قائدین
اہل حدیث !……..ذرا سوچئے
اے اکابرین اہل حدیث!
السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ‘ اﷲ نے آپ کو جماعت میں ایک بلند مقام عطا کیا
ہے۔ آپ جماعت کے لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں۔ کیا آپ اپنے اسی بلند مقام سے جماعت کو
نہیں دیکھتے کہ جمہوری سیاست کے تحت اب جماعت کا کیا حال ہوگیا ہے۔ جماعت کئی
سیاسی دھڑوں میں بٹ گئی ہے اور سخت بدنظمی اور انتشار کا شکار ہے۔ جماعت میں بے
دینی بھی بہت آ گئی ہے۔ تصویریں کھنچانا‘ مسجدوں میں فلمیں تیار کرنا اور فلمیں
دکھانا اب کوئی برائی نہیں سمجھی جاتی۔ شرکیہ نعرے لگانا اور شیعہ سنی بھائی بھائی
کے نعرے لگانا‘ اپنوں سے دشمنی کرنا اور غیروں سے میل جول کرنا اب معمول بن گیا
ہے۔ جمہوری نظام کی تمام برائیاں جلسے جلوس اور ہر طرح کا احتجاج حتیٰ کہ بھوک
ہڑتال اور دھرنا مارنا اب اہل حدیثوں کے نزدیک سب جائز ہو گئی ہیں۔ حتیٰ کہ اب اہل
حدیث میں علامہ مرحوم کی نسبت سے ایک ایسا فرقہ بھی بن گیا ہے جس کا مذہب علامہ
مرحوم کے سیاسی مشن کو لے کر چلنا ہے۔ اس فرقہ میں علامہ مرحوم کی وہ شخصیت پرستی
شروع کردی گئی ہے کہ شیعہ ماتمیوں اور بریلیوں کو بھی مات کر دیا ہے۔ علامہ مرحوم
کی قد آور تصویریں رکھنا اور بیچنا ‘ اپنے گھروں اور دفتروں میں لٹکانا اب ان کی
اہل حدیثی کا امتیاز بن گیا ہے۔ جماعت میں مختلف سیاسی جماعتیں بن جانے کی وجہ سے
اب اہل حدیث میں ایسی کشیدگی پیدا ہو گئی ہے کہ کسی عالم کی عزت محفوظ نہیں۔ اپنے
خلاف کوئی کسی کی حق بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ شرفاء کی پگڑیاں اچھالنا اب اہل
حدیث نوجوانوں کا معمول بن گیا ہے۔غرض یہ کہ دینی اور دنیوی اعتبار سے جماعت ایسی
گری ہے کہ اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔
اے اکابرین اہل حدیث!کیا آپ جماعت کی موجودہ حالت سے مطمئن ہیں ؟
اگر نہیں اور یقیناً نہیں۔ کیوں کہ آپ ماشاء اﷲ اہل حدیث ہیں اور ضرور اہل حدیث
والا دل بھی رکھتے ہوں گے اور کوئی اہل حدیث ایسا نہیں جو دل رکھتا ہو اور جماعت
کی زبوں حالی کو دیکھ کر اشک بار نہ ہوتا ہو۔ تو آپ کیوں نہیں سوچتے کہ جماعت کی
یہ حالت کیوں ہے اور کون اس کا ذمہ دار ہے اور اب اس کا کیا علاج ہے؟
اے اکابرین اہل حدیث! یہ حقیقت ہے کہ جماعت کو بنانا اور بگاڑنا
جماعت کے بڑوں کا ہی کام ہے۔ عوام ہمیشہ اپنے لیڈروں کے پیچھے ہی چلتے ہیں ‘ اس
لیے جماعت کے بگاڑ کی ساری ذمے داری جماعت کے لیڈروں کے سر ہی آتی ہے۔ جب دوزخ میں
