مایجوز فی القیام بعد الرکوع وضع الیدین ام ارسال الیدین

مایجوز فی القیام بعد الرکوع وضع الیدین ام ارسال الیدین

نظرات فی رسائل 

لفضیلۃ الشیخ سید محمد سعد الدین الغباشی

و لِفضیلۃ الشیخ ابی محمد بدیع الدین الشاہ السندھی

پروفیسر حافظ محمد عبداﷲ بہاول پوری 

عربی سے اردوترجمہ 

حافظ عبدالمنان بن پروفیسر حافظ عبداﷲ بہاول پوری


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ مُحَمَّدٍ وَّ آلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ اَمَّا بَعْدُ:

جناب پیر بدیع الدین شاہ الراشدی ؒ (پاکستانی ) اور جناب سید سعد الدین الغباشی  (سعودی عرب) نے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے یعنی وضع الیدین  کے موضوع پر تصنیفا ت لکھیں مگر اپنا موقف ثابت کرنے میں قاصر ہی رہے‘ لیکن اس کے باوجود ہاتھ باندھنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے میں نے ارادہ کیا ہے کہ تفصیلی و جامع انداز میں کچھ تحریر کروں‘ جو لوگوں کے سامنے حق کو روز روشن کی طرح واضح کر دے۔ اور تمام لوگوں کے لیے رہنمائی کا باعث ہو جو اس مغالطے کا شکار ہو بیٹھے ہیں اور یہ کہ میں نے اس مختصر سے رسالے میں مکالمہ اندازی اختیار کی ہے‘ جس کا مقصد فریقین کے اعتراضات و جوابات کو ممکنہ حد تک اس رسالے میں سمو لینا ہے۔ 

وضع الیدین (ہاتھ باندھنا ) کے قائل کو میں ’’الف ‘‘سے ظاہر کروں گا اورارسال الیدین  (ہاتھ چھوڑنا ) کے ماننے والے کو’’ ب‘‘ سے ۔

ا۔ بعض لوگ رکوع کے بعد قیام میں ہاتھ باندھتے ہیں آپ سے پوچھنا ہے کہ یہ جائز ہے یا ناجائز ؟

ب۔ میرے بھائی! یہ جائز نہیں -

ا۔ مگر ہاتھ باندھنے والے تو اسے سنت ثابت کرتے ہیں۔

ب۔ نہیں میرے بھائی!اس کا سنت ہونا  تو درکنار یہ جائز  بھی نہیں۔ کیوں کہ ان کے پاس کوئی نص نہیں۔ کسی بھی نقلی دلیل سے وہ خالی ہیں اور امت کا ہمیشگی کا عمل بھی ان کے خلاف ہے۔ ہاں  وضع الیدین کے قائلین کے پاس استدلالات ضرور ہیں جنھیں وہ سنت کا نام دے بیٹھے ہیں۔

ا۔ تو پھر بتائیے کہ اس مسئلے میں ان کا استدلال کیا ہے ؟

ب۔ وہ حضرات تو ان مطلق احادیث سے استدلال کرتے ہیں  کہ جن میں بس ہاتھ باندھنے کا تذکرہ ہے۔ مثلا صحیح بخاری میں سھل بن سعد ؓ کی حدیث اور دوسری کتب سے وائل بن حجر ؓ کی روایت۔

ا۔ کیا ان کا استدلال صحیح نہیں ؟

ب۔ ان کا استدلال علمی قوانین کے خلاف ہونے کی وجہ سے سراسر باطل ہے‘ کیوں کہ حدیث میں جو لفظ  قائما مطلق آیا ہے اس سے مراد پہلا قیام لیا جائے گا نہ کہ دوسرا  اور اگر لفظ  قائما میں دوسرے قیام کی شمولیت کرنی ہو تواس کے لیے یا تو  واضح نص درکار ہے یا پھر قرینہ  جو کہ احادیث مطلقہ میں قطعی موجود نہیں۔

ا۔ یہاں تو صراحت اور قرینہ ضروری ہی نہیں ہے۔ کیوں کہ لغوی اور شرعی لحاظ سے قیام رکوع سے پہلے ہو یا بعد میں ان میں کوئی فرق نہیں۔

ب۔ میرے بھائی!ان دونوں کے درمیان لغوی  وشرعی تفریق موجود ہے ‘ مگر اسے سوجھنے والے وہ ہوتے ہیں جو عالم ہونے کے ساتھ ساتھ بالغ النظر بھی ہوںاور ہاتھ باندھنے والے غور و فکر نہیں کرتے۔

ا۔ دونوں قیاموں کے مابین شرعی تفریق کیوں کر ہے ۔؟

ب۔ شرعی لحاظ سے ہر رکعت میں ایک قیام ہوتا ہے۔ اگر رکوع کے بعد والے کو ہم شرعی قیام تصور کر لیں تو ماننا پڑے گا کہ ایک رکعت میں دو قیام ہوتے ہیں‘ حالانکہ پوری رکعت میں سجدے ہی دو ہوتے ہیں کچھ اور نہیں۔ قیام کا تکرار اگر ہے بھی تو صرف صلوۃ الکسوف میں ہے‘اور کسی بھی نماز میںنہیں۔ معلوم ہوا کہ رکوع کے بعد والا قیام عرف شرعی میں قیام گردانا ہی نہیں جاتا۔ 

ا۔ تو پھر رکوع کے بعد والے قیام کوعرف شرع میں کیا کہتے ہیں ؟

ب۔ اسے یا تو اعتدال کہا جاتا ہے یا  الرفع بعدالرکوع

ا۔ لغوی لحاظ سے ان کے مابین کس طرح فرق کریں گے۔؟

ب۔ رکوع سے پہلے والا قیام ‘ رکوع کے بعد والے قیام سے لمبا ہوتا ہے ‘اس لیے اس قبل الرکوع کو قیام اور قیام بعدالرکوع کو  ’’قومہ ‘ ‘ کہا جائے گا ۔ اس کے علاوہ بھی متعدد وجوہ کی وجہ سے فرق کیا جا سکتا ہے۔

ا۔ وہ کون سی وجوہات ہیں ‘ وہ بھی بتا دیجیے۔

ب۔ وہ درج  ذیل ہیں۔

--1پہلا قیام دوسرے کے مقابلے میں زیادہ اہمیت والا ہے۔ اس کی نماز میں بنیادی حیثیت ہے‘  بالکل اسی طرح جیسے رکوع و سجود مگر دوسرے قیام کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ بھی رکوع و سجود جیسی اہمیت رکھتا ہے۔ پھر دیکھیے کہ قیام (پہلا) رکوع  سجدہ کو تسمیۃ الجزء باسم الکل (جزو بول کر کل مراد لینا ) کے قاعدے  کے مطابق نماز بھی کہا گیا ہے۔ جس کی کثیر مثالیں قرآن و حدیث میں موجود ہیں ۔ مثلاً   {وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ }:2]البقرۃ[43:{وَ تَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدِیْنَ } :26]الشعراء[219:۔۔ { قُمِ الَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْلاً }:73]المزمل[2: احادیث میں  ((مَنْ قَامَ  رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا))  وغیرہ ۔ ان آیات و احادیث میں قیام‘ رکوع و سجود سے مراد نماز ہے۔ کیوں کہ یہ نماز کے بنیادی ارکان ہیں۔ رہا دوسرا قیام اور دوسجدوں کے درمیان بیٹھنا تو ان کی یہ کیفیت نہیں کہ انھیں ’’نماز‘‘ کے نام کامتبادل ٹھہرایا جائے۔

--2 پہلا  قیام دوسرے کے مقابلے میں  لمبا ہوتا ہے جس میں فرض قرأت ہے اور دوسرے قیام  میں قرأت نہیں بلکہ محض ذکر اور دعا ہے۔ قیام ثانی لمبا  بھی ہوتا ہے اور چھوٹا بھی۔ مگر قیام اول جتنا بھی چھوٹا ہو جائے ‘ سورہ فاتحہ کی مقدار سے چھوٹا   ہر گز نہیں ہو سکتا۔ لیکن قیام ثانی میں اطمینان و اعتدال کی شرط ہے۔ اسی لیے اس کو ’’اعتدال‘‘ بھی کہتے ہیں اور اس کی مقدار کم از کم ایک دفعہ ’’رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہنے  کے برابر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ( صحیح  البخاری ‘ کتاب الصوم ‘ باب من صام رمضان ایمانا و احتساباو نیۃ‘ ص 148 رقم 1901 ۔۔ صحیح ابن خزیمۃ ‘ کتاب الصیام ‘ باب ذکر مغفرۃ الذنوب السالغۃ بصوم رمضان ایمانا و احتسابا‘ 194/3رقم 1894۔۔ ارواہ الغلیل 14/4 رقم 906 ۔۔ مشکوۃ ‘ کتاب الصوم ‘ الفصل الاول‘  رقم 1958)

ا۔ حضرت انس ؓ و حذیفہؓ کی روایات تو قیام ثانی کے طویل ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔

ب۔ ان میں جو قیام ثانی کے طویل ہونے کا معاملہ ہے تو وہ رکوع و سجود کے مقابلہ میں ہے۔ نہ کہ قیام اول کے مقابلہ میں۔ اور اس بات کی طرف براء بن عازب ؓکی وہ حدیث جو صحیح بخاری میں منقول ہے اشارہ کرتی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کا رکوع ‘ سجدہ‘ دوسجدوں کے درمیان بیٹھنا اور رکوع سے اٹھ کر کھڑا ہوناتقریبا برابر ہوتا تھا۔ہاںقیام اور تشہد کا معاملہ یہ نہ تھاا ور ویسے بھی دو قیاموں کے درمیان مقابلہ کی تک ہی نہیں بنتی۔ کیوں کہ قیام اول اتنا طویل ضرور ہوتا ہے کہ اس میں قرآن مجید کا اکثر حصہ یا مکمل قرآن بھی پڑھا جا سکتا ہے اور قیام ثانی کا معاملہ ایسا نہیں۔ 

--3قیام اول کا صرف ایک ہی نام ہے‘ یعنی قیام ۔۔ لیکن قیام ثانی کو مطلق قیام کی بجائے صراحۃ ً یا اشارۃ قیام بعدا لرکوع ہی کہتے ہیں اور شریعت میں جو ا س کا خاص نام ہے وہ ’’اعتدال‘‘ یا ’’الرفع بعد الرکوع‘‘ ہے۔ فقہا کرام اسے ’’قومہ‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ غرض یہ کہ قیاموں کے ناموں کا مختلف ہونا ہی اپنے اندر یہ معنی رکھتا ہے کہ دونوں قیاموںمیں فرق ہے۔ اگر ان میں فرق نہ ہوتا تو ان کا نام بھی ایک ہی ہوتا۔ جس طرح دوسجدے ایک ہونے کی وجہ سے ایک نام ہی رکھتے ہیں۔

--4دونوں قیاموں کے اختلاف کے موجب ہی ہم کہا کرتے ہیں کہ ہر رکعت میں ایک قیام ہوتا ہے ورنہ  دو قیام کہنا چاہیے تھا۔ سجدہ اصل میں نماز کا افضل رکن ہونے کی حیثیت سے دہرا ہوتا ہے مگر قیام‘ رکوع صرف صلوۃ الکسوف میں دہرے ہو سکتے ہیں۔ ابن قیم کتاب الصلوۃ میں فرماتے ہیں:

وَالسُّجُوْدُ سِرُّ الصَّلٰوۃِ وَرُکْنُھَا الْاَعْظَمُ وَ خَاتِمَۃُ الرَّکْعَۃِ وَ مَا قَبْلُہ‘ مِنَ الْاَرْکَانِ کَا الْمُقَدِّمَاتِ لَہ‘ ‘‘  

یعنی سجود نماز اور اس کا سب سے بڑا رکن اور رکعت کا خاتمہ ہے اور اس سے پہلے والے ارکان تو سجدے کے لیے تمہیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ پھر چند سطروں کے بعد فرماتے ہیں: وَ کَانَ السُّجُوْدُ اَفْضَلُ اَرْکَانِھَا الْفِعْلِیَّۃِ وَ سِرُّہَا الَّتِیْ شُرِعَتْ  لِاَجَلِہٖ وَ کَانَ تُکَرِّرُہ‘ فِی الصَّلٰوۃِ اَکْثَرُ تُکَرِّرَہٖ مِنْ سَائِرِ الْاَرْکَانِ کہ سجدہ نماز  کے فعلی ارکان  میں سے سب سے افضل ہے اور نماز  کا وہ راز ہے جس کی وجہ سے نماز فرض کی گئی اور اس کی تکرار باقی ارکان سے زیادہ ہے۔ پھر فرماتے ہیں۔ ثُمَّ لَمَّا شُرِعَ السُّجُوْدُ بِوَصْفِ التَّکْرَارِ لَمْ یَکُنْ بد مِنَ الْفَصْلِ بَیْنِ السَّجْدَتَیْنِ  کہ جب سجدے دو فرض کیے گئے ہیں تو ان کے درمیان فاصلہ کرنا بھی ضروری ٹھہرا۔

حضرت شاہ ولی اﷲ حجۃ اﷲ البالغہ میں رقم طراز ہیں: وَ کَانَ السُّجُوْدُ  اَعْظَمُ الْتَعْظِیْمِ یُظُنَّ اَنَّہُ الْمَقْصُوْدُ بِالذَّاتِ وَ اِنَّ الْبَاقِیَ طَرِیْقٌ اِلَیْہِ  فَوَجَبَ اَنْ یُؤدَّیَ حَقَّ ھٰذَا الشَّبَہِ وَذٰلِکَ بِتَکْرَارِہٖ کہ سجدہ تعظیم  کا سب سے بڑا رکن ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نماز کا حقیقی مقصد  بھی یہی ہے اور باقی ارکان اس تک پہنچنے  کے ذرائع  ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ سجدے کو کما حقہ اد اکیا جائے اور یہ تکرار کے ساتھ ہی ہو سکتا ہے۔

مندرجہ بالا عبارات سے یہ بات عیاں ہے کہ نماز کے دوران سجدہ ہی ایسا  رکن ہے  جو دہرا ادا کیا جاتا ہے ‘ نہ کہ رکوع اور قیام نتیجتا معلوم ہوا  کہ ہر رکعت میں قیام ایک ہے اور یہ بھی ثابت ہوا  کہ عرف شرع میں قیام ثانی کو قیام کہتے ہی نہیں بلکہ یہ قیام اول کا نام ہے اور قیام ثانی تو صرف رکوع اور سجدہ میں فاصلہ کرنے کے لیے ہے۔ اسی وجہ سے اس کا نام اعتدال بعد الرکوع یا  القومہ  رکھا گیا ہے۔ جیسا کہ شاہ شاہ ولی اﷲ دہلوی حجۃ اﷲ البالغہ (ج 2 ص (6 میں فرماتے  ہیں:  وَلَمَّا کَانَ کُلُّ مَنْ یَھْوِیْ اِلَی السُّجُوْدِ لاَ بُدَّلَہ‘ مِنَ الْاِنْحِنَائِ حَتّٰی یَصِلَ اِلَیْہِ وَ لَیْسَ ذٰلِکَ رَکُوْعًا بَلْ ھُوَ طَرِیْقٌ اِلَی السَّجْدَۃِ مَسَّتِ الْحَاجَۃُ اِلَی التَّفْرِیْقِ بَیْنَ الرَّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ بِفَضْلٍ اَجْنَبِیٍّ وَ سَتُمَیَّزُ بِہٖ کُلٌّ مِنَ الْاٰخَرَ لِیَکُوْنَ کُلَّ وَاحِدٍ طَاعَۃٌ مُسْتَقِلَّۃٌ بِقَصْدِھَا مُسْتَانِفًا  فَتُنَبِّہُ النَّفْسُ لِثَمَرَۃِ کُلِّ وَاحَدٍ بِاِنْفَرَادِھَا  وَ ھُوَ الْقَوْمَۃ ُ  کہ وہ آدمی جو سجدہ کرنا چاہے اس کے لیے اتنا جھکنا ضروری قرار 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (حجۃ اﷲ البالغۃ 605/2 مبحث الامور التی لا بدمنھا فی الصلوۃ )

دیا گیا ہے کہ وہ سجدہ تک پہنچ سکے۔ تو یہ حقیقت میں رکوع نہیں بلکہ یہ تو سجدہ تک پہنچنے کا ایک راستہ ہے۔ تو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ رکوع  اور سجدہ کے درمیان کسی اجنبی فعل کے ساتھ حد فاصل قائم کی جائے تاکہ یہ دونوں مستقل رکن کی حیثیت  سے ادا کیے جائیں اور انسانی طبیعت ان دونوں سے لطف اندوز ہو سکے۔  اور اس حد فاصل کو قومہ‘ کہتے ہیں۔ شاہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :  اَلْقَوْمَۃُ شُرِعَتْ فَارِقَۃً بَیْنَ الرَّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ  کہ قومہ تو  رکوع اور سجود کے درمیان فرق کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔

شاہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے دونوں مقامات پر ’’قومہ‘‘ کا  استعمال اس بات کی تنبیہ کے لیے  کیا ہے کہ ہر رکعت میں قیام صرف ایک ہوتا ہے اور قیام ثانی تو قومہ ہے جس کو شروع کرنے کا مقصد رکوع اور سجود کے مابین کا فرق کرنا ہے۔

--5 سلف صالحین اور محدثین  دونوں قیاموں کے مابین اس انداز سے فرق کرتے ہیں کہ پہلے قیام کے لیے مطلق لفظ ’’قیام‘‘ اور دوسرے کے لیے قید (ایک خاص صفت لگا کر ) ذکر کرتے ہیں مثلا اعتدال یا الرفع بعدا لرکوع۔

--6 اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ امام احمد بن حنبل ؒ نے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے یا چھوڑنے کا اختیار دیا ہے تو اس سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ انھوں نے دونوں قیاموں میں واضح فرق بھی کر دیا ہے کیوں کہ وہ قیام ثانی میں تو اختیار دیتے ہیں قیام اول  میں نہیں اور یہ واضح ترین دلیل ہے جو دونوں قیاموں کو آپس میں مختلف قرار دیتی ہے۔

--7 اگر قیام ثانی نماز میں اصطلاحی قیام ہوتا توا سکا ذکر بھی صلوۃ الکسوف کے مختلف قیاموں میںآتا ‘ حال آنکہ وہاں صرف قیام اول کا ذکر آیا ہے۔ جس میں قرأت کی جاتی ہے۔

--8 اگر دونوں قیام نماز میں مراد ہیں تو نماز کسوف میں صرف قیام قبل الرکوع کا  تکرار کیوں ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (حجۃ اﷲ البالغۃ 6-5/2 مبحث الامور التی لا بدمنھا فی الصلوۃ )

جب بہت سی وجوہ کے ذریعے دونوں قیاموں کا فرق واضح ہو چکا ہے اور ثابت ہو تا ہے کہ پہلا اور دوسرا قیام کلی مشکک (وہ مفہوم کل جس کے افراد کی صفتیں مختلف ہیں ) کے افراد  میں سے ہے۔ مطلق قیام  کا لفظ بول کر دونوں مراد نہیں لیے جا سکتے بلکہ ان کے درمیان فرق کرتے ہوئے دیکھا جائے گا کہ حدیث میں آنے والا لفظ قائما قواعد کے مطابق ان دونوں قیاموں میں سے کس کے لیے وارد ہوا ہے۔

اہل علم  کے ہاں یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ جب لفظ عام مطلقا بولا جائے اور اس کے افراد (جزئیات ) مختلف وجہ کی ہوں جیسا کہ کلی مشکک میں ہوتا ہے توا ن افراد میں سے فرد خاص مشہور ہی مراد لیا جائے گا اور اس قاعدہ میں کوئی شاذ یا استثنا والی بات بھی نہ ہوگی۔ سنن نسائی   کی روایت میں جو لفظ ’’ قائمًا‘‘ مطلقا واردہوا ہے تواس سے مراد قیام اول ہی ہوگا کیوں کہ یہی  مشہور ہے۔ رہا دوسرا قیام تو وہ بغیرقرینہ و وضاحت کے پہلے قیام میںشامل نہ ہوگا اور وہ قرینہ یہاں موجود ہی نہیں تو ماننا پڑے گا کہ  اِذَا کَانَ قَائِمًا فِی الصَّلٰوۃِ  جب  بھی آ پ نما ز میں کھڑے ہوتے ہیں  کُلَّمَا قَامَ قَبَضَ بِیَمِیْنِہٖ عَلٰی شِمَالِہٖ  جب  بھی آپ کھڑے ہوتے بائیں کو دائیں ہاتھ سے پکڑتے۔ یہ احادیث قیام اول کے ساتھ خاص ہیں ۔ قیام ثانی اس میں شامل نہیں۔

ا۔ ہم آپ کے ان خود ساختہ قواعد کو ہر گز نہیں مانتے ۔ جب حدیث عام ہے تو ہاتھ باندھنا بھی دونوں قیاموں میںمسنون ہوا۔

ب۔ میرے بھائی! یہ اصول ایسے ہیں کہ ان کا انکار ہم کسی طور پر بھی نہیں کر سکتے ‘ کیوں کہ یہ تمام فریقین کے درمیان مسلم بھی ہیں اور ہمارے عام استعما ل میں بھی آتے ہیں۔ ان کا انکار کرنا تو جہالت پر مہر ثبت کرنے والی بات ہے۔ ویسے میںآپ کو ایک سادہ سی مثال دے کر سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(نسائی : کتاب الصلوۃ ‘ باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلوۃ‘ ص 2144 رقم 888)

ریاض میں علما کا اجتماع ہو رہا ہو ۔ پے در پے علما تشریف لا رہے ہوں اچانک کوئی کہے کہ ’’شیخ ‘‘ آ گئے تو وہاں کون سے شیخ مراد ہوں گے۔ 

