بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
کراچی بھی کیا عجیب شہر ہے جہاں رنگ رنگ کی دنیا آباد ہے۔ جہاں کفر و الحاد کا بھی زور ہے اور اسلام کابھی شور ہے۔ ترقی کا یہ عالم ہے کہ وہاں کفر بھی ننگا ہے کوئی شرم و سنگ نہیں ‘ اسلام بھی کئی رنگا ہے۔ کوئی ایک رنگ نہیں۔ لوگ تو کراچی کی جماعت غربا پر تعجب کرتے تھے کہ انھوں نے غربا نام کیا رکھ لیا ہے کراچی میں ہی دومسعود ایسے اٹھے کہ ایک نے جماعت المسلمین بنا کر باقی سب کو جماعت الکافرین بنا دیا۔ دوسرے نے حزب اﷲ بنا کر باقی سب کوحز ب الشیطان ٹھہرا دیا۔ ایک کو تو کوئی مسلم نظر نہیںآتا اس کی نگاہ میں سب کافر ہیں۔ دوسرے کو کوئی موحد نظر نہیں آتا اس کی نگاہ میں سب مشرک ہیں۔ اتفاق یہ ہے کہ ہیں دونوںمسعود ۔ ایک کو کافر بنانے کی سعادت حاصل ہے اور دوسرے کو مشرک۔ کمال یہ ہے ہیں دونوں ہی جاہل عالم ان دونوںمیں کوئی نہیں۔ ایک ایم۔ بی۔ بی۔ ایس ہے اور دوسرا بی۔ ایس سی ۔ایک کو مسعود عثمانی کہتے ہیں اور دوسرے کو مسعو د بی۔ ایس سی۔ دونوں کراچی میں مسلمانوں کے لیے فتنے بنے ہوئے ہیں۔کراچی کی زمین بھی کیسی مردم خیز ہے جو ایسے ایسے’’ مسعود‘‘ اگاتی ہے جو فتنہ انگیز ہیں۔
آج ہم جماعت المسلمین والے مسعود کا ذکر کرتے ہیں ۔ یہ حضرت پہلے کسی دفتر میں ملازم تھے۔ جب حکومت نے ریٹائر کر دیاتو جماعت المسلمین کا پانسہ ڈال کر امام المسلمین بن گئے جو تمہید ہے خلیفۃ المسلمین بننے کی۔ پہلے وہ اہل حدیث تھے۔ جب سے انھوں نے جماعت المسلمین بنائی ہے‘ اہل حدیث کے مخالف ہو گئے ہیں۔اب وہ اپنی جماعت کی خیر و بقا اہل حدیث کی مخالفت ہی میں سمجھتے ہیں۔ اس لیے دن رات اہل حدیث کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں۔ انھوں نے جماعت المسلمین تو بنا لی اب اس کو پالیں تو کیسے؟ باہر سے تو کوئی ان کے جال میں پھنستا ہی نہیں‘ پھنسے تو کوئی بے خبر اہل حدیث ہی پھنسے۔ باہر والے تو ان کو سرپھرا اور بگڑا ہوا اہل حدیث ہی سمجھتے ہیں اس لیے کہ وہ آمین اور رفع الیدین کرتے ہیںاور آمین اور رفع الیدین ہی آج کل اہل حدیثوں کی بڑی نشانی ہے۔ مسعود صاحب چوں کہ بگڑے ہوئے اہل حدیث ہیں ا س لیے ان کی بگڑی ہوئی رفع الیدین ہے جو ان کے ساتھ ہی خاص ہے۔ وہ اہل حدیث کو ہی اپنے لیے میدان سمجھتے ہیں اور اہل حدیث ہی کو اپنے لیے ہوّا۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر کوئی ٹوٹا توا ہل حدیث ہی سے ٹوٹے گا اور اگر کسی نے میرا توڑ کیا تو وہ بھی اہل حدیث ہی کرے گا۔ اس لیے ان کو اہل حدیث ہی سے ڈر رہتا ہے اور اہل حدیث ہی سے امید ۔ وہ اپنی جماعت المسلمین کی ساکھ بنانے کے لیے اہل حدیث پر ہی اعتراض کرتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ اہل حدیث نام پر اعتراضات کرتے ہیں اور کبھی اہل حدیث جماعت پر۔ کبھی بعض فقہی مسائل اہل حدیث کے سرتھوپ کر ان پر طبع آزمائی کرتے ہیں ‘ خود مجتہد بن جاتے ہیں اور اہل حدیث کو مقلد بنا دیتے ہیں ۔ فقہی اصول ان کے اپنے ہیں جن کے تحت وہ نت نئے مسائل گھڑتے رہتے ہیں۔ بظاہر وہ قیاس کے منکر ہیں لیکن جب مطلب ہوتا ہے تو ابلیسی قیاس سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
ان کی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ کام سنبھال لیا مجددوں والا‘ صلاحیت ہے نہیں‘ نہ علم‘ نہ عقل۔ پھر اگر اخلاص ہوتا تو بھی بات تھی‘ اخلاص کا بھی فقدان ہے۔جماعت المسلمین کے خبط میں ایسے مخبوط الحواس ہو گئے ہیں کہ اب تو اہل حدیث بھی ان کو گمراہ نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اہل حدیث ایک نیا فرقہ ہے جو ہندوستان میں بنا ہے۔ میں کہتا ہوں مسعود صاحب یہ بات آ پ کو جماعت المسلمین بنانے کے بعد اب نظر آئی ہے۔ اس سے پہلے آپ اہل حدیث تھے اور حنفیوں سے الجھا کرتے تھے آپ کو نظر نہیں آتا تھا کہ اہل حدیث بھی حنفیوں کی طرح ایک نیا گمراہ گرو ہ ہے میں خواہ مخواہ حنفیوں کو خراب نہ کروں۔
مسعود صاحب! کیا آپ کو یہ معلوم نہیں کہ کسی فرقے کی صداقت کامعیار ہی یہ ہے کہ وہ نیا نہ ہو۔ عہد نبی ؐ سے مسلسل چلا آ رہا ہو۔ مسعود صاحب!آپ پہلے جو اہل حدیث بنے رہے تو کیا اس وقت اہل حدیث اہل حق تھے اوراب گمراہ ہیں؟ آخر اس میںکیا راز ہے کہ جماعت المسلمین بنانے کے بعد اب آپ کو اہل حدیث گمراہ نظر آنے لگے ہیں۔ پہلے نہیں۔ مسعود صاحب کیا آپ پہلے جاہل تھے یا اب شاطر ہیں جواپنی پیدا کردہ جماعت المسلمین کو پروان چڑھانے کی خاطر اہل حدیث کو گمراہ بتا رہے ہیں۔ مسعود صاحب زبان سے آپ خواہ کچھ ہی کہیں۔ دل سے آپ جانتے ہیں کہ اہل حدیث ہی اہل حق ہیں‘ کیوں کہ یہی ایک جماعت ہے جس کا اصل قرآن و حدیث ہیں اور کسی بھی جماعت کا اصل قرآن و حدیث نہیں۔
مسعود صاحب!کیا یہ حقیقت نہیں کہ اہل حدیث اس وقت سے ہیں جب سے قرآن و حدیث ہیں۔ اور اہل حدیث کی تاریخ قرآن و حدیث کی تاریخ ہے۔ مسعود صاحب !یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس کا اصل قرآن و حدیث ہو وہ کوئی نیا فرقہ ہو۔ اہل حدیث کا اس وقت سے ہونا جب سے قرآن و حدیث ہیںایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار کوئی قابل غور سپرہ چشم ہی کرے تو کرے کوئی دانا نہیں کر سکتا۔
مسعودصاحب !اہل حدیث کا تعلق قرآن و حدیث کے ساتھ ایسا ہی ہے جیسا دن کا سورج کے ساتھ۔ جیسے یہ نہیں ہو سکتا کہ سورج ہو اور دن نہ ہو۔ ایسے ہی یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ قرآ ن و حدیث ہوں اور اہل حدیث نہ ہوں تخلف محال ہے۔
مسعود صاحب !آپ کہتے ہیں کہ اہل حدیث ایک نیا فرقہ ہے۔ میں کہتا ہوں نیا کیسے ؟ کیا صحابہ کرام اہل حدیث نہ تھے۔ اگر وہ اہل حدیث نہ تھے تو کیا تھے؟کیا ان کا مذہب قرآن و حدیث نہ تھا۔ اگر آپ کہیں کہ مذہب تو ان کا قرآن و حدیث تھا‘ مگر وہ اہل حدیث نہ تھے ۔ میں کہتا ہوں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مذہب تو ان کا قرآن و حدیث ہو اور وہ اہل حدیث نہ ہوں۔ جس کامذہب قرآن و حدیث ہو وہی تو اہل حدیث ہوتا ہے۔ جب صحابہ ؓ قرآن و حدیث والے تھے تو یقینا وہ اہل حدیث تھے۔اگر آپ کہیں کہ وہ عملا اہل حدیث بے شک ہوں لیکن نام ان کا اہل حدیث نہ تھا‘ میں کہتا ہوں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ عملا ً وہ اہل حدیث ہوں اور نام ان کا اہل حدیث نہ ہو۔جب وہ عملاً اہل حدیث تھے تو نام بھی ان کا یقینا اہل حدیث تھا۔ آپ ہی بتائیں جن کو قرآن اہل کتاب بتاتا ہے کیا وہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں اہل کتا ب نہ تھے۔اگر وہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں اہل کتاب نہ تھے تو قرآن ان کو بعد میں اہل کتاب کے نام سے کیوں پکار سکتا ہے ۔ کیا کتاب ان کو موسی علیہ السلام کے بعد ملی ۔ جب کتاب ان کو موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں مل چکی تھی تو وہ یقینا موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بھی اہل کتاب تھے‘ اگرچہ وہ اس نام سے مشہور نہ ہوں۔ کیوں کہ موسیٰ علیہ السلام نے ان کو اہل کتاب کے نام سے نہیں پکارا۔ وہ اکثر یاقو م ہی کہہ کر پکارتے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں وہ اہل کتاب تھے ہی تو قرآن نے ان کو اہل کتاب کے نام سے پکارا۔ اگر وہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں اہل کتاب نہ ہوتے تو قرآن ان کو بعد میں اہل کتاب کے نام سے نہ پکارتا۔ قرآن کا ان کو بعد میں اہل کتاب کے نام سے پکارنا دلیل ہے اس بات کی کہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بھی اہل کتاب ہی تھے خواہ بالقوۃ ہی سہی۔ یہی حال صحابہ ؓ کا تھا۔ صحابہ رسول اﷲ ﷺ کے زمانے میں بھی اہل حدیث ہی تھے۔ جیسے یہودی موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بھی اہل کتاب تھے۔ کیوں کہ صحابہ کو رسول اﷲ ﷺ کی زندگی میں ہی قرآن و حدیث مل چکا تھا اور قرآن و حدیث ہی ان کا مذہب تھا جس دلیل سے یہود و نصاریٰ اہل کتاب تھے اسی دلیل سے صحابہؓ اہل حدیث تھے۔ اگر آپ کہیں کہ صحابہ کو اہل کتاب کے اصول پر اہل قران کہنا چاہیے تھا نہ کہ اہل حدیث۔ تو میں کہوں گا کہ جس اصول پر یہود و نصاریٰ کو اہل التوراۃ والانجیل کی بجائے اہل کتاب کا نام دیا گیا اسی اصول پر صحابہؓ کو بجائے اہل القرآن والحدیث کے اہل حدیث کا نام دیا گیا ہے۔ نام رکھتے وقت جامعیت اور اختصار کا خیال رکھا جاتا ہے۔ جیسے کتاب کے مفہوم میں توراۃ اور انجیل دونوں آ جاتی ہیں اسی طرح حدیث کے مفہوم میں قرآن و حدیث دونوں آ جاتے ہیں۔جس طرح اہل التوراۃ والانجیل کی بجائے اہل کتاب نام زیادہ جامع ہے اسی طرح اہل القرآن والحدیث کی بجائے اہل حدیث نام زیادہ جامع ہے۔
مسعود صاحب اگر آپ کہیں صحابہ تو صرف مسلمین تھے‘ مسلمین کے سوا ان کا کوئی نام نہیں تھا‘ میں کہتا ہوں اگر صحابہ کا مسلمین کے سوا کوئی اور نام نہ تھا تو پھر آپ ان کو صحابہ کیوں کہتے ہیں ؟ کیا صحابہ نام نہیں ہے۔ اگر ہے اور یقینا ہے جو مسلم کے علاوہ ہے اور رسول اﷲ ﷺ کی نسبت سے ہے تو پھر آپ کا یہ کہنا کہ صحابہ کامسلمین کے سواکوئی اور نام نہ تھا باطل ہے۔
مسعود صاحب! آپ کہتے ہیں کہ صحابہ کا مسلمین کے سوا کوئی اور نام نہ تھا تو پھر کیا صحابہ اور یہودو نصاریٰ ایک ہی طرح کے مسلمین تھے ‘ ان میں کوئی فرق نہ تھا۔ وہ بھی مسلم ‘ یہ بھی مسلم۔ اگر فرق تھا اور یقینا فرق تھا تو ظاہر ہے کہ وہ فرق نسبت کا ہی تھا۔ صحابہ محمدی مسلم تھے‘ اور یہودو نصاریٰ موسائی اور عیسائی مسلم تھے۔ یہود و نصاریٰ موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کی نسبتوں سے مسلمین تھے۔ صحابہ رسول اﷲ ﷺ کی نسبت سے مسلمین تھے ۔ جو اپنے وقت کے نبی کی نسبت سے مسلم ہو وہی مسلم ہوتا ہے۔ اسی لیے یہود و نصاریٰ جو پہلے مسلمین تھے ‘ جب رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم سے انھوں نے نسبت نہ جوڑی وہ محمدی نہ بنے ‘ عیسائی اور موسائی ہی بنے رہے تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی آمد کے بعد وہ کافر ہو گئے اور آج بھی جو محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے نسبت نہ جوڑے اور اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب نہ کرے اور مسلم کہلاتا پھرے‘ جیسا کہ مسعود صاحب آپ کہتے ہیں وہ مسلم نہیں ہے۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جس نسبت کے بغیر آدمی مسلمان ہی نہیں ہو سکتا اس نسبت کا آپ انکار کر رہے ہیں اور اس کو فرقہ واریت قرار دیتے ہیں۔مسعود صاحب!جس نسبت کے بغیر اسلام ہی مکمل نہ ہو وہ نسبت فرقہ واریت کیسے ہو سکتی ہے۔ اسلام کہتے ہی ہر دور کے نبی کے مذہب کوہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں اسلام موسوی مذہب کا نام تھا۔ عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں اسلام عیسوی مذہب کا نام تھا۔ آج اسلام محمدی مذہب کا نام ہے۔ آج نہ موسوی مذہب اسلام ہے‘ نہ عیسوی مذہب اسلام ہے۔ آج اگر کوئی موسوی یا عیسوی مذہب کو اپنائے اور محمدیت کو چھوڑ دے تو وہ کافر ہے۔ موسویت اور عیسویت پہلے اسلام تھے‘ اب اسلام صرف محمدیت ہی ہے اور جو نسبت عین اسلام ہو وہ فرقہ واریت نہیں ہو سکتی۔
مسعودصاحب! اصل میں آپ کی بیماری جہالت ہے‘ آپ کو دین اور مذہب کے فرق کا پتا نہیں۔ اگر آپ کو اس کا پتا ہوتا توآپ کبھی محمدی نسبت اہل سنت یا اہل حدیث کا انکار کرکے اس کو فرقہ واریت قرار نہ دیتے۔ ایک ہوتا ہے دین ‘ ایک ہوتا ہے مذہب۔ دین تو آدم علیہ السلام سے لے کر محمدصلی اﷲ علیہ وسلم تک سب کا ایک ہی ہے‘ بدلتا نہیں اور مذہب ہر نبی کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ اسی لیے نام دو ہوتے ہیں ۔ ایک مذہب کے اعتبار سے ‘ ایک دین کے اعتبار سے ۔ مسلم دینی نام ہے۔ محمد ی‘ اہل سنت یا اہل حدیث مذہبی نام ہیں۔ جس کے تحت مختلف نبی مختلف شریعتیں لے کر آئے ۔قرآن مجید میں ہے:
{اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاﷲِ الْاِسْلَامُ }:3]آل عمران[19:۔۔ {لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْھَاجًا}:5]المائدۃ[48: {وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا }:22]الحج[34:
