پروفیسر
حافظ عبداﷲ صاحب بہاول پوریؒ
پروفیسر ظفر اقبال سلفی
پروفیسر ظفر اقبال صاحب
نے اپنے استاد محترم پروفیسر حافظ عبداﷲ بہاول پوری کے بارے میں چھوٹا سا سوانحی
خاکہ تحریر کیا ہے۔ پروفیسر ظفر اقبال صاحب بنیادی طور پر بریلوی خاندان سے تعلق
رکھتے تھے وہ جب حضرت حافظ صاحب کی مجلس میں پہنچے تو نہ صرف یہ کہ اہل حدیث ہو
گئے بلکہ حافظ صاحب کے شاگرد بن گئے اور آج وہ جو کچھ ہیں ‘ اپنے استاد کی تربیت
کا ثمر ہیں۔ حضرت حافظ صاحب کے بارے میں آئندہ مجلہ الدعوۃ کے
صفحات پر تفصیل سے آپ کی علمی اور داعیانہ سرگرمیوں کے بارے میں قارئین مجلہ الدعوۃ
کو آگاہ کیا جائے گا۔ (ادارہ )
21؍اپریل
1991ء کو گیارہ بجے کے قریب دل کا شدید
دورہ پڑا او ربارہ بجے کے قریب قریب پروفیسر حافظ عبداﷲ بہاول پوری سرسٹھ برس کی
عمر پا کر اﷲ کو پیارے ہو گئے۔ زبان پر آخری الفاظ تھے:’’ اے میرے رب!‘‘
اس کے ساتھ ہی بہاول
پور کی تاریخ کا ایک دورختم ہو گیا۔بہاول پور آزادی پاکستان سے پہلے ایک خود مختار
ریاست تھی‘ جہاں عباسی خاندان نے صدیوں حکومت کی ہے۔ انھوں نے اپنے دور حکومت میں
کسی حد تک شرعی قوانین کو نافذ کر رکھا تھا اور ریاست میں تعلیم کے میدان میں دینی
علوم کی تدریس کا خاصا اہتمام کیا جاتا تھا۔ بہاول پور شہر میں ایک جامعہ عباسیہ
بھی قائم تھی جو شرعی علوم کے لیے بہت اچھی شہرت رکھتی تھی۔
قریب قریب پوری ریاست میں
حنفی مسلک ہی غالب تھا اور دینی مدارس اور جامعہ عباسیہ کی وجہ سے یہاں بڑے بڑے
حنفی علما موجود تھے۔
حافظ صاحب نے پنجاب یونیورسٹی
لاہور سے ایم ۔اے اسلامیات کیا۔ ایس ای کالج میںلیکچرار منتخب ہو گئے اور 1953ء میں
اس کالج میں تدریس کا کام شروع کیا۔
بہاول
پور ریاست میں مولانا عبدالحق ریاستی نہایت فصیح اللسان اور شیریں بیان خطیب تھے‘
جن کی کاوشوں کی وجہ سے مسلک اہل حدیث کا تعارف ہو چکا تھا‘ لیکن وہ دارالحدیث مکہ میںمنتقل ہو گئے۔ ان کے بیٹے
مولانا عبدالرزاق صاحب اپنے ڈھب سے مسلکی خدمات انجام دے رہے تھے۔ بہاول پور شہر میں
مسجد ٹونکیاں والی میں چند اہل حدیث حضرات تھے جو حنفی ماحول کی وجہ سے کبھی بھی
کھل کر مسلک کا اظہار نہ کر سکے۔ مولانا قادر بخش صاحب جو پٹیالہ کے مفتی اور جید
عالم دین تھے ‘ قیام پاکستان کے بعد بہاول پور ہجرت کر کے آئے ‘ تنہا تھے‘ اس لیے جرأت
کے ساتھ مسلک کا کام نہ کر سکے۔
حافظ صاحب نے یہاں کے
مخصوص ماحول کا جائزہ لیا۔ مولوی قادر بخش صاحب کے ساتھ مجلسیں کیں اور دعوتی اور
دینی کام شروع کرنے کا عزم کیا‘ مہاجر کالونی میں گھر سے متصل جگہ مسجد کے لیے
