رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

۱۔ السلام علیکم ۔!

ب۔ وعلیکم السلام و رحمۃ اﷲ و برکاتہ ۔!کہیے کیسے آنا ہوا؟

ا۔ ایک مسئلہ دریافت کرنا تھا۔

ب۔ وہ کیا ؟

ا۔ بعض لوگ رکوع کے بعد بھی ہاتھ باندھ لیتے ہیں ‘ یہ کیسا ہے ؟

ب۔ یہ ایسا  ویسا ہی ہے ‘ یہ کوئی مسئلہ نہیں۔

ا۔ کیا اس کا کوئی ثبوت  نہیں ؟

ب۔ نہیں اس کا کوئی ثبوت نہیں ‘ اگر کوئی ثبوت ہوتا تو سب کو ہی نظر آتا ۔ جب چاند نکل آتا ہے تو سب کو نظر آجاتا ہے۔

ا۔ بشرط یہ کہ آنکھیں  ہوں۔

ب۔ آنکھیں تو ہر اہل حدیث کی ہوتی ہیں‘ وہ اہل حدیث ہی کیا ہوا جس کی آنکھیں نہ ہوں۔

ا۔ پیر آف جھنڈا صاحب تو کہتے ہیں کہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کا ثبوت ملتا ہے۔

ب۔ ارے بھائی! وہ ثبوت نہیں ‘ وہ مغالطہ ہے۔ جیسے بعض کو چاند کا دھوکا لگ جاتا ہے اور پھر وہ اس دھوکا کو ہی چاند سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح ان بزرگوں کو  دھوکا لگ گیا ہے اور اب وہ ا س دھوکا کو ہی ثبوت سمجھتے ہیں حال آنکہ وہ ثبوت نہیں۔ آپ سوچیں اگر کوئی ثبوت ہو تو سارے اہل حدیثوں میں سے ان صاحبان کو ہی نظر آئے باقی عالموں کو نظر  نہ آئے۔ کیا اور اہل حدیث عالم نہیں ؟ آخر کیا بات ہے جو اوروں کو وہ ثبوت نظر نہیں آتا۔ صرف پیر صاحب اور ان کے چند ساتھیوں کو ہی وہ ثبوت نظر آتا ہے؟

ا۔ وہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کا آخر کیا ثبوت دیتے ہیں ؟

ب۔ ثبوت کیا دینا تھا قیاس اور استدلال کرتے ہیں۔

ا۔ کوئی صریح حدیث پیش نہیں کرتے؟

ب۔ کوئی حدیث ہو تو پیش کریں ۔

ا۔ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کی کیا  کوئی صریح حدیث نہیں ؟

ب۔ اگر کوئی حدیث ہو تو پھر اختلاف کیسا ؟ پھر کون اہل حدیث ہے جو ہاتھ باندھنے سے انکار کرے۔؟

ا۔ کیا کسی صحابی کا بھی کوئی قول یا عمل نہیں؟

ب۔ ارے بھائی! نہ کسی صحابی کا ‘ نہ کسی تابعی کا‘ نہ کسی تبع تابعی کا۔ حتی کہ کسی محدث نے بھی اپنی تصنیف میں اس کا ذکر تک نہیں کیا۔

ا۔ پھر یہ لوگ کہاں سے لیتے ہیں ؟

ب۔ لینا کہاں سے تھا۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘ ادھر ادھر ہاتھ مارتے ہیں۔ کبھی (( اِذَا کَانَ قَائِمًا فِی الصَّلٰوۃِ ))  کے عموم سے استدلال کرتے ہیں ۔ کبھی ’’وَرَاَیْتُہ‘ مُمْسِکًا یَمِیْنَہ‘ عَلٰی شَمَالِہٖ‘‘  کا سہارا لیتے ہیں۔  کہ اس کا ذکر رکوع کے بعد ہوا ہے۔ لہٰذا رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے ثابت ہو گئے۔ کبھی ’’ فِی الصَّلٰوۃِ ‘‘  کو عام بناتے ہیں۔ کبھی’’ وَضَعَ کَفَّیْہِ ‘‘ کو ہاتھ ڈالتے ہیں۔ حال آنکہ ہاتھ کہیں پڑتا نہیں۔

ا۔ آپ کہتے ہیں ‘ ہاتھ کہیں پڑتا نہیں حال آنکہ  ’’اِذَا کَانَ قَائِمًا فِی الصَّلٰوۃِ قَبَضَ یَمِیْنَہ‘ عَلٰی شَمَالِہٌ‘‘  کا عموم تو بڑی زبردست دلیل ہے۔

ب۔ میرے بھائی اگر یہ زبردست دلیل ہوتی تو کوئی نہ کوئی محدث اس حدیث سے ضرور استدلال کرتا کہ رکوع کے بعد والے قیام میں بھی ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ یہ بھی سنت رسول ؐ ہے۔لیکن کسی محدث نے اس سے استدلال نہیں کیا۔ اور باب باندھ کر صراحت نہیں کی کہ اس  حدیث کے عموم میں رکوع کے بعدوالا قیام بھی شامل ہے 

اور پھر ساری امت کا عمل بھی اس استدلال کے خلاف ہے۔ اگر یہ زبردست دلیل ہوتی  تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنے اہل علم اور اتنے اہل حق کا عمل اس کے خلاف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (دارقطنی 289/1 باب فی اخذ الشمال بالیمین فی الصلوۃ )

 (نسائی ‘ کتاب الافتتاح ‘ باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلوۃ ‘ص 2144 رقم (888

ہوتا۔

۱۔ ہاں یہ بات تو ضرور ہے مگر حدیث کے الفاظ بڑے واضح ہیں۔  ’’اِذَا کَانَ قَائِمًا فِی الصَّلٰوۃِ  کہ جب بھی آپؐ نماز میں قیام کرتے‘  ہاتھ باندھتے۔

ب۔ میرے بھائی یہ حدیث پہلے قیام کے بارے میں ہے‘ دوسرے قیام کے بارے میں  نہیں۔ یہی محدثین نے سمجھا ہے اور یہی امت کی اکثریت نے۔ اسی لیے محدثین نے اس کو رکوع کے بعد والے قیام پر فٹ نہیں کیا۔ اسی لیے وہ پہلے قیام میںہی  ہاتھ باندھنے کا ذکر کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ ہاتھ باندھنے کی احادیث لاتے ہیں اور دوسرے قیام کے ساتھ ہاتھ باندھنے کی کوئی حدیث نہیں لاتے۔

ا۔ حدیث میں تو پہلے یا دوسرے قیام کا کوئی ذکر نہیں‘ حدیث تو عام ہے کہ آپ ؐ جب بھی قیام کرتے ہاتھ باندھتے۔

ب۔ یہی تو میرے بھائی سمجھنے کی بات ہے۔ یہیں سے تو عام لوگ دھوکا کھاتے ہیں۔ قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی لفظ مطلق بولا جاتا ہے تو اس سے مراد فرد کامل ہوتا ہے۔ اگر اس کے افراد برابر کے ہوں جیسا کہ کلی متواطی کے ہوتے ہیں۔ اور اگر اس کے افراد متساوی نہ ہوں بلکہ متفاوت ہوں جیسا کہ کلی مشکک کے ہوتے ہیں تو خاص فرد مراد ہوتا ہے ۔ اب قیام کے دو فرد ہیں۔ ایک رکوع سے پہلے‘ ایک رکوع کے بعد ۔ دونوں میں بہت فرق ہے۔ پہلا قیام اول اولیٰ ہے۔ دوسرا قیام اس کے مقابلے میں بہت ادنی ٰ ہے۔ اس لیے جب مطلق قیام کا لفظ بولا جائے گا‘ تو خاص قیام یعنی پہلا ہی مراد ہوگا۔ دوسرامراد نہیں ہو سکتا۔ اسی اصول کے تحت محدثین نے ’’ اِذَا کَانَ قَائِمًا فِی الصَّلٰوۃِ ‘‘ سے پہلا قیام ہی مراد  لیا ہے۔ اور ہاتھ باندھنے کے سلسلے میں دوسرے قیام کا ذکر نہیں کیا ہے۔

ا۔ ہم ان قاعدوں کو نہیں جانتے ۔ ہم تو موٹی بات جانتے ہیں کہ حدیث عام ہے یعنی نبی اکرم صلی اﷲ ﷺ جب بھی قیام کرتے ہاتھ باندھتے اور قیام دو ہیں اس لیے دونوں قیاموں میں ہاتھ باندھنے چاہئیں۔

ب۔ یہ قاعدے تو ہم روز مردہ کی زندگی میں بھی استعمال کرتے ہیں اور عام بھی۔ میں بھی آپ سے موٹی بات کرتا ہوں‘ آپ بتائیں اہل حدیث کا جلسہ ہو اور کوئی کہے کہ پیرصاحب تشریف نہیں لا رہے توکون سے پیر صاحب مراد ہوں گے؟

۱۔ پیر آف جھنڈا ہی مراد ہوں گے اور کون مراد ہو سکتا ہے؟

ب۔ اسی طرح اگر کوئی کہے  کہ روپڑی صاحب آ گئے ہیں تو کون مراد ہوگا؟

ا۔ حافظ عبدالقادر ہی مراد ہو سکتے ہیں اور کون ہو سکتا ہے ؟

ب۔ اب آپ ہی بتائیں ‘ آپ نے پیر اور روپڑی سے یہ دو بزرگ کیسے مراد لے لیے کہ اہل حدیثوں میں اور کوئی روپڑی یا پیر نہیں ۔

ا۔ لیکن مشہور تو یہی ہیں۔

ب۔ بس میرے بھائی یہی قائدہ ہے کہ جب لفظ مطلق بولا جائے توا س سے مراد بڑا اور مشہور فرد ہی  لیا جاتا ہے‘ جیسے آپ نے پیر اور روپڑی سے  پیرجھنڈا اور عبدالقادر روپڑی ہی مراد لیے ہیں۔ اسی طرح مطلق قیام کے لفظ سے پہلا قیام ہی مراد لیا جاتا ہے ۔ کیوں کہ نماز میں بڑا اورمشہور قیام پہلا ہی ہے۔دوسرا قیام ایسا نہیں کہ مطلق قیام سے وہ مراد ہو ‘ کیوں کہ پہلے جیسا وہ مستقل رکن نہیں ‘ مستقل رکن تو وہ پہلا قیام ہی ہے‘ یا پھر رکوع اور سجدہ ہیں‘ جن کو تسمیتہ الجزء باسم الکل کے تحت نماز کہہ دیتے ہیں۔ اسی لیے کبھی قیام سے مراد نماز ہوتی ہے اور اسی سے قیام اللیل اور قیام رمضان کے محاورے بنے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں قیام اللیل اور قیام رمضان کا محاورہ پہلے قیام کی وجہ سے ہے یا دوسرے قیام کی وجہ سے ہے۔ 

ا۔ یہ محاورہ تو پہلے قیام کی وجہ سے ہی ہے۔

ب۔ اس سے بھی واضح  مثال یہ ہے  مَنْ قَامَ بِعَشَرِ اٰیٰتِ لَمْ یُکْتَبْ مِنَ الْغَافِلِیْنَ   

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (ابوداؤد ‘ کتاب شہر رمضان‘ باب تحزیب القرآن ص1327رقم 1398۔۔۔ صحیح ابن خزیمۃ‘ کتاب جماع ۔۔ ابواب صلوۃ التطوع  باللیل باب فضل القرأت الف آیۃ فی لیلۃ ان صح الخبر181/2رقم 1144۔۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 244/2رقم 642۔۔۔ مشکٰوۃ   کتاب الصلوۃ ‘باب صلوۃ اللیل‘ فصل ثانی‘ 377/1 رقم 1201)

جس نے دس آیات کے ساتھ قیام کیا وہ غافلوں میںشمار نہیں ہوگا۔

اسی طرح کی اور بہت سی احادیث ہیں جن میں قیام سے مراد نماز ہے اور یہ معنی  پہلے قیام کی وجہ سے ہی لیے گئے ہیں کیوں کہ پہلا قیام ہی  نماز کا اہم رکن ہے۔

ا۔ جب قیام سے مراد نماز ہو تو پھر اس میں دوسرا قیام بھی آ جاتا ہے  کیوں کہ وہ بھی نماز میں شامل ہے۔ 