ا۔ یقینی بات ہے کہ شیخ ابن باز ہی مراد ہوں گے۔

ب۔ آخر کیوں ؟ کیا وہاں دوسرے شیوخ نہیں ہیں۔

ا۔ شیوخ تو وہاں واقعی کثرت سے ہیں مگر سب سے مشہور و افضل ابن باز ہی ہیں‘ اس لیے مراد بھی وہی ہوں گے۔

ب۔ یہی میں کہتا تھا کہ اس قاعدہ کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔ ایک اور مثال دیتاہوں۔ جب آپ لفظ ’’ابن عمرؓ ‘‘سنتے ہیں تو کون سے ابن عمرؓ مراد ہوں گے۔

ا۔ عبداﷲ بن عمرؓ

ب۔ حال آنکہ عبیداﷲ بن عمر ؓ وغیرہ عمر رضی اﷲ عنہ کے بیٹے نہیں ہیں؟

ا۔ وہ تو ہیں مگر لفظ ابن عمرؓ سے مشہور عبداﷲ بن عمر ؓہی ہیں۔

ب۔ اسی طرح سے ابن عباس سے مقصود عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ ہوں گے نہ کہ دوسرے بیٹے ۔ حال آنکہ دوسرے بیٹے بھی شرعی اور لغوی لحاظ سے بیٹے ہی ہیں۔ہمارا قاعدہ بھی یہی ہے کہ جب لفظ مطلق بولا جائے اور اس کے کئی افراد ہوں تو مراد خاص ہی لیا جائے گا۔جیسا کہ کلی مشکک میں ہوتا ہے۔ اسی طرح لفظ مطلق ’’قیام‘‘ بولا گیا ہے تو اس سے مراد پہلا خاص قیام ہے ‘ نہ کہ دوسرا ؟ اگرچہ دوسرا قیام بھی لغوی لحاظ سے قیا م ہی ہے۔ وضع الیدین کے قائلین غور نہیں کرتے کہ کلام اور محاورات میں اکثر لغت کے مقابلہ میں عرف عام کا اعتبار ہوتا ہے‘ بلکہ عرف ہی لغت کے اوپر حاکم ہوتا ہے۔دیکھیے !ایک ریال بھی مال ہے اور لاکھ ریال بھی لغوی لحاظ سے مال ہی ہے۔ لیکن لاکھوں ریال والوں کو تو مال دار کہیں گے ایک والے کو نہیں اور اسی فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی ہاتھ باندھنے والے بہت بڑے مغالطے میں پڑ گئے جس سے اﷲ کی تائید و نصرت کے بغیر نکلنا ممکن نہیں۔

ا۔ وہ کون سا مغالطہ ہے۔؟

ب۔ انھیں مغالطہ لگا ہے کہ وہ لوگ رکوع کے بعد کھڑے ہونے کو بھی پہلے قیام کی طرح قیام فرض کر بیٹھے۔حال آنکہ ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رکوع کے بعد والے قیام کو بھی احادیث میں قیام کہا گیا ہے ۔ انھیں یہ دیکھنا چاہیے تھا کہ محدثین نے جہاں کہیں بھی رکوع کے بعد قیام کا تذکرہ کیا تو اسے کسی قرینہ کے ساتھ مقید کرتے ہوئے ہی کیا ہے ۔ 

ہاتھ باندھنے والے علما کرام کی اس بات پر بڑا تعجب ہوتا ہے کہ وہ استدلال تو کیے جا رہے ہیں لیکن اس بات کی پرواہ نہیں کر رہے کہ ان کا استدلال کیا ہے اور دلائل کیا ہیں۔؟ جناب سعید بن سعد الدین غباشی اپنے رسالہ  ’’ ھدی خیر الانام فی وضع الیمنی علی الیسری فی القیام ‘‘  میں فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ کا فرمان  اِذَا کَانَ قَائِمًا اور  اِذَا قَامَ  عام ہے‘ جو کہ ہر قیام کو شامل ہے۔ ابن تیمیہ ؒ اپنی کتاب  ’’اقتضاء الصراط المستقیم ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ عام کی دوسری قسم عموم الجنس لا فرادہ  ہے۔یعنی وہ لفظ عام جو اپنے تمام افراد کو شامل ہوتا ہے مقصد یہ ہے کہ جب ہم نے قیام بولا تو یہ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے دونوں قیاموں کو شامل ہوگا۔

جناب سعید بن سعد الدین الغباشی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ لفظ قیام عام ہے اور ہر قسم کے قیام کو شامل ہے اور دلیل کے لیے ابن تیمیہ ؒ کا قول پیش کیا ہے۔وہ یہ نہیں دیکھتے  کہ ان کا دعویٰ کچھ اور ہے  دلیل کچھ اور۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ کسی نبوت کے داعی سے دلیل پوچھی جائے تو وہ جواب دے کہ نبوت تو جاری ہے کیوں کہ اﷲ نے قرآن میں فرمایا{ یٰبَنِیْ اٰدَمَ اِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ }:7]الاعراف[35:اے آدم کی اولاد !جب بھی کوئی رسول تمھارے پاس آئے ۔

ابن تیمیہ ؒ کا یہ فرمانا کہ لفظ عام اپنے تمام افراد کو شامل ہوتا ہے بالکل صحیح ہے اختلاف تو اس بات میں ہے کہ عام اپنے افراد کو  کیسے شامل ہوتا ہے۔ تمام افراد کو ہمیشہ برابر شامل ہوتا ہے‘ یا کبھی کسی فرق کے ساتھ ۔ میں آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ لفظ طویل عام ہے جو ہر لمبی شے کو شامل ہے‘ لیکن جب لفظ صرف طویل بولا جائے تو ہر لمبی چیز پر برابر طور پرفٹ نہیں آتا‘ بلکہ اس کو کسی خاص لمبی شے پر منطبق کرنے کے لیے کسی وضاحت کی ضرورت ہوگی۔اور اگر لفظ طویل مطلق ہو توا س سے مراد وہ آدمی ہوگا جو لمبائی میں زیادہ لمبا اور مشہور ہوگا۔اور جب دو مختلف لمبائیوں والے آدمی ہوں گے تو ان پر برابر طور پر منطبق نہ ہوگا۔ جیسا کہ الغباشی کا دعویٰ ہے۔ پس یہی صورت حال دونوں قیاموںمیں ہے کہ پہلا قیام زیادہ لمبا ہوتا ہے اور دوسرا اس کے مقابلہ میں مختصر۔ اب اگر لفظ قیام مطلق بولاجائے تو دونوں قیاموں پر اس کا انطباق نہیںہوتا  بلکہ جب دوسرا قیام مطلق قیام میں داخل کرنا مقصود ہوگا تو کسی نہ کسی قرینہ یا وضاحت کی ضرورت ہوگی جو ان مطلقہ احادیث میںنہیں پائی جاتی۔ اس بات کو نہ جناب الغباشی سمجھ سکے ‘ نہ ہی پیر بدیع الدین الراشدی ۔ وہ اپنے رسالہ’’ زیادۃ الخشوع‘‘ میں تعجب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑنے والے پر تعجب آتا ہے کہ احادیث میں راویوں کے وارد شدہ الفاظ  اِذَا رَکَعَ۔۔ اِذَا سَجَدَ ۔۔ اِذَا جَلَسَ  سے  تو عام معانی مراد لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے مراد تمام سجدے اور رکوع مراد ہیں مگر راوی کے قول اذا قام  سے عام معانی مراد نہیں لیتے ہیں: مثلاً اور یہی لفظ جب دوسری جگہ پر آتا ہے تو اس  سے بھی عام معانی ہی مراد لیتے ہیں مثلا۔  اِذَا قَامَ اِلَی الصَّلٰوۃِ کَبَّرَ ۔۔ اِذَا قَامَ مِنَ الَّیْلِ یَشُوْصُ فَاہٌ بِالسَّوَاکِ  ۔۔۔ اِذَا قَامَ مِنَ الَّیْلِ یُصَلِّیْ اِفْتَتَحَ صَلاَتَہ‘ بِالرَّکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ۔۔۔ اِذَا قَامَ مِنَ الْمَجْلِسِ اِسْتَغْفَرَ اﷲَ  تو پھر  کون سی 

ایسی رکاوٹ ہے جو  اِذَا قَامَ فِی الصَّلٰوۃِسے عام معنی مراد لینے میں حائل ہوتی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (صحیح مسلم‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب اثبات التکبیر فی کل خفض و رفع فی الصلوۃ الارفعہ من الرکوع فیقول فیہ سمع اﷲ لمن حمدہ ‘ ص 740 رقم 30-29 ۔۔ صحیح البخاری ‘ کتاب الاذان ‘ باب التکبیر اذا قام من السجود‘ ص 62 رقم 789  بلفظ ’’ اذا قام الی الصلوۃ یکبر‘‘

  (صحیح البخاری‘ کتاب الوضوء ‘باب السواک ص 22رقم 245 ۔۔صحیح  مسلم ‘ کتاب الطہارۃ ‘ باب السواک‘ ص722۔۔۔723 رقم 47-46۔۔ ابوداؤد ‘کتاب الطہارۃ ‘ باب السواک لمن قام باللیل‘ ص 1226 رقم 55 ۔۔ نسائی  کتاب الطہارۃ ‘ باب السواک اذا قام من اللیل‘ ص 2087  رقم 2۔۔ ابن ماجۃ ‘ کتاب الطہارۃ ‘ باب السواک  ص2495 رقم 286)

 (مسلم: کتاب الصلوۃ المسافرین ‘ باب صلوۃ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم و دعاتہ بااللیل ص 798 ‘ رقم 198-197 ۔۔ مشکوۃ: کتاب الصلوۃ ‘ باب صلوۃ  اللیل‘ رقم 1194 )


ہے۔ اﷲ ان کو ہدایت نصیب فرمائے۔ مصیبت تو یہ ہے کہ شاہ صاحب رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے پر زور تو بہت دیتے ہیں مگر اس کے دلائل پر بالکل غور نہیں کرتے۔ ان کے استدلالات  میں کو ئی فقیہانہ بات  بھی ہے یا نہیں۔ مقیس (جس مسئلہ کو قیاس کیا جائے ) اور مقیس علیہ (جس مسئلے پر قیاس والے مسئلے کی بنیاد ہے) کو برابر سمجھنا ہر گز فقاہت کی نشانی نہیں۔ وہ غور نہیں کرتے کہ اِذَا رَکَعَ ۔۔ اِذَا سَجَدَ ۔۔اِذَا جَلَسَ ۔۔ اِذَا قَامَ فِی الصَّلٰوۃِ  میں واضح فرق موجود ہے۔ ان میں سے کسی کوبھی دوسرے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا اور یہی معاملہ  ۔ اِذَا قَامَ مِنَ الَّیْلِ ۔۔اِذَا قَامَ اِلَی الصَّلٰوۃِ۔۔ اِذَا قَامَ اِلَی الْمَجْلَسِ۔۔ اِذَا قَامَ فِی الصَّلٰوۃِ کے مابین ہے۔ علما کرام کو یہ قطعی زیب نہیں دیتا کہ وہ اس طرح سے قیاس کریں۔

میرے بھائی!آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ رکوع ‘ سجدہ‘ جلسہ‘ اسی طرح نماز کے لیے کھڑا ہونا‘ رات میں کھڑا ہونا اور مجلس سے اٹھنا یہ ایسی جنسیںہیں کہ جن کے افراد کی حقیقت کلی متواطی (مساوی افراد والا مفہوم ) کے افراد کی طرح بالکل برابر ہے۔ جس وجہ سے جب ان کے اوپر ’’اذا‘‘  داخل ہو گا تو عام معانی ہی مراد لیا جائے گا‘ لیکن  اِذَا قَامَ فِی الصَّلٰوۃِ  میں  یہ کلی مشکک  (غیر مساوی افراد والا مفہوم )  کی شکل ہیں ۔ جس میں  ’’اذا‘‘ داخل  ہو بھی جائے تو عام معانی مراد نہیں لیے جا سکتے ‘ بلکہ اس کے افراد میں سے جو مشہور فرد ہوگا‘ اس کو مراد لیں گے اور وہ قیام اول ہے نہ کہ قیام ثانی۔

شاہ صاحب اسی بات کا اعادہ کیے جاتے ہیں کہ ’’اذا ‘‘ عموم کا فائدہ دیتا ہے مگر یہ نہیں سوچتے کہ عموم سے کون سا عموم مراد ہے۔ وہ فقط لفظ کی طرف دیکھتے ہیں معانی کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ لفظ  اذا کا عام معنی اس کے مدخول (جس پر یہ داخل ہو تا ہے ) کی بنا پر ہوتا ہے نہ کہ خود مدخول کا معنی عام ہوتا ہے۔ اس لیے شاہ صاحب  وہ مثالیں تو پیش کرتے ہیں جن میں لفظ  ’’اذا‘‘  وارد ہوا ہے مگر ان کو سمجھتے نہیں کہ وہ مثالیں جن پر یہ قیاس کر رہے ہیں یہ اورجنس سے ہیں اور اِذَا قَامَ فِی الصَّلٰوۃِ  کسی اور جنس سے ۔ پھر شاہ صاحب اﷲ کی بارگاہ میں ہمارا شکوہ پیش کرتے ہیں اور ہم بھی اﷲ کی بارگاہ میں شاہ صاحب کا شکوہ پیش کرتے ہیں کہ وہ خود ہی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔

اور یہ بڑی عجیب بات ہے کہ شاہ صاحب ؒ نے قیام بعد الرکوع  میں ہاتھ چھوڑنے والوں پر اعتراض کرتے ہوئے خوشی میں یہ شعر نقل کیا ہے۔

فَاِنْ کُنْتَ لاَ تَدْرِیْ فَتِلْکَ مُصِیْبَۃٌ

وَ اِنْ کُنْتَ تَدْرِیْ فَالْمُصِیْبَۃُ اَعْظَمُ 

کہ اگر تجھے معلوم نہیں تو یہ بھی ایک مصیبت ہے اور اگر تو علم والا ہے تو پھر یہ بڑی مصیبت ہے۔

اس اعتراض سے شاہ صاحب کا یہ گمان ہے کہ ارسال والے اس میں پھنس گئے ہیں اور ان کے لیے جواب دے کر خلاصی پانا ممکن نہیں رہا۔ چنانچہ وہ اپنے رسالے ’’زیادۃ الخشوع ‘‘ صفحہ 78,77 پر لکھتے ہیں:

علما پر تعجب بلا تعجب ہے کہ وہ ہاتھ باندھ کر مخلوق کے سامنے کھڑے ہونے سے منع کرتے ہیں جیسا کہ بدعتی لوگ رسول اﷲ ﷺ کی قبر کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور اس منع کی کوئی واضح دلیل وہ قرآن و سنت سے نہیں دکھاتے‘ بلکہ ان کا زیادہ سے زیادہ استدلال یہ ہے کہ اﷲ کے سامنے یہ نماز کی حالت ہے۔ اور مخلوق میں سے کوئی بھی اس تعظیم میں شرکت نہیں کر سکتا۔ ویسے یہ دلیل ہونے کی حیثیت سے عمدہ دلیل ہے بھی۔

اس بنیاد پر ارسال کی حالت بھی مخلوق کے سامنے ممنوع ہونی چاہیے۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ارسال نماز کی حالت میں سے ہے لیکن اگر کہا جائے کہ وضع تعظیمی حالت ہے نہ کہ ارسال تو ہم کہیں گے کہ پھر اس کو نماز میں کیوں داخل کرتے ہو ۔ حال آنکہ یہ بھی اﷲ کی تعظیم ہے۔

اگر یوں کہا جائے کہ اﷲ فرماتا ہے: {قُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ} :2]البقرۃ [238:تو  ہم کہیں گے کہ ٹھیک ہے۔ کیا تم دوسرے قیام کو بھی اس حکم میں داخل کرتے ہو۔ اگر تم داخل کرو تو اعتراض بحال رہے گا اور اگر داخل نہ کرو تو تمھارا کلیہ باطل ہو جاتا ہے۔ پھر اس حکم میں ایک کو داخل کرنا اور دوسرے کو نہ کرنا اس عمل کی بھی کوئی دلیل نہیں۔ کیوں کہ اگر تم  دوسرے قیام کو داخل کرو گے تو  مخلوق کے سامنے ارسال ممنوع ہو جائے گا اور اگر تم نکال دو گے تو پھر اسے نماز میں داخل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ 

فَاِنْ کُنْتَ لاَ تَدْرِیْ فَتِلْکَ مُصِیْبَۃٌ

وَ اِنْ کُنْتَ تَدْرِیْ فَالْمُصِیْبَۃُ اَعْظَمُ 

شاہ صاحب کے اس اعتراض پر تعجب کرنے سے ان کے فہم کا نقص واضح ہورہا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ حقائق شرعیہ سے نابلد ہیں۔ گویا کہ وہ تفقہ سے خالی دامن ہیں۔  کہ ان کو اﷲ کے سوا مخلوق کے سامنے ہاتھ باندھ کر اور ہاتھ چھوڑ کر کھڑے ہونے میں کوئی فرق ہی معلوم نہیں ہو رہا  اور انھیں یہ بھی معلوم نہیں کہ مخلوق کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا ناجائز اور ہاتھ چھوڑکر کھڑے ہونا  جائز کیوں ہے؟ شاہ صاحب رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے پر زور دیتے جاتے ہیں ۔ اس لیے ہاتھ باندھنا تو نظر آتا ہے اور باقی چیزیں چھپ جاتی ہیں۔سچ ہے  حبک شیء یعمی و یصم  کہ  تجھے کسی چیز کی محبت اندھا بہرا کر دے گی۔ وہ ادھر ادھر ہاتھ  پاؤں تو مارتے ہیں مگر موقف کو ثابت کرنے کے لیے انھیں کوئی دلیل نہیں ملتی۔ان کا مقصود صرف یہ ہے کہ وہ ثابت کر دکھائیں کہ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا ہی نماز کی ہیئت ہے اور دونوں قیاموں (مخلوق والے جائز اور ناجائز ) میں یہی فرق ہے کہ مخلوق کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا اس لیے ممنوع ہے کہ وہ نماز کی ہیئت میں سے ہے۔ اور چھوڑ کر کھڑا ہونا اس لیے جائز ہے کہ وہ نماز کی کیفیت نہیں۔

شاہ صا حب ؒ کو اپنے موقف کے اثبات کی دھن نے یہ بھی سوچنے نہ دیا کہ مخلوق کے سامنے نہ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا جائز ہے ‘ نہ ہی چھوڑ کر۔ اگر ہاتھ چھوڑکر کھڑا ہونا نماز کی ہیئات میں سے نہیں تو پھر مخلوق کے لیے ایسا قیام بھی ممنوع قرار دینے کی کیا وجہ ہے؟

حقیقت تو یہ ہے کہ قیام خواہ ہاتھ باند ھ کر ہو یا چھوڑ کر درحقیقت دونوں کیفیات نمازکی ہی ہیں۔ البتہ مخلوق والے قیام اور نماز کے قیام کے درمیان فرق ہے کہ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا بناوٹی حالت ہے جو انسان کسی کی تعظیم کے لیے کرتا ہے اور ہاتھ چھوڑ کرکھڑے ہونا یہ طبعی حالت ہے۔ جس میں کوئی بناوٹ اور ارادہ تعظیم کا دخل نہیں کیو ں کہ یہ ایسی عادت ہے جسے انسان کسی بھی وقت تبدیل نہیں کر سکتا‘ خواہ تعظیم کا ارادہ ہو یا نہ ہو۔ مخلوق کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا اس لیے منع ہے کہ ایک تو یہ نماز کی کیفیت ہے اور دوسرا ایسا کرنے والا یہ حالت خود بناتا ہے ‘ جس سے اﷲ کی تعظیم میں مشارکت آتی ہے اور یہی وجہ اس کے ممنوع ہونے کی ہے۔ رہا مخلوق کے سامنے ہاتھ چھوڑکر کھڑے ہونا تو اگرچہ یہ بھی نماز کی کیفیات میں سے ہے‘ مگر ممنوع نہیں کیوں کہ اس حالت میں انسان کسی کی تعظیم کی خاطر کھڑا نہیں ہوتا بلکہ یہ اس کی فطری حالت ہے جو اس سے جدا نہیں ہوتی لہٰذا مخلوق کے لیے ہاتھ باندھ کر یا چھوڑ کرکھڑا ہونا دونوں ہی ممنوع ہیں کیوں کہ نما ز کی حالتیں ہیں۔ کھڑا ہونے والا پہلے بیٹھا تھا اور کسی آنے والے کی وجہ سے اس کی تعظیم کے لیے کھڑا ہو گیا تو یہ وجہ ہی اس کے ممنوع ہونے کا باعث بن گئی ۔ پھر مخلوق کے سامنے ہاتھ چھوڑ کر کھڑا ہونا بھی اس لیے جائز ہے کہ اس میں تعظیم کی حالت پیدا نہیں ہوتی بلکہ یہ اس شخص کی فطری حالت ہے جو پہلے سے ہی موجود تھی مگر جب اس نے ہاتھ باندھنے کا اس میں اضافہ کیا تو یہ قیام ممنوع ہو گیا۔ کیوں کہ اب نماز کی حالت مخلوق کے لیے بنائی گئی ہے۔ تو معلوم ہو اکہ قیام میں منع کی علت نماز والی حالت مخلوق کے لیے پیدا کرنا ہے ‘ نہ کہ صرف کھڑا ہونا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک شخص اگر پہلے سے ہی کھڑا تھا اور کوئی آ  گیا  تو یہ اس کا قیام صحیح ہے چاہے اس نے ہاتھ باندھے ہوں یا کھلے چھوڑ رکھے ہوں ‘ کیوں کہ یہاں اس نے مخلوق کے لیے نماز والی حالت نہیں بنائی۔ خلاصہ یہ کہ اگر نماز والی حالت کسی کے لیے بنائی جائے گی تو ممنوع ہوگی ورنہ جائز ۔ 