ان شریعتوں کو ہی ان نبیوں کا مذہب کہتے ہیں۔ مذہب بدلتے رہتے ہیں ۔ دین ایک ہی رہتا ہے۔ اسلام ان مذہبوں میں ہی دائر رہتا ہے۔ ان مذہبوں کی نسبت ہی سے اسلام کا تعارف ہوتا ہے۔ کبھی موسوی مذہب اسلام ‘ کبھی عیسوی مذہب اسلام اور کبھی محمدی مذہب اسلام۔ جتنا اسلام کی نسبت سے دینی نام ضروری ہے اتنا ہی نبیوں کی نسبت سے مذہبی نام ضروری ہے۔ کیوں کہ اس مذہبی نسبت کے بغیر لفظ مسلم کا ابہام دور نہیں ہوتا۔ یہ پتا نہیں چلتا کہ وہ کس دور کا مسلم ہے۔ موسوی مسلم ہے یا عیسوی مسلم‘ محمدی مسلم ہے یا غیر محمدی۔ جب اس دور کے نبی محمد ﷺ ہی ہیں تو آج محمدی مسلم ہی صحیح مسلم ہو سکتا ہے۔ غیر محمدی مسلم صحیح مسلم نہیں ہو سکتا جو اپنے آپ کو صرف مسلم کہتا ہے اور محمدی نسبت کا اظہار نہیں کرتا اس کے اسلام کا کوئی اعتبار نہیں۔ وہ یا مسلم نہیں یا بے سمجھ ہے جو اسلام کی حقیقت کو نہیں سمجھتا۔ اس کا حال اس بے وقوف کا سا ہے جو پاکستا ن میں رہتے ہوئے پاکستانی تو کہلاتا ہے ‘ لیکن لاہوری یا ملتانی نہیں کہلاتا۔ وہ جس شہر کا رہنے والا ہے اس کی طرف نسبت کرنے کو برا جانتا ہے۔ وہ کہتا ہے ایک نسبت پاکستانی کافی ہے دوسری نسبت لاہوری یا ملتانی کی کیا ضرورت ؟ یاا س کا حال اس بے وقوف سا ہے جو اپنے آپ کو صرف انسان کہتا ہے ‘ کوئی نام نہیں رکھتا ۔ وہ کہتا ہے ایک نام انسان کافی ہے جو اﷲ نے رکھ دیا اور نام رکھنے کی کیا ضرورت ؟ مسعود صاحب آپ کا بھی یہی حال ہے۔ آپ بھی بالکل یتیم الاسلام ہیں جو کہتے ہیں کہ نام ایک مسلم ہی ٹھیک ہے جو اﷲ نے رکھ دیا ہے اب اور نام کی کیا ضرورت ؟ مسعود صاحب! آپ یہ نہیں دیکھتے کہ مسلم مسلم میں فرق ہے۔ کوئی مسلم موسوی‘ کوئی عیسوی‘ کوئی محمدی‘ کوئی غیر محمدی۔ کوئی حنفی ‘ کوئی شافعی‘ کوئی شیعہ ‘ کوئی خارجی ۔ سب کو مسلم کہنا اور ان میں فرق نہ کرنا گدھے اور گھوڑے کو برابر کرنا ہے۔ مسلم مسلم میںتمیز ضروری ہے۔ کہ کون کیسا مسلم ہے۔ اور اسلام کی تمیز وقت کے نبی کے ساتھ ہی ہو سکتی ہے‘ اس کے بغیر نہیں۔ وقت کا نبی ہی معیار ہو سکتا ہے۔
اس لیے حدیث میں ہے ’’مَحَمَّدٌ فَرْقٌ بَیْنَ النَّاسِ‘‘ کہ اب کفر اور اسلام حق اور باطل میں معیار صرف محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں ۔ جو اپنی نسبت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے رکھے وہ مسلم باقی غیر مسلم۔
مسعود صاحب! آپ کہتے ہیں مسلم کے بعد کوئی ا ور نام رکھنا جائز نہیں کیوں کہ اس میں فرقہ واریت ہے۔ میں کہتا ہوں محمد ﷺ کی نسبت سے نام رکھنا توفرض ہے اس میں کوئی فرقہ واریت نہیں اس کے بغیر تو اسلام ہی پورا نہیں۔ مسعود صاحب فرقہ واریت تو اس نام میں ہوتی ہے جو حق کے مقابلے میں ہو۔ جو نام باطل کے امتیاز کے لیے ہو اس میں فرقہ واریت کیسی ؟ محمد صلی اﷲ علیہ و سلم سے نسبت رکھنا تو باطل سے امتیاز کے لیے ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اسلام اسی کا صحیح ہے جو اپنی نسبت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے رکھے۔ جو اپنی نسبت محمد صلی اﷲ علیہ و سلم سے نہیں رکھتا‘ وہ مسلم ہی نہیں۔ جیسے لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ پڑھنے سے کوئی مسلمان نہیں ہوتا ‘ محمد رسول اﷲ ساتھ پڑھنا ضروری ہے۔ اسی طرح فقط مسلم کہلانے سے مسلم نہیں ہوتا۔ محمدی یا اہل سنت یا اہل حدیث ہونا ضروری ہے۔ محمد ﷺ کی بعثت کے بعد اسلام نام ہی محمدیت کا ہے۔ یہ محمدیت ہی آج کفر واسلام میں فصل ہے۔ اور ’’مَحَمَّدٌ فَرْقٌ بَیْنَ النَّاسِ‘‘ کا بھی یہی مطلب ہے۔
مسعود صاحب!آپ اہل حدیث سے دور کیا ہوئے منکرین حدیث کے قریب ہو گئے۔ منکرین حدیث قرآن کا نام لے کر حدیث کا انکار کرتے ہیں ‘ آپ مسلم کا نام لے کر اہل حدیث کا انکار کرتے ہیں۔ حال آنکہ جیسے حدیث کے بغیر دین کامل نہیں ہوتا اسی طرح اہل حدیث کے بنے بغیر مسلم کامل نہیں ہوتا۔ وہ حدیث رسول کا انکار کر کے رسول کے منکر ہو گئے آپ نسبت رسول ؐ کا انکار کرکے رسول اﷲ سے لاتعلق ہو گئے۔
مسعود صاحب آپ کہتے ہیں اہل حدیث ایک فرقہ ہے ‘ میں کہتا ہوں کس وجہ سے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( صحیح البخاری‘ کتاب الاعتصام بالکتب والسنۃ ‘ باب الاقتداء بسنن رسول اﷲ ﷺ ص 606 رقم 7281 ۔۔۔ مشکوۃ ‘ کتاب الایمان باب الاعتصام بالکتٰب والسنۃ رقم 144)
آپ کہتے ہیں تقلید کرنے کی وجہ سے‘ میں کہتا ہوں جو تقلید کرنے لگ جائے وہ اہل حدیث ہی نہیں اہل حدیث فرقہ کیسے بن جائے گا۔ اہل حدیث اور مقلدین میںتو تقابل تضاد ہے جو اہل حدیث ہے وہ مقلد نہیں ‘ جو مقلد ہے وہ اہل حدیث نہیں۔اگر آپ کہیں کہ اہل حدیث بھی تقلید کرتے ہیں اور اہل حدیث بھی کہلاتے ہیں‘ میں کہتا ہوں کیا بدعتی اور مشرک مسلمین نہیں کہلاتے مسعود صاحب اگر ایسی باتوں سے کوئی جماعت فرقہ بننے لگے تو مسلمین پھر سب سے پہلے فرقہ ہے۔ کونسی ایسی برائی ہے جومسلمین میںنہیں۔ تقلید مسلمین میں‘ بدعات مسلمین میں کفر و شرک مسلمین میں۔اگر ان قباحتوں کے باوجود مسلمین فرقہ نہیں بنتا تو اہل حدیث فرقہ کیسے بن جائے گا۔؟ اگر آپ کہیں کہ اہل حدیث نام میں فرقہ واریت ہے‘ مسلمین نام میں فرقہ واریت نہیں ‘ میں کہتا ہوں فرقہ واریت سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اگر آپ کہیں‘ جس نام میں دوسروں سے مقابلہ ہو‘ فرق و امتیاز ہو‘ فرقہ وارانہ نام ہے۔ میں کہتا ہوں پھر تو فرقہ واریت مسلمین نام میں بھی ہے۔ اس میں بھی کافروں سے مقابلہ ہے۔ ان سے بھی فرق و امتیاز ہے۔آپ مسلم کو خود امتیازی نام مانتے ہیں۔ ملاحظہ ہو ’’مذہب اہل حدیث کی حقیقت‘‘ صفحہ 5 ۔ اگر آپ کہیں مطلق مقابلہ نہیں بلکہ اہل حق سے مقابلہ مراد ہے مسلم کامقابلہ تو کافروں سے ہے ‘ لیکن اہل حدیث کا مقابلہ تو کافروں سے نہیں۔ اہل حدیث فرقہ تو مسلمان فرقوں کے مقابلے میں ہے۔ میںکہتا ہوں کیا مسلمان فرقوں میں اہل باطل نہیں؟ اگر ہیں اور یقینا ہیں تو اہل حدیث کا مقابلہ بھی اہل باطل سے ہے۔ اہل حق سے نہیں اور یہ نام اہل باطل کے مقابلے میں ہے۔ اہل حق کے مقابلے میں نہیں۔ اگر آپ کے خیال میں یہ اہل حق کے مقابلے میں ہے تو بتائیے وہ کون سے اہل حق ہیں جن کے مقابلے میں یہ فرقہ اہل حدیث ہے ؟ اور اگر یہ اہل حق کے مقابلے میں نہیں بلکہ اہل باطل کے مقابلے میں ہے تو پھر اہل حدیث فرقہ کیسے؟پھر یا تو مسلمین بھی فرقہ ہوگا کیوں کہ وہ کافروں کے مقابلے میں ہے یا پھر اہل حدیث بھی فرقہ نہیں ہوگاکیوں کہ وہ اہل باطل کے مقابلے میں ہے۔ مسعود صاحب!اگر آپ کہیں اہل حدیثوںمیں اہل حدیث نام رکھا تھا امتیازکے لیے ۔ اب اگر اہل حدیث گمرا ہ ہونے لگ جائیں تو پھر اہل حدیث کیا نام رکھیں گے؟ میں کہتا ہوں مسعود صاحب !کیا مسلمین نام میں کافروں سے امتیاز نہیں ؟ اگر ہے اور یقینا ہے تو پھر اگر مسلمین کافر بننے لگ جائیں تو پھر مسلمین کیا کریں گے؟ اگر آپ کہیں مسلمین نام تو اﷲ نے رکھا ہے ‘ ہماری بلا سے کوئی کچھ بنے ہم تو مسلمین ہی رہیں گے۔ میں کہتا ہوںسوال یہ نہیں کہ مسلم نام کس نے رکھا ہے ‘ سوال یہ ہے کہ اگر مسلمین بگڑنے لگیں تو پھر کافر اور مسلم میں امتیاز کیسے ہو گا؟ ایک یہودی بھی مسلم ہے‘ ایک عیسائی بھی مسلم ہے۔ قرآن نے ان کو بھی مسلمین ہی کہا ہے۔ ایک محمدی بھی مسلم ہے اور آج مسلمانوں میں کتنے فرقے ہیں جو باہم دست و گریبان ہیں لیکن سبھی اپنے آپ کو مسلم کہتے ہیں۔ آخر یہ امتیاز کیسے ہوگا کہ اصلی مسلم کون ہے؟ مسعو د صاحب!مسلم نام میں بھی امتیاز ہے اور اہل حدیث نام میں بھی امتیاز ہے‘ لیکن جو اشتراک مسلم میں ہے وہ اہل حدیث میں نہیں۔ مسلم گویا ایک جنس ہے جس کو فصل کی ضرورت ہے۔ اہل حدیث ایک فصل ہے جس کو مزید کسی فصل کی ضرورت نہیں۔ اس لیے ہم نے اہل حدیث نام رکھا ہے۔
مسعود صاحب!جیسے صحیح اور جامع مانع تعریف کے لیے جنس قریب کے ساتھ فصل قریب کا ہونا ضروری ہے اسی طرح اصلی مسلم بننے کے لیے اہل حدیث ہونا ضروری ہے۔ کیوں کہ اہل حدیث قریب ترین فصل ہے۔ مسلم جنس قریب ہے اور اہل حدیث فصل قریب ہے۔ مسلم کی صحیح تعریف یہ ہے کہ وہ اہل حدیث ہو۔ مسلم نام میں پہلی امتیں اور اس امت کے تمام فرقے شریک ہیں ۔ پہلی امتوں سے امتیاز کے لیے محمد ﷺ کی ذات معیار ہے جو کہ فصل ہے ۔ پہلے مسلمان موسوی اور عیسوی اورا س امت کے مسلمین محمدی۔ اس امت کے اہل بدعت سے امتیاز کے لیے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت معیار ہے‘ جس کے لیے اہل سنت کانام امتیاز اور فصل ہے۔ پھر سنت کے جانچنے کے لیے حدیث رسول معیار ہے ۔ جس کے لیے اہل حدیث نام امتیا ز اور فصل ہے۔ غرض یہ کہ ہر قسم کے امتیاز کے لیے معیار محمدرسول اﷲﷺ ہیں اور ’’مَحَمَّدٌ فَرْقٌ بَیْنَ النَّاسِ‘‘ کا بھی یہی منشا ہے۔
مسعود صاحب! آپ کہتے ہیں کہ اہل حدیث پہلے مسلم بنے‘ پھر مسلم سے اہل سنت بنے‘ پھر اہل سنت سے اہل حدیث بنے ۔ اب پتا نہیں یہ کیا بنیں گے۔ میں کہتاہوں مسعود صاحب یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ ہم بنے نہیں‘ ہم جو کچھ ہیں پہلے دن سے ہیں فرق صرف اعتباری ہے۔کسی وقت ہمارا کوئی نام مشہور ہو گیا ‘ کسی وقت کوئی۔ ہر نام میں ہمارا معیار ’’مَحَمَّدٌ فَرْقٌ بَیْنَ النَّاسِ‘‘ ہے۔ اہل سنت کہلائیں یا اہل حدیث۔ ہم اﷲ کے مقرر کردہ معیار سے آگے نہیں گزرتے۔ اگر ہم اہل سنت ہیں تو سنت سے مراد سنت رسولؐ ہے۔اور اگر ہم اہل حدیث ہیں تو حدیث سے مراد حدیث رسول ہے۔ غرض یہ کہ ہمارے ہر امتیازی نام کی نسبت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف ہے۔ کسی غیر کی طرف نہیں اور یہ ہماری حقانیت کی دلیل ہے۔
مسعود صاحب!آپ نے اپنے رسالہ ’’مذہب اہل حدیث کی حقیقت‘‘ میں لکھا ہے کہ اہل حدیث بگڑ گئے ہیں اور ان میں تقلیدی فرقے بن گئے ہیں۔ مثلا غزنویہ‘ روپڑیہ‘ ثنائیہ وغیرہ۔ میں کہتا ہوں کہ یہ مذہبی فرقے نہیں ‘ یہ خاندانی نام ہیں۔ چوں کہ اہل حدیث سے بغض رکھنے کی وجہ سے آپ پر اﷲ کی مار ہے۔ اس لیے آپ ایسی غلط باتیں اہل حدیث سے منسوب کرتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تقلیدی فرقے نہیں ہیں۔اگر مان لیاجائے کہ یہ تقلیدی فرقے بن گئے ہیں تو پھر یہ اہل حدیث کہاں رہے۔ یہ اپنی نسبتیں غیر نبی کی طرف کرنے کی وجہ سے خود ہی اہل حدیث سے نکل گئے۔ جب حنفی اپنی نسبت امام ابوحنیفہؒ کی طرف کرکے اہل سنت نہ رہے تو یہ اپنی نسبتیں غیر نبی کی طرف کرکے اہل حدیث کہاں رہیں گے۔ ؟
مسعود صاحب آپ جتنا بھی زور لگا لیں ‘ آپ اہل حدیث کو فرقہ نہیں ثابت کر سکتے کیوں کہ فرقے کی کوئی تعریف بھی اس پر صادق نہیں آتی‘ البتہ آپ کی نومولود جماعت‘ جماعت المسلمین ہر لحاظ سے فرقہ ہے۔فرقہ کی ہر تعریف اس پر صادق آتی ہے۔ا س جماعت کے فرقہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ حال میں فتنوں کے زمانوںمیں بنی ہے۔ اس نام کی پہلے کوئی جماعت نہ تھی۔1385ھ میں آپ نے اس کی بنیاد رکھی۔ اس جماعت کے بانی و مؤسس آپ ہیں۔ اس جماعت کا تعارف آپ کے تعارف کے ساتھ ہے۔ جو بھی کہے گا یہی کہے گا مسعود بی ۔ ایس سی کی جماعت المسلمین۔ آپ کے حوالے کے بغیر اس کا حسب و نسب جانا ہی نہیں جا سکتا۔ دنیا کا کوئی مسلمان جو آپ کی جماعت سے پہلے متعارف نہ ہو اگر یہ پڑھے یا سنے کہ کراچی میں جماعت المسلمین کا جلسہ ہوگا تو جب تک اسے یہ نہ بتایا جائے وہ جان ہی نہیں سکتا کہ یہ کس جماعت کا جلسہ ہے اور یہ جماعت المسلمین کون سی جماعت ہے۔ کیا اس کی تعریف ہے۔ آپ کی جماعت المسلمین کا نام سن کر خواہ وہ حدیث کا کتنا بڑا عالم کیوں نہ ہو اس کا ذہن کبھی بھی اس جماعت المسلمین کی طرف نہیں جائے گا‘ جس کا ذکر بخاری و مسلم میں ہے جس کو پیش کرکے آپ دھوکا دیتے ہیں کہ ہماری جماعت وہ جماعت ہے جس کا ذکر بخاری و مسلم میں ہے۔ اس کو یہ بتانا ہی پڑے گا کہ یہ جماعت ایک نئی جماعت ہے جو حال ہی میں کراچی میں بنی ہے۔ جس کو ایک یتیم الاسلام بی ۔ایس سی پاس مسعود نامی شخص نے ملازمت سے ریٹائر ہو کر سمندر کے کنارے بیٹھ کر (علی شفاء جرف اھار ) بنایا ہے۔ جو اب مسعود بی۔ایس سی کی جماعت المسلمین کے نام سے مشہور ہے۔
