پہلے اسے پڑھیے: اس کتاب میں سوال و جواب کی شکل میں ’’الف ‘‘اور’’ ب‘‘ دو حروف کو ’’اہل حدیث‘‘ او ر ’’بریلوی‘‘ کے مخفف کے طور
پر استعمال کیا گیا ہے۔
ب السلام علیکم
ا وعلیکم السلام و رحمۃ اﷲ و برکاتہ ۔ کہیے! کیسے تشریف لائے؟
ب ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے۔
ا فرمائیے! کیا مسئلہ ہے ؟
ب مردے سنتے ہیں یا نہیں ؟
ا ارے بھئی! یہ بھی کوئی مسئلہ ہے۔ یہ تو مشاہدے کی بات ہے‘ آپ کسی مردے سے بات کرکے دیکھ لیں‘ آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ مردہ سنتا ہے یا نہیں۔ وہ مردہ ہی کیا ہوگا جو سنے۔ سننا تو زندوں کا کام ہے نہ کہ مردوں کا۔ جو مر جاتا ہے وہ اس جہان سے چلا جاتا ہے اور برزخ میں پہنچ جاتا ہے۔ا س جہان یعنی دنیا کے اعتبار سے وہ مردہ ہے۔ نہ سنتا ہے ‘ نہ بولتا ہے۔ اگلے جہان یعنی برزخ میں وہ زندہ ہے۔ لیکن اس زندگی کو ہم نہیں سمجھ سکتے کہ ہم ان کو پکاریں اور وہ ہماری سنیں۔
ب کیا مردہ بالکل نہیں سنتا؟
ا مردہ جو ہوا اس لیے بالکل نہیں سنتا۔ اگر یقین نہ آئے تو بات کر کے دیکھ لیں۔
ب وہ بولے گا تو نہیں۔
ا بولے گا کیوں نہیں؟ اگر سنتا ہوگا تو ضرور بولے گا۔
ب مردے بولتے تو نہیں۔
ا بولتے کیوں نہیں ؟
ب ان میں کوئی جان ہے جو بولیں؟
ا جب جان نہیں تو سن کیسے لیتے ہیں‘ کیا بولنے کے لیے جان کی ضرورت ہے ‘ سننے کے لیے نہیں؟
ب ضرورت تو سننے کے لیے بھی ہے ‘ لیکن سنا ہے کہ مردے سنتے ہیں‘ بولتے نہیں۔
اگر بولتے نہیں تو سنتے کس لیے ہیں؟ اﷲ نے انسان میں سننا رکھا ہی اس لیے ہے کہ سن کر جواب دے اگر جواب نہ دینا ہو تو سننے کا کیا فائدہ ؟ قرآن میں ہے:
(اِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ ط وَالْمَوْتٰی یَبْعَثُھُمُ ﷲُ ثُمَّ اِلَیْہِ یُرْجَعُوْنُ )[6:الانعام:36] یعنی ’’ جواب تو وہ دیں جو سنتے ہوں اور مردے نہ سنتے ہیں نہ جواب دیتے ہیں۔ ان کو اﷲ قیامت کو اٹھائے گا ‘ پھر اﷲ کے سامنے پیشی ہوگی۔‘‘ درحقیقت سننا ہے ہی بولنے کے لیے اور بولنا سنانے کے لیے اگر ایک نہ ہو تو دوسرے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔
ب یہ فلسفہ تو میں نہیں جانتا ‘ البتہ میں نے سنا ہے کہ مردے سنتے ہیں۔
ا کس سے سنا ہے ؟
ب اپنے مولوی صاحب سے۔
ا کیا آپ کے مولوی صاحب نے کسی مردے سے بات کی ہے ؟
ب یہ تو مجھے معلوم نہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ مردے سنتے ہیں۔
ا آپ مولویوں کے کہنے پر نہ رہیں ‘ وہ تو شاید کہہ ہی دیں۔ اس لیے کہ مردوں کے فیوض پر ان کا گزارا ہے‘ ایصال ثواب ان کا سہارا ہے‘ مردوں کے ثوابوں کے سارے پارسل اور منی آرڈر ان کی معرفت جاتے ہیں‘ ختم اور قل شل کی بلٹیاں وہ کرتے ہیں۔ مردوں کی روحیں ان کے پاس آتی رہتی ہیں۔ ان سے کیا بعید ہے کہ وہ یہ بھی کہہ دیں کہ مردے ہم سے باتیں بھی کرتے ہیں۔ا س لیے آپ ان کے کہنے پر نہ رہیں۔ اگر تحقیق کرنی ہے تو خود کسی مردے سے بات کر کے دیکھ لیں۔ آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ سنتے ہیں یا نہیں۔
ب ہمارے مولوی صاحب تو بہت بڑے عالم ہیں۔ بڑے بڑے درسوں سے فارغ ہیں۔
ا فارغ تو وہ بالکل ہیں۔ جبھی تو وہ ایسی بات کہتے ہیں۔
ب وہ کہتے ہیں کہ حدیثوں میں آتا ہے کہ مردے سنتے ہیں۔
ا حدیثوں میں تو یہ بھی آتا ہے کہ مردے بولتے ہیں بلکہ مردے کا بول کر بتانا تو قرآن مجید سے بھی ثابت ہے۔ کیا وہ مردوں کے بولنے کے قائل ہیں ؟
ب قرآن مجید میں مردوں کے بولنے کے بارے میں کہاں ہے؟
ا سورۃ یٰسٓ میں ( قَالَ یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ O بِمَا غَفَرَلِیْ رَبِّیْ وَ جَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ)[36:یس:26-27]
مردے ہی کا تو قول ہے۔ اس کے علاوہ پہلے پارے میں بھی مردے کے بولنے کا واقعہ ہے۔ جہاں گائے کے ذبح کرنے کا ذکر ہے۔
ب وہ تو گائے کے گوشت کا ٹکڑا مارا تھا جس سے مردے نے زندہ ہو کر اپنے قاتل کے بارے میں بتایا تھا۔
ا کیا گائے کا گوشت لگانے سے مردہ زندہ ہوجاتا ہے اور بولنے لگ جاتا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو آپ بھی تجربہ کر کے دیکھ لیں۔
ب یہ تو اﷲ کی قدرت ہے ‘ ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟
ا اگر مردے کو بلانے کا کام اﷲ کا ہے تو مردے کو سنانے کا کام بھی اﷲ ہی کا ہے ‘ ورنہ مردہ خود کیسے سن سکتا ہے؟
ب سن تو خود لیتا ہے‘ حدیث میں نہیں آتا مردہ جوتیوں کی آواز سنتا ہے‘ حدیث میں یہ تو نہیں آتا کہ اﷲ سناتا ہے‘ حدیث میں تو یہ ہے کہ مردہ سن لیتا ہے۔
ا جس حدیث میں مردے کے بولنے کا ذکر ہے اس میں بھی تو یہ نہیں کہ اﷲ بلاتا ہے‘ اس میں بھی یہ ہے کہ اگر مردہ نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ’’ مجھے جلدی لے چلو‘‘ اگر نیک نہیں ہے تو کہتا ہے : ’’ ہائے مجھے کہاں لیے جا رہے ہو‘‘
ب اس کو مردے کا بولنا نہیں کہتے‘ یہ تواس کا ’’حال‘‘ ہے ’’قال‘‘ نہیں ۔ اس کی حالت کو حضور ﷺ نے اپنے الفاظ میں بیان کر دیا ہے‘ ورنہ یہ نہیں کہ وہ زبان سے یہ الفاظ کہتا ہے اور اگر اس کے اپنے الفاظ بھی ہوں تو یہ اس کی برزخی زندگی کا معاملہ ہے ‘ اس کا اس دنیا سے کیا تعلق؟ اس کو مردے کا بولنا نہیں کہتے۔ برعکس اس کے اس کے سننے کا معاملہ اس دنیوی زندگی سے متعلق ہے۔ کیونکہ وہ زندوں کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے۔ یعنی اس دنیا کی آواز سنتا ہے‘ اس کو مردے کا سننا ہی کہیں گے۔
ا جیسے وہ اس دنیا کی آواز سنتا ہے ایسے ہی جب وہ بولتا ہے‘ یا چیخ و پکار کرتا ہے تو سوائے انسان کے دنیا کی ہر چیز اس کی آواز کو سنتی ہے۔ چنانچہ اس حدیث میں یہ الفاظ موجود ہیں: (( یَسْمَعُ صَوْتَھَا کُلُّ شَیْءٍ اِلاَّ الْاِنْسَانَ)) ۱ ’’ انسان کے سوا ہر چیز اس کی آواز کو سنتی ہے‘‘
ب انسان اس کی آواز کو کیوں نہیں سنتا؟
ا حدیث میں حضور ﷺ نے اس کی وجہ بھی بیان فرمائی ہے کہ اگر لوگ سن لیں تو بے ہوش ہو جائیں اور مردوں کو قبروں میں دفن ہی نہ کریں۔
ب ہمیں مردے کے بولنے اور شور مچانے کا پتا تو نہیں لگتا۔
ا آپ کو اس کے سننے کا پتا لگ جاتا ہے؟
ب پتا تو سننے کا بھی نہیں لگتا۔
ا پھر آپ کیسے کہتے ہیں کہ مردے سنتے ہیں ؟
ب حدیث ہی کہتی ہے۔
ا حدیث تو بولنے کے بارے میں بھی بتاتی ہے‘ پھر جب دونوں کے بارے میں حدیث ہی کہتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ آپ سننے کو مانتے ہیں اور بولنے کو نہیں مانتے۔
ب تو پھر کیا دونوں کو ماننا چاہیے؟
ا جب یہ ہے ہی مشاہدے کے خلاف تو آپ کیسے مان سکتے ہیں؟
ب آپ نے ہی تو بولنا ثابت کیا ہے‘ اب آپ دونوں کا انکار کرتے ہیں۔
ا اﷲ کے بندے میں نے تو الزاماً بات کی تھی‘ ورنہ کون کہہ سکتا ہے کہ مردے سنتے ہیں یا بولتے ہیں‘ آپ نے پوچھا تھا مردے سنتے ہیں یا نہیں‘ میں نے کہا بات کر کے دیکھ لیں‘ آپ نے کہا وہ تو بول نہیں سکتے‘ میں نے کہا: پھر وہ سن بھی نہیں سکتے ‘ آپ نے کہا سننا تو حدیث سے ثابت ہے ‘ میں نے کہا ایسے ہی بولنا بھی قرآن و حدیث سے ثابت ہے‘ اب اگر آپ قرآن و حدیث کی رو سے ان کا سننا مانتے ہیں تو ان کا بولنا بھی مانیں‘ ورنہ دونوں کا انکار کریں۔
ب جب حدیث میںآ گیا تو انکار کیسے کر سکتے ہیں؟
ا حدیث میں یہ تو نہیں کہ مردے سنتے یا بولتے ہیں۔ حدیث میں تو خاص خاص موقعوں کا ذکر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ کسی وقت مردے کو سنا دیتا ہے یا بلا دیتا ہے۔ مردہ از خود ایسا نہیں کر سکتا۔ آپ مردے کی حقیقت کو تو دیکھیں کیا وہ بول یا سن سکتا ہے ؟
ب مردے کی حقیقت کیا ہے ؟
ا حقیقت یہ ہے کہ جب مردے کی جان ہی نکل گئی‘ نبض بند ہو گئی‘ تمام طاقتیں ختم ہو گئیں‘ احساس جاتا رہا‘ اب وہ کیسے سن سکتا ہے ؟ مردہ وہ تو نہیں ہوتا جس میں سننے کی طاقت ہو‘ بولنے کی نہ ہو‘ مردہ تو وہ ہوتا ہے جو کچھ بھی نہ کر سکے۔ قرآن مجید نے اس آیت میں مردوں ہی کا تو نقشہ کھینچا ہے:
( اَلَھُمْ اَرْجُلٌ یَّمْشُوْنَ بِھَآ ز اَمْ لَھُمْ اَیْدٍ یَّبْطِشُوْنَ بِھَآ ز اَمْ لَھُمْ اَعْیُنٌ یُّبْصِرُوْنَ بِھَآ ز اَمْ لَھُمْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِھَا )[7ؒ:الاعراف:195]’’ کیا اب ان کے ایسے پاؤں ہیں جن کے ساتھ وہ چل پھر سکیں‘ ایسے ہاتھ ہیں جن کے ساتھ وہ پکڑ سکیں‘ ایسی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھ سکیں‘ ایسے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سن سکیں۔
مطلب یہ کہ مرنے کے بعد آدمی یہ اعضاء رکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتا‘ کیوں کہ جسم میں جان نہیں ہوتی اور اگر اعضاء بھی نہ رہیں ‘ آگ یا مٹی کھا جائے تو پھر تو سننے اور بولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیوں کہ پھر سنے گا تو کس چیز سے ‘ بولے گا تو کس چیز سے ؟ اﷲ تو اس حالت میں بھی سنا سکتا ہے ‘ لیکن مردے کے بولنے یا سننے کا سوال ختم ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ نہ کان ‘ نہ زبان۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
( فَاِنَّکَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ )[30:الروم:52]
’’اے نبی! اور تو کوئی مردے کو کیا سنائے گا۔ آپ بھی مردوں کو نہیں سنا سکتے جیسا کہ بہروں کو نہیں سنا سکتے۔‘‘
بہرے کے کان تو ہوتے ہیں‘ لیکن سننے کی طاقت نہیں ہوتی۔ جب وہ نہیں سن سکتا تو مردہ کیا سنے گا جس میں نہ سننے کی طاقت رہی اور نہ سننے کا آلہ۔ ہاں اﷲ تعالیٰ اس حالت میں بھی اس کے ذرات کو سنا سکتا ہے۔ کسی اور کی طاقت نہیں کہ ایسا کر سکے۔ چنانچہ فرمایا:
( اِنَّ ﷲَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآءُج وَ مَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ)[35:الفاطر:22]
’’ اﷲ تو جسے چاہے سنا دے‘ کان ہوں‘ یا نہ ہوں ‘ لیکن اے پیغمبر! آپ ان کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں‘‘
یعنی مردہ ہیں۔ اب اس قدر وضاحت کے بعد کوئی کہہ سکتا ہے کہ مردے سنتے ہیں؟
ب میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ جب یہ مسئلہ اتنا صاف اور واضح ہے تو ’’ اہلسنت‘‘ کی اتنی اکثریت کیوں اس کی مخالف ہے؟
ا اکثریت اور اقلیت سے حق کو نہیں جانچا کرتے ۔ حق کو تو دلیل اور عقل سے جانچتے ہیں۔
ب کیا اتنی اکثریت کو آپ غلط کہیں گے ؟
عیسیٰ علیہ السلام کو خدا یا خدا کا بیٹا بنانے والوں کی تعداد آپ کی اکثریت سے کہیں زیادہ ہے۔آپ اتنوں کو غلط کہیں گے۔ اﷲ کے بندے حق کے مقابلے میں اکثریت کو نہیں دیکھا کرتے۔
ب آپ تو صرف آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ آپ حق پر اور ہم جو کہ پچانوے فیصد ہیں غلطی پر۔ آپ نے بھی خوب کہی۔