ا۔ اگر ہاتھ کھلے چھوڑ کر کھڑا ہونا طبعی حالت ہے ‘ جس میں کوئی تعظیم نہیں تو پھر اسے نما زمیں شامل ہی کیوں کیا گیا ہے؟

ب۔ یہ قاعدہ صحیح نہیں کہ نماز میں صرف تعظیمی افعال ہی داخل ہیں اور وہ افعال جن میں نماز کے باہر تعظیم نہیں وہ داخل نہیں کیے گئے۔ اس لیے کہ کسی بھی فعل میں بذات خود کوئی تعظیم نہیں بلکہ اس کی تعظیم اس کے عبادت کی کیفیات میں شامل ہونے کی وجہ سے آتی ہے۔ اس لیے ہر وہ فعل جو عبادت کی ہیئات میں داخل ہو تعظیمی کہلائے گا اور جو عبادت کی کیفیات  میں داخل نہ ہو وہ تعظیمی نہیں۔ رکوع اور سجدہ اس وجہ سے تعظیمی ہے کہ یہ اﷲ کی عبادت کی کیفیات میں سے ہیں اور اگر یہ عبادت کی کیفیات میںسے نہ ہوتے تو تعظیم میں نہ ہوتے۔ بعض کیفیات ایسی ہوتی ہیں جو عبادت کے لیے مخصوص ہوتی ہیں ۔ کیوں کہ وہ عبادت کے لیے ہی مقرر کی گئی ہوتی ہیں۔ لہذا وہ نماز کے اندر ہوں یا باہرتعظیمی ہی کہلائیں گی اور بعض کیفیات ایسی ہوتی ہیں جن کا شمار عبادت کی حالتوں میں نہیں ہوتا۔ باوجود کہ نماز  کی کیفیات میں سے ہوں ‘ وہ کیفیات عبادت کے لیے مقرر ہی نہیںتو وہ کیفیات جب نماز کے اندرہوں گی تو تعظیمی اور باہر ہوں گی تو تعظیمی نہیں کہلائیں گی۔ کیوں کہ طبعی کیفیات ہیں جن کا سامنا ‘ نماز سے باہر بھی ہو سکتا ہے۔ قبلہ کی طرف کھڑا ہونا یا بیٹھنا باہر طبعی حالت میں ہو توان میں تعظیم نہیںا ور جب نماز کے اندر داخل ہوں توان میں بھی تعظیم آ جائے گی ‘ کیوں کہ اس وقت یہ نماز کی کیفیات میں سے ہوں گی اور یہی معاملہ رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑکر کھڑا ہونے کا ہے۔اگرچہ نماز کے باہر اس میں تعظیم نہیں۔ کیوں کہ یہ طبعی حالت ہے۔ مگر نماز کی حالتوںمیں داخل ہونے سے یہ عمل بھی تعظیمی ہو جائے گا۔ لہٰذ ہاتھ چھوڑ کر کھڑا ہونا بھی مطلوب ہے۔ تاکہ نماز دونوں قیاموں کی جامع بن جائے اور وہ ہے ہاتھ باندھنا اور چھوڑنا۔ جب انسان نماز میں قبلہ رو ہو کر کھڑا ہوتا ہے تو وہ مختلف انداز اپنا کر اپنے رب کی عبادت کرتا ہے۔کبھی کھڑا ہوتا ہے تو کبھی بیٹھ جاتا ہے۔ کبھی رکوع کی حالت اپناتا ہے تو کبھی سجدے کی۔ ا س طرح ہاتھوں کو بھی مختلف شکلیں دیتا ہے۔کبھی سینے پر رکھتا ہے اور کبھی زانو پر رکھتا ہے اور کبھی زمین پر بچھاتا ہے۔ کسی وقت ان ہاتھوں کو اٹھا بھی لیتا ہے۔ درحقیقت نماز میں یہ تمام حالتیںمطلو ب ہیں تاکہ اس کے ہر جوڑ پر جو شکر ادا کرنا واجب ہے اس کو اد اکیا جا سکے اور وہ اپنے خالق کی عبودیت کا اقرار کر سکے۔

وضع الیدین کے قائلین تو یہاں کہیں لفظ (قیام ) دیکھ لیتے ہیں اسی کو اپنی دلیل خیال کرکے فتویٰ صادر فرما دیتے ہیں اور یہ سوچ ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتی کہ اس لفظ سے صحابہ ؓ اور محدثین ؒ نے کیا مراد لی ہے۔کیا وہ قیام  ثانی کو مطلق قیام میں داخل خیال کرتے ہیں ؟ اگر جوا ب ہاں میں دیا جائے تو اس کا جواب چند وجوہ کے ذریعے دیا جا سکتا ہے ۔

--1ایسا ممکن نہیں کیوں کہ یہ معروف علمی قواعد کی خلاف ورزی ہے۔

--2آپ کو کیسے معلوم ہو ا کہ ان کی مراد یہی ہے ۔ کیا انھوں نے کسی بھی جگہ اس کی وضاحت کی ہے۔مگر اس کے برعکس کئی جگہوں پر ان کی یہ وضاحت موجود ہے کہ انھوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو پہلے قیام میں ہاتھ باندھتے دیکھا  دوسرے قیام کا وہ ذکر ہی نہیں کرتے۔ جیسا کہ مسلم اور ابوداؤد کی حدیث میں موجود ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ صحابہ ؓ اور محدثین  ؒ نے قیام ثانی کا ذکر کیوں نہ کیا۔ جس طرح قیام اول کا کیا ۔ کیا انھوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو قیام ثانی میںہاتھ باندھتے نہیں دیکھا۔؟

اگر کوئی دعویٰ کرے کہ ہاں دیکھا ہے تو ان سے پوچھا جائے کہ کس نے دیکھا ؟ کس وقت دیکھا؟ اور دیکھنے کی جگہ کون سی تھی ؟ جب کہ قیام اول کا حال تو انھوں نے  وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ لیکن اگر کوئی کہنے والا یہ کہہ دے کہ دونوں قیام لغوی لحاظ سے قیام ہیں جب ایک کا حال بیان ہو گیا تو دوسرے کا خود بخود واضح ہو گیا ہے۔ اس لیے قیام اول کے بیان پر ہی اکتفا کیا گیا ہے‘ تاکہ پہلے پر قیاس کر کے دوسرے قیام کو سمجھ لیا جائے تو اسے ہم یہ کہیں گے کہ اگر دونوں قیام ایک ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں تو ہر جگہ قیام اول کے حال پر ہی کیوں اکتفا کیا گیا ہے۔کسی جگہ  دوسرے قیام کے بیان پر بھی اکتفا ہونا چاہیے تھا۔

صحابہ ؓ نے یہ تو بیان کر دیا کہ انھوں نے پہلے قیام میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ سلم کو ہاتھ باندھتے دیکھا  ہے مگر قیام ثانی کے متعلق  انھوں نے کبھی ایسا دعویٰ نہیں کیا۔اگر انھوں نے ایک مرتبہ ہی آپ کو قیام ثانی میں ہاتھ باندھے دیکھا ہوتا تو کبھی تو بیان کرتے۔

اس مسئلہ کے قائلین یہ نہیں سوچتے کہ اگر مطلق قیام کا وہی معنی مراد ہوتا جو ان حضرات نے سمجھ لیا ہے تو کبھی کسی جگہ محدثین بھی وضاحت کر ہی دیتے ۔ محدثین نے تو ایسا ہر گز نہ کیا۔ ہاں ہاتھ باندھنے والے بار بار ایسا کر رہے ہیں۔

ا۔ آج ہاتھ باندھنے والے اس لیے اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہیں کہ ان کے مقابلہ میں ہاتھ چھوڑنے والے بھی موجود ہیں۔ اگر آج یہ موجود نہ ہوتے جیسا کہ پہلے تھا تو محدثین کی طرح انھیں بھی اس کی ضرورت نہ ہوتی۔

ب۔ معاملہ اس کے برعکس ہے بلکہ یہ بات سوچ‘ عقل‘ نقل اورمشاہدہ کے خلاف ہے۔ جب ہم ماضی قریب و بعید کی طرف نظر کرتے ہیں تو جوں جوں آپ اوپر چلے جائیں گے آپ کو ہاتھ باندھنے  والوں کی تعداد کم ہوتی نظر آئے گی۔ حتیٰ کہ خیر القرون میں آپ کو کوئی ایسا ایک فرد بھی نہ ملے گا جو وضاحت یا اشارہ کے ساتھ ہاتھ باندھنے کا اثبات کرے۔ البتہ آج کے دورمیں جو کہ تقلید شخصی اور فتنوں کا دور ہے دن بدن ہاتھ باندھنے والوں کی تعداد بڑھتی نظر آتی ہے۔ لیکن ہماری معلومات کے مطابق آج سے تقریبا چالیس پچاس برس قبل ہمارے علاقوں میں اور دوسرے علاقہ جات میں کوئی ایک فرد بھی ہاتھ باندھنے والا نہ تھا۔البتہ آج کل دوسرے ممالک کی طرح ہمارے ہاں بھی ہاتھ باندھنے والوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔

ا۔ اگر ہاتھ باندھنے والے خیرالقرون میں ایک شخص کا بھی ثبوت فراہم نہیں کر سکتے جو اس مسئلے کا قائل ہو تو ہاتھ چھوڑنے والے بھی خیر القرون میں کوئی ایک فرد پیش کرنے سے قاصر ہی ہیں۔

ب۔ --1ماضی میں تابعین اور تبع تابعین کا عمل قطعی طور پر کتب احادیث میں ثابت ہے ۔ --2اگر ماضی میں ارسال الیدین( ہاتھ چھوڑنا) نہ تھا تو اس دور میں ا س کثرت کے ساتھ اس پر عمل کیوں ہے ؟ امت مسلمہ کا کسی بھی مسلک کے امتیاز کے بغیر اتنی کثرت سے عامل ہونا ہی اس بات کی قوی دلیل ہے کہ ماضی میں بھی ارسال تھا۔

--3 ہاتھ باندھنے والوں کا تو یہ دعویٰ ہے کہ لوگ دوسرے قیام میں بھی ہاتھ باندھا کرتے تھے۔ حالانکہ کتب حدیث میں واضح طور پر موجود ہے کہ لوگوں نے سستی یا کسی اور سبب سے قیام اول میں بھی ہاتھ باندھنا ترک کردیا تھا۔ جیسا کہ مالکیوں کا عمل ہے۔ جب قیام اول میں ہاتھ چھوڑنا شروع  ہو گیا تو دوسرے قیام میںبھی ہو جانا چاہیے تھا۔  کیوں کہ جو پہلے قیام میں ہاتھ چھوڑتے ہیں وہ دوسرے قیام میں بھی ہاتھ چھوڑتے ہیں۔ا س کے برعکس ممکن ہی نہیں۔ تو یقین کے ساتھ ماضی میں ہاتھ چھوڑنے والوں کا ثبوت میسر آ گیا اور آج کل مالکیوں کا عمل کہ وہ دونوں قیاموں میں ہاتھ چھوڑتے ہیں۔ا س بات کی دلیل ہے ۔اور پوری دنیا میں ایک بھی فرد ایسا نہیں مل سکتا  جو کہ قیام اول میںا رسال کرتا ہو اور قیام ثانی میں وضع الیدین۔ اگر دونوں قیاموںمیں وضع ہوتا تو دونوں قیاموں میں تساہل یا کسی اور وجہ سے چھوڑنا لازم آتا۔ ہمیں تسلیم کیے بغیر چارہ ہی نہیں کہ خیر القرون میں قیام ثانی کا ارسال موجود تھا‘ خواہ وہ تساہل کی وجہ سے ہو ‘ جیسا کہ ہاتھ باندھنے والوں کی وضاحت سے ثابتہوتا ہے یا وہ سنت ہو جیسا کہ ارسال الیدین والے دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن ہاتھ باندھنا نہ تو عملاً ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی روایتا۔ پھر امت کا عمل بھی ارسال الیدین پر بہت بڑی دلیل ہے۔ ہاتھ باندھنے والے تو صرف علما کی تقلید میںہاتھ باندھتے ہیں اور کسی بھی دلیل کی طرف متوجہ نہیں ہوتے‘ مگر ارسال الیدین کے قائلین ایسا ہر گز نہیں کرتے کیوں کہ یہ عمل شروع سے لے کر اب تک جاری و ساری ہے۔ اور امت مسلمہ بلا مسلک کی قید کے ہاتھ چھوڑتی ہے۔

ا۔ کیا یہ تقلید نہیں ؟ بلکہ بہ طریق اولیٰ تقلید ہے۔ 

ب۔ نہیں بھائی یہ تقلید نہیں‘ بلکہ تقلید تو شخصی ہوتی ہے حال آنکہ یہ تو ساری امت کا اتباع ہے اور ایسا اتباع تقلید نہیں ہوتا۔ خصوصاً جب یہ اہل حق کا موقف ہو اور تقلید تو سرے سے اہل حق میں ہوتی ہی نہیں۔ 

ا۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ امت کا عمل شروع میں تقلید شخصی کی وجہ سے ہو ۔؟

ب۔ بھائی صاحب!سمجھنے کی کوشش کیجیے ‘ ارسال کا معاملہ ایسا ہر گز نہیں‘ بلکہ یہ محدثین کا عمل ہے‘ جو تقلید سے بچے ہوتے ہیں۔ اگر ان میں بھی تقلید چل پڑے تو وہ اہل حق کہاں کے ؟ کیوں کہ اہل تقلید اہل حق نہیں ہیں اور پھر دیکھیے کہ محدثین عظام  ؒ وہ ہستیاں ہیں کہ جن کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا : لاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ  ظَاھِرِیْنَ عَلَی الْحَقِّ ‘‘ کہ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم و دائم رہے گا۔ تو ماننا پڑے گا کہ محدثین کا عمل کسی تقلید شخصی کا نتیجہ نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یہ کسی نقلی دلیل پر ہی قائم ہے۔ اور اس کی پیروی کو تقلید سے عبارت نہیں کرتے۔ 

ہاتھ باندھنے والوں کے پاس نہ تو کوئی نص ہے ‘ نہ ہی امت کا عمل ان کی طرف ہے۔ ان کے پاس اگر کچھ ہے توہ صرف قیاس و ظنون ہی ہیں۔ اس لیے امت کا عمل ان کے مقابلے میں بہ منزلہ نص ہے۔

اب واضعین کے ذمے لازم ہے کہ وہ بتائیں کہ قیام ثانی قواعد علمیہ کی رو سے قیام اول میںشامل ہے یا  صحابہ ؓ اور محدثین کے نزدیک یہ بات موجود ہے ۔ اور اگر وہ یہ بات ثابت نہ کر سکیں اور کر بھی نہ سکیں گے تو ان الفاظ احادیث سے استدلال کرنا جن میں متعلقہ لفظ قیام آیا ہے صحیح نہیں۔ اس کے مقابلہ میں امت میں جاری عمل کا اتباع کرنا زیادہ احتیاط کی بات ہے ‘ کیوں کہ یہ علم ہی کی پیروی ہے‘ جیسا کہ اﷲ نے فرمایا۔{ وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ }:31]لقمان[15: اور ارسال ہی اﷲ کی طرف رجوع کرنے والوں کا اتباع ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بخاری: کتاب الاعتصام‘ باب قول النبیؐ  لا تزال طائفۃ من امتی ظاھرین علی الحق           ص 609 رقم (7311:

ا۔ کیاشیخ ابن باز اور شیخ سندھی وغیرہ اﷲ کی طرف رجوع کرنے والے نہیں اور ان کا اتباع منیبین کا اتباع نہیں؟

ب۔ یہ تو امت کے چند افراد ہیں اور { مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ }  ایک جماعت کو شامل ہے ۔ اور جو لفظ جماعت کو شامل ہو وہ افراد کو شامل نہیں ہوتا اور ارسال الیدین کا عمل تو اہل حق کا عمل ہے جو ابتدا سے چلا آ رہا ہے اور اس عمل کا اتباع تقلید نہیں۔ رہا ہاتھ باندھنے کا عمل تو یہ اس پرفتن دور کے چند افراد کا استدلال ہے اور متاخرین میں سے بعض افراد کے اتباع ہی کو  توتقلید کہتے ہیں۔ اﷲ ہمیں اس سے  بچائے۔

ا۔ آپ کہتے ہیں کہ محدثین نے کسی جگہ بھی قیام ثانی کے مطلق لفظ قیام میں داخل ہونے کی تصریح نہیں کی۔ میرا خیال ہے کہ انھوںنے دوسرے قیام کے لفظ قیام میں عدم شمول کی بھی تصریح نہیں کی۔

ب۔ دوسرے قیام  کاشمول مطلق لفظ قیام میں قواعد علمیہ کے مطابق درست نہیں۔ اس کی شمولیت کی نفی جب قواعد کے ذریعے ہو گئی تو کسی نفی کی وضاحت کی ضرورت نہ رہی۔ رہا تمھارا یہ خیال کہ صحابہ ؓ  محدثین ؒ تمھاری طرح علمی قواعد سے بے بہرہ تھے‘ ہر گز نہیں۔ ان بزرگوں کا اسلوب ہی پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ مطلق لفظ قیام میں قیام ثانی داخل نہیں۔ ہم واضعین کو چیلنج کرتے ہیں کہ قرآن و حدیث سے کوئی ایسی دلیل پیش کریں جس سے متعلق قیام کے ذریعے دوسرا قیام بھی مرادلیا جا سکے۔ بغیر کسی قرینہ ووضاحت کے۔

شاہ صاحب نے اپنے ایک اردو  رسالہ میںبعض باتیں پیش کرکے اس کا ثبوت لانے کی کوشش کی ہے کہ قیام ثانی مطلق لفظ قیام میں داخل ہے‘ لیکن یہ ڈوبتے کو تنکے کا سہار ا ہی ہے۔ اس میں مطلب کی کوئی چیز بھی نہیں۔ لیجیے!میں وہ مثالیں بھی پیش کرتا ہوں  اور ساتھ ہی ان کا جواب بھی۔

مثال اول:(( یٰاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ اِمَامَکُمْ لاَتَسْبِقُوْنِیْ بِاالرَّکُوْعِ وَ لاَ بِالسُّجُوْدِ وَلاَ بِالْقِیَامِ وَ لاَ بِالْاِنْصِرَافِ )) اے لوگو! میں تمھارا امام  ہوں لہٰذا رکوع و 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (صحیح مسلم‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب تحریم سبق الامام برکوع او سجود ونحوھما‘ ص 746 رقم 112 ۔۔ مسند احمد102/3 رقم 11586۔۔ نسائی ‘ کتاب السہو ‘ باب النہی عن مبادرۃ الامام بالانصراف من الصلوۃ ص 2177 رقم 1364)

سجود قیام اور نماز سے پھرنے میں مجھ سے سبقت نہ کرو۔ شیخ سندھی نے یہ مثال لکھ 

کر یہ گمان کرلیا ہے کہ لفظ ’’قیام‘‘ دوسرے قیام کو شامل ہے ‘ مگر یہ صرف ظن ہی ہے اور ظن حق کے مقابلے میں کفایت نہیں کرتا۔ اس حدیث میں لفظ قیام دوسرے قیام کو ہر گز شامل نہیں۔یہاں آنے والالفظ قیام یہ بتاتا ہے کہ جس طرح رکوع و سجود میں امام سے سبقت نہیں ہو سکتی اس طرح قیام میں بھی نہیں۔ یہاں دو تین چیزوں کا تذکرہ  بطور مثال کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان مذکورہ حالتوں  میں تو سبقت ممنوع ہے۔ مگر باقی میں ہو سکتی ہے۔ بلکہ اس نہی میں  جلسہ  قعدہ‘ ہر بدلنے والی کیفیت  شامل ہے۔ اس طرح وہ دلیل جو نماز  کی ہر کیفیت کو شامل ہے وہ دوسرے قیام کو بھی شامل ہے۔یعنی سبقت کی نفی۔ نہ کہ اس میںو ارد شدہ لفظ ’’قیام‘‘ سبقت امام کی نفی کاقرینہ ہے دوسرے قیام کے لیے لہٰذا شیخ سندھی کا موقف ثابت نہیں ہوتا۔

دوسری مثال:  اِذَا صَلّٰی قِیَامًا فَصَلُّوْا قِیَامًا  جب امام کھڑا ہو کر پڑھے تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو۔

تیسری مثال: صَلِّ قَائِمًا فَاِنْ لَّمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا  کھڑے  ہو کر نماز پڑھو اگر طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر۔

ان دونوںمثالوں میں لفظ قیام سے حقیقی قیام مراد نہیں بلکہ قعود کے مقابلے میں قیام ہے جو اپنی اصل جنس اور دوسری جنس کو شامل ہے۔ یہاں دوسرا قیام لفظ قیام کی وجہ سے شامل نہیں  بلکہ اپنے عمومی و مجازی معنی کی وجہ سے شامل ہوا ہے 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  ( صحیح البخاری‘ کتاب الاذان ‘باب انما جعل الامام لیؤتم بہ‘ ص 55 رقم 689 ۔۔ مشکوۃ ‘کتاب الصلوۃ ‘ باب ما علی الامام من المتابعۃ و حکم المسبوق‘ الفصل الاول ‘رقم 1139)

 (صحیح البخاری‘ کتاب التقصیر ‘ باب اذ لم یطق قاعدا فصل علی جنب‘ ص 87 رقم 1117۔۔ ارواہ الغلیل 8/2 رقم 299 و ابن الجارود 120۔۔۔ابوداؤد ‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب فی صلوۃ القاعد‘ ص 1293رقم 952۔۔ ترمذی کتاب الصلوۃ ‘ باب ما جاء ان صلوۃ القاعد علی النصف من صلاۃ القائم ‘ص 377-376 رقم 372)