دوزخیوں کو سز ا ملے گی تو چھوٹے اپنے اکابرین کو ہی مورد الزام ٹھہرائیں گے اور
کہیں گے ( اِنَّا
کُنَّا لَکُمْ تَبَعًا فَھَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا نَصِیْبًا مِّنَ
النَّارِ )[40:المومن:47](وَ قَالُوْا رَبَنَا اِنَّا اَطَعْنَا
سَادَتَنَا وَ کُبْرَآءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلاً )[33:الاحزاب:67]ہم تو تمھارے پیچھے
ہی چلتے تھے‘ تم نے ہی ہمیں گمراہ کیا۔ اصل میں اکابرین ہی قوم کے معمار ہوتے ہیں‘
قوم ان کے ہاتھوں میں ہی کھیلتی ہے‘ اگر بڑے مخلص اور فعال ہوں تو وہ قوم کو بہت
اونچا اڑاتے ہیں اور اگر وہ سیاسی شاطر ہوں اور مخلص نہ ہوں تو قوم کوقعر مذلت میں
گرا دیتے ہیں اور یہ مشاہدہ ہے کہ صحیح قیادت نہ ہونے کی وجہ سے ہی اہل حدیث جماعت
کی یہ حالت ہوئی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جمہوری سیاست بھی جماعت کے بگاڑ کا ایک بہت
بڑا سبب ہے‘ لیکن اصل ذمہ داری جماعت کے اکابرین ہی کی ہے۔ کیوں کہ جماعت میں
جمہوریت لانے والے بھی یہ اکابرین ہی ہیں۔ پھر اس جمہوریت نے اہل حدیث کو دینی
جماعت سے ایک سیاسی جماعت بنا دیا۔ پھر سیاسی جماعتوں والی تمام برائیاں اس میں آ
گئیں۔ اس جمہوریت کی وجہ سے ہی جماعت میں پارٹی بازی آئی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ
جمہوری سیاست ہو اور پارٹیاں نہ بنیں۔ مسلم لیگ کا جو حشر اس جمہوریت نے کیا اور
اب جو حشر پیپلز پارٹی کا ہو رہاہے ‘ اس سے بھی اکابرین اہل حدیث کی آنکھیں نہ
کھلیں۔ وہ جمہوری بن کر موم بتی کا نشان لے کر ہی رہے۔ (یاد رہے کہ موم بتی کا
نشان مرکزی جمعیت اہل حدیث نے الیکشن کے لیے تجویز کیا تھا) ان کو اپنا سراج منیر
اور اسکی تعلیم تو یاد نہ رہی ‘ وہ جمہوریت کی بتی پر فدا ہو گئے۔
اے اکابرین اہل حدیث!
کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جمہوری سیاست اہل حدیث کے لیے کبھی سازگار نہیں ہو سکتی‘
کیوں کہ جمہوریت سیکولرازم کا دوسرا نام ہے اور سیکولرازم لادینیت کو کہتے ہیں اورلادینیت
دین کی ضد ہے۔ جو نظام‘ دین کی ضد ہو وہ ایک دینی جماعت کے لیے کیسے سازگار ہو
سکتا ہے ؟ لا دینی کا نظام تو ایک دینی جماعت کو بے دین ہی بنائے گا۔ چنانچہ
جمہوریت کی وجہ سے اہل حدیث میں بے دینی آئی۔ اس کے علاوہ دین کہتا ہے ( وَ لاَ
تَفَرَّقُوْا )[3:آل
عمران:103]پارٹیاں نہ بناؤ ۔ جمہوریت کہتی ہے تفرقوا و کونوا شیعا زیادہ سے
زیادہ سیاسی پارٹیاں بناؤ۔ جمہوری نظام کی یہ دو برائیاں ‘ ایک لادینیت ‘ دوسری
