بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
آپ اپنے دروس میں وقتاً فوقتاً حسب عادت مسلک اہل حدیث پر کرم فرمائی کرتے رہتے ہیں جس کے لیے ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔ پہلے ایک درس میں آپ نے فرمایا تھا کہ اہل حدیث کی اذان جو ترجیع سے ہوتی ہے صحیح نہیں آنحضرت ﷺ نے تو شہادتین کو کسی خاص مقصد کے تحت دہرایا تھا۔ انھوں نے اس تکرا ر کو اذان بنا لیا۔ اپنے حالیہ درسوں میں آپ نے فرمایا ہے کہ اہل حدیث منسوخ حدیثوں پر عمل کرتے ہیں۔ رفع الیدین پہلے تو جائز تھی پھر منسوخ ہو گئی۔ جیسے شراب شروع اسلام میں جائز تھی پھر حرام ہو گئی۔ پہلے بھی آپ کو ایک تحریر بھیجی گئی تھی جس کا آپ نے جواب نہ دیا۔ اس میں یہ سوال کیا گیا تھا کہ آپ جو فرماتے ہیں ترجیع والی اذان غلط ہے تو بتائیں کہ یہ غلطی صحابی رسول ؐ حضرت محذورہؓ کو لگی یا جماعت اہل حدیث کو۔ آخر آپ کو کیسے معلوم ہو گیا یا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ آنحضرت ﷺ کی نیت اذان کی نہ تھی۔ اب آپ نے فرمایا رفع الیدین منسوخ ہے غیر مقلدین منسوخ حدیثوں پر عمل کرتے ہیں لہذا بذریعہ تحریر ہذا آپ سے مطالبہ ہے کہ یا تو اپنے دعویٰ کا کماحقہ ثبوت دیں تاکہ اہل حدیث غلطی میں نہ رہیں ‘ اپنی اصلاح کر لیں یا آپ ان کے سنت ہونے کا اقرار کریں تاکہ عوام آپ کی شخصیت کی وجہ سے سنت نبوی کا انکار کرکے گمراہ نہ ہوں اور آپ کو گناہ گار نہ بنائیں۔
جہاں تک رفع الیدین کے ثبوت کا سوال ہے تو یہ ایک ایسی سنت ہے جو بخاری‘ مسلم‘ ابوداؤد‘ ترمذی‘ نسائی ابن ماجہ کے علاوہ حدیث کی ہر کتاب سے ثابت ہے۔ یہی ایک سنت ہے جس کو عشرہ مبشرہ یعنی دس جنتی صحابہؓ نے روایت کیا ہے۔ چنانچہ شاہ اسماعیل شہید اپنی کتاب’’ تنویر العینین‘‘ ۱میں لکھتے ہیں ۔
’’ وَنَحْنُ نَذْکُرُ اَسْمَاءَ بَعْضِھِمْ فَمِنْھُمُ الْعَشْرَۃُ الْمُبَشَّرۃُ کَمَا قَالَ الْحَاکِمُ لَیْسَ بِسُنَّۃٍ مِّنَ السُّنَنِ رَوَاہُ الْعَشْرَۃُ الْمُبَشَّرَۃُ غَیْرَ رَفْعِ الْیَدَیْنِ ‘‘
یعنی سینکڑوں صحابہ میں سے جو رفع الیدین کے راوی ہیں ‘ ہم چند ایک کا ذکر کرتے ہیں‘ دس تو ان میں سے وہ ہیں جن کو عشرہ مبشرہ کہتے ہیں جیسا کہ امام حاکم نے کہا ہے کہ سنتوں میں سے کوئی سنت سوائے رفع الیدین کے ایسی نہیں جن کو عشرہ مبشرہ یعنی حصرت ابوبکر صدیق‘ حضرت عمر‘ حضرت عثمان‘ حضرت علی‘ حضرت سعد‘ حضرت زید ‘ حضرت طلحہ‘ حضرت زبیر ‘ حضرت ابوعبیدہ‘ حضرت سعید رضی اﷲ عنہم نے روایت کیا ہو۔ اس کے علاوہ حضرت حسنؓ ‘ حضرت سہل ؓ ‘ حضرت زیدؓ ‘ حضرت عقبہؓ حضرت ابومسعودؓ ‘ حضرت عبداﷲبن عمرؓ حضرت سلمان ؓ حضرت ابوموسیٰ ‘ حضرت ابوسعیدؓ حضرت عائشہؓ حضرت ام الدرداء ‘ حضرت بریدہ‘ حضرت عمارؓ حضرت وائل بن حجرؓ حضرت مالک بن الحویرثؓ حضرت انسؓ ‘ حضرت ابوہریرہؓ ‘ حضرت ابوحمید الساعدیؓ حضرت اسید ساعدیؓ حضرت محمد بن مسلمہؓ حضرت ابوقتادہؓ‘ حضرت جابرؓ‘ حضرت عمیر اللیثی حضرت عبداﷲ بن عباسؓ حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ وغیرھم کثیر صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین سے بھی یہ سنت رفع الیدین مروی ہے۔
