ہم نماز میں رفع یدین کیوں کرتے ہیں؟

 بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

ہم نماز میں رفع یدین کیوں کرتے ہیں؟

اس لیے کہ ہم اﷲ کے فضل سے اہل حدیث ہیں اورقرآن وحدیث پر عمل کرنا اہل حدیث کا مذہبی شعار ہے۔ جب رفع یدین سنت ہے جو صحیح ترین احادیث سے ثابت ہے تو ہم اس سنت پر عمل کیوں نہ کریں۔ رفع یدین کی احادیث مختلف صحابہؓ سے تمام کتب احادیث میں مروی ہیں۔ سب سے صحیح حدیث حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کی ہے جو صحاح ستہ اور دیگر تمام کتب حدیث میں مذکور ہے۔ وھو ہذا:
(( عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عُمَرَ قَالَ رَأیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ  اِذَا قَامَ فِی الصَّلاَۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی تَکُوْنَا حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ وَ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ حِیْنَ یُکَبِّرُ لِلرَّکُوْعِ وَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ اِذَا رَفَعَ رَاْسَہ‘ مِنَ الرَّکُوْعِ وَ یَقُوْلُ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ‘ وَ لاَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ فِی السُّجُوْدِ)) ۱
عبداﷲ بن عمرؓ فرماتے ہیں ‘ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کودیکھا کہ وہ شروع نماز میں اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سراٹھاتے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے اور سجدہ میں آپ ایسا نہیں کرتے تھے۔
ماننے والوں کے لیے رفع یدین کے ثبوت میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کی ایک یہی حدیث کافی ہے کیونکہ یہ سب سے صحیح ہے ۔ا س کے مقابلے میں کوئی ایک حدیث صحیح تو درکنار اس کے پاسنگ بھی نہیں۔ امام بخاری کے استاد امام علی بن مدینی اس

حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں۔ رَفْعُ الْیَدَیْنِ حَقٌّ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ حُجَّۃٌ عَلَی الْخَلْقِ کُلُّ مَنْ سَمِعَہ‘ فَعَلَیْہِ اَنْ یَّعْمَلَ بِہِ۔ ۲یعنی اس حدیث کی رو سے رفع یدین کرنا ہر مسلمان پر حق ہے۔ یہ حدیث اتنی صحیح ہے کہ مخلوق پر حجت ہے جو اس کو سنے اس کو چاہیے کہ اس پرعمل کرے۔ مولانا انور شاہ کشمیری حنفی دیوبندی جو حنفیوں میں بہت بڑے محدث ہو گزرے ہیں او ر دارالعلوم دیو بند میں حدیث کے استاد رہے ہیں۔ ان کو بھی اپنے رسالہ ’’ نیل الفرقدین‘‘ صفحہ 26میں یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑی ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’ اَمَّا حَدِیْثُ ابْنِ عُمَرَ فَھُوَ حُجَّۃٌ عَلَی الْخَلْقِ کَمَا ذَکَرَہ‘ عَنِ ابْنِ الْمَدِیْنِیْ‘‘ ۳  یعنی امام علی ابن مدینی نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔ یہ حدیث ہر لحاظ سے اتنی صحیح ہے کہ سچ مچ ہی مسلمانوں پر رفع الیدین کو لازم کرتی ہے۔ کتاب الام میں امام شافعیؒ فرماتے ہیں: ’’لاَ یَجُوْزُ لِاَحَدٍ عَلِمَہ‘ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ عِنْدِیْ اَنْ یَّتْرُکَہ‘‘‘ ۴امام ابن جوزی بھی اپنی کتاب ’’نزہۃ الناظر‘‘ میں امام شافعیؒ کا ایک ایسا ہی قول نقل کرتے ہیں:’’ لاَ یَحِلُّ لِاَحَدٍ سَمِعَ حَدِیْثَ رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ رَفْعِ الْیَدَیْنِ اَنْ یَّتْرُکَ الْاِقْتِدَاءَ بِفِعْلِہ وَ ھٰذَا صَرِیْحٌ اِنَّہ‘ یُوْجِبُ ذٰلِکَ یعنی کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایسی صحیح حدیث سنے اور پھر رفع یدین نہ کرے۔ ایسی صحیح حدیث ہو تو اس پر عمل کرنا خود بخود واجب ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض ائمہ نماز میں رفع یدین کو واجب قرار دیتے ہیں۔ ایسی صحیح اور صریح حدیث کے بعد کسی اور حوالے کی ضرورت تو نہ تھی ‘ لیکن حنفیوں کے مزید اطمینان کے لیے ترمذی شریف سے ایک حوالہ نقل کیا جاتا ہے۔۵