پارٹی بازی ایک دینی جماعت کے لیے سخت خطرناک ہیں۔ اسی لیے جمہوریت اسلام کا سیاسی
نظام نہیں ہو سکتی۔اسلام کا سیاسی نظام خلافت و امارت ہی ہو سکتا ہے۔ جس میں صرف
ایک جماعت اور ایک امیر ہوتا ہے اور اقامت دین ان کا کام ہوتا ہے۔ اس جمہوریت نے
اپنی اس دو عملی سے دنیا کے تمام مسلمانوں کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ جمہوریت کی
وجہ سے نہ مسلمانوں میں دین رہا‘ نہ اتحاد۔ سب سے بڑا افسوس تو یہ ہے کہ اہل حدیث
نے سلفی کہلاتے ہوئے اپنے اسلاف کو نہ دیکھا کہ ان کا نظام سیاست کیا تھا اور ہر
مسئلہ میں تو اہل حدیث صحابہؓ کو دیکھتے ہیں‘ لیکن سیاست کے مسئلہ میں انھوں نے
صحابہ کو نہ دیکھا۔ اس مسئلے میں انھوں نے یا تو انگریز کو دیکھا یا پھر بھٹو اور
بے نظیر کو ‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنی سلفی راہ سے ہٹ گئے اور بالآخر بھٹک
گئے اور اب ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔
اے اکابرین اہل
حدیث!دیانت داری سے سوچیے!کیا ہمارے اسلاف کا سیاسی نظام خلافت و امارت نہ تھا؟
کیا حضرت ابوبکر صدیق خلیفۃ المسلمین نہ تھے یا حضرت عمر فاروق امیر المؤمنین نہ
تھے؟ جب آپ اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ خلیفۃ المسلمین تھے
اور حضرت عمرؓ اور ان کے مابعد کے تمام خلفاء امیر المؤمنین تو اب آپ کو نظام
امارت و خلافت قبول کیوں نہیں؟ کیا آپ کو اپنے اسلاف کا نظام پسند نہیں ؟ اگر پسند
نہیں تو اپنے ایمان کی خیر منائیں ۔ پھر اپنے آپ کو اہل حدیث اور سلفی نہ کہیں اور
اگر پسند ہے تو پھر جمہوریت سے توبہ کریں اور امارت وخلافت کے نظام کو قبول کریں۔
کیا یہ کوئی شک کی بات ہے کہ اسلام کا نظام سیاست خلافت و امارت ہے ‘ جمہوریت نہیں؟
کیا پوری اسلامی تاریخ میں حضرت ابوبکرؓ یا حضرت عمرؓ یا کسی اور خلیفہ کو کبھی
کسی نے جمہوری صدر کہا یا ان کی سلطنتوں کو کبھی کسی نے اسلامی جمہوریہ کا نام
دیا۔ جب کوئی ایسی چیز نہیں تو پھر اے اکابرین اہل حدیث آپ خلافت و امارت کے منصوص
اور مشہود اسلامی نظام سیاست کو چھوڑ کر جمہوریت کی طرف کیوں چلے گئے؟ کیا خلاف و
امارت کا نظام کوئی اختلافی نطام ہے جو آپ نے اس کو چھوڑ دیا؟ کیا خلافت و امارت
کا نظام مسلمانوں کا اجمائی نظام نہیں؟ کیا اس پر تمام صحابہ اور خیر القرون کا
اجماع نہیں؟ کیا ایسا اجماع کبھی کسی اور مسئلے پر بھی ہوا ہے ؟ جب خلافت و امارت
پر تمام صحابہ بلکہ تمام خیر القرون کا اجماع ہے اور پوری اسلامی تاریخ اس پر گواہ