ا آپ بتائیے! قوموں پر عذاب اکثریت کے بگاڑ سے آتا ہے یا اقلیت کے؟
ب اکثریت کے ۔
ا اب مسلمانوں پر اقبال ہے یا ادبار؟ مستقل عذاب کی سی صورت ہے یا نہیں؟
ب ہیں تو مسلمان ساری دنیا میں ذلیل ۔
ا تو پھر کیا یہ ذلت آپ کی وجہ سے ہے جو اکثریتی ہیں یا ہماری وجہ سے جو آٹے میں نمک کے برابر ہیں؟
ب ذمہ داری تو اکثریت پر ہی آتی ہے ۔
ا جب ہی تو میں نے کہا ہے کہ آپ اکثریت کو نہ دیکھیں۔ اگر اکثریت کے عقائد درست ہوتے تو مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی۔ آپ سوچیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اکثریت کے عقائد و اعمال درست ہوں اور پھر مسلمانوں کی یہ درگت ہو۔ مسلمانوں کا یہ زوال اس بات کی دلیل ہے کہ اکثریت بگڑی ہوئی ہے‘ عقائد بھی خراب ‘ اعمال بھی برباد‘ قرآن مجید نے ٹھیک کہا ہے:
( وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْھِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّہ‘ فَاتَّبَعُوْہُ اِلاَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ)[34:سبا:20]
’’ شیطان نے انسانوں پر اپنے خیال کو سچا ثابت کردیا ‘ سوائے تھوڑے سے ایمان والوں کے باقی سب اس کے پیچھے ہو لیے۔‘‘
ب شیطان کا کیا خیال تھا جس کو اس نے سچا ثابت کر دیا؟
ا اس نے کہا تھا‘ میں اکثریت کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا۔ ( لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ O اِلاَّ عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ)[38:ص:82-83]چنانچہ اکثریت گمراہ ہو گئی۔
ب اس نے گمراہ کیسے کیا؟
ا اس عقیدے کے ساتھ کہ مردے سنتے ہیں۔
ب اس عقیدے کا گمراہی سے کیا تعلق ؟
ا یہ عقیدہ شرک کی بنیاد ہے اور شرک اصل گمراہی ہے۔
ب یہ عقیدہ شرک کی بنیاد کیسے ہو گیا؟
ا اﷲ کے سوا نبیوں‘ ولیوں‘ پیروں اور فقیروں کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھ کر جو پکارا جاتا ہے تو یہ اسی عقیدے کے تحت ہے کہ وہ سنتے ہیں اگر عقیدہ یہ ہو کہ وہ مر چکے ہیں اور جو مر جائے وہ نہیں سنتا تو ان کو کون پکارے اور یہ پکارنا ہی اصل شرک ہے۔
ب شرک کہتے کسے ہیں ؟
ا اﷲ کی ذات‘ صفات یا افعال میں کسی کو شریک سمجھنا شرک ہے۔
ب اس کا کیا مطلب ہے ؟
ا اس کا مطلب یہ ہے کہ کبھی شرک ذات کا ہوتا ہے ‘ کبھی صفات و افعال کا۔ ذات کا شرک یہ ہے کہ کسی کو اﷲ کی ذات میں شریک سمجھنا‘ اسی طرح کہ کوئی اﷲ کا جزو ہے۔ یا اﷲ کسی کا جزو ہے۔ کوئی اﷲ کی اولاد ہے‘ یا اﷲ کسی کی اولاد ہے‘ کوئی اﷲ سے نکلا ہے یا اﷲ کسی میں سے نکلا ہے ۔ یعنی اﷲ میں اور کسی میں جز و کل یا کسی رشتے ناطے کا تعلق ہے۔ جیسے باپ بیٹے یا آدم و حوا کا یا نُوْرٌ مِّنْ نُوْرِ اﷲِ کا ۔صفات کا شرک یہ ہے کہ اﷲ جیسی صفات کسی اور میں ثابت کرنا۔ کسی کو عالم الغیب‘ یا مختار کل یا حی و قیوم سمجھنا۔ افعال کا شرک یہ ہے کہ جیسے کام اﷲ کرتا ہے اور بھی کر سکتا ہے۔ مثلا اولاد دینا ‘ صحت دینا ‘ زندہ کرنا وغیرہ۔
ب آپ نے تو شرک کو بہت لمبا چوڑا بنا دیا ہے۔ ہم نے تو سنا ہے کہ شرک بتوں کی عبادت کو کہتے ہیں۔
ا شرک تو اﷲ کا شریک بنانے کو کہتے ہیں ‘ خواہ نبی ‘ ولی کو بنایا جائے یا پیر فقیر کو‘ زندوں کو بنایا جائے یا مردوں کو‘ بتوں کو بنایا جائے یا مزاروں کو۔ جب بندہ کسی کو بھی اﷲ کی ذات و صفات اور افعال میں شریک سمجھتا ہے تو مشرک ہو جاتا ہے۔ شرک ایک عقیدہ ہے۔ عبادت بتوں کی ہو یا کسی اور کی۔ اس عقیدے کا نتیجہ ہے کہ آدمی مشرک پہلے بنتا ہے عبادت غیر کی بعد میں کرتا ہے۔ جیسے اﷲ پر ایمان پہلے لایا جاتا ہے اور نماز بعد میں پڑھی جاتی ہے۔
ب ہم تو آج تک یہ سمجھتے رہے ہیں کہ غیر اﷲ کو سجدہ کرنا ہی شرک ہے۔
۱ غیر اﷲ کی عبادت کوئی بھی ہو۔ سب شرک ہے۔ عبادت صرف اسی کی ہو سکتی ہے جو خالق و رازق ہو۔ مالک و قادر ہو ‘ حی و قیوم ہو‘ محی و ممیت ہو۔ چونکہ اﷲ کے سوا کوئی بھی ایسی صفات کا مالک نہیں اس لیے عبادت کا مستحق بھی اس کے سوا کوئی نہیں۔ بندگی بندے کے مالک کا ہی حق ہے۔ نوکر کسی کا ہو چاکری کسی کی کرے یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ شیطان نے چونکہ انسان کو گمراہ کرنا ہے اس لیے وہ خد اکی مخلوق میں خدائی صفات کا تصور دلاتا ہے‘ تاکہ شرک ہو ۔ وہ کہتا ہے : انبیا اور اولیا مرتے نہیں وہ صرف پردہ کرتے ہیں۔ وہ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔ وہ سب کچھ سنتے ہیں‘ دیکھتے ہیں۔ جب یہ عقیدہ شرک راسخ ہو جاتا ہے تو پھر ان کی عبادت شروع ہو جاتی ہے اور غائب کو حاجت روا سمجھ کر پکارنا سب سے بڑی عبادت ہے۔ عبادت بدنی ہو یا مالی ‘ قولی ہو یا فعلی‘ کسی قسم کی بھی ہو جبھی ہوتی ہے جب ان میں خدائی صفات مان لی جاتی ہیں۔ اگر عقیدہ یہ ہو کہ وہ مر گیا ہے اور اب کچھ نہیں کر سکتا ‘ حتی کہ سن تک نہیں سکتا تو شرک کبھی نہیں ہو سکتا۔ اﷲ نے موت رکھی ہی اس لیے ہے کہ سب کی بے بسی اور عاجزی ظاہر ہو جائے اور شرک نہ ہو۔ یہ عقیدہ کہ مردے سنتے ہیں موت کی تاثیر کو ختم کر دیتا ہے۔ پھر شرک پید اہوتا ہے۔ اﷲ انبیا اور اولیا کو موت دے کر شرک کو مٹاتا ہے۔ مشرکین ان کو زندہ ثابت کر کے کہ وہ سنتے ہیں ‘ دیکھتے ہیں ‘ فیض پہنچاتے ہیں ‘شرک پھیلاتے ہیں۔ اگر یہ شیطانی مفروضات نہ ہوں تو شرک کا کاروبار چل ہی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مشرکین اس عقیدے کا دفاع کرتے ہیں اور قرآن اس کا بہت رد کرتا ہے۔ قرآن مردوں کے بولنے ‘ چلنے ‘ پھرنے کھانے پینے یا کسی اور فعل کی نفی پر اتنا زور نہیں دیتا جتنا سننے کی نفی پر زور دیتا ہے۔ کیوں کہ دوسرے تمام افعال نظر آتے ہیں ان کا جھوٹ چل نہیں سکتا‘ سننے کا جھوٹ چل سکتا ہے ۔ کیوں کہ اس کا پتا نہیں لگتا۔ اس لیے قرآن سننے کی تردید بہت کرتا ہے۔ زندہ اور مردے کا فرق تو کئی لحاظ سے ہے لیکن قرآن سننے کے فرق کو ہی نمایاں کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
( وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَلاَ الْاَمْوَاتُ ط اِنَّ ﷲَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآءُج وَ مَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ)[35:الفاطر:22]
زندے اور مردے برابر نہیں ۔ ان میں بڑا فرق ہے ۔ فرق یہ ہے کہ زندہ سنتا ہے ‘ مردہ سنتا نہیں‘ زندہ کو ہر کوئی سنا سکتا ہے ‘ مردے کو اﷲ سنائے تو سنائے اور کوئی نہیں سنا سکتا۔ حتی کہ اے نبیؐ! آپ بھی مردے کو نہیں سنا سکتے۔
اگر کوئی سمجھے تو موت ہے ہی شرک کی کمر توڑنے کے لیے۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے ہر نبی ولی پر موت وارد کی تاکہ لوگ ان کو اﷲ کا شریک نہ بنائیں۔ وہ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے مرے اور دفن ہوئے ۔ اس طرح اﷲ نے ان کی بے بسی اور عاجزی کو خوب ظاہر کر دیا کہ جو خود مر گئے وہ کسی کو کیا بچا یا فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ وہ تو اب سننے بولنے سے بھی عاجز ہیں۔ فائدہ کیا پہنچائیں گے۔ لہذا ان کو سہارا سمجھنا اور مشکل کشا جاننا حماقت ہے۔ پکارنے اور سہارا بنانے کے لائق صرف اﷲ کی ذات ہے۔ جس کو موت نہیں ۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:
(ھُوَ الْحَیُّ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ )[40:الغافر:65]
’’ وہ زندہ ہے ‘ وہی الٰہ ہے‘ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ عقیدہ درست کر کے اسی کو پکارو۔‘‘
یعنی پکارے جانے کے لائق وہ ذات ہے جو زندہ ہے ‘ جسے موت نہیں۔ پھر فرمایا:
( وَ تَوَکَّلْ عَلَی الْحَیِّ الَّذِیْ لاَ یَمُوْتُ )[25:الفرقان:58]
’’بھروسہ بھی اسی زندہ پر کرو جسے موت نہیں‘‘
جس کے لیے موت ہو اس پر کیا بھروسہ؟ شرک کروانے کے لیے شیطان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ نبیوں ولیوں کو مردہ نہ ہونے دے بلکہ ان کو زندہ ثابت کرے ۔ اس لیے کبھی وہ کہتا ہے۔
اَلاَ اِنَّ اَوْلِیَاءَ ﷲِ لاَ یَمُوْتُوْنَ
’’ اولیا مرتے ہی نہیں‘ بلکہ دنیا سے پردہ کر لیتے ہیں۔ کبھی وہ کہتا ہے: ’’ بزرگ مرنے کے بعد بھی اپنی قبروں میں دنیا کی طرح زندہ ہوتے ہیں اور سب کچھ کرتے ہیں۔ کبھی وہ کہتا ہے: ’’ مردے سارے ہی سنتے ہیں۔ جب سارے ہی سنتے ہیں تو انبیا اور اولیا تو بطریق اولیٰ سنتے ہوں گے۔ جب وہ سنتے ہیں تو ان کو پکارنے میں کیا حرج۔ ان کو تو دنیا میں بھی اﷲ کا قرب حاصل تھا۔ مرنے کے بعد تو اور قرب حاصل ہو جاتا ہے۔ اس لیے ان کی طاقتوں میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے۔ جو کام پہلے دنیوی زندگی میں وہ نہیں کر سکتے تھے اب کر سکتے ہیں۔ وہ خود بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ اﷲ سے بھی بذریعہ سفارش بہت کچھ کروا سکتے ہیں۔ لہذا ان کو پکارنا چاہیے۔
مشرکوں کو مردوں کے سننے کے عقیدہ کی اصل میں ضرورت تو انبیا اور اولیا کے لیے تھی تاکہ ان کو خدا کا شریک بنایاجاسکے۔ لیکن چونکہ ان کے لیے کوئی خاص دلیل نہ تھی‘ انھیں عام نصوص سے کام لینا پڑتا ہے جو بطور اعجاز خدا وندی عام مردوں کے لیے تھیں اس لیے مسئلہ یہ بنایا کہ مردے سنتے ہیں ورنہ عام مردوں کے سننے سے مشرکوں کو کوئی دلچسپی نہیں۔ چونکہ عام مردوں کے سننے سے خواص کا سننا بطریق اولٰی ثابت ہوتا ہے اور علیحدہ ان کے سننے کی کوئی دلیل نہیں اس لیے عام مردوں کے سننے پر زور دیا جانے لگا اور استدلال ان نصوص سے کیا جانے لگا جو اﷲ کی قدرت پر دال ہیں نہ کہ مردوں کے سننے پر۔ اگرچہ شیطان اپنی ان چالوں میں بہت کامیاب ہے۔ اس نے مسلمانوں کی اکثریت کو گمراہ کر لیا ہے ‘ کیونکہ یہ عیقدہ بہت عام ہے ‘ لیکن عقل والا سمجھ سکتا ہے کہ یہ عقیدہ بالکل بے بنیاد ہے۔ ایک طرف مردہ کہنا‘ دوسری طرف یہ کہنا کہ وہ سنتا ہے ‘صریح تضاد ہے۔ وہ مردہ ہی کیا ہوگا جو سنے۔ سننا زندوں کا کام ہے‘ نہ کہ مردوں کا۔
ب یہ عقیدہ بے بنیاد کیسے ہے ؟ قبرستان میں جا کر جب سلام کیا جاتا ہے تو مردے سنتے ہیں۔
ا کہاں سنتے ہیں ؟
ب اگر نہیں سنتے تو قبرستان جا کر السلام علیکم کیوں کہا جاتا ہے ؟
ا جب آپ کسی کو خط لکھتے ہیں تو السلام علیکم خطاب کے صیغے سے کیوں لکھتے ہیں‘ کیا وہ اس وقت سنتا ہے ؟
ب سنتا تو نہیں لیکن ہم خط میں اس سے مخاطب ہوتے ہیں۔ اس لیے اس کو حاضر سمجھ لیتے ہیں۔
ا ایسے ہی دعا میں ہم مردوں کو سمجھ لیتے ہیں اگرچہ وہ سنتے نہیں۔
ب لیکن خط تو اس کو پہنچنا ہی ہوتا ہے۔
ا ہمارا سلام بھی مردوں کو بذریعہ خدائی ڈاک پہنچنا ہی ہوتا ہے۔
ب کیا مردے ہمارے سلام کا جواب نہیں دیتے۔