صحاح ستہ کی صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ حضور ﷺ اپنی وفات سے چند ماہ قبل بھی رفع الیدین کرتے رہے ہیں جیسا کہ مسلم اور ابوداؤد میں وائل بن حجرؓ کی احادیث سے واضح ہے۔ بیہقی میں حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کی حدیث میں یہ لفظ بھی صاف ہیں۔ ((فَمَا زَالَتْ تِّلْکَ صَلٰوتُہ‘ (بحوالہ نصب الرایۃ ) ۲ یعنی حضورؐ وفات تک رفع الیدین کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا دعویٰ النسخ بالکل باطل ہے۔ شاہ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ رفع الیدین کو نماز میں شامل کرتے ہیں۔ ۳شاہ ولی اﷲ صاحب حجۃ اﷲ البالغہ میں طریقہ نماز بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:وَالَّذِیْ یَرْفَعُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّنْ لاَّ یَرْفَعُ لِاَنَّ احَادِیْثَ الرَّفْعِ اَکْثَرُوَ اَثْبَتُ۴۔ یعنی رفع الیدین کرنے والے مجھے زیادہ پسند ہیں کیوں کہ رفع الیدین کی حدیثیں بہت ہیں
اور زیادہ صحیح ہیں۔ شاہ اسماعیل شہید جیسے مجاہد اور بطل جلیل نے رفع الیدین کے مسنون ہونے پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے‘ جس کا نام تنویر العینین فی مسئلہ رفع الیدین ‘‘ ہے ۔ وہ اس کے صفحہ 9پر رفع الیدین کو سنت ہدی لکھتے ہیں اور پھر سنت ہدی کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں لَمْ یُنْسَخْ وَ لَمْ یُتْرَکْ بالاجماع یعنی رفع الیدین ایسی سنت ہے جو نہ منسوخ ہے اورنہ متروک ۔ا س پر اجماع ہے اس صدی کے دیوبندی علما میں مولانا انور شاہ صاحب مرحوم کشمیری کا بہت اونچا مقام ہے وہ دیوبند کے فارغ اکثر علما کے استاد ہیں۔ آپ بھی یقیناًان سے فیض یاب ہوئے ہوں گے۔ وہ اپنی کتاب نیل الفرقدین فی مسئلہ رفع الیدین میں بڑے زور سے لکھتے ہیں کہ رفع الیدین منسوخ نہیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:’’وَ لِیُعْلَمَ اَنَّ الرَّفْعَ مُتْوَاتِرٌ اِسْنَادًا وَّ عَمَلاً لاَّ یُشَکُّ فِیْہٖ وَ لَمْ یُنْسَخْ فِیْہِ وَ لاَ حَرْفٌ مِنْہُ‘‘ ۵
یعنی رفع الیدین سندًا اور عملاً متواتر ہے۔ جس میں کوئی شک نہیں۔ رفع الیدین منسوخ تو حرف تک نہیں۔ ایسے بین شواہد کے بعد ایک عام آدمی بھی جو اپنے دل میں ایمان رکھتا ہو ایسی جرآت نہیں کر سکتا کہ ایسی ثابت اور محکم سنت رسول ؐ کو منسوخ کہہ کر مٹانے کی کوشش کرے۔ چہ جائیکہ آپ جیسا علامہ ایسی غلطی کا ارتکاب کرے۔ اگر آپ نے یہ دعویٰ بغیر تحقیق کے کر دیا ہے تو خدارا تحقیق کریں ۔ نبی ﷺ کی سنت ہے معاملہ بڑا نازک ہے اور اگر آپ نے تحقیق کی ہے اور کسی صحیح حدیث کی بنا پر یہ دعویٰ کیا ہے تو وہ صحیح حدیث ہمیں بھی دکھائیں۔ اس سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ کہ ناسخ منسوخ کے بعد ہوتا ہے۔ اور درجے میں بھی کم از کم منسوخ کے برابر ضرور ہوتا ہے۔ جب رفع الیدین کرنا سنت ہے اور صحیح احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ آپ کو بھی تسلیم ہے۔ تواس کو منسوخ کرنے والی حدیث بھی لازما صریح یا صحیح ہونی چاہیے۔ یہ نہیں کہ کرنے والی حدیث تو صحیح اور صریح ہو اور منسوخ کرنے والی ضعیف بلکہ موضوع اور مبہم ہو۔ اسی طرح منسوخ کرنے والی حدیث وہی ہو سکتی ہے جو مالک بن حویرثؓ اور حضرت وائل بن حجرؓ کی روایت کردہ احادیث کے بعد ہو یعنی تقریباً شوال سن 10ہجری کے بعد ۔۔ کیوں کہ ہمیشہ ناسخ مسنوخ کے بعد ہوتا ہے۔ رہ گئی ترک کی حدیث اول تو کوئی صحیح ہے ہی نہیں۔ لیکن اگر ہو بھی تواس سے نسخ ثابت نہیں ہو سکتا کیوں کہ ممکن ہے کہ وہ ترک عدم وجوب کے اظہار کے لیے ہو۔ چنانچہ شاہ اسماعیل شہید’’ تنویر العینین‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’و قَدْ تَقَرَّرَ فِی الْاُصُوْلِ اَنَّ الْاٰتِیَانَ بِفِعْلٍ بِغَیْرِ تَرْکِہٖ مَرَّۃً دَلِیْلُ وُجُوْبِہٖ فَلاَ بُدَّ مِنَ الْقَوْلِ بِتَرْکِ السَّنَۃِ الْمُؤَکِّدَۃِ اَیْضًا لِءَلاَّ یَلْزَمَ الْوُجُوْبُ فَلاَ تَعَارَضَ مِنْ بَیْنِ الْاَحَادِیْثِ الرَّفْعِ وَالتَّرْکِ ‘‘ ۶
نسخ کے لیے تو صریح عبارت چاہیے لہٰذا اگر آپ کے پاس کوئی ایسی صحیح صریح حدیث ہو جو سن 10ہجری کے بعد کی ہو۔ اور اس میں صاف ہو کہ حضور ﷺ نے مختلف فیہ یعنی رکوع کو جاتے اور اٹھتے وقت کی رفع الیدین سے منع فرمایا ہے۔ تو پیش کریں ۔ ایسی حدیث کے بعد نہ یہ کہ ہم رفع الیدین کرنا چھوڑ دیں گے بلکہ آپ کو اس حدیث کے ہر ہر لفظ کے عوض سو سو روپیہ حق محنت و تحقیق ادا کریں گے۔ امانت و ضمانت کے لیے آپ کے متعمد خصوصی جناب ڈاکٹر نیاز احمد صاحب ریٹائرڈ میڈیکل آفیسر سنٹر جیل بہاول پور کا نام نامی اسم گرامی پیش کیا جاتا ہے۔ جب آپ کو حدیث مل جائے اور آپ تیار ہو جائیں تو کمترین کو مندرجہ ذیل پتا پر اطلاع کریں۔
رقم فوراً ڈاکٹر صاحب کے نام بہاول پور بینک میں جمع کرادی جائے گی جو مقررہ ثالثوں کے فیصلے کے بعد آپ کو مل جائے گی اور اگر پوری تلاش و تحقیق کے بعد بھی آپ کو کوئی ایسی صحیح اور صریح حدیث نہ ملے اور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ان شاء اﷲ نہیں ملے گی کیوں کہ ہے ہی نہیں۔ اگر ہوتی تو اہل حدیث سب سے پہلے اس پر عمل کرتے ۔ وہ اہل حدیث ہی کیا ہوئے جو ناسخ کو چھوڑ کر منسوخ پر عمل کرے۔
آپ فرقہ بندی کے چکر میں پڑ کر خواہ مخواہ ( وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْم بَعْدِمَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی ) [4:النساء:115]کی زد میں نہ آئیں۔ رفع الیدین اور ترجیع والی اذان کے سنت ہونے کا صاف اعلان کر دیں۔ اﷲ پاک ہم سب کو سنت نبویؐ کی محبت عطا فرمائے اور ان تقلیدی جھکڑ بندیوں سے بچائے‘ آمین۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱ (تنویر العینین ص (14
۲( تلخیص الحبیر218/1 کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ رقم 327)
۳ ( ملاحظہ ہو غنیۃ الطالبین صفحہ 10)
۴ ( حجۃ اﷲ البالغۃ جلد 2 ص 10 )
۵ (نیل الفرقدین ص (24
۶ (تنویر العینین ص (16
*****