ہے کہ ہر دور میں مسلمانوں کا نظام سیاست و حکومت خلافت و امارت ہی رہا ہے۔
جمہوریت کبھی مسلمانوں کا نظام سیاست و حکومت نہیں رہی‘ تو اب آپ اپنے اسلاف کی
راہ سے منحرف کیوں ہو گئے؟ کیا صحابہؓ کی اجماعی راہ سے انحراف اسلام سے انحراف
نہیں۔ کیا آپ کو(وَمَنْ
یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ
غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ )[4:النساء115]کی وعید سے ڈر نہیں
لگتا۔ اس کے بعدکیا آپ کو سلفی اور اہل حدیث کہلانے کا حق ہے ؟ جب آمین ‘ رفع
الیدین نہ کرنے والا اہل حدیث نہیں تو خلافت و امارت کا منکر اہل حدیث کیسے ہو
سکتا ہے؟ کیوں کہ جیسا خلافت و امارت کا مسئلہ اجماعی ہے‘ ویسے آمین و رفع الیدین
کے مسائل اجماعی نہیں۔ اس کے علاوہ اہل حدیث کی کوئی تعریف بھی کر لی جائے ‘ وہ
نظام خلافت و امارت کے مخالف پر کبھی صادق نہیں آ سکتی ۔ کیوں کہ اہل حدیث کی جو
تعریف بھی کی جائے ‘ قرآن وحدیث اور اجماع صحابہ بطور جنس و فصل یعنی جزو ماہیت کے
ضرور اس کا جزو ہوں گے اور نطام خلافت و امارت قرآن و حدیث اور اجماع صحابہؓ دونوں
سے ثابت ہے‘ اس لیے خلافت و امارت کا منکر اہل حدیث کی کسی تعریف کے تحت بھی اہل
حدیث نہیں ہو سکتا۔
اہل حدیث اکابرین نے
جمہوریت کو اسلامی جمہوریت کا جبہ پہنا کر اپنی جماعت کا سیاسی نظام تو بنا لیا ‘
لیکن یہ نہ سوچا کہ جمہوریت کا کیامزاج ہے اور اہل حدیث کا کیا ؟ جمہوریت مسلمانوں
کے کسی ملک میں بھی کامیاب نہیں‘ اس لیے کہ اسلام اور کفر کے مزاجوں میں زمین و
آسمان کا فرق ہے۔ مسلمانوں کا ہر نظام اسلامی ہو تو کام چل سکتا ہے ورنہ نہ وہ
نظام صحیح رہے گا ‘ نہ مسلمان صحیح رہیں گے۔ جمہوریت کے آجانے کے بعد مسلمانوں میں
پارٹی بازی اور بے دینی کا آنا یقینی امر تھا۔ چنانچہ جمہوری سیاست کے آجانے کے
بعد اہل حدیث جماعت پارٹی بازی اور بے دینی کا شکار ہو گئی۔ دینی جماعت کی زندگی ا
ور ترقی اس کے دینی نظاموں میں ہی مضمر ہے۔ کفر کے نظام سے اہل حدیث جیسی ایک دینی
جماعت کبھی نہیں چل سکتی ۔ بلکہ کفر کے نظام کے تحت نہ جماعت کی قیادت صحیح ہو
سکتی ہے ‘ نہ جماعت کی اصلاح۔ یہی وجہ ہے کہ اکابرین جماعت ‘ جماعت کی قیادت میں
بری طرح ناکام رہے۔ باوجوو مسلسل کوششوں کے اکابرین سے جماعت کی شیرازہ بندی نہ ہو
سکی۔ بلکہ شیرازہ بکھرتا ہی گیا۔ مرض بڑھتا ہی گیا جوں جوں دوا کی۔ نہ جماعت میں
تدین رہا‘ نہ پارٹی بازی کی وجہ سے دنیوی وقار۔ اختلافات اتنے شدید ہو گئے کہ
گروہی سیاست کو دین کی خدمت سمجھا گیا۔ جماعت کی دینی حیثیت تقریبا ختم ہو گئی۔
