روزہ کب افطار کرنا چاہیے؟
1– (( عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ اِذَا اَقْبَلَ اللَّیْلُ مِنْ ھٰھُنَا وَ اَدْبَرَ النَّھَارُ مِنْ ھٰھُنَا وَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ اَفْطَرَ الصَّائمُ )) ۱
حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا:جب مشرق کی طرف سے سیاہی نمودار ہوجائے اور مغرب کی طرف سورج غروب ہو جائے تو روزہ کھل گیا۔
2–(( عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ اَبِیْ اَوْفٰی قَالَ کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَّ فِیْ سَفَرٍ وَ ھُوَ صَائمٌ فَلَمَّا غَایَتِ الشَّمْسُ قَالَ لِبَعْضِ الْقَوْمِ یَا فُلَانُ قُمْ فَاجْدَح لَنَا فَقَالَ یٰا رَسُوْلَ اﷲِ لَوْ اَمْسَیْتَ قَالَ اَنْزِلْ فَاجْدَح لَنَا قَالَ یٰا رَسُوْلَ اﷲِ فَلَوْ اَمْسَیْت قَالَ اَنزِلْ فَاجْدَح لَنَا قَالَ اِنَّ عَلَیْکَ نَھارًا قَالَ اَنْزِل فَاجْدَح لَنَا فَنَزَلَ فَجَدَحَ لَھُمْ فَشَرِبَ النَّبِیُّ صلی اﷲ علیہ وسلم ثُمَّ قَالَ اِذَا رَأیْتُمُ اللَّیْلَ قَدْ اَقْبَلَ مِنْ ھٰھُنَا فَقَد اَفْطَرَ الصَّائمُ )) ۲
حضرت عبداﷲ بن ابی اوفیٰ فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں حضور ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ ؐ روزے سے تھے‘ آپ نے ایک ساتھی سے کہا : اٹھ‘ ستو تیار کر۔ اس نے کہا: یارسول اﷲ ابھی تو دیر ہے۔آپ نے فرمایا: تو اتر اورستو پانی میں ڈال ۔ اس نے کہا یارسول اﷲ ﷺ ابھی تو دن ہے ‘ آپ نے فرمایا: اتر اور ستوبگھو ۔ پھر اس نے ستو بھگوئے آپؐ نے نوش فرمائے۔ پھر آپؐ نے فرمایا جب مشرق کی طرف سے سیاہی نظر آنے لگے تو روزہ ختم ہو جاتا ہے۔
3– وَاَفْطَرَ اَبُوْسَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ حِیْنَ غَابَ قُرْصُ الشَّمْسِ ۳
حضر ت ابوسعید خدریؓ نے سورج کی ٹکیا کے غروب ہونے پر روزہ افطارکر دیا۔
مندرجہ بالا صحیح صریح احادیث نبوی سے یہ بات ثابت ہوئی کہ افطار کا وقت غروب شمس ہے۔ جب سورج غروب ہوجائے یعنی اس کا قرص غائب ہو جائے تو روزہ کھل جاتا ہے۔ سرخی یا روشنی کو دیکھتے رہنا سنت نبوی کے خلاف ہے اور غلط ہے۔
4— (( عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدٍ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ لاَ یَزَالُ النَّاسُ بِخَیْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ)) ۴
مسلمانوں کی حالت اس وقت تک اچھی رہے گی جب تک روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے۔
5– ((عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ قَالَ اﷲُ تَعَالیٰ اَحَبُّ عِبَادِیْ اِلَیَّ اَعْجَلُھُمْ فِطْرًا ))۵
