صدر پاکستان جناب ضیاء الحق
صاحب سے اسلام اور اسلامیان پاکستان کا مطالبہ
جناب ضیاء صاحب! جس
مقام پر آپ دو سال سے فائز ہیں ‘ یہ امتحان کا مقام ہے کہ عِنْدَ الْاِمْتِحَانِ یُکْرَمُ الْمَرْءُ اَوْ
یُھَانُ امتحان کا نتیجہ تخت
ہوتا ہے یا تختہ۔۔۔ ضیاء صاحب اگر آپ
نے پاکستان میں اسلام نافذ کر دیا تو آ پ کے لیے تخت ہے ورنہ تختہ۔۔ اب آپ دیکھ
لیں آپ نے کیا کیا ہے اور کیا کرنا ہے؟ اگر اﷲ نے آپ کو توفیق دی ہے ‘ آپ میں طاقت
ہے تو اسلام کو نافذ کرنے میں دیر نہ لگائیں‘ ورنہ کسی ایسے اﷲ کے بندے کو باگ ڈور
سنبھال دیں جو یہ سعادت حاصل کر سکے۔ اگرچہ ایں سعادت بزور بازو نیست۔۔۔ اﷲ اس میں
بھی آپ کو اجر دے گا۔
ضیاء صاحب !
اسلام کا نام لے کر
خاموش ہو جانا اچھا نہیں۔ اس خاموشی میں بڑی بدنامی ہے۔ آپ کی بھی اور ہم مسلمانوں
کی بھی۔ اس ملک میں صدر بھی آئے ‘ اور وزیر اعظم بھی آئے‘ نہ ان کو اسلام سے
دلچسپی تھی ‘ نہ انھوں نے اسلام کا نام لیا۔آپ نے آ کر اسلام کا نام لیا ‘ کیوں کہ
آپ کے دل میں درد تھا لیکن آپ نے کام اسلام کا نہیں کیا۔ پتا نہیں کیا مجبوری تھی
۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام اتنا بدنام ہوا کہ اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ کیا آپ
اب خدا کے پاس اس طرح کلنک کے ٹکے کے ساتھ جائیں گے یا اس کو دھوئیں گے۔ ضیاء
صاحب!ابھی وقت ہے۔ ابھی آپ برسراقتدار ہیں‘ جس سے آپ کی دنیا وآخرت میں سرخروئی
ہوجائے۔ ورنہ آپ کی وجہ سے اسلام کی وہ بدنامی ہوئی کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔
ضیاء صاحب!آپ کے سامنے دو ہی راستے ہیں ‘ الیکشن کروا کر ملک کو تباہی کی طرف
دھکیل دیں اور جا کر اﷲ کے ہاں مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہو جائیں یا اسلام کو
نافذ کر کے سعادت اخروی حاصل کریں۔ خواہ آپ کو اس کی خاطر اپنی جان ہی دینا پڑے۔
ضیاء صاحب! یہ یاد رکھیں کہ پاکستان میں اسلام بغیر خون دئیے کبھی نہیں آئے گا۔
اسلام لانا پاکستان کو نئے سرے سے فتح کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان اسلام کے قبضے
میں کبھی نہیں آیا۔ پہلے یہ انگریز کے قبضے میں تھا۔ اب اس کی روحانی اولاد کے
قبضے میں ہے۔ وہ جاتا ہوا اپنی اولاد کو ورثے میں دے گیا۔ اب اگر اسلام لانا ہے توا
س کو از سرنو فتح کرنا ہوگا اور یہ کام کوئی فوجی مجاہد ہی کر سکتا ہے۔ پاگل ہیں
وہ لوگ جو نظام اسلام کا نعرہ بھی لگواتے ہیں اور الیکشن بھی چاہتے ہیں۔ درحقیقت
نہ ان میں سیاسی بصیرت ہے نہ ایمانی فراست۔ کرسی کے لالچ نے انھیں اندھا کر رکھا
ہے۔ ان کا حال یہ ہے کہ ایک طرف جمہوریت کے علم بردار بنتے ہیں اور الیکشن چاہتے
ہیں۔ لیکن جب جمہوریت کا تاج دار بھٹو آتا ہے تو آ کر ان جمہوریوں کے اندر اپنے
پنجے گاڑھ دیتا ہے تاکہ ان کو جمہوریت کا مزا چکھائے ۔تو یہ اسلام کے نام پر فوج
کو مدد کے لیے پکارتے ہیں کہ خدا کے لیے ہمیں اس جمہوریت کے عفریت سے بچاؤ۔ جب تک
وہ ٹھکانے نہیں لگ جاتا یہ جمہوریت کا نام نہیں لیتے۔
ضیاء صاحب! یہ جمہوریت
پسند حقیقت میں عافیت پسند ہیں۔ اسلام لانا اور اس کو سنبھالنا ان کے بس کا روگ
نہیں۔ اگر آپ یہ سعادت چاہتے ہیں تو توکل علی اﷲ آگے بڑھیں۔ اﷲ آپ کی مدد کرے گا
ورنہ کسی اور مرد مومن کے لیے جگہ خالی کر دیں۔ پتا نہیں اﷲ کس سے یہ کام لے۔
پاکستان اﷲ کا ہے‘اسی نے بنایا ہے ‘ وہی اس کی حفاظت کرے گا۔
وما علینا الا البلاغ