ب۔ اس طرح سے تو رکوع ‘ سجدہ اور قعدہ بلکہ نماز کا ایک ایک جزو شامل ہو جاتا ہے  کیوں کہ یہ سب نماز میں شامل ہیں‘ لیکن یہ شمول نماز کے مفہوم کی وجہ سے ہے۔ لفظ قیام کی وجہ سے نہیں۔ جب قیام سے مراد نماز لے لی تو عموم مجا زکی صورت بن گئی۔ خود قیام بھی عموم مجاز کا ایک فرد بن گیا۔ اب اگر دوسرا قیام اس میں شامل ہوگا تو وہ عموم مجاز کی وجہ سے شامل ہوگا۔لفظ قیام کی وجہ سے شامل نہیں ہوگا۔ ان بزرگوں نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا۔ نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ کہتے ہیں کہ         {وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا}:25]فرقان[64: اس قیام میں دونوں قیام شامل ہیں حا ل آنکہ ان کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس آیت میں اگر { سُجَّدًا وَّ قِیَامًا} کو حقیقی معانی میں لیا جائے تب بھی دوسرا قیام مراد نہیں ہو سکتا کیوں کہ وہ سجدے کے مقابلے میں نہیں آ سکتا۔معنی یہ ہوں گے کہ رحمٰن کے بندے ایسے بھی ہیں جو رات کو کبھی اپنے رب کے آگے سربسجود ہوتے ہیں او ر کبھی قیام کی حالت میں ہوتے ہیں اور اگر اس قیام سے مراد دوسرا قیام ہو تو اس کی وجہ تخصیص کیا ہے ؟ پہلے قیام کی وجہ تخصیص تو ظاہر ہے کہ وہ ایک مستقل اور بڑا رکن ہے اور سجدے کے مقابلے کا رکن ہے دوسرے قیام جیسا تو جلسہ سجدتین بھی ہے۔پھر اس کی کیا وجہ کہ اﷲ اس جلسے کا تو کہیں ذکر نہ کرے اور دوسرے قیام کا ذکر کردے۔ رکوع اور آخری قعدہ اس قیام سے بھی زیادہ اہم ہے‘ اس کا ذکر نہیں کیا۔ صرف سجدہ اور پہلے قیام کا ذکر ہے ‘ اس لیے کہ یہ دونوں نماز کے سب سے اہم رکن ہیں  باقی ارکان ان سے کم اہم ہیں۔سجدے اور پہلے قیام کی وجہ ترجیح تو موجود ہے اگر دوسرے قیام کو آپ شامل کرتے ہیں تو پھر اس کی وجہ ترجیح کیا ہوگی۔ اگر سُجَّدًا وَّ قَیَامًا  کو مجازی معنی میںلیا جائے ‘ یعنی ان سے مراد نماز ہو تو بھی دوسرا قیام شامل نہیں ہو سکتا کیوں کہ دوسرے قیام سے مراد نماز نہیں ہو سکتی۔ دوسرا قیام نماز کے معنی میں کبھی استعمال نہیں ہوتا ۔ اگر عموم مجاز کی صورت میں آپ دوسرے قیام کو شامل کریں گے تو پھر وہ صرف ’’قیاما‘‘ میں شامل نہیں ہوگا  بلکہ ’’سجدا‘‘ میں بھی اسی طرح شامل ہوگا۔ اور یہ شمول آپ کے لیے مفید نہیں۔ کیوں کہ اس سے آپ کا دعویٰ ثابت نہیںہو سکتا۔ میرے بھائی! آپ کو بڑا مغالطہ یہ ہے کہ لغت میں دونوں کو قیام کہتے ہیں ۔ حال آنکہ عام بول چال اور محاورے میں لغت کو نہیں دیکھا کرتے۔عرف کو دیکھتے ہیں۔ لغت کے اعتبار سے تو حضرت عمرؓ  اور حضرت عباس ؓکے ہر بیٹے کو ابن عمر اور ابن عباس ہی کہیں گے ‘ لیکن عرف میں ابن عمرؓ اور ابن عباسؓ صرف حضرت عبداﷲ بن عمرؓ اور عبداﷲ بن عباسؓ ہی کو کہتے ہیں۔ عبیداﷲ بن عمر ؓاور فضل بن عباسؓ  کو   ابن عمرؓ اور ابن عباسؓ نہیں کہتے حال آنکہ لغت کے اعتبار سے وہ بھی ابن عمر اور ابن عباس ہی ہیں۔ اسی طرح شریعت کے عرف میں عشر 1/10اور 1/20 دونوں کو کہتے ہیں ۔ حال آنکہ لغت کے اعتبار سے 1/20عشر نہیں نصف عشر ہے۔ اب جو نصف عشر دیتا ہو‘ اس کے بارے میں یہ نہیں کہیں گے کہ یہ عشر نہیں دیتا۔ اس کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ یہ بھی عشر دیتا ہے‘اگرچہ وہ نصف عشر دیتا ہے‘ اسی طرح لغت کے اعتبار سے  ایک روپیہ  بھی مال ہے اور ایک لاکھ روپیہ بھی مال ہے‘ لیکن عرف میں ایک روپے والے کو مال دار نہیں کہتے ‘ ایک لاکھ والے کو ہی مال دار کہتے ہیں۔ اسی طرح عرف میںجب بھی مطلق قیام کا لفظ آئے گا ‘ اس سے پہلا قیام ہی مراد ہوگا  اگرچہ لغت کے اعتبار سے دوسرا بھی قیام ہے اور عرف عوام کا نہیں بلکہ شریعت کا عرف ہے۔اب یہ سوال کرنا بالکل غلط ہے کہ ’’ کیا عرف عام کو شریعت کے مقابلے میں دلیل بنا کر پیش کرنا جائز ہے ؟‘ جب یہ عرف ہی شریعت کا ہے کہ مطلق قیام سے مراد پہلا قیام ہی ہوتا ہے تو اس سے انکار کیسا؟دوسرے قیام کے لیے جب بھی قیام کا لفظ آئے گا تو اس کے ساتھ صراحت ہوگی ‘ یہ رکوع کے بعد والا قیام ہے جیسا کہ حدیث میں ہے:

’’ثُمَّ اِرْفَعْ حَتّٰی تَعْتَدِلَ قَائِمًا‘‘ 

یا یہ حدیث ہے :

’’ثُمَّ یَقُوْلُ وَ ھُوَ قَائِمٌ  رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ‘‘

اسی طرح اور بہت سی مثالیں ہیں کہ جہاں دوسرے قیام کا ذکر ہے وہاں وضاحت ہے‘ لیکن  جب بغیر کسی خاص قرینے کے قیام کا لفظ ہوگا تو اس سے پہلا قیام ہی مراد ہوگا وہاں دوسرا قیام مراد نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ مشکوۃ شریف میں ہے۔

’’فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ اَطَالَ فِیْھِمَا الْقِیَامَ وَالرَّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ ‘‘ 

آپ نے دو رکعت نماز پڑھی جس میں قیام‘ رکوع‘ اور سجدہ لمبا کیا۔‘‘

اسی طرح صلوۃ الخسوف کے سلسلے میں حضرت ابوموسیٰ  ؓکی متفق علیہ حدیث میں ہے:

ا۔ فَصَلّٰی بِاَطْوَلَ قِیَامٍ وَّ رُکُوْعٍ وَّ سُجُوْدٍ مَا رَاَیْتُہ‘ قَطُّ یَفْعَلُہ‘  آپ نے لمبے قیام اور لمبے رکوع سجدے کے ساتھ ایسی لمبی نماز پڑھی کہ میں نے کبھی پہلے آپ کو  اتنی لمبی نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔

جزء القراء ۃ صفحہ 27پر ہے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ( صحیح مسلم ‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب ما یجمع صفۃ  الصلوۃ  و ما یفتح بہ و ما یختم بہ ‘ ص 755 رقم 240۔۔۔ نسائی‘ کتاب الافتتاح ‘ باب العمل فی افتتاح الصلوۃ ص 2143 رقم 877 ۔۔ مشکوۃ ‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب صفۃ الصلوۃ ‘فصل اول ‘رقم 791)

 (بخاری:کتاب الاذان ‘ باب التکبیر‘ اذا قام من السجود‘ ص 62 رقم 789۔۔۔ مسلم:کتاب الصلوۃ ‘ باب اثبات التکبیر فی کل خفض و رفع فی الصلوۃ ‘ص 740 رقم (28

 ( صحیح مسلم‘ کتاب صلوۃ المسافرین ‘ باب صلوۃ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم و دعائہ باللیل‘ص 798 رقم 191‘ مشکوۃ ‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب صلوۃ اللیل‘ فصل اول‘ رقم 1196)

 (صحیح البخاری‘کتاب الکسوف‘باب الذکر فی الکسوف‘ ص83‘ رقم 1059۔۔صحیح مسلم ‘ کتاب الکسوف ‘ باب ذکر النداء بصلاۃ الکسوف‘ ص 821 رقم 24)

قَالَ اَتَیْتُ اَبَا سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ فَقَالَ اِنَّ صَلٰوۃَ الْاُولٰی کَانَتْ تُقَامُ مَعَ  رَسُوْلِ اﷲِ فَیَخْرُجُ اَحَدُنَا اِلَی الْبَقِیْعِ فَیَقْضِیْ حَاجَتَہ‘ ثُمَّ یَاْتِیْ مَنْزِلَہ‘ فَیَتَوَضَّائُ ثُمَّ یَجِیْئُ اِلَی الْمَسْجِدِ فَیَجِدُ رَسُوْلَ اﷲِ قَائِمًا  فِی الرَّکْعَۃِ الْاُوْلٰی۔ 

یہ اوراس قسم کی بہت سی احادیث ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قیام کا لفظ جب اکیلا بغیر کسی واضح قرینے کے استعمال ہوگاتواس سے مراد پہلا قیام ہی ہوگا۔ بلکہ حضرت براء بن عازبؓ والی  حدیث جو بخاری شریف میںہے  اس میں پہلے قیام کو ہی قیام کہا ہے۔ دوسرے قیام کو قیام ہی نہیں کہا۔ اس کو  وَاِذَا رَفَعَ مِنَ الرَّکُوْعِ سے ہی تعبیر کیا ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صحابہ ؓ میں مطلق قیام کا لفظ پہلے قیام کے لیے ہی مشہور تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا ‘ بلکہ مطلق قیام کے لفظ میں دونوں مشترک ہوتے تو وہ مَاخَلاَ الْقِیَامَ وَالْقُعُوْدَ  میں مطلق قیام نہ کہتے‘ دونوں قیاموں کی وضاحت کرتے۔ اب صحابی نے قیام پہلے کو ہی کہا ہے ۔ دوسرے قیام کو ’’ رفع من الرکوع ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اس کو قیام نہیں کہا۔ یہ بزرگ اس نقطے کو تو سمجھے  نہیں ‘ یہ کہہ دیا کہ یہاں قیام سے مراد قیام قبل الرکوع ہے۔ کیوں کہ یہاں قرینہ موجود ہے۔ حال آنکہ جب دونوں کا ذکر علٰیحدہ علٰیحدہ موجود ہے تو قرینے کی ضرورت ہی نہیں۔ یہاں تو یہ دیکھنا ہے کہ جب پہلے کو قیام کہا ہے تو دوسرے کو قیام کیوں نہیں کہا۔ اس کو پہلے قیام کے مقابلے میں رَفَعَ مِنَ الرَّکُوْعِ سے کیوںتعبیر کیا۔ اس حدیث سے یہ ثابت ہو گیا کہ پہلے قیام کے مقابلے میںدوسرے قیام کی کوئی حیثیت نہیں ۔ جہاں مطلق قیام کا لفظ ہوگا وہاں قیام سے مراد صرف پہلا ہی قیام ہوگا۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کا انکار مکابرہ ہے۔ پتا نہیں ہمارے ان بزرگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی کھلی ہوئی حقیقت کا انکار کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (صفۃ الصلوۃ النبی للشیخ البانی ؒ ص 112 )

ا۔ اگر آپ کا یہ اصول مان بھی لیا جائے کہ مطلق قیام سے پہلا قیام ہی مراد ہے ‘ لیکن اس سے تو آپ بھی انکار نہیں کریں گے کہ دوسرا قیام بھی آخر قیام ہے ۔اگر اس کو پہلے پر قیاس کر لیا جائے تو اس میں بھی ہاتھ باندھ لیے جائیں تو کیا حرج ہے ؟

ب۔ ارے بھائی!یہ قیاس صحیح نہیں۔ یہ ادنیٰ کا اعلیٰ پر قیاس ہے۔ پہلے قیام میں اور دوسرے قیام میں بڑا فرق ہے ۔ پہلا قیام نماز کا بڑا اور مستقل رکن ہے جس میں الحمداﷲ شریف کی قرأت کی جاتی ہے اور اس کو پا لینے سے رکعت ہو جاتی ہے۔ دوسرا قیام ایسا مستقل رکن نہیں بلکہ رکوع کے بعد سجدہ میں جانے کی تیاری کے لیے ہے۔  جیسے دوسجدوں کے درمیان بیٹھنا دوسرے سجدے  کی تیاری کے لیے ہے‘اسی طرح کا یہ قیام ہے ۔ ان دونوں کی شرط اطمینان و اعتدال ہے ‘ جس کی حد یہ ہے کہ ہر ہڈی کا جوڑ اپنی جگہ پر آ جائے جس کی مقدار ایک تسبیح بھی ہو سکتی ہے ۔ پہلے قیام کے مقابلے میں دوسرے قیام کی کوئی حیثیت نہیں حتی کہ بہت سی روایتوں میں توا س کا ذکر بھی  نہیں کیوں کہ یہ کوئی پہلے قیام جیسا مستقل رکن نہیں جیسا کہ صلوۃ الکسوف کے سلسلہ میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ کی متفق علیہ حدیث میں رکوع سے پہلے والے قیام کا تو تفصیلی ذ کر ہے لیکن بعد والے قیام کا بالکل ذکر نہیں۔ اس کے لیے ثُمَّ رَفَعَ ثُمَّ سَجَدَ  کے الفاظ پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔

اسی طرح ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کی حدیث جو رفع الیدین کے سلسلے میں ہے۔ اس میں کَانَ یَرْفَعُ  یَدَیْہِ حِیْنَ یَرْکَعُ وَ حِیْنَ یَسْجُدُ  ہی ہے۔ اس میں رکوع سے اٹھنے اور اٹھتے وقت رفع الیدین کرنے کا ذکر ہی نہیں کیوں کہ رکوع کے بعد کا قیام سجدے کے لیے کیا جاتا ہے ‘ اس لیے اس کو  حین یسجد 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ( صحیح البخاری‘ کتاب الکسوف ‘ باب صلوۃ الکسوف جماعۃ‘ ص 83 رقم 1052۔۔ صحیح مسلم ‘ کتاب الکسوف‘ باب ما عرض علی النبی ﷺ فی صلوۃ الکسوف من امر الجنۃ والنار‘ص820 رقم 17۔۔ مشکوۃ :  ‘ کتاب الصلوۃ ‘باب صلوۃ الکسوف‘     467/1رقم 1472)

 (ابن ماجۃ ‘ ابواب اقامۃ الصلوات ‘باب رفع الیدین ‘ اذا رکع  و اذا رفع راسہ من الرکوع‘ ص 2547 رقم 860)

سے  ہی تعبیر کر لیا۔گویا کہ رکوع سے اٹھتے وقت کی رفع الیدین سجدے کے لیے ہی تھی ۔اسی طرح اور بہت سی احادیث ہیں جن میں دوسرے قیام کا ذکر صرف 

اشارۃ ہے۔برعکس اس کے کہ پہلا قیام مستقل رکن ہے۔ وہ کتنا بھی مختصر ہو ‘ الحمد شریف کی قرأت سے کم نہیں ہو سکتا۔ اس کا اتنا لمبا ہونا ضروری ہے کہ الحمد صحیح طور پر پڑھی جا سکے ورنہ رکعت ہی نہیں ہوگی۔ جب دونوں قیاموں کی نوعیت میں اتنا فرق ہے تو دوسرے قیام کا پہلے پر قیاس کیسے ہو سکتا ہے؟بلکہ قیاس تو یہ چاہتا ہے کہ ان کی ہیئتوںمیں بھی ضرور فرق ہو۔ پہلے قیام میںہاتھ باندھے جائیں اور دوسرے قیام میں ہاتھ چھوڑے جائیں کہ کون سا قیام ہے‘ پہلا یا دوسرا۔کیوں کہ پہلے قیام میں شامل ہونے سے رکعت ہو جائے گی ‘ رکوع کے بعد والے قیام میں شامل ہونے سے رکعت نہیں ہوگی۔ 