کہ نمازی کھڑے ہو کر نماز پڑھے گا  تو رکوع بھی کھڑے ہو کر کرے گا اور جب بیٹھ کر پڑھے گا تو رکوع بھی بیٹھ کر ہی کرے گا۔اس لیے شاہ صاحب کا موقف اس سے ثابت نہیں ہوتا۔

چوتھی مثال:  فَادَارَنِیْ حَتّٰی اَقَامَنِیْ عَنْ یَمِیْنِہٖ رسول اﷲ نے مجھے پھیرا اور دائیں جانب کھڑا کر لیا۔ اس حدیث میں اقامنی نہ تو پہلے قیام کے لیے ہے اور نہ ہی  قیام ثانی کے لیے  بلکہ یہ بھی ممکن ہے  کہ یہ تکبیر تحریمہ سے پہلے ہوا ہو۔جیسا کہ مسلم میں انس رضی اﷲ عنہ کی روایت یہ دلالت کرتی ہے کہ رسول اﷲ  ﷺ نے مجھے اور مری ماں یا خالہ کو نماز پڑھائی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم  نے مجھے دائیں جانب کھڑا کرلیااور عورت کو پیچھے  بلکہ یہ روایت تو صرف مقتدی کا مقام واضح کرنے کے لیے بیان کی گئی ہے‘ جس میں آپ نے بیان فرمایا کہ جب مقتدی و امام دو ہی آدمی ہوں تو مقتدی امام کی کس جانب کھڑا ہو۔ لہٰذا حدیث کا یہ معنی ہوگا کہ فَجَعَلَنِیْ عَنْ یَمِیْنِہٖ لاَ صَلّٰی رسول اﷲ ﷺنے مجھے  دائیںجانب کھڑا کردیا تاکہ  میں نماز پڑھوں۔  فَاَقَامَنِیْ عَنْ یَمِیْنِہٖ  کا محل دونوں قیاموں پر دلالت نہیں کرتا ‘ بلکہ یہ تو اس بات پر بھی دلالت نہیں کرتا کہ انس ؓ  نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی ہے کیوں کہ ممکن ہے  کہ مقتدی بعد میں عذر کی وجہ سے بیٹھ کرہی نماز پڑھ لے۔ لہٰذا اس مثال سے بھی شاہ صاحب کا موقف بالکل حل نہیں ہوتا اور میرا خیال ہے کہ شاہ صاحب  یہ مثالیں نہ ہی بیان کرتے تو اچھا تھا کیوںکہ خاموشی  انسان کے لیے پردہ کا کام کرتی ہے۔ جب وہ بات کرے اور غلطی کرے تو اس کے لیے شرمندگی اور ندامت کا باعث ہوتی ہے جیسا کہ فارسی مقولہ مشہور ہے:

تامردسخن نگفتہ باشد عیب و ہنرش نہفتہ باشد

بھائی صاحب! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ محدثین کی کتب میں قیام ثانی جہاں 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (صحیح البخاری ‘ کتاب الاذان ‘باب میمنۃ المسجد والامام‘ ص 58 رقم 728۔۔ مشکوۃ ‘  کتاب الصلوۃ‘ باب الموقف الفصل  الاول ‘ رقم 1107 1109-)

بھی مذکور  ہوگا وہ کسی نہ کسی قرینہ یا صراحت کے ساتھ ہی آئے گا۔ یہ نہیں ہوتا کہ مطلق لفظ قیام میں بغیر کسی قرینہ کے قیام ثانی داخل ہو جائے ۔ میں چند مثالیں پیش کرتا ہوں جن میں قیام ثانی کا ذکر ہوا ہے مگر ساتھ قرینہ بھی موجود ہے۔

-1 ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَعْتَدِلَ قَائِمًا   پھر کھڑا  ہویہاں تک کہ سیدھا کھڑا ہوجائے۔

-2 ثُمَّ یَقُوْلُ وَھُوَ قَائِمٌ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ  پھر آپ کھڑے ہو کر رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہتے

-3 اِذَا رَفَعَ رَاْسَہ‘ مِنَ الرَّکُوْعِ اِنْتَصَبَ قَائِمًا جب آپ رکوع سے سر اٹھاتے تو سیدھے کھڑے ہو جاتے۔

-4 قَامُوْا قِیَامًا حَتّٰی یَرَوْنَہ‘ قَدْ سَجَد َ صحابہ ؓ  کھڑے رہتے یہاں تک کہ دیکھ لیتے کہ آپ سجدہ میں چلے گئے ہیں۔

-5   لَمْ نَزَلْ قِیَامًا حَتّٰی نَرَاہُ قَدْ وَضَعَ وَجْھَہ‘ ہم کھڑے ہی رہتے یہاں تک کہ آپ  چہرہ زمین پررکھ دیتے۔

-6 ثُمَّ رَفَعَ رَاْسَہ‘  فَیُقِیْمْ صَلْبَہ‘ ثُم یَقُوْمُ قِیَامًا  پھر  آپ اپنا سر اٹھاتے ‘ کمر کو سیدھا کرتے ‘پھر کھڑے ہو جاتے ۔

-7 وَ اِذَا رَفَعَ رَاسْہ‘ مِنَ الرَّکُوْعِ قَامَ حَتّٰی نَقُوْلَ قَدْ نَسِیَ  جب آپ رکوع سے سراٹھاتے تو اس قدر قیام فرماتے کہ ہم سمجھتے کہ آپ بھول گئے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (ابوداؤد:کتاب الصلٰوۃ ‘باب صلٰوۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود ص 1286 رقم 856:)

 (بخاری: کتاب الاذان ‘ باب التکبیر اذا قام من السجود‘ص 62 رقم 789۔۔۔ صحیح مسلم‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب اثبات التکبیر فی کل خفض و رفع فی الصلوۃ الارفعۃ من الرکوع فیقول فیہ سمع اﷲ لمن حمدہ ‘ ص 740 رقم 28:) 

( مسلم:کتاب الصلوۃ‘ باب الاعتدال  ارکان الصلوۃ  و تخفیفھا فی تمام‘ ص 752 رقم 195)

 (نسائی ‘ کتاب الامامۃ ‘ باب مایجوز للامام من العمل فی الصلوۃ ‘ص 2140 رقم 830)

 (صحیح مسلم ‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب متابعۃ الامام والعمل بعدہ ‘ص 752 رقم 199)

 (بخاری:کتا ب الاذان‘ باب الاطمانیۃ حین یرفع راسہ من الرکوع ‘ص 63 رقم 800: ۔۔   

مسلم: کتاب الصلوٰۃ ‘ باب اعتدال ارکان الصلٰوۃ و تخفیفھا فی تمام‘ ص 702 رقم (195

-8 ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہ‘ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ ثُمَّ قَامَ قِیَامًا طَوِیْلاً قَرِیْبًا مِمَّا رَکَعَ   پھر آپ  سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہ‘ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُکہتے ‘ پھر رکوع کی مقدار کی مثل قیام فرماتے۔

-9 ثُمَّ یَقُوْلُ سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہ‘ حَتّٰی یَسْتَوِیَ قَائِمًا پھر آپ سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہ‘  کہتے اور سیدھے کھڑے ہو جاتے۔

-10 اَنْ لاَّ اَخِّرَ اِلاَّ قَائِمًاکہ میں  اس وقت تک سجدہ  میں نہ جاؤں جب تک کھڑا نہ ہوں۔

لیجیے!چند مثالیں قرآن مجید سے بھی پیش  کرتا ہوں جن  میں لفظ قیام سے مراد پہلا قیام ہی ہے نہ کہ دوسرا ۔ اور قیام اول کو ہی لفظ صلوۃ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مثلا قیام رمضان ‘ قیام اللیل سے مراد تراویح اور تہجد لیا جاتا ہے۔

-1 {وَ قُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ }:2]البقرۃ[238:اﷲ کے لیے عاجزی کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔

-2 { وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا }:25]الفرقان [64:اور وہ لوگ جو اپنے رب کے لیے رکوع و سجود میں رات گزارتے ہیں۔

-3 {قُمِ الَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْلاً }:73]مزمل [2:رات کا قیام کر مگر کچھ حصہ ۔

-4   { وَ اَنَّہ‘ لَمَّا قَامَ عَبْدُاﷲِ یَدْعُوْہُ}:72]الجن[19: اور جب  اﷲ کا بندہ کھڑا ہوتا ہے اور اﷲ کو پکاررہا ہوتا ہے۔

-5 { لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْہِ } :9]التوبۃ[108: وہ مسجد  جو پہلے دن سے ہی تقویٰ کی بنیاد پر بنائی گئی  ہے وہ زیادہ اس 

لائق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں۔

-6 { وَ طَھِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّائِفِیْنَ وَالْقَائِمِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ } :22]الحج[26:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ( سنن ابی داؤد ‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود‘ ص 1286 رقم 857)

میرے گھر کو طواف ‘ قیام ‘ رکوع ‘ و سجود کرنے والوں کے لیے پاک کر۔

-7 {اَمَّنْ ھُوَ قَانِتٌ اٰنَآئَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّ قَآئِمًا }:39]زمر[9: یا وہ شخص جو رات کے حصوں میں سجدہ اور قیام کی حالت میں عبادت کرتا ہے۔

-8 {اَلَّذِیْ یَرَاکَ حِیْنَ تَقُوْمُ }:26]الشعرا[218:وہ ذات جو تجھے کھڑے ہونے کے وقت دیکھ رہی ہے۔

-9 {اِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ الَّیْلِ }:73]مزمل [20تیرے  رب کو معلوم ہے کہ آپ دو تہائی رات کے قریب قیام کرتے ہیں۔

-10 { مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآئِمَۃٌ یَّتْلُوْنَ اٰیَاتِ اﷲِ }:3]آل عمران[113:ا ہل کتاب میں سے  ایک گروہ ایسا ہے کہ جو کھڑے ہو کر اﷲ کی عبادت کرتا ہے۔

ا۔ اگر ان مثالوں میں لفظ قیام سے مراد ’’ الصلوۃ‘‘ ہے تو دوسرا قیام بھی اس میں شامل ہوگا کیوں کہ لفظ صلوۃ اس کو بھی شامل ہے۔

ب۔ لفظ قیام میں قیام ثانی شامل نہیں ہوتا بلکہ عمومی اور مجازی معنی کے تحت شامل ہوتا ہے او ر یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ عمومی معنی کی صورت میں صرف قیام ثانی کو ہی خصوصیت نہیں بلکہ دوسرے افراد بھی داخل ہو جائیں گے ۔ چاہے اس کا تعلق قیام سے ہویا کسی رکن سے ‘ خواہ بنیادی حیثیت کے حامل ہوں یا ثانوی حیثیت کے۔ مثلا قیام اول ‘ رکوع ‘ سجود ‘ جلسات‘ و قعدات۔

لہٰذا ثابت ہوا کہ لفظ قیام سے مراد  وہی قیام اول ہی ہے جسے لفظ صلوۃ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ‘ کیوں کہ یہ رکوع و سجود کی طرح بنیادی رکن ہے اور دوسرے قیام کا معاملہ ایسا نہیں۔ کسی کے نزدیک بھی صلوۃ  بول کر قیام ثانی مراد نہیں لیا گیا۔ 

اس سلسلہ میں چند احادیث ملاحظہ ہوں۔

-1 فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ طَالَ فِیْھِمَا الْقَیَامَ وَالرَّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ آپ نے دو رکعتیں پڑھیں جن میں قیام ‘ رکوع اور سجدہ کو طویل کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (ابی داؤد ‘ کتاب التطوع ‘ باب فی صلوۃ اللیل‘ ص 1322 رقم 1353۔۔ صحیح مسلم ‘ کتاب صلوۃ المسافرین ‘ باب صلوۃ النبی ﷺ  و دعاء ہ باللیل ‘ص 798 رقم 191 ۔۔ مسند احمد 373/1 رقم 3531

-2 فَصَلّٰی  بِِاطْوَلَ قِیَامٍ وَّ رَکُوْعٍ وَّ سُجُوْدٍ مَا رَاَیْتُہ‘ قَطُّ یَفْعَلُہ‘ آپ نے اتنے طویل قیام و رکوع وسجود  کے ساتھ نماز پڑھی کہ میں نے کبھی بھی آپ کو ایسا کرتے نہ  دیکھا تھا۔

-3 امام بخاری کی جزء القراء ۃ میں وارد ہے۔ قَالَ اَتَیْتُ اَبَا سَعیِْدِ الْخُدْرِیِّ فَقَالَ اِنَّ الصَّلٰوۃَ الْاُوْلٰی کَانَتْ تُقَامُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ  فَیَخَرُجُ اَحْدُنَا اِلَی الْبَقِیْعِ فَیَقْضِیْ حَاجَّتَہ‘ ثُمَّ یَاْتِیْ مَنْزِلَہ‘ فَیَتَوَضَّاُ ثُمَّ یَجِئُ اِلَی الْمَسْجِدِ فَیَجِدُ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ قَائِمًا فِی الرَّکَعَۃِ الْاُوْلٰی  راوی  کہتا ہے کہ میں ابوسعید خدری ؓ کے پاس آیا تو انھوں نے  فرمایا ظہر کی نماز حضور ﷺ اس طرح پڑھاتے کہ ہم میں سے کوئی بقیع کی طرف جاتا وہاں قضائے حاجت سے فارغ  ہوتا پھر اپنے گھر جا کر وضوکرکے آتا تو رسول اﷲ  صلی اﷲ علیہ وسلم پہلی رکعت کے قیام میں ہی ہوتے۔

-4 کُنَّا نَحْزُرُ قِیَامَ رَسُوْلِ اﷲِ فِی الظُّھْرِ وَالْعَصْرِ فَحَزَرَنَا قِیَامَہ‘ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْاُولَیَیْنِ مِنَ الْظُّھْرِ قَدْرَ قِرْاَء ۃِ الم سجدہ  ہم ظہر اور عصر میں رسول اﷲ ﷺ کے قیام کا اندازہ کیا کرتے تھے۔ ہم نے آپ کی ظہر کی پہلی رکعت کا اندازہ 

سورہ الم سجدہ کے بقدر کیا۔

عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ کَانَ رُکُوْعُ النَّبِیِّ ﷺ وَ سُجُوْدُہ‘ وَ بَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ وَ اِذَا رَفَعَ رَاْسَہ‘ مِنَ الرَّکُوْعِ مَا خَلاَ الْقِیَامَ وَالْقُعُوْدَ قَرِیْبًا مِّنَ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(صحیح البخاری‘ کتاب الکسوف ‘ باب الذکر فی الکسوف‘ ص 83 رقم 1059۔۔ صحیح مسلم ‘ کتاب الکسوف ‘ باب ما عرض علی النبی ﷺ فی صلوۃ الکسوف من امر الجنۃ والنار‘ ص 821-819 رقم 24۔۔ مشکوۃ  ‘ کتاب الصلوۃ  باب صلوۃ الکسوف ‘ فصل اول ‘ رقم 1484)

 (صفۃ صلوۃ النبی للشیخ البانی رحمہ اﷲ ص 112 ط مکتبہ ریاض)

 (نسائی ‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب عدد صلوۃ العصر فی الحضر‘ ص 2117 رقم 476۔۔ مسند احمد 2/3 رقم 10603 ۔۔ صحیح مسلم ‘ کتاب الصلوۃ ‘ باب القراء ۃ فی الظہر والعصر‘ ص 750‘ رقم 156)

السَّوَائِ  براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ قیام اور تشہد کے علاوہ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کا رکوع ‘ سجدہ ‘ جلسہ اور جب آپ رکوع سے سراٹھاتے یہ حالتیں تقریباً برابر ہوا کرتی تھیں۔

مذکورہ بالاحدیث میں لفظ  قیام صرف قیام اول کو ہی شامل ہے۔ قیام ثانی کو اذا رفع راسہ من الرکوع  کی عبارت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ سب سے واضح دلیل ہے۔ کہ مطلق قیام سے مراد  صحابہ کے نزدیک  پہلا قیام ہے نہ کہ دوسرا۔

اگر معاملہ ایسا ہوتا جیسے وضع الیدین کے قائلین نے گمان کر لیا ہے کہ لفظ قیام دونوں قیاموں کو شامل ہے تو براء بن عازب دو قیاموں میں مختلف ناموں کے ذریعے فرق نہ کرتے۔ اس سے یہ بات بھی ظاہر ہو گئی کہ وائل  بن حجرؓ کی مراد حدیث اذا کَانَ قَائِمًا فِی الصَّلٰوۃِ سے پہلا قیام ہی ہے۔ کیوں کہ صحابہؓ لفظ  مطلق قیام سے قیام اول ہی مراد لیتے تھے اور اسکے خلاف کوئی بھی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ ہاں جو پھر بھی اس کے خلاف دعویٰ کرے تو دلیل پھر اس کے ذمہ ہے۔

ا۔ وائل بن حجر ؓ کی حدیث ان تمام احادیث سے عام ہے کیوں کہ اس میں لفظ  ’’اذا‘‘اور   فی الصلوۃ موجود ہے تو یہ اپنے عمومی معنی کے تحت دونوں قیاموں کو شامل ہوگی۔ تو معلوم ہو اکہ حدیث میں وضع سے مراد دونوں قیاموںمیں وضع ہوگی۔

ب۔ ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ اذا کے  ذریعے حدیث عام ہے ‘ لیکن  اذا  کاعموم اس معنی میں منحصر ہوگا جو لفظ قائما سے  مراد  ہے۔ اگر قَائِمًا فِی الصَّلٰوۃِ سے  دونوں قیام مراد لیے جائیں تو اذا کا عموم دونوں قیاموں کے لیے ہوگا۔ جیسا کہ ہاتھ باندھنے والوں کا دعویٰ ہے اور اگر  قَائِمًا فِی الصَّلٰوۃِ  سے قیام اول مراد لیا جائے تو

اذا کاعموم  صرف پہلے قیام تک محدود ہوگا اور ہم سابقہ اوراق میں ثابت کر چکے ہیں 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (صحیح البخاری‘ کتاب الاذان ‘ باب حد اتمام الرکوع والاعتدال فیہ والاطمینانیۃ ‘ص 63‘ رقم 792۔۔ نسائی ‘ کتاب التطبیق ‘ باب قدر الجلوس  بین السجدتین‘ ص2161  رقم 1149 ‘ مشکوۃ ‘کتاب الصلوۃ ‘ باب الرکوع ‘ الفصل الاول ‘ رقم 869)

  کہ قَائِمًا فِی الصَّلٰوۃ سے علمی قواعد کے مطابق قیام اول ہی مراد ہے کیوں کہ یہاں قیام مطلق ہے اور اس سے مراد ہمیشہ قیام اول ہی لیا جاتا ہے۔ تو  اذا کا عموم پہلے قیام کو ہی شامل ہوگا اور دوسرا قیام اس میں شامل نہ ہو گا۔

ا۔ کیا صرف قیام اول میں عموم  ہو سکتا ہے۔؟

ب۔ ضرور ‘اگر قیام اول میں عموم  نہ ہوتا تو  قَائِمًا  پر  لفظ  اذا  داخل نہ ہوتا جو کہ عموم کے لیے ہے۔

ا۔ اگر  اِذَا کَانَ قَائِمًا کے عموم سے دوسرے  قیام کو نکال دیا جائے تو حدیث عام نہیں رہتی کیوں کہ پھر تو قیام ایک ہی بچتا ہے۔

ب۔ دوسرے قیام کو شامل  کیے بغیر بھی حدیث عام ہی رہتی ہے۔

ا۔ کیسے عام ہو سکتی ہے؟ کیا ایک فرد میں بھی عموم ہو سکتا ہے۔؟

ب۔ جی ہاں! اور حکم اس فرد واحد کے ساتھ لاگو ہوتا رہے گا‘ جہاں یہ فرد موجود ہوگا وہاں حکم بھی موجود ہوگا۔ ’’ما ‘‘ اور  ’’من ‘‘ اور اس میں جنس والے عام کو فرد واحد میں خاص کیا جا سکتا ہے۔ تو جب تک فرد واحد باقی رہے گا اس وقت تک عام اپنی عمومیت پر باقی رہے گا۔ اس کی مثال قرآن کی مندرجہ ذیل آیت سے سمجھی جا سکتی ہے{فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ }:4]النساء [3:اگر تمھیں انصاف نہ کرنے کا خطرہ ہو تو ایک ہی عورت سے شادی کر لو یا اپنی لونڈیوں سے تمتع کرو۔ یہاں  مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ  عام ہے اور اس سے مراد غلام اور لونڈی دونوں ہی ہیں ‘ لیکن اس آیت میں لفظ تزویج یعنی نکاح کے قرینہ سے ’’ عبد‘‘ نکل  گیا۔ صرف لونڈی بچ گئی۔ اب کلمہ  مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ عام ہے مگر اس سے مراد صرف لونڈی ہے اور وہ ایک ہی فرد ہے تو آیت کا اپنے عمومی معنی کے اعتبار سے ترجمہ یہ ہوگا کہ تم خطرہ محسوس کرو کہ انصاف نہ کرسکو گے تو ایک ہی آزا د سے شادی کر لو یا اپنی لونڈیوں سے تمتع کرلو۔ اسی طرح سے حدیث اِذَا کَانَ قَائِمًا فِی الصَّلٰوۃِ  عام ہے جو نماز کے دونوں قیاموں کو شامل ہے۔ یعنی قبل از رکوع اور بعد از رکوع‘ مگر دوسرا قیام مطلق قیام کا ذکر کرنے سے خود بخود نکل گیا ا ور باقی اول رہ گیا جو کہ فرد واحد ہے۔ اب حدیث  اِذَا کَانَ قَائِمًا فِی الصَّلٰوۃِ   اگرچہ عام ہے لیکن پہلے قیام کے ساتھ عام ہے۔ جب  اذا کے  عموم کو پہلے قیام کے ساتھ خاص کر دیا تو حدیث کا ترجمہ یہ ہوگا۔  اِذَا کَانَ قَائِمًا اَوَّلاً اِیْ قِیَامَ الْقِرْأۃِ فِی اَیِّ الصَّلٰوۃِکَانَ وَ فِیْ اَیِّ رَکْعَۃٍ کَانَ وَ مَھْمًا طَوِیْلاً کَانَ قَبَضَ بِیَمِیْنَہ‘ عَلٰی شِمَالِہٖ طُوْلَ قِیَامِہٖ  جب  آپؐ پہلے پہل  نماز میں قرأت کے لیے کھڑے ہوتے ‘جس نماز میں بھی ہوں ‘ جس رکعت میں بھی ہوں  اور پھر جتنا بھی لمبا قیام ہو آپ کھڑے ہونے  کی حالت میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھتے۔