مسعود صاحب!آپ کہتے ہیں کہ اہل حدیث کا لقب صرف علما حدیث کے لیے استعمال ہوتا ہے‘ فرقہ وارانہ نام کی حیثیت سے یہ اب استعمال ہونے لگا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ مسعود صاحب آپ کے اکثر اعتراضات کی وجہ آپ کی جہالت ہے۔ اگر آپ کو اتنا پتا ہوتا کہ اہل حدیث اور محدث میں کیا فرق ہے تو آپ یہ بے ہودہ اعتراض کبھی نہ کرتے۔ آپ کو اتنا بھی پتانہیں کہ اہل حدیث کسے کہتے ہیں اور محدث کسے؟مسعود صاحب !اہل حدیث کا لفظ عام ہے جس کا اطلاق حدیث کے عالم اور حدیث کے عامل دونوں پر ہوتا ہے اور محدث کا اطلاق صرف حدیث کے عالم پر ہوتا ہے۔اسی جہالت کی وجہ سے آپ نے یہ کہا ہے کہ جاہل کو اہل حدیث کہنا جاہل کو عالم کہنے کے مترادف ہے۔ میںکہتا ہوں یہ ترادف ایسا ہی ہے جیسے آپ کو عالم کہنا۔
مسعود صاحب!اہل حدیث ایک مذہبی جماعت ہے جس میں قرآن و حدیث کو ماننے والے عالم اور جاہل دونوں شامل ہیں۔ آپ امام المسلمین بن گئے ‘لیکن آپ کو اتنا بھی پتا نہیں کہ جو مذہب کسی جماعت کے علما کا ہوتا ہے وہی مذہب ان علما کے ماننے والے جہلا کا ہوتا ہے۔ شیعہ عالم بھی شیعہ کہلاتا ہے‘ شیعہ جاہل بھی شیعہ کہلاتاہے۔ اسی طرح حنفی عالم بھی حنفی کہلاتا ہے اورحنفی جاہل بھی حنفی کہلاتا ہے‘ یہ ایسی موٹی بات ہے جسے ہر کوئی جانتا ہے اور یہی قرآنی اصول ہے۔ اسی اصول پر قرآن مجید عام بنی اسرائیل کی مذمت کرتا ہے۔ حال آنکہ وہ بات کہی ہوئی ان کے اسلاف اور علما کی ہوتی ہے۔
مسعود صاحب! سنا ہے آپ قرآن مجید کی تفسیر لکھنے کی سوچ رہے ہیں‘ خدارا !یہ ظلم نہ کرنا۔ آپ جیسا بے سمجھ اور سطحی علم رکھنے والا قرآن مجید کی تفسیر کیا کرے گا؟ خدا سے ڈریں فضلو و اضلوا کا مصداق نہ بنیں۔ مسعود صاحب آپ دفتری آدمی ہیں۔ آپ کیا جانیں تفسیر کیا ہوتی ہے؟ تفسیر کرنا کلرکوں کا کام نہیں‘ تفسیر کرنا سمجھ والے عالموں کا کام ہے۔غلطی تو عالموں سے بھی ہو جاتی ہے۔ لیکن عالم کی غلطی اﷲ معاف کر دیتا ہے لیکن اگر جاہل تفسیر کرنے لگ جائے صرف اس زعم میں کہ میں اچھا منشی اور انشاپرداز ہوں‘ تو اﷲ اس کی غلطی معاف نہیں کرتا۔ کیوں کہ اس کو یہ حق ہی نہیں پہنچتا کہ وہ قرآن مجید کی تفسیر کرے۔ جب وہ عالم نہیں۔ اس کا م کا اہل نہیں تو وہ یہ غلط کام کیوں کرتا ہے۔ اگر اس سے غلطی نہ ہو‘ تب بھی وہ مجرم ہے۔ مسعود صاحب جب آپ کو اتنا پتا نہیں کہ اہل حدیث کے کیا معنی ہو سکتے ہیں تو آپ اہل کتاب اور اہل انجیل کے معنی کیا خاک سمجھیں گے اور جب آپ اہل کتاب کے معنی نہ سمجھتے ہوں تو آپ قرآن کی تفسیر کیا کریں گے؟
مسعود صاحب آپ کہتے ہیں اہل حدیث سے مراد صرف حدیث کے عالم ہیں۔ میں کہتا ہوں ‘ اﷲ جو قرآن مجید میں اہل کتاب کا لفظ استعمال کرتا ہے‘ تو کیا ا س سے صرف کتاب کے عالم مراد ہیں یا عام یہود و نصاریٰ بھی جو اس کتاب کے ماننے والے ہیں۔ مسعود صاحب اہل کتاب کا ذبیحہ جو حلال ہے یا اہل کتاب کی عورتوں سے جو نکاح جائز ہے تو کیا اس سے صرف کتاب کے عالموں کا ذبیحہ اور ان کی عورتیں مراد ہیں یا اہل کتاب سے مراد عام یہود و نصاریٰ ہیں جن میںعالم اور جاہل سب شامل ہیں۔ مسعود صاحب اہل کتاب سے مراد بالاتفاق ایک خاص مذہب کے لوگ ہیں ‘ عالم ہوںیا جاہل تو اہل حدیث سے مراد وہ سب کیوں نہیں ہو سکتے جن کا مذہب قرآن و حدیث ہو ‘ وہ عالم ہوں یا جاہل۔
مسعود صاحب! آپ کی جہالت و ہٹ دھرمی کا یہ حال ہے کہ جب اہل حدیث اپنی حقانیت کے ثبوت میں پہلے عالموں کے حوالے پیش کرتے ہیں تو آپ کہہ دیتے ہیں کہ تم اہل حدیث ہو تم اصحاب الحدیث نہیں۔ علی بن مدینی اور عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ نے جو کچھ کہا ہے وہ اصحاب الحدیث کے بارے میں کہا ہے - اس لیے تم وہ نہیں‘ میں کہتا ہوں مسعود صاحب اصحاب الحدیث اور اہل حدیث میں کیا فرق ہے ؟ اگر کوئی فرق ہو تو کسی مستند حوالے سے بیان کریں ورنہ آپ تسلیم کریں کہ یہ سب آپ کی چالاکیاں حق پر پردہ ڈالنے کے لیے ہیں۔ مسعود صاحب دیانت داری کی بات یہ ہے کہ اصحاب الحدیث اور اہل حدیث میں کوئی فرق نہیں۔ اگر علی بن مدینی نے اصحاب الحدیث کہا ہے تو امام احمد نے اہل حدیث کہاہے۔ شرف اصحاب الحدیث میں علی بن مدینی کا قول بھی اہل حدیث ہی ہے۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ محدثین کے نزدیک اصحاب الحدیث اور اہل حدیث میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کسی نے اصحاب الحدیث کہہ دیا کسی نے اہل حدیث ۔ بات ایک ہی ہے۔ قرآن مجید دوزخیوں کے لیے اصحاب النار کا لفظ بھی استعمال کرتا ہے اور اہل النار کا بھی۔ اس سے ثابت ہو تا ہے کہ اصحاب اور اہل کے ایک ہی معنی ہیں۔ جیسے اصحاب النار اور اہل النار میں کوئی فرق نہیں اسی طرح اصحاب الحدیث اور اہل حدیث میں کوئی فرق نہیں۔ ایک معنی اور مفہوم کو ادا کرنے کے لیے کئی الفاظ استعمال ہوسکتے ہیں۔ پہلے تو تثنیہ کو تثنیہ بھی کہتے تھے اور اثنان بھی ۔ جمع کو جمع بھی کہتے تھے اور جمیع اور جماعت بھی۔ چنانچہ بخاری شریف میں ہے:
اَلْقِنُوُ الْعِذْقُ وَالْاِثْنَانِ قِنْوَانِ وَ الْجَمَاعَۃُ اَیْضًا قِنْوَانٌ رِبِّیُّوْنَ الجمع وَالْوَاحِدُ رَبِّیْ لُغَۃُ اَہْلَ الْحِجَازِ ھَلُّمَ لِلْوَاحِدِ وَالْاَثْنَیْنِ وَالْجَمِیْع
جیسے جمع‘ جمیع اور جماعت میں کوئی فرق نہیں‘ تثنیہ اور اثنان میں کوئی فرق نہیں اسی طرح اصحاب الحدیث اور اہل حدیث میں کوئی فرق نہیں۔
مسعود صاحب جب سے آپ کو جماعت المسلمین کا خبط ہوا ہے اس وقت سے آپ کو اہل حدیث نام بہت برا لگتا ہے۔ اسی لیے آپ اس پر الٹے سیدھے اعتراض کرتے رہتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( بخاری ‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب تعلیق القنو فی المسجد‘ ص 36 رقم 421)
ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ کے ممکنہ اعتراضات کا جائز ہ لے کر آپ کو بتائیں کہ اہل حدیث کے نام سے بغض رکھنا اور اس پر بے جا اعتراض کرنا صرف آپ کی شقاوت ہے‘ ورنہ قرآن و حدیث کے ماننے والوں کے لیے یہ نام برا نہیں بلکہ موزوں ہے۔ نہ ہی اس پر کوئی اعتراض ہے ۔ نہ اس میں کوئی فرقہ واریت ہے کیوں کہ اس کی بنیاد قرآن و حدیث ہے۔ اس نام کی نسبت بھی قران و حدیث کی طرف ہے جو اصل اسلام ہے کسی غیر کی طرف نہیں۔ ناموں کے سلسلے میں قرآنی تعلیم بھی یہی ہے کہ تم لوگوں کو ان کی اصل کی نسبت سے پکارو۔ یہی انصاف والی بات ہے۔
{اُدْعُوْھُمْ لِاٰبَآئِھِمْ ھُوَ اَقْسَطُ عِنْدَاﷲِ }:33]الاحزاب[5:
چوں کہ ہمارا اصل قرآن وحدیث ہے ‘ اور یہی ہمارے مسلمات ہیں اس لیے ان کی نسبت سے ہی ہمارا نام اہل حدیث ہے اور بہترین نام وہی ہوتا ہے جو مسلمات کی نسبت سے ہو۔ نہ اس سے شیخی اورفخر کا شائبہ ہو۔
{فَلاَ تُزَکُّوْا اَنْفُسَکُمْ }:53]النجم[32:۔۔{ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یُزَکُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ }:4]النساء[49:
کی وعید کا ڈر ۔ جیسا کہ مسلمین اور مومنین کہلوانے یا حزب اﷲ اور اولیاء اﷲ بننے
میں ہے اور کسی گمراہی کا خدشہ بھی نہیں۔
مسعود صاحب! آپ اعتراض کرتے ہیں کہ جب اﷲ نے مسلمین نام رکھا ہے تو پھر اہل حدیث نے خود ساختہ نام ’’اہلحدیث‘‘ کیوں رکھ لیا۔ میں کہتا ہوں مسعود صاحب اﷲ نے آدم کی سب اولاد کا نام انسان رکھا ہے تو آپ نے یہ خود ساختہ نام مسعود کیوں رکھ لیا؟ کیا آپ کو انسان نام پسند نہیں ۔ اگر آپ کہیں انسان تو ایک نوع ہے جس کے افراد بہت سے ہیں لہٰذا تعارف کے لیے ان افراد کے نام رکھنا ضروری ہے ۔ میںکہتا ہوں یہی صورت مسلمین کی ہے۔ مسلمین کے بھی کئی فرقے ہیں چنانچہ تعارف کے لیے ان کے نام رکھنا بھی ضروری ہے۔ اگر آپ اعتراض کریں کہ آپ نے اﷲ کا رکھا ہوا نام مسلمین چھوڑ کر اپنا بنایا ہوا نام اہل حدیث کیوں رکھ لیا ‘ میں کہتا ہوں کہ آپ نے اﷲ کا رکھا ہوا نام انسان چھوڑ کراپنا بنایا
ہوانام مسعود کیوں رکھ لیا۔ اگر آپ جواب دیں کہ میں نے اﷲ کا رکھا ہوا نام انسان چھوڑ ا نہیں‘ میں انسان بھی ہوں اور مسعود بھی بلکہ پہلے انسان بعد میں مسعود ہوں۔ میں کہتا ہوں ہم نے بھی اﷲ کا رکھا ہوا نام مسلمین چھوڑا نہیں۔ ہم مسلمین بھی ہیں اور اہل حدیث بھی۔ بلکہ ہم پہلے مسلمین ہیں بعد میں اہل حدیث بلکہ اہل حدیث مسلمین ہی کی ایک قسم ہے۔ جیسے اﷲ کے نزدیک ہم سب انسان ہیں ‘ لیکن لوگوںمیں امتیاز کی خاطر ہمارے مختلف نام ہیں تاکہ تعارف کرانے اور بلانے میں آسانی ہو۔ اسی طرح اگر ہم فرماں برداری کریں تو اﷲ کے نزدیک ہمارا نام مسلمین ہے اور مختلف فرقوں سے امتیاز کے لیے ہمارا نام اہل سنت اہل حدیث ہے۔ اگر آپ کہیں قرآن و حدیث میں تو یہ نام نہیں ہے ‘ آپ نے یہ نام کہاں سے لے لیا ‘ میں کہتا ہوں ہم نے یہ نام قرآن و حدیث سے لیا ہے جیسے ہم اپنے تمام مسائل قرآن و حدیث سے لیتے ہیں ویسے ہی ہم نے یہ نام لیا ہے۔ وہ یوں کہ حدیث کلام اﷲ اور کلام الرسول دونوں کو کہتے ہیں ۔ قرآن نے خود کو کئی جگہ حدیث کہا ہے۔ ملاحظہ ہوں یہ چند آیات:۔
...1 { اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا} :18]الکہف[6:
...2{ فَلْیَاْتُوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہٖٓ }:52]الطور[34:
...3{ اَفَمِنْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ}:53]النجم[59:
...4 { اَفَبِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُدْھِنُوْنَ }:56]الواقعۃ[81:
...5 {فَذَرْنِیْ وَمَنْ یُّکَذِّبُ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ}:68]القلم [44:
جب حدیث کا لفظ قرآن و حدیث دونوں پر بولا جاتا ہے تو قرآنی ترکیب اہل کتاب اور اہل انجیل کی رو سے قرآن و حدیث کے ماننے والے کو اہل حدیث ہی کہہ سکتے ہیں۔
مسعود صاحب! جب حدیث کا لفظ جس معنی میں ہم نے لیا ہے قرآن و حدیث میں موجود اہل حدیث کی ترکیب بھی قرآن و حدیث میں موجود۔ اہل حدیث کی طرح مسلمات پر پر مبنی نام اہل کتاب اہل انجیل بھی قرآن و حدیث میںموجود تو ثابت ہوا کہ اہل حدیث نام کی بنیاد کلی طور پر قرآن و حدیث ہے۔ اگر آپ کہیں اہل حدیث نام کی بنیاد بے شک قرآن و حدیث ہے لیکن یہ نام قرآن و حدیث میں نہیں۔ میں کہتا ہوں جب آپ مانتے ہیں کہ اس نام کی بنیاد قرآن و حدیث ہے تو پھر اگر یہ نام قرآن و حدیث میں نہ بھی ہو تو کوئی حرج نہیں۔ کسی مذہبی نام کے درست ہونے کے لیے اس کا قرآن و حدیث میںہونا ضروری نہیں۔ قرآن و حدیث پر مبنی ہونا ضروری ہے۔
مسعود صاحب!تعجب ہے کہ آپ قرآن و حدیث کو اہل حدیث نام کی بنیادبھی مانتے ہیں اور پھر اس کو قرآن و حدیث کے اندر بھی تلاش کرتے ہیں ۔ مبنی چیز بناکے اوپر ہی ہوتی ہے اندر نہیں ہوتی ۔ اسلام یعنی قرآن و حدیث بنیاد ہے اور مذہب اہل حدیث اسی پر مبنی ایک عمارت اور عمارت کا نام عمارت کے اوپر ہوتا ہے۔ بنیاد میں نہیں ہوتا۔ جو چیز ہمارے مذہب کی بنا ہے وہی چیز ہمارے مذہب کے نام کی بھی بنا ہے اور قرآن و حدیث کا اس نام کی بنیاد ہونا اس کی صحت اور درستی کے لیے کافی ہے۔ اگر آپ کہیں ہمارا نام جماعت المسلمین تو بخاری و مسلم میںہے تو میں کہتا ہوں بخاری و مسلم میں جس جماعت المسلمین کا ذکر ہے وہ آپ کی جماعت المسلمین نہیں ہے۔ آپ کی جماعت المسلمین تو بنی 1385ھ میں کراچی میں ہے۔ بخاری و مسلم میں اس کا ذکر کیسے آ سکتا ہے ؟ بخاری و مسلم والی جماعت المسلمین تو تیرہ چودہ سو سال پہلے کی ہے۔ اگر آپ کی جماعت وہی ہوتی تو آپ کو خود بنیاد رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر آپ کہیںہماری جماعت کا نام تو وہی ہے میں کہتا ہوں نام تو جعلی چیز کا بھی وہی ہوتا ہے ۔ جب جماعت ہی وہ نہیں جس کا نام ہے تو فقط نام کو کیا کریں گے ۔ آج کل یہی تو ٹھگی ہے ۔ چیز اور ہوتی ہے ‘ نام وہی رکھ لیتے ہیں۔ چیز بنی پاکستان کی ہوتی ہے مہر باہر کی لگا دیتے ہیں۔
مسعود صاحب! بخاری و مسلم والی جماعت المسلمین میں تو سب مسلمین آ تے ہیں اس کا اطلاق کسی خاص فرقے پر نہیں ہوتا۔ آپ کی جماعت المسلمین تو ایک خاص فرقہ ہے جو کراچی میں بنا ہے۔
جیسا کہ آپ نے اپنے رسالے ’’جماعت المسلمین‘‘ کے قیام کا پس منظر میں خود تسلیم کیا ہے لہذا آپ کی جماعت المسلمین وہ جماعت المسلمین نہیں البتہ نام ضرور آپ نے چرایا ہے‘ جو آپ کی جماعت پر فٹ نہیں آتا۔ جس سے آپ کی چوری ظاہر ہوتی ہے۔ جماعت المسلمین تو سب مسلمانوں کو کہتے ہیں۔ نیک ہوں یا بد‘ منافق ہوں یا مومن۔