ا۔ پھر دوسرے قیام میں ہاتھوں کی پوزیشن کیا ہوگی ؟

ب۔ ہاتھ کھلے چھوڑے جائیں گے کیوں کہ جب رکوع کا حکم دے کر ہاتھ کھلوا دیے اور پھر دوبارہ باندھنے کا حکم نہیں ہے‘ تو اب ہاتھ کھلے ہی رہیں گے جب تک دوبارہ باندھنے کا حکم نہ ہو۔

ا۔ لیکن رکوع ‘ سجدے ‘ جلسے اور قعدے میں تو تفصیل بتادی کہ ہاتھ یوں رکھے جائیں ‘ دوسرے قیام میں صراحتا حکم کیوں نہیں دیا کہ ہاتھ چھوڑے جائیں یا باندھے جائیں۔

ب۔ جب تک باندھنے کا حکم دوبارہ نہ آئے پہلا ہاتھ چھوڑ دینے کا حکم جاری رہے گا۔ گویا وہ حکم اب بھی موجود ہے  کہ ہاتھ باندھے نہ جائیں۔ رکوع کے بارے میں بتا دیا کہ ہاتھ یوں گھٹنوں پر رکھنے ہیں۔ جلسے اور قعدے کے بارے میں بتادیا کہ ہاتھ یوں رانوں پر رکھنے ہیں توگویا ساری نماز میں ہاتھ کھلے ہی رکھنے ہیں۔ رکوع ‘ سجدے ‘ جلسہ و قعدہ میں چوں کہ ارسال نہیں ہو سکتا تھا‘ اس لیے ان کے بارے میں ہدایات جاری کر دیں کہ ان چاروں حالتوں میں ہاتھوں کو یوں کھلا رکھا جائے‘ تاکہ یگانگت رہے اور اختلاف نہ ہو۔دوسرے قیام میں چوں کہ مکمل ارسال ہو سکتا تھا اور وہ ہاتھوں کی ایک فطری حالت ہے جس میں کسی اختلاف کاا ندیشہ نہ تھا  ۔ اس لیے اس کے بارے میں کوئی ہدایت جاری نہیںکی۔ یہی کہا کہ اس طرح سے سیدھے کھڑے ہو جائو کہ ہر ہڈی اپنی اصلی جگہ پر آ جائے۔ ایک دفعہ ہاتھوں کو کھلوا دینے کے بعد پھر باندھنے کا حکم نہ دینا۔ گویا  ہاتھوں کو چھوڑنے کا حکم ہے۔ جب  ہاتھ ایک دفعہ کھل گئے تو پھر جب تک باندھنے کا حکم دوبارہ نہ ہو ہاتھوں کوکیسے باندھا جا سکتا ہے۔

ا۔ جب سجدہ تلاوت ہو تو ہاتھ اس وقت بھی کھل جاتے ہیں‘پھر کھڑے ہو کر ہاتھ  دوبارہ  باندھنے کی کیا دلیل ہے ؟

ب۔ ارے بھائی! اس وقت تو پہلا قیام ہی ختم نہیں ہوتا ‘ سجدہ تلاوت تو پہلے قیام ہی کا حصہ ہوتا ہے  کیوں کہ اسی کے تابع ہوتا ہے۔ جب تک پہلا قیام رہے گا ‘ ہاتھ بندھے ہی رہیں گے۔ اگر رکوع  ‘ عارض ہو جائے ‘ جیسا کہ صلوۃ کسوف میں ہوتا ہے یا سجدہ عارض ہو جائے جیسا کہ سجدہ تلاوت میں ہوتا ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب دوبارہ کھڑ ے ہوں گے تو پھر ہاتھ باندھ لیں گے‘ کیوں کہ ابھی پہلا قیام جاری ہے اور پہلے قیام سے مراد وہ قیام ہے جو قرأت کا محل ہے‘ خواہ اس کے دوران رکوع آ جائیں یا تلاوت کے سجدے آ جائیں۔ ہاتھوں کو باندھنا اس کا خاصا ہے۔ ان لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی۔ انھوں نے اپنے پاس سے ہی ایک قاعدہ وضع کرکے ہمارے سر تھوپ دیا کہ گویا ہم اس کے قائل ہیں  کہ وضع قرأت کو مستلزم ہے اور پھر اس  پر بے کار کئی سوالات کر دئیے۔ حال آنکہ ہم یہ کہتے ہی نہیں کہ وضع قرأت  کو مستلزم ہے۔ ہم تو یہ کہتے ہیں  وضع  اس قیام کو مستلزم ہے جو قیام قرأت کا محل ہے۔ جس قیام میں قرأت نہیں‘ اس  میں وضع بھی نہیںاور یہی دونوں قیاموں میںاصل فرق ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ پہلا قیام سجدہ تلاوت  کے بعدبھی جاری رہتا ہے کیوں کہ سجدہ تلاوت کے بعد والا قیام بھی قرأت کا محل ہے۔ لہذا یہ سوال عبث ہے کہ سجدہ تلاوت کے بعد ہاتھ باندھنے کی کیا دلیل ہے ؟ جب پہلا قیام سجدہ تلاوت کے بعد بھی جاری رہتا ہے تو کھڑے ہو کر ہاتھ باندھنے کے لیے کسی نئی دلیل کی ضرورت نہیں۔ جس دلیل  کے تحت شروع نماز میں ہاتھ باندھے تھے ‘ وہی دلیل اب بھی کام دے رہی ہے۔برعکس اس کے جب پہلا قیام جو قرأت کا محل تھا‘ ختم ہو جائے گا‘ پھر پوری رکعت  میں دوبارہ ہاتھ باندھنے کی کوئی دلیل نہیں۔جب پہلا قیام ختم ہوا تو ہاتھ کھول دینے کا حکم ہو گیا۔ پھر پوری رکعت میںہاتھ باندھنے کا حکم نہیں ہوا۔ رکوع ‘ سجدہ‘ اور جلسہ قعدہ کے لیے علیحدہ تقصیلی حکم آ گیا۔دوسرے قیام کے لیے کوئی نیا حکم نہیں آیا۔ اس میں پہلے حکم کے تحت ہاتھ کھلے ہی رہیں گے۔ رہ گیا۔ ’’ اِذَا کَانَ قَائِمًا‘‘ کے عموم سے استدلال تو یہ بالکل صحیح نہیں۔ کیوںکہ دوسرا قیام حدیث کے عموم میں شامل نہیں جیسا کہ پہلے ثابت کیا جا چکا ہے۔

۱۔ اگر رکوع کے بعد والے قیام کو  ’’ اِذَا کَانَ قَائِمًا‘‘ کے عموم سے نکال دیا جائے تو پھر حدیث تو عام نہ رہی۔

ب۔ عام کیوں نہ رہی ؟ عام تو پھر بھی ہے۔ جب تک پہلے قیام کا عموم باقی رہے گا۔  اذا کا عموم بھی باقی رہے گا۔ معنی یہ ہوں گے کہ آپ جب بھی پہلا قیام کرتے  ‘ خواہ کوئی نماز ہو ‘ کوئی رکعت ہو‘ آپ ہاتھ باندھتے۔

ا۔ قیام کے  دو ہی فرد تھے ۔ ایک رکوع سے پہلے ‘ ایک رکوع کے بعد‘ اگر رکوع کے بعد والا قیام نکال دیا جائے تو پھر قیام کا صرف ایک فرد رہ جائے گا پھر عام کیا رہے گا؟

ب۔ ’’ما ‘‘اور ’’من‘‘ اور اسم جنس کی صورت میں عام کی تخصیص ایک فرد تک بھی ہو سکتی ہے۔ اگر ایک فرد بھی باقی رہ جائے تو پھر بھی عام عام ہی رہتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے  {فَاِنْ خِفْتُمْ اَنْ لاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ}:4]النساء[3: اس آیت میں{ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ} عام تھا جس کے دو فرد تھے۔ ایک غلام اور ایک لونڈی۔ غلام یہاں مراد نہیں ہو سکتا‘ کیوں کہ نکاح کا ذکر ہے۔ اس لیے یہاں صرف لونڈی ہی مراد ہوسکتی ہے۔ اب  {اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ }عام بھی ہے اور مراد بھی ایک  ہی فرد یعنی لونڈی ہے۔ اس طرح  ’’ اِذَا کَانَ قَائِمًا‘‘   میں پہلا قیام ہی مراد ہے اور وہ عام ہے کہ آپ جب بھی پہلا قیام کرتے ‘ خواہ کوئی نماز ہوتی یا کوئی رکعت ہوتی ‘ آپ ہاتھ باندھتے۔ عام سے استدلال کرنے میں لوگ بڑی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ عام کو اتنا  عام سمجھ لیتے ہیں کہ وہ متکلم کی مراد سے بھی تجاوز کر جاتا ہے حال آنکہ عام کے لیے ضروری ہے کہ متکلم کی مراد سے متجاوز نہ ہو۔ کیوں کہ عام میںخصوص کا احتمال بہت رہتا ہے۔ اکثر عام مخصوص ہوتے ہیں۔

ا۔ اس کا پتا کیسے لگتا ہے کہ یہ عام مخصوص ہے ؟

ب۔ کبھی خارجی قرائن  سے ‘ کبھی داخلی قرائن سے ا ور کبھی متکلم کی وضاحت سے۔

ا۔ یہاں تخصیص کا خارجی قرینہ کیا ہو سکتا ہے ؟

ب۔ یہی کہ اگر رکوع کے بعد والا قیام ’’ اِذَا کَانَ قَائِمًا‘‘ کے عموم میںشامل ہوتا تو اہل حق کی اتنی کثیرتعداد رکوع کے بعد والے قیام میں ہاتھ نہ چھوڑتی۔ امت کی اتنی اکثریت کا یہ عمل‘ جس میں یقینا اہل حق بھی شامل ہیں اس بات کا زبردست قرینہ ہے کہ رکوع کے بعد والا قیام ’’ اِذَا کَانَ قَائِمًا‘‘ کے  عموم میںشامل نہیں۔ اگر شامل ہوتا تو امت کا عمل کبھی ارسال نہ ہوتا۔

ا۔ اس تعامل امت کے پیش کرنے پر تو پیر صاحب کہتے ہیں کہ یہ کافروں والی دلیل ہے۔ کافر بھی اپنے عقیدے اور عمل کے لیے ایسی ہی دلیل پیش کیا کرتے تھے۔

چنانچہ قرآن مجید میں ان کا قول {اِنَّا وَجَدْنَا اٰبَائَ نَا عَلٰی اُمَّۃٍ وَ اِنَّا عَلٰی اَثَارِھِمْ مُھْتَدُوْنَ }:43]الزخرف[22: مذکور ہے۔

ب۔ میرے بھائی! اگرایسی دلیل پیش کرنا کافروں کا طریقہ ہے تو پیر صاحب اپنی تائید میں حنبلیوں کے نام کیوں گنواتے ہیں۔ کبھی خانپوری‘ کبھی نورستانی اور کبھی گکھڑوی کا نام کیوں لیتے ہیں ؟ ہم امت کی اکثریت کا‘ جس میں لازماً اہل حق بھی شامل ہیں عمل پیش کریں تو یہ کافروں والا طریقہ ہو اور پیر صاحب چند مقلدوں کے نام گن دیں تو یہ اسلام ہو جاتے ۔ کیا یہ انصاف ہے؟ امت کی یہ اکثریت جو رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑتی ہے‘ اگر کہیں  پیر صاحب کی طرف ہوتی تو پتا نہیں ان کا کیا حال ہوتا ۔ وہ لازماً ہم سے بھی زیادہ شد و مدسے کافروں والا طریقہ اختیار کرکے امت کا عمل پیش کرتے۔امت کی یہ اکثریت جو رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑتی ہے‘اس کو بطور دلیل پیش کرنا کافروں والا طریقہ نہیں ۔ کافروں کا طریقہ تو جاہل اور گمراہ آبا کو حق کے مقابلے میں پیش کرنا تھا۔ اگر آبااہل علم اور اہل حق ہوں تو ان کو پیش کرنے کے خلا ف تو قرآن بھی نہیں۔ چنانچہ {حَسُبْنَا ماَ وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَائَ نَا } کے جواب میں قرآن کہتا ہے :{اَوَ لَوْ کَانَ اٰبَآئُ ھُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ شَیْئًا وَّ لاَ یَھْتَدُوْنَ } :5]المائدۃ[104:اگرچہ ان کے باپ دادا بے علم اور بے ہدایت ہوں۔ (تو کیا پھر بھی ان کو وہ کافی سمجھیں گے۔ ؟ )جس کا صاف  مطلب یہ ہے کہ اگر ان کے آبا اہل حق ہوںتو پھر بات اور ہے۔یوسف علیہ السلام نبی ہی تھے جنھوں نے  {وَاتَّبَعْتُ مِلَّۃَ اٰبَائِیْ } :12]یوسف[38:کہا تھا‘ کوئی ہم جیسا معمولی آدمی تو نہیں تھا۔قرآن تو بالکل مومنوں کی راہ اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور کہتا ہے : {وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ } :31]لقمان [15:ان کی راہ پر چل ‘ جو میری طرف رجوع کرتے ہیں۔ پھر کہتا ہے : { وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی }:4]النساء[115: جو مومنوں کی راہ نہیں چلے گا‘ ہم اس کو ادھر ہی دھکا دیں گے جدھر وہ جائے گا۔ اگر اہل حق کا عمل دلیل نہیں تو خدا ان کی راہ اختیا رکرنے کا حکم کیوں دیتا ہے۔ اگر اہل حق کا علم و عمل حجت نہیں تو خدا {اَوْ اَثٰرَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ }:46]الاحقاف[4: کہہ کر ایسی دلیل کا مطالبہ کیوں کرتا ہے۔{وَمَنْ عِنْدَہ‘ عِلْمُ الْکِتٰبِ} :13]الرعد[43: کی شہادت کیوں پیش کرتا ہے اور{ فَاسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقْرَئُوْنَ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکَ }:10]یونس[94:اور {فَاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ }:16]النحل[43: کا حکم دے کر اہل کتاب کو دلیل کیوں بناتا ہے؟ اگر اہل حق کا عمل کوئی اہمیت نہیں رکھتا توا مام بخاری ؒاور امام محمد بن نصر مروزی ؒ  رفع الیدین کے سلسلہ میں مختلف امصار کا حوالہ کیوں دیتے ہیں اور قرأت خلف الامام کے بارے میں عبداﷲ بن مبارک کیوں کہتے ہیں کہ سوائے کوفے والوں کے سب لوگ پڑھتے ہیں۔ پیر صاحب کواصل میں مغالطہ یہ ہے کہ ہم اکثریت کے علم کورسول اﷲ کے مقابلے میں پیش کرتے ہیں۔حال آنکہ ایسا نہیں ہے۔ ہم اس تعامل امت کوپیر صاحب کے قیاس اور ان کے استدلال کے خلاف پیش کرتے ہیں۔ ہم رسول اﷲ ﷺ کا مقابلہ نہیں کرتے۔ اگر پیر صاحب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم  کا عمل دکھا دیں کہ وہ رکوع  کے بعد ہاتھ باندھتے تھے تو سب بحثیں ختم۔ پھر امت کے عمل سے استدلال کیسا؟ بحث تو یہ ہے کہ  ’’ اِذَا کَانَ قَائِمًا‘‘ کے قیام میں رکوع کے بعد والا قیام شامل ہے کہ نہیں؟ پیر صاحب کہتے ہیں ‘ شامل ہے‘ ہم کہتے ہیں شامل نہیں ہے۔ امت کا عمل بتاتا ہے کہ پیر صاحب غلطی پر ہیں‘ ورنہ امت کا یہ عمل کبھی نہ ہوتا۔ امت کا یہ عمل رسول اﷲ  ﷺ کے عمل ہی کا مظہر ہے اور یہ زبردست دلیل ہے۔ اس بات کی کہ حضور ؐ خود بھی ارسال کرتے تھے۔ اسی بنیاد پر ہم اس تعامل امت کو حجت سمجھتے ہیں اور پیر صاحب اس کو کافروں والا طریقہ بتاتے ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ کے عمل کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو آپ رکوع کے بعد ہاتھ نہیں باندھتے  تھے ‘ اس لیے امت بھی نہیں باندھتی‘یا آپ ہاتھ باندھتے تھے لیکن امت نے آپ کی سنت کو بالکل ترک کر دیا۔ اب آپ ہی بتائیں ان دونوں میں سے کون سی صورت ممکن ہے۔