ا۔ حدیث  اِذَا کَانَ قَائِمًا فِی الصَّلٰوۃِ   میں  فِی الصَّلٰوۃِ  کا  لفظ عام ہے ‘ کیوں کہ نمازمیں دو قیام ہوتے ہیں تو نمازی جب پہلے قیام میں کھڑا ہو گا یا دوسرے قیام میں اسے قَائِمًا فِی الصَّلٰوۃِ  ہی کہیں گے۔ لہذا قَائِمًا فِی الصَّلٰوۃِ کا معنی  قَائِمًا فِی  کُلَّ قِیَامِ الصَّلٰوۃِ  ہوگا ۔ یعنی نماز کے ہر قیام میں کھڑا ہونے والا۔ کیوں کہ دونوں قیام نما ز کا حصہ ہیں‘ تو ثابت ہو اکہ قیام ثانی بھی اِذَا کَانَ قَائِمًا فِی الصَّلٰوۃِ  میں داخل ہے۔

ب۔ بھائی صاحب!بات ایسے نہیں جیسے آپ نے سمجھ لی ہے۔ سمجھنے کی کوشش کریں کہ قَائِمًا فِی الصَّلٰوۃِ  کا لفظ جیسے نماز کے دونوں قیاموں پر فٹ آتا ہے ایسے ہی نما زکے ایک قیام پر بھی فٹ آتا ہے۔ تو  فِی الصَّلٰوۃِ  میں کوئی عموم نہیں‘ کیوں کہ اس لفظ سے نماز کا ایک جز و بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ پوری نماز  پر لفظ  فِی الصَّلٰوۃِ   کا لفظ صادق آ جاتا ہے اور پلک جھپکنے کی مدت پر بھی ۔ لہٰذا اس لفظ سے نہ تو عموم لے کر استدلال ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی ایسی شے ہے جو ایسے کلیہ پر دلالت کرے‘ جس کے ذریعے قیام ثانی کو قیام اول میں داخل سمجھ لیا جائے۔نیز اذا  کا عموم اس معنی میں ہوگا۔  جو قَائِمًا سے مراد ہوگا اور یہ بات علمی ضوابط کے ذریعہ پایا ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ قَائِمًا سے مراد پہلا قیام ہے تو معلوم ہو اکہ اذا  کاعموم  بھی فرد عام کے لیے ہوگا نہ کہ نماز کے ہر قیام کے لیے۔

فِی الصَّلٰوۃِ  کا معنی  نماز کا مطلق اندرون مراد ہے خواہ ایک دو کلمے ہوں یا زیادہ۔ جیسا کہ ترمذی میں عائشہ رضی اﷲ عنہا کی روایت بتا  رہی ہے ۔ یعنی آپ نماز کے آخر  میں سلام پھیرا کرتے تھے۔

اور یہ بات بھی آپ کے ذہن میں  رہے کہ  فِی الصَّلٰوۃِ  ایک  جزئی کے حکم میں ہے ‘ نہ کہ کلی کے۔ اگر اس سے صرف قیام اول  ہی مراد لیا جائے تب بھی معنی صحیح ہوتا ہے اور کوئی نقص لازم نہیں آتا کیوں کہ قیام اول بھی نماز کے اندر ہی ہے۔ کیوں کہ اِذَا کَانَ قَائِمًا فِی الصَّلٰوۃِ   نماز کا ہر قیام مراد نہیں بلکہ اس سے مراد وہ قیام ہے جو نماز کے اندر ہے خواہ ایک ہو یا دو کیوں کہ فِی الصَّلٰوۃِ  سے  جزئی معنی مراد ہیں نہ کہ کلی اور اس کی مثال اﷲ تعالیٰ کے درج ذیل فرمان سے سمجھی جا سکتی ہے {یَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ} :6]الانعام[131:  اے جن و انس کے گروہ !کیا تمھارے بیچ ‘ تم میں سے رسول نہیں آئے۔ یہاں مِنْکُمْ سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ تم میں سے یعنی دو جنس میں سے رسول آئے۔ اسی طرح فی الصلوۃ میں بھی نماز کا ہر حصہ مراد نہیں بلکہ مطلق نماز مراد ہے‘ خواہ ایک لمحے کے لیے ہو یا زائد کے لیے اور جس طرح  مِنْکُمْ میں جن و انس دونوں داخل ہیں ‘ مگرمراد صرف انسان ہیں۔ اسی طرح  فِی الصَّلٰوۃِ کا لفظ جیسے دونوں قیاموں کو شامل ہے اسی طرح ایک قیام پر بھی صادق آتا ہے۔ کیوں کہ دونوں قیام نماز کے اندر  ہیں۔

اکثر لوگ عام سے استدلال کرتے ہوئے اس میں اس قدر وسعت سے کام لیتے ہیں کہ ان کا اخذ کردہ مفہوم متکلم کی مراد سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ اس لیے عام سے استدلال کرنے میں کافی احتیاط کی ضرورت ہے کیوں کہ اکثر عام میں خصوصیت کا احتمال ہوتا ہے اور اکثر عام ایسے ہوتے ہیں جو مخصوص ہوتے ہیں اور علما میں یہ محاورہ مشہور ہے کہ ہر عام  خص منہ البعض  ہوتا ہے۔ یعنی ہر عام میں تخصیص ہوتی ہے۔ اسی طرح اس بات میں شک نہیں کہ حدیث کے الفاظ عام ہیں مگر قاعدے کے مطابق مراد پہلا قیام ہی ہے اور دوسرے قیام کو اس عام حدیث میں شامل کرنا وائل بن حجرؓ کی مراد سے تجاوز ہی ہے۔ جس کے متعلق کسی بھی حدیث میں ان سے کوئی قول بہ صراحت منقول نہیں اور نہ ہی ان کا کوئی عمل بلکہ ان سے صحیح مسلم وغیرہ میں پائی جانے والی روایت اور دیگر صحابہ سے سنن ابی داؤد وغیرہ  میں ملنے والی احادیث ا س کے برعکس ہی بیان کرتی ہیں کہ صحابہؓ  نے حضور اکرم ﷺ کو قیام اول میں ہی ہاتھ باندھے دیکھا ہے۔تو مطلق احادیث کو ان مقید احادیث کے تابع کیا جائے گا۔

اگر صحابہ ؓ نے فی الحقیقت نبی اکرم ﷺ کو قیام ثانی میں ہاتھ باندھے دیکھا ہوتا تو ضرور بیان کرتے ‘ کیوں کہ وضع  (ہاتھ باندھنا) ایک بناوٹی فعل ہے جو دلیل اور بیان کا محتاج ہے اور  ارسال  (ہاتھ چھوڑنا ) ایک اصلی اور طبعی عمل ہے جس کے لیے کسی بیان و دلیل کی حاجت نہیں۔ اسی وجہ سے صحابہ ؓ نے قیام کا تذکرہ نہیں کیا کیوں کہ اس میں بناوٹی حالت ہے ہی نہیں۔ 

لوگوں نے جسے کیفیات کی تبدیلی کے وقت اﷲ اکبر کہنے ‘ رفع الیدین کرنے  اور آمین بالجہر میں تساہل کیا ‘ اس میں وضع الیدین میں بھی تساہل  کیا۔ اور وضع کا تساہل ارسال ہے اور ارسال میں تساہل نہیں۔

اگر دونوں قیاموں میں وضع  شرط ہوتا تو جس طرح لوگوں کے وضع میں تساہل کرنے پر پہلے قیام کے تساہل کا ذکر آ گیا اسی طرح قیام ثانی کے تساہل کا بھی ذکر آنا چاہیے تھا لیکن قیام اول کا تذکرہ تو باربار ہو رہا ہے مگر قیام ثانی کا کہیں نام و نشان  بھی نہیں اور یہ اس بات کی دلیل کے لیے کافی ہے کہ اس میں کسی کا اختلاف ہی نہیں۔ اور قیام ثانی میں عدم اختلاف ہی اس بات کی صراحت کرتا ہے کہ قیام ثانی میں تساہل واقع ہی نہیں ہوا۔

آج کل تساہل کی وجہ سے سنتیں چھوڑنے کا رجحان ہے ‘ نہ کہ نئی سنتیں ایجاد کرنے کا ۔وضع ایک نئے فعل کی ایجاد ہے اور ارسال امر طبعی ہے ‘ جس میں کوئی ایجاد نہیں۔ لہٰذا وضع کے لیے دلیل کی ضرورت ہے اور ارسال کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔

قیام ثانی میں وضع کی دلیل نہ ملنے کے باعث علامہ ناصر الدین البانی حفظہ اﷲ نے فرمایا ہے :اَلْوَضْعُ فِی الْقِیَامِ الثَّانِیْ بِدْعَۃٌ ضَلاَلَۃٌ  کہ قیام ثانی میں ہاتھ باندھنا گمراہ کن بدعت ہے ۔

ا۔ صحابہ ؓ اور محدثین  ؒ نے وضع یا ارسال کی صورت میں دوسرے قیام کا حکم کیوں نہیں ذکر کیا ؟

ب۔ صحابہ ؓ کرام کی اکثر روایات خاص واقعات کے موقع پر ہی وارد ہوتی ہیں گویا کہ یہ سبب وارد حدیث ہے۔اکثر یوں ہوتا تھا کہ صحابہ ؓ اور محدثین ضرورت کے وقت ہی حدیث بیان کیا کرتے تھے اور جب کسی سنت میں ترک یا تساہل  کا شائبہ محسوس کرتے  توا سے زندہ کرنے کی خاطر احادیث بیان کرتے۔ چوںکہ تساہل کی وجہ سے سنتوں کو چھوڑا جا رہا تھا  جن میں سے وضع بھی تھی ۔ اس لیے صحابہؓ اور محدثین نے اس سنت کو زندہ کرنے کے لیے  احادیث وضع بیان کیں۔ اسی وجہ سے قیام اول کا تو ذکر ملتا ہے کہ اس میں تساہل ہو امگر قیام ثانی کا زکر ناپید ہے کہ اس میں تساہل ہے ہی نہیں۔ کیوں کہ تساہل وضع ترک کر کے ارسال کرنے میں ہے نہ کہ ارسال ترک کرکے وضع اختیار کرنے میں۔ اسی وجہ سے خیر القرون میں قیام ثانی کا  تذکرہ نہ ہو سکا‘ نہ وضعا اور نہ ہی ارسالاً ‘ البتہ آج کل وضع  کی بدعت ایجاد  ہونے کی وجہ سے اس میں بھی کافی اختلاف موجود ہے۔

اگر دوسرے قیام میں ارسال کو تسلیم کر لیا جائے تو قیام ثانی کا عدم ذکر اور اس میں اختلاف کا نہ ہونا آسانی سے سمجھ میںآ جائے گا اور اگر اس میں بھی وضع فرض کر 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (صفۃ صلٰوۃ النبی للشیخ البانی )

لیں تو یہ بات سمجھنی خاصی مشکل ہو جائے گی کہ قیام اول کے وضع میں تو اختلاف ہوا اور دوسرے میں نہ ہو اکیوں کہ اگر پہلے قیام میں تساہل  آ سکتا تھا  تو دوسرے میں بھی متوقع  تھا۔ تنبیہ بھی دونوں پر کرنی ضروری تھی۔

جب قیام اول میں وضع کو ترک کیا گیا تو وہ مصلحین میدان میں آ گے جن کا کام ہی سنتوں کی اصلاح کرنا تھا جسے لوگوں نے خراب کر دیا ہو۔ اس لیے انھوں نے وضع والی احادیث بیان کرکے وضاحت بھی کی اور اصلاح بھی۔ رہا دوسرا قیام تو اس میںخیر القرون میں اختلاف ہی نہ تھا کیوں کہ وہ اپنی اصل پر تھا ۔ یعنی ارسال پر۔ مگر جب قیام ثانی میں بھی وضع والی بدعت آ گئی تو اس میں بھی اختلاف واقع ہو گیا۔ جیساکہ ہمارے دور میں ہے اور یہ خیر القرون کے بعد متاخرین فقہا میں ہوا ہے اور تقلید پر اڑ جاتے ہیں۔

قیام ثانی میں وضع خلاف اصل ہے جیسے قیام اول میں ارسال خلاف اصل ہے۔ پہلے قیام میں لوگوں کا اختلاف وضع کے ترک کی وجہ سے ہوا اور دوسرے قیام میں وضع کی بدعت نکالنے کی وجہ سے اختلاف پڑا۔

ا۔ آپ کو یہ بات کیسے معلوم ہوئی کہ یہ ’’عام‘‘ مخصوص اور محدود ہے؟

ب۔ عام کبھی خارجی قرائن اور کبھی داخلی قرائن سے یا کبھی متکلم کے قولی و عملی اشارے کے ذریعے مخصوص ہوتا ہے۔

ا۔ اِذَا کَانَ قَائِمًا فِی الصَّلٰوۃِ  قَبَضَ یَمِیْنَہ‘ عَلٰی شِمَالِہٖکی حدیث مبارکہ میں کونسا خارجی قرینہ عام کو خاص کر رہا ہے۔؟

ب۔ دوسرے قیام میں امت مسلمہ کا ارسال ایسا خارجی قرینہ ہے جو حدیث مذکور کو قیام اول کے ساتھ مخصوص کرتا ہے۔ اگر حدیث عام ہوتی اور قیام ثانی کو بھی شامل ہوتی تو امت کا عمل وہ نہ ہوتا جو آج ہے۔ کیوں کہ یہ محال  ہے کہ امت حدیث کے خلاف عمل کرے بلکہ امت کا عمل حدیث کی صحت کے لیے معیار ہوتا ہے کیوں کہ اسلام جو الفاظ اور معانی دونوں سے عبارت ہے اور جس کو اﷲ تعالیٰ زمانہ درزمانہ اہل حق کے لیے محفوظ کرتا ہے ‘ اسی وجہ سے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کا ایک گروہ حق پر  رہے گا تو امت کا عمل بہت اہم ہے جو عام کو خاص کرنے کے لیے کافی بڑی دلیل ہے۔

ا۔ اس حدیث کو خاص کرنے کے واسطے داخلی قرینہ کی بھی وضاحت فرمائیں۔

ب۔ حدیث میں لفظ قیام  کا مطلق ہونا داخلی قرینہ ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس سے مراد پہلا قیام ہی ہے کیوں کہ جب لفظ مطلق قیام بولا جائے تو اس سے مراد  قیام اول ہی ہوتا ہے جیسے مذکور ہوا۔

ا۔ آپ نے کہا ہے  کہ تخصیص کبھی متکلم کے قول و فعل کی تصریح  سے معلوم ہوتی ہے ‘ کیا یہاں بھی رسول اﷲ  ﷺ کی تصریح موجود ہے۔

ب۔ جی ہاں! امت کا عمل رسول اﷲ  صلی اﷲ علیہ وسلم کی تصریح  کے قائم مقام ہے کیوں کہ صحابہ ؓ نے عمل روایات کے ذریعے نہیں بلکہ خود حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے سیکھا ہے اور انھوں نے  ایسی ہی نماز پڑھی جیسا کہ آپ کو پڑھتے دیکھا  اور تابعین ویسے ہی نماز پڑھتے جیسے صحابہ ؓ کو دیکھتے۔ اسی طرح آج تک یہی ہوتا رہا ہے۔ ہم نے محدثین سے نماز سیکھی جیسا کہ وہ نماز پڑھتے تھے اور موجودہ  دور میں امت کا ارسال والا عمل رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم  کے عمل کو ظاہر کر رہا ہے اور یہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم  کی طرف سے تصریح ہی ہے کہ حدیث  میںقیام سے مراد قیام اول ہے نہ کہ قیام ثانی۔

ا۔ اگر ہم تسلیم کر بھی لیں کہ حدیث میں قیام سے مراد قیام اول ہی ہے تو ہمیں دوسرے قیام  کا  انکار بھی نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ پہلے قیام کی طرح یہ بھی قیام ہے ان کا حکم ایک ہی بنا دیا جائے تو کون سا حرج ہے۔؟ قیام ثانی کو بھی قیام اول پر ہی قیاس کر لیجیے کیوں کہ یہ دونوں قیام ہیں۔ جب پہلے  میں وضع ثابت ہو گیا تو دوسرے میں بھی ایسا ہی ہوگا۔

ب۔ یہ قیاس صحیح نہیں کیوں کہ اس کا نتیجہ عر ف کے خلاف ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے  آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ دونوں قیاموں کے درمیان بہت فرق ہے۔ اس لیے یہ قیاس درست نہیں بلکہ یہ تو ادنیٰ کو اعلیٰ پر قیاس کرنے کے متراد ف ہے۔ کیوں کہ پہلا قیام نماز میں بنیادی رکن ہے‘ جس میں قرأت فرض ہے ۔ اگر رہ جائے تو رکعت ہی فوت ہو جاتی ہے مگر دوسرے قیام کے ساتھ یہ معاملہ نہیں۔ یہ تو صرف دو ارکان کے مابین فاصلہ کرنے کے لیے ہے۔ اس کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے دو سجدوں کے درمیان فاصلے کے لیے جلسے کی ہے۔ دوسرے قیام اور جلسے کی صحت کے لیے صرف اطمینان و اعتدال ہی کافی ہے کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر آجائے اور ایک مرتبہ تسبیح  پڑھی جا سکے۔ دونوں قیاموں کے درمیان کوئی مقابلہ ہی  نہیں۔ اسی لیے صحیحین کی بعض احادیث  میں صرف پہلے قیام ہی کا ذکر ہے۔ مثلا صلوۃ الکسوف وغیرہ اور اسی طرح ابوہریرہ ؓ کی وہ حدیث جس کو ابن ماجہ نے نماز میں رفع الیدین کے لیے بیان کیا ہے۔ کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ حِیْنَ یَرْکَعُ وَ حَیْنَ یَسْجُدُ  یہاں ابوہریرہ ؓ نے رفع بعد الرکوع  کا تذکرہ ہی نہیں کیا  بلکہ  حِیْنَ یَسْجُدُ  پر ہی اکتفا  کیا ہے‘ کیوں کہ رکوع کے بعد قیام صرف سجدہ کے لیے ہی ہوتا ہے اور سجدہ کے لیے ایک تمہید کی حیثیت رکھتا ہے۔

اکثر ان احادیث میں قیام اول تفصیلا اور دوسرا قیام اشارتاً  آتا ہے کیوں کہ پہلا قیام بخلاف ثانی ایک مستقل رکن ہے جب دونوں قیاموں کی حقیقت میں فرق واضح ہو گیا تو دوسرے کو پہلے پر کس طرح قیاس کیا جا سکتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جس طرح ان کی حقیقت میں فر ق ہے اسی طرح ان کی کیفیت میں بھی فرق ہو۔ پہلے قیام میں وضع ہو اور دوسرے میں ارسال  تاکہ باہر سے آنے والے کو معلوم ہو سکے کہ کونسا قیام ہے‘ تاکہ اگر اسے قیام اول مل جائے تو فاتحہ پڑھ لے اور اس طرح اس کی رکعت ہو جائے گی۔

ا۔ اگر دوسرے قیام میں وضع  نہیں تو پھر کیا ہے ؟

ب۔ ارسال ہے۔

ا۔ یہ کس طرح ثابت ہو ا؟

ب۔ وضع کا ثبوت نہ ہونا ہی ارسال کا ثبوت ہے۔ کیوں کہ یہ وضع کے مقابلہ میں ہے۔  جب نمازی پہلے قیام کو مکمل کر لے گا تو اس کے ہاتھ کھلے ہی رہیں گے جب تک اسے باندھنے  کا حکم نہ دیا جائے اور وہ حکم قیام اول ہی میں ہے جو کہ قرأت کا محل ہے۔