امام ترمذی فرماتے ہیں رفع الیدین کی حدیث کے راوی صرف حضرت عبداﷲ بن عمرؓ ہی نہیں بلکہ حضرت عمرؓ‘ حضرت علیؓ ‘ حضرت وائل بن حجرؓ ‘ حضرت کعب بن مالک بن الحویرثؓ ‘ حضرت انسؓ ‘ حضرت ابوہریرہؓ ‘ حضرت ابوحمید ساعدیؓ ‘ حضرت ابواسیدؓ‘ حضرت سہل بن سعدؓ‘ حضرت محمد بن مسلمہؓ ‘ حضرت ابوقتادہؓ‘ حضرت ابوموسیٰ ؓ اشعری‘ حضرت جابرؓ حضرت عمیر اللیثی ؓ ۔۔۔ یہ صحابہؓ کرام بھی رفع الیدین کی حدیث کے راوی ہیں۔ دیگر کتابوں میں اور بہت سے صحابہؓ سے رفع یدین کی روایات آتی ہیں‘ لیکن سب کے نقل کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ مسئلے کے ثبوت کے لیے تو ایک ہی صحیح حدیث کافی ہے
رفع یدین منسوخ بھی نہیں
حنفی علما یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ حدیث تو صحیح ہے ‘ لیکن رفع یدین شروع میں تھی‘ پھر منسوخ ہو گئی‘ کیوں کہ:
1- جن صحابہؓ سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا رفع یدین کرنا مروی ہے ‘ ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بعد میں ترک کر دی تھی۔
2- حضرت عبداﷲ بن عمررضی اﷲ عنہ جو رفع یدین کی صحیح ترین روایت کے راوی ہیں حضور ﷺ کی وفات کے بعد بھی رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ۶ بلکہ جو رفع یدین نہ کرتا تو وہ اس کو کنکر مارتے ۷
3- حضرت مالک بن الحویرث 9 ھ میں گرمی میں مسلمان ہوئے‘ انھوں نے رسول اﷲ ﷺ کو متنازعہ رفع یدین کرتے دیکھا۔ ۸
4- حضرت وائل بن حجرؓ 9ھ میں سردی میں مسلمان ہوئے انھوں نے اس وقت بھی رسول اﷲ ﷺ کو رفع یدین کرتے دیکھا۔ پھر جب اگلے سال 10ھ میں وہ سردیوں میں دوبارہ مدینہ آئے تو انھوں نے اس وقت بھی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کرام کو رفع یدین کرتے دیکھا۔ ۹

اس سے ثابت ہوا کہ رسول اﷲ ﷺ 10ھ یعنی اپنی آخری زندگی میں رفع الیدین کرتے تھے۔
5- رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہؓ کا رفع یدین کرنا ۔ چنانچہ امام حسن بصری اور امام حمید بن ہلال بیان کرتے ہیں: 

(( کَانَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اﷲِ یَرْفَعُوْنَ )) ۱۰قریباً تمام صحابہؓ رفع یدین کرتے تھے۔
6- حضرت سعید بن جبیر جو جلیل القدر تابعی ہیں وہ بھی گواہی دیتے ہیں کہ حضور ﷺ کے صحابہ نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ۱۱
7- حضرت ابوحمید ساعدی ۱۲ کا دس صحابہؓ کی موجودگی میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر دکھانا اور اس میں رفع یدین کرنا اسی طرح حضرت ابوموسیٰ اشعری کا رفع یدین کے ساتھ نماز پڑھنا اور پھر کہنا کہ اس طرح نماز پڑھا کرو اور خاص کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رفع یدین کرکے نماز پڑھنا (تلخیص اور بیھقی ) ۱۳
یہ سب ایسے دلائل ہیں جن سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہوتا ہے کہ رفع یدین منسوخ نہیں ہوئی۔ اسی وجہ سے مولانا انور شاہ کشمیری کو ماننا پڑا۔
’’لَمْ یُنْسَخْ وَ لاَ حَرفٌ مِنْہُ ‘‘ ۱۴رفع یدین کی سنت کا منسوخ ہونا تو درکنار‘ رفع یدین کا ایک حرف بھی منسوخ نہیں ہوا۔ یعنی ان کو بھی تسلیم ہے کہ رفع یدین رسول اﷲ ﷺ کی دائمی اورمستقل سنت ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب رفع یدین رسول اﷲ ﷺ کی مستقل اور دائمی سنت ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہے اور منسوخ بھی قطعاً نہیں تو پھر حنفی نماز میں رفع یدین
کیوں نہیں کرتے‘ کیا حنفی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی احادیث کو نہیں مانتے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حنفی ‘ حنفی مذہب کا پابند ہوتا ہے ۔ چونکہ حنفی مذہب میں رفع یدین نہیں اس لیے حنفی رفع یدین نہیں کرتے۔ رہ گیا احادیث کے ماننے کا سوال تو حنفی صرف ان حدیثوں کو مانتے ہیں جو ان کے مذہب کے مطابق ہوں ‘ جو احادیث ان کے مذہب کے خلاف ہوں خواہ وہ کتنی بھی صحیح کیوں نہ ہوں حنفی ان کو نہیں مانتے۔ اگر حنفی احادیث کو مانیں تو وہ حنفی نہیں رہ سکتے۔ اگر انھوں نے احادیث کو ماننا ہو تو وہ حنفی کیوں بنیں؟ یہی وجہ ہے حنفیوں کے بہت سے مسائل حدیث کے خلاف ہیں۔ حنفیوں کا اصل مذہب حنفی ہے‘ وہ فقہ حنفی پر ہی چلتے ہیں خواہ وہ حدیث کے موافق ہو یا مخالف۔ حنفی اہل حدیث نہیں جو وہ حدیث پر چلیں۔ حدیث پر چلنا تو اہل حدیث کا کام ہے۔ اہل حدیث کسی کی تقلید نہیں کرتے کہ کسی کی فقہ ان کا مذہب ہو۔ ان کا مذہب تو حدیث ہے‘ جب حدیث صحیح ثابت ہو گئی تو وہ اس پر عمل کریں گے۔

انتباہ

بعض حنفی مولوی یہ کہہ کر عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ رفع یدین شروع اسلام میں تھی پھر منسوخ ہو گئی۔ اب ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ 10ھ تک بلکہ وفات تک رسول اﷲ ﷺ کا رفع یدین کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ جیسا کہ حضرت وائل اور دیگر صحابہ کرامؓ خاص کر عبداﷲ بن عمرؓ کے عمل اور بیان سے واضح ہے۔فَمَا زَالَتْ تِلْکَ صَلٰوتُہ‘ حَتّٰی لَقِیَ اﷲَ ۱۵یعنی ’’ رسول اﷲﷺ دنیا سے رخصت ہونے تک رفع یدین کرتے رہے‘‘ ۔۔۔ ملاحظہ ہو حنفیوں کی مشہور کتاب ’’ نصب الرایۃ فی تخریج احایث الھدایۃ‘‘ اب جس مولوی یا مفتی کا یہ دعویٰ ہو کہ رفع یدین منسوخ ہے تو اس کا فرض ہے کہ 10ھ کے بعد کی کوئی ایسی صحیح حدیث دکھائے جس میں یہ صراحت ہو کہ 10ھ کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم

نے رفع یدین بالکل ترک کردی تھی۔ رہ گئی عبداﷲ بن مسعودؓ اور براء بن عازبؓ کی روایات جن کو اکثر حنفی مولوی پیش کرتے ہیں تو اولا تو وہ سخت ضعیف ہیں‘ بڑے بڑے ائمہ محدثین
مثلا امام بخاری‘ امام احمد‘ امام ابوداؤد ‘ امام دار قطنی‘ وغیرھم ان کو ضعیف کہتے ہیں۔ ثانیا ان ضعیف احادیث کی تاریخ کا کوئی پتا نہیں کہ وہ 10ھ سے پہلے کی ہیں یا بعد کی۔ رفع یدین کو منسوخ ثابت کرنے کے لیے 10ھ کے بعد کی کوئی صحیح حدیث ہونی چاہیے۔ پہلے کی کسی حدیث کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر حنفی مولوی یہ ثابت نہ کر سکیں کہ یہ حدیث10ھ کے بعد کی ہے اور صحیح ہے جس سے ان کا دعویٰ ثابت ہوتا ہے۔ اور وہ ہر گز ثابت نہیں کر سکتے( لَوْ کاَنَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا)[17:الاسراء:88]تو ان کو خدا سے ڈرنا چاہیے ۔ انھیں رسول اﷲ ﷺ کی ثابت شدہ سنت رفع یدین کی مخالفت ہر گز نہیں کرنی چاہیے۔ جب رسولؐ اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت کا ترک بہت بڑا جرم ہے تو اس کی مخالفت کرنا کتنا بڑا جرم ہوگا۔

ترک سنت کی سزا
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
((سِتَّۃٌ لَعَنْتُھُم وَ لَعْنَھُمُ اﷲُ وَ کُلُّ نَبِیٍّ کَانَ الزاءِدُ فِی کِتَابِ اﷲِ وَالْمُکَذِّبُ بِقَدَرِ اﷲِ وَالْمُتَسَلِّطُ بِالْجَبَرُوْتِ لِیُعِزَّمَنْ اَذَلَّ اﷲُ وَ یُذِلَّ مَنْ اَعَزَّ اﷲُ وَالْمُسْتَحِّلُ لِحَرَمِ اﷲِ وَالْمُسْتَحِلُّ مِن عِتْرَتِیْ مَا حَرَّمَ اﷲُ وَالتَّارِکُ لِسُنَّتِیْ)) ۱۶
یعنی چھ شخصوں پر اﷲ کا رسولؐ بھی لعنت کرتا ہے اور اﷲ بھی لعنت کرتا ہے اور ان چھ شخصوں میں سے ایک وہ شخص ہے جو سنت رسول ؐ کا تارک ہو۔
کیا ان کو اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی لعنت سے ڈر نہیں لگتا جو رفع یدین جیسی اہم اور دائمی سنت کے صرف تارک ہی نہیں بلکہ مخالف بھی ہیں۔ جو اس سنت پر عمل کرتا ہے وہ اس کو برا جانتے ہیں۔ انجام بخیر چاہنے والے ہر حنفی کو چاہیے کہ وہ تعصب کوچھوڑ کر ٹھنڈے دل سے اس رسالہ کو پڑھے اور اپنے مولوی اور مفتی کو بھی پڑھائے پھر ان سے قرآن پر ہاتھ رکھوا کر قسم د ے کر پوچھے کہ کیا رفع یدین سنت نبویؐ نہیں ؟ کیا واقعی یہ منسوخ ہے جس مولوی یا مفتی کے دل میں ذرا بھی آخرت کا خوف ہوگا وہ یہ رسالہ پڑھ کر کبھیبھی قرآن پر ہاتھ کر قسم نہیں کھائے گا کہ رفع یدین سنت نبویؐ نہیں۔یا یہ منسوخ ہے۔ برعکس اس کے کہ ہم اہل حدیث ہر وقت قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا سکتے ہیں اور بڑے دعوے سے کہ سکتے ہیں کہ مذہب اہل حدیث اﷲ اور رسولؐ کا مذہب ہے جو یقیناًحق ہے۔ رفع یدین سنت رسولؐ ہے صحیح ترین احادیث سے ثابت ہے جس پر آپؐ آخر تک عمل کرتے رہے۔ یہ سنت ہر گز منسوخ نہیں جو جھوٹ پر قسم کھائے گا اس پر یقیناًخدا کی لعنت ہوگی۔

