حق آخر حق ہی ہوتا ہے‘ کوئی ہزار دبائے وہ نکل کر ہی رہتا ہے۔ زبان تو انبیاء بھی کسی کی بند نہیں کر سکے۔ بولتے تو لوگ نبیوں کے مقابلے میں بھی رہے ہیں‘ لیکن پتا ضرور چل جاتا ہے کہ سچ کیا ہے ؟ اور جھوٹ کیا ہے ؟ سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے؟دونوں اشتہار دیکھ کرہر پڑھے لکھے منصف مزاج کو یہ اندازہ ہو گیا ہوگا کہ رفع الیدین حضور ﷺ کی سنت ہے منسوخ نہیں۔ لیکن لوگوں کو ابھی یہ انتظار تھا کہ ادھر بھی افغانی صاحب اور نعمانی صاحب جیسے اساطین حنفیت ہیں۔ دیکھیں وہ کیا جواب دیتے ہیں۔ اب جب یہ رسالہ نکل آیا تو ہر ایک نے دیکھ لیا کہ اونچی دکان پھیکا پکوان کے سوا کچھ نہیں۔ یہ سارا سلسلہ بیت عنکبوت ہے۔ بڑے بڑے حضرات نے ڈیڑھ دو ماہ ایڑی چوٹی کا زور لگایا ۔ جامعہ اسلامیہ کی ساری لائبریری کھنگال ماری ۔ آثار السنن اور کشف الملھم کی بھی خوب ورق گردانی کی لیکن جواب وہی ۔ اگرچہ ۔۔۔چونکہ ۔۔۔ لیکن۔۔۔ چنانچہ۔
رفع الیدین کو منسوخ ثابت کرنے والی ایک بھی حدیث نہ ملی۔ پھر یہ جرأت نہ ہوئی کہ رسالہ اپنے نام سے نکالتے‘ کسی مجہول محمد بن ابی عائشہ کے نام سے نکالا۔ جرأت ہوتی بھی کیسے ؟ جواب معقول ہوتا‘ مطابق سوال ہوتا ‘ نیک نامی اور رقم کی امید ہوتی تو اپنے نام سے نکالتے جب رسالہ نکالنا ہی لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیے تھا تو یہی طریقہ بہتر تھا۔یہ حضرات بچارے کرتے بھی کیا ۔ لوگوں نے بھی تنگ کر دیا تھا۔ بار بار پوچھتے تھے کہ حضرت ! قادر بخش کا جواب۔؟ اس کا کیا ہوا ؟ آخر مجبور ہو کر انھوں نے کسی مجہول شخص کے نام پر یہ رسالہ نکال دیا۔ تاکہ لوگوں کا منہ بھی بند ہو جائے اور پردہ بھی رہ جائے کہ یہ جواب تو حضرت صاحب کے کسی شاگرد کا ہے‘ ان کا نہیں۔ اسی لیے تو اس میں نسخ کی کوئی دلیل نظر نہیں آتی۔ اگر حضرت صاحب خودلکھتے تو دلیلوں کے دریا بہا دیتے۔ وہ توبھئی بہت بڑے عالم ہیں۔ لیکن عوام بچاروں کو کیا معلوم کہ افغانی صاحب اور نعمانی صاحب تو درکناراگلے اور پچھلے سارے بھی جمع ہو جائیں تو بھی رفع الیدین کو منسوخ کرنے والی کوئی ایک حدیث بھی نہیں دکھا سکتے۔ افغانی صاحب بات ہی ایسی کہہ بیٹھے ہیں جو نہ ثابت ہو اور نہ جان چھوٹے‘ مصیبت یہ ہے کہ افغانی صاحب بہت بڑے عالم ہیں۔ اب رجوع کریں تو کیسے ۔ اﷲ نے سچ کہا ہے:
(وَاِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ ﷲَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ )[2:البقرۃ:206]بعض بڑے آدمی غلطی کر بیٹھتے ہیں ۔ جب کوئی کہے کہ حضرت آپ نے یہ کیا کردیا ‘ کچھ تو خدا کا خوف کریں تو وہ اپنی دنیاوی بدنامی کے ڈر سے اپنی بات سے رجوع نہیں کرتے۔ ان کو اپنی عزت کا خیال ہو جاتا ہے۔ آج کل کے بڑے بڑے علما کا حال بھی عجیب ہے۔ دل ان کا جانتا اور مانتا ہوتا ہے کہ حق یہ ہے ‘ کسی نہ کسی وقت اس کا اظہار بھی ان کی زبان سے ہو جاتا ہے‘ لیکن صرف فرقہ پرستی یا اپنی بڑائی کی وجہ سے غلط بات پر اڑے رہتے ہیں۔ عام حالت میں ان کا مسئلہ کچھ ہوتا ہے۔ جب ضد میںآ جائیں تو مسئلہ اور ہو تا ہے۔