نماز میں ہاتھوں کی دو ہی حالتیں ہیں : باندھنا اور کھولنا۔ باندھنا صرف پہلے قیام میں ہے جو قرأت کا محل ہے اور کھولنا باقی نماز کی ہیئات میں ہے۔ رکوع ‘ سجدہ‘ جلسہ  کی کیفیات تو بیان کر دی گئی ہیں تاکہ نمازی خود بخود ان کیفیات کو بدل سکے اور قیام ثانی کی کیفیت کو اپنی اصلی حالت پر چھوڑ دیا گیا ہے کیوں کہ اس میں اختلاف کا احتمال نہ ہونے کے برابر ہے اور پھر طبعی حال کے لیے کسی وضاحت کی ضرورت ہوتی بھی نہیں ۔ مثلاً جب آپ کسی کو کہیں کہ کھڑا ہو جا تو وہ کیسے کھڑا ہوگا ۔؟ ظاہر ہے کہ ہاتھ چھوڑ کر ہی کھڑا ہوگا۔ اگر آپ کا ارادہ ہو کہ وہ ہاتھ باندھے تو ضروری ہوگا کہ آپ اسے ہاتھ باندھنے کا کہیں۔ یہی معاملہ دوسرے قیام کا بھی ہے کہ اس میں صراحت کے ساتھ وضع کا حکم نہیں ہے ۔ جیسا کہ پہلے قیام میں ہے تو دوسرا قیام اپنی طبعی حالت پر ہوا جو کہ ارسال ہے۔ قیام ثانی میں وضع کا عدم ثبوت ہی اس بات کی دلیل ہے کہ جب نمازی کو قیام اول میں ہاتھ باندھنے کا حکم دے دیا گیا اور اس کے بعد دوبارہ  قیام ثانی میں اس کے ہاتھ نہ بندھوائے گئے تو وہ یقینا ہاتھ چھوڑے گا کیوں کہ یہ طبعی حالت ہے۔

نماز ایک تعبدی امر ہے جس میں مختلف ہیئات کوکام میںلایا جاتا ہے تاکہ ہر جوڑ پرجو شکر ادا کرنا واجب تھا وہ ادا ہو جائے ‘ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : اقم الصلوۃ لذکری ۔۔ابوذرؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ جب صبح ہوتی ہے تو تمھارے ہر جوڑ پرسجدہ فرض ہو جاتا ہے لہٰذا ہر تسبیح و تحلیل‘ تکبیر ‘ تحمید‘امر بالمعروف ‘ نہی عن المنکر سب صدقہ ہیں۔ اور ان سب صدقات کو دو رکعتیں ہی کفایت کر جاتی ہیں جو آدمی صبح سویرے پڑھ لیتا ہے

انسان کا جسم نماز میں مختلف کیفیات و ہیئات کے ذریعے اپنے رب کی عبادت کرتا ہے اور ان کیفیات کا اختلاف ہی نماز میں مطلوب ہے۔ یہ کہنا کہ قیام میںصرف وضع ہے درست نہیں‘ صحیح یہ ہے کہ دونوں قیاموں کی کیفیات مختلف ہوں۔ پہلے اہم طویل اور وضع والا‘ دوسرا چھوٹا مختصر اور ارسال والا ہو تاکہ نما ز دونوں کیفیات (وضع وارسال ) کی جامع ہو سکے۔ امت کا عمل جو کہ رسول اﷲ  ﷺ کے عمل کا مظہر ہے۔ اسی حکمت کی گواہی دیتا ہے۔ اگر دونوں قیاموں میں وضع ہو تو مخلوق کے سامنے ارسال کے ساتھ کھڑا ہونا جائز ہو حال آنکہ مشکوۃ شریف میں حضرت انس ؓ ‘ معاویہ ؓ ‘ اور ابوامامہ  ؓ کی بیان کردہ احادیث اسے بھی ممنوع ٹھہراتی ہے۔

ا۔ قیام میں بہ نسبت  ارسال کے وضع ہی بہتر ہے‘ کیوں کہ اس میں عاجزی زیادہ ہے۔

ب۔ اگر نماز میں صرف عاجزی ہی ملحوظ ہوتی تو قیام کی طرح جلسوںاور قعدوں میں بھی سینہ پر ہاتھ باندھنا مقرر کیا جاتا کیوں کہ رانوں پر ہاتھ رکھنے کی نسبت سینہ پر انھیں باندھنے میں زیادہ عاجزی ہے۔ ثابت ہوا کہ نماز میں صرف عاجزی ہی ملحوظ  نہیں رکھی بلکہ اس کو مختلف کیفیات کی جامع بنا دیا گیا  ہے تاکہ نمازی کبھی کھڑے ہو کر ہاتھ باندھے ہوئے اور کبھی چھوڑے ہوئے ‘کبھی رکوع اور سجدہ کرتے ہوئے اور کبھی جلسہ  میں بیٹھے ہوئے ہاتھوں کی کیفیات کے ساتھ خشوع وخضوع اورحضور قلبی کے ذریعے اپنے رب کی عبادت کرے۔

ا۔ وضع ایک عمل ہے  اور ارسال عمل نہیں اور نماز حرکات و اعمال ہی کا نام ہے۔ معلوم ہو اکہ وضع بہتر ہے۔

ب۔ بھائی صاحب! آپ سمجھنے کی کوشش کریں کہ جس طرح وضع والا قیام عمل ہے اسی طرح ارسال والا قیام بھی عمل ہے۔ قیام‘ قیام ہے خواہ وضع کے ساتھ ہو  یا ارسال 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (ابی داؤد:کتاب الادب ‘ باب فی امامۃ الاذی عن الطریق‘ ص 1606رقم (5242:

کے ساتھ۔نماز میںمقصود مختلف کیفیات ہیں اور عمل سے مراد مجموعی عمل نہ کہ ہر عضو کا عمل ورنہ پھر جلسہ ‘ رکوع اور سجود کے مقابلہ میں کوئی عمل نہیں بنتا۔کیوں کہ رکوع  اور سجود کے مقابلے میں اس میں مشقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح قیام میںہاتھ باندھنے کے مقابلے میں جلسہ کی حالت میں ہاتھ رانوں پر رکھنے کا عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس طرح جلسوں کو چھوڑ کر ان کی جگہ قیام‘ رکوع اور سجدہ کو رکھ دینا چاہیے۔ اسی طرح  جلسوں میںرانوں پر ہاتھ رکھنے کی بجائے سینہ پر ہاتھ باندھنا چاہیے‘ کیوں کہ اس میں عملی مشقت زیادہ ہے۔

درحقیقت نماز اﷲ کی طرف سے مقرر کردہ عمل ہے جس میں رائے کوکو ئی دخل نہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:  صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ تم ویسے نماز پڑھو جیسے مجھے پڑھتے دیکھو۔ صحابہ کرام ؓ  نے نماز نبی اکرم ؓ  سے سیکھی  تھی  نہ کہ کتب احادیث سے۔ پھر تابعین نے صحابہ ؓ سے اور تبع تابعین نے تابعین سے۔ تو وہ نماز جس کی  اقامت کا حکم اﷲ نے دیا ہے ہمارے ہاں اہل حدیث کے عمل دائمی صورت میں موجود ہے۔ لہٰذا  ہمیں اس سلسلہ میں احادیث کے ذریعے کسی استدلال  کی ضرورت نہیں کیوں کہ رسول اﷲ ﷺ کی نماز سلسلہ احادیث چلنے سے پہلے بھی تھی اور اس پر عمل بھی موجود تھا ۔ روایت حدیث اور اس سے استدلال کا سلسلہ کافی دیر بعد شروع ہوا ۔ اس لیے جو آدمی مخلص ہو اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نماز دیکھنا چاہے تو وہ کمزور اور ردی قسم کے استدلالوں کی طرف ہر گز نہ جائے بلکہ عام اہل حدیث کے عمل کی صورت میں موجود امت کے عمل کودیکھ لے۔

ا۔ نبی اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم کی وفات کے بعد خصوصا نماز میں تو کافی تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔ عین ممکن ہے کہ وضع ارسال سے بدل گیا ہو۔

ب۔ جو تبدیلیاں بھی دین میں واقع ہوتیں ان کاتذکرہ دین کی کتب میں موجودہے تاکہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (بخاری:کتاب الاذان ‘ باب الاذان للمسافرین اذا کانوا جماعۃ والاقامۃ‘ ص 51رقم(631

اصلی اور نقلی  میں فرق ہو سکے۔  جب بھی دین میں کوئی تبدیلی آئی تو اسی وقت اﷲ نے اپنے خاص بندوں کو کھڑا کر دیا جنھوں نے لوگوںکی خراب کردہ سنتوں کی اصلاح کی۔ اسی لیے دین کی کوئی بھی شے ضائع ہوئے بغیر کتاب وسنت کی شکل میں محفوظ ہے۔

اگر ہم یہ فرض کر بھی لیں کہ نماز میںکچھ ایسی تبدیلی ہو گئی تھی جس کی وجہ سے اصلی اور نقلی کے درمیان فرق نہیں ہو سکتا توا س کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ کی شریعت میں  سے بھی چند چیزیں ضائع ہو گئیں اور وہ دین  جس کے لیے اﷲ تعالیٰ نے{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ ۔۔ الخ}:5]المائدہ[3: فرمایا تھا محفوظ نہ رہا۔ اس لیے کسی نئے نبی کی ضرورت آن پڑی ہے۔ جیسا کہ اﷲ کا قانون ہے کہ جب شریعت بدل دی جائے یا اسے مٹا دیا جائے تو ایک نیا نبی ‘ نئی شریعت  دے کر بھیج دیا جاتا ہے۔  لیکن ہماری شریعت  کا یہ معاملہ نہیں بلکہ اﷲ نے تو ہمارے نبی ﷺ  کو نبیوں کا سلسلہ ختم کرنے والا بنایا ہے اور آپ ؐنے اپنے متعلق ارشاد فرمایا :  لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ  میرے بعدکوئی نبی نہیں ہوگا۔ اﷲ نے پہلی شریعتوں کی طرح دین کی حفاظت  کا معاملہ لوگوں کے سپرد  نہیں کیا‘ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: { اِنَّا اَنْزَلْنَا التَّوْرَاۃَ فِیْھَا ھُدًی وَّ نُوْرٌ یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ  الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْالِلَّذِیْنَ  ھَادُوْا وَالرَّبَّانِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُبِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اﷲِ وَ کَانُوْا عَلَیْہِ شُھَدَائَ } :5]المائدہ : [44 یقینا ہم نے  ہی تورات اتاری جس میں ہدایت اور نور ہے۔ جس کے ذریعے اﷲ کے فرماں بردار انبیاء اﷲ والے علما یہودیوں کے لیے اس وجہ سے فیصلے کرتے تھے کہ ان سے اﷲ کی کتاب کی حفاظت کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا  اور وہ اس بات پر گواہ ہیں۔ اﷲ نے ہماری شریعت کی حفاظت کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اﷲ کا فرمان ہے۔ {اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہ‘ لَحٰفِظُوْنَ }:15]الحجر[9: یقینا  ہم نے ہی قرآن نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ اﷲ کا دین محفوظ ہے۔ جس میں سے کوئی چیز بھی ضائع نہیں ہوئی تو پھر یہ کہنا کہ ممکن ہے کہ نماز میں کوئی تبدیلی آ گئی ہو یا وضع کی جگہ ارسال آ گیا ہو بالکل باطل ہے۔ اس بات سے تو دین میں شکوک و شبہات پیدا ہوں گے لہٰذا اہل حق کے دائمی عمل کے خلاف استدلال کرنا گمراہی کاراستہ ہے۔ جس سے مسلمانوں کو بچنا چاہیے۔

اس مسئلہ میں دو ہی احتمال ہو سکتے ہیں: -1 یا تو  رسول اﷲ ﷺ کا عمل ارسال والا تھا جو آپ ؐ کی اتباع میںآج تک جاری ہے۔-2 یا وضع تھا لیکن امت نے اسے چھوڑ کر ارسال اختیارکر لیااور خیر القرون میں اس کی اصلاح کے لیے کوئی بھی نہ تھا۔

ان دونوں صورتوں میں پہلے والی ہی اس امت کے شایان شان ہے اور یہ بات محال ہے کہ ساری امت ایک سنت چھوڑ بیٹھے اور اس کے خلاف کوئی بھی آواز نہ اٹھائے۔ جس طرح اس امت کا گمراہی پر جمع ہوجانا ممکن نہیں اس طرح آپ ؐ کی سنت مٹ جائے اور اسے زندہ کرنے والا کوئی نہ ہو یہ بھی محال ہے۔

لوگوں نے نماز میں کیفیات بدلنے والی تکبیرات چھوڑ دیں  تو ابن عباس ؓ نے سُنَّۃُ اَبِی الْقَاسِمِ  کہ کر تنبیہ فرمائی کہ یہ ابوالقاسم کی سنت ہے ۔ اسی طرح جب صدقۃ الفطر کی مقدار میں اختلاف ہوا۔ عید گاہ میںمنبر لے جایا گیا ‘ نماز سے پہلے خطبہ دیا گیا تو ابوسعید خدریؓ  نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ عبدالرحمٰن ام الحکم نے جب جمعہ کے خطبہ  بیٹھ کر دیا  تو کعب بن عجرہ ؓکھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ اس خبیث کی طرف دیکھو کہ بیٹھ کر خطبہ دے رہا ہے ‘ حال آنکہ اﷲ تعالیٰ  فرماتا 

ہے کہ وتر کوک قائما  کہ آپ کو لوگ کھڑا ہو ا چھوڑ گئے۔ جب بشر بن مروانؓ نے 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (صحیح البخاری ‘ کتاب الاذان ‘ باب التکبیر اذا قام من السجود‘ ص 62 رقم 788مشکوۃ کتاب الصلوۃ ‘ باب صفۃ الصلوۃ ‘ الفصل الثالث ‘ رقم 807)

 ( مسلم :کتاب الصلٰوۃ ‘ باب الخطبۃ یوم العید‘ ص 1307 رقم(1140:

  (مسلم: کتاب الجمعۃ ‘ باب قولہ تعالیٰ  واذاراو تجارۃ۔۔۔ الخ رقم 39: مشکوۃ : کتاب الصلٰوۃ ‘ باب الخطبۃ والصلٰوۃ الفصل الثالث‘ رقم 1416:)

منبر پر دونوں ہاتھوں کو  اٹھا کر اشارہ کیا تو عمار بن ربیعہؓ کہنے لگے کہ اﷲ ان دونوں ہاتھوں کو بدصورت بنائے ۔ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو اس سے زیادہ اشارہ کرتے نہیں دیکھا  ۔ پھر انگشت شہادت سے اشارہ کرکے دکھایا۔

خلاصہ یہ کہ جس نے بھی امر خلاف سنت کیا‘ اس کے اس طریقہ کو رد کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ضرور اٹھ کھڑا ہوا۔ کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ وضع کوچھوڑ دیا 

جائے اور کوئی بھی اس کے خلاف آواز نہ اٹھائے۔ یہ سب سے جھوٹی بات ہے کہ دوسرے قیام میں وضع سنت تھا  اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد چھوڑ دی گئی اور صحابہؓ اور محدثین میں سے کوئی بھی اس کو زندہ کرنے کے لیے  کھڑا نہ ہوا۔

اگر وضع والوں کا یہی دعویٰ ہے کہ وضع ہی سنت ہے تو ان کے ذمہ یہ لازم ہوگا کہ بتائیں کہ اس سنت کو کس نے مٹایا ہے اور اس کے بعد اس کو زندہ کرنے کے لیے کس نے کوشش کی۔

امام احمد بن حنبل ؒ  کے بارے میں اگر تسلیم بھی کر لیا جائے کہ وہ وضع اور ارسال میں اختیار دیتے ہیں تو بھی ان کے نزدیک قیام ثانی میں وضع سنت نہیں بنتا کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو وہ اس کے مسنون ہونے ‘ نہ ہونے میں اختیا نہ دیتے جیسا کہ انھوں نے پہلے قیام میں اختیار نہیں دیا۔ معلوم ہوا کہ وضع نہ  تو احمد بن حنبلؒ کے نزدیک سنت ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کے ہاں اور اگر ایسا ہوتا تو امام صاحب اس کی ترویج کے لیے ضرور کھڑے ہوتے۔

کیا اس کے علاوہ کسی ایسی سنت کا نام لیا جا سکتا ہے کہ جو مٹ چکی ہو اور اس کے خلاف کسی نے آواز نہ اٹھائی ہو۔

ہم تو چیلنج کے ساتھ کہتے ہیں کہ وضع سنت نہیں‘ اگر ہوتی تو اس سے یہ سلوک  ہر گز نہ ہوتا ۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ وضع میں صرف استدلال ہی ہے۔ اس کے پیچھے کوئی حقیقت نہیں  اور نماز کا تعلق صرف الفاظ اور عبارات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  (مسلم: کتاب الجمعۃ ‘ باب تخفیف الصلٰوۃ والخطبۃ ‘ص 814 رقم 53: ‘ ابوداؤد: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب رفع الیدین علی المنبر‘ ص 1304 رقم 1104:)

سے نہیں بلکہ ان کی نسبت عمل سے زیادہ ہے۔ لوگوں نے نماز حدیث سے نہیں بلکہ محدثین سے اسی طرح سیکھی ہے جیسے انھوں نے محدثین کو پڑھتے ہوئے دیکھا اور اگر کوئی شخص حدیث سے مسئلہ مستنبط کرتا ہے تو اسے دیکھا جائے گا اگر امت کے عمل کے مطابق ہو  تو ٹھیک ورنہ رد کر دیا جائے گا‘ کیوں کہ استنباط عمل ظنی ہے اور امت کا دائمی عمل قطعیت کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ متواتر بھی ہے۔ دائمی عمل کے خلاف استدلال مردود ہوگا۔

حقیقت تو یہی ہے کہ وضع کا نام و نشان بھی خیر القرون میں نہیں ملتا‘ نہ قولی طور پر اور نہ ہی عملاً ۔ رہا امام احمد بن حنبل  ؒ کی طرف وضع و ارسال کے اختیار کی نسبت کرنا تو یہ اسلاف کے اختلاف کے ثبوت کے لیے کافی نہیں۔ کیوں کہ اس میں شک ہے۔ ایک تو اس لیے کہ امام احمد ؒ کی کتب میں اس کا تذکرہ نہیں ملتا۔ دوسرا امام احمدؒ کی طرف اس کی کوئی سند نہیں ملتی۔ لہٰذا کس طرح اس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے اور وہ عبارت جو شاہ صاحب نے عبداﷲ بن احمد کی کتاب کے حوالہ سے نقل کی ہے اس سے اختلاف کی نشاندہی نہیں ہوتی ہے۔

ا۔ اسلاف کے زمانے میں اگر وضع کا نام و نشان نہیں ملتا تو ارسال کا بھی تو نہیں ملتا۔ 

ب۔ ارسال پوری امت کا عمل ہے اور کسی بھی فرقہ کی تمیز کے بغیر سب مسلمانوں میں دیکھا جا سکتا ہے اور اس میں کسی قسم کا اختلاف بھی نہیں۔ اگر ہوتا تو جیسے پہلے قیام کا اختلاف ہم تک پہنچ گیا دوسرے  کا بھی منقول ہوتا۔ یہاں تو سوال یہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺ صحابہ ؓ ‘ تابعینؒ اور تبع تابعین نے کونسا عمل اختیار کیا تو ظن غالب یہی ہے کہ ان کا عمل ارسال تھا ورنہ  ہمیںماننا پڑے گا کہ پوری امت خلاف سنت کام کر رہی ہے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے والا بھی کوئی نہیں جو کہ ناممکن ہے۔ اس لیے کہ آپؐ کی امت بڑی حساس ہے جو مسائل میں اختلاف برداشت نہیں کرتی ۔ بہت سے غیر اہم مسائل پر بھی بڑی بحثیں ہوئیں جو اب در جواب رسائل و کتب لکھی

گئیں ۔ ایسے میں یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ ہر روز نماز میں پیش آنے والے اہم  مسائل پر خاموشی اختیار کر لی جاتی۔

اگر ان حضرات سے پوچھا جائے کہ کس زمانہ میں تمھاری تعداد زیادہ تھی ‘ کیا اس پرفتن دور میں یا خیر القرون میںتو ان پر کثرت عدد کی حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی کہ ان کی تعداد اس بدعت والے دور میں ضرور بڑھ رہی ہے لیکن اگر آپ ماضی کی طرف دیکھیں تو آہستہ آہستہ ان کی تعداد کم ہوتی چلی جائے گی‘ یہاں تک کہ خیرالقرون میں ایک شخص بھی ایسا  نہیں ملے گا جو وضع کا قائل ہو۔ا گر ایک بھی وضع والا ہوتا تو اس کا اختلاف تھا اور اگر تھا تو ہم تک ضرور پہنچ جاتا ‘ لیکن جب اختلاف کا ایک حرف بھی ثابت نہیں تو ماننا پڑے گا کہ لوگ ارسال کیا کرتے تھے۔ گزشتہ ادوار میں  اس مسئلہ پر اختلاف نہ ہونا اور نہ ہی اس کا ذکر ملنا ارسال کے    متفق علیہ ہونے کی دلیل ہے۔

لیکن اگر وضع کے قائلین اس کے مسنون ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ اس کے چھوڑے جانے کی تاریخ بیان کریں اور یہ بھی بتائیں پہلے کس نے چھوڑا؟ کس دور میں چھوڑا گیا اور اس کی حمایت یا  رد  میں کب آوازیں اٹھیں اور کہاں مذکور ہوئیں؟

ا۔ امام احمد بن حنبل ؒ کا وضع اور ارسال میں اختیار دینا یہی ان کے زمانہ میں اختلاف کی دلیل ہے۔

ب۔ اختیار والی بات کی نسبت امام احمدؒ کی طرف کرنا ہی مشکوک ہے جس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا  اور نہ یہ روایت کے لحاظ سے درست ہے اور نہ ہی درایت کے لحاظ  سے۔ کیوں کہ امام احمدؒ کا وضع اور ارسال کا اختیار دینا ان کی شان کے خلاف ہے کہ دونوں کاموں میں سے ایک تو ضرور تھا  تو امام صاحب ایسے دو کاموں میں  کیسے اختیار دے سکتے ہیںجن میں سے ایک سنت ہے اوردوسرا سنت نہیں۔