۱۔ ممکن تو پہلی ہی ہے کہ آپ رکوع کے بعد ہاتھ نہ باندھتے ہوں گے اس لیے امت بھی ہاتھ نہیں باندھتی‘ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ رکوع کے بعدہاتھ باندھتے تھے لیکن  امت نے اس سنت کو چھوڑ دیا ہے تو یہ ممکن نہیں کیوں کہ اس سے تو امت محمد ؐ پر حرف آتا ہے ۔ یہ بنی اسرائیل کی خصلت ہے  امت محمدیہ ایسی نہیں کہ ساری کی ساری رسول اﷲ ﷺ کی نافرمان ہو جائے۔

ب۔ یہ تو بلکہ شیعہ والا نظریہ ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد تمام صحابہ ؓ مرتد ہو گئے تھے ۔ معاذاﷲ!یا ان جدت پسندوں کا نظریہ ہے جو کہتے ہیں کہ حروف مقطعات کا معنی اور مطلب اﷲ کے رسول ؐ نے تو بتلایا تھا لیکن امت نے تو بالکل بھلاد یا۔ جیسے یہ ممکن نہیں کہ ساری امت ایک سنت کو بالکل فراموش کردے ‘ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ نبی ﷺ کی کسی سنت کا ترک ہو اہو اور کسی نے اس کے خلاف آواز نہ اٹھائی ہو۔ خیر القرون میں ہاتھ باندھنے کا نام و نشان تک کہیں نظر نہیں آتا۔ نہ کسی کا قول نہ کسی کا عمل۔پیر صاحب کے ہاتھ امام احمد بن حنبل ؒکا ایک کچا سا حوالہ لگ گیا  ہے جس کو وہ اچھالتے ہیں‘ جس میں امام احمد اختیار دیتے ہیں کہ جس کی مرضی رکوع کے بعد ہاتھ باندھے جس کی مرضی چھوڑ ے۔ حال آنکہ وہ حوالہ قابل اعتبار نہیں۔ کیوں کہ یہ حوالہ امام احمد بن حنبل ؒ کی اپنی کسی کتاب میں نہیں۔ پھر امام احمدؒ سے یہ ممکن بھی نہیں کہ وہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی کسی سنت ثابتہ کے بارے میں ایسا کہیں۔ ظاہر ہے  کہ ایک عمل تو ضرور سنت ہے ‘ خواہ وضع ہو یا ارسال۔ اگر وضع سنت ہے تو ارسال اس کے خلاف ہے اور اگرارسال سنت ہے  تو وضع اس کے خلاف ہے۔ اب یہ کہنا  کہ جس کی مرضی وضع کرے‘ جس کی مرضی ارسال ۔ یہ سنت کا استخفاف ہے‘ جس کی امام احمدؒ سے ہر گز توقع نہیں کی جا سکتی۔ اب یا تو پیر صاحب یہ کہیں کہ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم  کا اپنا عمل  ہی مختلف تھا‘ وہ کبھی وضع کرتے تھے‘ کبھی ارسال۔ اس سے امام احمد بن حنبلؒ کا اختیار دینا تو ٹھیک ہو جائے گا‘ لیکن پھر پیر صاحب اوٹ ہو جائیں گے۔ کیوں کہ اولاً تو اس کا ثبوت کوئی نہیں‘ ثانیاً  پھر پیر صاحب کا صرف وضع پرزور دینا غلط ہو جائے گا۔ ثالثاً پیر صاحب کو وضع اور ارسال دونوں عمل کرنے پڑیں گے۔ رابعاً پیر صاحب کا  ’’ اِذَا کَانَ قَائِمًا  فِی الصَّلٰوۃِ ‘‘ کا عموم بھی دفتر داخل ہو جائے گا۔ یا پھر پیر صاحب یہ کہیں کہ امام احمد ؒ کا یہ حوالہ ہی قابل اعتبار نہیں اور ظاہر یہی ہے کہ یہ حوالہ ہی قابل اعتبار نہیں۔ پیر صاحب بے کار اس پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کا صدیوں تک کوئی نام و نشان تک نہیں تھا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے چار پانچ سو سال بعد جا کر کسی نے یہ قیاس ہی لڑایا ہے جس سے یہ فتنہ کھڑا ہوا ہے۔

۱۔ ہاتھ کھلے چھوڑنے کا بھی تو کوئی اثر نہیں ملتا۔

ب۔ امت کا یہ عمل کیا کوئی کم اثر ہے۔ جب قریباً ساری امت رکوع کے بعد ہاتھو چھوڑتی ہے تو یہ دلیل ہے کہ یہ عمل متصل اور متواتر ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ پہلے ساری امت رکوع کے بعد ہاتھ باندھتی ہو۔پھر ساری امت ہاتھ باندھنا چھوڑ دے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ پہلے ایک ہی عمل تھا۔جو عمل رسول اﷲ ﷺ کرتے تھے ‘ وہی عمل صحابہ‘ تابعین‘ تبع تابعین کرتے تھے اور وہ عمل ارسال ہو سکتا ہے وضع نہیں۔ ورنہ لازم آئے گا کہ ساری امت یک لخت بدل گئی اور کوئی شور نہیں ہوا۔ یہ ناممکن ہے‘ کیوںکہ ایسا کوئی حادثہ ہو کہ ساری امت ایک عمل کو چھوڑ کر دوسرے عمل کو اختیار کرلے اور کوئی شوروغوغا نہ ہو۔یہ تسلیم ہی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تو امت محمدیہ ہے جو بہت حساس ہے۔ جو بال کی کھال اتارتی ہے‘ جو معمولی معمولی اختلافات کو بھی برداشت نہیں کرتی۔ معمولی سے اختلاف پر بحث شروع ہو جاتی ہے۔اور سوال و جواب اور جواب الجواب کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔بات بات پر رسالے لکھے جاتے ہیں‘ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنا بڑا حادثہ ہو اور پورے اسلامی لٹریچر میں ایک صفحہ بھی ا س پر نہ لکھا گیا ہو۔لہٰذا یہ بات  اظھر من الشمس ہے کہ آج جو قریباً ساری امت محمدیہ رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑتی ہے تو یہ رسول اﷲ ﷺ صحابہؓ ‘ تابعین اور تبع تابعین کے عمل ہی کا اثر ہے لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ اگر وضع کا کہیں ذکر نہیں تو ارسال کا بھی تو کہیں ذکر نہیں۔ ارسال تو تعامل امت کی صورت میں ہمیشہ موجود رہا ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی سنت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ایسی نہیں کہ جس کو لوگوں نے مردہ کرنے کی کوشش کی ہو ‘ او ر اس کے خلاف آواز نہ اٹھی ہو۔ کیا پیر صاحب بتا سکتے ہیں کہ جو سلوک ان کی اس سنت کے ساتھ ہوا ہے وہ سلوک کسی اور سنت کے ساتھ بھی ہو اہو۔تکبیرات انتقالات تھیں۔ ان میں لوگوں نے سستی کی تو خبردار کرنے والوں نے  ثَکُلَتْکَ اُمُّکَ سُنَّۃُ اَبِی الْقَاسِمِ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ( صحیح البخاری‘ کتاب الاذان‘ باب التکبیر اذا قام من السجود‘ ص62 رقم 788‘مشکوۃ ‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب صفۃ الصلوۃ ‘ الفصل الثالث‘ رقم 807)

کہہ کرخبر دار کیا۔ صدقہ فطر میں اختلاف ہوا۔ عید کا خطبہ عید کی نماز سے پہلے شروع ہوا‘ یا عید گاہ میں منبر بنا تو کسی نہ کسی صحابی نے اس کے خلاف ضرور آواز اٹھائی۔ کسی نے بیٹھ کر خطبہ دیا تو اس کو  اُنْظُرُوْا اِلٰی ھٰذَا الْخَبِیْثِ   کہہ کر ٹوک دیا۔ کسی نے خطبہ دیتے ہوئے دونوں ہاتھ اٹھائے تو اس کو قَبَّحَ اﷲُ الْھَاتَیْنِ الْیَدَیْنِ  کہہ کر روک دیا۔ سوال یہ ہے کہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کے تر ک پر کیوں کوئی نہ بولا۔ کیوں نہ  محدثین نے اس سنت کو مردہ ہوتے دیکھ کر اس کو زندہ کیا ۔ ہاتھوں کو کھلا چھوڑ نے کا طریقہ کوئی دو چار صدیوں کا نہیں‘ یہ تو شروع سے ہی چلا آ رہا ہے‘ جس کے خلاف کسی نے آواز نہیں اٹھائی‘ یا پیر صاحب تسلیم کریں کہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا سنت رسول نہیں۔ یہ صرف جدت پسندوں کا اجتہاد ہے اور اگر وہ اس کو سنت رسول مانتے ہیں تو پھر اس کی تاریخ بیان کریں اور بتائیں کہ اس کو مردہ کس  نے کیا۔؟ کیا صحابہ ؓ نے اس سنت کو ترک کر دیاتھا یا تابعین سے یہ کوتاہی ہو گئی تھی یا تبع تابعین ا س سنت کے ترک کے ذمے دار ہیں۔ آخر اس کے ترک کا مجرم کون ہے  اور پھر اس ترک کے خلاف خیر القرون میںآواز کیوں نہ اٹھائی گئی۔ اگر آواز اٹھائی گئی ہو تو اس کا ثبوت ہونا چاہیے۔ اگر آواز نہیں اٹھائی گئی تو کیوں؟ کیا کوئی اور سنت بھی ایسی ہے جو یوں مردہ ہوئی ہو۔ ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ کوئی سنت ایسی نہیں جس کا یہ حشر ہو اہو جو پیر صاحب کی اس سنت کا ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سنت رسولؐ ہی نہیں۔ اگر ہم یہ کہیں کہ رسول اﷲ ﷺ کا یہی طریقہ تھا جو آج امت کا ہے تو بالکل حق بجانب ہیں۔ یہ رسول اﷲ  صلی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  ( صحیح مسلم‘ کتاب الجمعۃ ‘باب قولہ تعالیٰ  { واذا رأو تجارۃ او لھو ا ۔۔ و ترکوک قائما }   ص 812 رقم 39 ۔۔ مشکوۃ ‘ کتاب الصلوۃ‘  باب الخطبۃ  والصلوۃ ‘ الفصل الثالث ‘ رقم 1416)

 ( صحیح مسلم ‘ کتاب الجمعۃ باب تخفیف الصلوۃ  والخطبۃ ‘ص 814  رقم 53۔۔ ابوداؤد  ‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب رفع الیدین  علی المنبر‘ ص 1304 رقم 1104۔۔ جامع الترمذی ‘ ابواب الجمعۃ  عن رسول اﷲ  ﷺ ‘باب ماجاء فی کراھیۃ رفع الایدی علی المنبر‘ص 1695رقم 515۔۔۔ مشکوۃ ‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب الخطبۃ  والصلوۃ ‘ رقم 1417)