اﷲ ہر مسلمان کو حق پر چلنے اور رفع یدین جیسی سنت نبویؐ پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ وہ ترک سنت کی وجہ سے اﷲا و رسول کی لعنت سے بچ جائے۔
والھدایۃ بیداﷲ ولا حول و لا قوۃ الا باﷲ

*************************************************************
۱ (بخاری ‘ کتاب الاذان‘ باب الی این یرفع یدیہ ‘رقم 736:۔۔۔ مسلم: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب استحباب رفع الیدین حذوالمنکبین مع تکبیرہ الاحرام والرکوع و فی الرفع من الرکوع و انہ لا یفعلہ اذا رفع من السجود ‘ رقم 211:۔۔۔ ابوداؤد: کتاب الصلوۃ‘ باب رفع الیدین فی الصلوۃ ‘رقم721:۔۔۔ ترمذی: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب رفع الیدین عند الرکوع ‘ رقم 255:۔۔۔ نسائی : کتاب الافتتاح ‘ باب رفع الیدین حذوا المنکبین ‘رقم879: ۔۔۔ ابن ماجۃ : کتاب ابواب اقامۃ الصلوات و السنۃ فیھا ص2548‘ رقم (858:
۲ (جزء رفع الیدین رقم (2: ۳ (نیل الفرقدین ص (26:
۴ (کتاب الام ‘ باب رفع الیدین فی التکبیر فی الصلٰوہ ج 1 ص(91
۵ (ترمذی :ابواب الصلٰوہ ‘ باب رفع الیدین عند الرکوع ‘ رقم(256:
۶ (بخاری:کتاب الاذان‘ باب رفع الیدین اذا قام من الرکعتین‘ رقم (739:
۷ (جزء رفع الیدین رقم (15:
۸ (بخاری : کتاب الاذان ‘ باب رفع الیدین اذا کبر و اذا رکع وا ذا رفع‘ رقم 737۔۔۔مسلم: کتاب الصلوۃ ‘ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام والرکوع و فی الرفع من الرکوع و انہ لا یفعلہ اذا رفع من السجود‘ عن مالک بن حویرث ‘رقم (23:
۹ (نسائی :کتاب التطبیق ‘ باب مکان الیدین من السجود ‘رقم 1103:۔۔ ابوداؤد: ابواب تفریع استفتاح الصلوۃ ‘ باب رفع الیدین فی الصلوۃ ‘ رقم (726:
۱۰(جزء رفع الیدین رقم (30:۱۱(جزء رفع الیدین رقم (39:
۱۲ (ابوداؤد: ابواب تفریع استفتاح الصلوۃ ‘ باب افتتاح الصلوۃ ‘ رقم 73:۔۔۔صحیح ابن خزیمہ کتاب الصلوۃ ‘ باب الاعتدال فی الرکوع والتجانی و وضع الیدین علی الرکبتین 297/1رقم 587: عن ابی حمید الساعدی ) ۱۳(بیہقی کتاب الصلوۃ ‘ باب رفع الیدین عند الرکوع و عند رفع الراس منہ ج 2ص 73 ( ۱۴ (نیل الفرقدین ص (22:
۱۵ (تلخیص الحبیر 218/1‘کتاب الصلوۃ ‘ باب صفۃ الصلوۃ رقم 328:‘ نصب الرایۃ ‘کتاب الصلٰوۃ ‘ باب صفۃ الصلٰوۃ ‘ ج 1ص 483)
۱۶ (ترمذی‘ کتاب القدر‘ باب اعظام امرالایمان بالقدر‘ ص 1868‘رقم الحدیث2154: ۔۔ مشکٰوۃ المصابیح ‘ کتاب الایمان ‘ باب الایمان بالقدر‘ 38/1 رقم الحدیث109:)