مسعود صاحب! آپ ہی بتائیںرسول اﷲ ﷺ نے جو(( فَیَشْھَدْنَ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَدَعْوَتَھُمْ)) فرمایا تھا تو عورتیں باہر جا کر جماعت المسلمین کے ساتھ عید پڑھیں تو کیا اس جماعت المسلمین میں عبداﷲ بن ابی منافق اور اس کی پارٹی شامل نہ تھی۔ اگر شامل تھی تو ثابت ہو گیا کہ جماعت المسلمین عام مسلمانوں کوکہتے ہیں اس سے کوئی خاص جماعت مراد نہیں ہوتی جیسی آپ نے بنائی ہے اور اگر عبداﷲ بن ابی اور اس کی پارٹی اس جماعت المسلمین میں شامل نہ تھے تو پھر آپ ثابت کریں کہ وہ عید رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے علیحدہ پڑھا کرتے تھے اور یہ آپ ثابت نہیں کرسکتے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کا علیحدہ جماعت المسلمین نام رکھنا سراسر دھوکا دہی ہے۔
مسعود صاحب!آپ اگر کہیں ہمارا نام مسلمین تو قرآن میں ہے‘ لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ نام بنیاد میں نہیں ہوتا ہمارا نام تو بنیاد میں ہے۔ میں کہتا ہوں ‘ یہ کہنا غلط نہیں کہ نام بنیاد میںنہیں ہوتا ۔ یہ تو مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ عمارت کا نام تو عمارت پر ہی ہوتا ہے۔ بنیاد
میں نہیں ہوتا۔البتہ مسلمین نام جو قرآن میں ہے تو یہ اس لیے ہے کہ یہ اسلام کی نسبت سے بنیادی نام ہے۔ کیوں کہ اسلام ایک بنیاد ہے اور بنیاد کا نام بنیاد میں ہی ہو سکتا ہے۔ عمارت کا نام بنیاد میں نہیں ہو سکتا۔ اسلام دین ہے جو بنیاد ہے۔ اہل حدیث مذہب ہے جو اس بنیاد پرعمارت ہے۔ اس لیے مسلم نام قرآن میں ہے ۔ اہل حدیث جو اس پر تعمیر ہے وہ قرآن میں نہیں۔ مذہبی نام کا دینی بنیاد پر مبنی ہونا ضروری ہے۔ ورنہ وہ غلط ہے اور یہ آپ کو بھی تسلیم ہے کہ اہل حدیث نام قرآن و حدیث پر مبنی ہے۔
مسعود صاحب! اصل میں آپ کو مغالطہ وہی مذہب اور دین کا ہے ۔ آپ کو پتا نہیں کہ دین اور مذہب میں کیا فرق ہے ؟ اس لیے آپ مسلم اور اہل حدیث کے فرق کو نہیں سمجھتے۔ آپ کہتے ہیں کہ ہمارا نام مسلم تو قرآن مجید میںہے۔ تم اپنا نام اہل حدیث قرآن میں
ِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( بخاری:کتاب العیدین‘ باب اعتزال الحیض المصلی ‘ص 77 رقم `981 مشکوۃ :کتاب الصلوۃ ‘ باب صلوۃ العیدین فصل اول رقم 1431)
دکھاؤ۔ ہم کہتے ہیں کہ مسلم نام آ پ کے اکیلے کا کیسے ہو گیا‘ مسلم نام تو سب کا ہے۔ جیسا آپ کا ویسا سب کا۔ اگر یہ خاص آپ کا ہے تو اس کا ثبوت دیں۔ اگر آپ کہیں ہم نے اپنی جماعت کا جو نام رکھا ہے ‘ ہم کہتے ہیں یہی تو آپ کی بے وقوفی ہے جس کو آپ سمجھتے نہیں۔نام رکھا تو خود ہے ‘ اور کہتے ہیں کہ یہ اﷲ نے رکھا ہے ۔اگر آپ کہیں اﷲ نے جو سماکم المسلمین کہا ہے ‘ میں کہتا ہوں کہ یہ صرف آپ کے لیے تو نہیں کہا۔ یہ تو سب کے لیے ہے۔ آپ کے لیے کوئی تخصیص ہو تو بتائیں۔ تخصیص تو آپ خود کرتے ہیں۔ جس کا آپ کے پاس کوئی ثبوت نہیں ۔ مسلم نام عام ہے جس میںسب برابر کے شریک ہیں کیوں کہ یہ نام دین کی نسبت سے ہے اور دین سب کا ایک رہا ہے۔ کیا پہلی امتیں اور کیا یہ امت ؟ مسعود صاحب! تخصیص تو مذہبی نام ہی سے ہوتی ہے۔ مسلم نام میں کوئی تخصیص نہیں۔ یہ آپ کی بے سمجھی ہے جو آپ مسلم نام کااہل حدیث نام سے مقابلہ کرتے ہیں۔ مسلم دینی نام ہے جو پہلی امتوں کا بھی رہا ہے۔ اہل حدیث مذہبی نام ہے جو صرف اس امت کا ہی ہو سکتا ہے۔ جیسے دین اور مذہب کا مقابلہ نہیں۔ ایسے ہی مسلم نام اور اہل حدیث نام کا مقابلہ نہیں۔ اسلام ہمارا دین ہے۔ اہل حدیث ہمارا مذہب ہے۔ اگر آپ کہیں ہمارادین مذہب سب ایک ہے ہم تو صرف مسلم ہیں‘ میں کہتا ہوںمسلم تو یہود ونصاریٰ بھی تھے۔ کیا آپ میں اور ان میں کوئی فرق ہے یا نہیں۔ اگر فرق ہے تو وہ مذہب ہی کا فرق ہے دین کا فرق نہیں۔ اسی لیے آپ مسلمان ہیں اوروہ اب کافرہیں اور اگر آپ کے نزدیک کوئی فرق نہیں تو پھر ٹھیک ہے ۔ جیسے وہ ویسے آپ۔ جہاں وہ وہیں آپ۔
مسعود صاحب! اسلام ایک دین ہے۔ اس کی بنیاد یہ عقیدہ ہے کہ فرماں برداری اﷲ کی ہو لیکن وہ کیسے ہو۔ انسانوں میں ا س کا پتا اس مذہب سے ہی لگتا ہے جو وہ عملاً اپنے لیے اختیار کرتے ہیں۔ اس لیے ہر مسلمان کے دو نام ہوتے ہیں۔ ایک دینی نام جو اس کے دین کو ظاہر کرتا ہے جو اﷲ نے قرآن میں رکھ دیا جس کا ہر کلمہ گو دعویٰ کرتا ہے اور وہ ایک طرح سے موروثی سا ہو گیا ہے۔ دوسرا نام جو وہ عملی زندگی کے پیش نظر اپنے پسندیدہ مذہب کو ظاہر کرنے کے لیے رکھتا ہے۔ اگر کلمہ گو مسلمان واقعۃ اﷲ کا فرماں بردار ہو جیسے اﷲ کے رسولؑ نے بتایا ہے تو اﷲ کی رکھی ہوئی بنیاد یعنی اسلام اور اس کے اپنے طرز عمل سے تعمیرکردہ مذہب میں کلی مطابقت ہوگی ۔ اگر بنیاد ہی اسلام کی ہو اور فرماں برداری غیر اﷲ کی ہو تو اسلام اور اس کی مذہبی تعمیر میںمطابقت نہیں ہوتی جس سے پتا لگ جاتا ہے کہ اس کی مذہبی تعمیر صحیح نہیں۔ کیوں کہ یہ اسلامی بنیاد قرآن و حدیث کے مطابق نہیں۔ جب بنیاد اور عمارت میںمطابقت ہوتی ہے تو ان کے ناموںمیں بھی تطابق ہوتا ہے یعنی اسلام جو دین اور بنیاد ہے اور اختیار کردہ تعمیر جو مذہب ہے۔ ان دونوں کا نام ایک سا ہوتا ہے۔یعنی وہ آپس میںمترادف ہوتے ہیں۔ جیسے اہل حدیث اور اسلام ۔ اسلام دینی بنیاد ہے اور اہل حدیث عمارت ہے۔ اسی لیے اہل حدیث اور اسلام میں تطابق ہے۔ جب اسلام اور اختیار کردہ عملی مذہب میں مطابقت نہیں ہوتی تو ان کے ناموں میں بھی تطابق نہیں ہوتا۔ اسلام کچھ تقاضا کرتا ہے اور اس کا مذہبی نام کچھ تقاضا کرتا ہے۔ جیسے مقلدین کے نام حنفی وغیرہ ۔ اسلام تو کہتا ہے کہ اطاعت اﷲ کی ہو جیسے رسول بتائے‘ تقلیدی نام تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنے امام کے پیچھے جائے۔ اﷲ کا حکم خواہ کچھ ہو تقلید زبان حال سے کہتی ہے مجھے کسی حکم سے کوئی سروکار نہیں ۔ میرے لیے تو میراا مام ہی سرکار ہے۔
مسعود صاحب!اگر کہیں آپ نے اہل حدیث نام خود کیوں رکھا ہے۔ میں کہتا ہوں کیا خود نام رکھنا جائز نہیں ۔ اگر جائز نہیں تو منع کی دلیل پیش کریں اور یہ آپ کبھی نہیں کر سکتے۔ اگر آپ کہیں اہل حدیث نام قرآن و حدیث میں نہیں ‘ اس لیے یہ نام رکھنا جائز نہیں‘ میں کہتا ہوں یہ کہاں لکھا ہے کہ جو نام قرآن و حدیث میں نہ ہو رکھنا جائز نہیں۔ قرآن و حدیث میں تو بلکہ نام رکھنے کی عام اجازت ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ نام اچھا ہو برا نہ ہو۔ حدیث میںہے اَحْسِنُوْا اَسْمَائَ کُمْ (اچھے نام رکھا کرو)
قرآن مجید میں ہے:{لاَ تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ }:49]الحجرات[11:
(برے نام نہ رکھا کرو)
حدیث میں ہے :کَانَ یُغَیِّرُ الْاِسْمَ الْقَبِیْحَ ( اگر نام برا ہوتا تو حضور ﷺ بدل دیا کرتے تھے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( ابوداؤد ‘ کتاب الادب ‘ باب تغیر الاسماء‘ ص 1584 رقم 4948)
(جامع الترمذی ‘ ابواب الادب‘ باب ما جاء فی تغییر الاسماء ‘رقم 2839۔۔ سلسلۃ الاحدیث الصحیحۃ 370/1 رقم 207)
اگر آپ کہیں دین اﷲ کا ہے ‘ اس لیے نام وہ ہونا چاہیے جو اﷲ رکھے ۔ ہمیں خود نام نہیں رکھنا چاہیے ‘ میںکہتا ہوں دین تو اﷲ کا ہے اس لیے اس نے دینی نام رکھ دیا۔ہم اور کوئی دینی نام نہیں رکھتے لیکن مذہب تو ہمارا ہے۔ کیوں کہ چلنا تو ہمیں ہے۔ جیسی چال اور جیسی راہ ہم اختیار کریں گے ویسا ہی ہم اس کا نام رکھیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی نام تو اﷲ نے رکھ دیا ۔ مذہبی نام اﷲ نے کوئی نہیں رکھا۔ اس کو لوگوں کے امتحان کے لیے ان کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔
{قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ ط فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ھُوَ اَھْدٰی سَبِیْلاً}
:17] بنی اسرائیل [84:
جو محمدی راہ اور محمدی چال چلتا ہے‘ وہ محمدی نسبت پسند کرتا ہے اور جو بھیڑ چال چلتا ہے یا اپنی مرضی کرتا ہے وہ کوئی اور نام پسند کرتا ہے۔ اس میں ہمارا امتحان ہے کہ ہم کیسی راہ اور کیسی چال اختیار کرتے ہیں اور پھر اس کا کیا نام رکھتے ہیں۔ دین کے بارے میں اﷲ نے فرمایا ہے:
{ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اﷲِ الْاِسْلاَمُ }:3]آل عمران[19: {وَ مَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ }:3]آل عمران[85:
(یعنی اﷲ کے ہاں دین اسلام ہے جو بدلا نہیں جا سکتا)
لیکن مذہب کے بارے میں فرمایا:
{ لِکُلٍّ جَعْلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْھَاجًا }:5]المائدہ[48: {وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا}:22]الحج[34:
مذہب ہر امت کا علیحدہ علیحدہ ہے اس لیے ان کے نام بھی مختلف ہیں۔ دین پہلی امتوں کا بھی اسلام تھا اور ہمارا بھی اسلام ہے۔ اسلام کی نسبت سے وہ بھی مسلمین تھے ‘ ہم بھی
مسلمین ہیں۔‘ لیکن مذاہب اور شرائع کے اختلاف سے وہ یہودو نصاریٰ اور اہل کتاب تھے ہم محمدی اور اہل سنت اور اہل حدیث ہیں۔ ہمیں اپنے مذہب کے نام رکھنے کا حق ہے۔ ان کو اپنے مذہب کے نام رکھنے کا حق تھا۔ اس لیے ان کا مذہبی نام اور تھا اور ہمارا اور ہے۔ اس اختلاف مذاہب اور ان کے نام رکھنے میں ہمارا امتحان ہے۔
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَلَوْ شَائَ اﷲُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَا اٰتَاکُمْ فَاسْتَبِقُوْا الْخَیْرَاتِ }:5]المائدہ[48:
یعنی اﷲنے جو ہم سب کا مذہب ایک نہیں بنایا تواس میں بڑی حکمت امتحان لینا ہے۔ لہذا ہمیں اچھی راہ اختیار کرکے اور اس کااچھا نام رکھ کرامتحان پاس کرنے کی فکر کرنی چاہیے اور اچھی راہ نبی کی راہ ہوتی ہے اور ہمارے لیے اچھی راہ محمدی راہ ہے۔ جس کو سنت رسولؐ کہتے ہیں۔ اور اس کا اچھا نام اہل سنت اور اہل حدیث ہے۔ جس میں نسبت رسول ﷺ کی طرف ہو۔
مسعود صاحب!اگر آپ کہیں کہ جب اﷲ نے مسلمین نام رکھ دیا تو اب اہل حدیث نام رکھنے کا کیا فائدہ ؟ میں کہتا ہوں جب حاکم صرف اﷲ ہے تو اَطِیْعُوا اﷲَ کہنے کے بعد اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ کہنے کا کیا فائدہ ؟ جو فائدہ اَطِیْعُوا اﷲَ کے بعداَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ کا ہے وہی فائدہ مسلم کے بعد اہل حدیث کا ہے۔ مسلم کا نام فرماں برداری کا تقاضا کرتا ہے اہل حدیث کا نام بتاتا ہے فرماں برداری ایسے جیسے رسول اﷲ ﷺ کی حدیث بتاتی ہے۔
مسعود صاحب اگر آپ کہیں اہل حدیث نام سے فرقہ بنتا ہے ‘ میں کہتا ہوں فرقہ اس نام سے بنتا ہے جو اسلام کا مخالف ہو ‘ جو نام اسلام کا موضح ہو اس سے فرقہ نہیں بنتا۔ اہل حدیث نام فرقہ اس وقت بنتا جب حدیث اﷲ رسول کی نہ ہوتی ۔ جب حدیث کہتے ہی اﷲ رسول کی بات کو ہیں تو مذہب اہل حدیث تو عین اسلام ہے‘ کیوں کہ اسلام نام ہی نبی ﷺ کی پیروی کا ہے اور نبی کی پیروی اس کی سنت پر عمل کرنے سے ہی ہو سکتی ہے۔ اور سنت کا پتا نبی کی حدیث سے ہی لگ سکتا ہے۔ اس لیے اہل حدیث بنے بغیر کوئی آدمی صحیح مسلم بن ہی نہیں سکتا بلکہ اصلی مسلم ہوتا ہی اہل حدیث ہے۔
اگر آپ کہیں مسلم کے بعد کوئی دوسرا نام رکھنا بدعت ہے اس لیے اہل حدیث نام رکھنا جائز نہیں۔ میںکہتا ہوں اگر مسلم کے بعد کوئی نام رکھنا بدعت ہے تو یہودو نصاریٰ اور اہل کتاب اور اہل انجیل جیسے نام جو قران مجید میں بکثرت استعمال ہوتے ہیں کس نے رکھے ؟ اگر یہ نام بھی اﷲ ہی نے رکھے تو اولاً اس بات کا ثبوت قرآن و حدیث سے دیں‘ ثانیاً اس سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ مسلم کے بعد کوئی دوسرا نام رکھنا منع نہیںکیوں کہ اﷲ نے خود یہ نام رکھے اور اگر یہ نام ان امتوں نے خود رکھے تو کیا اﷲ رسول نے ان کے اس فعل پر انکار کیا کہ انھوں نے مسلم کے بعد اس نام کو رکھنے کی بدعت کیوں کی۔ اگر اﷲنے ان کی مذمت نہیں کی بلکہ ان ناموں کو قبول کر کے مقام مدح میں استعمال کیا تو پھر آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مسلم کے بعد کوئی نام رکھنا بدعت ہے۔
مسعود صاحب اگر مسلم کے بعد کوئی دوسرا نام رکھنا بدعت ہے تو کیا صحابہ نام بدعت ہے ؟ کیا صحابی بھی ایک وصفی اور امتیازی نام نہیں۔ اگر ہے اور یقینا ہے اور یہ بدعت نہیں تو اہل حدیث نام جو صحابی کا ہم معنی ہے کیسے بدعت ہو گیا۔