ا صحیح تو یہ ہے کہ جواب نہیں دیتے۔ کیونکہ ہمارا سلام سلام تحیہ نہیں ہوتا جس کے جواب کی ضرورت ہو بلکہ سلام دعا ہوتا ہے‘ جو بطور دعا کے ان کو پہنچ جاتا ہے۔ لیکن اگر مان لیا جائے کہ وہ جواب دیتے ہیں تو اس کی صورت وہی ہوتی ہے جو خط کے سلام اور اس کے جواب کی ہوتی ہے جس میں سننا سنانا مقصود نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے سے دور ہوتے ہیں بلکہ پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔ مردے کا سلام و جواب بھی کلام کی قسم سے نہیں ہوتا کہ مردہ زندے کا سلام سنے او زندہ مردے کا‘ کیونکہ ان میں بہت بعد ہوتا ہے۔ ایک اس جہان میں ہوتا ہے دوسرا اگلے جہان میں سوائے خدائی ذریعے کے ارسال و ترسیل کی صورت نہیں ہوتی۔ جب خدائی ڈاک سے زندے کا سلام مردے کو پہنچتا ہے۔ جیسے اور دعائیں پہنچتی ہیں تو وہ جواباً دعا دیتا ہے۔ یہ نہیں کہ وہ زندے کا السلام علیکم سن کر وعلیکم السلام کہتا ہے۔ (جیسا کہ کلام کیا جاتا ہے)
ب کیا مردے سلام خود نہیں سنتے؟
ا اﷲ کے بندے وہ مردے ہیں ‘ وہ کیا سنیں گے؟
ب ہم نے تو یہی سنا ہے کہ وہ سلام سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں۔
ا کبھی آپ نے ان کا جواب سنا ہے۔
ب سنا تو کبھی نہیں۔
ا پھر اس جواب کافائدہ کیا جو آپ کو سنائی نہ دے۔
ب ہم ان کا جواب کیسے سن سکتے ہیں؟
ا جیسے وہ ہمارا سن لیتے ہیں‘ وہ مرے ہوئے سن لیں آپ زندہ نہیں سن سکتے۔
ب موت کے بعد تو مردے میں بہت طاقت آ جاتی ہے۔ اس لیے وہ سن سکتا ہے ہم نہیں سن سکتے۔
ا جب ان میں بہت طاقت آ جاتی ہے تو پھر وہ ہمیں کیوں نہیں سنا دیتے یا تو سلام کا جواب نہ دیں اور اگر جواب دیتے ہیں تو پھر ہمیں سنائیں۔ وہ جواب ہی کیا ہوا جو سنائی نہ دے۔
ب انھیں ہمیں سنانے کی کیا ضرورت ہے؟
ا جو ضرورت انھیں سننے کی ہے۔ اگر مردوں کو سلام کا جواب سنانے کی ضرورت نہیں تو ہمارا سلام سننے کی بھی ضرورت نہیں۔ ہمارا سلام دعا ہے جو اﷲ خود بخود پہنچا دیتا ہے۔ اس میں سننے سنانے کے تکلف کی کیا ضرورت ؟
ب مردوں کا تو حق ہے کہ ہم ان کو سلام بھیجیں اور مختلف عمل کرکے ان کو ثواب پہنچائیں
ا جب وہ زندہ ہیں تو ان کو ثواب پہنچانے کی ضرورت ؟ ایصال ثواب تو مردوں کو کیا جاتا ہے نہ کہ زندوں کو۔ زندہ تو خود عمل کر لیتا ہے‘ عمل تو مردہ نہیں کر سکتا۔ حدیث میں ہے:
((اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَمَلُہ‘ ))۲
’’ مرنے کے بعد آدمی کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔‘‘
وہ کوئی عمل نہیں کر سکتا۔ حتیٰ کہ سلام کا جواب بھی نہیں دے سکتا۔کیونکہ یہ بھی ایک عمل ہے جس کا ثواب مرتب ہوتا ہے۔
ب آپ کہتے ہیں مردہ کوئی عمل نہیں کر سکتا‘ حدیث میںآتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے موسیٰ علیہ السلام کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔
ا حدیث میں تو یہ بھی آتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے موسیٰ علیہ السلام کو لبیک لبیک پکارتے ٹیلے سے اترتے ہوئے ‘ حج کو جاتے دیکھا ہے۔اسی طرح یونس علیہ السلام کو سرخ اونٹنی پر لبیک لبیک پکارتے ہوئے دیکھا ہے۔
ب جب موسیٰ علیہ السلام کو قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فوت شدگان کا عمل کرنا تو ثابت ہو گیا۔
ا جب تلبیہ پکارتے ہوئے حج کو جاتے دیکھا تو حج کرنا ثابت نہ ہوا؟
ب حضور ﷺ نے دیکھا تو حج کرنا بھی ثابت ہو گیا۔
ا اگر وہ حج بھی کرتے ہیں تو حج کرتے ہوئے لوگوں کو نظر کیوں نہیں آتے؟
ب جب وہ اس جہان سے چلے گئے ہیں تو اب نظر کیسے آ سکتے ہیں ؟
ا یہی تو ہم کہتے ہیں کہ جب وہ اس جہان سے چلے گئے ہیں اور برزخ میں پہنچ چکے ہیں تو اب وہ حج کیسے کر سکتے ہیں۔ حج تو زندوں پر ہے جو اس جہان کے باشندے ہیں نہ کہ مردوں پر جو کہ برزخی زندگی گزار رہے ہیں۔
ب جب حضور ﷺ نے ان کوحج کرتے دیکھا تو وہ حج کرتے ہیں۔
ا اگر وہ حج کرتے ہیں تو صحابہ جوحضور ﷺ کے ساتھ تھے ان کو وہ نظر کیوں نہ آئے؟
ب ممکن ہے اس وقت صحابہ ساتھ نہ ہوں۔
ا حج بھی کبھی اکیلے ہوتا ہے ؟ حج تو نویں تاریخ کو دن میں ہوتا ہے اور سب اکٹھے ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ مسلم شریف کی حدیث میں صراحت ہے کہ صحابہؓ آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ یہ کونسی پہاڑی ہے ‘ صحابہؓ نے بتایا ۔ پھر آپ ؐ نے فرمایا گویا کہ میں موسیٰ علیہ السلام کو تلبیہ پکارتے ہوئے ٹیلے سے اترتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اس طرح سرخ اونٹنی پر یونس علیہ السلام کو تلبیہ کہتے ہوئے دیکھا ۔ جب حضور ﷺ نے ہی دیکھا اور صحابہؓ کو نظر نہ آیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حضور ﷺ کا معجزہ تھا جو اﷲ نے ان کو ان نبیوں کی دنیوی زندگی کی ایک جھلک دکھا دی۔ یہ نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام حقیقتاً اس وقت قبر میں نماز پڑھ رہے تھے یا لبیک لبیک پکارتے حج کو جا رہے تھے۔ اس لیے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم نے صحابہؓ سے کہا گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں:
((کَاَنِّیْ اَنْظُرُ )) ۳
یعنی فی الواقع وہ اس وقت نماز نہیں پڑھ رہے تھے۔ وہ مثالی صورت تھی۔
ب جب آپؐ نے دیکھا تو یہ ضرور حقیقت ہوگی۔
ا حقیقت تو تھی ‘ لیکن حقیقت دنیوی زندگی کی تھی جو اﷲ نے اس وقت دکھائی۔
ب حضور ﷺ نے جب موسیٰ علیہ السلام کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا تو وہ موسیٰ علیہ السلام ہی ہوں گے۔
ا تھے تو وہ موسیٰ علیہ السلام ہی ‘ لیکن وہ منظر ان کی دنیوی زندگی کا تھا ۔ وہ اس وقت موجود نہ تھے بلکہ عالم مثال تھا۔ جیسے حضرت بلالؓ کو آپ ؐ نے معراج کی رات جوتوں سمیت جنت میں چلتے پھرتے دیکھا۔ حالانکہ وہ اس وقت دنیا میں زندہ موجود تھے۔ ابھی فوت بھی نہیں ہوئے تھے۔ جیسے اﷲ تعالیٰ نے حضرت بلالؓ کا عالم آخرت کا نقشہ حضور علیہ السلام کو دکھادیا ایسے ہی موسیٰ علیہ السلام کی دنیوی زندگی کا نقشہ دکھا دیا۔ ایسے واقعات سے یہ استدلال کرنا کہ فوت شدگان زندہ ہیں اور عمل کرتے ہیں‘ صحیح نہیں کیونکہ یہ برزخی زندگی کے معاملات ہیں جو کہ خرق عادات ہیں۔ ان سے کوئی عموم کشید کرنا زیادتی ہے۔ مردے مردے ہیں‘ نہ سنتے ہیں‘ نہ بولتے ہیں‘ نہ نماز پڑھتے ہیں‘ نہ حج کرتے ہیں۔ اﷲ جس حالت میں چاہے ان کو دکھا دے یا جو چاہے کروا دے‘ لیکن جو وہ کریں گے وہ ان کا فعل نہ ہوگا ‘ بلکہ اﷲ کا فعل ہوگا۔ جیسے اگر کوئی کسی کو اتفاق سے کہیں مل جائے تو یہ نہیں کہیں گے کہ وہ وہاں رہتا ہے۔ اگر کسی کو راستے میں کوئی روپیہ پیسہ مل جائے تو یہ نہیں کہیں گے کہ فلاں جگہ پیسے ملتے ہیں ۔ یہ تو اتفاق ہے جس کے لیے عموم نہیں ہوسکتا۔ آپ جو کہتے ہیں کہ مردے سلام سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں۔ پھر اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ مردے سنتے ہیں تو آپ یہ بتائیں کہ اگر ان سے کچھ اور پوچھا جائے تو کیا وہ سنیں گے اور جواب دیں گے۔
ب میں یہ تو نہیں کہہ سکتا۔
ا پھر آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مردے سنتے ہیں۔ اگر مردے سنتے ہوں اور جواب دیتے ہوں تو سب کچھ سنیں اور جواب دیں۔ یہ تو نہیں کہ صرف سلام سنیں اور سلام کا ہی جواب دیں۔ نہ اور کچھ سنیں اور نہ کسی بات کا جواب دیں۔ اگر وہ اپنی طاقت سے سلام سنتے اور جواب دیتے ہوں تو وہ سب کچھ سنیں اور جواب دیں ‘ لیکن اگر وہ صرف سلام ہی سن سکتے ہوں اور صرف اس کا ہی جواب دے سکتے ہوں تو پھر ظاہر ہے کہ وہ زندہ نہیں اور سلام سننا اور جواب دینا ان کا فعل نہیں بلکہ اﷲ کا فعل ہے۔ جسے خرق عادت کہیں گے۔ خرق عادت یا معجزہ اسی جزئی یا خاص واقعہ پر بند رہتا ہے۔ اس سے عام استدلال نہیں کیا جاسکتا۔
ب مردہ جوتیوں کی آہٹ تو سنتا ہے ۔ جب اسے قبر میں بند کر کے جاتے ہیں یا وہ بھی نہیں سنتا۔
ا وہ تو سنتا ہے۔
ب پھر مردوں کا سننا تو ثابت ہو گیا۔
ا مردوں کا سننا ثابت نہ ہوا اﷲ کا سنا دینا ثابت ہوا ‘ کیونکہ وہ اﷲ تعالیٰ کا کام ہے اور خاص موقع کا ذکر ہے۔ اس سے یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ مردے سنتے ہیں۔ اس سے تو بلکہ یہ ثابت ہوا کہ مردہ نہیں سنتا۔ اگر مردہ سنتا ہوتا تو حدیث میں یہ ذکر نہ ہوتا کہ جب مردے کو دفن کر کے جاتے ہیں تو وہ جانے والوں کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے بلکہ عام بات ہوتی کہ انسان مرنے کے بعد بھی ہر آواز ہر وقت سنتا ہے۔ اس میں جانے والوں کے جوتوں کی آواز بھی آ جاتی اور آنے والوں کی بھی اور عام باتیں بھی۔ کیونکہ خاص سے عام ثابت نہیں ہوتا بلکہ عام سے خاص ثابت ہو جاتا ہے۔ جب حدیث میں عام ذکر نہیں بلکہ خاص ذکر ہے کہ وہ جانے والوں کے صرف جوتوں کی آواز سنتا ہے تو ان کی باتیں نہیں سنتا۔
ب جب سنتا ہے تو سب کچھ ہی سنتا ہوگا۔
ا بھئی! حدیث کو تو دیکھو جو آپ نے پیش کی ہے۔ اس میں تو صرف جانے والوں کی آہٹ کے سننے کا ذکر ہے اگر وہ سب کچھ ہی سنتا ہوتا تو پھر اس کو خاص کرنے کا فائدہ
ب یہ خاص موقع کی بات نہیں بلکہ حدیث کا مطلب ہے کہ مردہ جوتیوں کی آہٹ تک سنتا ہے۔ جس سے دلالتاً ثابت ہو گیا کہ وہ سب کچھ اور ہر وقت سنتا ہے۔
ا جوتیوں کی آہٹ تو آنے والوں اور جانے والوں کی برابر ہے‘ پھر جانے والوں کو خاص کرنے کا کیا فائدہ ؟
ب اس فائدہ کا مجھے پتا نہیں ‘ لیکن فی الجملہ یہ تو ثابت ہو گیا کہ وہ سنتا ہے۔ مقید کے ضمن میں مطلق آ ہی جاتا ہے۔
ا حدیث کا مقصود یہ بتانا نہیں کہ مردے سنتے ہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ جب لوگ میت کو دفن کر کے جاتے ہیں تو اسے احساس دلایا جاتا ہے کہ دیکھ جن کی وجہ سے تو مارا مارا پھرتا تھا ‘حلال حرام‘ جائز ناجائز کی بھی کوئی تمیز نہیں رکھتا تھا۔ اب تجھے تنہا چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ کوئی تیرا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اس لیے چھوڑ کر جانے والوں کے جوتوں کی آہٹ سنائی جاتی ہے‘ نہ آنے والوں کی آہٹ ‘ نہ جانے والوں کی باتیں کیونکہ اکیلے رہ جانے اور چھوڑ جانے کا احساس اسی سے ہو سکتا ہے۔
ب حدیث کا مقصود کچھ بھی ہو سننا تو ثابت ہو گیا۔ کسی وقت سننے سے ہر وقت سننے کی نفی تو نہیں ہوتی۔
ا اس سے ہر وقت سننا بھی تو ثابت نہیں ہوتا۔
ب جب ایک دفعہ سننا ثابت ہو گیا تو ثابت ہو اکہ مردے سنتے ہیں۔ آپ جب اب سنتے ہیں تو پھر بھی سن سکیں گے۔ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ پھر آپ نہیں سنیں گے۔ جو ایک وقت سن سکتا ہے وہ ہر وقت سن سکتا ہے۔
