مسعود صاحب! آپ اپنی نااہلی سے یہ بھی کہہ دیا کرتے ہیں کہ قرآن کا نام تو ذکر بھی ہے۔ پھر اہل حدیث اہل ذکر کیوں نہیں کہلاتے؟ میں کہتا ہوں جو جامعیت اہل حدیث نام میں ہے وہ کسی اور نام میں نہیں۔ اگر اہل ذکر یا اہل قرآن نام رکھا جائے تو پھر حدیث نکل جاتی ہے۔ حال آنکہ حدیث بھی قرآن کی طرح دین کی بنیاد ہے۔ اہل حدیث نام رکھنے میں قرآن بھی آ جاتا ہے اور حدیث بھی اور دین مکمل ہو جاتا ہے۔ اہل حدیث نام ہلکا بھی ہے اور پرمغز بھی۔ یہ زبان پر ثقیل بھی نہیں۔
برعکس اس کے حنفی کو دیکھ لیں‘ نہ حنفی مذہب کی بنیاد قرآن و حدیث نہ حنفی نام کی۔ جب قرآن و حدیث حنفی نام کی بنیاد نہیں تو حنفی نام قرآن و حدیث سے نکل ہی نہیں سکتا۔ بنیاد کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ اس پر مبنی ہر چیز اس پر Baseکرے۔ اس کا ثبوت اس سے نکل سکے ۔ بنیاد کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ا س پر مبنی ہر چیز من و عن اس کے اندر موجود ہو۔ جب ہم نے دعویٰ کیا ہے کہ ہمارے مذہب اور ہمارے مذہب کے نام کی بنیاد قرآن و حدیث ہے تو ہم نے اپنا نام قرآن و حدیث سے نکال کر دکھا دیا۔ ایک حنفی ایسا نہیں کر سکتا‘ کیوں کہ اس کی بنیاد قرآن وحدیث نہیں۔ مسعود صاحب! یہ تو آپ کی عقل کا فتور پر قصور ہے کہ بنیاد بھی کہتے ہیں اور اس پر مبنی چیز کو من و عن اس کے اندر تلاش بھی کرتے ہیں۔ مسعود صاحب! آپ کی یہی ایک حماقت نہیں آپ کی بڑی بڑی حماقتیں اور بھی ہیں۔ حضرت عائشہؓ کو تو لوگ کہتے تھے:مَا ھِیَ بِاَوَّلِ بَرَکَتِکُمْ یَا آلَ اَبِیْ بَکْرٍ ۱ اے عائشہؓ ! یہ تیری پہلی برکت نہیں‘ تیری اور بھی بہت سی برکتیں ہیں۔ یعنی تو بہت برکت والی ہے۔ لیکن مسعود صاحب! آپ کے بارے میں تو یہی کہا جا سکتا ہے: مَاھِیَ بِاَوَّلِ حَمَاقَتِکُمْ یَا اِمَامَ جَمَاعَۃِ الْمُسْلِمِیْنَ۔!

مسعود صاحب ! آپ کی بڑی بڑی حماقتیں ہیں۔ اسلام اور مسلمین تو پہلے سے ہی چلے آ رہے تھے۔ آپ نے بیسویں صدی میں جماعت المسلمین کی طرح ڈال دی۔ پہلے لوگوں کو تَلْزِمُ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ اِمَامَھُمْ ۲ کہہ کر ڈرایا ‘ پھر خلیفۃ المسلمین بننے کے شوق میں خود امام المسلمین بن گئے۔
کوئی کہے بھئی! اے بیسویں صدی کے امام المسلمین اہل حدیث ایک لقب ہے اور لقب والدین نہیں رکھا کرتے۔ لہٰذا اہل حدیث نام قرآن و حدیث میں ہونا کوئی ضروری نہیں‘ لیکن آپ نہیں مانتے۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ لقب ہو یا کچھ اور میں کہتا ہوں کہ تم ثابت کرو کہ جو نام تمھارے والدین نے رکھا ہے۔ یہ نام قرآن وحدیث میں ہے ‘ ورنہ تم اپنے ماں باپ کے نہیں۔تم بدعتی ہو‘ گمراہ ہو‘ جو تم نے یہ نام رکھا۔ مسعود صاحب اگر ہم اہل حدیث نہیں رکھ سکتے کیوں کہ یہ اضافہ ہے تو آپ کے والدین نے آپ کا نام مسعود رکھا۔ آپ کس طرح بی ۔ ایس سی کے نام سے مشہور ہیں۔ ایک مسعود عثمانی ہیں ۔ ایک مسعود بی ۔ ایس سی۔ آپ بتائیں ۔ جب آپ کے والدین نے آپ کا نام مسعود رکھا تو آپ مسعود بی ۔ ایس سی کیوں اور کیسے بن گئے ؟ اب یا تو ثابت کریں کہ یہ مسعود بی ۔ ایس سی نام بھی آپ کے والدین نے رکھا ہے ورنہ تسلیم کریں کہ آپ بھی اپنے ماں باپ کے نہیں۔ آپ بدعتی ہیں‘ ولایتی ہیں‘ فارمی ہیں‘ پیوندی ہیں۔ آپ وہ مسعود نہیں جس کو آپ کے ماں باپ نے جنا تھا۔ جس کا صرف ایک نام یعنی مسعود تھا۔ آپ مسعود بی۔ ایس سی ہیں وہ مسعود تھا۔