اﷲ علیہ و سلم کا طریقہ  ہی  ہے جو نسل بعد نسل مسلمانوں میں منتقل  ہوتا چلا آیا ہے جس کی صورت یہ ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نماز میں رکوع کے بعد ہاتھ نہیں باندھتے تھے بلکہ ہاتھوں کو کھلا چھوڑتے تھے اور رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کو دیکھ کر ((صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ ))کے تحت صحابہ ؓ بھی رکوع کے بعد ہاتھ کھلے چھوڑتے تھے اور پھر صحابہ کو دیکھ کر تابعین بھی ہاتھ کھلے چھوڑتے تھے۔ حتی کہ دیکھا دیکھی ہی یہ سلسلہ ہم تک پہنچاا ور اسی لیے آج بھی امت رکوع کے بعد ہاتھ کھلے چھوڑتی ہے۔ جو لوگ ہاتھ باندھتے ہیں وہ تعامل امت کو نہیں دیکھتے جو حضور ﷺ کے عمل کاعکس ہے۔وہ حدیث کے الفاظ سے استدلال کرتے ہیں ۔ انھیںمعلوم نہیں کہ نماز کا تعلق جتنا پریکٹیکل سے ہے اتنا حدیث کے الفاظ سے نہیں۔نماز کا عمل حدیث سے پہلے ہے ۔لوگوں نے نماز حدیث سے نہیں بلکہ اہل حدیث سے سیکھی ہے۔ نماز لوگوں نے اپنے اسلاف سے سیکھی ہے۔ جیسے ان کو دیکھا ویسے پڑھی۔ ا س لیے جہاں حدیث سے استدلال کا سوال پید ا ہوگا جیسا کہ پیر صاحب نے  ’’ اِذَا کَانَ قَائِمًا‘‘ کے عموم سے استدلال کرنا شروع کیا ہے۔ اس وقت امت کی نماز کو دیکھا جائے گا اور حدیث کے الفاظ کا وہی مطلب لیا جائے گا‘ جس کی تصدیق امت کا عمل کرے گا۔ امت کے عمل کو بطور دلیل پیش کرنا پیر صاحب جیسوں کے قیاسوں سے ہزار درجے بہتر ہے۔ کیوں کہ حدیث کے الفاظ بعد میںہیں اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کا عمل پہلے۔ صحابہؓ حضور کو دیکھ کر نماز پڑھتے تھے۔ حدیث کے الفاظ سے استدلال کرکے نماز نہیں پڑھتے تھے۔ نماز کے سلسلے میں حدیث سے استدلال کرنے کا طریقہ بہت بعد میںشروع ہو ا ہے اور اسی وقت سے اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔ اگر لوگ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے عمل کو دیکھتے  جو تعامل امت کی  صورت میں  چلاآرہا تھا تو یہ فتنہ کبھی کھڑا  نہ ہوتا۔ اس 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ( صحیح البخاری‘ کتاب الاذان ‘باب الاذان للمسافرین اذا کانوا جماعۃ والاقامۃ ص 51 رقم 631۔۔مسند احمد‘ 55/5 رقم 20007 عن مالک بن الحویرث ۔۔ ارواہ الغلیل 291/1رقم 328-324-262:)

لیے  ہر زمانے  کا  عمل  خاص کر اہل حدیث کا ‘ کیوں کہ ان کے پیش نظر اتباع نبوی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ زیادہ معتبر ہے پیر صاحب کے قیاس اور ان کے استدلال سے۔

ا۔ امام احمدؒ کے یہ کہنے سے چاہے کوئی ہاتھ باندھے یا چھوڑے اس کی مرضی ہے یہ تو معلوم ہو اکہ یہ اختلاف ان کے زمانے میں بھی ہوگا کہ کچھ لوگ ہاتھ باندھتے ہوں گے اور کچھ چھوڑتے ہوں گے۔

ب۔ اول تو یہ حوالہ ہی مشکوک ہے۔ لیکن اگر امام احمدؒ کے زمانے میں اس مسئلے پر کوئی اختلاف ہوتا تو ہر کوئی اپنا اپنا استدلال پیش کرتا۔ ضرور مخالفت اور موافقت میں رسالے لکھے جاتے ۔جب پیر صاحب نے اس دور میں نو دس رسالے لکھ ڈالے تو کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ اس دور میں اس پر ایک بھی رسالہ نہ لکھا گیا ہو۔ وہ دور تو محدثین کا دور تھا۔ اگر اختلاف ہوتا تو محدثین ضرور اس کی تائید یا تردید میں رسالے لکھتے‘ اور نہیں تو اپنی تصنیفات میں ہی اس کا ذکر کرتے۔ جب امام بخاریؒ نے رفع  الیدین  پر اور قراء ۃ خلف الامام پر رسالے لکھ دئیے تو یہ کوئی رفع الیدین سے کم اہم مسئلہ تو نہ تھا۔ اس پر بھی ضرور کوئی نہ کوئی لکھتا۔ جب کسی نے بھی اس پر کچھ نہیں لکھا توا س سے معلوم ہوا  کہ اس زمانہ میں اس مسئلے پر کوئی اختلاف ہی نہ تھا۔

ان  بزرگوں نے امام محمد کے رسالے سے ایک حوالہ نقل کیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل نے اپنے زمانے میں ایک سو مساجد میں نمازیں پڑھیں‘ کسی مسجد میں بھی طریقہ نبوی کے مطابق نماز ادا نہیں کی جاتی تھی۔ امام احمدؒنے رسالہ مذکورہ میں لوگوں کی غلطیوں کی نشان دہی کی اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں ان کی اصلاح فرمائی ۔اب پیر صاحب ہی خدا لگتی بات کریں کہ ان غلطیوں میں کیا ارسال کی غلطی بھی تھی اگر تھی تو کیا امام صاحب نے اس کی بھی اصلاح فرمائی ۔ اگر اصلاح فرمائی ہو تو اس کا ثبوت دیں۔ اگر نہیں فرمائی تو کیوں؟ کیا یہ امام احمدؒ کے نزدیک غلطی نہ تھی ؟ اگر غلطی نہ تھی تو ظاہر ہے کہ پھر وہ اس کو سنت سمجھتے ہوں گے ‘ جب ہی انھوں نے اصلاح نہیں فرمائی۔ اگر اس کو خلاف سنت سمجھتے تو ضرور اصلاح فرماتے۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس مسئلہ میں اس وقت کوئی اختلاف نہ ہوگا۔ اگر کچھ بھی اختلاف ہوتا تو امام احمدؒ کو نظر آ جاتا اور وہ ضرور اس کی اصلاح فرماتے۔ جن غلطیوں کی انھوں نے اصلاح فرمائی ‘جب ارسال ان غلطیوں میں شامل ہی نہیں تو ظاہر ہے کہ اس زمانے میں سب لوگ ارسال کرتے ہوں گے اور کوئی وضع نہ کرتا ہوگا ورنہ اختلاف کی صورت میں اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔اور اصلاح والے مسائل میں یہ مسئلہ بھی آ جاتا ہے۔ جب اصلاح والے مسئلوںمیں یہ مسئلہ نہیں آیا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کوئی نمازی وضع کی غلطی نہیں کرتا تھا۔ اگر کوئی بھی یہ غلطی کرتا ہوتا تو وہ ضرور اس کی بھی اصلاح فرماتے۔ اوراگر پیر صاحب اس کا عکس فرض کریں اور نتیجہ یہ نکالیں کہ ارسال کوئی نہیں کرتا تھا‘ سب وضع کرتے تھے۔ کیوں کہ جن غلطیوں کی امام صاحب نے اصلاح فرمائی ان میں وضع کی غلطی کا کوئی ذکرنہیں‘ تو ہمیں پیر صاحب کا یہ نتیجہ نکالنا بھی قبول ہے کیوں کہ اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس مسئلے میں اس زمانے میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ اگر اختلاف ہوتا تو امام صاحب ضرور اصلاح فرماتے۔ جب اصلاحی امور میں یہ مسئلہ نہ تھا تو ثابت ہوا کہ اس مسئلہ میں اسوقت کوئی اختلاف نہ تھا۔ دوسرا سوال پھر پیر صاحب پر یہ ہوگا کہ پھر وہ امام احمد بن حنبل ؒ کے اس حوالے کو کیا کریں گے جو لوگوں کو اجازت دیتا ہے کہ جس کی مرضی ارسال کرے ‘ جس کی مرضی وضع کرے۔ جب لوگوں میں اتفاق تھا اور لوگ ایک سنت پر عامل تھے ‘ وضع ہو یا ارسال اور سنت بھی ایک ہی عمل ہے ۔دوعمل سنت نہیں۔ اور یہ بات لازما امام احمد بن حنبل ؒ بھی جانتے ہوں گے ۔ پھر امام  ؒ کا یہ کہنا ’’جس کی مرضی وضع کرے جس کی مرضی ارسال ‘‘ کیا یہ اصلاح ہے یا فساد ؟ ایک طرف تو امام احمد دورے کرکے سو مسجدوں میں جاکر نماز پڑھا کر لوگوں کی غلطیوں کو معلوم کرکے ان کی اصلاح کرتے ہیں‘ دوسری طرف وہ لوگوں  کوجو بلا اختلاف ایک سنت پر عمل کرتے ہیں یہ کہہ کر کہ ’’جس کی مرضی ارسال کرے جس کی مرضی وضع کرے۔ لوگوں کو اختلاف پرآمادہ کرتے ہیں اور لوگوں کو سنت پر عمل کرنے سے ہٹاتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے ؟

اب سوال یہ باقی رہ جاتا ہے کہ کسی سنت رسول ؐ کے بارے میں امام احمد بن حنبلؒ کا یہ کہنا کہ چاہے اس پر عمل کرو یا نہ‘ کیا یہ جائز ہے ؟ اور کیا امام احمدؒ سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ انھوں نے وضع کو سنت سمجھتے ہوئے ایسا کہا ہوگا۔اگر انھوں نے سنت سمجھتے ہوئے ایسا کہا تو پہلے قیام کے بارے میں انھوں نے یہ چھٹی کیوں نہ دی۔ جب پہلے قیام میں وہ یہ چھٹی نہیں دیتے اور صرف دوسرے قیام میں ہی یہ چھٹی دیتے ہیں تو کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک پہلے قیام میںہاتھ باندھنا سنت ہے اور دوسرے قیام میں ہاتھ باندھنا سنت نہیں۔ نیز یہ کہ ان کے نزدیک دونوں قیاموں میں فرق ہے ۔لہٰذا پیر صاحب کا  ’’ اِذَا کَانَ قَائِمًا‘‘  کے عموم سے استدلال کرکے دونوں قیاموں کو ایک کے حکم میں کرنا غلط ہے۔ اگر پیر صاحب ہم پر اعتراض کریں کہ امام احمدؒ کے چھٹی دینے سے تو یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پھر ارسال بھی سنت نہیں‘ ورنہ وہ ہاتھ باندھنے کی ا جازت  نہ دیتے تو ہمارا جوا ب یہ ہے کہ اسی وجہ سے تو ہم اس حوالے کو مشکوک قرار دیتے ہیں۔ کیوں کہ اس حوالے سے تو کوئی عمل بھی سنت نہیں رہتا۔ حال آنکہ ایک عمل ضرور سنت ہے :وضع یا ارسال۔ یہ حوالہ تو ان لوگوں پرحجت ہے جو اس کو پیش کرتے ہیں‘ ہم پر تو حوالہ حجت ہی نہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ کے اس حوالے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسند احمد کی حدیث وَرَاَیْتُہ‘ مُمْسِکًا یَمِیْنَہ‘ عَلٰی شِمَالِہٖ سے بھی پیر صاحب کا استدلال کرنا ٹھیک نہیں۔ جب خود امام صاحب جن کی کتاب کی یہ حدیث ہے ہاتھ باندھنے کوسنت نہیں سمجھتے تو پھر پیرصاحب اس حدیث سے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کو سنت ثابت کرنے پر کیوں زور ما رہے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پیر صاحب کا اس حدیث سے استدلال کرنا غلط ہے۔

ا۔ اس حدیث سے پیر صاحب کا استدلال کیا ہے؟

ب۔ اس حدیث میں راوی نے تینوں رفع یدینوں کا ذکر کر کے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کا ذکر کیا ہے۔ رکوع کے بعد ذکر کرنے سے پیر صاحب نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے دونوںقیاموں میں ہاتھ باندھے ‘ حال آنکہ ان کے پاس اس نتیجے کے لیے کوئی دلیل نہیں  ۔ سوائے اس غلط موقف کے کہ واؤ ترتیب کے لیے ہوتی ہے۔ اگر پیر صاحب اسی پرمصر ہیں کہ واؤ ترتیب کے لیے ہے توپھر جسے انھوں نے  وَرَاَیْتُہ‘ مُمْسَکًا  میں یہ حکمت بیان کی ہے‘ وہ مسند احمد ہی کی ایک اور حدیث کی حکمت بھی بیان فرما دیں جو مسند احمد کی جلد 5صفحہ226پر درج ہے۔ 

عَنْ قَبِیْصَۃَ ابْنِ ھُلُب عَنْ اَبِیْہِ قَالَ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ یَنْصَرِفَ عَنْ یَمِیْنِہٖ عَنْ یَسَارِہٖ وَرَاَیْتُہ‘ یَضَعُ ھٰذِہٖ عَلٰی صَدْرِہٖ‘‘ 

میں نے  نبی کریم ﷺ کو دائیں اور بائیں دونوں جانبوں سے پلٹتے دیکھا اور میںنے دیکھا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر رکھے ۔

اس حدیث میں ہاتھ باندھنے کا ذکر سلام پھیرنے کے بعد ہے۔ مہربانی فرما کر پیر صاحب بتائیں کہ اگر واؤ ترتیب کے لیے ہے تو پھر سلام پھیرنے کے بعدہاتھ باندھنے کا ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے ؟ کیا سلام پھیرنے کے بعد بھی ہاتھ باندھنا سنت ہے ؟ اگر یہاں یہ حکمت نہیں تو وَرَاَیْتُہ‘ مُمْسِکًا یَمِیْنَہ‘ عَلٰی شِمَالِہٖ  میں یہ حکمت کیسے نکل آئی کہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا سنت ہو گیا۔ وہاں بھی وَرَاَیْتُہ‘  ہے یہاں بھی  وَرَاَیْتُہ‘  ہے۔ وہاں اگر واؤ ترتیب کے لیے ہے تو پھر یہاں واؤ ترتیب کے لیے کیوں نہیں۔ اگر کہا جائے کہ جب نماز ختم ہو گی تو اب ہاتھ باندھنے کا موقع 

ہی نہ رہا۔ میں کہتا ہو کہ جب حدیث میں آ گیا کہ حضور ﷺ نے نماز میں سلام پھیرنے کے بعد ہاتھ باندھے‘ تو اب موقع نہ موقع کی کیا بات ہے ؟موقع تو پیدا ہو گیا ۔ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد ہاتھ باندھ لیے ۔ اب اگر  پیر صاحب واؤ کو ترتیب کے لیے مانتے ہیں تو تسلیم کریں کہ سلام پھیرنے کے 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ( مسند احمد 226/5 رقم 21460)