اگر آپ کہیں اﷲ نے سماکم صرف مسلمین کے ساتھ کہا ہے اور کسی نام کے ساتھ سماکم نہیں کہا ‘ اس لیے نام صرف ایک مسلمین ہی ہے جو اﷲنے رکھا ہے باقی اور کوئی نام نہیں۔ میں کہتا ہوں سماکم سے مسلمین نام کا مہتم بالشان ہونا ثابت ہو جاتا ہے مسلمین کے سوا اور ناموں کی نفی نہیں ہو سکتی۔ کیوں کہ مسلمین اسلام کی نسبت سے خود ایک وصفی نام ہے اور وصفی نام کئی ہو سکتے ہیں۔ جب اﷲ تعالیٰ خود قرآن میںمسلم کے علاوہ اور بہت سے وصفی ناموں سے موسوم کرتا ہے تو آ پ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مسلمین کے سوا اور کوئی نام نہیں۔ چنانچہ سورہ الاحزاب کی آیت :{ اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ } اس پر شاہد عدل ہے۔ اسی طرح حزب اﷲ اور اولیاء اﷲ وصفی نام ہیں۔ اگر آپ کہیں کہ یہ نام تو مسلمین کے صفاتی نام ہیں جیسا کہ آپ نے اپنے رسالہ ’’ مذہب اہل حدیث کی حقیقت‘‘ میں لکھا ہے۔ میں کہتا ہوں یہ آپ کی غلطی ہے۔ سورہ الاحزاب کی اسی آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ مسلمین کے صفاتی القاب نہیں‘ بلکہ مسلمین خود ان کی طرح کا ایک صفاتی لقب ہے۔ کیوں کہ آیت مذکورہ میںمؤمنین قانتین ‘ صادقین وغیرہ تمام صفاتی نام مسلمین پر معطوف ہیں محمول نہیں۔ جب معطوف ہیں تو ثابت ہو گیا کہ یہ سب ایک ہی طرح کے صفاتی نام ہیں آپس میں موضوع پر محمول نہیں کہ مسلمین کے صفاتی القاب بن جائیں۔
اگر آپ کہیں سماکم کا لفظ تو اﷲ نے صرف مسلمین کے ساتھ لگایا ہے اور کسی نام کے ساتھ سماکم کا لفظ نہیں لگایا۔ میں کہتا ہوں ترمذی شریف میں مومنین اور عبادﷲ کے ساتھ بھی سماکم کا لفظ ہے۔ چنانچہ حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں:
((فَادْعُوْا بِدَعْوَی اﷲِ الَّذِیْ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ عِبَادَاﷲِ ))
اس حدیث میں جیسے مسلمین سماکم کا مفعول ہے۔ ایسے ہی مومنین اور عباداﷲ بھی ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جیسے اﷲ نے مسلمین نام رکھا ہے ایسے ہی اﷲ نے مومنین اور عباداﷲ بھی نام رکھے ہیں۔ اگر آپ کہیں سماکم کا لفظ جیسے قرآن مجید میں مسلمین کے ساتھ ہے ویسے مومنین اور عباداﷲ کے ساتھ کیوں نہیں۔میں کہتا ہوں جب قران مجید میں اﷲ ان ناموں سے اپنے بندوں کو بلاتا ہے تو ان ناموں کے ساتھ سماکم لگانے کی کیاضرورت ۔ بلانے سے ہی یہ واضح ہو گیا کہ یہ نام ہیں۔ سماکم کی ضرورت تو مسلمین کے نام
ِکے ساتھ تھی کیوں کہ اس نام سے اﷲ نے کسی کو بلایا نہیں۔
قرآن مجید میں :{ یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔۔۔ } ۔۔ { اَیُّھَا الْمُؤْمِنُوْنَ ۔۔۔ } ۔۔{یٰا عِبَادِیْ۔۔۔ } تو کئی جگہ ہے۔ اَیُّھَا الْمُسْلِمُوْنَ کہیں نہیں۔
مسعود صاحب! معلوم ایسا ہوتا ہے کہ آپ ناموں کے فلسفے سے بالکل ناواقف ہیں۔ نام رکھنے اور ناموں کے سمجھنے میں آپ بہت کچے ہیں بلکہ بچے ہیں جب ہی تو بچگانہ
حرکتیں کرتے ہیں اور اہل حدیث کے نام پر اعتراض کرتے ہیں اور خود اپنی جماعت کا نام جماعت المسلمین رکھتے ہیں۔ اگر آپ علم میں پختہ ہوتے اور سمجھ میں کشتہ ہوتے تو آپ ایسی حرکتیں نہ کرتے۔
مسعود صاحب!اول تو کوئی نئی مذہبی جماعت بنانی نہیں چاہیے ‘ لیکن اگر بہت تحریک ہوتی ہو تو کم از کم جماعت کا نام ایسا نہ ہو جس سے آدمی خواہ مخواہ میاں مٹھو بنے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(صحیح ابن خزیمۃ ‘ کتاب الصیام ‘ باب ذکر تمثیل الصائم فی طیب ریحہ بطیب ریح المسک اذ ھواطیب الطیب 196/3 رقم 1895۔۔ جامع ترمذی کتاب الادب ‘ابواب الامثال‘ باب جاء فی مثل الصلوۃ ‘ والصیام والصدقہ‘ ص 1939 رقم (2863:
مسعود صاحب! ایسے تمام نام جن میں اپنی مدح کا پہلو نکلتا ہو یا جن میں اپنی پاک بازی اور بڑائی کا اظہار ہوتا ہو یا اپنے کسی عمل کا سراہنا پایاجاتا ہو {فَلاَ تُزَکُّوْا اَنْفُسَکُمْ} :53]النجم [32:کے تحت آنے کی وجہ سے شرعاً ناجائز ہیں۔ ان سے پرہیز لازمی ہے۔ نام تو مسلمات پر ہی رکھے جائیں تو بہتر ہے ان میں نہ شیخی کا رنگ ‘ نہ فخر کازنگ۔ صفات اور اعمال پر نام رکھنے میں بڑی حماقتیں ہیں۔ آپ پہلی امتوں کے نام دیکھیں وہ یا تو مسلمات پر مبنی ہیں مثلا اہل کتاب ‘ اہل انجیل وغیرہ یا نسبتوں پر استوار مثلاً یہود و نصاریٰ ۔ بعض لوگ بے سمجھی سے صفاتی نام رکھتے ہیں اور فخریہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی جماعت کا نام قرآنی اور حدیثی رکھا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ قرآن کے صفاتی نام ہمارے رکھنے کے لیے نہیں بلکہ ہمیں ترغیب دلانے کے لیے ہیں تاکہ ہم ویسے بن کر اﷲ کے ہاں ان القابات کے مستحق ہوں۔ جماعت المسلمین ‘ جماعت المومنین‘ جماعت الشاہدین‘ جماعت المفلحین ‘ جماعت غربا‘ حزب اﷲ اور اولیاء اﷲ کی قسم کے اپنی جماعتوں کے نام رکھنا کوئی دانش مندی نہیں بلکہ یہ ہچھلا پن ہے۔ جس کو سنجیدہ اور متین لوگ پسند نہیںکرتے۔ ایسے ناموںمیں اپنی فوزو فلاح کا اظہار اور فخر وتعلی کا رنگ غالب ہے۔
مسعود صاحب! نیا نام خواہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو جب بھی رکھا جائے گا وہ کوئی نہ کوئی جدت ضرور اپنے ساتھ لائے گا‘ جس سے فرقہ بازی اور گمراہی پیدا ہوگی۔ نام تو وہی کافی ہیں جوسلف سے چلے آ رہے ہیں۔ مثلا محمدی‘ اہل سنت‘ اہل حدیث وغیرہ اور جماعت بھی وہی کافی ہے جو شروع سے چلی آ رہی ہو نئے نام یا نئی جماعت کی اب کیا ضروت ہے۔ نئے نام سے اب جو بھی جماعت بنے گی وہ کوئی نہ کوئی فتنہ ضرور ساتھ لائے گی۔
مسعود صاحب!آپ اپنے آپ کو ہی دیکھ لیجیے۔ اچھے بھلے اہل حدیث تھے اور تخریب کاری سے بچے ہوئے تھے ۔ جب سے جماعت المسلمین بنائی ہے دماغ ہی خراب ہو گیا ہے۔ اب نام قرآن و حدیث کا لیتے ہیں‘ لیکن مخالفت ان کی کرتے ہیں جو قرآن و حدیث والے ہیں۔ صرف اسی وجہ سے کہ اب آپ کو اپنی پیدا کردہ جماعت کا پاس ہے۔ آپ اسے کامیاب بنانا چاہتے ہیں۔ جماعت غربا والوں نے غربا اہل حدیث کے نام سے ایک نئی جماعت بنائی جس سے اہل حدیثوں کے ہاتھوں اہل حدیثوں کو نقصان پہنچا۔ اس جماعت سے جماعت بنانے والوں کو کوئی ذاتی فائدہ ہوا ہو تو ہوا ہو جماعت اہل حدیث کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بلکہ جماعت میں پھوٹ ہی پڑی ۔ اس لیے ہر نئی جماعت اور نئے نام سے بچنا چاہیے۔ اس میںجماعت کا بھی فائدہ ہے اور اپنا بھی بچاؤ ہے۔ اب جماعتوں کی ضرورت نہیں۔ اب تو تنظیم اور اصلاح و احیا کی ضرورت ہے۔ اگر کام کرنا ہے تو بغیر نئی جماعت بنائے اور نیا نام رکھے بھی کام ہو سکتا ہے ۔اصل کام تو ہم لوگ کرتے نہیں۔ جب ابال آتا ہے تو نئی جماعت بنا کر علیحدہ ہونے کی کرتے ہیں۔ اس سے اپنی دکان داری تو چل جاتی ہے لیکن جماعت کا کچھ نہیں ہوتا۔ فعال قسم کے لوگ نکل جاتے ہیں۔
اگر آپ کہیںجیسا کہ آپ نے اپنے رسالے میںلکھا ہے کہ نام کے اچھا ہونے کے لیے یہی کافی نہیں کہ اس کے معنی بہت اچھے ہوں بلکہ نام کے اچھے ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی تائید میںآیت یا حدیث ہو۔ میں کہتا ہوں قرآن و حدیث میں تو یہ اصول ہے نہیں۔ آپ نے کہاں سے لے لیا۔ آپ نے ناموں کو نیکیوں پر قیاس کیا ہے جیسا کہ آپ نے اپنے رسالے میںلکھا ہے۔ حال آنکہ یہ قیاس مع الفارق ہے۔ نیکیاں بتلانے کے لیے تو پیغمبر مبعوث ہوتے ہیں۔ نیکیوں کی تکمیل تو ان کے فرائض میں شامل ہوتی ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
((اِنَّ اﷲَ بَعَثَنِیْ اِتْمَامَ مَکَارِمِ الْاَخْلَاقِ وَ کَمَالِ مَحَاسِنِ الْاَعْمَالِ))
کیا نام رکھنا اور ناموں کی تکمیل بھی انبیا کے فرائض میںشامل ہے۔ مسعود صاحب
ناموں کے بارے میں تو آپ نے عام اجازت دی ہے۔ صرف برے نام سے منع کیا ہے۔ آپ نے اپنی طرف سے یہ مسئلہ بنا دیا کہ نام وہ ہو جو قرآن و حدیث میں ہو۔ مسعود صاحب! آپ کا بھی یہ عجیب حال ہے یا تو قیاس کو سرے سے ناجائز بتا تے ہیں اور اہل حدیثوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ وہ قیاس کرتے ہیں یا پھر خود ابلیسی قیاس کرتے ہیں۔
مسعود صاحب! آپ نے اپنے کئی رسالوںمیں لکھا ہے کہ ’’اہل حدیث‘‘ حضرات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( مؤطا امام مالک‘ کتاب الجامع‘ باب ما جاء فی حسن الخلق ۔۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 75/1 رقم 45)
کوشش کرتے ہیں کہ اپنے نام کی وجہ تسمیہ بیان کریں۔ ہم ان سے وجہ تسمیہ نہیں پوچھتے۔ ہم تو یہ پوچھتے ہیں کہ آپ کا یہ نام کس نے رکھا اور کب رکھا؟
میںکہتا ہوں اہل حدیث حضرات بہت سمجھ والے ہیں جو اپنے نام کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہیں کیوں کہ ایسے ناموں میں وجہ تسمیہ ہی اصل چیز ہے اور یہی مقصود ہوتی ہے۔ آپ بہت بے سمجھ ہیں جو پوچھنے والی چیزوجہ تسمیہ تو پوچھتے نہیں ۔ یہ پوچھتے ہیں کہ یہ نام کس نے رکھا اور کب رکھا۔
مسعود صاحب! آپ سے تو وہ ممتحن حضرات ہی عقل والے تھے جنھوں نے ایک دفعہ جغرافیہ کا پرچہ سیٹ کیا تو اس میں یہ سوال دے دیا کہ پنجاب کی وجہ تسمیہ بیان کرو اور بتاؤ کہ یہ نام کس نے رکھا اور کب رکھا؟ پنجاب کی وجہ تسمیہ تو سب کو معلوم تھی کہ پنجاب پنج آب سے مرکب ہے‘ جس کے معنی ہیں پانچ پانی۔ جس سے مراد پانچ دریاؤں والا۔ چوں کہ پنجاب میں پانچ دریا بہتے ہیں اس لیے اس کو پنجاب کہتے ہیں۔ پنجاب کی وجہ تسمیہ کے سوال پر
ِتو کوئی نہ بولا ۔ کیوں کہ یہ سوال معقول تھا لیکن پنجاب کا نام کس نے رکھا اور کب رکھا اس پر سارے ہی تلملا ئے۔ کیوں کہ یہ سوال نامعقول تھا۔ ہر ایک ہی پوچھنے لگا کہ یہ پرچہ کس نے بنایا ہے۔ ۔۔ دریافت کرنے پر پتا لگا کہ پرچہ بنانے والے کوئی سکھ سردار جی ہیں۔ سکھ سردار جی کا نام سن کر سارے ہی چپ ہو گئے کہ جب وہ ہیں ہی سردار جی تو پھر ان سے کیا کہنا؟
مسعود صاحب!آپ جیسے عقل والے دنیا میں بہت کم پیدا ہوتے ہیں ۔ اگر پیدا ہو جائیں تو پھر وہ امام اور خلیفہ ہی بنتے ہیں۔ اس سے کم پر وہ راضی نہیں ہوتے وہ راضی بھی کیسے ہوںعقل کے امام بھی ہوتے ہیں اور عقل کا امام اگر کم از کم امام المسلمین بھی نہ بنے تو اور کیا بنے؟
مسعود صاحب!آپ کا تیس مارخاں سوال یہی ہوتا ہے کہ اہل حدیث نام کس نے رکھا اور کب رکھا؟ آپ یہ سوال ایسے وثوق و اعتماد سے کرتے ہیں جیسے آپ کو اپنے مسلمین نام کی تاریخ پوری صحت کے ساتھ یاد ہے کہ کب اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسعود صاحب کا نام مسلم رکھا۔ پیدائش سے پہلے یا بعد میں ‘ وہ کون سی صدی تھی اور کیا سن تھا ور کیا وقت اور دن تھا؟ مسعود صاحب اگر آپ اپنے مسلم نام کی تاریخ نہ بتا سکیں تو آپ کو کیا حق پہنچتا ہے کہ آپ ایسے سوال اہل حدیث سے کریں۔
مسعود صاحب! اہل حدیث ٹھیک ہے یا نہیں اگر ٹھیک نہیں تو اس میں خرابی کیا ہے ۔ اگر ٹھیک ہے تو پھر آپ کو تکلیف کیا ہے ؟ مسعود صاحب !ایسے ناموں میں دیکھنے کی بات یہ نہیں ہوتی کہ یہ نام کس نے رکھا اور کیوں رکھا۔ دیکھنے کی بات تو یہ ہوتی ہے کہ یہ نام کیسا ہے ‘ جائز ہے یا ناجائز۔ موزوں ہے یا غیر موزوں ۔اگر جائز اور موزوں نام کوئی کافر بھی رکھ دے تو اﷲ اسے بھی قبول کر لیتا ہے۔ چہ جائیکہ کسی نیک ہستی نے وہ نام رکھا ہو ۔ مسعود صاحب آپ بتائیں رسول اﷲ ﷺ کا نام محمد کس نے رکھا؟ اگر یہ اﷲ نے رکھا تواس کا ثبوت قرآن و حدیث سے دیں۔ اگر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر والوں نے رکھا تو اﷲ نے ان کا رکھا ہوا نام اپنے ہونے والے نبی کے لیے کیوں قبول کیا۔ اگر آپ کے گھر والے عبدالعزّیٰ یا کوئی اور غلط قسم کانا م رکھ دیتے تو کیا اﷲ پھر بھی ان کے رکھے ہوئے نام کو قبول کر لیتا ۔ جب اﷲ نے کافروں کے رکھے ہوئے نام کو قبول کر کے محمد رسول اﷲ کلمہ بنا دیا۔ اس وجہ سے کہ محمد نام اچھا ہے۔ اگرچہ کافروں نے رکھا ہے تو پھر مسعود صاحب آپ یہ لایعنی سوال کیوں کرتے ہیں‘ کہ اہل حدیث نام کس نے رکھا اور کب رکھا؟ یہ نام کسی نے کبھی بھی رکھا ہو۔ آپ یہ دیکھیں یہ نام اچھا ہے یا نہیں؟ اگر اچھا ہے تو اسے قبول کریں اور توبہ کرکے اہل حدیث ہو جائیں۔ اگر اچھا نہیںتو بتائیں کہ اس میں کیا خرابی ہے ۔ ہم آپ کو جواب دیں۔
مسعود صاحب! آپ ہزار کوشش کریں آپ اہل حدیث نام میں کوئی خرابی نہیںنکال سکتے۔ فرقہ واریت اس میں نہیں کیوں کہ وہ خالص اور مکمل اسلام پر دال ہے۔ اجنبیت اس میں نہیں۔ کیوں کہ وہ قرآنی القاب۔اہل کتاب اہل انجیل کی پوری نظیر ہے۔ مسعود صاحب!مذہب کا بہترین نام وہ ہوتا ہے جو دین اسلام کا جامع اور ہم معنی ہو۔ جو اسلام کا ہم معنی نہ ہو وہ صحیح نہیں ہو سکتا۔ جب اسلام ہی دین ہے تو مذہبی نام کا اسلام کے مترادف ہونا ضروری ہے۔ اسلام دین فطرت ہے اور خلاف فطرت نام کیسے صحیح ہو سکتا ہے ؟