مسعود صاحب! یہ تو چند سطریں بطور تمہید ہیں۔ قصہ مختصر تمہید طولانی والی بات ہو گئی ۔ اب اصل جواب دیکھیے۔ مسعود صاحب !آپ کا خط ملا‘ پڑھ کر بڑی مسرت ہوئی کہ چلو ہمیں بھی بیسویں صدی کے امام المسلمین سے پورا نہیں تو آدھا شرف ملاقات حاصل ہو گیا جب کبھی اﷲ پوری ملاقات کرائے گا تو مزا آئے گا‘ کم از کم کھل کر بات تو ہو جائے گی۔
مسعود صاحب!آپ کی خواہش ہے کہ آپ بات بات پر بحث کریں ۔ میں نے کوشش کی ہے کہ اسی ایک بات پر ہی آپ کی خواہش پوری ہو جائے۔ اس لیے غور فرمائیں ۔ مسعود صاحب!آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ کی بنیاد آپ کے والدین ہیں ‘ لیکن ہمیں تعجب ہے کہ آپ کا مسعود بی ۔ ایس سی نام آپ کی بنیاد میں نہیں ملتا۔ براہ کرم اپنے نام مسعود بی۔ ایس سی کا ثبوت اپنے اصلی ماں باپ سے دے کر اپنے دعویٰ کو کہ آپ اپنے ماں باپ کے ہیں‘ سچا ثابت کریں‘ ورنہ ہمیں مجبوراً اعلان کرنا پڑے گا کہ مسعود صاحب جو آج تک غلطی سے اپنے ماں باپ کے سمجھے جاتے رہے ہیں اب نئے مسلمینی مذہب کے مطابق اپنے ماں باپ کے نہیں ہیں‘ وہ فارمی ہو گئے ہیں‘ کیوں کہ انھوں نے اپنا نام مسعود بی ۔ ایس سی رکھ لیا ہے‘ جس کا ثبوت اس کے ماں باپ سے نہیں ملتا۔ مسعود صاحب!جب آپ اپنے نام مسعود بی۔ ایس سی کا ثبوت اپنے اصلی والدین سے کر دیں گے ‘ ہم آپ کو اہل حدیث نام کا ثبوت اپنے اصلی والدین سے کر دیں گے۔ ہم آپ کو اہل حدیث نام کا ثبوت قرآن و حدیث سے دے دیں گے۔ مسعود صاحب فرصت مجھے بھی بالکل نہیں۔ آپ کے شفیق صاحب اور ہمارے غوری صاحب اس بات کو خوب جانتے ہیں۔ اس لیے میں نے مختصرا آپ کے لفظوں میں ہی آپ کو جواب دیا ہے۔ اگر آپ میں سمجھ ہوئی تو ضرور سمجھ جائیں گے۔ تبلیغ اسلام کا کام اب آپ کو تو کرنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ آپ کے نوجوانوں نے خصوصاً ان دونوں حضرات نے یہ کام بطریق احسن سنبھال لیا ہے اور آپ کو فارغ کردیا ہے۔ شفیق صاحب نے تو ماشاء اﷲ کمال ہی کر دیا ہے۔ تھوڑی دیر میں اتنی ترقی کی کہ ملتان ‘ بہاول پور کو سر کرکے اب ان کا رخ کراچی کی طرف ہے۔ اب وہ آپ کی ہی خبر لیں گے۔ آپ ان سے بحث کے لیے تیار رہیں۔ وہ آپ سے بحث کرنے کے لیے بھی کافی سے زیادہ وافی ثابت ہوں گے ۔ آپ بی۔ ایس سی ہیں۔ وہ ماشاء اﷲ ڈاکٹر ہیں۔ وہ آپ کا علاج کر دیں گے کہ آپ کی صحت بھی ہو جائے گی اور پھر کبھی بحث کی خواہش بھی نہیں ہوگی۔ چند ماہ انتظار کیجیے پھر ان کے ہاتھ دیکھیے۔

خادم الاسلام والمسلمین
عبداﷲ عفی اﷲ عنہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱ ( صحیح بخاری ‘ کتاب التیمم باب قول اﷲ تعالیٰ ( فلم تجدوا ماء فتیمموا صعیدا طیبا فامسحوا بوجوھکم و ایدیکم منہ ۔۔ ص 39 رقم 334۔۔ صحیح مسلم ‘ کتاب الحیض ‘ باب التیمم ‘ ص 736 رقم 108 )
۲ ( صحیح البخاری‘ کتاب الفتن ‘ باب کیف الامر اذا لم تکن جماعۃ ص 591 رقم 7084۔۔۔ صحیح مسلم ‘ کتاب الامارۃ ‘ باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین عند ظھر الفتن ص 1009 رقم 51)