بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
کون نہیں جانتا کہ رسول اﷲ ﷺ کا کیا مقام ہے۔ کوئی کتنا ہی اونچا اڑے آپ ﷺ کے مقابلے میں ہیچ ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اب وہ مقام صرف آپ ؐ کی سنت کو حاصل ہے ۔ سنت کی قدر آپ کی قدر ہے۔ سنت کی بے قدری آپ ؐ کی بے قدری ہے۔
جناب علامہ صاحب ! ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ کو اپنے حلقے میں بہت عزت و شہرت حاصل ہے۔ آپ کے معتقدین آپ کی بہت عزت کرتے ہیں۔ ہم بھی آپ کے اس درجے کو تسلیم کرتے ہیں ‘ لیکن فرق یہ ہے کہ آپ کے مرید مقلد ہیں اور ہم غیر مقلد ۔ مقلد کو صرف وہی نظر آتا ہے جس کی وہ تقلید کرتا ہے۔ اس کو اس سے آگے نظر نہیں آتا۔ اس کا امام اس کے لیے آڑ بن جاتا ہے ۔ ہم عالم کی قدر کرتے ہیں لیکن مقلد بن کر نہیں کہ تقلید کے پردے میں رسولؐ اور اس کی سنت بھی نظر نہ آئے۔ ہم رفع الیدین کو سنت رسولؐ کہتے ہیں۔ اس لیے اس کی اشاعت و ترویج کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ لیکن آپ اسے منسوخ کہہ کر مٹاتے ہیں ۔ چونکہ معاملہ سنت رسولؐ کا ہے اس لیے اس کا فیصلہ ضروری ہے۔ اگر یہ سنت محکمہ ہے تو اسے منسوخ کہہ کر مٹانا بہت بڑا جرم ہے اور اگر یہ منسوخ ہے تو اس پر عمل کرنا بہت بڑی نافرمانی ہے۔ لہٰذا یا تو اسے سنت تسلیم کریں یا اسے منسوخ ثابت کریں ۔ یہی وہ مطالبہ ہے جو کئی مرتبہ اشتہار اور خطوط کے ذریعے آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور اب دوبارہ کیا جا رہا ہے۔ آپ شاید ناراض ہوں ۔ یقین جانیے ہمیں آپ کی ناراضگی کا بہت خیال ہے ‘ لیکن کیا کریں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ناراضگی کا آپ سے بہت زیادہ خیال ہے۔ قیامت کو کیا منہ دکھائیں گے۔ آخر معاملہ ان کی سنت کا ہے۔ ایک طرف آپ کی عزت ‘ ادب تقدس کا سوال ہے اور دوسری طرف حضور ﷺ کی سنت کا ۔ آپ کی عزت آپ کی بات اونچا رہنے اور آپ کے مقابل نہ آنے میں ہے اور حضور ﷺ کی عزت ان کی سنت کو زندہ رکھنے میں ہے۔ آپ کے مریدین کہتے ہیں ہمارے حضرت کے مقابلے میں آنے والا یہ قادربخش کون ؟ اور سنت کے شیدائی کہتے ہیں کہ زندہ سنت کو مردہ کہہ کر مٹانے والا یہ افغانی کون ؟ کوئی کتنا ہی بڑا عالم‘ فاضل‘ شیخ یا پیرکیوں نہ ہو ‘ یہ حق کسی کو نہیں پہنچتا کہ حضور ﷺ کی سنت کو مٹائے۔ آپ ؐ ہی خیال فرمائیں جو عمل حضور ﷺ ‘ صحابہ‘ تابعین ‘ تبع تابعین اور ائمہ کرام سے مسلسل اور متواتر چلا آ رہا ہو وہ منسوخ کیسے ہو سکتا ہے۔ امام شافعی ؒ ‘ امام احمدؒ اور امام مالکؒ جو رفع الیدین کے قائل تھے تو کیا ان کو اتنا بھی معلوم نہ تھا کہ رفع الیدین منسوخ ہے۔ آخر وہ ساری عمر اس کے قائل و عامل رہے تو کیوں ؟ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اہل سنت کے چار اماموں میں سے تین امام جس سنت کے قائل و عامل ہوں آپ اسے منسوخ کہتے ہیں اور پھر کمال یہ ہے کہ چوتھے امام‘ امام ا بوحنیفہؒ صاحب بھی جن کے آپ مقلد ہیں اس کے منسوخ ہونے کے قائل نہیں ۔ اب پتا نہیں آپ مقلد کیسے ہیں جو اپنے امام سے آگے نکل گئے۔ مرفوع حدیث تو درکنار اگر آپ امام ابوحنیفہؒ صاحب سے بھی رفع الیدین کا منسوخ ہونا بسند صحیح ثابت کر دیں تو اپنی شان کے مطابق جو چاہیں ہم سے انعام حاصل کریں۔ اگر انعام کو جوا یا سٹہ سمجھا جائے جیساکہ آپ کے متفقہ فی الدین مریدین کہتے ہیں یا بے نیازی کا اظہار کیا جائے تو ہم سونے میں تول کر سونا صدقہ کر دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔ آپ کے مریدین کہتے ہیں کہ قادر بخش ہمارے حضرت علامہ صاحب سے کوئی بڑا عالم ہے جو اس کی بات صحیح ہو؟ وہ یہ نہیں سوچتے کہ کیا افغانی صاحب اماموں سے عبدالقادر جیلانی شاہ اسماعیل شہید ‘ قاضی ثناء اﷲ پانی پتی ‘ مولانا عبدالحی لکھنوی ‘ مولانا رشید احمد گنگوہی‘ مولانا محمود الحسن صاحب اور مولانا انور شاہ صاحب کشمیری جیسے مسلم اور جلیل القدر علما سے جو کہتے ہیں کہ رفع الیدین منسوخ نہیں بڑے عالم ہیں کہ وہ افغانی صاحب کی مانتے ہیں اور ان ائمہ اور علما کی نہیں مانتے۔ آخر ان کو ڈر کیوں نہیں لگتا جو معمولی سے دھوکا سے رفع الیدین جیسی سنت متواترہ کو چھوڑ بیٹھے ہیں چھوڑ کر صرف ثواب سے ہی محروم نہیں ہوتے بلکہ منسوخ کہہ کر مٹانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ حالا نکہ نبی ﷺ کی سنت کو مٹانے کا جو گناہ ہے اس کا اندازہ قیامت کو ہی ہوگا۔ آپ کے حلقے میں یہ بہت مشہور کیا گیا ہے کہ افغانی صاحب نے اس اشتہار کا جواب دے دیا ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ کب اور کیا دیا ہے تو جواب ندارد۔ اصل میں عوام نہیں جانتے کہ ہمارے سوال کا جواب کیا ہو سکتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ افغانی صاحب کبھی کوئی ایک آدھ پمفلٹ نکال دیں گے ‘ جواب ہو جائے گا۔ حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے اشتہار کا جواب اشتہار یا کوئی کتابچہ نہیں ایک صحیح اور صریح حدیث رسولؐ ہی ہو سکتی ہے جو سن 10ہجری کے بعد کی ہو۔ جس میں یہ صراحت ہو کہ حضور ﷺ نے رکوع کو جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ہمارے اشتہار کا جواب حضرت جابر بن سمرہؓ والی روایت بھی نہیں ہو سکتی کیوں کہ اولاً اس کی تاریخ کا پتا نہیں کہ کب کی ہے ؟ ثانیا اس میں صراحت نہیں کی کہ یہ سرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح مارنے والی رفع الیدین کونسی ہے ؟ متنازع فیہ تو یہ ہو نہیں سکتی کیوں کہ افغانی صاحب خود بھی وتروں اور عیدین میں ایسی رفع الیدین کرتے ہیں۔ اسی طرح حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ اور حضرت براء بن عازبؓ والی روایات بھی جواب میں پیش نہیں کی جا سکتیں کیوں کہ اولاً وہ نسخ میں صریح نہیں‘ ثانیاً ان کی تاریخ کا کوئی پتا نہیں کہ آیا یہ حضرت وائل بن حجرؓ اور حضرت مالک بن حویرث کی احادیث کے بعد کی ہیں یا پہلے کی۔
کوئی لمبا چوڑا اشتہار نکال کر یا کوئی کتاب چھپوا کر عوام کو مغالطہ دینا اور بات ہے اور ہمارے سوال کا جواب دینا اور بات ہے۔ہر پڑھا لکھا شخص جانتا ہے کہ ہمارا سوال کیا ہے ‘ ہمارا سوال یہ ہے کہ رفع الیدین منسوخ ہے تو منسوخ کس نے کی ‘ یہ شروع کب اور کس حدیث سے ہوئی اور منسوخ کب اور کس حدیث سے ہوئی؟ چاروں اماموں میں سے کونسا امام اسے منسوخ کہتا ہے ‘ کیا شاہ عبدالقادر جیلانی ؒ اور دیگر علماے احناف جو کہتے ہیں کہ رفع الیدین منسوخ نہیں‘ ان کا کہنا غلط ہے یا صحیح ؟
جناب علامہ صاحب!جہاں تک النصح لکل مسلم کی ذمہ داری تھی ہم نے پوری کر دی۔ اصل حقیقت آپ کے بھی سامنے رکھ دی اور آپ کے مریدوں کے بھی۔ اب فیصلہ اﷲ کے ہاتھ میں ہے ویسے سوچ لیجیے معاملہ سنت رسولؐ کا ہے۔ میراا ور آپ کا نہیں ۔ اپنی عزت و ارادت کو نہ دیکھیں ۔ رسول اﷲ ﷺ کی سنت کو دیکھیں۔ سنت کو مٹانا کوئی معمولی بات نہیں۔ ایک طرف آپ کے عقیدت مند آپ کو دیکھتے ہیں اور دوسری طرف اﷲ تعالیٰ کہ آپ کی زبان و قلم سے کیا نکلتا ہے ۔ اب اگر آپ اپنی عزت کو دیکھتے ہوئے اسی پر مصر رہے جو آپ کی زبان سے ایک دفعہ غلط نکل چکا ہے۔ تو مجھے ( وَ اِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اﷲَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ ) [2:البقرۃ:206] سے ڈر لگتا ہے کہ آخر اتنے ارادت مندوں کا بوجھ کیسے اٹھائیں گے۔ وہ تو آپ کی طرف دیکھتے ہیں کہ آپ کیا فرماتے ہیں‘ اب اﷲ کرے آپ وہی فرمائیں جو حق ہے۔
و ما علینا الا البلاغ المبین
*****