ا ارے میں تو زندہ ہوں اور سننا میرا فعل ہے ‘ اس لیے میں تو ہر وقت سن سکتا ہوں ‘ لیکن بات تو مردے کی ہو رہی ہے ۔ آپ مردے کو زندے پر قیاس کرتے ہیں۔ سوتے اور جاگتے میں بہت فرق ہے۔ جاگتا سنتا ہے اور سویا ہوا نہیں سن سکتا۔ زندہ اور مردہ میں تو اس سے بھی زیادہ فرق ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
( وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَلاَ الْاَمْوَاتُ ط اِنَّ ﷲَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآءُج وَ مَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ)[35:الفاطر:22]
زندے اور مردے برابر نہیں۔ ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ زندہ سنتا ہے‘ مردہ نہیں سنتا۔ اﷲ تو جسے چاہے سنا دے ‘ وہ تو مردے کو بھی سنا سکتا ہے‘ لیکن اے نبی! تو مردے کو نہیں سنا سکتا۔ تو صرف زندے کو ہی سنا سکتا ہے۔
ثابت ہوا کہ زندہ تو خود سنتا ہے ‘ لیکن مردہ نہیں سن سکتا۔ مردے کوتو جب سنائے اﷲ ہی سنائے۔
ب جب اﷲ سناتا ہے پھر تو سنتا ہے؟
ا ہاں پھر تو سنتا ہے۔
ب سننا تو پھر بھی ثابت ہو گیا۔
ا اﷲ اگر پتھر کو سنائے تو وہ نہیں سنے گا؟
ب تو پھر ‘پتھر کے لیے بھی سننا ثابت ہو گیا۔
ا کیا آپ کہیں گے کہ پتھر بھی سنتے ہیں؟
ب پتھر اور بندے میں تو بہت فرق ہے۔
ا پتھر اور بندے میں تو بہت فرق ہے‘ لیکن پتھر اور مردے میں تو سننے اور دیکھنے کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ جیسے پتھر میں سننے کی طاقت نہیں ایسے ہی مردے میں بھی سننے کی صلاحیت نہیں۔
ب جب مردے میں سننے کی صلاحیت نہیں تو پھر مردہ جوتیوں کی آہٹ کیسے سن لیتا ہے۔
ا وہ تو اﷲ سناتا ہے۔ اس کو مردے کا سننا نہیں کہتے۔
ب سنتا تو مردہ ہی ہے ۔ مردے کا سننا کیوں نہیں کہتے؟
ا یہ نسبت مجازی ہے۔ حقیقت میں یہ فعل مردے کا نہیں ہوتا‘ اﷲ کا ہوتا ہے۔ چونکہ مردہ اﷲ کے اس فعل کے لیے محل ہوتا ہے اس لیے مجازاً نسبت مردے کی طرف کر دیتے ہیں جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں اسٹیشن آ گیا‘ حالانکہ آنے کا کام گاڑی کرتی ہے۔ نسبت اسٹیشن کی طرف کر دیتے ہیں۔ اسی طرح ریڈیو ‘ ٹیپ ریکارڈ‘ اور گراموفون ہیں۔ ہم کہتے ہیں ریڈیو بولتا ہے حالانکہ بولنا اس کا فعل نہیں۔ مجازاً اس کی نسبت اس کی طرف کر دیتے ہیں۔ کیونکہ بظاہر فعل کا ظہور اس سے ہوتا ہے ۔ کوئی فعل کسی کا اس وقت کہلاتا ہے جب وہ اس کو اپنے شعور اور ارادے اور اپنی طاقت سے کرے جو اﷲ نے اس میں مستقل طور پر ودیعت کر رکھی ہے ۔ مردہ چونکہ مردہ ہے اس میں احساس اور ارادہ نہیں ہوتا اس لیے اس کے کسی فعل کو اس کا فعل نہیں کہتے۔ وہ حقیقت میں اﷲ کا فعل ہوتا ہے۔ جسے اعجاز کہتے ہیں اور اعجاز میں عموم نہیں ہوتا کہ آپ اس پر قیاس کریں۔ موسیٰ کا عصا جب اﷲ چاہتا تھا سانپ بن جاتا تھا۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ لاٹھیاں سانپ بن جاتی ہیں۔ حضور ﷺ معراج میں آسمانوں پر گئے ‘ ہم نہیں کہہ سکتے کہ انسان آسمانوں پر جا سکتے ہیں۔ لہذا یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کہ جب مردہ جوتیوں کی آہٹ سنتا ہے تو وہ سب کچھ سنتا ہوگا۔ جیسا کہ ہم سب کچھ سنتے ہی ہم زندہ ہیں‘ وہ مردہ ہیں۔ زند ے اور مردے میں یہی فرق ہے کہ زندہ اپنی طاقت سے سنتا ہے اور مردے میں وہ طاقت نہیں ہوتی ۔ اس لیے وہ نہیں سن سکتا۔ زندہ بھی اس وقت تک سن سکتا ہے جب تک اس میں وہ طاقت رہتی ہے۔ آپ بتائیں کہ جب آدمی سو جاتا ہے تو پھر بھی سنتا ہے؟
ب پھر تو وہ نہیں سنتا۔
ا جب سویا ہوا آدمی نہیں سن سکتا تو مردہ کیسے سنے گا؟
ب شہدا ء تو سنتے ہوں گے ‘ وہ تو زندہ ہیں۔
ا شہید کہتے کسے ہیں ؟
ب جو اﷲ کی راہ میں قتل ہو جائے۔
ا قتل ہونے کے بعد شہید بنتا ہے یا پہلے؟
ب بنتا تو قتل ہونے کے بعد ہی ہے۔
ا جان نکلنے سے پہلے تو کوئی شہید نہیں ہو سکتا۔
ب نہیں۔
ا پھر شہید زندہ کیسے ہوا؟ زندہ تو غازی ہوتا ہے ‘ شہید نہیں ہوتا۔
ب سنا ہے کہ شہید تو مرتے ہی نہیں۔
ا اگر مرتے نہیں تو شہید کیسے ہو جاتے ہیں؟ شہید تو ہوتا ہی وہ ہے جو اﷲ کی راہ میں مرجائے‘ یعنی شہادت ملتی ہی موت کے بعد ہے۔
ب کیا قرآن مجید نہیں کہتا کہ شہید زندہ ہیں۔
ا قرآن مجید کہاں کہتا ہے کہ شہید زندہ ہیں۔ قرآن مجید تو پہلے شہداء کے لیے موت ثابت کرتا ہے ‘ پھر برزخی زندگی کی خبر دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:
( وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ ﷲِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ )[3:آل عمران:169]
’’جو جہاد میں مارے جاتے ہیں‘ ان کو مردہ نہ خیال کرو۔ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں۔ رزق دیے جاتے ہیں۔‘‘
قرآن شہید کو دنیا کے اعتبار سے مردہ اور اگلے جہان کے اعتبار سے زندہ بتاتا ہے۔ قرآن یہ نہیں کہتا کہ شہید دنیا میں زندہ ہیں‘ سنتے ہیں دیکھتے ہیں یا کوئی اور کام کرتے ہیں۔
ب اگلے جہان میں تو سارے ہی زندہ ہیں پھر شہیدوں کی کیا خصوصیت؟
ا کیا شہیدوں کی خصوصیت اسی میں ہے‘ کہ وہ دنیا میں واپس آ جائیں گے؟
ب آخر یہ خصوصیت تو ہے کہ وہ مر کر بھی زندہ ہیں۔
ا کہاں؟ دنیامیں یا برزخ میں۔
ب دونوں جگہ ۔ دنیا میں بھی اور برزخ میں بھی۔
ا دونوں جگہ کیسے ہو سکتے ہیں‘ آپ جانتے ہیں برزخی زندگی کب شروع ہوتی ہے؟
ب جب آدمی مر جاتا ہے ۔
ا یعنی دنیوی زندگی ختم ہونے پر۔
ب ہاں۔
ا جب برزخی زندگی دنیوی زندگی کے ختم ہونے پر شروع ہوتی ہے تو دونوں جمع کیسے ہو سکتی ہیں۔ کیا دن رات جمع ہو سکتے ہیں ؟ کیا جوانی اور بڑھاپا جمع ہوسکتے ہیں ۔ جب ایک چیز کی ابتدا دوسری کی انتہا ہو تو ایسی چیزیں کبھی جمع نہیں ہو سکتیں۔ جیسے دن رات جمع نہیں ہو سکتے۔ دن ختم ہو گا تو رات آئے گی ‘ جیسے بچپن‘ جوانی‘بڑھاپا جمع نہیں ہو سکتے کیونکہ ایک ختم ہوگا تو دوسرا آئے گا۔ اسی طرح یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص دنیا میں بھی زندہ ہو اور برزخ میں بھی۔ اگر دنیا میں زندہ ہے تو برزخ میں نہیں‘ اگر برزخ میں زندہ ہے تو دنیا میں نہیں۔ کیونکہ دنیوی زندگی ختم ہونے کے بعد برزخی زندگی شروع ہوتی ہے۔ انسانی زندگی کا سفر پیدائش سے شروع ہوتا ہے ۔ پہلے بچپن ‘ پھر جوانی‘ پھر بڑھاپا۔ پھر موت کے دروازے سے برزخ۔ پھر آخرت ‘ پھر اصلی ٹھکانا:جنت یا دوزخ۔ اس پر یہ سفر ختم ہو جاتا ہے۔ جب سے یہ سفر شروع ہوتا ہے آدمی کا رخ آگے کی طرف ہی رہتا ہے۔ آگے کی طرف قدم سست یا تیز ہو سکتا ہے۔ پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ بچپن میں ہی موت آ جائے ‘ جوانی اور بڑھاپے کی نوبت ہی نہ آئے ‘ لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ جوان پھر بچہ بن جائے ‘ یا بوڑھا پھر جوان ہو جائے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ برزخ میں ہی اخروی لذتیں حاصل ہونے لگ جائیں ۔ جیسا کہ شہداء کو حاصل ہوتی ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی شہید برزخ سے واپس دنیامیں آ جائے۔ کیونکہ یہ دنیا قید خانہ ہے اور موت اس سے نکلنے کا دروازہ ہے۔ چونکہ موت سے ہی آدمی اس قید خانے سے نکلتا ہے اس لیے موت سے ہی مومن کی ترقی ہے۔ اس لیے نبی ‘ولی ‘خاص ‘عام سب پر موت آتی ہے اور وہ اس دروازے سے نکل کر جو مدارج اﷲ نے ان کے لیے تیار کیے ہیں ان کے حصول کے لیے آ گے بڑھتے ہیں۔ شہید اور نبی تو درکنار کوئی مومن بھی نہیں چاہتا کہ ایک دفعہ اس قید خانے سے نکل کر پھر اس قید خانے میں واپس آ جائے اور اپنی منزل مقصود سے دور ہو۔
ب سنا ہے شہید تو اس دنیا میں واپس آنے کی آرزو کرتے ہیں۔
ا دنیا میں آنے کی آرزو نہیں کرتے دوبارہ شہید ہونے کی آرزو کرتے ہیں۔
ب آ خر شہید تو اس دنیا میں آ کر ہی ہو سکتے ہیں۔
ا تو پھر کیا اﷲ ان کو بھیج دیتا ہے؟
ب آخر بھیجتا ہی ہوگا۔ اﷲ ان کی بات رد تو نہیں کرتا ہوگا۔
ا تو پھر کیا آپ نے کسی شہید کو دنیا میں آ کر رہتے اور دوبارہ شہید ہوتے دیکھا ہے ؟
ب دیکھا تو نہیں۔
ا آپ نے دیکھا بھی نہیں اور آتا بھی کوئی نہیں۔ اﷲ ان کی اس خواہش کو پورا نہیں کرتا۔ جیسا کہ حدیثوں میں آتا ہے ۔ اس لیے کہ یہ فعل عبث ہے‘ اﷲ کی حکمت کے خلاف ہے مر کر پھر دنیامیں آنا تنزل ہے‘ ترقی نہیں۔ ترقی آگے جانے میں ہے کیونکہ جنت آگے ہے اور جنت کا مل جانا فوزِ عظیم ہے اس لیے مومن آگے ہی جاتا ہے دنیا میں واپس نہیں آتا۔
ب عیسیٰ علیہ السلام جن مردوں کو زندہ کرتے تھے وہ تو دنیا میں واپس آئے۔
ا اس کو واپس آنا نہیں کہتے۔ واپس آنا تو وہ ہے جو اپنی مرضی سے ہو اور ایسے کوئی واپس نہیں آیا۔
ب مرضی سے آیا یا اﷲ لایا‘ دنیا میں آ تو گیا۔ دنیوی زندگی تو مل گئی۔
ا اس کو دنیوی زندگی نہیں کہتے۔ دنیوی زندگی تو اس وقت تک ہے جب تک موت نہ آئے۔ جب موت آ جاتی ہے تو دنیوی زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ پھر اگر معجزانہ طور پر اﷲ کسی کو زندہ بھی کر دے تو وہ دنیوی زندگی نہیں کہلائے گی۔ کیونکہ دنیوی زندگی ایک خاص زمانے کا نام ہے جو پیدائش سے شروع ہو کر موت پر ختم ہو جاتا ہے۔ جیسے زمانہ لوٹ کر نہیں آتا ایسے ہی یہ زندگی بھی لوٹ کر نہیں آتی۔ اﷲ کسی مردے کو زندہ بھی کر دے تو وہ برزخی زندگی ہی کہلائے گی۔ کیونکہ اس پر دنیا کی زندگی کے احکام مرتب نہیں ہوتے۔ ایسے ہی اﷲ کسی زندے کو جس کی عمر ابھی باقی ہو معجزانہ طور پر مار دے اور جتنی دیر چاہے مردہ رکھے اور پھر زندہ کرکے چھوڑ دے تاکہ وہ اپنی عمر پوری کرے تو یہ دنیوی زندگی ہی کہلائے گی۔ جب تک اس کی عمر پوری نہ ہوجائے۔ جیسا کہ حضرت عزیر علیہ السلام کے ساتھ یا بنی اسرائیل میں کئی مرتبہ ہوا۔ اس کو یوں سمجھیں قرآن میں کچھ سورتیں مکی ہیں‘ کچھ مدنی۔ مکی وہ کہلاتی ہیں جو ہجرت سے پہلے نازل ہوئیں اور مدنی وہ جو ہجرت کے بعد۔ اگر ہجرت کے بعدکوئی سورت یا آیت مکے میں نازل ہوئی تو اس کو مدنی ہی کہتے ہیں کیونکہ یہ اس زمانے سے تعلق رکھتی ہے جو ہجرت کے بعد کاہے۔ یہی حساب دنیوی اور برزخی زندگیوں کا ہے۔ موت سے پہلے کی زندگی دنیوی ہے اور موت کے بعد کی برزخی ۔ اگر چہ عارضی طورپر اﷲ دنیوی زندگی میں کچھ عرصہ مردہ رکھے یا برزخی زندگی میں کچھ عرصہ زندہ رکھے۔ اس کے علاوہ عیسٰی علیہ السلام جن مردوں کو زندہ کرتے تھے وہ یہ نہیں کہ زندہ ہی رہتے تھے ۔ وہ تو معجزہ ہوتا تھا۔ جتنی دیر اﷲ کو منظور ہوتا اﷲ ان کو زندہ رکھتا۔ پھر ان کو مردہ کر دیا جاتا ‘ بغیر موت کی تکلیف کے۔ معجزات کا یہی حال ہوتا ہے ‘ ان کو دکھانے کے بعد اشیاء کو اصلی حالت میں لوٹا دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کا عصا سانپ بننے کے بعد پھر عصا بن جاتا تھا۔
( سَنُعِیْدُھَا سِیْرَتَھَا الْاُوْلیٰ)[20:طہ:21]
عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنا ان کا معجزہ تھا جو اﷲ کا فعل تھا۔ معجزہ نبی کی نبوت اور اﷲ تعالیٰ کی قدرت کی دلیل ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ پر مردوں کو زندہ کر کے دکھایا کہ میں جو عدم سے وجود میں لا سکتا ہوں تو میں مردوں کو بھی زندہ کر سکتا ہوں۔ میرے لیے ایک جہان سے دوسرے جہان میں لانا ‘ لے جانا کوئی مشکل نہیں۔ لیکن معجزہ ایک خاص چیز ہوتی ہے اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا کیا ۔ اس سے نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ بچے بغیر باپ کے بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح یہ نہیں کہہ سکتے کہ مردے زندہ بھی ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں کئی مردے زندہ ہوئے‘ یا مردے کلام بھی کر لیتے ہیں کیونکہ حضور ﷺ نے بدر کے مقتولین سے کلام کیا تھا یا مردہ جب اس کو قبر میں رکھ کر جاتے ہیں تو وہ جوتوں کی آہٹ سنتا ہے۔ یہ سب اﷲ کے کام ہیں ‘ وہ جو چاہے کر دے اس کو ایک کلیہ نہیں بنا سکتے۔
ب انبیا بھی نہیں سنتے؟
ا انبیا کیسے سن سکتے ہیں‘ کیا ان پر موت نہیں آتی ؟
ب موت تو آتی ہے۔
ا جب موت آتی ہے تو پھر وہ کیسے سن سکتے ہیں ؟ موت تو موت ہے جس پر بھی آتی ہے مردہ کر دیتی ہے۔ مرنے والا کوئی بھی کیوں نہ ہو ‘ نہ سن سکتا ہے ‘ نہ بول سکتا ہے‘ نہ دیکھ سکتا ہے‘ نہ کچھ کر سکتا ہے۔
ب نبیوں اور انسانوں میں تو بہت فرق ہے۔
ا فرق تو بہت ہے ‘ لیکن موت تو ایک ہے۔ موت میں تو کوئی فرق نہیں۔
ب نبی کی ذات تو بہت بڑی ہوتی ہے۔
ا کتنی بڑی ہو ‘ موت سے مفر نہیں‘ موت تو لازمی ہے۔ موت تو صرف اﷲ کے لیے نہیں ۔ باقی سب کے لیے ہے۔
ب لیکن انبیا اور غیر انبیا میں فرق تو ضرور ہونا چاہیے۔
ا موت میں کیا فرق ہو سکتا ہے ‘ یہ تو ہو سکتا ہے کہ ان کی جان اوروں کی نسبت آسانی سے نکلے ‘ لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ان پر موت نہ آئے یا ان کی جان پوری نہ نکلے ‘ آدھی نکلے۔ موت تو کہتے ہی پوری جان نکلنے کو ہیں۔ جس پر موت آتی ہے وہ مر جاتا ہے۔ جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس کی روح جسم سے علیحدہ ہو جاتی ہے۔ احساس ادراک سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ مرنے والا خواہ کوئی ہو اس جہان یعنی برزخ میں چلا جاتا ہے۔
ب نبیوں اور انسانوں میں کیا فرق ہوا؟
ا آپ بتائیے کہ نبی جب دنیا میں رہتے ہیں تو ان کی زندگی میں اور انسانوں کی زندگی میں کیا فرق ہوتا ہے ؟
ب انبیا پر فرشتے اترتے ہیں اور اﷲ کی طرف سے وحی آتی ہے۔
ا یہ فرق تو نبوت کا ہے ‘ زندگی کا تو کوئی فرق نہیں ہوتا۔ نبی بھی زندہ کھاتے پیتے اور چلتے پھرتے ہیں اور عام آدمی بھی زندہ کھاتے پیتے اور چلتے پھرتے ہیں ۔ وہ بھی روح مع الجسم ‘ وہ بھی روح مع الجسم۔ فرق نبوت کا ہوتا ہے۔ انبیا کو نبوت کی وجہ سے جو قرب حاصل ہوتا ہے وہ غیر انبیا کو نہیں ہوتا۔ یہی حال مرنے کے بعد ہوتا ہے۔ برزخی زندگی سب کی یکساں ہوتی ہے‘ فرق صرف درجے کا ہوتا ہے۔ جیسے دنیا مین انبیا کا درجہ سب سے زیادہ اوراس کی وجہ سے اﷲ کا قرب زیادہ۔ اس طرح سے برزخی زندگی میں ان کا درجہ بھی سب سے زیادہ اورقرب بھی زیادہ۔ زندگی میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ زندگی سب کی ایک ہی طرح کی ہوتی ہے۔
ب انبیا دنیا میں رہتے ہوئے عالم بالا کی روحانی اور جسما نی سیریں نہیں کرتے؟
ا کیوں نہیں ‘ اﷲ جب چاہتا ہے سیر کروا دیتا ہے۔ چنانچہ حضور ﷺ کو معراج ہوئی۔
ب جس طرح وہ دنیا میں رہتے ہوئے عالم بالا کی سیر کر لیتے ہیں‘ اسی طرح وہ برزخ میں ہوتے ہوئے دنیا کی سیر کریں تو کیا بعید ہے؟
ا دنیا میں رہتے ہوئے عالم بالا کی سیر تو ترقی ہے۔ عالم برزخ سے دنیا میں آنا تنزل ہے۔ اس لیے معراج تو ہو سکتا ہے تنزل نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ دنیا قید خانہ ہے۔ یہاں آنا سزا ہے۔ آدم علیہ السلام کو بطور سزا کے ہی یہاں بھیجا گیا تھا۔ آگے جانا یا عالم بالا کی سیر عروج ہے۔ لہذا یہ ہو سکتا ہے ‘ وہ نہیں ہو سکتا۔ انبیا برزخ میں ہوتے ہوئے عالم آخرت کے نظارے تو کر سکتے ہیں ‘ واپس دنیامیں نہیں آ سکتے۔
ب ہم نے سنا ہے کہ انبیا کو قبروں میں بھی دنیوی زندگی حاصل ہوتی ہے۔
ا دنیوی زندگی موت کے بعد کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔ موت کے بعد تو برزخی زندگی ہوتی ہے‘ نہ کہ دنیوی۔
ب مطلب یہ ہے کہ وہ قبروں میں ایسے ہی زندہ ہیں جیسے دنیا میں تھے۔
ا دنیا کی طرح سے قبر میں وہ کیسے زندہ رہ سکتے ہیں۔ دنیا میں تو وہ کھاتے پیتے تھے‘ حوائج ضروریہ ان کے ساتھ تھیں۔ کیا قبر میں بھی وہ یہ سب کچھ کرتے ہیں ؟
ب کھانے تو ان کو جنتوں کے ملتے ہیں‘ جن کے کھانے سے بول و براز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ا یہی تو ہم کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد انبیا کی زندگی برزخی ہوتی ہے‘ دنیوی نہیں ہوتی۔ وہ برزخ میں آخرت کی نعمتوں سے محظوظ ہوتے ہیں‘ نہ کہ دنیا کی۔ آپ سوچیں دنیوی زندگی قبر میں ہو بھی کیسے سکتی ہے۔ آپ کسی زندے کو قبر میں دفن کر کے دیکھ لیں کیا وہ زندہ رہ سکتا ہے؟ اصل میں دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے۔ موت اس سے رہائی دلانے والی ہے۔ مار کر قبر میں لے جاکر پھر دنیوی زندگی ‘ دنیا۔۔۔ یہ ڈبل سزا ہے جو نیکوں کے لیے خصوصاً انبیا کے لیے نہیں ہو سکتی۔ جب ایک عام مومن مرنے کے بعد کہتا ہے۔قَدِّمُوْنِیْ ‘قَدِّمُوْنِیْ۴ (مجھے جلدی لے چلو‘ مجھے جلدی لے چلو) تو ایک نبی کو قبر میں دنیوی زندگی کیسے پسند آ سکتی ہے۔ جب ایک شہید مرنے کے بعد اپنے رب کے پاس جاکر رزق کھاتا ہے اور اس کی زندگی ( وَلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ)[2:البقرہ:154]والی برزخی ہوتی ہے تو پیغمبر کی زندگی دنیوی کیسے ہو سکتی ہے؟
ب کیا خدا ان کو قبر میں زندہ نہیں رکھ سکتا۔
ا اﷲ تو سب کچھ کر سکتا ہے ‘ لیکن وہ لایعنی کام کبھی نہیں کرتا۔ وہ حکیم ہے ‘ اس کے سب کام حکمت کے ہوتے ہیں۔ا گر اﷲ نے پیغمبروں کو زندہ ہی رکھنا ہو تو قبروں میں کیوں رکھے۔ باہر دنیا میں زندہ کیوں نہ رکھے‘ کوئی فائدہ تو ہو۔ آخر نبی کے قبر میں زندہ رکھنے سے فائدہ کیا ہوتا ہے جو اسے وہاں زندہ رکھا جائے۔ نبی دنیا میں تبلیغ کے لیے آتے ہیں۔ جب تک وہ زندہ رہتے ہیں تبلیغ کرتے ہیں ‘قبر میں زندہ ہوں اور کر بھی کچھ نہ سکیں ‘ اس زندگی کا انکو یا ان کی امتوں کو کیا فائدہ ؟
ب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں تو سب کا یہی عقیدہ ہے کہ وہ قبر میں دنیا کی طرح زندہ ہیں۔
دنیوی زندگی کوئی کمال ہے جو حضور صلی اﷲعلیہ وسلم قبر میں بھی دنیا کی طرح زندہ ہوں۔ مرنے کے بعد تو برزخی زندگی ہی ترقی ہے اور یہی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو حاصل ہے اور آپ کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ سب کا یہی عقیدہ ہے۔ صحابہؓ اور ائمہ ؒ میں سے کوئی اس عقیدے کا قائل نہیں تھا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی قبر میں زندہ ہیں۔ اگر صحابہؓ کو اس کا علم ہو جاتا تو وہ کبھی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو قبر میں نہ چھوڑتے ۔ فوراً نکال لیتے۔ یہ تو آپ لوگ ہیں کہ حضور ﷺ کو قبر میں دنیا کی طرح سے زندہ بھی کہتے ہیں اور نکالتے بھی نہیں۔ آپ جو کہتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ و سلم قبر میں زندہ ہیں تو کیا ان کو زندہ ہی دفن کر دیا گیا تھا۔
ب دفن تو مرنے کے بعد کیا گیا تھا۔
ا پھر وہ زندہ کب اور کیسے ہو گئے؟
ب جب ان کو قبر شریف میں اتار دیا گیا تو وہ زندہ ہو گئے۔
ا اگر ان کو باہر ہی رکھا جاتا ‘ دفن نہ کیا جاتا تو کیا پھر بھی وہ زندہ ہو جاتے۔۔ یا اگر اب نکال لیا جائے تو باہر آ کر وہ زندہ رہیں گے یا پھر مردہ ہو جائیں گے؟
ب اس بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں ؟ یہ تو اﷲ ہی بہتر جانتا ہے۔
ا موت سے لے کر تدفین تک تقریبا 32 گھنٹے حضور ﷺ باہررہے۔ اس عرصے میں آپ زندہ رہے یا مردہ ؟
ب مردہ ہی رہے ہوں گے‘ کیونکہ آپؐ کو جب دفن کیا گیا تو مردہ ہی تھے۔
ا جب آپ اس عرصے میں مردہ ہی رہے تو اب باہر آ کر پھر زندہ کیسے ہو جائیں گے؟ آپ سوچیں کیا اس زندگی کو دنیوی زندگی کہیں گے کہ باہر ہوں تو مردہ‘ قبر میں جائیں تو زندہ ۔! آپ کا یہ کہنا بھی بالکل غلط ہے کہ آپ ؐ قبر میں جا کر زندہ ہو گئے اور اب بھی زندہ ہیں۔ کیونکہ ولید بن عبدالملک کے زمانے میں جیسا کہ بخاری شریف میں ہے جب حجرے کی دیوار گر گئی تو ایک قدم ننگا ہو گیا۔ اکثر کا خیال تھا کہ یہ قدم رسول اﷲ ﷺ کا ہے ‘ لیکن حضرت عروہؓ نے کہا یہ قدم حضرت عمرؓ کا ہے۔ اس وقت وہ تینوں پیارے اسی طرح پڑے تھے جیسے دفن کیے گئے تھے۔ دنیوی زندگی کا کوئی اثر نظر نہیں آتا تھا۔ اگر اس وقت بھی دنیوی زندگی کے کچھ آثار نظر آتے تو پہلی صدی تھی ‘ وہ لوگ ضرور باہر نکال لیتے۔ معلوم ہوا کہ خیر القرون میں یہ عقیدہ نہیں تھا کہ حضور ﷺ قبر میں زند ہ ہیں۔ وہ لوگ تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی برزخی زندگی کے ہی قائل تھے۔ آپ لوگ جو کہتے ہیں کہ حضور صلی اﷲعلیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں تو آپ کو اتنے عرصے کے بعد کیسے پتا لگ گیا؟
ب حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کی ہی تو حدیث ہے:
((نَبِیُّ ﷲِ حَیٌّ یُرْزَقُ)) ۵
’’نبی زندہ ہوتے ہیں اور رزق کھاتے ہیں‘‘
ا اﷲ کے بندے اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ نبی قبرمیں جا کر زند ہ ہوجاتے ہیں اور زندگی دنیوی ہوتی ہے۔ حدیث کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ اپنے ر ب کے پاس زندہ ہیں اور رزق کھاتے ہیں۔ زندگی ان کی برزخی ہے ‘ جیسا کہ قرآن مجید شہداء کے بارے میں بتاتا ہے۔( بَلْ اَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ )[3:آل عمران:169]
تو جب شہداء اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور رزق کھاتے ہیں تو انبیا جو شہید گر ہوتے ہیں ۔ ان کی زندگی دنیوی کیسے ہو سکتی ہے۔ کیا دنیوی زندگی برزخی زندگی سے اعلیٰ ہوتی ہے یا انبیا شہداء سے ادنیٰ ہوتے ہیں کہ شہداء تو مرنے کے بعد اﷲ کے پاس برزخی زندگی میں ہوں اور انبیا دنیوی زندگی میں۔
ب اگر رسول اﷲ ﷺ قبر میں زندہ نہیں تو سلام کیسے سن لیتے ہیں؟
ا وہ سلام سنتے نہیں‘ انھیں فرشتوں کے ذریعے سلام پہنچایا جاتا ہے۔
ب حدیث میں تو آتا ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جو میری قبر پر آ کر سلام پڑھتا ہے میں اس کا سلام خود سنتا ہوں ۔ آپ کہتے ہیں وہ سنتے نہیں۔ کیا آپ اس حدیث کو نہیں مانتے؟
ا آپ اس حدیث کو مانتے ہیں ؟
ب کیوں نہیں !..