بعد بھی ہاتھ باندھنا سنت ہے‘ یا پھر یہ کہیں کہ واؤ ترتیب کے لیے نہیں۔ اس لیے  وَرَاَیْتُہ‘ مُمْسِکًا یَمِیْنَہ‘سے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے پر استدلال کرنا بھی ایسا ہی غلط ہے جیسے سلام پھیرنے پر ہاتھ باندھنے پر استدلال کرنا اور یہی غلطی حنفی کرتے ہیں جو مسلم کی حدیث(( وَ اِذَا قَرَاَ فَاَنْصِتُوْا وَاِذَا قَرَاَ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلاَ الضَّالِّیْنَ فَقُوْلُوْا آمین )) سے امام کے پیچھے الحمد شریف نہ پڑھنے پر استدلال کرتے ہیں۔ وہ بھی پیر صاحب کی طرح اس اتفاقی ذکر سے غلط مطلب لے کر غلط استدلال کرتے ہیں اور اہل حق ان کو یہی جواب دیتے ہیں کہ واؤ ترتیب کے لیے نہیں۔ دیکھو دارقطنی کی روایت میں  فَاَنْصِتُوْا بعد میں ہے اور الحمد شریف کی قرأت کا ذکر پہلے ہے۔ جیسا کہ  وَرَاَیْتُہ‘ مُمْسِکًا یَمِیْنَہ‘ عَلٰی شِمَالِہٖ کا ذکر   ایک روایت میں بعد میں ہے اور چار روایتوں میں پہلے ہے۔ ایسے ہی ہاتھ باندھنے کا ذکر بعض روایتوںمیں شروع نماز میں ہے‘ بعض میںآمین کہنے کے بعد ہے اور بعض میں سلام پھیرنے کے بعد ہے۔ جب واؤ ترتیب کے لیے  نہیں تو ذکر آگے پیچھے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ قرآن مجید میں ایک جگہ  { وَقُوْلُوْاحِطَّۃٌ وَّ ادْخُلُوْا الْبَابَ سُجَّدًا}7]الاعراف[161:ہے اور دوسری جگہ {وَادْخُلُوْا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّۃٌ}:2]البقرۃ[58: ہے ایک جگہ { وَ قُوْلُوْاحِطَّۃٌ }پہلے ہے اور {وَادْخُلُواالْبَابَ} بعد میں ہے جب کہ دوسری جگہ{ وَادْخُلُوا الْبَابَ } پہلے ہے اور { وَ قُوْلُوْا حِطَّۃٌ }  بعد میں ہے ۔ حال آ نکہ واقعہ ایک ہے۔اسی طرح ہاتھ باندھنے کا ۔ حکم اصل میں  تو پہلے قیام کے ساتھ ہی ہے۔ کیوں کہ ہاتھ باندھنے کا  موقع ہی وہ ہے۔ کوئی راوی اس کا ذکر کہیں کر دیتا ہے ‘ کوئی کہیں اور پھر حیرانی تو یہ ہے کہ جس حدیث میں  وَرَاَیْتُہ‘  مُمْسِکًا  یَمِیْنَہ‘ عَلٰی شِمَالِہٖ رکوع 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (صحیح مسلم ‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب التشہد فی الصلوۃ ‘ ص 742رقم 62۔۔ نسائی ‘ کتاب الافتتاح‘ باب الامر بالتامین خلف الامام‘ ص 2147 رقم 930)

رکوع کے  بعد ہے اسی حدیث میں تشہد میں انگلی کے اشارے کا ذکر پہلے ہی ہے اور رانوں پر ہاتھ رکھنے کا ذکر بعد میں ہے۔ حال آنکہ ہاتھ رانوں پر پہلے رکھے جاتے ہیں اور اشارہ بعد میں کیا جاتا ہے۔ پیر صاحب کو چاہیے تھا کہ جب انھوں نے وَرَاَیْتُہ‘ مُمْسِکًا یَمِیْنَہ‘ عَلٰی شِمَالِہٖ کی حکمت بیان کی تھی کہ اس کا ذکر رکوع کے بعد کیوں ہے تو ان کو اس کی حکمت بھی بیان کر دینی چاہیے تھی کہ یہاں اشارے کا ذکر رانوں پر ہاتھ رکھنے سے پہلے کیوں ہے؟ امر واقع یہ ہے کہ بیان میں چیزوں کا ذکر آگے پیچھے ہو ہی جاتا ہے‘ بلکہ کر دیا جاتا ہے  اور قرآن مجید میں اس کی مثالیں بہت ہیں۔ کیوں کہ واؤ  ترتیب کے لیے نہیں ہوتی بلکہ صرف جمع  کے لیے ہوتی ہے۔ پیر صاحب کا یہ موقف بالکل غلط ہے کہ واؤ ترتیب کے لیے ہوتی ہے۔ صحیح موقف یہی ہے کہ واؤ ترتیب کے لیے نہیں ہوتی ۔ شرح جامی میںہے:

اَلْوَاؤ لِلْجَمْعِ مُطْلَقًا لاَ تَرْتِیْبَ فِیْھَا فَقَوْلُہ‘ لاَ تَرْتِیْبَ فِیْھَا بَیَانٌ لِاِطْلاَقِھَا اَیْ لاَ تَرْتِیْبَ فِیْھَا بَیْنَ الْمَعْطُوْفِ وَالْمَعْطُوْفِ عَلَیْہِ بِمَعْنٰی اَنَّہ‘ لاَ یَفْھَمْ ھٰذَا التَّرْتِیْبَ مِنْھَا وَجُوْدًا وَ عَدْمًا

کہ واؤ کی وضع صرف جمع کے لیے ہے۔ اس میں ترتیب کا مفہوم نہ وجودا پایا جاتا ہے ‘ نہ عدماً۔۔۔ وجوداً کا  معنی  یہ کہ واؤ ترتیب کے لیے موضوع نہیں۔ یعنی یہ ضروری نہیں کہ جہاں واؤ سے عطف ہو‘ اس میں ترتیب بھی ضروری ہو۔ ترتیب ہو بھی سکتی ہے‘ نہیں بھی۔ عدماً  کا معنی یہ کہ یہ بھی ضروری نہیں کہ جہاں واؤ سے عطف ہو‘ وہاں ترتیب ممنوع ہو۔ ترتیب ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ واؤ کے عطف سے نہ ترتیب کے وجود پر استدلال کیا جا سکتا ہے‘ نہ عدم پر۔ کیوں کہ واؤ کے عطف  میں نہ ترتیب ضروری ہے‘ نہ ترتیب ممتنع ہے۔ یہی مذہب امام شوکانی کا ہے اور یہی حق ہے۔

ا۔ پیرصاحب نے تو اپنے رسالے میں صفحہ 131 پر ارشاد الفحول ص  27 کے حوالے سے خلاصہ لکھا ہے کہ واؤ  ترتیب کا اس وقت فائدہ نہیں دیتا جب کوئی ایسا قرینہ ہو جو ترتیب کا معنی لینے کو مانع ہو اور جہاں کوئی ایسا قرینہ نہ ہو وہاں واؤ ترتیب کا فائدہ دے گا۔ جب امام شوکانی  ؒ جیسے محد ث اور اصولی نے یہ فیصلہ کیا ہے ‘ جو پیر صاحب نے بطور خلاصے کے نقل کیا ہے۔ تو معتبر تو یہی ہوگا کہ واؤ ترتیب کا فائدہ دیتا ہے۔

ب۔ ارے بھائی! میں کیا عرض کروں ؟ پیر صاحب کے حوالوں کی نہ پوچھو۔ وہ اس مسئلے  میں ایسے اکھڑے ہیں کہ اﷲہی ان کو سنبھالا دے تو دے۔ ارشاد الفحول کی عبارت کا جو خلاصہ انھوں نے لکھا ہے وہ اس عبارت کا خلاصہ نہیں۔ وہ ان کے اپنے ذہن کا خلاصہ ہے۔ نہ امام شوکانی نے ایسا کہا ہے‘ نہ ان  کا یہ مذہب ہے کہ واؤ قرینے کے بعد ترتیب کا فائدہ دے گا۔ وہ تو بلکہ واؤ سے ترتیب مراد لینے کے سخت مخالف ہیں۔ وہ ساری بحث کرکے کہ واؤ ترتیب کے لیے نہیں ہوتی خلاصہ نکالتے ہیں۔

وَالْحَاصِلُ اَنَّہ‘ لَمْ یَاْتِ الْقَائِلُوْنَ بِاِفَادَۃَ الْوَاوِ لِلتَّرْتِیْبِ بِشَیْئٍ یُصْلِحُ لِلْاِسْتِذْلاَلِ بِہٖ وَیَسْتَدْعِئِ الْجَوَابَ عَنْہُ

کہ جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ واؤ ترتیب کا فائدہ  دیتی ہے‘ وہ کوئی ایسی مثال پیش نہیں کر سکتے جو دلیل بن سکے۔ یا کم از کم وہ قابل جواب ہو۔

ا۔ تو پھر کیا پیر صاحب نے یہ خلاصہ  ایسے ہی لکھ دیا ہے ؟

ب۔ ہاں بالکل  ایسے ہی لکھ دیا ہے۔

ا۔ پیر صاحب کے خلاصے میں غلطی کیا ہے ؟

ب۔ غلطی یہی ہے کہ وہ اس عبارت کا خلاصہ نہیں۔وہ ان  کا اپنا ذہن ہے‘ جس کی وہ ترجمانی کر رہے ہیں‘ تفصیل اس کی یہ ہے کہ امام شوکانی کے نزدیک واؤ  ترتیب کے لیے نہیں۔ ان کے نزدیک واؤ میں ترتیب کا مفہوم نہ وجوداً  پایاجاتا ہے ‘ نہ عدماً ۔ انھوں نے جمہور کی طرف سے دو مثالیں دے کر جن کو جمہور امتناع ترتیب کے لیے پیش کرتے ہیں‘ اس کا جواب دیا ہے اور لکھا ہے : کہ

’’وَ یُمْکِنُ اَنْ یُّجَابَ عَنْ ھٰذَا الْاِسْتِدْلَالَ بِاَنَّہ‘ اِمْتَنَعَ جَعْلُ الْوَاوِ ھٰھُنَا لِلتَّرْتِیْبِ لِوَجُوْدِ مَانِعٍ وَ لاَ یَسْتَلْزِمُ ذٰلِکَ اِمْتَنَاعُہ‘ عَنْ عَدَمِہٖ‘‘

اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہاں جو ترتیب ممتنع ہے تو وہ مانع کی وجہ سے ہے۔ جہاں یہ مانع نہ ہو ‘ وہاں ترتیب ممتنع  نہ ہوگی۔

لیکن پیر صاحب نے اس کا خلاصہ یہ لکھا ہے کہ واؤ ترتیب کا اس وقت فائدہ نہیں دیتا جب کوئی ایسا قرینہ ہو جو ترتیب کا معنی لینے میں مانع ہو اور جہاں ایسا کوئی قرینہ نہ ہو وہاں واؤ ترتیب کا فائدہ دے گا۔ ان دونوں خلاصوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ امام شوکانی تو اس عبارت  میں جمہور کو امتناع ترتیب  کا جواب دے رہے ہیں اور پیر صاحب اس عبارت سے اپنی ترتیب ثابت کر  رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پیر صاحب نے عبارت کو بالکل نہیں سمجھا اور اپنے مطلب کی عبارت لکھ کر اس کا خلاصہ کہہ دیا۔

اسی طرح  کا مغالطہ مغنی ابن ہشام کے حوالہ کا ہے۔ ابن ہشام  کی وہ مراد بالکل نہیں جو پیر صاحب نے ان کے حوالہ سے لی ہے۔  وہ اس بحث کے شروع میں ہی لکھتے ہیں: ’’مَعْنَاھَا مُطْلَقُ الْجَمْعِ‘‘ واؤ  کا معنی مطلق جمع ہے۔ یعنی اس کے معنی میں ترتیب  یا عدم ترتیب  کو کوئی دخل نہیں۔ پھر قرآن مجید سے عطف کی تین مثالیں   دیتے ہیں۔ پہلی مصاحبت و معیت کی۔ دوسری عطف برسابق  اور تیسری عطف برلاحق کی ۔ پھر کہتے ہیں ‘ چوں کہ واؤ مطلق جمع کے لیے ہے۔ اس لیے ’’قَامَ زَیْدٌ و عَمْرٌو ‘‘ میں اگرچہ تینوں  احتمال ہو سکتے ہیں ‘ لیکن استدلال کسی ایک پر بھی نہیں کیا جا سکتا‘ نہ معیت پر ‘ نہ ترتیب پر ‘ نہ عدم ترتیب پر۔ یہ ہے ابن ہشام کا مذہب ۔ اسی کی روشنی میں ساری اگلی بحث کو دیکھنا چاہیے۔ پیر صاحب نے ابن ہشام کی عبارت  کو نہیں سمجھا اور اپنی تائید کے لیے اس کو غلط رنگ میں پیش کر دیا ہے۔ اگر پیر صاحب مغنی ابن ہشام کی عبارت سمجھ لیتے تو کبھی اپنی تائید میں اس کو پیش نہ کرتے۔ کیوں کہ اس عبارت  میں بھی قریباً  وہی کچھ بیان کیا گیا ہے جو شرح جامی میں ہے ‘ اور اسی کا خلاصہ امام شوکانی نے ارشاد الفحول میں پیش کیا ہے۔