رسول اﷲ ﷺ اور بعد والے زمانوں میں صرف ایک ہی دائمی عمل تھا یا وضع یا 

ارسال ۔ اس زمانے  میں اس مسئلہ پر اختلاف نہیں تھا کیوں کہ کتب میں ا س کا کوئی وجود نہیں۔ تو ایسی حالت میں امام احمد ؒ کیسے اختیار دے سکتے ہیں۔ ان کا اختیار دینا اختلافی مسائل میں تو ہو سکتا ہے اتفاق میں نہیں۔ اتفاقی مسئلہ میں اختیار دینا اختلاف پیدا کرنا ہے اور یہ اصلاح نہیں بلکہ فساد  ہے اور یہ امام صاحب کی شان کے خلاف ہے کہ وہ ایسے مسئلہ  میں اختلاف پیدا کریں جس پر امت کا اتفاق ہے۔ تو اب وضع والوں کے ذمہ ہے کہ پہلے دوسرے قیام میں اختلاف ثابت کریں پھر امام احمدؒ کااختیار دینا ثابت کریں۔

شاہ صاحب نے صالح بن امام احمد ؒ کی طرف منسوب کتاب ’’المصور‘‘ سے ایک اقتباس نقل کرکے اس سے اختلاف اور اختیار اخذ کیا ہے حال آنکہ کتاب کی عبارت واضح طورپر ان میں سے کسی چیز پر دلالت نہیں کرتی۔

اگر ہم تسلیم کر بھی لیں کہ امام صالح بن احمد ؒ نے باپ سے اختلاف کرتے ہوئے  اپنے باپ سے یہ سوال کیا تھا تو یہ ممکن کیوں نہیں ہو سکتا کہ انھوں نے پہلے قیام کے متعلق سوال کیا ہو ‘ جس میں اختلاف ثابت بھی ہے ‘ نہ کہ قیام ثانی کے متعلق جس میں اختلاف ثابت نہیں‘ بلکہ ثبوت کا محتاج  ہے اور شاہ صاحب ؒ پر تعجب ہے کہ سوال کو ثابت شدہ اختلاف پر محمول نہیں کرتے ‘ بلکہ اس اختلاف پر محمول کرتے ہیں‘ جو ثبوت کا محتاج ہے۔

اگر کوئی کہے کہ جب سوال دوسرے قیام سے متعلق ہے تو اختلاف ثابت ہو گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ صرف احتمال ہے جو کہ دلیل نہیں ہوا کرتا بلکہ جب احتمال آ جائے توا ستدلال باطل ہو جاتا ہے۔ کیا یہ احتمال نہیں ہو سکتا کہ سوال کا سبب پہلا قیام ہو کہ اس میں اختلاف ہے۔ امام احمدؒ نے جو جواب دیا کہ مجھے امید ہے کہ ان شاء اﷲ اس میں کوئی مضائقہ نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پہلے قیام سے متعلق ہے کیوں کہ اسی میں تنگی ہے دوسر ے میں تنگی ہے ہی نہیں‘ کیوں کہ مالکی  قیام اول میں وضع کرنے والے اور تساہل کرنے والے سب دوسرے قیام میں ہاتھ چھوڑتے ہیں۔ لہٰذا قیام ثانی  میں عدم نزاع کی وجہ سے کوئی تنگی نہیں ہے۔

شاہ صاحب کا اس عبارت سے اختلاف و اختیار نکالنا محض تکلف ہے‘ حنابلہ اور دوسرے قیام میں وضع  کرنے والوں پر حیرت ہے کہ بات اختیار کی کرتے ہیں اور یہ اختیار والا قول خود ان کے ہاتھوں سے ان کے استدلال  کی بنیاد کو گرا رہا ہے۔ اگر امام  صاحب نے دوسرے قیام میں اختیار دیا ہے تو پہلے میں تو نہیں دیا ہے۔

-1 کیا امام صاحب کی یہ عبارت دونوں قیاموں میں فرق بیان کرنے میں واضح نہیں؟

-2 کیا امام صاحب کا اختیار دینا وضع والوں کی بڑی دلیلوں  قائما  فی الصلوۃ کے عموم کو باطل قرار نہیں دیتا۔

-3 کیا اختیار والا قول اس بات کو باطل نہیں کرتا کہ وضع ہی قیام کی کیفیت ہے ۔ کیا یہ عبارت امام صاحب کے نزدیک دونوں قیاموں میں فرق پر دلالت نہیں کرتی۔

-4 کیا اختیار والا قول شیخ الغباشی اور شاہ صاحب کی اس بات کو باطل نہیں کرتا کہ دوسرے قیام میں ارسال وہ سدل ہے جس سے حدیث میں منع کیا گیا ہے۔

’’کتاب المصور‘‘ کی وہ عبارت جس سے شاہ صاحب نے وضع  کے لیے استدلال کر کے انتہائی خوشی کا اظہار کیا ہے اس سے ان کو فائدہ حاصل نہیں ہوگا کیوں کہ یہ ان کے مطلوب  میں قطعی  نہیں۔

ہاں! اگر اس دور میں اس مسئلہ میں اختلاف ہوتا توا س طرح کی مجمل عبارت میں نہیں بلکہ واضح اور صریح طریقے سے منقول ہوتا ۔ دونوں فریق اپنی اپنی تائید میں دلائل لانے اور موافقت و مخالفت میں رسائل لکھ جاتے۔ کیا یہ تعجب نہیں کہ شاہ صاحب نے وضع کے متعلق اپنے مسلک کی تائید میں دس رسالے لکھ ڈالے اور امام احمدؒ کے دور سے پہلے اور بعد میں اس مسئلہ پر کوئی ایک سطر بھی نہیں لکھی گئی ‘ حالانکہ وہ محدثین  کا دور تھا جس میں حدیث اور فقہ عرصہ دراز تک مدون ہوئیں۔

امام بخاری وغیرہ نے فروعی مسائل  میں اختلافی رسائل لکھے مثلا بخاری کی جزء 

رفع الیدین اور جزء القراء ۃ  اور امام بیہقی کی کتاب القرأۃ ۔۔ لیکن قیام ثانی میں وضع یا ارسال کے متعلق کسی نے کچھ بھی نہیں لکھا بلکہ اشارہ تک نہ دیا۔

مالکیوں نے پہلے قیام میں وضع  کو چھوڑا تو علما نے قیام ثانی کے تذکرے  کے بغیر ان کا رد کیا۔ اگر دونوں قیاموں میں کیفیت صرف وضع ہوتی جیساکہ وضع والوں کا دعویٰ ہے تو علما دوسرے قیام کو شامل کرکے ان کا رد کرتے۔ کیا مالکیوں نے قیام اول کی طرح قیام ثانی میں ارسال نہیں کیا  اگر انھوں نے دوسرے قیام میں بھی ارسال کیا ہے جیسا کہ آج کل دیکھنے میںآ رہا ہے تو رد کرنے والوں نے دوسرے قیام میںارسال پر رد و قدح کیوں نہ کی۔

خلاصہ یہ کہ قیام ثانی  میں مشروع اور دائمی عمل ارسال ہی ہے اور اس کے خلاف ایک حرف بھی منقول نہیں۔

جناب الغباشی اور شاہ راشدی ؒ نے محلی ابن حزم کی عبارت سے بھی استدلال کیا ہے  جس کا کوئی فائدہ ان کو نہیں پہنچا کیوں کہ ان کا استدلال اس عبارت میں لفظ  فِی الصَّلٰوۃِ اور  فِی وَقُوْفِہ کُلِّہٖ  سے ہے۔ حال آنکہ ان دونوں الفاظ سے استدلال نہی ہوسکتا۔ اس لیے کہ فِی الصَّلٰوۃِ  جزئی  ہے۔ جس میںعموم نہیں جیسا کہ پہلے گزرا اور وَ فِیْ وَقُوْفِہ کُلِّہٖ کا معنی  ہے۔ اپنے وقوف (قیام )  میں دوسرے وقوف کا تو اس سے کوئی تعلق نہیں۔ دونوں بزرگ گہرے  مغالطے میں پڑ گئے ہیں کہ ’’ کل ‘‘  سے لفظ کو عام بنا لیا ہے‘ لیکن ان کو یہ پتا نہ چل سکا کہ اس میں عموم کونسا ہے ؟ اجزاء کا یا افراد کا عموم۔ کیوں کہ اس لفظ میں دونوں قسم کا عموم پایاجاتا ہے اور یہاں عموم الافراد مراد ہوگا۔ اس لیے کہ یہاں وقوف کا لفظ مطلق ہے اور قواعد کے مطابق اس سے پہلا وقوف ہی مراد ہوگا جیساکہ پہلے گزرا ۔ رہا عموم الاجزاء تو وہ پہلے وقوف کے اجزاء ہیں۔  فِیْ وَقُوْفِہ کُلِّہٖ سے مراد پہلے وقوف کی لمبائی ہوگی اور قرینہ کے بغیر دوسرا قیام شامل نہ ہوگا۔

وضع والے جہاں بھی قیام یا وقوف کا لفظ دیکھتے ہیں اسے اپنی دلیل  بنا لیتے ہیں۔ وہ اس  بات کی قطعی پرواہ نہیں کرتے کہ محدثین جہاں بھی مطلق قیام  یا وقوف کا ذکر کرتے ہیں اس سے مراد پہلا قیام یا وقوف ہی لیتے ہیںاور اہمیت بھی اسے ہی دیتے ہیں کیوں کہ اس میں اختلاف ہے۔ فتح الباری میںبخاری کی سھل بن سعدؓ کی روایت کردہ حدیث کی شرح میں اِیْ حَالَ الْقِیَامِ   کے الفاظ آتے ہیں تو ان سے مراد پہلا قیام ہے  نہ کہ دوسرا۔

یہ وہ چند باتیں تھیں جن کی اﷲ نے مجھے توفیق بخشی۔ میں اپنی طاقت کے مطابق صرف اصلاح کا خواہش مند ہوں اور مجھے یہ توفیق اﷲ ہی کے ذریعے ملی ۔ میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجو ع کرتا ہوں ۔ میں اپنے اور عام مسلمانوں کے لیے اﷲ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں سلف صالحین کے راستہ کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا انجام پرہیز گاروں جیسا  بنائے ۔ آمین۔!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (فتح الباری ج 2ص (290

بسم اﷲ ا لرحمٰن الرحیم 

ہمارے بزرگ  جناب عبدالعزیز بن عبداﷲ بن باز نے  ’’ اَیْنَ یَضَعُ الْمُصَلِّی یَدَیْہِ بَعْدَ الرَّفْعِ  مِنَ الرَّکُوْعِ ‘‘ کے  عنوان سے ایک رسالہ لکھا ہے جس میں انھوں نے نماز ی کے لیے رکوع کے بعد قیام ثانی میں ہاتھ باندھنا سنت ثابت کیا ہے‘  لیکن وہ اس تحریر میں کوئی ایک بھی ایسی صحیح اور واضح دلیل نہیں لائے جس کے ذریعے رسول ا ﷲ ﷺ اور صحابہؓ میں سے کسی  ایک کا رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا ایک مرتبہ ہی ثابت ہو سکے۔ جب آپ اور آپ کے صحابہؓ میں سے کسی ایک سے بھی وضع ثابت نہیں  تو اسے سنت کا نام کسی طرح دیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ قیام ثانی میں مسنون صرف وضع ہے۔ صرف استدلال ہی ہے۔ شیخ نے بھی دوسرے لوگوں کی طرح رکوع کے بعد والے قیام کو رکوع سے پہلے والے قیام پر قیاس کیا ہے۔ وضع کے قائلین کو اس عموم کے متعین کرنے میں  یہ غلطی لگی ہے کہ انھوں نے 

رکوع کے بعد والے قیام کو رکوع سے پہلے قیام میںشامل سمجھ لیا اور اس میں وضع کا استدلال یہ کہہ کر کرنے لگے کہ ان دونوں قیاموں میں کوئی فرق نہیں اور قیام رکوع سے پہلے کا ہو یا بعد کا۔ یہ دونوں قیام ہی ہیں اور وضع کا مطلق لفظ دونوں کو شامل ہوگا۔لیکن درحقیقت مطلق قیام میں قیام ثانی شامل نہیں کیوں کہ دونوں قیاموںکے مابین واضح فرق موجود ہے۔ا س کے علاوہ اگر دوسرا قیام مراد لینا بھی ہو توا س کے لیے واضح قرینہ  کی ضرورت ہے جو کہ قطعی موجود نہیں۔

وضع والی احادیث مطلق ہیں جن میں مطلق قیام سے مراد پہلا قیام ہی ہے۔ اس لیے کہ قیام کا لفظ پہلے قیام کے لیے ہی مشہور ہے  لہٰذا احادیث میں جو وضع ثابت ہے وہ پہلے قیام  ہی کے لیے ہے اور مطلق احادیث کو مقید پر محمول کیا جائے گا۔

اگر شیخ صاحب غورو فکر کرتے تو انھیں دونوں قیاموں میں موجود فرق معلوم ہو جاتا اور حق کا بھی پتا چلتا کیوں کہ حق تو مومن کی گمشدہ چیز ہے جسے وہ جب بھی پاتا ہے کسی تردد  اور خوف و ملامت کے بغیر فوراً اختیارکرلیتا ہے۔

شیخ صاحب کا رسالہ دو دلیلوں کے گرد گھومتا ہے۔

-1 رکوع سے پہلے اور بعد والے دونوں قیاموں میں کوئی فرق نہیں

-2 احادیث میں آنے والے الفاظ  اِذَا اور فِی الصَّلٰوۃِ عام ہیں جو نماز کے ہر قیام کو شامل ہیں۔

میں اﷲ کی توفیق کے ساتھ کہتا ہوں کہ دونوں قیاموں میں کئی وجوہ سے فرق ہے:۔

-1 رکوع کے بعد والے قیام کی نسبت پہلا قیام زیادہ اہم اورا فضل ہے کیوں کہ یہ رکوع  اور سجدہ  کی طرح بنیادی حیثیت کا حامل ہے اور تسمیۃ الجزء باسم الکل کے قاعدہ کی رو سے اس کا نام  ’’ صلوۃ‘‘ رکھا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی کئی مثالیں بھی موجود ہیں۔ 

{یٰاَیُّھَا الْمُزَمِّلُO قُمِ اللَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْلًا }:73]المزمل[2-1:{ وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا }:25]الفرقان[64: {وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ} :2]البقرۃ[238:{وَ اَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ وَا ٰتُوْا الزَّکٰوۃَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ}:2]البقرۃ[43:{ اَلَّذِیْ یَرَاکَ حِیْنَ تَقُوْمُ وَ تَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدِیْنَ } :26]الشعراء[219:

((مَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَلَہ‘ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ)) 

مندرجہ بالا مثالوں میں قیام سے مراد پہلا قیام  ہی ہے اور اسی قیام‘ رکوع اور سجدہ سے مراد نماز ہے کیوں کہ یہ نماز کے بنیادی ارکان ہیں۔ رہا دوسرا قیام اور جلسہ تو ان کا نام نماز رکھنا کسی طور پر بھی صحیح نہیں ۔

-2 طبعی طور پرقیام اول  دوسرے قیام سے لمبا ہوتا ہے کیوں کہ اس میں قرأت فرض ہوتی ہے۔ لیکن دوسرے قیام میں قرأت کی بجائے صرف دعا اور ذکر ہوتے ہیں اور یہ دعا کبھی طویل ہوتی ہے اور کبھی چھوٹی مگر قیام اول جتنا بھی مختصر ہو جائے اس کی مقدار قرأت فاتحہ کی مقدار سے ہر گز کم نہیں ہوتی اور قیام ثانی کی شرط صرف 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ( صحیح  البخاری ‘ کتاب الصوم ‘ باب من صام رمضان ایمانا و احتساباو نیۃ‘ ص 148 رقم 1901 ۔۔ صحیح ابن خزیمۃ ‘ کتاب الصیام ‘ باب ذکر مغفرۃ الذنوب السالفۃ بصوم رمضان ایمانا و احتسابا ‘194/3رقم 1894۔۔ ارواہ الغلیل 14/4 رقم 906 ۔۔ مشکوۃ ‘ کتاب الصوم ‘ الفصل الاول  رقم 1958)

اعتدال اور اطمینان ہے۔ اسی وجہ سے اسے ’’اعتدال‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کی کم از کم مقدار  رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہنے کے برابر ہے۔

-3 پہلا قیام اس لیے دوسرے قیام سے اہم ہے کہ اس میں نماز کے دو ارکان جمع ہوتے ہیں ۔ ایک قیام اور دوسری فرض قرأت لیکن دوسرے میں یہ معاملہ نہیں۔

-4 پہلے قیام کا صرف  ایک ہی نام ہے یعنی مطلق قیام اور دوسرے کو کبھی صراحۃ ًیا کنایۃً  اَلْقِیَام ُبَعْدَ الرَّکُوْعِکبھی اعتدال اور کبھی  اَلرَّفْعُ بَعْدَ الرَّکُوْعِکہتے ہیں ۔ فقہا کے ہاں اسے ’’قومہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ دونوں کے نام مختلف ہونا ان کے مختلف ہونے کی دلیل ہے۔ اگر یہ مختلف نہ ہوتے تو نام بھی مختلف نہ ہوتا ۔ جیسے دو سجدوں کا نام ایک ہی ہے۔

-5 اگر دونوں قیاموں میں فرق نہ ہوتا تو کہاجاتا کہ ہر رکعت میں دو قیام ہیں جیسے ہم 

کہتے ہیں کہ رکعت میں دوسجدے ہیں لیکن صرف  یہ کہا جاتا ہے کہ ایک رکعت میں ایک قیام ہے اور سجدہ ہر رکعت میں مکرر ہے۔ البتہ صلوۃ الکسوف میں قیام مکرر ہوتا ہے مگر ساتھ ہی رکوع بھی مکرر ہوتا ہے۔

-6 ان کے اس  فرق کی وجہ سے ہی فقہا نے لغوی واصطلاحی فرق کرنے کے لیے پہلے 

کو قیام  اور دوسرے کو ’’قومہ‘‘ کہا ہے۔

-7 نماز میں مقصود اصلی صرف پہلا قیام ہے دوسرا تو صرف رکوع اور سجدہ میں فرق کرنے کے لیے ہے ‘ جیسا کہ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی نے حجۃ اﷲ البالغۃ میں فرمایا ہے۔ اَلْقَوْمَۃُ شُرِعَتْ فَارِقَۃً بَیْنَ الرَّکُوْعِ وَ السُّجُوْدِ   قومہ تو رکوع و سجدہ میں فرق کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔

-8 احادیث میں دونوں قیاموں کے درمیان فرق موجود ہے جو جانتا ہے‘ سو جانتا ہے اور جو نہیں جانتا وہ جان لے۔ میرا خیال ہے کہ محترم شیخ نے اس طرف توجہ ہی نہیں 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ( حجۃ اﷲ ج 2 ص 6-5مبحث الامور التی لا بدمنھا فی الصلٰوۃ )


فرمائی ۔ اگر وہ توجہ اس طرف مبذول فرماتے  تو حق واضح ہو جاتا اور وہ اس کی طرف رجوع فرما لیتے۔

صحابہ کرام ؓ محدثین کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ لوگ قیام اول کا تذکرہ مطلق لفظ قیام سے کرتے ہیں اور دوسرے قیام کو وضاحت یا قرینہ سے مقید کرتے ہیں اور جب دونوں قیاموں کا ذکر اکٹھا کرنا ہو تو پہلے کو مطلق اور دوسرے کو کسی نام کے ساتھ لکھتے ہیں مثلاً  ’’الاعتدال ‘‘ اور  ’’ الرفع بعدالرکوع‘‘

لیجیے !ان کے اسلوب کی چند ایک مثالیں حاضر خدمت ہیں۔

(i فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ فَاَطَالَ فِیْھِمَا الْقِیَامَ وَالرَّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَآپ ﷺ نے 

دو رکعتیں پڑھیں جن میں آپ نے قیام‘ رکوع اور سجدہ لمبا کیا۔

(ii فَصَلّٰی بِاِطْوَلَِ قَیَامٍ وَّ رَکُوْعٍ وَّ سُجُوْدٍ مَّا رَاَیْتُہ‘ قَطُّ یَفْعَلُہ‘ آپؐ نے اتنے طویل ترین قیام ‘ رکوع اور سجدہ کے ساتھ نما ز پڑھی کہ اس سے قبل میں نے انھیں 

ایسا کرتے نہ دیکھا تھا۔

(iii امام بخاری ؒ کی جزء القرأۃ  میں ہے ۔ شاگرد کہتا ہے کہ میں ابوسعید خدری ؓ کے پاس آیا تو انھوں نے کہا کہ ظہر کی نماز رسول اﷲ ﷺ کی معیت میں ادا ہوتی ‘ ہم میں سے کوئی آدمی بقیع کی طرف جا کر قضائے حاجت سے فارغ ہو کر گھر جاتا اور وضو کرکے مسجد میں آتا تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم  کو پہلی رکعت کے قیام پر ہی پاتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  (ابی داؤد ‘ کتاب التطوع ‘ باب فی صلوۃ اللیل ص 1322 رقم 1353۔۔ صحیح مسلم ‘ کتاب صلوۃ المسافرین ‘ باب صلوۃ النبی ﷺ  و دعاء ہ باللیل ص 798 رقم 191 ۔۔ مسند احمد 616/1 رقم   (3531

  (صحیح البخاری‘ کتاب الکسوف ‘ باب الذکر فی الکسوف‘ ص 83 رقم 1059۔۔ صحیح مسلم ‘ کتاب الکسوف ‘ باب ما عرض علی النبی ﷺ فی صلوۃ الکسوف من امر الجنۃ والنار‘ ص 821-819 رقم 24۔۔ مشکوۃ  ‘ کتاب الصلوۃ  باب صلوۃ الکسوف ‘ فصل اول ‘ رقم 1484)