ا اس حدیث میں تو یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ قبر پر سلام سنتے ہیں ‘ دور کا نہیں سنتے۔ پھر آپ اپنے گھروں اور مسجدوں میں ہی بیٹھے ’’اَلصَّلاَۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ ‘‘ کیوں پکارتے ہیں ؟
ب آپ بھی تو تشہد میں اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ کہتے ہیں ‘ کیا اس وقت حضور ﷺ آپ کا سلام سنتے ہیں ؟
ا ہمارے نزدیک تو وہ کسی وقت بھی نہیں سنتے‘ نہ سنانے کے لیے ہم اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ کہتے ہیں۔ ہم تو اسے بطور حکایت کے پڑھتے ہیں جیسا کہ قرآن پڑھتے ہیں
اور اس میں یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا (یعنی اے ایمان والو! ) بھی آ جاتا ہے‘ جس سے ہماری مراد مومنوں کو بلانا یا سنانا نہیں ہوتی بلکہ صرف تلاوت قرآن ہوتی ہے۔ اسی طرح تشہد ہے اس کو پڑھتے ہوئے بھی اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ آ جاتا ہے ۔ اس سے ہمارا مقصد حضور ﷺ کو پکار کر سلام کہنا نہیں ہوتا بلکہ صرف تشہد پڑھنا ہوتا ہے‘ جس میں حکایۃً سلام بھی آ جاتا ہے۔
ب اگر آپ سلام خطاب کے طور پر نہیں کہتے تو اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ کیوں کہتے ہیں؟
ا آپ یہ بتائیں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کا یہی تشہد تھا جو آپ پڑھتے ہیں یا کوئی اور تھا؟
ب تشہد تو یہی تھا۔
ا اگر ان کا تشہد بھی یہی تھا اور اس میں اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ خطاب کے لیے ہے تو رسول اﷲ ﷺ جب اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ پڑھتے تو نماز میں کس سے خطاب کرتے تھے اور صحابہؓ جب حضور ﷺ کی موجودگی میں اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ کہتے تو کیا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کو جواب دیتے تھے؟
ب جوا ب تو نہیں دیتے تھے۔
ا کیا سلام کا جواب دینا فرض نہیں ؟
ب فرض تو ہے ‘ لیکن نماز میں فرض نہیں ؟
ا پھر کیا جائز ہے ؟
ب جائز بھی نہیں ۔
جب نماز میں رسول اﷲﷺ سلام کا جواب نہیں دیتے تھے ‘ جیسا کہ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ نے سلام کہا اور آپ نے جواب نہیں دیا اور نماز میں سلام کا جواب دینا جائز بھی نہیں ‘ تو پھرنماز میں حضور ﷺ کو سلام کہنا کیسے جائز ہو سکتا ہے اور آپ کیسے کہتے ہیں کہ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ حضور صلی اﷲ علیہ و سلم سے خطاب ہے۔ حالانکہ نماز اﷲ کی عبادت ہے اور اس میں کسی سے تخاطب جائز نہیں۔ اگر تشہد والے سلام کا جواب حضور ﷺ نماز میں نہیں دیتے تھے تو کیا بعد از نماز دیتے تھے۔
ب سنا پڑھا تو نہیں کہ آپ ﷺ نے نماز کے بعد کبھی جواب دیا ہو۔
ا جس سلام کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم زندگی میں نہ سنتے تھے‘ نہ سن کر جواب دیتے تھے تو اب جب کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں یہ کہنا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سنتے ہیں اور سن کر جواب دیتے ہیں کس قدر غلط ہے۔ جب صحابہؓ حضور ﷺ کی زندگی ا ور موجودگی میں اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ حضور کو سنانے کے لیے نہیں کہتے تھے تو ہم اب جب کہ حضور صلی اﷲعلیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ سنانے کے لیے کیسے کہہ سکتے ہیں۔ جس سلام کا جواب قطعاً دیا ہی نہ جائے‘ نہ نماز میں ‘ نہ نماز کے بعد‘ نہ زندگی میں‘ نہ زندگی کے بعد وہ سلام دعا تو ہو سکتا ہے سلام تخاطب اور سلام تحیہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ سلام تحیہ کا جواب فرض ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
( وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا )[4:النساء:86]
یعنی ’’ سلام کا جواب دو۔ اول تو زیادہ ورنہ اتنا تو ضرور ہو‘‘
جب تشہد والے سلام کا جواب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے کبھی دیا ہی نہیں تو معلوم ہوا کہ یہ وہ سلام ہی نہیں کہ حضور سنیں اور جواب دیں۔ اگر اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ سلام کے لیے ہے تو صحابہؓ جو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ نماز کے آخر ’’ التحیات‘‘ میں یہ سلام کیوں کہتے تھے۔ ابتدا نماز یعنی ثنا کے ساتھ یہ سلام کیوں نہیں کہتے تھے۔ سلام تو شروع میں بوقت ملاقات کیا جاتا ہے نہ کہ گفتگو کے دوران یا آخر میں۔ جب اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ شروع نماز میں نہیں بلکہ آخر نماز میں ہے تو ظاہر ہے یہ حضور ﷺ سے خطاب نہیں بلکہ اﷲ کی جناب میں اﷲ کے پہلے کسی خطاب کی حکایت ہے جس کو برکت کے لیے ہم بطور دعا پڑھتے ہیں۔ پھر اس کے بعد درود شریف ہے۔ اس میں بھی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے خطاب نہیں بلکہ اﷲ سے حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کے لیے رحمت و برکت کی دعا ہے۔ پھر نمازی کی اپنے لیے دعا ہے جس پر نماز کا اختتام ہے اور یہ ترتیب بڑی معقول اور تعلیم نبوی کے عین مطابق ہے‘ کیونکہ سب سے پہلے ( فَادُعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ)[40:الغافر:65]کے تحت التحیات پڑھی جاتی ہے‘ جس کا منشااظہار اخلاص دین ہے‘ کہ میری سب عبادتیں اﷲ ہی کے لیے ہیں‘ میں مشرک بالکل نہیں‘ اس کے بعد رسول اﷲ ﷺ کے لیے دعا ہے کیونکہ ان کا حق مقدم ہے۔ وہ بڑے محسن ہیں‘ پھر نماز ی اپنے لیے دعا کرتا ہے اور اس پر نماز کو ختم کر دیتا ہے۔ اس تشریح سے ثابت ہوا کہ ہم اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ نہ حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کو سنانے کے لیے کہتے ہیں اور نہ وہ سنتے ہیں’’اَلصَّلاَۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ ﷲِ‘‘ کہنے کے لیے اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ سے استدلال کرنا صحیح نہیں۔
ب جب عام مردوں کو اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یٰاَھْلَ الْقُبُوْرِ کہہ سکتے ہیں تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِی کیوں نہیں کہہ سکتے؟
ا اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یٰاَھْلَ الْقُبُوْرِتو قبرستان جا کر کہتے ہیں نہ کہ گھر بیٹھے۔ آپ ہی بتائیں گھر سے ہی مردوں کو اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یٰاَھْلَ الْقُبُوْرِ کہنا ٹھیک ہے ؟
ب اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یٰاَھْلَ الْقُبُوْرِتو قبرستان میں جا کر ہی کہا جاتا ہے۔
ا پھر آپ اَلصَّلاَۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ ﷲِ گھر بیٹھے ہی کیوں کہتے ہیں؟
ب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم میں او رعام مردوں میں تو بہت فرق ہے۔ عام مردوں میں تو اتنی طاقت نہیں کہ وہ ہر جگہ سے سن لیں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم تو ہر جگہ سے سن لیتے ہیں‘ بلکہ وہ تو حاضر و ناظر ہیں۔
ا پھر ثابت ہو گیا نا۔!کہ جس حدیث کو آپ پیش کرتے ہیں اس کو آپ نہیں مانتے۔ اس حدیث میں تو صاف ہے کہ قبر پر سلام تو میں سن لیتا ہوں اور دور کا مجھے پہنچایا جاتا ہے۔ یعنی دور کا میں نہیں سنتا۔ جب حضور ﷺ دور کا سلام نہیں سنتے تو گھر بیٹھے اَلصَّلاَۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ کہنا یا ان کو حاضر ناظر سمجھنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے ؟
ب آپ بھی تو اس حدیث کو نہیں مانتے ۔ اس میں صاف ہے کہ جو میری قبر پر آ کر سلام کہتا ہے میں اسے سنتا ہوں‘ آپ کہتے ہیں وہ نہیں سنتے۔
ا ہم تو اس کو حدیث ہی نہیں مانتے کیونکہ یہ صحیح نہیں۔ ہم آپ کی طرح سے نہیں کہ آدھی جو مطلب کی ہے اسے مان لیں اور آدھی جو خلاف پڑتی ہے اسے چھوڑ دیں۔
ب اگر آپ اس حدیث کو نہیں مانتے تو پھر حضور ﷺ کی قبر پر جا کر اَلصَّلاَۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ ﷲ کیوں کہتے ہیں؟
ا جیسے قبرستان میں اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یٰاَھْلَ الْقُبُوْر عام مردوں کو کہہ سکتے ہیں‘ اسی طرح حضور ﷺ کی قبر پر جا کر اَلصَّلاَۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ ﷲِ حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کو کہہ سکتے ہیں۔
ب جب حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کی قبر پر جا کر اَلصَّلاَۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ ﷲِ
کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ سنتے ہیں۔ اگر وہ سنتے نہ ہوں تو کیوں اَلصَّلاَۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ ﷲِ کہا جاتا ہے؟
ا اَلصَّلاَۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ ﷲِحضور صلی اﷲعلیہ وسلم کو سنانے کے لیے نہیں کہا جاتا‘ نہ ہی اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یٰاَھْلَ الْقُبُوْر عام مردوں کو سنانے کے لیے کہا جاتا ہے۔ سنتے نہ عام مردے ہیں‘ نہ رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم۔
ب پھر انھیں پکار کر سلام کیوں کیاجاتا ہے؟
ا پکار کر سلام ان کو سنانے کے لیے نہیں کیا جاتا بلکہ اپنے دل کو متوجہ اور نرم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ہم ان کو زندہ فرض کر کے سلام دعا کہتے ہیں تاکہ دل حاضر ہو۔ فوت شدہ کو مخاطب کرکے سلام کہنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی اپنے فوت شدہ عزیز کی لاش سے باتیں کرے۔ بیٹا مر جاتا ہے تو باپ اسے کہتا ہے: بیٹا! مجھے تم اکیلے چھوڑ گئے ۔۔اب میں کسے بیٹا کہوں گا؟۔۔۔ تم ہی تو میرے بڑھاپے کا سہارا تھے۔۔ وغیرہ وغیرہ۔! حالانکہ باپ کو یقین ہوتا ہے کہ بیٹا میری کوئی بات نہیں سنتا‘ لیکن پھر بھی وہ اسے مخاطب کرکے اپنے دل کی بھڑاس نکالتا ہے۔ اسی لیے حکم ہے کہ ہم بھی فوت شدگان کو مخاطب کے صیغے سے زندوں کی طرح سلام دعا دیں۔ تاکہ دل پر ان کی یاد کا اثر ہو۔ ان کا ادب و احترام بھی زندوں کی طرح کریں۔ ان کو غسل دیں تو آرام سے رکھیں یا اٹھائیں تو احترام سے۔ اسی لیے حضور ﷺ نے فرمایا:
(( کَسْرُ عَظْمِ الْمَیِّتِ کَکَسْرِہٖ حَیًّا))۶
یعنی مردے کی ہڈی توڑنا زندے کی ہڈی توڑنے کے مترادف ہے۔‘‘