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا اﷲ کے وہ بندے زیادہ پیارے ہیں جو روزہ جلدی افطار کرتے ہیں۔
6– عَنْ اَبِی عطیہ قَالَ دَخَلْتُ اَنَا وَ مَسْرُوْقٌ علٰی عَائشَۃَ فَقَالَ لَھَا مَسْرُوْقٌ رَجُلاَنِ مِنْ اَصْحَابِ مُحَمَّدٍ کِلاَھُمَا لاَ یَألُوْ عَن الْخَیْر اَحَدُھُمَا یُعَجِّلُ الْمَغْربَ وَالاِفْطَارَ فَقَالَتْ وَالاٰخَرُ یُؤَخِّرُ الْمَغْرِبَ وَالْاَفْطَارَ مَنْ یُّعَجِّلُ الْمَغْربَ وَالاِفْطَار قَالَ عَبداﷲِ فَقَالَتْ ھٰکَذَا رَسُوْلُ اﷲِ یَصْنَعُ)) ۶
حضرت ابی عطیہ سے روایت ہے کہ میں اورحضرت مسروق حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مسروق نے عرض کیا کہ حضور ﷺ کے دو صحابی ہیں جو نیکی کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے ‘ ایک مغرب کی نماز اور افطاری میں جلدی کرتا ہے اور دوسرا تاخیر۔ دونوں میں سے صحیح کون ہے۔ حضرت عائشہ نے پوچھا جلدی کرنے والا کون ہے ؟ اس نے کہا حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ ۔ وہ فرمانے لگیں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا طریقہ بھی یہی تھا کہ وہ افطاری جلدی کرتے تھے اور مغرب کی نماز بھی جلدی پڑھتے تھے۔‘‘
7– (( عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قاَلَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ اِنَّا مَعْشَرَ الْاَنْبِیَاءِ اُمِرْنَا اَنْ نُّعَجَّلَ اِفْطَارَنَا وَ نُؤَخِّرْ سُحُوْرَنَا وَ نَضَعُ اَیْمَانَنَا عَلٰی شَمَالِنَا ))۷
’’ تمام انبیا کو یہ حکم ہے کہ وہ روزہ جلدی افطار کریں اور سحری دیر سے کھائیں اور نماز میں دایاں ہاتھ بائیں پر رکھیں۔
8– ((عَنْ عَمْرو بْنِ مَیْمُوْنِ الاودی قَالَ کَانَ اَصْحَابُ مُحَمَّدٍ اَسْرَعُ النَّاسِ اِفْطَارًا وَ اَبْطَاءُھُمْ سَحُوْرًا))۸
عمرو بن میمون الاودی کا بیان ہے کہ اصحاب رسول ؐ روزہ کھولنے میں بہت تیز تھے اور سحری کھانے میں بہت لیٹ
9– ((عَنْ اَنَسٍ بْنِ مَالِکٍ مِنْ فِقْہِ الرَّجُلِ فِیْ دِیْنِہ تَعْجِیْلُ فِطْرِہ وَ تَاْخِیْرُ سُحُوْرِہَ وَ تَسَحَّرُوْا فَاِنَّ فِی السُّحُوْرِ بَرَکَۃٌ )) ۹
انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ روزہ جلدی افطار کرنا اور سحری دیر سے کھانا دین میں سمجھ دار ہونے کی دلیل ہے‘‘ آپ نے یہ بھی فرمایا سحری ضرور کھایا کرو۔ یہ کھانا بہت برکت والا ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ روزہ جلدی افطار کرنا نہ صرف یہ کہ سنت رسولؐ اور اسوہ صحابہؐ ہے‘ بلکہ اس میں اپنی خیریت اور دین کی حفاظت ہے۔ جو لوگ روزہ دیر سے افطار کرتے ہیں وہ ذاتی نقصان کے علاوہ دین کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ خواہ انھیں اس کا احساس ہو یا نہ ہو۔ آپ نے پیش گوئی کے طور پر فرمایا :