(iv ابن قیم ؒ کتاب الصلوۃ صفحہ98 پر فرماتے ہیں کہ زید بن اسلم کا بیان ہے کہ عمر ؓ قیام اور تشہد ہلکا کیا کرتے تھے اور رکوع و سجود مکمل کرتے۔

(v اور صفحہ 103 پر فرماتے ہیں کہ زید نے کہا عمر بن عبدالعزیزؓ  رکوع اور سجود مکمل کیا کرتے اور قیام خفیف کیا کرتے  تھے اور یہ حدیث بھی صحیح ہے۔

(vi پھر صفحہ103 پر فرماتے ہیں کہ جب عمران بن حصین ؓ  نے بصرہ میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی  تو کہا کہ انھوں نے مجھے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ سلم کی نماز یاد دلادی ہے۔ آپ ؐ کی نماز معتدل ہوتی۔ آپ قیام اور تشہد کو مختصر کرتے اور رکوع و سجود لمبا کیا کرتے  تھے اور یہ حدیث صحیح ہے۔

(vii ابن قیم ؒ صفحہ97 پر فرماتے ہیں کہ آپؐ قیام   بہت ہی لمبا کرتے اور رکوع و سجود ہلکا کیا کرتے اور صحابہؓ تراویح میں ایسا ہی کیا کرتے تھے۔

قیام ثانی کے الگ تذکرہ کی مثالیں

(i ثُمَّ الرَّفَعْ حَتّٰی تَعْتَدِلَ قَائِمًا  پھر اپنا سراٹھایا یہاں تک کہ سیدھا کھڑا ہو  جائے۔

(ii ثُمَّ یَقُوْلُ وَ ھُوَ قَائِمٌ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ  پھر آپ ؐ کھڑے ہونے کی حالت میںرَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  (بخاری:کتاب الاذان ‘ باب امر النبی الذی لا یتم رکوعہ بالاعادۃ‘ ص  63 رقم 122: مسلم: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب وجوب القراء ۃ فی کل رکعۃ‘ رقم 45: ۔ ابوداؤد: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب صلاۃ من یقیم کلبہ فی الرکوع و السجود‘ رقم856: ‘ ترمذی : کتاب الصلٰوۃ ‘ باب ما جاء فی وصف الصلٰوۃ رقم 302: ۔۔ مشکوۃ: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب صفۃ الصلٰوۃ فصل اول  رقم (790:

 (بخاری: کتاب الاذان ‘ باب التکبیر إذا قام من السجود  ص 62 رقم789: ۔۔مسلم: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب اثبات التکبیر فی کل خفض و رفع فی الصلٰوۃ الا رفعہ من الرکوع فیقول فیہ سمع اﷲ لمن حمدہ‘ ص 740 رقم (28:

(iii وَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہ‘ مِنَ الرَّکُوْعِ اِنْتَصَبَ قَائِمًا  اور جب آپؐ  رکوع سے اپنا سراٹھاتے تو سیدھے  کھڑے ہو جاتے۔

(iv قَامُوْا قِیَامًا حَتّٰی رَأوْہُ قَدْ سَجَدَ صحابہؓ    کھڑے رہتے حتی کہ دیکھ لیتے کہ آپؐ  سجدہ  میں چلے گئے ہیں۔

(v وَ لَمْ نَزَلَ قَائِمًا حَتّٰی نَرَاہُ قَدْ وَضَعَ وَجْھَہ‘ عَلَی الْاَرْضِ ہم کھڑے رہتے یہاں تک کہ سمجھتے کہ آپ ؐ نے اپنا چہرہ زمین  پررکھ دیا ہے۔

(vi ثُمَّ رَفَعَ رَاْسَہ‘ فَیُقِیْمُ صُلْبَہ‘ ثُمَّ یَقُوْمُ قِیَامًا پھر آپؐ اپنا سر اٹھاتے ‘ اپنی کمر سیدھی کرتے ‘ پھر کچھ دیر کھڑے رہتے۔

(vii ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہ‘ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ ثُمَّ قَامَ قِیَامًا طَوِیْلاً قِرِیْبًا مِمَّا رَکَعَ پھر آپ سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہ‘ کہتے  پھر اس قدر طویل قیام کرتے جتنا رکوع کیا ہوتا۔

(viii وَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہ‘ مِنَ الرَّکُوْعِ حَتّٰی نَقُوْلَ قَدْ نَسِیَ اور جب آپؐ رکوع  سے اپنا سر اٹھاتے تو آپؐ اتنی دیر کھڑے ہوتے کہ ہم خیال کرتے کہ آپ بھول گئے ہیں۔

(ix ثُمَّ یَقُوْلُ سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہ‘و یَسْتَوِیْ قَائِمًا  پھرسَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہ‘  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ( مسلم: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب الاعتدال ارکان الصلٰوۃ و تحفیفھا فی تمام‘ ص 752     رقم (195:

  (نسائی:کتاب الامامۃ ‘ باب ما یجوز للامام من العمل فی الصلٰوۃ ص 2140رقم (830:

  (مسلم: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب متابعۃ الامام والعمل بعدہ ‘ص 752رقم (199:

 ( ابن ماجۃ: ابواب اقامۃ الصلٰوۃ ‘ باب اتمام الصلٰوۃ‘ ص 2539 رقم (1062:

 (بخاری: کتاب الاذان ‘ باب الاطمانیۃ حین یرفع راسہ من الرکوع‘ ص 63 رقم 800: مسلم: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب اعتدال ارکان الصلٰوۃ‘ ص 752 رقم (195:

 (ابی داؤد: کتاب الصلٰوۃ باب الصلٰوۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود‘              ص 1286 رقم (857:

پڑھتے اور سیدھے کھڑے ہو جاتے۔

(x اَنْ لاَّ اَخِرَّ اِلاَّ قَائِمًا کہ میں سجدہ میں کھڑا ہو کر ہی جھکوں

مذکورہ بالا ہر مثال وضاحت یا قرینہ سے یہ بات بتلاتی ہے کہ یہاں لفظ قیام سے مراد دوسرا قیام ہے۔ اس کے علاوہ آپ کو ایک بھی مثال ایسی نہ مل سکے گی کہ جس سے اس لفظ قیام کو مقید کیے بغیر قیام ثانی مراد لیا گیا ہو۔

جب دونوں قیام اکٹھے مذکور ہوں تو 

قیام ثانی قیام سے  مطلوب نہ ہوگا

(i حضرت براء بن عازب رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کا رکوع‘ سجدہ‘ کوع سے سر اٹھانے کا وقفہ اور دوسجدوں کے درمیان بیٹھنا قیام اور تشہد کے سوا  تقریبا برابر ہوتا تھا۔ 

(ii براء بن عازبؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کی نماز بغور دیکھی تو میں نے آپؐ کاقیام ‘پھر رکوع اور پھر رکوع کے بعد اعتدال اور پھر دوسجدوں کے درمیان بیٹھنا ‘ پھر سجدہ اور پھر سلام پھیرنے اور لوگوں کی طرف منہ پھیرنے کے درمیان بیٹھنا تقریبا برابر پایا۔

(iii ابن قیم پرفرماتے ہیں کہ لگتا ہے کہ اختصار کا تعلق قیام اور اتمام  و تکمیل کا تعلق رکوع ‘ سجدے اور دونوں کے درمیان اعتدال سے ہے۔

(iv اس کی حکمت یہ ہے کہ قیام کے اختصار ‘ رکوع‘ سجود اور دونوں اعتدالوں کے لمبا کرنے سے نماز کے معتدل اور قریب قریب ہونے کی وجہ سے نماز مکمل ہو جاتی ہے۔  

(v حضرت انسؓ  نے نبی ﷺ والے قیام سے طویل قیام اور آپ ؐ کے کیے ہوئے رکوع ‘ سجود  اور دونوں اعتدالوں کے چھوٹا کرنے سے انکار کردیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (بخاری: کتاب الاذان ‘ باب وحَدُّ اتمام الرکوع ولاعتدال فیہ ص 63 رقم (792

 (کتاب الصلوۃ ص 96 )   (ایضاً)  (ایضاً(98: 

(vi حضرت انس ؓ کے دور میں کافی امراء ‘ قیام کو بہت لمبا اور رکوع و سجود اور دونوں اعتدالوں کو چھوٹا کرتے تھے جو لوگوں کو تکلیف دیتا تھا۔

(vii صحابہ ؓ اس پر متفق ہیں کہ نبی ﷺ کی نماز معتدل ہوتی تھی اور آپ کا رکوع ‘ رکوع سے سراٹھانا ‘ سجدہ‘ اور سجدہ سے سراٹھانے کا وقفہ قیام کے متناسب ہوتا تھا۔

ان مندرجہ بالا مثالوںمیں پہلے قیام کو لفظ قیام اور دوسرے قیام الرفع بعد الرکوع  ‘ الاعتدال وغیرہ  ناموں سے ذکر کیا گیا ہے۔

(viii اگر اختیار والے قول کو امام احمد ؒ کی طرف منسوب صحیح مان لیا جائے تو پھر بھی امام احمد ؒ نے پہلے قیام میں وضع یا ارسال کا اختیار نہ دے کر اور دوسرے میں دے کر دونوں قیاموں کا فرق واضح کر دیا ہے۔ اگر امام صاحبؒ کے ہاں دونوں قیام دو سجدوں کی طرح برابر ہوتے تو وہ  دونوں میںاختیار دیتے یا سرے سے کسی میں بھی اختیار نہ دیتے۔ امام صاحب کا قیام ثانی میں اختیار دینا ہی بہت بڑی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک بھی دونوں قیاموں میں فرق ہے۔

(ix اگر دونوں قیاموں میں فرق نہ ہوتا تو یہ دونوں سجدوں کی طرح برابر ہوتے ‘ مگر ایسا نہیں بلکہ پہلا قیام زیادہ اہم ہے کہ اس میں قرأت فرض ہے اور دوسرے میں صرف دعا اور ذکر ہوتا ہے۔

(x اگر رکوع کے بعد والا قیام بھی اصطلاحی ہوتا تو نماز کسوف کے مختلف قیاموں میں اس کا بھی تذکرہ ہوتا‘ لیکن اس میں صرف رکوع سے پہلے والے قیام کا تذکرہ ہے۔تو معلوم ہوا کہ اصطلاحی قیام صرف قیام اول ہی ہے۔

(xi نماز میں اگر یہ دونوں قیام ہیں تو رکوع سے پہلے والا مقرر ہے بعد والامقرر کیوں  نہیں؟ بغیر قرأت والے کا مقرر  نہ ہونا ہی سب سے بڑی دلیل ہے کہ یہ نماز کا اصطلاحی قیام ہے ہی نہیں‘ بلکہ لغوی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ( کتاب الصلوۃ ص (97:

جب دونوں قیاموں میں کئی وجوہ سے فرق واضح ہو گیا ہے تو ماننا پڑے گا کہ یہ دونوں  قیام کلی مشکک (غیر مساوی افراد والا مفہوم ) کے افراد ہیں جو بیک وقت مراد نہیں لیے جا سکتے تو قاعدہ کے مطابق ان دونوں میں اس طرح فرق کیا جائے گا کہ جب لفظ مطلق قیام بولا جائے اور دونوں قیاموں میں درجے کا بھی فرق ہو تو اس سے مراد مشہور قیام ہی لیا جائے گا۔ یہاں لفظ قیام کلی مشکک ہے جس کے دو افراد ہیں۔ i۔رکوع سے پہلے والا قیام اور -iiرکوع کے بعد والا قیام۔ لہذا مطلق لفظ سے فرد خاص مشہور پہلا قیام ہی مراد ہوگا اور قیام ثانی کسی قرینہ یا وضاحت کے بغیر مراد نہیں لیا جاسکتا اور یہ قاعدہ اہل علم کے ہاں مسلم ہے۔

حافظ ابن حجرؒ فتح الباری ’’باب الجھر بالتامین ‘‘  کے تحت فرماتے ہیں کہ زین بن منیر کا بیان ہے کہ حدیث کی باب سے اس طرح مناسبت ہے کہ حدیث میں آمین کہنے کا حکم ہے اور قول جب مطلق ہو تو اس سے مراد اونچی آواز میں آمین ہی مراد ہوتی ہے۔ اور اگر آہستہ آمین مراد ہو تو اس کے لیے قید لگانا پڑتی ہے۔ زین بن منیر نے اسی قاعدہ کے مطابق حدیث کی باب سے مناسبت ثابت کی ہے۔ اس کا مطلب  یہ ہے کہ ’’قول‘‘ کے دوفرد ہیں-i: اونچی آواز سے -ii آہستہ آواز سے۔ جب قول مطلق ہوگا تو اس سے فرد کامل ہی مراد ہوگا اور دوسرا مراد لینے کے لیے کوئی قرینہ یا وضاحت ضروری ہوگی۔

ہم بھی یہی کہتے ہیں  کہ مطلق قیام سے مراد قیام اول ہے اور قیام ثانی مراد لینے کے لیے کسی قرینہ کی ضرورت ہے جو یہاں موجود نہیں تو ثابت ہوا کہ اِذَا کَانَ قَائِمًا فِی الصَّلٰوۃِ  یا کُلَّمَا قَامَ قَبَضَ یَمِیْنَہ‘ عَلٰی شِمَالِہٖ  جیسی  احادیث پہلے قیام کے ساتھ ہی خاص ہیں۔ کیوں کہ مطلق قیام کے لفظ سے ذہن ادھر ہی جاتا ہے۔

علامہ محب اﷲ البہاری مسلم الثبوت میں فرماتے ہیں۔ فَاِنْتِقَالُ الذِّھْنِ مِنَ الْمُطْلَقِ اِلَی الْکَامِلِ ظَاھِرً کہ مطلق لفظ سے فرد کامل کی طرف ذہن کا جانا ظاہر ہے۔

سبل السلام (58/1) میں ہے کہ اس سے مراد کامل ہے‘کیوں کہ جب مطلق ہوگا تو ذہن اس کی طرف دوڑے گا۔

جب اِذَا کَانَ قَائِمًا فِی الصَّلٰوۃِ   لفظ قیام سے پہلا قیام مراد لینا ثابت ہوچکا تو  اِذَااور  کُلَّمَاکا عموم قیام اول سے خاص ہوگا کیوں کہ قواعد کے مطابق قیام ثانی قَائِمًا کے عموم میں داخل ہی نہیں۔ اس لیے کہ فی الصلوۃ جزئی (خاص فرد ) کے حکم میں ہے۔ اگر اس سے صرف پہلا قیام مراد لیا جائے تو معانی تب بھی ٹھیک ہی رہتے ہیں اور اس میں کوئی کمی  نہیں آتی۔ اس لیے کہ پہلا قیام بھی نماز میں ہی ہے۔ اِذَا کَانَ قَائِمًا فِی الصَّلٰوۃِ  کا معنی  ہوگا کہ جب آپؐ اس نماز میں ہوتے جس میں قیام ہے کیوں کہ  فی الصلوۃ جزئی ہے‘کلی نہیں۔ اس کو اﷲ کے اس فرمان سے سمجھیے {یَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ }:6]الانعام[131:اے جن و انس کے گروہ !کیا تمھارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے۔ ا ب  مِنْکُمْ کا یہ معنی  نہیں کہ دونوں جنسوں سے رسول علیہم السلام آئے ہوں  بلکہ اگر ایک جنس سے بھی آئے ہوں تو مِنْکُمْ  کا معنی پھر بھی صحیح  رہتا ہے۔ کیوں کہ یہ جزئی کے حکم میں ہے۔ا سی طرح فی الصلوۃ جزئی کے حکم میںہے۔ جس طرح مِنْکُمْ سے مراد  دونوں جنسیں ہو سکتی ہیں مگر یہ صادق صرف ایک پر ہی آ رہا ہے ۔ اسی طرح فی الصلوۃ دونوں قیام کوشامل ہے مگر فٹ ایک پہلے قیام پر ہو رہا ہے ۔ کیوں کہ نماز کے اندر دونوں ہیں۔ فی الصلوۃ کے معنی مطلق نماز کے اندر ہیں خواہ ایک دو گھڑیاں ہوں یا زائد نہ  کہ مکمل نماز۔ اسے ترمذی میں حضرت عائشہ ؓ کی اس حدیث سے بھی سمجھنا چاہیے۔  اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِکَانَ یُسَلِّمُ فِی الصَّلٰوۃِ  مطلب  یہ کہ سلام نماز کے اندر ہے باہر نہیں۔

وضع  کے قائلین  کے استدلال والی حدیث کا معنی یوں ہوگا جب آپ نماز میں 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (ترمذی: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب ما جاء فی التسلیم فی الصلٰوۃ ص 1667رقم (296

پہلا قیام فرماتے خواہ وہ جس نماز میں یا جس رکعت کا ہوتا تو اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھ لیتے۔

معلوم ہوا کہ وضع صرف پہلے قیام میں ہے کیوں کہ دوسرا مطلق قیام میںشامل ہی نہیں۔ اسی وجہ سے کسی بھی محدث نے دوسرے قیام کو پہلے میں شامل نہیں کیا۔ وہ جہاں بھی مطلق قیام کا ذکر کرتے ہیں تو پہلا قیام ہی مراد ہوتا ہے لہٰذا بخاری کی حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے فتح الباری  میں حافظ ابن حجر کے قول’’ ای حال القیام ‘‘سے پہلا قیام ہی مراد ہوگا۔

اس طرح ابن عبدالبر کے قول اِنَّہ‘ لَمْ ینقل عن النبی خلاف القبض سے مراد بھی پہلا قیام ہوگا۔ شیخ ابن باز صاحب کو دوسرے قیام کو مطلق قیام میں داخل کرنے 

میں غلطی لگی ہے۔ اس لیے کہ یہ محدثین کے مراد اور علمی قواعد کے خلاف ہے۔ قیام ثانی کو مطلق لفظ قیام میں شامل کرنے کے لیے وضاحت یا قرینہ ضروری ہے۔ اور وہ مطلق احادیث میں ہے نہیں اور قیام سے مراد پہلا قیام ہے۔ اس وجہ سے کسی بھی محدث نے ان احادیث سے اس انداز سے دوسرے قیام میں وضع کے لیے استدلال نہیں کیا۔ یہ تو متاخرین فقہا حنابلہ نے استدلال کیا ہے اور ان کے ساتھ نہ کوئی محدث ہے  اور نہ ہی امت کا دائمی عمل ہے۔ ہاں صر ف استدلال  ہے اور ان کا یہ طریقہ لڑائی اور جھگڑوں کا عمل ہے اور خطرات سے خالی نہیں۔ نقل اور عمل سے ان کے اجتہاد کو تحفظ حاصل نہیں۔ یہ بات محال ہے کہ نقل اور دائمی عمل کے لحاظ سے  اسلاف صحابہؓ  اور رسول اﷲ کے دور کے لوگ ایک کام پر متفق ہو جائیں اور سنت ثابتہ اس کے برعکس ہو بلکہ یہ سب سے  برا  باطل تصور ہے۔

تو محترم شیخ صاحب حفظہ اﷲ سے امید واثق ہے کہ وہ اپنے موقف پر نظر ثانی  فرمائیں گے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے قیام میں وضع سنت صحیحہ سے ثابت ہے  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   (فتح الباری ج 2 ص (290

کیوں کہ صحابہؓ نے رسول اﷲ ﷺ کو کرتے دیکھا ہے‘ لیکن دوسرے قیام میں یہ سنت نہیں۔ اس لیے کہ کسی نے بھی آپ کو کرتے نہیں دیکھا۔ اگر کسی نے دیکھا ہوتا تو یہ یقینا سنت ہوتی۔ البتہ اب یہ ثابت نہیں ہو سکتی۔

قیام ثانی میں وضع صرف قیاس پر مبنی ہے کہ دوسرا قیام بھی پہلے قیام کی طرح ہے توہو سکتا ہے کہ جس طرح نبی صلی اﷲ علیہ وسلم  قیام اول میں وضع کرتے تھے دوسرے میں بھی کرتے ہوں کیوں کہ یہ دونوں قیام ہیں اور یہ صرف قیاس و استدلال ہے۔

استدلال کبھی صحیح بھی ہوتا  اور کبھی غلط بھی اور یہ استدلال قطعی طور پر غلط ہے ۔ اس لیے کہ دونوں قیاموں میں واضح فرق ہے جیساکہ پہلے گزر چکا ہے۔ اسی وجہ سے مطلق قیام سے دونوں مراد نہیں ہوں گے۔

اذاکے عموم سے بھی استدلال غلط ہے۔ کیوں کہ اس کی بنیاد پہلی ہے جو غلط ہے۔  فِی الصَّلٰوۃِ کے عموم سے بھی استدلال کچھ نہیں کیوں کہ یہ جزئی ہے عموم پر نص نہیں۔ تو ثابت ہوا کہ دوسرے قیام میں وضع صرف اجتہادی عمل ہے اس کے پیچھے نہ کوئی نص ہے اور نہ ہی عمل اور تعامل امت کے مقابلے میں اجہتاد و استدلال ممنوع ہے ۔ ہمیں اس سے بچنا چاہیے۔

شیخ  صاحب لوگوں کے لیے نمونہ ہیں‘ لوگوں کے متعلق ان ہی سے پوچھا جائے گا کیوں کہ عام لوگ شیخ صاحب جیسے بزرگوں کی پیروی کرتے ہیں تو تمام جہانوں کے پالنے والے کے سامنے لوگوں کے کھڑے ہونے کے دن ان کا بوجھ اٹھانے کے مقابلہ میں ان سے سوال کہیں زیادہ وزنی ہوگا۔

ہم ان کے ‘ اپنے اور تمام مسلمانوں کے لیے اﷲ سے دعا کرتے ہیں کہ اﷲ ہمیںسلف صالحین کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔

وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ کَمَا یَنْبَغِیْ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَ اَتْبَاعِھِمْ بِاِحْسَانِ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ۔