پہلے اہلحدیث ذہنی طور پر ایک دینی جماعت تھے‘ جب سے جمہوریت کا عمل دخل ہوا متعدد
جماعتیں وجود میںآ گئیں۔ ذہنی ہم آہنگی بھی ختم ہو گئی اور سیاسی افتراق بھی پیدا
ہو گیا اور یہ سب کچھ جمہوریت کی بدولت ہوا۔ جمہوریت میں جتنی جماعتیں زیادہ بنتی
ہیں‘جمہوریت اتنی آباد ہوتی ہے۔ مرکزی جمعیت شبان اہلحدیث کو پیدا کرکے خوش ہوئی
اور غیر مرکزی یوتھ فورس کو وجود میں لا کر نونہال ہوئی اور اب یہ جماعتیں ایک
دوسرے کے لیے وبال بنی ہوئی ہیں اور تقسیم در تقسیم ہوتی جا رہی ہیں۔ افسوس ناک
صورت یہ ہے کہ نئی جمعیت جس میں غبارے کی طرح ہوا بھری ہوئی تھی پھٹ گئی ہے اور اب
پیپلز پارٹی والا اس کا حال ہو رہا ہے جو بگولے کی طرح اٹھی اور غبارے کی طرح
پھٹی۔ پتا نہیں اب اس کا انجام کیا ہوگا اور یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا۔ اﷲ ہمیں
برے انجام سے بچائے۔
اگر اکابرین کا ذہن اسلامی ہوتا ‘ جمہوری نہ ہوتا تو کوئی ذیلی
یاظلی جماعت کبھی معرض وجود میں نہ آتی اور یہ ایام بد دیکھنے نصیب نہ ہوتے۔ اسلام
دوسری جماعت کو کبھی برداشت نہیں کرتا بلکہ (
وَ لاَ تَفَرَّقُوْا) کہہ کر دوسری جماعت بنانے پر سخت قدغن لگاتا ہے۔ چنانچہ خلافت
راشدہ میں جو اسلام کے نفاذ کا مثالی دور تھا‘ کوئی موافق یا مخالف ظلی
‘ یا بروزی‘ تحتی یا فوقی‘ ذیلی یا غیر ذیلی کوئی جماعت نہ تھی۔ کیا شبان ‘ کیا
کہول و شیوخ۔۔۔ سب ایک خلافت کے تابع تھے۔ جب ایک دفعہ ایک امیر کے تحت شرعی امارت
بن جائے تو پھر کوئی دوسری جماعت بنانا‘ بالکل جائز نہیں۔ بعض اہل حدیث یہ اعتراض
کرتے ہیں‘ کہ ہم ایک تیسری جماعت بنا رہے ہیں ۔ حال آنکہ ہم بالکل کوئی جماعت نہیں
بنا رہے‘ ہم تو بلکہ پہلی سیاسی جماعتوں کو ختم کررہے ہیں۔ ہماری کوشش تو یہ ہے کہ
ہم نظام امارت کو متعارف کروائیں۔ تاکہ ہر اہل حدیث کو دینی طور پر یہ احساس ہو جائے
کہ اسلام کا شرعی نظام خلافت وا مارت ہے‘ جمہوریت نہیں۔ جب صحابہؓ کا نظام خلافت و
امارت تھا تو ہم اہل حدیث جمہوری کیوں بنیں؟ ہم پارٹی پر پارٹی کیوں بنائیں۔ ہم سب
سیاسی جماعتوں کو ختم کرکے ایک امیر کے تحت ‘ ایک جماعت کیوں نہ بنائیں۔ تاکہ وہ
امیرحتی المقدور جماعت میں اسلام کو نافذ کرے اور یہی نظام خلافت و امارت کا مقصد
ہے۔ سمجھ میں نہیںآتا کہ ہمارے اکابرین نظام امارت کو قبول کیوں نہیں کرتے۔ کیوں
اپنی سیاسی جماعتوں کو ختم کرکے ایک امیر کے تحت ‘ ایک جماعت نہیں بناتے۔ اگر وہ
اب نظام امارت و خلافت کو تسلیم نہیں کرتے تو کیا جب امام مہدی خلیفہ بنیں گے تو