اسلام نظام کائنات ہے۔ اس لیے کائنات کا ذرہ ذرہ شعوری یا غیر شعوری طور پر مسلم ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
{وَلَہ‘ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّ کَرْھًا}
:3]آل عمران[83:
{وَ اِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ }:17]الاسراء[44
{سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ }:61]صف[1:
کائنات کے ذرے ذرے کا مسلم ہونا اس کی فطرت ہے۔ اس طرح ہر انسان کا مسلم ہونا بھی اس کی فطرت ہے۔ اسی لیے مسلم نام فطری نام ہے۔ {ھُوَ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔
{ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } کی تفسیر میںاختلاف ہے۔ بعض تو سماکم کی نسبت ابراہیم علیہ السلام کی طرف کرتے ہیں‘ اور {مِنْ ذُرِّیَّتِنَا اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکْ } کا حوالے دیتے ہیں اور بعض اس کی نسبت اﷲ کی طرف کرتے ہیں۔ بہرکیف اگر اس کی نسبت اﷲ کی طرف ہے تو یہ نام ازل سے ہے ۔ جیسے اسلام دین فطرت ہے ۔ ایسے ہی مسلم نام ہے۔ جب اﷲ کا نظام جو سب کائنات کے لیے ہے‘ اسلام ہے۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
{اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاﷲِ الْاِسْلَامُ }
تو اس نظام کے اندر رہنے والے کا نام مسلم ہی ہو سکتا ہے اور یہی اﷲ کا تسمیہ ہے۔ اﷲ کے نظام میں جو بھی پیدا ہوتا ہے وہ تکوینی طور پر مسلم ہی پیدا ہوتا ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ اِلاَّ یُّوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ ))
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( صحیح البخاری‘ کتاب الجنائز ‘ باب اذا اسلم الصبی فمات ھل یصلی علیہ ؟ و ھل بعرض الصبی الاسلام ص 106-105 رقم 1359-1358۔۔ صحیح مسلم‘ کتاب القدر ‘ باب معنی کل مولود یولد علی الفطرۃ و حکم موتی اطفال الکفار واطفال المسلمین‘ ص 1141 رقم 22۔۔ مسند الحمیدی ‘باب الجہاد ‘ ص 311 رقم 1113۔۔ مسند احمد 347/2‘ رقم 8357 ۔۔ ارواء الغلیل 50-49/5 رقم 1220)
یعنی جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے ‘ وہ فطرت الٰہی یعنی اسلام پر ہی پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اس کو یہودی ‘ عیسائی‘ یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔
اس کے بعد رسول اﷲ ﷺ نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی۔
{ فِطْرَتَ اﷲِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اﷲِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ }:30]الروم [30:
یعنی جس فطرت پر اﷲ نے تمھیں پیدا کیا ہے ‘ اس پر پکے رہو‘ ا س کو تبدیل نہ کرو وہ فطرت ہی دین حق ہے۔ لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے۔ مسلم ایک فطری نام ہے۔ {سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } سے یہ فطری نام ہی مراد ہے۔ {سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ } کہنے سے اسم بامسمّی بننے کی ترغیب ہے۔ جس کی وضاحت { فِطْرَتَ اﷲِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اﷲ }نے کر دی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اﷲ نے تمھیںتکوینی طور پر مسلم پیدا کیا ہے تو اب تم اپنے عمل سے بھی مسلم بن کر دکھاؤ۔ جب انسان دنیا میں آ جاتا ہے پھر جیسا بننا چاہتا ہے ویسا ہی مذہب اختیار کر لیتا ہے۔ویسا ہی اس کا نام رکھتا ہے۔ اگر اس کا اپنا مذہب اور اس کا نام اﷲ کے دین کے مطابق ہوتا ہے وہ صحیح مسلم ہوتا ہے ورنہ گمراہ ۔ اگر اس نے اسلام کی حقیقت کو سمجھ لیا ہوتا ہے تو وہ ایسا مذہب پسندکرتا ہے اور اس کا ایسا نام رکھتا ہے‘ جو اصل اسلام کو واضح کرتا ہے اور اسی حقیقت کا آئینہ دار ہوتا ہے‘ جیسا کہ مذہب اہل سنت‘ یا اہل حدیث۔ اگر وہ اسلام کی حقیقت کو نہیں سمجھتا تو وہ کوئی غیر اسلامی نام تجویز کرتا ہے۔ مختلف شخصیتوں کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنے والے یا غلط قسم کے نام رکھنے والے اگر اسلام کی حقیقت کو سمجھتے تو کبھی ایسے نام نہ رکھتے۔ اس ناسمجھی
ِ سے ہی کوئی حنفی بن گیا‘کوئی شافعی ‘ کوئی دیوبندی بن گیا ‘ کوئی بریلوی اور کوئی شیعہ بن گیا۔ کوئی خارجی ۔ غرض یہ کہ کوئی کچھ بن گیا‘ کوئی کچھ بن گیا۔ یہ نہ دیکھا کہ اسلام کی حقیقت اور اصلیت کیا ہے ؟ اگر وہ اسلام کی حقیقت کو سمجھتے ہوتے تو کبھی اﷲ کے رسول ﷺ کے سوا کسی اور طرف نسبت نہ کرتے۔ حقیقت ہی کی پیروی ہے تو اپنی نسبت اپنے نبی ؐ کی طرف ہی رکھتے۔ محمدی کہلاتے ‘ یا اہل سنت کہلاتے یا اپنے اصل قرآن و حدیث کی طرف نسبت کرکے اہل حدیث کہلاتے۔ حنفی ‘ وہابی وغیرہ کچھ نہ کہلاتے۔
مسعود صاحب!آپ کہتے ہیں کہ مسلم کے بعد اور کوئی نام نہیں ہونا چاہیے‘میں کہتا ہوں اور نام کے بغیر تو چارہ ہی نہیں۔ آپ کی یہ بات توایسی ہی بے وقوفی کی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ جب اﷲ نے انسان نام رکھ دیا توا ب انسان کے بعد کوئی اور نام رکھنا ہی نہیں چاہیے۔ حال آنکہ جب کوئی انسانی بچہ پیدا ہوتا ہے تو فورا ً اس کا نام رکھا جاتا ہے۔ مسعود صاحب!جب انسان مختلف ہیں تو نام مختلف کیوں نہ ہوںگے۔ اسی طرح جب مذاہب مختلف ہیں تو نام مختلف کیوں نہ ہوں گے۔ جب مذہب مختلف ہوگا تو نام کو مختلف ہونا یقینی ہے۔ جب حقیقت بدلے گی تو نام ضرور بدلے گا۔بلکہ حقیقت تو درکنار معمولی سا رنگ بدل جانے سے بھی نام بدل جاتا ہے۔ ہر رنگ کا نام مختلف ہے۔مسعود صاحب!مسمّی مختلف ہو اسم وہی رہے وہ کون سا فلسفہ ہے؟ مسمیات کے ساتھ اسما کا بدلناتو قدرتی ہے۔
مسعود صاحب!اگر آپ کہیں نام وہ لوگ رکھیں جو اختلاف کرکے نیا فرقہ بنائیں ‘ ہم جو اصل اسلام پر ہیں تو ہم ’’مسلم‘‘ کے سوا اور کوئی نام کیوں رکھیں؟ ہمیں وہی نام رکھنا چاہیے جو اﷲ نے رکھا ہے ۔ میں کہتا ہوں پھر آدم علیہ السلام کا نام آدم کیوں رکھا گیا ؟ نام ان کے رکھے جاتے جو بعد میں پیدا ہوئے۔ آدم علیہ السلام جو اصلی اور پہلے انسان تھے ان کا نام تو انسان ہی رہنے دیا جاتا‘ ان کا نام تو آدم نہ رکھا جاتا ‘ لیکن ہوا یہ کہ آج دنیا میں فقط انسان نام کا کوئی بھی نہیں۔ حتیٰ کہ پہلے انسان کا نام بھی آدم( علیہ السلام) ہے۔اﷲ کے رکھے ہوئے نام انسان پر اکتفا کسی نے بھی نہیں کیا۔ اب سب انسان بھی ہیں لیکن ان کے نام اور بھی ہیں۔ انسان نام اﷲ نے رکھا‘ دوسرے نام لوگوں نے خود رکھے۔ اسی طرح مسلم نام اﷲ نے رکھا ہے ‘ باقی نام خود لوگوں نے۔ کیوں کہ اسلام دین ہے اور وہ اﷲ کا نظام ہے جو ساری کائنات کے لیے ہے۔ اسی لیے دین کا نام اﷲ نے رکھا ہے باقی مذاہب ہیں۔ مذاہب کے نام لوگوں نے خود رکھے ہیں۔ اس نام رکھنے میں لوگوں کا امتحان ہے۔اسی لیے اﷲ نے مذہب کا نام خود نہیں رکھا۔ دین کانام خود رکھا ہے۔لوگوں کے نام خود رکھنے سے پتا چلتا ہے کہ آیا ان کا مذہب اﷲ کے دین کے مطابق ہے یا نہیں۔ اسی لیے اﷲ نے نظام ہی ایسا بنایا ہے کہ ہر فرقہ اپنا نام خود تجویز کرتا ہے۔ مسلم نام پر اکتفا کوئی بھی نہیں کرتا۔
مسعود صاحب! آپ کا یہ کہنا غلط ہے کہ نام سے فرقہ بنتا ہے۔ اس لیے مسلم کے سوا کوئی نام نہیں رکھنا چاہیے۔ میں کہتا ہوں نام سے کوئی فرقہ نہیں بنتا بلکہ فرقہ سے نام بنتا ہے۔ پہلے فرقہ بنتا ہے پھر نام رکھا جاتا ہے۔ اس لیے نام رکھنا جرم نہیں بلکہ فرقہ بنانا جرم ہے۔ مسعود صاحب!آپ ہی بتائیں کہ پہلے فرقہ بنتا ہے یا پہلے نام رکھا جاتا ہے۔ پہلے بچہ پیدا ہوتا ہے یا پہلے نام رکھا جاتا ہے ؟ علٰیحدگی کا تصور ہوگا تو علٰیحدگی نام ہوگا ۔ پہلے اختلاف ہوتا ہے اور پھر وہ اختلاف علٰیحدگی کی شکل اختیارکرتا ہے۔ پھر نام اختیار کیا جاتا ہے۔تاکہ امتیاز ہو اور یہی نام لوگوں کے اصل مذہب کی عکاسی کرتا ہے۔ زبان سے مسلم ہونے کا دعویٰ ہر ایک ہی کرتا ہے‘ لیکن اس کا اپنا مذہب اور اس مذہب کا نام اس کے اسلام کی قلعی کھولتا ہے کہ وہ کیسا ہے ؟ اصلی ہے یا نقلی ؟ کھرا ہے یا کھوٹا؟ اﷲ کی منشا کے مطابق ہے یا اس کی اپنی مرضی کے مطابق؟ اس لیے اپنے پسند کردہ مذہب کا خود نام رکھنا ضروری ہے۔ فقط مسلم نام ہی کافی نہیں۔ مسلم تو نام فطرت ہے۔ اس میں انسانی کدو کاوش ‘ پسند و ناپسند کا کوئی دخل نہیں۔ یہ تو سب کے لیے ہے‘ کیوں کہ یہ اﷲ نے رکھا ہے اور سب کی پیدائش سے پہلے کا ہے۔ لیکن چوں کہ دنیا میںاﷲ کو امتحان لینا ہے ‘ اس لیے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
{فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْمِنُ وَّ مَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ}:18]الکہف[29:
حال آنکہ اﷲ نے پیدا سب کو مسلم ہی کیا ہے ‘ لیکن وہ کہتا ہے جس کی مرضی مومن بنے ‘ جس کی مرضی کافر‘ کیوں کہ اس کو تو امتحان لینا ہے اور امتحان نام میں بھی ہے اور کام میں بھی۔ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ و اختیار دیا ہی امتحان کے لیے ہے کہ وہ جو مرضی نام رکھے ‘ جو مرضی کام کرے ۔ اگر اﷲ کو ناموں میں امتحان نہ لینا ہوتا تو اﷲ جب کسی بچے کو پیدا کرتا تو نام سمیت پیدا کرتا‘ لیکن اﷲ نے ایسا نہیںکیا۔ ایک نام تو اﷲ نے رکھ دیا‘ دوسرا نام انسانوں کی مرضی پر چھوڑ دیا‘ کہ وہ اپنی مرضی سے رکھیں۔ خدا دیکھنا چاہتا ہے کہ کون عبداﷲ نام رکھتا ہے اور کون عبدالرسول ۔ کون اﷲ بخش بنتا ہے اور کون نبی بخش۔ اسی طرح ایک نام اﷲ نے مسلم رکھ دیا جو اﷲ کے دین کا نام ہے ‘ ان کے مذہب کا نام ان کی مرضی پر چھوڑ دیا کہ وہ خود رکھیں ان میں ان کا امتحان ہے ۔ لہٰذا آج اس افتراق کے زمانے میں جو اپنا نام ’’مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ‘‘ کے مطابق رکھتے ہیں وہ پاس ہیں اور جو اس کے خلاف رکھتے ہیں وہ فیل ہیں۔ آپ اہل حدیث نام کا دوسرے ناموں سے مقابلہ کرکے دیکھ لیں۔ آپ کو اہل حدیث نام سے ہی معلوم ہو جائے گا کہ سوائے اہل حدیث کے اسلام کی حقیقت کو کسی نے بھی نہیں سمجھا۔ کسی نے محمدی نسبت سے انکار کر دیا ‘ حال آنکہ اس کے بغیر اسلام پورا ہی نہیں ہوتا۔کسی نے محمدی نسبت کا انکار تو نہیںکیا لیکن ساتھ ہی غیر نبی کی طرف منسوب ہو گئے ‘ کوئی حنفی بن گیا‘ کوئی شافعی ‘ کوئی شیعہ بن گیا ‘ کوئی خارجی۔ اس حقیقت کو صرف اہل حد یث نے ہی سمجھا ۔نسبت بھی نبی سے رکھی اورپیروی بھی اس کی کی ۔ نہ اس سے نسبت رکھے بغیر چارہ نہ اس کی پیروی کیے بغیر گزارہ۔ اسی لیے وہ اہل حدیث کہلاتے ہیں اور نبی کی حدیث کے مطابق سنت پر عمل کرتے ہیں۔
مسعود صا حب! آپ کہتے ہیں مسلم کے بعد کو ئی نام رکھنا جائز نہیں۔ میں کہتا ہوں کیا اﷲ ناموںمیں امتحان نہیں لیتا۔ اگر لیتا ہے تو پھر نام رکھنا جائز کیوں نہیں۔مسلم نام میں جو اس نے رکھا ہے مسلمانوں کا امتحان ہے نہ امتیاز اس مقصد کے لیے یقینا اور نام کی ضرورت ہے جس سے ہر ایک مذہب کا پتا چلے۔ ہر ایک کے پسندیدہ مذہب کا پتا اس کے رکھے ہوئے مذہبی نام اور عنوان سے ہی لگ سکتا ہے ۔ اسی وجہ سے اہلِ حق نے کبھی مذہبی نام رکھنے کو برا نہیں جانا۔ سب اہل حق و باطل اپنی اپنی جماعتوں کے نام خود ہی رکھتے آئے ہیں۔ فقط مسلم نام پر اکتفا کسی نے نہیں کیا۔ اپنے پسندیدہ مذہب کا توضیحی نام ہر ایک نے رکھا۔