مردے اگرچہ مردے ہیں‘ جیسا کہ مشاہدہ ہے ‘ نہ سنتے ہیں‘ نہ کچھ اور کر سکتے ہیں‘ لیکن ان کے ساتھ سلوک ایسا کرنے کا حکم ہے گویا وہ زندہ ہیں۔ اس میں ان کا ادب و احترام بھی ہے اور ہمارے لیے رقت قلب کا سامان بھی۔ مردوں کو زندہ فر ض کر لینا ایسے ہی ہے جیسے کسی نیک اور بزرگ شخص کو احتراماً باپ سمجھ لینا اور پھر اس سے باپ والا سلوک کرنا یاکسی شریف لڑکے کو بیٹا سمجھنا اور بیٹا کہنا اگرچہ حقیقت میں نہ وہ باپ ہے نہ یہ بیٹا۔ سمجھ لینا اور فرض کرلینا اور بات ہے اور حقیقت ہونا اور بات ہے۔
ب پھر اس حدیث کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟ اس میں تو حضور ﷺ نے صاف فرمایا ہے کہ جو میری قبر پرآ کرسلام کہتا ہے میں اسے سنتا ہوں۔
ا اﷲ کے بندے! یہ حدیث نہ صحیح ہے اور نہ کسی کو قابل قبول ۔ یہ بریلویوں کو بھی قبول نہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں حضور صلی اﷲ علیہ و سلم قریب بعید ہر جگہ سے سنتے ہیں بلکہ وہ ان کو حاضر وناظر اور عالم الغیب تک کہتے ہیں۔ حالانکہ یہ حدیث کہتی ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ و سلم قریب سے سنتے ہیں ‘ دور سے نہیں سنتے۔ اگر بریلوی دوست اسی حدیث کو مانتے ہوتے تو اَلصَّلاَۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ ﷲ کا جھگڑا بھی ختم ہوتا اور علم غیب اور حاضر و ناظر کا رگڑا بھی۔ کیوں کہ جب سننے میں قریب و بعید کا فرق ہوا تو نہ حاضر و ناظر رہے ‘ نہ عالم الغیب۔ یہ حدیث اوروں کو بھی قبول نہیں‘ کیونکہ وہ کہتے ہیں حضور ﷺ فوت ہو چکے ہیں۔ اب نہ قریب سے سنتے ہیں‘ نہ بعید سے۔ جہاں سے بھی صلوٰۃ و سلام پڑھا جائے ‘ فرشتے جو اس امر کے لیے مامور ہیں پہنچا دیتے ہیں۔
ب یہ حدیث صحیح کیوں نہیں ؟
ا آپ صحیح کی پوچھتے ہیں‘ یہ تو ضعیف کے درجے سے بھی گری ہوئی ہے۔اسے بلکہ جھوٹی اور موضوع کہا جائے تو زیادہ موزوں ہے۔
ب اس میں خرابی کیا ہے ؟
ا ایک تو اس میں راوی العلاء بن عمرو اور محمد بن مروان السدی ضعیف ہیں‘ خاص کر محمد بن مروان السدی کے بارے میں تو کہاجاتا ہے کہ وہ جھوٹ بولتا اور جھوٹی حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔ کبھی کچھ کہہ دیتا ‘ کبھی کچھ۔ اس سے دو روایتیں مروی ہیں۔ ایک میں کہتا ہے:
(( مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ عِنْدَ قَبْرِیْ سَمِعْتُہ‘))۷
’’ قبر کا سلام حضور ؐ خود سنتے ہیں‘‘
دوسری میں کہتا ہے کہ قبر کا سلام بھی فرشتے پہنچاتے ہیں:
(( مَا مِنْ عَبْدٍ یُسَلِّمُ عَلَیَّ عِنْدَ قَبْرِیْ اِلاَّ وُکِّلَ بِہٖ مَلَکًا یُبَلِّغُنِیْ))۸
یعنی حضور ﷺ خود نہیں سنتے۔
یہ دونوں روایتیں امام بیھقی نے روایت کی ہیں اور ان دونوں کا یہ راوی ہے۔ یہ حدیث اس لیے بھی غلط ہے کہ یہ اور بہت سی صحیح احادیث کے خلاف ہے۔
1–چنانچہ ایک حدیث ابوداؤد اور مسند احمد میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے جس
کے الفاظ یہ ہیں:
(( لاَ تَجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قُبُوْرًا وَّ لاَ تَجْعَلُوْا قَبْرِیْ عِیْدًا وَ صَلُّوْا عَلَیَّ فَاِنَّ صَلٰوٰتَکُمْ تُبَلِّغُنِیْ حَیْثُ کُنْتُمْ))۹
یعنی ’’ اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ ( ان میں نفل نوافل پڑھا کرو) اور میری قبرپر اکٹھ نہ کرو ( نہ صلاۃ و سلام کے لیے ‘ نہ عرسوں میلوں کے لیے) اور مجھ پر درود پڑھا کرو‘ کیونکہ تمھارا درود مجھے پہنچا دیا جاتا ہے‘ جہاں کہیں بھی تم ہو۔‘‘ (قبر کے قریب ہو یا دور)
2– ایک دوسری حدیث میں جو کہ نسائی ‘ دارمی‘ مسند احمد‘ ابن حبان اور حاکم میں ہے‘ وضاحت ہے کہ جو صلاۃ و سلام حضور ﷺ پر پڑھا جاتا ہے وہ فرشتوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔ چنانچہ اس کے الفاظ یہ ہیں:
(( اِنَّ لِلّٰہِ مَلٰئکَۃً سَیَّاحِیْنَ فِی الْاَرْضِ یُبَلِّغُوْنِیْ مِنْ اُمَّتِیْ السَّلاَم))۱۰
یعنی ’’ اﷲ نے روئے زمین پر فرشتے چھوڑ رکھے ہیں جو میری امت کا سلام مجھے پہنچاتے ہیں۔‘‘
اس حدیث کی تائیداور حدیثیں بھی کرتی ہیں۔
3– چنانچہ حضرت علی بن الحسینؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ سلام کے لیے حجرے میں داخل ہو رہا ہے تو انھوں نے اسے منع کیا اور فرمایا کہ میں تجھے وہ حدیث نہ سناؤں جو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیان فرمائی تھی‘ یعنی ’’ میری قبر
پر میلہ نہ کرنا اور نہ اپنے گھروں کو قبریں بنانا‘ تمھارا سلام مجھے پہنچا یا جاتا ہے ‘ جہاں
کہیں بھی تم ہو۔‘‘
مطلب یہ کہ سلام کہنے کے لیے قبر کے قریب آنے کی ضرورت نہیں ‘ جہاں سے کہو
گے مجھے پہنچا دیا جائے گا۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
((لاَ تَتَّخِذُوْا قَبْرِیْ عِیْدًا وَ لاَ بُیُوْتَکُمْ قُبُوْرًا فَاِنَّ تَسْلِیْمَکُمْ یَبْلُغُنِیْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ)) ۱۱
4–حضرت حسن بن علیؓ سے بھی قریب قریب یہی حدیث مروی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
(( صَلُّوْا فِیْ بُیُوْتِکُمْ وَ لاَ تَتَّخِذُوْھَا قُبُوْرًا وَ لاَ تَتَّخِذُوْا بَیْتِیْ عِیْدًا وَ صَلُّوْا عَلَیَّ وَ سَلِّمُوْا فَاِنَّ صَلَوٰاتَکُمْ وَ سَلاَمَکُمْ یَبْلُغُنِیْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ رَوَاھُمَا اَبُوْیَعْلِیْ المُوْصَلِیْ)) ۱۲
5– سنن سعید بن منصور میں حدیث ہے۔ سہل بن سہیل بیان کرتے ہیں کہ مجھے الحسن بن الحسن نے حضرت فاطمہؓ کے گھر میں شام کا کھانا کھاتے ہوئے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی قبر کے پاس کھڑے ہو ئے دیکھا اور آواز دی کہ آیئے کھانا کھایئے۔ میں نے کہا دل نہیں چاہتا۔ پھر مجھ سے پوچھا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی قبر کے پاس کیسے کھڑے تھے۔ میں نے کہا سلام کہہ رہا تھا۔ انھوں نے کہا اذا دخلت المسجد فسلم یعنی ’’ جب تو مسجد میں داخل ہو تو سلام کہہ لیا کر۔‘‘ سلام کہنے کے لیے قبر پر آنے کی ضرورت نہیں۔ پھر حضور ﷺ کی حدیث سنائی جس کے الفاظ یہ ہیں:
’’لاَ تَتَّخِذُوْا قَبْرِیْ عِیْدًا وَ لاَ تَتَّخِذُوْا بُیُوْتَکُمْ مَقَابِرَ وَ صَلُّوْا عَلَیَّ فَاِنَّ صَلٰوَاتَکُمْ تَبْلُغُنِیْ حَیْثُ مَا کُنْتُمْ لَعَنَ ﷲُ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَآءِھِمْ مسَاجِدَ مَا اَنْتُمْ وَ مَنِ بالْاُنْدِلِسَ اِلاَّ سَوَاءٌ ‘‘
یعنی ’’ اکٹھے ہو کر میری قبر کو میلہ نہ بنانا۔ اپنے گھروں میں نماز پڑھتے رہنا۔ ان کو قبریں نہ بنانا کہ جہاں نماز نہیں پڑھی جاتی اور مجھ پر درود پڑھتے رہنا۔ تمھارا درود جہاں
بھی تم ہوگے مجھے پہنچ جائے گا۔ اﷲ یہود و نصارٰی پر لعنت کرے‘ انھوں نے انبیا کی قبروں کو اجتماع کرکے عبادت گاہیں بنا لیا۔ صلاۃ وسلام کہنے میں تم جو مدینہ میں ہو اور وہ جو اسپین میں ہیں برابر ہیں۔‘‘
مطلب یہ کہ صلاۃ و سلام کے لیے میری قبر پر جمع نہ ہونا‘ دور و نزدیک کی کوئی بات نہیں‘ ہر جگہ سے فرشتے ہی پہنچاتے ہیں۔
6– ابوسعید مولیٰ الھروی سے بھی انہی الفاظ کے ساتھ ایک حدیث مروی ہے۔
ب آپ تو اس حدیث کو غلط قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ حدیث مشہور بہت ہے۔
ا لوگوں میں مشہور ہو جانے سے کوئی حدیث صحیح نہیں ہو جاتی۔ لوگوں میں تو بہت باتیں مشہور ہوتی ہیں‘ حالانکہ وہ غلط ہوتی ہیں۔ عیسٰی علیہ السلام کا سولی پرچڑھایا جانا عیسائیوں میں کتنا مشہور ہے حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ جیسا کہ قرآن نے بیان کیا ہے۔ا سی طرح سے کئی احادیث ہیں جو زبان زد عوام ہیں۔ لیکن بالکل موضوع اور جھوٹی ہیں۔ جیسا کہ ’’لولاک‘‘ ۱۳ والی حدیث ہے۔ اس طرح ((اَوَّلُ مَا خَلَقَ ﷲُ نُوْرِیْ )) اور (( کُنْتُ نَبِیًّا وَّ آدَمُ بَیْنَ الْمَآءِ وَالطِّیْنِ )) ۱۴ اور ((وَ اَنَا نُوْرٌ مِّنْ نُوْرِ ﷲِ )) وغیرہ۔
ب ان احادیث کو تو بڑے بڑے مولوی بیان کرتے ہیں۔
ا عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ہونے کو بھی عیسائیوں کے پادری اور مولوی ہی بیان کرتے ہیں۔ کیا ان کے بیان کرنے سے یہ بات صحیح ہو جائے گی کہ عیسیٰ علیہ السلام سولی چڑھائے گئے۔ اصل میں جب جہالت کا دور دورہ ہوتا ہے تو عوام کے مولوی بھی ویسے ہی ہو جاتے ہیں جیسے عوام ہوتے ہیں۔ جیسے جاہل عیسائی تھے ویسے ان کے
مولوی بن گئے جو عوام کہتے تھے وہی وہ کہنے لگ گئے۔ کسی قوم کو زوال آتا ہی اس وقت ہے جب کہ عوام کے ساتھ ان کے علما بھی جاہل اور مقلد ہو جاتے ہیں۔ تحقیق کا مادہ ان میں نہیں رہتا۔ لکیر کے فقیر بن کر رہ جاتے ہیں۔
ب اس حدیث کو تو آپ نے غلط بتا دیا لیکن اس حدیث کو کیا کریں گے جو مشکوۃ شریف میں بایں الفاظ موجود ہے۔
(( مَا مِنْ اَحَدٍ یُسَلِّمُ عَلَیَّ اِلاَّ رَدَّ ﷲُ عَلَیَّ رُوْحِیْ حَتّٰی اَرُّدَ عَلَیْہِ السَّلاَمَ ))۱۵
جو مسلمان مجھ پر سلام بھیجتا ہے اﷲ میری روح مجھ پر لوٹا تاہے‘ حتی کہ میں اس کا جواب دیتا ہوں‘‘
اس حدیث میں صراحت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ہر سلام کہنے والے کو جواب دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ سن کر ہی جواب دیتے ہوں گے جس سے آپ ﷺ کا زندہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔
ا اس سے حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کا قبر میں زندہ ہونا یا سلام سننا کیسے ثابت ہو گیا بلکہ اس سے تو یہ ثابت ہو ا کہ آپؐ قبر میں زندہ نہیں ہیں ورنہ جواب کے وقت جسم میں روح لوٹانے کے کیا معنی ۔ کیا زندے کے جسم میں بھی روح لوٹائی جاتی ہے؟
ب سلام تو ہر وقت کوئی نہ کوئی بھیجتا ہی رہتا ہے اور ہر وقت آپ ؐ جواب دیتے رہتے ہیں۔اس لیے روح ہر وقت آپ ؐ کے جسم میں رہتی ہے جس سے زندگی ثابت ہو تی ہے۔ جب زندگی ثابت ہو گئی تو سننا بھی ثابت ہو گیا۔