مخصوص کر دی۔ خطبہ جمعہ سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ پہلے خطبہ جمعہ میں صرف چار آدمی
شریک تھے۔ کالج میں تدریس کے ذریعے کام کیا ۔ مسجد میں ترجمہ و تفسیر قرآن کے ذریعے
توحید کی دعوت دینا شروع کی۔
حافظ صاحب کی دعوت و
تبلیغ کے نتیجے میں دل پگھلنے لگے‘ منجمد تقلیدی
ذہنیت میں اس اسلامی دعوت نے ایمانی حرارت پیدا کرنا شروع کر دی‘ شرک و
بدعات اور مقلدانہ بیماریوں سے ماری ہوئی دلوں کی بنجر زمین میں دعوت حق کی سیرابی
سے ایمان و ایقان کی نئی نئی کونپلیں پھوٹنے لگیں۔
اس کھری دعوت اور زور
دار انداز بیان سے بریلوی اور دیوبندی مکتب فکر کے بڑے بڑے بزرجمہروں میں کھلبلی
مچ گئی۔ دیوبندیوں نے کہا کہ ہم مل جل کر کام کریں خواہ مخواہ کا نفاق پیدا کیوں کرتے ہو‘ حافظ
صاحب نے جواب دیا کہ تم تقلید امام ابوحنیفہ کو چھوڑ کر قرآن و سنت کی کھری دعوت
کو قبول کر لو۔ یہی اتحاد اور اتفاق کی بنیاد ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ مجھے تم قرآن
و سنت سے نیچے گرا کر اتحاد قائم کرنا چاہتے ہو۔ مولانا شمس الحق افغانی اور
مولانا رشید نعمانی جیسے متعصب کٹر حنفی علما بہت سیخ پا ہوئے ۔ انھوں نے اہل حدیث
کے خلاف پمفلٹ اور کتابچے مختلف ناموں سے چھپوا کر لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کیے۔
حافظ صاحب نے ایک سو صفحات کا ایک کتابچہ لکھا اور حنفیت کی حقیقت اور قرآن و سنت
کی حقانیت واضح کی۔ کتابچے کے جواب میں پھر کسی کو رد کی جرأت نہ ہو ئی۔ حافظ صاحب
کے خلاف انتظامیہ کے آگے بھی شکایتیں ہوئیں ۔ حتی کہ آپ کا تبادلہ مظفر گڑ ھ کروا
دیا گیا۔ مظفر گڑھ جا کر بھی حافظ صاحب نے ایک نئی اہل حدیث مسجد کی بنیاد رکھی۔
کچھ عرصے کے بعد واپس تبادلہ بہاول پور
ہوا۔ کام اس طرح جاری رکھا۔
بہاول پور شکار پوری گیٹ
سے باہر ایک جامع مسجد کی بنیاد رکھی جس کی تعمیر میں بذات خود حصہ لیا۔ گارڈر
اپنے کندھوں پر رکھ کر اوپر چڑھاتے۔ بڑی سے بڑی آزمائش بھی حافظ صاحب کے پائے ثبات
کو متزلزل نہ کر سکی۔ ایک دفعہ جب فیصلہ کر لیتے پھر کوئی طاقت ‘ کوئی لالچ‘ کوئی
خوف اس سے ہٹا نہیں سکتا تھا۔ جامع مسجد میں خطبہ جمعہ اور در س قرآن یہ دو کام
تھے جو آپ نے جاری کیے اور جمعہ میں توحید کی دعوت‘ بدعات کا رد‘ حنفی مذہب کے
جمود کا توڑ خاص موضوع تھے جن کو آپ نے ہمیشہ اختیار کیا۔ درس قران کا انداز یہ
تھا کہ پہلے لفظی ترجمہ کرتے‘ پھر بامحاورہ ترجمہ اور مختلف مقامات کی مختصر تفسیر
کرتے۔ درمیان میں اگر کوئی سوال کرتا تو اس کا مدلل اور مفصل جواب دیتے۔ اس انداز