مسعود صاحب! اگرآپ کہیں پھر صحابہ نے اپنا وضاحتی نام کیا رکھا ۔ میں کہتا ہوں ان کا وضاحتی نام ’’صحابہ‘‘ تھا۔ آپ ہی بتائیں کیا صحابہ ؓ امتیازی اور وضاحتی نام نہیں۔ کیا صحابہ کا لفظ یہ ظاہر نہیں کرتا کہ وہ سب کا ساتھ چھوڑ کر رسول اﷲ ﷺ کے ساتھی بنے۔ اور نبی کا ساتھ دینا ہی اصل اسلام ہے۔ نبی کی زندگی میں نبی کی ذات کا ساتھ دے کر زندگی کے بعد اس کی بات کا ساتھ دے کر زندگی میں ساتھ دینے والوں کو صحابی کہتے ہیں۔ زندگی کے بعد ساتھ دینے والوں کو اہل حدیث کہتے ہیں۔ مسعود صاحب اگر آپ حقیقت کو سمجھ جائیں تو کبھی یہ سوال نہ کریں کہ اہل حدیث کا نام قرآن وسنت میں دکھاؤ۔ ایسے نام جن میں ہمارا امتحان ہو وہ ہمارے رکھنے کے ہوتے ہیں۔ وہ اﷲ رسول نہیں رکھا کرتے۔ اس لیے ان کے قرآن و حدیث میں ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مسعود صاحب اہل حدیث کا نام قرآن و حدیث میںہونا اس لیے بھی نہیں بنتا کہ یہ لقب ہے اور لقب عام طور پر والدین نہیں رکھا کرتے ۔ یہ بعد میں پڑتا یا مشہور ہوتا ہے۔ جب کہ کوئی وصف بالفعل موجود ہوتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا نام ’’ اہل کتاب‘ ‘ بعد میں مشہور ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں وہ لوگ اس نام سے مشہور نہ تھے۔ اگرچہ وہ اہل کتاب پہلے بھی تھے کیوں کہ ان کو کتاب مل چکی تھی۔ مسعود صاحب! یہ آپ کی بہت بڑی نادانی ہے کہ آپ اہل سنت ‘ اہل حدیث ناموں کے قلب کو بھی مانتے ہیں اور پھر یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ یہ نام قرآ ن و حدیث میں دکھاؤ۔ حال آنکہ لقب اس وقت شہرت پکڑتا ہے جب کوئی وصف نمایاں ہوتا ہے رسول اﷲ ﷺ کے زمانہ میں حدیث کی یہ صورت جو آج ہے کہاں تھی۔ یہ صورت تو آپ کی زندگی کے بعد جب کہ احادیث کی تدوین ہوئی پیدا ہوئی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں تو آپ کی ذات امتیاز تھی۔ آپ کا ساتھ دینے والے مسلمان باقی سب کافر۔ آپ کی زندگی کے بعد آپ کی بات امتیاز ہو گئی جو آپ کی بات مانے وہ مسلم‘ باقی سب غیر مسلم ۔ جوں جوں فرقوں کا زور ہوتا گیا حق کا معیار آپ کی سنت اور احادیث بنتا گیا۔ اس طرح اہل سنت ‘اہل حدیث نام مشہور ہو تے گئے۔ اگرچہ صحابہ بھی اہل سنت ‘ اہل حدیث ہی تھے کیوں کہ وہ نبی کی سنت اور حدیث پر عمل کرتے تھے ‘لیکن جتنے یہ نام بعد میں مشہور ہوئے اتنے صحابہ کے زمانے میں مشہور نہ تھے۔ نہ اس طرح فقہیں مرتب تھیں‘ نہ اتنے فرقے تھے کہ امتیاز کے لیے ان ناموں کی ضرورت ہوتی ‘ لیکن ان ناموں کے مشہور نہ ہونے کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ یہ نام اس وقت نہ تھے۔ ان ناموں کا تعارف تھا جیسا کہ آنے والے حوالوں سے واضح ہوگا ‘ لیکن ان ناموں کی اتنی شہرت نہ تھی۔
مسعودصاحب!آپ کا یہ سوال کہ اپنا نام قرآن و حدیث میں دکھاؤ بالکل بوگس ہے اور آپ کی بے عقلی کی دلیل ہے ‘ لیکن اس سے ہمارے وہ اہل حدیث بڑے پریشان ہوتے ہیں جنھوں نے یہ نام ورثہ میں پایا ہے خود نہیں کمایا۔جنھوں نے اس کی حقانیت پر کبھی غور نہیں کیا۔ بعض اس کو قرآن و حدیث میں تلاش کرتے ہیں اور کوشش کرکے بڑے حوالے دیتے ہیں۔ اگرچہ ان حوالہ جات سے تو یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ نام اور یہ جماعت دونوں شروع ہی سے ہیں اور مسلسل چلے آ رہے ہیں۔ یہ سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا۔ ((لاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ )) کی مصداق یہی جماعت ہے جس کے تحت پہلے اہل حدیث صحابہ تھے ۔ آخری امام مہدی ؒاور عیسیٰ علیہ السلام ہوں گے لیکن یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہمارے امتیازی نام اہل حدیث ‘ اہل سنت اور محمدی وغیرہ خود اﷲ رسول نے رکھے ہیں۔ ان ناموں کے اشارے اور اشاروں میں بشارتیں تو موجود ہیں لیکن صراحتاً اﷲ رسول نے یہ نام رکھے نہیں۔ کیوں کہ مذہب کا کوئی خاص نام رکھنا حکمت کے خلاف تھا جس کی بحث پہلے ہو چکی ہے۔ ان ناموں کی مثال حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کی مثال ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے نام لے کر حضرت ابوبکر کو تو خلیفہ مقرر نہیںفرمایا کیوں کہ یہ حکمت کے خلاف تھا ‘ لیکن مختلف طریقوں سے بتلا دیا کہ میرے بعد خلیفہ یہی ہوں گے۔
جیسے نام لے کر رسول اﷲ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو خلیفہ مقرر نہیں فرمایا ‘ اپنے مصلے پر کھڑا کرکے اشارہ فرما دیا کہ میرے بعد خلیفہ ابوبکر ہوں گے بلکہ(( یَاْبَی اﷲُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ اِلاَّ اَبَابَکْرٍ)) کہہ کر کسی اور کے خلیفہ بننے کا امکان ہی ختم کر دیا۔ اسی طرح رسول ﷺ نے مختلف فرقوں کا ذکر کرتے ہوئے ناجی فرقے کا کوئی نام تو نہیں رکھا مگر ((مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ ))کہہ کر اہل سنت والجماعت نام کی طرف اشارہ کر دیا۔ قرآن مجید میں
اس قسم کا اشارہ پہلے موجود تھا۔
{وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ}:4]النساء[115:
یعنی نبی کی سنت اور صحابہ کی راہ کے سوا گمراہی ہی گمراہی ہے۔ اسی طرح احادیث میں رسول اﷲ ﷺ نے تعریف کے انداز میں اہل حدیث نام کی طرف اشارے فرما دیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بخاری ‘ کتاب الاعتصام ‘ باب قول النبی ﷺ لاتزال طائفۃ من امتی ظاھرین علی الحق یقاتلون و ھم اھل العلم ص 609 رقم 7311:)
(مسلم: کتاب الفضائل ‘ باب من فضائل ابی بکر ‘ رقم(11:
چنانچہ فرمایا:
((نَضَّرَاﷲُ اِمْرئً سَمِعَ مِنَّا حدیثا))
(( یَاْتِیْ اٰخِرَالزَّمَانِ قَوْمٌ یَطْلُبُوْنَ الْعِلْمَ وَالْحَدِیْثَ اِذَا جَائُوْکُمْ فَادْنُوْھُمْ وَ اَکْرَمُوْھُمْ وَحَدِّثُوْھُمْ ))
(( فَطُوْبٰی لِلْغُرْبَائِ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ سُنَّتِیْ مِنْ بَعْدِیْ وَیُعَلِّمُوْنَھَا عِبَادَاﷲِ))
((اَللّٰھُمَّ ارْحَمْ خُلَفَائِیَ الَّذِیْنَ یَاْتُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ یََرَوْنَ حَدِیْثِیْ وَ سُنَّتِیْ
ِیَعْلَمُوْنَھَا النَّاسَ ))
بلکہ ان کے ساتھ حضرت ابوسعید خدری ؓوالی روایت کو بھی ملایا جائے تو معنی صحیح ہیں اگرچہ سنداً ضعیف ہے تو ثابت ہو جاتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے اہل حدیث نام کی پیشگوئی بھی فرما دی تھیکہ اس نام کی ایک جماعت ہو گی جس کا معمول میری حدیث ہوگی‘ لیکن اس نام کا خود آپ نے تعین نہیں فرمایا جس سے ہم یہ نتیجہ نکال سکیں کہ یہ نام خود رسول ا ﷲ ﷺ نے رکھا ہے۔
مسعود صاحب! حقیقت یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسی خاص نام
پر زور نہیں دیا کہ یہی ایک نام رکھنا آپ نے اصل زور راستے پر دیا ہے کہ راستہ صحیح رکھنا‘ جیسے میرا ہے۔ اس کی مناسبت سے نام خواہ کوئی بھی ہو ۔ قرآن بھی { فَاتَّبِعُوْا وَ لاَ تَتَّبِعُوا السُّبُلِ } کہہ کر راستہ پر ہی زور دیتا ہے کہ راستہ سیدھا ہو۔ نام کا تعین نہیں کرتا۔ مسعود صاحب!یہ الٹی بیماری تو آ پ کو لگی ہے کہ آپ نام پر زور دیتے ہیں اور نام بھی وہ جس میں حد درجہ کا ابہام ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ نام صرف ایک مسلم ہو اور کوئی نہ ہو۔ مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 689/1 رقم 404۔۔ مسند احمد 183/5رقم 21080 عن زید بن ثابت ؓ و ایضا مسند 82/4 رقم 16312 عن جبیر بن مطعم ؓ )
(المحدث الفاصل بین الراوی والواعی‘ لعبدالرحمٰن دامہرمزی ص 176 رقم 22)
(ترمذی‘ کتاب الایمان ‘ باب ما جاء ان الاسلام بدا غریبا ۔۔۔ الالماع‘ لقاضی عیاض ص 19۔۔۔معالم الایمان لدباغ93/1۔۔۔ جامع بیان العلم ابن عبدالبر 120/2)
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ (247/2
صاحب!آپ کے نزدیک معیار حق صرف نام ہے راہ نہیں ۔ ا ﷲ رسول کے نزدیک معیار حق راہ ہے نام نہیں۔ اس لیے آ پ نے راہ کا کوئی نام مقرر نہیں کیا۔ حدیث (( لاَ یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلاَمِ اِلاَّ اِسْمُہ‘) نے رسمی نام کی قلعی کھول بھی دی کہ فقط مسلم نام کوئی چیز نہیں‘ اصل چیز راہ ہے‘ جس پر چلنا ہے‘ لیکن آپ کی سمجھ میں نہ آیا۔ آپ کی رٹ وہی رہی کہ نام صرف ایک ‘مسلم۔
مسعود صاحب ذیل میں ہم چند وہ حوالے نقل کرتے ہیں جن سے آپ کے وہ تمام اعتراضات رفع ہو جائیں جو آپ اہل حدیث پر کرتے ہیں۔
--1تلویح شرح توضیح میں ہے: وَ عَلَیْہِ عَامَّۃُ اَہْلُ الْحَدِیْثِ وَالشَّافِعِیَّۃ عام اہل حدیث اور شوافع کا مذہب ہے۔
--2ابن ہمام حنفی اپنی کتاب ’’ فتح القدیر‘‘ میں جگہ جگہ اہل حدیث کا ذکر کرتے ہیں ‘ پہلی جلد میں ہی مندرجہ ذیل صفحات پر اہل حدیث کا ذکر موجو د ہے۔
صفحہ نمبر282,115,90,22 ۔۔ تاریخ 758ھ میںلکھی گئی ۔ ابن ہمام 861ھ میں فوت ہوئے۔
--3شامی جو فقہ حنفی کی مشہورکتاب ہے اس میں ہے :
حُکِیَ اَنَّ رُجَلاً مِّنْ اَصْحَابِ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ خَطَبَ اِلٰی رَجُلٍ مِّنْ اَصْحَابِ الْحَدِیْثِ بِنْتَہُ فِیْ عَہْدِ اَبِیْ بَکْرِ الْجَوْزجَانِی فَیَاْبٰی اِلاَّ اَنْ یَّتْرُکَ مَذْہَبَہ‘ فَیَقْرَأ خَلْفَ
ِالْاِمَامِ وَ یَرْفَعْ یَدَیْہِ عِنْدَ الاِنْحِنَائِ وَ نَحْوَ ذٰلِکَ فَاجَابَہُ وَ زَوَّجَہ‘
ابوبکر جوزجانی کے عہد میں ایک حنفی نے ایک اہل حدیث سے لڑکی کا رشتہ مانگا ‘ اہل حدیث نے انکار کر دیا الا یہ کہ وہ اپنا حنفی مذہب چھوڑ کر امام کے پیچھے قراء ت کرنے لگ جائے اور رفع الیدین کرنے لگ جائے اور اسی طرح دیگر مسائل میں بھی اہل حدیث بن جائے۔ اس حنفی نے یہ بات مان لی ۔ اس اہل حدیث نے اپنی لڑکی کا نکاح کر دیا۔
--4اسی شامی میں ہے:۔
قَدْ عَلِمْتُ اِنَّ ھٰذَا لَمْ یَقُلْ بِہٖ اِلاَّ الشَّافِعِیُّ وَ عَزَاہٌ اِلٰی جَمْھُوْرِ اَہْلِ الْحَدِیْثِ
اس کے قائل صرف امام شافعی ہیں اور اس کو جمہور اہل حدیث کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ مسعود صاحب ان چاروں حوالوں کو دیکھیں۔ کیسے ان سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل حدیث ‘ حدیث کے علما کو ہی نہیں کہتے بلکہ اہل حدیث ایک مذہب ہے جو امام شافعی سے بھی پہلے کا ہے اور آپ کا یہ کہنا بڑا جھوٹ ہے کہ اہل حدیث جماعت ہندوستان میں بنی ہے۔
--5 مسعود صاحب! کیا امام بخاری کے رسالے جزء رفع الیدین ‘ جزء القراء ۃ اور امام بیہقی کی کتاب القراء ۃ اس بات کی دلیل نہیں کہ اہل حدیث ایک مستقل مذہب ہے جس کے مخصوص مسائل ہیں جب ہی ان ائمہ حدیث نے رفع الیدین قراء ۃ خلف الامام اور وتروغیرہ اختلافی مسائل پر اپنے مذہب کی تائید میں رسالے لکھے۔
--6 شیخ الاسلام ابن تیمیہ منہاج السنۃ میں لکھتے ہیں:
وَمِنَ الْمَعْلُوْمِ مَنْ لَہ‘ خُبْرَۃٌ اِنَّ اَھْلَ الْحَدِیْثِ مِنْ اَعْظَمِ النَّاسِ بَحْثًا عَنْ اَقْوَالِ النَّبِیِّ وَ طَلَبًا لِعِلْمِھَا وَ اَرْغَبُ النَّاسِ فِیْ اِتِّبَاعِھَا فَھُمْ فِیْ اَھْلِ الْاِسْلاَمِ کَاَھْلِ الْاِسْلَامِ فِیْ اَھْلِ الْمِلَلِ
اہل علم جانتے ہیں کہ اہل حدیث احادیث رسول میں سب سے زیادہ غور کرنے والے اور سب سے بڑھ کر آپ کے علم کے طالب ہیں۔ وہ اتباع رسول ؐ میں سب سے زیادہ رغبت کرنے والے اور ہویٰ و ہوس کی اتباع سے سب سے زیادہ دور بھاگنے والے ہیں۔ اہل حدیث مسلمان فرقوں میں ایسے ہی ہیں جیسے اہل ادیان میں اہل اسلام۔
--7منہاج السنہ میں ہی وہ لکھتے ہیں:
وَ لِھٰذَا لَمَّا صنَّف الْاَشْعَرِیُّ کِتَابَہ‘ فِی الْمَقَالاَتِ ذَکَر اَوَّلاً مَقَالَتَھُمْ وَ خَتَمَ بِمَقَالَۃِ اَھْلِ السُّنَّۃِ وَالْحَدِیْثِ وَ ذَکَرَ اَنَّہ‘ بِکُلِّ مَا ذَکَرَ مِنْ اَقْوَالِ اَھْلِ السُّنَّۃِ وَ الْحَدِیْثِ یَقُوْلُ وَ اِلَیْہِ یَذْھَبُ
امام اشعری نے جب اپنی کتاب مقالات پر مکمل کی تو اہل سنت اور اہل حدیث کے مقالہ پر کتاب کو ختم کیا اور ذکر کیا کہ میرا مذہب وہی ہے جو اہل سنت ‘ اہل حدیث کا ہو۔
--8منہاج السنہ ہی میں وہ لکھتے ہیں:
وَمِنْ اَھْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ مَذْھَبٌ قَدِیْمٌ مَعْرُوْفٌ قَبْلَ اَنْ یَّخْلُقَ اﷲُ اَبَاحَنِیْفَۃَ وَ مَالِکًا وَالشَّافِعِیِّ وَاَحْمَدَ فَاِنَّہ‘ مَذْھَبُ الصَّحَابَۃَ الَّذِیْنَ تَلَّقَوْہُ عَنْ نَبِیِّھِمْ وَ مَنْ خَالَفَ ذٰلِکَ کَانَ مُبْتَدِعًا عِنْدَ اَھْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ
اہل سنت والجماعت کا ایک ایسا مذہب بھی ہے جو قدیم اور معروف ہے اور امام ابوحنیفہؒ ‘ امام مالکؒ‘ امام شافعی ؒ‘ امام احمد بن حنبل ؒ کی پیدائش سے بھی پہلے کا ہے اور وہ صحابہ کا مذہب ہے جو انھوں نے رسول اﷲ ﷺ سے لیا۔ جو اس مذہب کا یعنی اہل حدیث کا مخالف ہو وہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک بدعتی ہے۔ مسعود صاحب امام ابن تیمیہ کے تینوں حوالوں سے یہ تین باتیں واضح ہیں۔
(1) اہل حدیث سب سے قدیم مذہب ہے(2) صحابہؓ کا بھی یہی مذہب تھا (3)اہلحدیث کا مخالف بدعتی ہے۔
مسعو د صاحب! اب آپ سوچ لیں کہ آپ کون ہیں جو اہل حدیث کی مخالفت کرتے ہیں۔