یہی حال پیر صاحب کے اور استدلالوں اور جوابوں کا ہے۔ پیر محبب اﷲ صاحب  نے تو استدلالاً کہا کہ حضرت سہل بن سعدؓ کی حدیث جو ہاتھ باندھنے کے بارے میں ہے ‘ امام بخاری نے اس کو پہلے قیام کے ساتھ ذکر کیا ہے‘ دوسرے قیام کے ساتھ اس کو ذکر نہیں کیا۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ امام بخاری ؒکے نزدیک ہاتھ باندھنا صرف  پہلے قیام  میں ہے۔ دوسرے قیام میں ان کے نزدیک ہاتھ باندھنانہیں۔  ورنہ وہ ضرور حضرت سہل بن سعدؓ کی حدیث کو دوسرے قیام کے ساتھ بھی ذکر کرتے۔ جیساکہ ان کی عادت ہے کہ وہ استدلال کے لیے ایک حدیث کو بار بار لاتے ہیں ۔ بات معقول تھی اور لاجواب تھی۔ لیکن پیر صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ 77 پر دو سجدوں کی مثال پیش کرکے اس کا جواب دے دیا کہ سجدے کی بھی تو امام بخاریؒ نے ایک کی ہی کیفیت بیان کی ہے۔ یہ حقیقت میں جواب نہیں خانہ پری ہے۔ پیر صاحب نے یہ نہیں دیکھا کہ کہاں دو قیام اور کہاں دو سجدے ؟ دونوں قیاموں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ لیکن دونوں سجدوں میںکلی مماثلت ہے۔ ایک قیام کی کیفیت بیان کر نے سے دوسرے قیام کی کیفیت معلوم نہیں ہو سکتی۔ کیوں کہ دونوں قیاموں کے احکام مختلف ہیں۔ لیکن سجدہ میں ایک کی کیفیت کا بیان ہی کافی ہے۔ کیوں کہ دونوں سجدوں میں کسی طرح سے کوئی فرق نہیں۔ اب دو قیاموں  کو دو سجدوں  پر قیاس کرکے  جواب دینا پیر صاحب جیسے زبردست مجتہد کا ہی کام ہے۔ کسی معمولی آدمی کا کام نہیں۔ اگر اسی کو جواب دینا کہتے ہیں تو پھر واقعی تسلی بخش جواب دینا پیر صاحب پر ختم۔!دلائل و جوابات کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اگر وہ اس رسالے کو ٹھنڈے دل سے پڑھیں تو ان کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا ۔ حال آنکہ یہ رسالہ پیر صاحب کے رسالے کا جواب نہیں۔ رسالے کا تو جواب ہم نے لکھا ہی نہیں۔ ضمناً کوئی بات آ گئی ہو تو اور بات ہے ورنہ ہم نے تو صرف مسئلے کا جواب لکھا ہے۔ کیوں کہ ہمیں پیر صاحب سے کوئی مقابلہ کرنا مقصود نہیں۔ ہمیں تو مسئلے کو واضح کرنا مقصود ہے۔ اسی لیے ہم نے بہت اختصار سے کام لیا ہے۔ پیر صاحب کے رسائل کے مندرجات سے تعرض نہیں کیا۔

مختصرا یہ کہ’’ وَرَاَیْتُہ‘ مُمْسِکًا بِیَمِیْنَہ‘ عَلٰی شِمَالِہٖ ‘‘  رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کے لیے کوئی دلیل بنتی نہیں۔ دلیل یہ تب بنے جب واؤ ترتیب کے لیے  ثابت ہو‘ا ور یہ محال ہے۔ جب بنیاد ہی نہ رہی تو یہ دلیل بھی نہ رہی۔ ان لوگوں کی سب سے بڑی دلیل ’’ اِذَا کَانَ قَائِمًا‘‘   کا عموم ہی ہے‘ جس سے یہ استدلال کرتے ہیں۔

ا۔ کیا اور کوئی صریح حدیث نہیں؟

ب۔ اگر کوئی صریح حدیث ہوتی تو پھر ان بزرگوں کو قیا س اور اجتہاد کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ پھر تو معاملہ صاف تھا۔

ا۔ کیا کسی صحابی سے بھی کوئی صراحت  نہیں ؟

ب۔ ارے بھائی! نہ کسی صحابی سے‘ نہ کسی تابعی سے ‘ نہ کسی تبع تابعی سے۔ یہ تو صدیوں بعد کسی نے قیاس ہی کیا ہے۔ جس سے یہ مسئلہ چل پڑا ہے۔ ورنہ قیاس کے سوا اس مسئلے کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔

ا۔ بعض تابعین اور تبع تابعین کا ذکر تو پیر صاحب کرتے ہیں اور حوالہ  محلی ابن حزم سے دیتے ہیں۔

ب۔ ارے بھئی! ان بزرگوں کے حوالوں کا کیا نام لیتے ہو ‘ جیسا ان کا استدلال ویسے ان کے حوالے اور جیسے ان کے حوالے‘ ویسا ان کا استدلال۔!محلی ابن حزم کا حوالہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ نہ محلی کی عبارت کا یہ مطلب ہے ‘ جو یہ لیتے ہیں ‘ نہ ابن حزم کی قطعیت کے ساتھ یہ مراد ہے۔ ابن حزم پہلے قیام میں ہاتھ باندھنے کی بات کرتے ہیں۔ یہ اپنے دوسرے قیام کو اس میں گھسیڑتے ہیں۔ فِیْ وَقُوْفِہٖ کُلِّہٖ  کا مطلب بھی یہ اپنی منشا کے مطابق لیتے ہیں‘ حال آنکہ اس کے اور معنی بھی ہو سکتے ہیں۔ جب پیر محب اﷲ صاحب  نے ’’رُبَمَا‘‘ کے معنی ’’بسا اوقات‘‘ کے کیے تو پیر صاحب نے کہا کہ ’’رُبَمَا‘‘’’ کبھی کبھی‘‘ کے بھی ہو سکتے ہیں ‘ لیکن پیر صاحب کو یہاں یہ خیال نہ آیا  کہ’’فی وقوفہ کلہ‘‘ کا مطلب اور بھی ہو سکتا ہے ‘ یہ ضروری نہیں کہ جو میں نے لیا ہے ‘ وہی ہو۔ جب ایک لفظ محتمل المعانی ہو  تو  وہ دلیل کیسے بن سکتا ہے ؟

ا۔ جن ائمہ کے ابن حزم ؒنے نام لیے  ہیں‘ کیا  یہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھتے تھے؟ 

ب۔ کہاں باندھتے تھے؟ یہ تو پیر  صاحب کا فرض  ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ جن بزرگوں کے ابن حزم ؒنے نام لیے ہیں وہ رکوع کے بعد بھی ہاتھ باندھتے تھے۔ اگر وہ یہ ثابت کر دیں تو وہ یہ حوالہ پیش کرنے میں بالکل حق بجانب ہیں۔ پتا نہیں پیر صاحب نے  محلی کی عبارت کے کس لفظ سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ یہ لوگ رکوع کے بعد بھی ہاتھ باندھتے تھے؟ حقیقت  یہ ہے کہ ان ائمہ میں سے کسی کا بھی رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا قطعاً ثابت نہیں۔

اگر ضد اور تعصب سے کام نہ لیا جائے تو مسئلہ تو صاف ہے کہ رکوع کے بعد ہاتھوں کا ارسال ہے۔ کیوں کہ رکوع کے  وقت جب ایک دفعہ ہاتھ کھلوا دیے ‘ پہلا قیام ختم ہو گیا  تو پھر پوری رکعت میں دوبارہ ہاتھ باندھنے کا حکم نہیں ہوا۔ اس لیے ہاتھ رکوع کے بعد کھلے ہی رہیں گے۔ کیوں کہ کوئی نیا حکم صادر نہیں ہوا۔ پھر جب رکوع ‘ سجدہ‘ جلسہ او ر قعدہ کے بارے میں ہدایات جاری ہو گئیں ‘ لیکن دوسرے قیام کے بارے میں کوئی ہدایت جاری نہیں ہوتی تو معلوم ہو گیا کہ دوسرے قیام کے حصے میں ارسال ہی آیا ہے۔ اہل حق اور اہل علم کی اکثریت کا ہر زمانے  میں اسی پر عمل رہا ہے۔ اور کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ رسول اﷲ ﷺ ‘ کسی صحابی اور تابعی نے رکوع کے بعد کبھی ہاتھ باندھے ہوں ‘ یہ سب اپنے اجتہادات ہیں جو رکوع کے بعد ہاتھوں کو باندھنا ثابت کیا جاتا ہے ۔ کیا اپنے قیاس لڑانے سے یہ بہتر نہیں کہ آدمی اہل حق کی راہ اختیار کر لے۔ اہل حق کی راہ یقینا سلامتی کی راہ ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اہل حق کی ایسی اکثریت جن کا شعارقرآن و حدیث ہو اﷲ کے رسول  ﷺ کی مخالفت کرے ۔ چند آدمی جو رکوع کے بعد ہاتھ تو باندھتے ہیں ان کی غلطی پر ہونے کا امکان زیادہ ہے بہ نسبت اہل حق کی اتنی اکثریت کے جو ہاتھ چھوڑتے ہیں اور پھر ہاتھ باندھنے والوں کی دلیل صرف قیاس و اجتہاد ہے اور ارسال کرنے والوں کی دلیل ہر زمانے میں اپنے سلف کا طریقہ ہے۔ ظاہر ہے کہ نماز  خلف نے سلف سے سیکھی ہے۔ جیسے ان کو پڑھتے دیکھا ویسے ہی پڑھی۔ صحابہ رضی اﷲ عنہم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھ کر نماز پڑھتے تھے۔ احادیث سے استدلال کرکے نماز نہیں پڑھتے تھے۔ احادیث سے استدلال کا طریقہ تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کے بہت بعد شروع ہوا۔ پیر صاحب اور ان کے ساتھیوں کے پاس اپنے قیاس کے علاوہ کوئی اور نقل یا حوالہ نہیں۔ سب سے پہلا حوالہ جو وہ اپنی پوری توانائیاں صرف کر کے پیش کر سکتے ہیں وہ امام احمد بن حنبلؒ کا حوالہ ہے۔لیکن ا س حوالے کا حال بالکل امام احمدؒ کے اس حوالے جیسا ہے جس کو حنفی قرأت مقتدی کے بارے میں پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ دونوں حوالوں کو حنبلی فقہا نقل کرتے ہیں۔ لیکن امام احمد کی اپنی کسی تصنیف میں ان حوالوں کو کوئی ذکر نہیں۔ امام احمد ؒ نے نماز کے موضوع پر مستقل کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔ اپنی کسی تصنیف میں انھوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ رکوع کے بعد جس کی مرضی ہو ارسال کر ے‘ جس کی مرضی ہو ہاتھ باندھے۔ اگرچہ یہ حوالہ پیر صاحب کے مسلک کے بھی خلاف ہے۔ تاہم پیر صاحب اور ان کی پارٹی اس حوالے پر خوش بہت ہیں کہ چلو ہماری جڑ تو لگ گئی ۔ اس سے تو یہ ثابت ہو گیا کہ اس مسئلہ میں اختلاف امام احمدؒ  کے زمانے میں بھی تھا۔ پھر ابن قیم ؒ کے استنباط کردہ اصول سے پیر صاحب نے یہ بھی کشید کر لیا کہ امام احمد ؒ کے اختیار دینے سے یہ ثابت ہو گیا کہ یہ اختلاف صحابہ میں بھی تھا۔ بلکہ پیرصاحب تو یہاں تک آگے نکل گئے کہ یہ اختلاف شروع ہی سے چلا آ رہا ہے ۔ رہ گیا اختلاف کا فیصلہ تو پیر صاحب اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر امام احمد ؒ اس کے اختلاف کا فیصلہ نہیں کر سکے تو ضروری نہیں کہ قیامت تک کوئی دوسرا آنے والابھی اس کا فیصلہ نہ کر سکے۔ ان کا مطلب یہ ہے کہ ضرور کوئی آ جائے گا جو اس کا فیصلہ کر دے گا۔ چنانچہ پیر صاحب ایسے آ گئے جنھوں نے فیصلہ کر دیا کہ ہاتھ باندھنا ہی ثابت ہے اور سنت ہے ‘ ارسال ثابت نہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ عالم خواہ کتنا بھی بڑا ہو جب وہ اکھڑ جاتا ہے اور کسی مسئلے میں غلطی کا شکار ہو جاتا ہے تو پھر اسی پر پکا ہو جاتا ہے ۔توپھر وہ دلائل نہیں دیتا ‘ مکڑی کا جال بنتا ہے۔ا س کا استدلال ایسا بودا اور کمزور ہوتا ہے کہ اس کی ذات پر تعجب ہونے لگتا ہے کہ اﷲ ایسا عالم ہو کر ایسی کچی باتیں۔! پیر صاحب کو ہی دیکھ لیں وہ ایک غلط مسئلے کا شکار ہو گئے ‘ اب وہ سطحی قیاسوں سے کیسے کیسے عجیب نتیجے نکالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ شروع سے ہی مختلف فیہ چلا آ رہا ہے۔ کوئی پوچھے اس کا ثبوت ۔؟ تو وہ کہتے ہیں اس لیے کہ یہ مسئلہ صحابہ ؓمیں بھی مختلف فیہ تھا اور اگر کوئی سوال کرے کہ اس کا کیا ثبوت ہے کہ اس مسئلہ میں صحابہ ؓمیں بھی اختلاف تھا؟ تو وہ کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل ؒ نے جو اختیار دیا ہے ۔ جس مسئلے میں امام احمد بن حنبلؒ اختیار دیں  تو وہ صحابہ ؓ  میںبھی مختلف فیہ ہوتا ہے ۔ اگرکوئی پوچھے یہ اصول کس نے مقرر کیا ہے ؟ تو وہ کہتے ہیں یہ اصول ابن قیمؒ نے استخراج کیا ہے ۔ اگر کوئی پوچھے کہ امام احمد بن حنبلؒ نے اپنی کس کتاب میں یہ اختیار دیا ہے جس سے آپ صحابہ ؓ کا اختلاف کشید کرتے ہیں تو پیر صاحب کہتے ہیں کہ امام صاحب کی تو کسی کتاب میں یہ حوالہ نہیں۔ البتہ ان کے مقلدین نے صدیوں بعد اپنی فقہ کی کتابوں میں یہ حوالہ لکھا ہے ۔ اگر کوئی کہے کہ پیر صاحب!پھر استدلال کرنے سے پہلے اس کی صحیح سند تو امام احمدؒ تک پہنچا دیں۔ آپ تو ماشاء اﷲ سلطان المحدثین ہیں۔ امام احمدؒ تک صحیح سند پہنچائے بغیر اس حوالے پر ایک بلند و بالا عمارت کھڑی کر دینا یہ تو حنفیوں والا طریقہ ہے کہ حنفی لوگ ہی بغیر سند کے امام ابوحنیفہ ؒ کے ذمے جو چاہتے ہیں لگاتے رہتے ہیں‘ آپ تو ایسا نہ کریں۔پیر صاحب ماشاء اﷲ  عالم تھے ۔ اگر وہ غلط مسلک پر نہ چل گئے ہوتے تو ضرور سوچتے کہ میں نے جو امام احمد ؒ کے حوالے پر ساری تعمیر کھڑی کر لی ہے ‘ میں تحقیق کرلوں کہیں یہ حوالہ مشکوک تو نہیں۔ اگر کوئی کہتا کہ یہ حوالہ تو حنبلی فقہ کی فلاں فلاں کتا ب میں ہے۔ تو پیر صاحب ضرور سوچتے کہ حنبلی فقہ کی کتابوںمیں تو یہ حوالہ بھی ہے۔ ’’قَالَ اَحْمَدُ اَجْمَعَ النَّاسُ عَلٰی اِنَّھَا نَزَلَتْ فِی الصَّلٰوۃِ وَذَکَرَالْاِجْمَاعَ عَلٰی اَنَّھَا لاَ تَجِبُ الْقِرْأۃُ عَلَی الْمَامُوْمِ حَالَ الْجَھْرِ‘‘اس  حوالہ کو حنفی قرأت خلف الامام کے رد میں پیش کرتے ہیں ۔ جب ہم نے امام احمد ؒ کے اس حوالے کو نہیں مانا تو ان کے اختیار والے حوالے کو کیسے مانیں۔ ان کو اختیار دینے والا حوالہ تو اس سے بھی زیادہ بے بنیاد ہے ‘ لیکن پیر صاحب نے ایک نہ سوچی اور اس حوالے پر اتنی بڑی عمارت کھڑی کر دی۔ پیر صاحب جو دعویٰ کرتے ہیں کہ صحابہؓ میں اس مسئلے میں اختلاف تھا تو کیا انھوں نے یہ سوچا کہ یہ اختلاف کیوں تھا۔ کیا یہ مسئلہ اجتہادی تھایا حضور صلی اﷲعلیہ وسلم  کا عمل ہی مختلف تھا۔ ظاہر ہے کہ رکوع کے بعد وضع ہو یا ارسال ‘یہ کوئی اجتہادی مسئلہ توہے نہیں۔ لہٰذا اس مسئلے میں صحابہ میں اختلاف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔رہ گیا حضور ﷺ کے عمل کا مختلف ہونا تو اگر آپ کے عمل کے مختلف ہونے کی وجہ سے صحابہؓ کا عمل مختلف تھا تو پھر یہ کوئی اختلاف نہیں۔ بایں صورت اس کو صحابہ کا اختلاف کہنا ہی ٹھیک نہیں۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے تسلیم کرلیا جائے کہ حضور ﷺ کا عمل بھی مختلف تھا۔ آپ کبھی رکوع کے بعد ہاتھ باندھ لیتے تھے اور کبھی چھوڑ دیتے تو اولا ً تو اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ ثانیاً پیر صاحب کی سب سے بڑی دلیل  ’’اِذَا کَانَ قَائِمًا فِی الصَّلٰوۃِ ‘‘ کا عموم تو پھر باطل ہو جائے گا۔ کیوں کہ جب آپ نے ہاتھ چھوڑ دیے تو اس حدیث کا عموم قائم نہیں رہا۔ ثالثاً وضع اور ارسال دونوں سنت ثابت ہو گئے۔ پھر پیر صاحب کا رسالے لکھنا اور وضع پر زور دینا  اور ارسال کا انکا رکرنا سب بے کار ہو گیا۔ اب پیر صاحب کو دونوں طریقوں پر عمل کرنا چاہیے۔ ان کو چاہیے کہ کبھی ارسال کریں اور کبھی وضع۔ اگرچہ آپ کا عمل مختلف نہیں تھا۔ ایک تھا‘ وضع تھا یا ارسال تو پھر صحابہؓ میں اختلاف کیسے پیداہو سکتا ہے تاہم اگر اختلاف ہو بھی تو پھر بھی جو صحابہؓ رسول اﷲ ﷺ کے طریقے پر تھے۔ وہ صحیح تھے اور جنھوں نے اختلاف کیا وہ غلط تھے۔ پھر امام احمد ؒیا کسی اور کا اختیار دینا بالکل ناجائز ہوا۔ جب سنت ایک عمل ہے  تو دو عملوں کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے۔ امام احمد بن حنبل ؒ  تو بہت قریب کے زمانے میں تھے۔ ان کو چاہیے تھا کہ جو عمل سنت تھا اس کی تحقیق کرتے ‘ نہ کہ ایک غیر مسنون عمل کی اپنی طرف سے اجازت دے دیتے۔