پھر وہ اس نظام خلافت و امارت کو تسلیم کر لیں گے یا اس وقت بھی وہ باغی ہی رہیں
گے؟ اگر اس وقت ان کو امام مہدی کو خلیفہ تسلیم کرنا ہے ‘ تو پھر وہ ابھی سے یہ
تسلیم کیوں نہیں کر لیتے کہ اہل حدیث کا سیاسی نظام خلافت و امارت ہے‘ جمہوریت
نہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ سیدھی طرح سے اہل حدیث بن کر نظام امارت کو تسلیم کریں
اور اپنی جمہوری سیاسی جماعتوں کو ختم کریں‘ تاکہ ایک جماعت اور ایک امیر کی بنیاد
ڈالی جا سکے۔
بعض سطحی سوچ والے اہل حدیث نظام امارت کا نام سن کر حیران ہوتے
ہیں کہ اس دور میں نظام امارت کی باتیں ! اب حالات بدل چکے ہیں۔ اب تو جمہوریت کا
دور ہے۔ اب نظام امارت نہیں چل سکتا ؟ اب ہمیں کہاں جہاد کرنا ہے ؟ جو یہ نظام
لائیں۔ یہ اس قسم کے اور بہت سے خیالات ہیں جو ہمارے کمزور ایمان والے جمہوری اہل
حدیثوں کے ذہنوں میں آتے ہیں اور یہ حقیقت میں شیطانی وسوسے ہیں۔ ایسے ہی شیطانی
وسوسے بے دین مسلمانوں کے ذہنوں میں اسلام کے بارے میں آتے ہیں اور وہ بالآخر یہی
نتیجہ نکالتے ہیں کہ اب نظام اسلام چل ہی نہیں سکتا جیسا کہ ہمارے کچے اہل حدیث یہ
نتیجہ نکالتے ہیں کہ اب نظام امارت چل نہیں سکتا۔ اصل میں جمہوریت نے ذہنوں کو
ایسا مفلوج کر دیا ہے کہ اسلام کے بارے میں اب ان میں صحیح سوچ اور فکر پیدا ہونا
بہت مشکل ہے۔ جمہوریت نے ہمتیں ایسی پست کر دی ہیں کہ اب اسلام کی طرف سے ان کے دل
و دماغ میں ناامیدی ہی ناامیدی ہے۔ اب اسلام کو دوبارہ لانا ان کے لیے جوئے شیر
لانے کے مترادف ہے۔ حال آنکہ جب کفر کا دور دورہ ہوتا ہے تو اسلام اسی وقت حرکت
میں آتا ہے۔ انبیاعلیہم السلام کفر کے دور دورہ ہی میں اسلام کا علم بلند کرتے ہیں
اور کفر کو الٹ پلٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ اصل میں عزم اور ہمت کی ضرورت ہے۔ انبیا کبھی
نہیں کہتے کہ اب کفر کا دور ہے ‘ اب اسلام نہیں آ سکتا۔انبیا عزم کرتے ہیں اور اﷲ
تعالیٰ کہتا ہے( بَلْ
نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہ‘ فَاِذَا ھُوَ زَاھِقٌ وَ
لَکُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ )[21:الانبیاء18]جب اہل حدیث محمد ﷺ کے خلیفہ اور جانشین
ہیں تو ا ن کا فرض ہے کہ وہ کفرکے دور سے مرعوب نہ ہوں بلکہ اس کو ختم کرکے اسلام
کے دور کو لانے کی کوشش کریں۔ اہل حدیث اگر اہل حدیث ہو ‘ جمہوری نہ ہو تو ابن
الوقت نہیں ہوتا۔ وہ کبھی نہیں کہتا کہ اب جمہوریت کا دور ہے۔ اب نظام امارت نہیں
آ سکتا۔ وہ اﷲکی تائید کے ساتھ حالات کو بدلتا ہے۔ حالات سے مرعوب نہیں ہوتا۔
ماحول سے متاثر نہیں ہوتا ‘بلکہ ماحول کو بدلنا اہل حدیث کا کام ہے۔ اہل حدیث
انبیا کا جانشین ہوتا ہے‘ اس لیے انقلابی ہوتا ہے۔ وہ انبیا کے اسوہ کو اپنا کر
انقلاب لاتا ہے۔
ہمارے بعض اکابرین جو
جمہوری ہیں اور نفاذ اسلام کا نام لیتے ہیں اور شریعت بل کے لیے بہت کوشش کرتے ہیں
وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس طرح جمہوری طریقوں سے اسلام کا نفاذ کرلیں گے ‘ اسی لیے وہ
نظام امارت کے بھی مخالف ہیں۔ ان کو یہ معلوم نہیں کہ نظام امارت ہی تو اسلام کو
لانے کا واحد طریقہ ہے۔نظام امارت کے بغیر نہ اسلام آیاہے‘ نہ کبھی آ سکتا ہے۔ کیا
تاریخ میں کوئی ایسی مثال ہے؟ نظام امارت کے بغیر کبھی اسلام آیا ہو یا جمہوریت
کبھی اسلام لائی ہو؟ اسلام جب بھی آتا ہے‘ نظام امارت ہی لایا ہے۔ کیوں کہ نظام
امارت اسلام کا سیاسی نظام ہے۔ اس لیے جب یہ آتے ہیں‘ اکٹھے آتے ہیں۔ جب جاتے ہیں
اکٹھے جاتے ہیں۔ ان کو کبھی علٰیحدہ نہیں کیا جا سکتا ۔ جمہوریت دین کی ضد ہے ‘ اس
لیے یہ کبھی اسلام نہیں لا سکتی۔ جماعت اسلامی جمہوریت سے اسلام لاتے لاتے بوڑھی
ہو گئی۔ اس سے نہ اسلام آیا نہ آئندہ امید ہے۔ مولانا مودودی جمہوریت سے ناامید ہو
کر ہی دنیا سے گئے۔ انھوں نے اقرار کیا کہ جمہوریت کے راستے سے کبھی اسلام نہیں آ
سکتا۔ جو نفاذ اسلام میں مخلص ہو اور اسے کچھ علم وادراک بھی ہو وہ ضرور تسلیم کرے
گا کہ اگر اسلام لانا ہے تو اپنے نظام سیاست کو بدلو۔ جب تک نظام سیاست کفر کا رہے
گا یعنی جمہوریت رہے گی‘ اسلام کبھی نہیں آ سکتا۔ انسانی زندگی کے تمام شعبوں کا
کنٹرولر نظام سیاست ہے۔ اگر نظام سیاست اسلام ہو جائے تو تمام شعبے اسلامی ہو سکتے
ہیں اور اسلام کا نفاذ ہو سکتا ہے۔ اور اگر نظام سیاست اسلامی نہ ہو تو کوئی شعبہ
بھی اسلامی نہیں ہو سکتا‘ نہ اسلام کا نفاذ ہو سکتا ہے ۔ اس لیے سب سے پہلے نظام
خلافت وامارت کو لانا ضروری ہے۔ کیوں کہ یہی اسلام کا نظام سیاست ہے۔ اس لیے اس کا
مخالف اسلام کا مخالف ہے۔ کیوں کہ اس کے بغیر اسلام آ نہیں سکتا۔ اسلام لانے کے
لیے پہلے نظام خلافت و امارت کو لانا چاہیے۔ اور اس کی ابتدا ہمیں اپنی جماعت سے
کرنی چاہیے۔ یہ ہمارے لیے نسبتا آسان بھی ہے اور شرعا ہم اس کے مکلف بھی ہیں کہ
پہلے اپنی جماعت کو ٹھیک کریں ۔ اس میں نظام امارت کو قائم کرکے اسلام کا نفاذ
کریں تاکہ ملک والوں کے لیے ایک مثال قائم ہو اور وہ دیکھ سکیں کہ اسلام کا نفاذ
ہو سکتا ہے۔
*****