--9مسلم شریف کی شرح میں امام نووی قاضی عیاض کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَ قَالَ اَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ اِنْ لَّمْ یَکُوْنُوْا اَہْلُ الْحَدِیْثِ فَلاَ اَدْرِیْ مَنْ ھُمْ قَالَ الْقَاضِی عِیَاضُ اِنَّمَا اَرَادَ اَحْمَدُ اَھْلَ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ وَ مِن یَّعْتَقِدُ مَذْھَبَ اَہْلِ الْحَدِیْثِ
امام احمد فرماتے ہیں کہ اگر وہ جماعت جس کے بارے میں رسول اﷲ ﷺ نے پیش گوئی کی ہے ‘ اہل حدیث نہیں تو پھر میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہوں گے۔ یعنی وہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( صحیح مسلم مع الشرح النوری 67/13کتاب الامارۃ ‘ باب قولہ ﷺ لا تزال طائفۃ من امتی ظاھرین علی الحق)
اہلحدیث ہی ہیںاور کوئی نہیں۔ قاضی عیاض کی اہل حدیث سے مراد صرف محدثین نہیں بلکہ اہل سنت والجماعت اور مذہب اہل حدیث رکھنے والے سب ہیں۔ مسعود صاحب دیکھیں اس حوالے میں کیسے آپ کے تمام اعتراضات کی تردید ہے۔ دیدہ باید-
امام مسلم‘ مسلم شریف کے مقدمہ میں ابن سیرین سے نقل کرتے ہیں:
عَنْ اِبْنِ سِیْرِیْنَ قَالَ لَمْ یَکُوْنُوْا یَسْئَلُوْنَ عَنِ الْاِسْنَادِ فَلَمَّا وَقَعَتِ الْفِتْنَۃُ قَالُوْاسَمُّوْا لَنَا رِجَالَکُمْ فَیُنْظُرُ اِلٰی اَھْلِ السُّنَّۃِ فَیُؤْخَذُ حَدِیْثَھُمْ وَیُنْظُرْ اِلٰی اَھْلِ الْبِدْعِ فَلاَ یُؤْخَذُ حَدِیْثَھُمْ
ِ یعنی پہلے روایت حدیث میں سند نہیں پوچھی جاتی تھی۔ جب فتنوں کا دور شروع ہو گیا تو سند کا سوال پیدا ہونے لگا کہ اس کا راوی کون ہے ؟ اگر وہ اہل سنت ہے تو پھر اس کی روایت لی جائے گی ورنہ نہیں۔ محمد بن سیرین کا زمانہ صحابہ کا زمانہ ہے۔ وہ 33ھ میں حضرت عثمان ؓ کے عہد میں پیدا ہوئے اور بڑے بڑے صحابہ سے روایات لیں۔
--11اما م ذہبیؒ تذ کرۃ الحفّاظ میں امام شعبیؒ کا قول نقل کرتے ۔ امامشعبی وہ تا بعی ہیں جنھو ں نے پا نچ سو صحا بہ کا زما نہ پایا ۔ وہ فر ما تے ہیں :
لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ اَمْرِی مََا اسْتَدبرت مَا حَدَّثْتُ اِلاَّ مَا اَجْمَعَ عَلَیْہِ اَہْل َالْحَدِیْثِ۔
اگرمجھے پہلے ہی سے معلوم ہو جاتا تو میں وہی احادیث بیا ن کرتا جن پر اہل حدیث کا اجماع ہے۔
--12امام ابن کثیرؒ اپنی تفسیر میں { یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْہٌ } :3] آل عمران [106: کے تحت لکھتے ہیں:یعنی
یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حِیْنَ تَبْیَضُّ وُجُوْھُ اَھْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ وَتَسْوَدُّ وُجُوْہُ اَہْلَ الْبِدْعِ وَالْفِرْقَۃِ قَالَ ابْنُ عَبَّاس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مقدمہ صحیح مسلم باب بیان ان الاسناد من الدین )
(سیر اعلام النبلاء 313/4) (تفسیر ابن کثیر (419/3
عبداﷲبن عباسؓ نے ا س آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ قیامت کے دن اہل سنت والجماعت کے چہرے نورانی ہوں گے اور اہل بدعت اور اہل فرقہ کے چہرے کالے سیاہ ہوں گے۔
--13امام ابن کثیررحمۃ اﷲ علیہ اپنی تفسیر{ یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِھِمْ} :17]الاسراء [71:کے تحت لکھتے ہیں:
وَ قَالَ بَعْضُ السَّلْفِ ھٰذَا اَکْبَرُ شَرْفٌ لِّاَصْحَابِ الْحَدِیْثِ بِاَنَّ اِمَامُھُمْ النَّبِیَّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
ِ بعض سلف کا کہنا ہے کہ اہل حدیث کے لیے یہ بڑے شرف کی بات ہے کہ ان کو نبی ﷺ کے نام سے بلایا جائے گا کیوں کہ ان کے امام صرف وہی ہیں۔
--14مرقاۃ شرح مشکوۃ میں ہے:
سُئِلَ اَنْسُ بْن مَالِکٍ عَنْ عَلاَمَاتِ اَھْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ فَقَالَ اَنْ تُحِبَّ الشَّیْخَیْنَ وَ لاَ تُطْعِنْ الْخَتْنَیْنِ وَتَمْسَحَ عَلَی الْخُفَّیْنِ
یعنی انس بن مالک ؓ صحابی رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اہل سنت
والجماعت کی کیا علامات ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ تو ابوبکر ؓو عمر ؓ سے محبت رکھے اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دونوں دامادوں پر طعن نہ کرے اور موزوں پر مسح کرے۔ یہ اہل سنت والجماعت کی علامتیں ہیں۔
ان حوالہ جات سے واضح ہے کہ اہل سنت والجماعت اور اہل حدیث نام رکھنا بدعت نہیں۔ یہ نام صحابہؓ کے زمانے میں بھی متعارف تھے۔
--15عرب کے مشہور سیاح الامام بشاری مقدسی جو 375ھ میں ہندوستان آ ئے
وہ صوبہ سند ھ کے شہر منصور ہ کے حالات میں اپنی کتاب ’’ احسن التقاسیم‘‘ میںلکھتے ہیں: ’’ یہاں کے اکثر مسلمان اہل حدیث ہیں‘‘ ۔
--16عبدالقادر بن طاہر تمیمی البغدادی جو پانچویں صدی ہجر ی کے مؤرخ اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(تفسیر ابن کثیر (59/3
محدث ہیں لکھتے ہیں: ’’ الجزیرہ ‘ شام‘ ایران‘ آزر بائیجان‘ افریقہ‘ اندلس اور یمن وغیرہ ممالک میں اکثر اہل حدیث آباد تھے۔
--17تاریخ فرشتہ میں سلطان محمود غزنوی کے حالات میں لکھا ہے کہ سلطان محمود نے سہل بن سلیمان معلوکی جو اہل حدیث کے اماموں میں سے تھے ‘ ایبک خاں کے پاس سفیر بنا کر بھیجا۔
ان تاریخی حوالہ جات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل حدیث جماعت ہندوستان میں نہیں بنی جیسا کہ بعض گمراہ لوگ کہتے ہیں بلکہ یہ قدیم سے چلی آ رہی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ شروع شروع میں سارے مسلمان اہل حدیث تھے۔ پھر جوں جوں فتنے بڑھتے گئے‘ زمانہ گزرتا گیا۔ لوگ گمراہ ہو ہوکر مذہب اہل حدیث چھوڑتے گئے۔ حتی کہ اہل حدیث کم ہوتے گئے۔ جوں جوںپیچھے کو خیر القرون کی طرف جائیں اہل حدیث زیادہ نظر آئیں گے۔ جوں جوں ادھر کو فتنوں کی طرف آئیں اہل حدیث کم ہوتے جائیں گے۔ حتی کہ آج اہل حدیث بہت کم ہیں ‘ لیکن جو سچے اور پکے ہیں اﷲ کے نزدیک صحیح مسلم وہی ہیں۔
مسعودصاحب! مندرجہ بالا حوالہ جات میں آپ کے تمام اعتراضات کے جوابات ہیں۔ رہ گیا آپ کا بار بار یہ کہنا کہ اہل حدیث نام قرآن و حدیث میں دکھاؤ تو یہ آپ کی ضد اور جہالت ہے ورنہ کسی نام کے جائز اور اچھا ہونے کے لیے قطعی ضروری نہیں کہ وہ نام قرآن و حدیث میںبھی ہو۔ نہ قرآن و حدیث مطالبہ کرتے ہیں‘ نہ ائمہ میں سے کبھی کسی امام اور عالم نے ایسا مطالبہ کیا۔
مسعود صاحب! ٹھنڈے دل سے سوچیں اور سمجھیں کہ اہل حدیث ایک لقب ہے اور لقب‘ خطاب‘ کنیت‘ عرف اور تخلص وغیرہ ناموں کے لیے ضروری نہیں کہ یہ بھی والدین ہی رکھیں۔ یہ نام لوگ خود بھی رکھ لیتے ہیں اور بھی رکھ دیتے ہیں بلکہ بعض دفعہ کسی وصف سے کئی نام ایسے پڑ جاتے ہیں کہ پتا بھی نہیں لگتا۔ اگر اہل حدیث لقب اﷲ رسول نے خود نہیں رکھا تو یہ بات کوئی قابل اعتراض نہیں۔ ایسا مطالبہ کرنا کہ اہل حدیث لقب قرآن و حدیث میں دکھاؤ ۔ لقب اور خطاب وغیرہ کی حقیقت کو نہ جاننا ہے۔
مسعود صاحب! بات تو یہ بالکل سیدھی ہے‘ لیکن یہ آپ کی سمجھ میں نہیںآتی اور سیدھی بات الٹی سمجھ میںآتی بھی نہیں۔ ا س لیے آپ یہی مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ اہلحدیث نام قرآن و حدیث میں دکھاؤ۔ اب ہم آپ کو اس طریقے سے سمجھاتے ہیں‘ جس طریقے کے آپ لائق ہیں۔
مسعود صاحب! آپ کے والدین نے آپ کا نام مسعود رکھا آپ کسی طرح سے بی ۔ایس سی ہو گئے۔ اب آپ صرف مسعود نہیں بلکہ مسعود بی ۔ ایس سی ہیں اور اسی نام سے متعارف ہیں۔ آپ میں اور آپ کے شقیق مسعود عثمانی میں یہی فرق ہے کہ آپ بی۔ ایس سی ہیں اور وہ ایم ۔بی۔ بی ۔ایس ہیں۔
مسعود صاحب! جب آپ کے والدین نے آپ کا نام مسعود رکھا تھا تو آپ بی ۔ ایس سی کیوں ہو گئے۔ کیا آپ کو صرف مسعود نام پسند نہ آیا‘ جو آپ بی ۔ایس سی بن گئے۔ اب آپ یا تو اپنے نام مسعود بی ۔ ایس سی کا ثبوت اپنے والدین سے دیں ورنہ تسلیم کریں کہ جیسے آپ ہمیں بدعتی اور گمراہ بتاتے ہیں کیوں کہ ہم نے اپنا نام اہل حدیث رکھ لیا ہے‘ آپ بھی فارمی اور قلمی ہو گئے ہیں کیوں کہ آپ نے اپنے نام کے ساتھ بی۔ ایس سی لگا لیا ہے۔ مسعود صاحب!جب آپ نام مسعود بی ۔ ایس سی کا ثبوت اپنے والدین کے حوالے سے نہیں دے سکتے کیوں کہ بی۔ ایس سی ایک ڈگری اور خطاب ہے جو والدین نہیں دیا کرتے تو آپ ہم سے یہ مطالبہ کیوں کرتے ہیں کہ اپنے لقب ’’ اہل حدیث‘‘ کا ثبو ت اﷲ اور رسول کے حوالے سے دیں اور یہ دکھائیں کہ یہ نام بھی انھوں نے ہی رکھا ہے۔ پہلے آپ اپنی ڈگری بی۔ ایس سی کا ثبوت اپنے والدین سے دیں پھر ہم سے سماکم اہل حدیث دکھانے کا مطالبہ کریں۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے۔
مسعود صاحب!جماعت المسلمین کا اب آپ کو ایسا خبط ہو گیا ہے کہ اب آپ سوچتے سمجھتے کچھ نہیں ‘ اعتراض ہی کرتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ اس میں جان بھی ہے یا نہیں۔ مسعود صاحب اگر آپ سمجھ و الے ہوتے تو جماعت المسلمین نام کی کوئی جماعت نہ بناتے۔ کیوں کہ مسلمانوں میں کوئی جماعت بنانا کوئی عقل مندی نہیں۔ یہ ایسی ہی بے عقلی کی بات ہے جیسے کوئی پاکستان میں پاکستانیوں کی جماعت بنائے۔کسی غیر ملک میں پاکستانیوں کی جماعت بنانا تو بنتا بھی ہے کیوں کہ وہاںغیر پاکستانی بھی ہوتے ہیں‘ لیکن پاکستان میںجہاں سارے پاکستانی رہتے ہوں پاکستانیوں کی جماعت بنانے کی کیا تک ہے؟ اسی طرح کافروں کے مقابلے میںجماعت المسلمین نام کی جماعت بنانا تو صحیح ہو سکتا ہے‘ لیکن مسلمانوں میں جماعت المسلمین نام کی جماعت بنانے کے کیا معنی ؟مسعود صاحب! اول تو آپ نے یہ غلطی کی کہ جماعت المسلمین نام کی جماعت بنائی دوسرے اب آپ اہل حدیث کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ یہ آپ کی ایسی غلطی ہے جو پہلی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔پہلی سے تو صرف یہ ظاہر ہوتا تھا کہ آپ بے سمجھ اور ناتجربہ کار ہیں لیکن دوسری سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ضدی اور متعصب بھی ہیں۔
مسعود صاحب!جب آپ مانتے ہیں کہ دین قرآن و حدیث کا نام ہے تو پھر آپ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ عہد صحابہ سے لے کر آج تک حاملین قرآن و حدیث کون رہے ہیں۔ کیا آپ کی جماعت المسلمین جو کل کی پیداوار ہے اس کی دعوے دار ہو سکتی ہے؟ کیا موجودہ تمام فرقوں میں سوائے اہل حدیث کے کوئی ایسا فرقہ ہے جو یہ دعویٰ کر سکے۔ سوائے اہل حدیث کے جب کوئی ایسا فرقہ نہیں جس کا مذہب صرف قرآن و حدیث ہو تو آپ اس کل کی بچی جماعت المسلمین کی خاطر اہل حدیث جیسے اہل حق کی مخالفت کرکے اپنی عاقبت کیوں برباد کر تے ہیں؟ کیا آپ کو موت یاد نہیں؟
مسعود صاحب! آپ خوب سمجھ لیں کہ اہل حق صرف اہل حدیث ہیں۔ آپ کی جماعت اہل حق نہیں۔ کیوں کہ یہ 1385ھ میں بنی ہے۔خیرالقرون سے لے کر آج تک اس نام کی کوئی جماعت نمودار نہیں ہوئی۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تیرہ چودہ سال تک اہل حق معدوم اور پھر 1385ھ میں یکا یک جماعت المسلمین کے نام سے وجود میں آ جائیں۔ یہ جماعت المسلمین آپ کے لیے بھی فریب ہے اور مسلمانوں کے لیے بھی ایک دھوکا ہے۔ مسعود صاحب!آج اگر آ پ کو کچھ اہل حدیث بگڑے ہوئے نظر آتے ہیں تو اس کا علاج یہ نہیںکہ آپ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ بنا لیں اور جماعت المسلمین بنا کر ایک نئی فتنہ پردازی کا سامان پیدا کر دیں۔یہ بگاڑ تو ہر چہار سو ہے۔ یہ بگاڑ اس دنیا کا لازمہ ہے ۔ اسی سے تو پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں کو کیسے زوال آیا۔ لوگ حق کو چھوڑ کر کیسے گمراہ ہوئے اور اب کیسے گمراہ ہوتے ہیں۔ اس سے حق پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ لوگوں کے بگڑنے سے مذہب نہیں بگڑا کرتا۔ مذہب انسانوں کا نام نہیں مذہب اصولوں کا نام ہے جو ان مِٹ ہوتے ہیںاور پھر یہ محمدی مذہب تو اﷲ کی امانت ہے جس کی حفاظت کا ذمہ اس نے خود اٹھایا ہے کیوں کہ اب کسی نبی کو نہیں آنا۔ مسعود صاحب یہ بگاڑ جو آج آپ کو اہل حدیث میں نظر آ رہا ہے اور جس کی وجہ سے آپ اہل حدیث کو برا کہہ رہے ہیں کل کو آپ کو اپنی نومولود جماعت میں نظر آجائے گا۔ یہ کوئی ان ہونی چیز نہیں۔ صرف اتنی سی بات سے اہل حق سے کٹ جانا حسن عاقبت کی علامت نہیں۔ اس لیے آپ جتنی جلدی ممکن ہو توبہ کرلیں اور سچے پکے اہل حدیث بن جائیں ۔ دعا ہے کہ اﷲ ہرمسلمان کو سچا پکا اہل حدیث بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ‘ ثم آمین۔
وما علینا الا البلاغ
٭٭٭٭٭