تفسیر سے انھوں نے ہزاروں لوگوں کو متاثر کیا۔ حافظ صاحب کے دروس نے پڑھے لکھے طبقے کو بڑی تیزی سے متاثر کیا۔
ان کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ ہر فرد پر انفرادی توجہ دیتے اور ہر ایک کے حفظ
مراتب کا خاص خیال رکھتے تھے۔ اپنے پرانے قریبی ساتھیوں کو کسی غلطی پر ڈانٹ بھی دیتے
تھے لیکن کسی نئے ساتھی کے لیے کبھی سخت الفاظ کا استعمال نہیں کرتے تھے۔ تعلیم و
تربیت کے ڈھنگ اور اسلوب خوب جانتے تھے۔ داڑھی رکھنے کے لیے کبھی کسی کو مجبور نہ
کرتے تھے‘ لیکن خطبات میں اس کی اہمیت بیان کر دیتے تھے۔اس لیے آپ دیکھیں گے کہ
بہاول پور اور آس پاس کے نوجوانوںمیں کس قدر زبردست انقلاب برپا ہو ا۔ کثرت سے
داڑھی والے نوجوان آپ کو نظر آئیں گے۔ یہ تبدیلی اﷲ کے فضل ‘ حافظ صاحب کے اخلاص‘
مسلسل محنت اور کاوش کا نتیجہ ہی کہی جا سکتی ہے۔
حافظ صاحب ہمیشہ سادہ
زندگی بسر کرتے تھے۔ زرق برق لباس اور تکلفانہ انداز زندگی سے ہمیشہ نفرت کی۔
گفتگو میں سادگی ‘ چال ڈھال میں سادگی ہمیشہ آپ کا وطیرہ رہا ہے۔ اپنی اولاد کے
ساتھ ہمیشہ اسی وجہ سے سختی کی۔ بڑی بڑی کانفرنسوں اور جلسوں میں دھوتی پہن کر
جاتے‘ جمعہ کا خطبہ ہمیشہ دھوتی پہن کر دیا۔ لیکن تقریر میں زبردست کاٹ اور مثالیں
اور دلائل اتنے قوی ہوتے کہ انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا کہ حقیقت واقعی یہی ہے۔
حافظ صاحب کی زندگی کے
مختلف پہلوؤں کے مختلف گوشے ایسے ہیں کہ جن پر الگ سے کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ان
شاء اﷲ تفصیل کے ساتھ ان پر روشنی ڈالیں گے۔
فی الحال مختصرا ً کچھ باتیں عرض کی ہیں۔
حافظ صاحب کا تعلیمی ریکارڈ
انتہائی روشن ہے۔ آپ علی گڑھ کے گریجوایٹ تھے۔ انگریزی‘ عربی ‘ فارسی زبان پر
مہارت تامہ رکھتے تھے۔ دینی علوم کی ابتدائی سے لے کر منتہی کتب تک آپ نے اہل حدیث
اورحنفی علما سے پڑھیں۔حافظ عبداﷲ روپڑی اور مولانا محمدحسین روپڑی آپ کے خاص
اساتذہ میں شامل ہیں۔ متحدہ ہندوستان میں آپ نے قیام پاکستان کے لیے زبردست کام کیا۔
علی گڑھ کے 25 طالب علموں کے وفد کے آپ سربراہ تھے‘ جنھوں نے سندھ میں جی ۔ایم سید
کے خلاف کام کیا۔ جب ہجرت کا اعلان ہوا آپ سو گاؤں کے امیر تھے۔90 ہزار کے قافلے
کے آپ سربراہ بنے۔ جو لڑائیاں کرتا ہوا بہت کم نقصان کے ساتھ پاکستان پہنچا۔
پاکستان کے اندر چلنے والی ہر اسلامی تحریک میں انھوں نے بھرپور حصہ لیا۔ آپ کے
جنازہ پر موجود ہزاروں لوگوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی محنت رنگ لائی۔ اﷲ
آپ کو اعلیٰ علین میں جگہ عطا فرمائے۔!
)مجلہ الدعوۃ
مئی ۱۹۹۱(