بہاول پور میں ابھی ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے افغانی صاحب کی زبان سے سنا ہے کہ رفع الیدین سنت ہے‘ منسوخ نہیں‘ لیکن جب افغانی صاحب نے دیکھا کہ لوگ اہل حدیث ہوتے جا رہے ہیں تو انھوں نے مخالفت میں رفع الیدین کو منسوخ کہنا شروع کر دیا۔
نعمانی صاحب نے ایک ثقہ آدمی کے سامنے صاف اقرار کیا کہ رفع الیدین منسوخ نہیں ‘ سنت ہے۔ لیکن چونکہ اہل حدیث نے اشتہار نکال دیا ہے ‘ اس لیے ہم مقابلہ کر رہے ہیں۔ افغانی صاحب اور نعمانی صاحب جو کچھ کرر ہے ہیں اپنی حنفیت کی پاسداری میں کر رہے ہیں او ر ہم جو کچھ کر رہے ہیں سنت کی وفاداری میں۔
یہ بزرگ ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے اعلان کر دیا کہ رفع الیدین منسوخ نہیں بلکہ سنت ہے تو حنفی اہل حدیث بننے لگ جائیں گے۔ ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم خاموش رہے اور سنت کی حفاظت نہ کی تو لوگ حنفی بن جائیں گے۔ اب معاملہ اﷲ کے سپرد ہے۔ نیتوں کو بھی وہی جانتا ہے اور دین کا حافظ و ناصر بھی وہی ہے۔ ویسے افغانی صاحب اور نعمانی صاحب کا بھلا اسی میں ہے کہ وہ ضد میں آ کر حق کا مقابلہ نہ کریں۔ آخر ایک دن اﷲ کے پاس جانا ہے۔ (فَذٰلِکَ یَوْمَئذٍ یَّوْمٌ عَسِیْرٌ)[74:المدثر:9]اس دن بڑی مشکل ہوگی۔
قصہ مختصر جمیع احناف بہاول پور نے مل کر ایک رسالہ نکال ہی دیا۔ اس کا فائدہ کیا ہوا؟ صرف یہ کہ حنفی کہہ سکیں دیکھو ہمارے مولویوں نے آخر جواب دے ہی دیا۔ حال آنکہ یہ رسالہ ہمارے سوال کا جواب بالکل نہیں۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر رفع الیدین منسوخ ہے تو منسوخ کس نے کی۔ یہ مشروع کب اور کس حدیث سے ہوئی‘ اور منسوخ کب اور کس حدیث سے ؟ چاروں اماموں میں کون سا امام اسے منسوخ کہتا ہے ؟ کیا شاہ عبدالقادر جیلانی اور دیگر علما ے احناف جو کہتے ہیں کہ رفع الیدین منسوخ نہیں ‘ ان کا کہنا غلط ہے یا صحیح ۔ رفع الیدین کو منسوخ کہنا حنفی مذہب ہے ‘ یا افغانی و نعمانی صاحبان کی ذاتی رائے۔ ہر صورت میں ثبوت درکار ہے۔
اس رسالے کا جواب ہم ہر گز نہ دیتے اگر یہ شائع کردہ جمیع احناف بہاول پور نہ ہوتا۔ کیوں کہ ہمارے مخاطب صرف افغانی صاحب ہیں۔ اب چونکہ جمیع احناف بہاول پور میں سارے بڑے چھوٹے ‘حنفی عالم خاص کر افغانی صاحب اور نعمانی صاحب آ جاتے ہیں۔ اس لیے ہم اس کا تفصیلا جواب ان شاء اﷲ عنقریب شائع کریں گے۔لیکن اس جواب سے پہلے بذریعہ تحریر ہذا ہم منصف مزاج حضرات کی توجہ اس طرف مبذول کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے سوال اور جمیع احناف بہاول پور کے رسالہ کا مقابلہ کر کے دیکھ لیں کہ آیا اس رسالے میں ہمارے کسی سوال کا جواب تھا ‘ یا جیسا کہ ہم کہتے ہیں‘ صرف حنفی عوام کو دھوکا دینے ہی کی کوشش کی گئی ہے۔
*****