(( لاَ یَزَالُ الَّذِیْنَ ظَاھِرًا مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ لِاَنَّ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی یُؤخِّرُوْنَ )) ۱۰
دین اس وقت تک غالب رہے گا جب تک مسلمان روزہ جلدی افطار کرتے رہیں گے۔ جب مسلمانوں میں روزہ دیر سے افطار کرنے کی عادت پڑ جائے گی تو دین کمزور ہو جائے گا۔ روزہ دیر سے افطار کرنا یہود و نصاریٰ کی خصلت ہے۔ غیروں کے فضائل کو اپنانا اور سنت رسول کو چھوڑ دینا دین کی بربادی ہے۔
اے مسلمان بھائیو! پھر سوچیں کہ افطاری میں سنت رسولؐ کیا ہے ؟ افطاری میں سنت رسول ؐ سورج کا غروب ہونا ہے‘ نہ کہ سرخی یا روشنی کا انتظار کرنا۔ دیکھیں سورج کب غروب ہوتا ہے ۔ جب سورج غروب ہو جائے فوراً روزہ افطار کر دیں۔ نہ گولے کا انتظار کریں‘ نہ اذان کا۔ سورج ڈوب جانے کی تسلی خود کرنی چاہیے۔ گولہ یا سائرن پر نہیں رہنا چاہیے۔ یہ تو سورج غروب ہونے کے کئی منٹ بعد بجتے ہیں۔اخباروں میں طلوع و غروب دیا ہواہوتا ہے ‘ اس کے مطابق غروب کی تسلی کرکے روزہ چھوڑ دیں۔ سحری دیر سے کھائیں اور روزہ جلدی افطار کریں۔ یہی مسنون طریقہ ہے۔
و ما علینا الا البلاغ
************************************************************
۱( بخاری : کتاب الصوم ‘ باب متی یحل فطر الصائم ؟ ‘ رقم 1954: ۔۔ مسلم :کتاب الصوم ‘ باب بیان وقت انقضاء الصوم و خروج النھار‘ ص 853 رقم 51:)
۲ (بخاری:کتاب الصوم ‘ باب یفطر بما تیسر من الماء او غیر ہ ‘ رقم 1955: ۔۔ مسلم کتاب الصوم ‘ باب بیان وقت انقضاء الصوم وخروج النھار ‘ رقم52:)
۳ (بخاری: کتاب الصوم‘ باب متی یحل الفطر الصائم ‘ رقم (1954:
۴ (بخاری: کتاب الصوم‘ باب تعجیل الافطار‘ رقم 1957:۔۔۔ مسلم : کتاب الصوم ‘باب فضل السحور و تاکید استحبابہ و استحباب تاخیرہ و تعجیل الفطر‘ رقم48:)
۵( ترمذی: کتاب الصوم ‘باب ما جاء فی تعجیل الافطار‘ رقم (701:
۶ (مسلم:کتاب الصیام ‘ باب فضل السحور و تاکیدا ستحبابہ و استحباب تاخیرہ و تعجیل الفطر ‘ رقم(50:
۷(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ البانی 376/4 من اٰداب الافطار‘ والسحور من حدیث ابن عباس مرفوعاً صحیح الجامع الصغیر و زیادتہ رقم 2282:۔۔۔ سنن دارقطنی 283/1 باب فی اخذ الشمال باالیمین فی الصلٰوۃ عن ابن عباسؓ )
۸( فتح الباری 199/4 رقم الحدیث1957کتاب الصوم باب تعجیل الافطار )
۹ (مصنف ابن ابی شیبۃ کتاب الصیام 8/3 المعجم الصغیرطبرانی 94/1 رقم الحدیث243:)
۱۰ (ابوداؤد‘ کتاب الصیام‘ باب ما یستحب من تعجیل الفطر‘ رقم 2353:۔۔ ابن ماجۃ ‘ کتاب الصیام ‘ باب ما جاء فی تعجیل الافطار ‘ رقم 1698: ۔۔۔ ابن خزیمۃ : کتاب جماع ابواب وقت الافطار‘ و ما یستحب ان یفطر علیہ 275/3باب ذکر ظہور الدین ما عجل الناس ‘ رقم (2060