پیر صاحب نے اپنے دفاع کی ساری عمارت امام احمد بن حنبل ؒ کے حوالے پر تعمیر کی ہے حال آنکہ یہ حوالہ بذات خود قابل اعتماد نہیں۔ا س کے بعد ابن قیم کے جس اصول سے پیر  صاحب نے صحابہ ؓ کااختلاف کشید کیا ہے وہ اصول بھی یہاں فٹ نہیں ہوتا۔ وہ اصول تو یہ بتاتا ہے کہ امام احمد ؒ اختیار وہاں دیتے ہیں جہاں صحابہ میں ایسا اختلاف ہو‘ کہ قرآن و حدیث سے موافقت کسی طرح بھی نہ ہو۔حال آنکہ ارسال اور وضع کے مسئلے میں ایک طرف موافقت ضرور ہے۔  اگرحضور ﷺ کا عمل ارسال تھا تو جو صحابہؓ ارسال کرتے تھے وہ سنت کے موافق تھے۔ اور اگر آپ کا عمل وضع  تھا جو صحابہ ؓ وضع کرتے تھے وہ سنت کے موافق تھے‘ لہٰذا وضع اور ارسال کے مسئلے میں ابن قیم کے اصول کے تحت امام احمدؒکا اختیار دینا بنتا ہی نہیں۔ اب یا تو پیر صاحب امام احمد بن حنبل کے حوالے کو غلط کہیں اور تسلیم کریں کہ ابن قیمؒ کا اصول یہاں فٹ نہیں ہوتا۔ ابن قیم کا یہ اصول وہاں فٹ ہوتا ہے جہاں مسئلہ اجتہادی قسم کا ہو  اور منصوص اور مشاہد نہ ہو۔ وضع اور ارسال کے مسئلے کا تعلق مشاہدے سے ہے ۔ جو کاالمنصوص ہے۔  اس میں صحابہؓ کے اختلاف  ہونے اور کسی طرف بھی موافقت کتاب وسنت نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیںہوتا۔ ابن قیم کا اصول تو قیام رمضان جیسے مسئلے میں صادق آتا ہے۔ جس کے عدد میں اختلاف ہے۔ کسی کا معمول کچھ ہے ‘ کسی کا کچھ‘ اگرچہ مسنون تعداد گیارہ ہے۔ لیکن چوں کہ یہ تطوع  ہے‘ اس لیے اس میں کمی بیشی کی گنجائش  ہے۔ اسی لیے صحابہؓ  اور تابعین کے معمولات مختلف تھے۔ کسی کو کسی ایک معمول پر پابند نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اسی لیے ترمذی میں ہے کہ اس بارے میں امام احمدؒ نے فرمایا:’’ رُوِیَ فِیْہِ اَلْوَانٌ لَمْ یُقْضَ فِیْہِ بِشَیْئٍ ‘‘ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (ترمذی‘ کتاب الصوم ‘ باب ما جاء فی قیام شھر رمضان ‘ص 1727 رقم (806

شاہ ولی اﷲ بھی مؤطا کی شرح میں لکھتے ہیں ۔  فخیر احمدکہ اس مسئلے میں امام احمدؒ اختیار دیتے ہیں۔ (کہ جتنی رکعت کسی کی مرضی پڑھے ) یہ ایسے مسئلے ہیں جن میں امام احمد ؒ  کا اختیار دینا بنتا ہے اور جہاں ابن قیم کا اصول فٹ آتا ہے ۔ ارسال و وضع کا مسئلہ قطعا ایسا نہیں کہ جہاں اما م اختیار دیں اور ابن قیم کا اصول فٹ آئے۔ پیرصاحب نے  نہ  امام احمد ؓ کے حوالے پر غور کیا کہ اس کی حقیقت کیا ہے ‘ نہ ابن قیم کے اصول کو جانچا کہ یہ کہاں فٹ آتا ہے۔ ادھر اختیار  کا لفظ دیکھا ادھر اختیار کا لفظ پڑھا فورا یہ نتیجہ نکال لیا کہ ارسال اور وضع کے مسئلے میں بھی صحابہؓ  کا اختلاف تھا۔ اور پھر کمال یہ ہے کہ پیر صاحب اس استدلال کو ’’انی‘‘ دلیل کہتے ہیں۔ کہاں دھوئیں سے آگ پر استدلال اور کہاں یہ قیاس ۔ دھوئیں سے آگ پر استدلال تو یقینا دلیل  ’’ انی ‘‘  ہے ‘ لیکن امام احمد کے فتویٰ سے صحابہ ؓ کے اختلاف پر استدلال تو دلیل  ’’انھی ‘‘ ہے جسے اندھی کہتے ہیں۔ پیر صاحب کے اسی طرز استدلال کو دیکھ کر میں نے شروع میں ہی لکھا تھا کہ بعض کو تو چاند واقعتا نظر آ جاتا ہے ‘ جس کو پھر سب دیکھ لیتے ہیں۔  لیکن بعض کو تو دھوکا ہی لگتا ہے اور وہ اس دھوکے کو ہی چاند کہتے رہتے ہیں۔حال آنکہ چاند  ہوتا نہیں۔ ہمارے بزرگوں کا بھی اس مسئلے میں یہی حال ہے کہ وہ دھوکے پر دھوکا کھاتے ہیں۔ لیکن اس کو ثبوت کہتے جاتے ہیں۔ پیر صاحب خواہ برا ہی منائیں ‘ کیوں کہ اب وہ بہت اونچے چلے گئے ہیں۔ لیکن دیانت داری  کی بات یہ ہے کہ پیر صاحب کو اس مسئلہ میں دھوکا ہی لگا ہے۔ کیوں کہ ان کا راستہ اجتہاد  و قیاس کا راستہ ہے۔ ان کا معتمدنقل نہیں۔  پیر صاحب کے لیے رجوع کرنا اب بہت مشکل ہے۔ لیکن اگر پیر صاحب کو اﷲ توفیق دے دے  اور وہ اس مسئلے میں رجوع کرلیں تو اس سے بڑا اجتہاد او رکوئی نہیں اور اس جیسا اخلاص بھی اور کوئی نہیں۔ ورنہ عالم اپنے مسئلوںمیں کہا ں رجوع کرتے ہیں۔  ان کے لیے تو ’’انا ‘‘ کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ پیرصاحب کو شاید یہ احساس نہیں کہ اس بے بنیاد مسئلے پر  ان کی وجہ سے جتنے سادہ لوح لوگ لڑھکتے ہیں ‘ آخر ان کا بوجھ کس کی گردن پر ہوگا؟ اس کے علاوہ اس نئے مسئلے سے جماعتوں میں جو تفریق  و انتشار پید اہوتا ہے اس کے نقصان کا اندازہ تو وہی کر سکتے ہیں‘ جن کو اس سے واسطہ پڑتا ہے۔پیر صاحب رسالے جتنے مرضی لکھیں‘ جواب جتنے مرضی دے لیں‘ لیکن جواب ان سے بنتا نہیں۔ لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیے فٹافٹ جواب لکھ دینا اور بات ہے ‘جواب واقعتا جواب ہونا  بالکل اوربات ہے۔ جواب معقول تبھی ہو سکتا ہے جب مسئلہ بھی معقول ہو۔ جب مسئلہ ہی نامعقول اور قیاسی ہو تو جواب کیا ہوگا؟ اس مسئلے کے سلسلے میں میں نے پیر صاحب کے کئی رسالے پڑھے۔ مجھے پیر صاحب سے بڑی عقیدت تھی ‘ اس  عقیدت کے باوجود کسی رسالے نے کوئی اپیل نہیں کی۔ میں نے جب بھی پیر صاحب کا رسالہ پڑھا تو طبیعت جنجھلائی کہ یہ کیا دلائل ہیں اور کیسا جوا ب ہے۔ میں نے خود لکھنے کی کبھی نہیں سوچی‘ کہ اس فتنے کوکیا ہوا دینی ہے۔ لیکن اب جب کہ پانی سر سے چڑھ گیا ہے اور اس علاقے میں جہاں کہ اہل حدیثوں کا وجود بالکل نیا ہے انتشار بہت بڑھ گیا تو مجبوراً یہ ناگوار قدم اٹھانا پڑا۔ جس کے لیے میں معذور ہوں لیکن یہ بات میں اب بھی پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ پیر صاحب اس مسئلے میں سراسر غلطی پر ہیں۔ وہ اپنی پوری کوششوں کے باوجود اس مسئلے کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکتے۔ یہ مسئلہ کسی نقل پر مبنی  نہیں‘ بلکہ قیاس اور اجتہاد پر مبنی ہے۔ اس لیے اس مسئلے  کی کوئی صحیح بنیاد نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ پیر صاحب ٹھنڈے دل سے نیچے آ کر اس مسئلے پر غور کریں۔ آخر دین کا معاملہ ہے۔ کوئی بعید نہیں ۔ شاید اﷲ شرح صدر فرما دے۔ لیکن اگر پیر صاحب اپنے اس غلط موقف پر اڑے  ہی رہے ‘ تو ہم پھر بھی پیر صاحب کے لیے اس عقیدت و ارادت کے تحت جو ہمیں ان سے ہے ‘ یہ دعا کرتے ہی رہیں گے۔

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ ھَادِیًا  مَھْدِیًا 

اے اﷲ! جب تو نے ان کو جماعت کا ایک بڑا عالم بنایا ہے تو تو ان کو اہل حدیث کے لیے ہدایت کا سبب بنا‘ فتنے اور انتشار کا سبب نہ بنا‘ آمین یا رب العالمین۔!