بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
جناب حافظ محمد اکرم صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ
آپ کا خط ملا جس کے بارے میں میری رائے حسب ذیل ہے۔
حافظ صاحب شیعہ کا گمراہ فرقہ کوئی نیا فرقہ نہیں۔ صحابہ ؓ کے بارے میں ان کی دریدہ دھنی بھی کوئی نئی چیز نہیں۔ اہل سنت ہمیشہ سے ہی ان کے کفریہ عقائد اور ان کی دین دشمنیوں کا مقابلہ کرتے آئے ہیں ۔ صرف ناموس صحابہ ؓ کو سلف سے خلف تک آج تک کسی نے بھی اپنا مشن نہیں بنایا‘ کیوں کہ یہ ایک جزوی چیز ہے۔ یہ صرف مولانا حق نواز صاحب کی جدت پسندی ہے ‘ جو انھوں نے اس کو اپنا مشن بنایا ہے ۔ اس کفر و الحاد کے دور میں کیا صرف صحابہ ؓ ہی مظلوم ہیں‘ کیا اﷲپر ظلم کم ہوتا ہے ؟ جدھر دیکھو شرک ہی شرک اور کفر ہی کفر ہے۔ {اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ}:31]لقمان[13: کوئی اﷲ کی ہستی کا ہی انکار کرتا ہے‘ کوئی اس کے شریک بنا تا ہے کیااﷲ کے رسول ﷺکم مظلوم ہیں۔ آج لوگوں کو ان کی پہچان تک نہیں کہ وہ کون تھے۔ خالق تھے یا مخلوق ‘ نور تھے یا بشر ۔ کوئی ان کو خدا کا شریک ٹھہراتا ہے کوئی صرف اپنے زمانے کا عرب لیڈر بتاتا ہے ‘ کوئی ان کو پوسٹ مین کی حیثیت دیتا ہے کہ امت کو قرآن کی چٹھی پکڑا کر وہ فارغ۔۔۔ لوگوں نے اﷲ کے رسول ؐ کو چھوڑ کر اپنے اپنے امام بنا لیے۔ شیعہ نے چھے اور بارہ بنائے ‘ سنیوں نے چار اور پھر چار میں سے چاروں فرقوں نے ایک ایک امام لے کر اپنے اپنے فرقے گھڑ لیے۔ آج نبی کی پیروی کون کرتا ہے آج اماموں اور پیروں کی تقلید کرتے ہیں۔ اسلام سب سے زیادہ مظلوم ہے۔آج اصلی اسلام کی کسی کو پہچان نہیں‘ الا ماشاء اﷲ ۔! ہرکسی کا اپنا اسلام ہے۔ آج جو مسلمان کرتے جاتے ہیں وہ اسلام بنتا جاتا ہے۔ عرس اسلام اور عید میلاد اسلام‘ کوئی فقہ حنفی کو اسلام کہتا ہے اور کوئی فقہ جعفری کو۔آج شرک توحید ہے اور بدعت سنت۔ آج اہل بدعت اہل سنت بنے ہوئے ہیں۔ اس دور میں اﷲ اور اس کے رسول ؐ یعنی توحید و سنت کی دعوت کو چھوڑ کر صرف تحفظ ناموس صحابہؓ کو اپنا مشن بنانا سوائے جدت پسندی کے کچھ نہیں۔ اس سے اقامت دین نہیں ہو سکتی۔
یہ صرف شیعہ کی صحابہ ؓ دشمنی کا ایک ردعمل (Reaction) ہے اور جو چیز رد عمل کے طور پر(Reactionary)ہو وہ عارضی ہوتی ہے۔ اس کو دوام اور بقا حاصل نہیں ہوتا۔ شیعہ کی تحریک بھی ابتدا میں ری ایکشنری (Reactionary)تھی ‘ جو صرف عرب دشمنی پر مبنی تھی اورسیاسی۔ اس کو دائمی بنانے کے لیے شیعہ نے اس کو مذہبی رنگ دیا اور شیعہ مذہب گھڑ لیا۔ مولانا حق نواز صاحب کو بھی اسی لیے تحفظ ناموس صحابہ ؓ کے ساتھ اشاعت الاسلام اور اتحاد بین المسلمین کے تکلفات کرنے پڑے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کی تحریک تحفظ ناموس صحابہؓ ایک ری ایکشنری (Reactionary) تحریک ہے‘ جس میں جان نہیں۔ اس لیے انھوں نے اشاعت اسلام اور اتحاد بین المسلمین کے خوب صورت الفاظ ساتھ لگائے ہیں۔ اسلام کی ایک چیز کو لے کر اٹھ کھڑے ہونے سے اسلام کی کوئی صحیح خدمت نہیں ہوتی‘ بلکہ اس سے انتشار پیدا ہوتا ہے اور پارٹیاں بنتی ہیں‘ جو اسلام میں بالکل ناجائز ہیں۔ کسی نے تحفظ ختم نبوت کے نام پر اپنی جماعت بنا لی‘ مولانا حق نواز صاحب ناموس صحابہؓ کو لے کرکھڑے ہو گئے۔ اس لیے کوئی اسلامی جمہوریت کو اچھالتا ہے ‘ کوئی اسلامی سوشلزم کو۔ اگر اصل اسلام کے احیا اور نفاذ کی کوشش کی جائے تو کیا یہ جزوی مقاصد حاصل نہ ہوں۔ مولانا حق نواز صاحب جس مشن کو لے کر اٹھے ہیں اس سے وہ سنیوں ‘ خاص طور پر دیوبندیوں میں تومشہور ہو جائیں گے لیکن اس سے اسلام کو کوئی خاص فائد ہ نہیں پہنچے گا۔ اس لیے ہمیں مولانا حق نواز کے مشن سے ایسا ویسا ہی اتفاق ہے جس کے لیے ہم معذور ہیں۔ اﷲ ان کی صحیح رہنمائی فرمائے۔ !
ھذا ما عندی واﷲ اعلم بالصواب
الراقم
(پروفیسر) حافظ عبداﷲ عفی اﷲ عنہ
خطیب جامع مسجد اہل حدیث بہاول پور