ا جب روح ہر وقت جسم اطہر میں رہتی ہے تو پھر جوا ب کے وقت روح لوٹانے کے کیا معنی ؟ حدیث تو روح لوٹائے جانے کی تصریح کر رہی ہے اور آپ کہتے ہیں وہ ہر وقت جسم میں رہتی ہے اور اس سے دنیوی زندگی ثابت ہوتی ہے۔ یہ تو آپ بتائیے کہ فوت ہونے کے بعد آپ ﷺ کا جسم اطہر جو بتیس گھنٹے تک باہر رہا اس اثنا کے سلاموں کا جواب دینے کے لیے روح آپ کے جسم میں لوٹائی گئی اور آپ زندہ ہوئے یا اس عرصے میں صلاۃ و سلام ہی کسی نے نہیں پڑھا کہ جواب دینے کی نوبت آتی اور روح لوٹائی جاتی اور اس عرصے میں بھی آپؐ کو دنیا والی کوئی مصروفیت نہ تھی‘ کیا اس عرصے میں آپ ؐ نے لوگوں کے سلاموں کو سن کر جواب دیا؟ اگر جواب دیا تو کیا آپ ؐ کی روح لوٹائی گئی تھی اور آپ زندہ ہو گئے تھے اور آپؐ نے زندوں کی طرح سلام سن کر جواب دیے۔ تو صحابہؓ نے آپؐ کو زندہ دیکھ کر پھر دفن کیسے کر دیا؟ اور اگر آپؐ اس اثنا میں زندہ ہی نہیں ہوتے تھے تو اس کی کیا وجہ ؟ کیا اس وقت روئے زمین پر کوئی سلام کہنے والا ہی نہیں تھا یا ان کو سلام کہنے سے روک دیا گیا تھا یا اس عرصے کے سلاموں کے جواب دینے کے لیے روح نہیں لوٹائی گئی اور آپ ؐ زندہ نہیں ہوئے ۔ تو یہی ہم کہتے ہیں کہ موت کے بعد برزخ میں روح لوٹانے سے آدمی زندہ نہیں ہوتا اور اگر روح لوٹائی نہیں گئی‘ حالانکہ اس اثنا میں یقیناًبہت سے سلام پڑھے گئے ہوں گے تو پھر ان سلاموں کا کیا بنا؟ کیا ان کا جواب دیا ہی نہیں گیا اور یہ ہو نہیں سکتا۔ اور اگر دیا گیا ‘ لیکن کسی وقت بعد میں تو یہی ہم کہتے ہیں کہ حضور ﷺ پر جتنے سلام پڑھے جاتے ہیں وہ سب سلام دعا ہوتے ہیں۔ا ن کا سننا اور اسی وقت جواب دینا ضروری نہیں‘ بلکہ اﷲ کے مقرر کردہ فرشتے ان تمام سلاموں کو جمع کر کے کسی خاص وقت میں جب اﷲ کو منظور ہوتا ہے حضور ﷺ کو پہنچا دیتے ہیں۔ اور پھر آپؐ سب کے حق میں جوابی دعا دے دیتے ہیں اور یہی اس حدیث کا مطلب ہے۔ اس حدیث سے ہر گز یہ مراد نہیں کہ جونہی کسی نے سلام پڑھا‘ آپ ؐ نے سن کر فوراً جواب دیا۔ گویا کہ آپ ہر وقت سلاموں کے جواب کے انتظار میں ہی رہتے ہیں اور سلاموں کے جواب دینے کے سوا آپ ؐ کو کوئی کام نہیں‘ نہ حدیث کے یہ الفاظ ہیں اور نہ حدیث کی یہ مراد ہو سکتی ہے۔ کیونکہ بہت سی صحیح احادیث میں صراحتاً یہ آ چکا ہے کہ سلام فرشتے پہنچاتے ہیں خواہ کوئی دور پڑھے یا قریب۔ آپ کو سننے اور فوراً جواب دینے کی تکلیف نہیں دی جاتی۔
ب اگر آپ سلام نہیں سنتے تو روح کس لیے لوٹائی جاتی ہے؟
ا روح تو جواب دینے کے لیے لوٹائی جاتی ہے ‘ نہ کہ سلام سننے کے لیے اور جواب کبھی بھی دیا جاسکتا ہے کیوں کہ وہ سلام سلام تحیہ نہیں ہوتا کہ جس کا سن کر فوراً جواب دیا جائے۔ وہ تو سلام دعا ہوتا ہے جیسا کہ خط میں اپنے کسی دوست کو السلام علیکم لکھا جاتا ہے اور پھر جب اسے خط پہنچتا ہے تو وہ سلام کاجواب دے دیتا ہے۔
ب روح تو لوٹائی جاتی ہے خواہ جواب دینے کے لیے ہی سہی۔ اس کو تو آپ مانتے ہیں ۔
ا اس کو تو ہم مانتے ہیں‘ جو آ گیا اس کو کیسے نہ مانیں‘ لیکن اس کی کیفیت اور تاثیر کو ہم نہیں جانتے۔ کیونکہ عالم برزخ کا معاملہ ہے‘ عالم دنیا میں رہتے ہوئے عالم برزخ کی کیفیات اور حالات کو جاننا اور سمجھنا انسانی ادراک سے باہر ہے۔
ب جب روح لوٹائی گئی تو زندگی تو آ گئی‘ کیونکہ زندگی عبارت ہے روح اور جسم کے اتصال سے ۔ جب روح آ گئی تو زندہ تو ہو گئے۔
ا بھئی! یہ اتصال و انفصال برزخی ہے۔ جس کی کیفیت کو ہم نہیں سمجھ سکتے۔لیکن یہ یقینی بات ہے کہ برزخ میں روح لوٹائے جانے سے مردہ زندہ نہیں ہوتا بلکہ مردہ ہی رہتا ہے اور زندگی برزخی رہتی ہے ۔ برزخ میں بھی دنیا کی طرح سے روح کا تعلق جسم سے بڑھتا گھٹتا رہتا ہے جیسے دنیوی زندگی میں سونے اور جاگنے میں اس تعلق کی کمی بیشی ہوتی ہے۔ اسی طرح برزخی زندگی میں بھی تغیرات ہوتے رہتے ہیں۔ بیداری کی حالت میں روح پوری طرح سے جسم میں ہوتی ہے اور آدمی کے پورے ہوش وحواس قائم ہوتے ہیں۔ نیند کی حالت میں روح بہت حد تک جسم سے نکل جاتی ہے‘ لیکن مضبوط تعلق باقی رہتا ہے جس سے نبض چلتی اور انسانی مشینری کام کرتی رہتی ہے اور آدمی زندہ رہتا ہے۔ اگرچہ اس کے ہوش و حواس قائم نہیں ہوتے ۔ نیند کی حالت میں آدمی موت یعنی برزخی زندگی کے بہت قریب ہوتا ہے۔ اگرچہ مرتا نہیں‘رہتا زندہ ہی ہے۔ اسی طرح برزخ میں بھی جب روح لوٹائی جاتی ہے تو آدمی زندہ ہونے کے قریب ہوتا ہے‘ لیکن زندہ نہیں ہوتا‘ مردہ ہی رہتا ہے اور اس عالم دنیا سے بالکل بے خبر اور زندگی بزرخی رہتی ہے۔
روح بدن میں ایک دفعہ داخل ہو جانے کے بعد لاتعلق کبھی نہیں ہوتی۔ زندگی میں یہ روح بدن کے اندر رہتی ہے‘ مرنے کے بعد اگرچہ بالکل نکل جاتی ہے ‘لیکن تعلق ضرور رہتا ہے۔ کبھی کم کبھی زیادہ‘ برزخ میں روح کا لوٹایا جانا بھی اسی تعلق کی زیادتی کی ہی ایک صورت ہے لیکن اس سے دنیوی زندگی نہیں آتی کہ عالم دنیا کا شعور ہو۔ برزخی زندگی کے واردات کے ادرا ک و شعور میں ہی اضافہ ہوتا ہے۔ روح علیین میں رہے یا سجین میں بدن سے اس کا تعلق منقطع نہیں ہوتا۔ اگرچہ دنیا میں رہتے ہوئے ہم اس تعلق کا ادراک نہیں کر سکتے۔ لیکن ہم اس کا انکار بھی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اسی تعلق کے تحت ہی عذاب قبر ہوتا ہے جس کا انکار مکابرہ ہے۔ قرآن و حدیث اس پر شاہد عدل ہیں اور عقل سلیم بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے کہ جب عمل کرنے میں دونوں شریک تو مرنے کے بعد جب جزا و سزا کا عمل فورا شروع ہو جاتا ہے تو ایک کو چھٹی کیوں؟ برزخ اور آخرت دونوں میں روح اور جسم دونوں شریک رہتے ہیں۔ اگرچہ جسم ذرات کی شکل میں ہو جائے۔
ب عذاب قبر کی بھی آپ نے خوب کہی یہ مسئلہ بڑا نازک ہے ‘ کوئی اسے مانتا ہے کوئی نہیں۔
ا نہ ماننا تو بہت خطرناک ہے کیونکہ یہ عقیدے کی بات ہے اور عقیدہ بھی اجماعی جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے‘ نہ ماننے والے یا تو وہ ہیں جن کا اپنی عقل پر ایمان زیادہ ہے اور قرآن و حدیث پر کم‘ یا وہ جو عقیدے ’’ مردے سنتے ہیں‘‘ کے رد عمل کا شکار ہیں۔ ایک فریق نے اتنا غلو کیا کہ مردوں کو قبروں میں زندہ کر دیا ۔ دوسرے نے ضد میں آ کر عذاب قبر کا بھی انکار کر دیا ۔ اسی طرح سے دونوں گمراہ ہو گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی جب تک زندہ ہے عالم دنیا میں ہے جب مر جاتا ہے تو عالم برزخ میں ہوتا ہے۔ جہاں وہ دنیا کے واقعات سے بالکل بے خبر اور مردہ اور برزخ کے واردات سے بالکل باخبر اور زندہ۔
ب بات تو ٹھیک ہے جب جہان ہی دوسرا ہو گیا تو ادھر سے سب کچھ ختم اور ادھر کا کام شروع۔
ا اسی لیے تو میں نے کہا تھا کہ مردے سنتے نہیں۔
ب میری سمجھ میں تو بالکل آ گیا ہے اور میں تسلیم کرتا ہوں ‘ لیکن میں حیران ہوں کہ مسلمانوں کی کتنی بڑی تعداد اس غلطی کا شکار ہے۔
ا دین کے معاملہ میں اکثریت اور اقلیت کو نہیں دیکھا کرتے۔ حق کو دیکھاکرتے ہیں۔ اسی لیے قرآن مجید نے ہوشیار اور خبردار کیا ہے : ( وَ اِ نْ تُطِعْ اَکْثَرَمَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ ﷲِ )[6:الانعام:116]
اگر تو اکثریت کے پیچھے جائے گا تو وہ راہ حق پر کبھی نہیں رہنے دیں گے۔ اکثریت دنیا کی ایسی ہے جو نہ سوچتے ہیں ‘ نہ سمجھتے ہیں۔ لکیر کے فقیر ہیں۔ اٹکل پچو سے کام لیتے ہیں۔
ب یہ بالکل ٹھیک ہے۔ دنیا میں جہالت زیادہ‘ علم کم ‘ بے انصافی زیادہ‘ انصاف کم ہے‘ جھوٹے زیادہ‘ سچے کم ‘ بے ایمان زیادہ ‘ ایمان دار کم‘ بدی زیادہ ‘ نیکی کم‘ غرضیکہ ہر بری چیز زیادہ ہے اور اچھی کم۔ مجھے سب سے زیادہ جس بات نے متاثر کیا وہ ہے آپ کا انداز گفتگو۔ آپ لوگ ہر بات دلیل سے کرتے ہیں اور خوب سمجھاتے ہیں۔ ہمارے مولوی ایسا نہیں کرتے۔
ا بھئی! وہ کر بھی نہیں سکتے۔ ان کے پاس حق نہیں۔ یہ تو لکیر کے فقیر ہیں۔ اﷲ انھیں ہدایت دے۔
ب آپ کی یہ بات بھی بڑی معقول ہے کہ مزاروں اور خانقاہوں پر آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب اسی عقیدے کے تحت ہو رہا ہے کہ بزرگ مرتے نہیں۔ پردہ کر لیتے ہیں اور اپنی قبروں میں زندہ اور سب کچھ سنتے ہیں۔
ا یہ حقیقت ہے اگر یہ عقیدہ نہ ہو تو مزاروں پر یہ ہجوم کبھی نہ ہو اور نہ یہ خرابیاں ہوں جو آج وہاں ہو رہی ہیں۔ حتیٰ کہ سوائے نیکی کے سب کچھ وہاں ہوتا ہے۔
ب یہ بالکل ٹھیک ہے۔ اچھا میں اب اجازت چاہتا ہوں ‘ میں نے آپ کا بہت وقت لیا‘ اﷲ آپ کو جزائے خیر دے ‘آپ نے تو میری کایا پلٹ دی۔ میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ میں پھر کبھی حاضر ہوں گا اور مزید استفادہ کروں گا۔
ا بہت اچھا۔
ب اچھا السلام علیکم
ا و علیکم السلام !فی امان اﷲ۔!
ختم شد
******
۱ (بخاری:کتاب الجنائز‘ باب قول المیت و ھوعلی الجنازۃ قَدِّمُوْنِیْ رقم : 1316 مشکوٰۃ :کتاب الجنائز‘ باب مشی بالجنازۃ و صلٰوۃ علیھا ‘ رقم 1647:۔۔ نسائی ‘ کتاب الجنائز ‘ باب السرعۃ بالجنازۃ‘ رقم 1909:)
۲ (مسلم:کتاب الوصیۃ‘ باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ‘ رقم 1631-14: ۔۔۔ نسائی ‘ کتاب الوصیۃ ‘ باب فضل الصدقۃ علی المیت‘ رقم 3681:۔۔۔ ابی داؤد‘ کتاب الفرائض ‘ باب ماجاء فی الصدقۃ علی المیت ‘ رقم 2880: … ارواء الغلیل 28/6 کتاب الوقف)
۳ (مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب الاسراء برسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم الی السموات و فرض الصلٰوٰت ‘ رقم 268:۔۔۔ ابن ماجۃ ‘ کتاب المناسک ‘ باب الحج علی الرحل ‘ رقم (2891:
۴ (بخاری: کتاب الجنائز ‘ باب قول المیت و ھو علی الجنازۃ قدمونی‘ رقم 1316۔۔ نسائی :کتاب الجنائز ‘ باب السرعۃ بالجنازۃ رقم 1909:)
۵ (ابن ماجۃ‘ کتاب الجنائز‘ باب ذکر وفاتہ و دفنہ ﷺ‘ رقم 1637:)
۶ (ابوداؤد : کتاب الجنائز‘ باب فی الحفار یجد العظم ھل یتنکب ذلک المکان ؟ رقم3207:۔۔۔ ابن ماجۃ: کتاب الجنائز‘ باب فی النھی عن کسر عظام المیت‘ رقم 1616: ۔۔ ارواء الغلیل 213/3 رقم 763: )
۷ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ‘239/1 رقم 203:۔۔۔ مشکوۃ: کتاب الصلاۃ ‘ باب الصلاۃ علی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم و فضلھا)
۸ (سنن کبرٰی بیہقی ‘ کتاب الحج‘باب زیارۃ القبر النبی صلی اﷲ علیہ وسلم بمعناہ۔۔ الترغیب والترہیب للمنذری 499/2‘ الترغیب فی اکثار الصلوۃ علی النبی ﷺ والترھیب من ترکھا عند ذکرہ صلی اﷲ علیہ وسلم کثیرًا دائمًا )
۹ (ابوداؤد:کتاب المناسک‘ باب زیارۃ القبور ‘ رقم2042:۔۔۔ مشکوۃ ‘کتاب الصلاۃ ‘ باب الصلاۃ علی النبی ﷺ و فضلھا ‘ رقم(926:
۱۰ (ترمذی: کتاب الدعوات‘ باب ما جاء ان ﷲ و ملائکۃ سیاحین فی الارض‘ رقم3600: ۔۔۔ نسائی: کتاب السہو ‘ باب التسلیم ‘ علی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم‘رقم 1283: ۔۔۔ مشکوۃ : کتاب الصلاۃ ‘ باب الصلاۃ علی النبی ﷺ و فضلھا‘ رقم294:)
۱۱ (مسند ابی یعلٰی الموصلی 246/1 رقم 465 من تحقیق شیخ ارشاد الحق اثری )
۱۲(مسند ابویعلیٰ الموصلی 171/6 رقم 6728 من حدیث حسین بن علی بن ابی طالب)
۱۳ (لولاک لما خلقت الافلاک ۔۔ سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی 298/1 رقم :282۔۔ موضوعات کبرٰی ‘ ملا علی قاری ص 194 رقم 754:)
۱۴ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی 316/1 ‘ رقم 303-302: موضات کبریٰ ملا علی قاری ص 178 رقم 693:)
۱۵ (ابوداؤد:کتاب المناسک ‘ باب زیارۃ القبور ‘ رقم (2041: