ناظرین ! جب سے فقیر والی کے علاقہ میں اہل حدیث کی تبلیغ شروع ہوئی ۔ بحمداﷲ لوگوں کی آنکھیں کھل گئی ہیں‘ انھیں معلوم ہو گیا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ۔ اصل دین محمدی کونسا ہے اور اس کے مقابلے میں نقلی اور ملاوٹی کونسا ۔ جوں جوں قرآن و حدیث کی روشنی بڑھتی اور تقلید ناسدید کی ظلمت چھٹتی جا رہی ہے ‘ مدرسہ قاسم العلوم فقیر والی کے مالکان مولوی فضل محمد واولاوہ اپنے اصلی روپ میں نظر آنے لگے ہیں۔ یہ وہ خاندان ہے جو اس علاقہ میں دین کا واحد اجارہ دار بن کر مدرسہ کے نام پر عرصہ سے ملک و قوم کو لوٹتا رہا ہے ‘ بھولے بھالے حنفی عوام کو دھوکا دینے کے لیے مدرسہ کا نام قاسم العلوم رکھا ہوا ہے تاکہ دیوبندی یہ سمجھیں کہ یہ مدرسہ مولانا قاسم نانوتوی کی یاد گار ہے اور خوب دل کھول کر چندہ دیں۔ لیکن درحقیقت اپنے لڑکے کا نام محمد قاسم رکھا ہوا ہے اور اس مدرسے کو اپنی خاندانی جاگیر بنا رکھا ہے۔ عرصہ سے یہ خاندان حنفیوں کو بھی لوٹتا رہا ہے اور اہل حدیثوں کو بھی ۔ حنفیوں کو حنفی قادری قاسمی بن کر اور اہل حدیثوں کو یہ کہہ کر کہ یہ اہل توحید ہیں۔ ان میں اور ہم میں کوئی لمبا چوڑا فرق نہیں ‘ معمولی فروعی اختلاف ہے۔
اب جب کہ اس علاقہ میں اہل حدیث کا سورج طلوع ہو چکا ہے ‘ ہدایت و ضلالت کی راہیں واضح ہو گئی ہیں۔ ( قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ )[2:البقرہ:256]تو قادریوں اور قاسمیوں کو اپنی فکر پڑ گئی ہے کہ اب ہمارا کیا بنے گا؟ دھوکا تو اب چلے گا نہیں کیوں کہ لوگ دن بدن ماشاء اﷲ اہل حدیث ہوتے جا رہے ہیں‘ یہ قاسمیان پہلے مدرسہ کے نام پر کھاتے تھے‘ اب امام ابوحنیفہ کے نام نامی اور اسم گرامی کو بیچ کر اپنے پیٹ کو جہنم کی آگ سے بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب انھوں نے ایک امام اعظم ابوحنیفہ اکیڈمی کی داغ بیل ڈالی ہے تاکہ اس کی اوٹ میں دور دراز کے بے خبر حنفیوں کو لوٹ سکیں۔
ناظرین ! سوچنے کا مقام ہے کہ امام ابوحنیفہؒ اکیڈمی انھوں نے اب کیوں بنائی ہے ‘ اس سے پہلے کبھی کیوں نہ بنائی۔ کیا اس سے قبل یہ جاہل تھے۔ ان میں کوئی قادری اور قاسمی جیسا عالم نہ تھا جو امام ابوحنیفہ اکیڈمی بنا کر حنفی دین کی خدمت کرتا یا اب کوئی نئے امام ابوحنیفہ پیدا ہوئے ہیں اور یہ ان کے نئے مقلد بنے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جو انھوں نے اب یہ ڈھونگ رچایا ہے۔ اور پھر دیکھنے کی بات ہے کہ اب اس اکیڈمی کے تحت کام کیا ہو رہا ہے ؟ کیا اس میں امام ابوحنیفہ پر ریسرچ ہو رہی ہے ‘ ان کی تصنیفات تلاش کی جا رہی ہیں ۔ حاشا و کلا جو دو چار رسالے اس اکیڈمی نے شائع کیے ہیں ان کو دیکھ لیں صرف اہل حدیث کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے اور کوئی تعمیری کام نہیں ہو رہا ۔
ان قادری اور قاسمی بھائیوں کو آخر اہل حدیث سے یہ بغض کیوں ہے ؟ صرف اس وجہ سے کہ اہل حدیث نے اس علاقے میں حدیث کی تبلیغ کیوں شروع کر دی اور ان کا پردہ کیوں چاک کر دیا ۔ ان کے بنے بنائے روٹی کے کھیل کو کیوں خراب کر دیا۔لوگوں کو اندھا مقلد کیوں نہ رہنے دیا کہ یہ ان کو لوٹ کر داد عیش دیتے رہتے ۔ یہی فضل اینڈ کو (کمپنی ) پہلے جب اہل حدیثوں سے چندے لیتے تھے تو ان کی تعریفیں کرتے تھے ‘ ان کے گن گاتے تھے ۔ اب جب کہ چندے کی توقع نہیں رہی تو اپنے خبث باطن کو ان رسالوں کی صورت میں ظاہر کر رہے ہیں۔ اب کہتے ہیں کہ اہل حدیث ایک نیا فرقہ ہے ‘ انگریز نے اس کا بیج بویا ‘ انگریز کی آمد سے ہی اس کا ظہور ہواہے۔
ہم تو ہمیشہ اہل حدیثوں سے کہتے رہے ہیں کہ ان مقلدوں کے دھوکے میں نہ آنا۔ یہ اہل حدیث کے ازلی ابدی دشمن ہیں۔ اہل حدیث سے ان کا وہی سلوک ہے جو عبداﷲ بن ابی اور اس کی جماعت کا رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم اور ان کے صحابہ سے تھا۔ جب انھوں نے اماموں کی تقلید کرکے اﷲ کے رسول سے غداری کی ‘ ان سے وفا نہ کی تو کسی اورکے وفا دارکیسے ہو سکتے ہیں ؟ امام کا نام لے کرانھوں نے اﷲ کے رسول ؐ کو چھوڑا ‘ پھر وفا اپنے امام سے بھی نہ کی۔ کوئی قادری بن گیا‘ کوئی چشتی بن گیا‘ کوئی سہروردی ۔ ان مقلدوں کا حال اس آوارہ عورت کا سا ہے جو نام خاوند کا لیتی ہے اور فیض ہر ایک سے حاصل کرلیتی ہے اور پھر رنگ رنگ کی اولاد جنتی ہے۔اسی طرح یہ حنفی مقلدین حنفی ہونے کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے کئی کئی روحانی باپ ہیں۔
قادری اینڈ برادرز لمیٹڈ نے جو اکیڈمی بنائی ہے تو صرف عوام کو دھوکہ دینے کے لیے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے دل میں رسول کا احترام ‘ نہ امام کا‘ ان کی رسول دشمنی اس سے زیادہ اور کیا ہوگی کہ یہ محمد رسول اﷲ کا کلمہ پڑھنے کے بعد حنفی بن گئے اور حدیث رسولؐ کے منکر ہو گئے۔ ان کی امام دشمنی کا حال یہ ہے کہ گندے سے گندا جو مسئلہ ہوتا ہے وہ امام ابوحنیفہ ؒ کے سر تھوپتے ہیں۔ مثلاً فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’حَلَّ لِلرَّجُلِ وَطْؤُھَا‘‘ ۱
کسی مرد نے کسی عورت پر اپنی زوجہ ہونے کا جھوٹا دعویٰ کر دیا اور جھوٹے گواہوں کی بنا پر جج سے فیصلہ اپنے حق میں کرالیا تو امام صاحب کے نزدیک وہ عورت اس کی ہو جائے گی۔ اب جو مرضی اس سے کرے‘ کوئی گناہ نہیں۔ اسی طرح کوئی ماں سے جان بوجھ کر نکاح کرکے صحبت کرے تو امام صاحب کہتے ہیں اس پر کوئی حد نہیں کیوں کہ اس نے نکاح کر کے یہ کام کیا ہے۔ ۲ امام صاحب کہتے ہیں نماز کو سلام کی بجائے پاد مار کر ختم کرے تو بھی نماز صحیح ہے۔۳ اب قادری صاحب خود ہی سوچ لیں کہ ایسے مسائل سے امام صاحب کی نیک نامی ہوتی ہے یا رسوائی اور آپ جیسے مقلد جنھوں نے یہ مسئلے امام صاحب کے ذمے لگائے ہیں‘ امام صاحب کے دوست ہیں یا دشمن۔
جیسے یہ حنفی ہوتے ہوئے امام ابوحنیفہؒ کے وفادار نہیں ایسے یہ باوجود محمد رسول اﷲ کہنے کے رسول اﷲ ﷺ کے وفادار نہیں۔ ان کی حدیث دشمنی کا یہ حال ہے کہ اگر امام صاحب کا کوئی مسئلہ حدیث کے مطابق ہو تو اسے نہیں مانیں گے‘ جو حدیث کے خلاف ہوگا اس کو مانیں گے۔ مثال کے طور پر صحیح حدیث میں ہے کہ میت اگر مرد ہے تو امام سر کے قریب کھڑا ہو کر جنازہ پڑھائے گا اگر عورت ہو تو درمیان میں کھڑا ہو۔ حضور ﷺ کا بھی یہی عمل تھا ۴ اور سنت طریقہ بھی یہی ہے۔ امام صاحب کا فتویٰ بھی اس کے مطابق ہے‘ لیکن حنفیوں کو حدیث سے ایسی دشمنی ہے کہ امام صاحب کی بھی پرواہ نہ کی اور اس مسئلے کو رد کر دیا۔ حدیث کے خلاف یہ مسئلہ بنایا کہ امام درمیان میں کھڑاہو خواہ مرد ہو یا عورت۔
بچے کو گودی اٹھا کر نماز پڑھنا جائز ہے۔ چنانچہ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے حضرت امامہ اپنی نواسی کو گودی میں اٹھا کر جماعت کرائی ۔ ۵حنفی مذہب اس کو نہیں مانتا‘ وہ کہتے ہیں یہ جائز نہیں‘ لیکن کتے کے بچے کو گودی اٹھا کر نماز پڑھنا جائز ہے۔
امام صاحب فرماتے ہیں کہ عصر کا وقت دو مثل پر شروع ہوتا ہے ‘ امام صاحب کا یہ مسئلہ حدیث کے خلاف ہے اور تعامل صحابہ کے بھی‘ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اپنی خلافت میں جو سرکلر جاری کیا تھا وہ یہی تھا کہ عصر کا وقت ایک مثل پر ہوتا ہے دیگر تمام ائمہ بھی حتی کہ امام ابویوسف اور امام محمد بھی اس مسئلے میں امام صاحب کے خلاف ہیں‘ لیکن حنفیوں نے نہ حدیث کی پرواہ کی ‘ نہ خلیفہ حضرت عمرؓ کے حکم کی ‘ نہ دیگر ائمہ کی۔ امام صاحب کامسئلہ لے لیا جو حدیث کے خلاف ہے‘ یعنی دو مثل کا ‘ پھر کمال یہ ہے کہ امام صاحب کے اس مسئلے میں دو قول ہیں۔ ایک توایک مثل کا جو حدیث کے مطابق ہے اور ایک دو مثل کا جو حدیث کے خلاف ہے۔ معلوم ہوتا ہے‘ امام صاحب نے اپنے غلط قول سے رجوع کر لیاتھا لیکن حنفی امام صاحب کے اسی قول پر عمل کرتے ہیں جو حدیث کے خلاف ہے اور غلط ہے۔ ان کے اس قول کو نہیں مانتے جو حدیث کے مطابق ہے اور صحیح ہے اس سے زیادہ حدیث دشمنی اور کیا ہو سکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پہلے منکرین حدیث یہ مقلد ہی ہیں۔ اگر حدیث ان کے مطلب کی ہوگی تو لے لیں گے ورنہ پھینک دیں گے۔ عبداﷲ چکڑالوی اور پرویز وغیرہ منکرین حدیث نے انکار حدیث دراصل سیکھا ان مقلدین سے ہی ہے۔ جو حدیث سے یوں کھیلتے ہیں ا ور یہ سب تقلید کی برکات ہیں۔
ناظرین! یہ رسالہ جو ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں فقیر والی کے حنفی مدرسے قاسم العلوم کے مولوی بشیر احمد قادری حنفی کے ’’ترک تقلید کے بھیانک نتائج‘‘ کا جواب ہے۔ کوئی بھی عقل و انصاف والا جو قادری صاحب کے رسالہ کے بعد ہمارے اس رسالہ کو پڑھے گا ان شاء اﷲ العزیز بخوبی جان لے گا کہ تقلید کتنی بری چیز ہے اور مقلد کا علم کتنا سطحی ہوتا ہے اور اس کے بلند بانگ دعاوی کتنے کھوکھلے ہوتے ہیں۔
قادری صاحب نے اس رسالہ میں جس جہالت کا ثبوت دیا ہے ان سے اسی کی
توقع تھی حالانکہ وہ اپنے مدرسہ اور اپنے حلقہ میں بڑے معقولی اور منقولی بڑے شیخ اور بزرگ سمجھے جاتے ہیں ‘لیکن ان کا یہ رسالہ بتاتا ہے کہ کوئی کتنا ہی بڑا علامہ وفلامہ کیوں نہ ہو جب وہ مقلد ہو جاتا ہے تو علم و عقل کھو بیٹھتا ہے۔ اسے پتا نہیں ہوتا کہ اس کی زبان و قلم سے کیا نکلتا ہے ۔ وہ شیخ چلّی کی طرح جس ٹہنے پر بیٹھا ہوتا ہے اسی کو کاٹنے لگ جاتا ہے۔
قادری صاحب نے یہ رسالہ کیا لکھا اپنے علم و فہم کا بھی دیوالیہ پن ظاہر کیا اور اپنے دعوے کی بھی تردید کی۔ انھوں نے دعویٰ یہ کیا کہ ترک تقلید کے نتائج بہت برے ہیں ‘ لیکن دکھایا یہ کہ قادری صاحب جیسا عالم بھی جب مقلد بن جاتا ہے تو جاہلوں والی باتیں کرتا ہے۔ قادری صاحب تقلیدًا غیر مقلد لکھتے جاتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ غیر مقلد کہتے کسے ہیں ۔ وہ گندے گندے مسئلے لکھ کر تقلیدًا غیر مقلد کے نام لگاتے جاتے ہیں‘ لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ یہ مسئلے کن کے ہیں اور ان کی زد کہاں پڑے گی۔
قادری صاحب بنتے تو عالم ہیں ‘ لیکن جہالت کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف وہ کہتے ہیں ہندوستان میں انگریز کی آمد کے بعد غیر مقلدین کا ظہور ہوا ‘ لیکن جب ان کے ذمے چھوٹے چھوٹے مسائل لگاتے ہیں تو حوالہ ’’محلی ابن حز م ‘‘ کا دیتے ہیں۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ جب فرقہ غیر مقلدین کا ظہور ہندوستان میں انگریز کی آمد کے بعد ہوا اور بقول ان کے ابھی اس فرقے کی عمر بمشکل سو سال ہے تو محلی ابن حزم اس فرقے کی کتاب کیسے ہو گی ۔ وہ کتاب کس صدی کی ہے اور یہ فرقہ اس صدی کا۔ تف ہے ایسے علم و عقل پر۔
قادری صاحب کو حنفی ہونے کی وجہ سے بغض تو ہے امام شافعیؒ ‘ امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ سے رد تو کرنا چاہتے ہیں ‘ ان ائمہ کا جو حنفیت کے خلاف ہیں ‘ لیکن اس ڈر سے کہ تقلید کا منہ کالا ہوگا اس کی بدنامی ہوگی اماموں کا نام نہیں لیتے ‘ ان کے مسئلوں کو غیر مقلدوں کے سر لگا کر اپنا بغض نکال رہے ہیں۔ اگر قادری صاحب کو گھوڑا ضب اور بجو وغیرہ کے حلال ہونے پر اعتراض ہے تو یہ الزام دیں امام شافعی ؒ کو جو ان کو حلال کہتے ہیں‘ غیر مقلدوں نے تو ان کو حلال نہیں کیا۔ مقلد کی جرآت تو ملاحظہ ہو کہ اصل ملزم کا نام نہیں لیتا اور جس کا کوئی تعلق نہیں اسے طعن دیتا ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ مقلد بڑا بزدل اور منافق ہوتا ہے۔
قادری صاحب اپنے رسالہ کے آخر میں ائمہ مجتہدین کی تقلید کو بہت ضروری قرار دیتے ہیں۔ پھر ان ہی ائمہ مجتہدین کے مسائل پر اعتراض کرتے ہیں۔ قادر ی صاحب کو اگر دیگر ائمہ مجتہدین کے مسائل قبول نہیں تو حنفی ائمہ کے مسائل تو مانیں‘ ان پر تو اعتراض نہ کریں۔ الو چمگادڑ ‘ کوا‘ کو توحنفی ائمہ حلال کہتے ہیں۔ ۶ حقیقت یہ ہے کہ قادری صاحب کو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ مسئلے حنفیوں کے ہیں یا کسی اور کے ۔خواہ مخواہ ان کو اہل حدیث کے سر لگا رہے ہیں۔ حالانکہ اہل حدیث کے نزدیک یہ حلال نہیں۔
قادری صاحب کے اندھا پن کا یہ حال ہے کہ ان کو متعہ کے سلسلہ میں ہدایہ المہدی ایک غیر معروف سی کتاب نظر آئی‘ ہدایہ کالقرآن نظر نہیں آیا جس میں صاف لکھا ہے کہ متعہ امام مالکؒ کے نزدیک جائز ہے۔ قادری صاحب اب بتائیں کہ امام مالکؒ مجتہد ہیں یا نہیں۔ ایک طرف ائمہ مجتہدین کی تقلید ضروری قرار دیتے ہیں ‘ دوسری طرف وہ ان کے مسائل پر اعتراض کرتے ہیں ۔ جب بقول صاحب ہدایہ امام مالک نے متعہ کو جائز کہا ہے تو متعہ کا الزام وہ اپنے چچا امام مالک پر لگائیں یا صاحب ہدایہ پر جس نے جھوٹ امام مالک کے ذمے لگایا ہے نہ کہ غیر مقلدین پر۔ کیا غیر مقلد امام یا صاحب ہدایہ سے پہلے ہیں جو وہ ان کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
قادری صاحب نے اہل حدیث پر متعہ کا الزام لگایا حالانکہ ان کے نزدیک متعہ قطعاً حرام ہے اور قیامت تک کے لیے حرام ہے ‘ لیکن اپنے مارکہ کو نہ دیکھا جن کے نزدیک متعہ تو کیا متعہ سے بڑھ کر زنا کی قسمیں جائز ہیں۔ حنفی جو حلالہ کرتے ‘ کرواتے ہیں وہ کیا متعہ سے کم ہے جیسے متعہ زنا ہے ویسے ہی حلالہ بھی زنا ہے۔ بلکہ قادری صاحب کے مذہب میں تو اس سے بھی زیادہ چھٹی ہے ۔ چنانچہ درمختار ص 256 کنز الدقائق ص168 اور فتاویٰ عالمگیری وغیرہ میں ہے لَواِسْتَأجَرَ اِمرَأۃً لِیَزْنِیَ فَزَنٰی لاَ تُحَدُّ فِیْ قَوْلِ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ یعنی اگر کوئی شخص کسی عورت کو اجرت پر لے اس لیے کہ اس سے زنا کرے‘ پھر اس سے زنا کرے تو امام صاحب کہتے ہیں کہ اس پر زنا کی کوئی حد نہیں اور جو رقم اس عورت نے بطور زنا کی اجرت لی ہے وہ حلال ہے۔ وَاِنِ اسْتَاْجَرَھَا لِیَزْنِیْ بِھَا ثُمَّ اَعْطَاھَا مَھْرَھَا اَوْ مَا شَرَطَ بِھَا لاَ بَاْسَ بِاَخْذِہٖ ۷ قادری صاحب ہی بتائیں ملک میں جتنے چکلے اور جتنے فحاشی اور زنا کے اڈے کھلے ہیں حنفی مذہب کی پوری تائید ان کو حاصل ہے یا نہیں‘ اسی لیے کسی کنجری کو دیکھ لیں۔ ۔۔یا حنفی یا شیعہ ۔ جیسے شیعہ کا متعہ زنا کو فروغ دیتا ہے ایسے ہی مقلدین کے یہ مسئلے زنا کو ترقی دیتے ہیں اور یہ قادری صاحب کے لیے شرم کا مقام ہے۔
قادری صاحب کہتے ہیں تقلید ایک نکیل اور لگام ہے جو انسان کو بے راہ روی سے روکتی ہے ۔ میں کہتا ہوں قادری صاحب اگر تقلید بے راہ روی سے روکتی ہے تو بریلوی مقلد ہوتے ہوئے بے راہ کیوں ہو گئے ۔ اب قادری صاحب ہی بتائیں کیا بریلوی مقلد نہیں یا بے راہ نہیں‘اگر وہ مقلد بھی ہیں اور بے راہ بھی تو قادری صاحب کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ ان کی بسم اﷲ ہی غلط ہے ( کہ تقلید بے راہ روی سے روکتی ہے) قادری صاحب آپ خود ہی سوچیں تقلید جب خود گمراہی ہے تو گمراہی سے کیسے روک سکتی ہے۔
وَ ھرُب عَنِ التَّقْلِیْدِ فَھُوَ ضَلاَلَۃٌ
اِنَّ الْمُقَلِّدَ فِیْ سَبِیْلِ الْھَالِکِ
قادری صاحب فرماتے ہیں تقلید خود مختاری‘ خودسری‘ شوخ چشمی اور آزادی سے باز رکھتی ہے‘ میں کہتا ہوں قادری صاحب آپ نے ٹھیک فرمایا جب تقلید انسان کو جانور بنا دیتی ہے ‘ اس کے گلے میں رسی ڈال لیتی ہے تو خود مختاری اور آزادی جیسی صفات کیسے رہ سکتی ہیں۔ خود سری اور شوخ چشمی تو درکنار آدمی بالکل اندھا غلام ہو جاتا ہے۔ جو چیز جانور بنا دے اس کی آزادی کی رائے و فکر کو سلب کر ے اس سے بڑی لعنتی چیز اور کیا ہو سکتی ہے؟
قادری صاحب فرماتے ہیں تقلید نفس کی بے لگام خواہشات اور بے قابو جذبات کو کنٹرول کرتی ہے ۔ میں کہتا ہوں قادری صاحب تکلیف کیوں کرتے ہیں صاف کیوں نہیں کہتے تقلید آدمی کو خصی کر دیتی ہے ۔ نفس کو بالکل مار دیتی ہے۔ جس سے دینی غیرت بالکل جاتی رہتی ہے جیسا کہ حنفی عوام کا آج کل حال ہے۔
قادری صاحب فرماتے ہیں تقلید انتشار و خلفشار کو بالکل ختم کر دیتی ہے۔ میں کہتا ہوں قادری صاحب یہ بالکل جھوٹ ہے۔ آپ ہی بتائیں کیا تقلید نے دیوبندیوں اور بریلویوں کا انتشار ختم کر دیا ہے۔ حالانکہ بریلوی اور دیوبندی دونوں امام ابوحنیفہ ؒ کے پکے مقلد ہیں۔ اس کے باوجود ان میں کیسی لڑائی ہے کہ کتے کا کتا بیری والی مثال ان پر پوری صادق آتی ہے۔
پھر فرماتے ہیں قرآن و سنت کو تحریف معنوی سے محفوظ رکھنے کا واحد ذریعہ تقلید ہے۔ قادری صاحب میں پوچھتا ہوں بریلوی جو قرآن و سنت سے رسول اﷲ ﷺ کا عالم الغیب ‘ مختار کل‘ حاضر و ناظر وغیرہ ہونا ثابت کرتے ہیں تو کیا تحریف معنوی کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر کرتے ہیں اور یقیناًکرتے ہیں تو پھر آپ ہی بتائیں کیا تقلید تحریف معنوی سے روکتی ہے‘ اب یا تو آپ یہ کہیں کہ بریلوی مقلد نہیں‘ غیر مقلد ہیں یاکہیں کہ وہ تحریف نہیں کرتے۔ ان کے شرکیہ عقائد آپ کے نزدیک نصوص سے ثابت ہیں تو پھر آپ بریلوی کیوں نہیں ہو جاتے‘ دیوبندی کیوں بنے پھرتے ہیں؟
پھر فرماتے ہیں دوسری صدی کے آخرتک تقلید رائج نہ تھی‘ میں کہتا ہوں جب خیر القرون کے اس بہترین دور میں رائج نہ تھی تو اس کے بدعت اور لعنت ہونے میں کیا شبہ ہے۔ اگر آپ کہیں وجوباً نہ تھی استحباباً تھی تو میں کہوں گا دو سو سال کے بعد مقلدوں میں کونسا ایسا رسول پیدا ہو گیا جس نے اس کے استحباب کو وجوب میں تبدیل کر دیا۔ اگر آپ کہیں فرقوں کی کثرت کا داعیہ ایسا تھا جس نے تقلید شخصی کو واجب کر دیا تو میں کہوں گا حنفی ‘ شافعی‘ مالکی‘ حنبلی ‘ دیوبندی‘ بریلوی‘ اس وجوب کے بعد کی پیدوار ہیں یا پہلے کی ۔ اگر بعد کی پیداوارہیں اوریقیناًبعد کی پیداوار ہیں تو تقلید شخصی کے وجوب کا کیا فائدہ ہوا۔ فرقے تو پھر بھی بہت پیدا ہو گئے۔
پھر فرماتے ہیں کہ شاہ عبدالقادر جیلانی نے تہتر فرقوں کی تعداد گنائی ہے ‘ میں پوچھتا ہوں قادری صاحب آپ کو ان میں اپنا فرقہ نظر آیا یا نہیں‘ اگر نظر نہیں آیا۔ کیوں کہ آپ مقلد ہیں اور مقلد اندھا ہوتا ہے اور اسے نظر نہیں آتا تو آئیے میںآپ کو دکھاتا ہوں ‘ شاہ صاحب نے آپ کے حنفی فرقے کو عین دوزخ کے وسط میں دکھایا ہے۔ وہ دوزخی فرقوں کی نشان دہی کرتے کرتے ان کے وسط میں حنفیوں کو دکھاتے ہیں۔ چنانچہ غنیہ الطالبین کے صفحہ 90پر ہے:
اَلْجَھْمِیَّۃُ وَالصَّالِحِیَّۃُ وَالشَّمْوِیَۃُ وَالْیُوْنِسِیَّۃُ وَلْیُوْنَانِیَّۃُ وَالنَّجَارِیَۃُ وَالْغَیْلاَنِیَۃُ وَالشَّیْبَیۃُ وَالْحَنْفِیَۃُ وَالْمُعَاذِیْۃُ وَالْمُریسیَۃَ وَالْکَرَامِیَۃ
پھر وہ صفحہ 91پر فرماتے ہیں:
وَ اَمَّا الْحَنْفِیَۃ فَھُمْ بَعْضُ اَصْحَابِ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ نُعْمَانَ بْنِ ثَابِتٍ
یعنی مرجیہ کے بارہ فرقے ہیں جن میں حنفی بھی شامل ہیں جو ابوحنیفہؒ نعمان بن ثابت کے پیروکار وں میں سے ہیں۔
پھر فرماتے ہیں کہ حضرت جیلانی نے فرقوں کی تعداد گنا کر ان کی خصوصیات بھی بیان کی ہیں‘ میں کہتا ہوں انھوں نے آپ کے فرقے کی کیا خصوصیت بیان کی ہے۔ آپ کی سمجھ میں بھی کچھ آیا ۔ اگر آپ کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو مجھ سے سنیے۔ وہ فرماتے ہیں:
فَاَصْلَ ثَلاَثٌ وَ سَبِعِیْنَ فِرْقَۃٌ عَشَرَۃٌ ۔۔۔ وَاَمَّا الْفِرْقَۃُ النَّاجِیَۃُ فَھِیَ اَھْلُ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ۔ ۔۔ وَلاَاِسْمَ لَھُم اِلاَّاِسْمٌ وَاحِدٌ وَھُوَ اَصْحَابُ الْحَدِیْثِ وَ اعْلَمْ اَنَّ لِاَھْلِ الْبِدْعِ عَلاَمَاتٌ یُعْرَفُوْنَ بِھَا فَعَلاَمَۃُ اَھْلِ الْبِدْعَۃِ الْوَقِیْعَۃُ فِیْ اَھْلِ الْاَثْرِ ۔۔۔ وَکُلُّ ذٰلِکَ عَصْبِیَّۃُ وَ غِیَاظٌ لِّاَھْلِ السُّنَّۃِ ۸
حدیث رسول ؐ کی رو سے کل فرقے تہتر ہیں جن کی اصل دس فرقے ہیں ۔ ان میں سے ایک فرقہ ناجیہ ہے جس کی نجات ہوگی‘ باقی دوزخی ہیں۔ فرقہ ناجیہ اہل سنت والجماعت ہے۔ اوروہ صرف اہل حدیث ہے‘ باقی فرقوں کی جو کہ بدعتی اور دوزخی ہیں کئی علامتیں ہیں جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں ‘ ان کی بڑی علامت یہ ہے کہ وہ اہل حدیث کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں اور ان کے الٹے سیدھے نام رکھتے ہیں اوریہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ ان کے دلوں میں اہل حدیث کے بارے میں تعصب اور بغض ہے۔ لہذا بدعتی اور دوزخی فرقے کی نشانی یہ ہے کہ وہ اہل حدیث سے بغض رکھتا ہے اور ان کو برا بھلا کہتا ہے۔ قادری صاحب آپ کا بھی یہی حال ہے اور یہ رسائل اس کا اظہار ہیں۔ حضرت جیلانی کا حوالہ بھی آپ نے ہی دیا ہے۔ قادری بھی آپ ہی بنے پھرتے ہیں لہذا اب اپنا انجام سوچ لیں یا تو اہل حدیث دشمنی سے توبہ کرکے اہل حدیث ہو جائیں ورنہ خدا کی پکڑ کے لیے تیار رہیں جو بہت جلد ان شاء اﷲ العزیز آپ پر آنے والی ہے۔
اَللّٰھُمَّ اِنْ لَّمْ یَتُبْ فَخُذْہُ اَخَذَ عَزِیْزٍ مُقْتَدِرْ
پھر قادری صاحب فرماتے ہیں فرقوں کی یہ کثرت اور بہتات ترک تقلید کا نتیجہ تھی ‘ میں کہتا ہوں قادری صاحب ہوش کے ناخن لیں ترک تقلید سے بھی کبھی فرقہ بنا ہے؟ فرقہ تو عمل تقلید سے بنتا ہے۔ کسی ایک کی آزادی اور بے راہ روی سے فرقہ نہیں بن جاتا ‘فرقہ اس وقت بنتا ہے جب لوگ تقلید کرتے ہیں ‘ اندھا دھند کسی کے پیچھے لگتے ہیں ۔ قادری صاحب تقلید تو تولید ہے جو فرقوں کو جنم دیتی ہے۔ سب فرقوں کی ماں یہی تقلید ہے۔ مقلد بڑا غبی ہوتا ہے‘ اگر آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو بتائیے حنفی ‘ شافعی ‘ مالکی حنبلی‘ بریلوی ‘ دیوبندی ترک تقلید سے پیدا ہوئے ہیں یا عمل تقلید سے ۔ جن فرق کے آپ نے حضرت شاہ صاحب کے حوالے سے نام گنائے ہیں وہ بھی مقلد تھے۔ جیسے آپ اپنے امام کی تقلید سے حنفی بن گئے ایسے ہی ابوعبداﷲ بن کرام ‘ جہم بن صفوان‘ ابوالحسین بن صالح‘ ابو شمر‘ یونس البری اور غیلان وغیرہ کی تقلید سے وہ کرامیہ ‘ جہمیہ‘ صالحیہ‘ شمریہ‘ یونسیہ غیلانیہ وغیرہ بن گئے۔
قادری صاحب فرماتے ہیں تقلید شخصی کی برکت سے تھوڑی سی مدت میں تمام فرقے ناپید ہو گئے۔ میں کہتا ہوں ناپید نہیں ہو گئے بلکہ حنفی ہو گئے۔ چنانچہ پہلے فرقوں کی گمراہی میں سے کونسی گمراہی ہے جو آج حنفیت میں نہ پائی جاتی ہو۔ آج حنفی معتزلہ‘ حنفی جبریہ‘ حنفی قدریہ‘ حنفی مرجیہ‘ حنفی شیعہ‘ حنفی سب کچھ ۔ اگر میری اس بات میں شبہ ہو تو مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی کی ’’الرفع والتکمیل ‘‘صفحہ 27 پڑھ کر دیکھ لیں۔ وہ لکھتے ہیں:
کَمْ مِنْ حَنَفِیٍّ فَرْعًا مُرْجِئٌ ‘ أوْ زَیْدِیٌّ‘ اَصْلًا وَ بِالْجُمْلَۃِ فَالْحَنْفِیَّۃُ لَھَا فَرُوْعٌ بِاَعْتِبَارِ اِخْتِلاَفِ الْعَقِیْدَۃِ فَمِنْھُمُ الشِّیْعَۃُ وَ مِنْھُمُ الْمُعْتَزِلَۃُ وَ مِنْھُمُ الْمُرْجِیْئۃُ
خلاصہ یہ ہے کہ آج حنفیت تمام گمراہیوں کا معجون مرکب ہے اور یہ سب تقلید کی برکت ہے ۔ قادری صاحب آپ حیران نہ ہوں کہ یہ فرقے حنفیت میں ضم کیسے ہو گئے۔ چنانچہ یہ تمام فرقے حنفیت کی طرح عمل تقلید سے پیدا ہوئے تھے۔ تقلید ان کی ماں تھی ‘ اس کا ان سب نے دودھ پیا تھا۔ اس لیے یہ سب جمع ہو گئے۔ ان سب میں ایک چیز اب مشترک ہے‘ وہ ہے حدیث کو ٹھکرا دینا اور اہل حدیث کو برا کہنا۔ جیسا کہ شاہ عبدالقادر جیلانی کے حوالہ سے اوپر واضح ہوا کہ تمام بدعتی اور گمراہ فرقوں کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل حدیث کو برا سمجھتے ہیں اور برا کہتے ہیں۔
پھر قادری صاحب فرماتے ہیں کہ ائمہ مجتہدین کے مقلدین ا ور روافض کے علاوہ کوئی بھی اہم اور نمایاں فرقہ باقی نہ رہا۔ میں کہتا ہوں قادری صاحب جب آپ کی تقلید کی برکت نے ستر اکہتر فرقوں کو نیست و نابود کر دیا تو روافض کیسے بچ گئے۔ کیا آپ نے روافض کو نیست و نابود کرنا نہیں چاہا‘ کیوں کہ ان سے قارورہ مل گیایا وہ نیست و نابود ہوئے نہیں۔ کیوں کہ ان کے رفض کی برکت آپ کی برکت سے زیادہ تھی۔ اگر روافض کی برکت زیادہ تھی تو آپ کو بھی رافضی ہو جانا چاہیے تھا۔ کیوں کہ انصاف کا تقاضا یہی تھا۔ قادری صاحب اب یا تو آپ یہ تسلیم کریں کہ آپ کا اور روافض کا قارورہ ملتا ہے یعنی آپ اور وہ ایک ہی ہیں یا یہ تسلیم کریں کہ آپ ان سے ہار گئے ہیں اور اب وہ آپ پر سوار ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ ہر حنفی تقریبا آدھا رافضی ضرور ہوتا ہے۔ الا ما شاء اﷲ ۔!
پھر قادری صاحب فرماتے ہیں ۔ اب انگریز کی آمد سے فرقہ غیر مقلدین ظہور پذیر ہوا۔ قادری صاحب میں کہتا ہوں فرقہ غیرمقلدین تو انگریز کی آمد سے ظہور پذیر ہوا وہ پہلے ستر اکہتر فرقے جن کو آپ کی تقلید نے موت کی نیند سلا دیا کون تھے ؟ اگر وہ بھی غیر مقلد تھے تو پھر آپ کا یہ کہنا غلط ہے کہ فرقہ غیر مقلد ین اب ظہور پذیر ہوا۔ اگر وہ مقلد تھے تو پھر آپ کا یہ کہنا غلط ہے کہ کثرت فرق ترک تقلید کا نتیجہ ہے۔ اب آپ سوچ لیں اس میں سے کون سی بات صحیح ہے ‘ قادری صاحب حقیقت یہ ہے کہ میں نے آپ جیسا کند ذہن اور غبی کوئی مقلد نہیں دیکھا۔ کوئی بات بھی عقل کی نہیں کرتے۔
قادری صاحب آپ کہتے ہیں فرقہ غیرمقلد اب ظہور پذیر ہوا ہے ‘ میں پوچھتا ہوں آپ کی تقلید کی برکت اب کہاں گئی جو یہ فرقہ پیدا ہو گیا‘ کیا وہ بوڑھی ہو گئی یا مر گئی ۔ اب اگر آپ کی تقلید بے برکت ہو گئی ہے۔ اس میں جان نہیں رہی تو پھینکیے اس مردے کو ‘ اس کی لاش کو کیوں اٹھائے پھر رہے ہیں۔ اس سے توبہ کرکے اہل حدیث ہو جائیں۔ دین محمدی کو قبول کرلیں۔ اس میں بڑی برکتیں ہیں۔ تقلید میں نہ تو پہلے کوئی برکت تھی نہ اب۔ یہ آپ کا مغالطہ تھا کہ تقلید میں برکت ہوتی ہے بھلا گمراہی میں بھی کبھی برکت ہو سکتی ہے۔ تقلید بہت بڑی گمراہی ہے۔
پھر آپ کہتے ہیں فرقہ غیر مقلدین پر بمشکل ایک صدی گزری ہے ‘ لیکن یہ فرقہ مختلف گروہوں اور پارٹیوں میں بٹ چکا ہے‘ قادری صاحب میں پوچھتا ہوں اس سے اہلحدیث پر کیا حرف آتا ہے۔ آپ خود لکھتے ہیں اس تھوڑی سی مدت میں مسلمانوں میں کثرت سے فرقے پیدا ہوئے کہ پناہ بخدا رسالہ مذکور صفحہ 5 جب اتنے فرقے پیداہوجانے سے اسلام پر کوئی حرف نہیں آتا تو اہل حدیث پر کیا حرف آ سکتا ہے‘ آپ ہی بتائیں جب حنفیت ‘ دیوبندیت اور بریلویت میں اس بری طرح بٹ گئی کہ وہ ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں تو آپ حنفیت کے بارے میں کیا کہیں گے۔ آپ نے عبث کئی صفحات سیاہ کیے کہ فلاں اہل حدیث نے فلاں کے بارے میںیہ کہا ‘ فلاں کے بارے میں یہ کہا۔ اگر آپ اپنے گھر کو دیکھ لیتے کہ آپ کی آپس میں اور بریلویوں سے کیسی گزرتی ہے تو کبھی اہل حدیث کو طعن نہ دیتے۔ سچ ہے ‘ اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر نہیںآتا اور دوسروں کا تنکا بھی نظر آ جاتا ہے‘ اس کے علاوہ اگر مذہب حق ہے تو اختلاف رجال سے اس مذہب پر کوئی حرف نہیںآتا۔ کیا مسلمانوں کے افتراق سے اسلام غلط ہو جائے گا۔ مسلمان ہزار فرقے بنائیں‘ ہزار بار لڑیں ‘ اسلام پر کوئی حرف نہیں آتا۔
پھر قادری صاحب نے سارا زور یہ ثابت کرنے میں صرف کیا کہ مرزا غلام احمد‘ عبداﷲ چکڑالوی‘ نیاز فتح پوری‘ اسلم جیراج پوری‘ نور دین بھیروی اور پرویز وغیرہ سب غیر مقلد تھے۔ میں کہتا ہوں اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ مرتد ہونے سے پہلے یہ لوگ اہل حدیث تھے تو اس سے اہل حدیث پر کیا حرف آتا ہے۔ قادری صاحب آپ مقلد ہیں جو ایسی بے عقلی کی باتیں کرتے ہیں۔ اگر تقلید نے آپ کی مت مار نہ دی ہوتی تو ایسی احمقانہ باتیں کبھی نہ کرتے۔ آپ بتائیں حضور صلی اﷲعلیہ وسلم پر ایمان لانے والوں میں سے جو مرتد ہوئے ان سے حضور ﷺ پر یا جماعت صحابہ پر کوئی حرف آیا۔ شیطان کے راندہ درگاہ ہونے سے جماعت ملائکہ پر کوئی اثر پڑا؟ اگر اسلام سے کوئی منحرف ہو جائے تو اسلام پر کوئی دھبہ آ سکتا ہے ؟ قادری صاحب کسی کے راہ حق سے ہٹ جانے سے راہ حق خراب نہیں ہوتا‘ بلکہ صاف ہو جاتا ہے ۔ جب ایک مسلمان اقالہ بیعت کرکے مدینہ چھوڑ کر جانے لگا تو آپ نے فرمایا تھا مدینہ بھٹی ہے ‘ یہ منافق اور گندے کو برداشت نہیں کرتا۔ جس کے اندر گند ہوتا ہے وہ حق کو چھوڑ کرجاتا ہے۔ اس سے حق پر طعن نہیںآتا۔ اگر لوگ سچ بولنا ترک کریں اور جھوٹ کو اپنا شعار بنا لیں تو کیا سچ پر کوئی حرف آئے گا۔ قادری صاحب آپ احمد رضا خاں صاحب بریلوی کو کیا سمجھتے ہیں ‘ کیا وہ آپ کے نزدیک امام الضالین والمضلین نہ تھے‘ ان کا ظہور حنفیت میں ہی ہوا اور حنفیت میں ہی وہ پروان چڑھے‘ حنفیت کو ہی انھوں نے چار چاند لگائے۔ آپ بتائیے ان کی وجہ سے کیا حنفیت پلید ہو گئی ؟ اگر احمد رضا خاں صاحب کے ظہور سے حنفیت کو کچھ نہیں ہوا تو مرزائی یا کسی کے خروج سے اہل حدیث کو کیا ہوجائے گا؟
آپ نے مرزا غلام احمد کو اہل حدیث ثابت کرنے پر بڑا زور دیا ہے ۔ اگرچہ آپ کی یہ کوشش عبث ہے کیوں کہ ان کے اہل حدیث یا حنفی ثابت ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا جیسا کہ اوپر ثابت ہوا ۔ لیکن اگر آپ اسے ہی معیار بناتے ہیں تو یہ آپ کے ہی خلاف ہے کیوں کہ مرزا صاحب کو اہل حدیث سے ہمیشہ نفرت رہی۔ قبل از دعویٰ نبوت بھی اور بعد از دعویٰ نبوت بھی۔ملاحظہ ہو اخبار البدر 20شعبان 1320ھ جس میں ان کا بیان ہے کہ ’’ میں وہابیوں سے ہمیشہ متنفر رہا ہوں‘‘ عبداﷲ سنوری مرزائی کہتے ہیں مرزا صاحب نہ رفع یدین کرتے ‘ نہ آمین بالجہر اور بسم اﷲ بھی اونچی آواز سے نہیں پڑھتے تھے۔ ملاحظہ ہو سیرت المہدی بلکہ ان کے خیال میں مرزا صاحب کٹر حنفیوں میں سے تھے جو چالیسواں وغیرہ کے بھی قائل ہیں۔ مرزا صاحب کو دعویٰ نبوت کے بعد حنفیت ہی سچی نظر آتی تھی۔ اس لیے حنفیت ہی انھیں عزیز تھی۔ چنانچہ وہ اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔ پس مذہب اسلم یہی ہے کہ نہ تو اس زمانہ کے اہل حدیث کی طرح حدیثوں کی نسبت یہ اعتقاد رکھا جائے کہ قران پر وہ مقدم ۔۔۔‘‘ پھر آگے چل کر لکھتے ہیں :’’ اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کرلیں کیوں کہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادے پر دلالت کرتی ہے۔‘‘ ریویو پر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی صفحہ 9-10 الفاظ پر غورکریں ۔ مرزا صاحب کس طرح اس زمانے کے اہل حدیثوں کے خلاف ہیں اور کس طرح احناف کے حق میں ہیں۔
آپ کہتے ہیں مرزا صاحب ابتداً غیر مقلد تھے ‘ میں کہتا ہوں ابتدا وہ کچھ بھی ہوں نبوت کے بعد ان کو حنفیت ہی پسند تھی اور یہ آپ کی حنفیت کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہے کہ چودہویں صدی کا ایک نبی ان کی تصدیق کرتا ہے‘ اور اس سے محبت کرتا ہے لیجیے!قادری صاحب لینے کے دینے پڑ گئے نا۔۔۔ ڈالتے تھے مرزا صاحب کو ہمارے پلے‘ پڑ گیا آپ کے گلے۔ کیوں کہ مرزا صاحب کو اہل حدیث کے اصول پسند نہ تھے بلکہ حنفیت پسند تھی جبھی وہ اپنی امت کو فقہ حنفی پر عمل کرنے کی تلقین کرتے تھے۔
رہ گیا آپ کا یہ کہنا کہ مرزا صاحب سینے پر ہاتھ باندھتے تھے اور امام کے پیچھے الحمد شریف پڑھتے تھے‘ تو میں کہتا ہوں ہلدی کی گٹھی سے جیسے کوئی پنساری نہیں بن جاتا ایسے ہی ایک آدھ فعل سے کوئی اہل حدیث نہیں بن جاتا۔ سینے پر ہاتھ باندھنے اور الحمد شریف پڑھنے سے اگر ان کو اہل حدیث کہاجا سکتا ہے تو آمین بالجہر تو اہل حدیث کی خاص علامات ہیں۔ امام کے پیچھے الحمد شریف پڑھنے کے قائل تو بڑے بڑے احناف بھی ہیں جیسا کہ امام محمد وغیرہ۔ کیا آپ ان کو بھی اہل حدیث کہیں گے۔ اہل حدیث کا مذہب تو ہر صحیح اور محکم حدیث پر عمل کرنا ہے۔ جس کے مرزا صاحب بھی منکر ہیں اور آپ بھی اور یہ قدر آپ میں اور مرزائیوں بلکہ تمام فرق باطلہ میں مشترک ہے۔
اس کے بعد قادری صاحب نے ایک نئے باب کا افتتاح کیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں غیر مقلد ین کا یہ کہنا کہ ہم اتباع حدیث کے جذبہ کے تحت تقلید نہیں کرتے۔ بالکل غلط ہے۔ان کے ترک تقلید کا اصل باعث ان کی سہولت پسندی اور آرام طلبی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے مسائل کا سلسلہ چھیڑا ہے‘ جن کی وجہ سے وہ اہل حدیث کو مطعون کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے مسائل کا سلسلہ تو چھیڑ دیا ‘ لیکن یہ نہ سوچا کہ ان میں ان کی اپنی ہی ذلت ہے‘ کیوں کہ ان ہی کے مسائل گندے ہیں اور یہ ان کے مسئلے ہیں‘ اہل حدیث کا تو کوئی مسئلہ گندہ نہیں۔ کیوں کہ ان کا مذہب صرف صحیح حدیث ہے‘ کسی چھوٹے بڑے عالم کا مسئلہ ان کا مذہب نہیں۔ اگر اہل حدیث بھی عالموں کے مسئلوں کے پابند ہو جائیں تو پھر ان میں اور مقلدوں میں کیا فرق ؟ ایک مقلد اور ایک اہل حدیث میں یہی فرق ہے کہ ایک مقلد کو اپنے امام اور اپنے عالموں کی ہر بات کو ماننا ہوتا ہے خواہ غلط ہو یا صحیح۔ کیوں کہ تقلید کی وجہ سے وہ مجبور ہے‘ لیکن ایک اہل حدیث صرف صحیح بات کو ہی مانتا ہے‘ کیوں کہ وہ کسی کا مقلد نہیں حتی کہ وہ حدیث بھی صحیح کو مانتا ہے جو صحیح نہ ہو اس کو رد کر دیتا ہے۔ قادری صاحب میں آپ کی عقل کو کیا کہوں ‘ آپ کی کوئی بات سیدھی نہیں‘ ہر بات الٹی ہے۔ آپ یہ بتائیں جن کتابوں اور عالموں کا نام لے کر آپ ہمیں الزام دیتے ہیں ‘ کیا ہم ان کے مقلد ہیں ؟ اگر مقلد ہیں تو آپ ہمیں غیر مقلد کیوں کہتے ہیں۔ اگر مقلد نہیں تو ہمیں کسی کے غلط مسئلے کا الزام کیوں دیتے ہیں۔
قادری صاحب ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ فلاں امام یا عالم کا یہ مسئلہ غلط ہے کیوں کہ قرآن وحدیث کے مطابق نہیں‘ لیکن آپ میں یہ جرأت نہیں‘ آپ کا ایمان اﷲ ‘ رسول پر کم اور اماموں اور حنفی مولویوں پر زیادہ ۔ اس لیے آپ قرآن و حدیث کو چھوڑ دیتے ہیں اور اماموں کو نہیں چھوڑتے۔ ہم قرآن و حدیث کے مقابلے میں کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔
اب آئیے! مسائل کی طرف ۔ آپ فرماتے ہیں چونکہ بیس تراویح پڑھنا اہلحدیث کے نفوس پر شاق ہے‘ اس لیے انھوں نے آٹھ رکعت تراویح کو اپنا معمول بنا لیا‘ میں کہتا ہوں آٹھ کو ہم نے معمول نہیں بنایا ‘ آٹھ تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا معمول ہے۔ اور ہم چونکہ اہل سنت ہیں اس لیے ہم سنت رسولؐ پر ہی کاربند ہیں خواہ وہ مقدار میں کم ہو یا زیادہ ۔ یہ آپ کی بدقسمتی ہے کہ آپ لوگوں کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا معمول پسند نہیں‘ اپنا بنایا ہوا معمول پسند ہے۔ رہ گیا بیس تراویح کا اہل حدیث کے نفوس پر شاق ہونا تویہ آپ کی اختراع ہے۔ اہل حدیث کے نفوس پر کوئی بھی سنت رسول ؐ شاق نہیں ‘ مشکل ہو یا آسان‘ کم ہو یا زیادہ۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے عیدین میں بارہ تکبیریں کہیں‘ ہم بارہ کہتے ہیں۔۔۔ لیکن آپ بدقسمت ہیں جو چھ کہتے ہیں۔ حضور ﷺ نے پونے تین سیر صدقہ دیا ‘ ہم وہی دیتے ہیں‘ لیکن آپ پونے دو سیر دیتے ہیں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے چھ روزے شوال کے رکھے‘ ہم رکھتے ہیں ‘ لیکن آپ کے امام نے پسند نہ کیا۔ اس لیے انکار کردیا۔ حضور ﷺ نے صلوٰۃ استسقاء پڑھی ‘ ہم پڑھتے ہیں۔ لیکن آپ کے امام کو پسند نہ آئی اس لیے رد کر دیا۔ اصل میںآپ کے نفوس پر نبیؐ کی پیروی شاق ہے۔ اس لیے آپ کمی بیشی کرتے ہیں‘ دین کو دین سمجھ کر نہیں لیتے۔ بے دینی بنا کر لیتے ہیں۔
تراویح تطوع ہے‘ جس میں کوئی تحدید نہیں‘ لیکن آپ نے دین محمدی پر ظلم کیا کہ اس کو اپنی طرف سے محدود کر دیا۔ یہ احناف کی سہولت پسندی ہے کہ ایک غیر محدود تعداد کو جو چالیس اور چھپن اور زیادہ بھی ہو سکتی ہے اپنے مطلب کے لیے بیس پر محدود کر دیا۔ اب بتائیے!دین کو آپ نے گھٹایا یا ہم نے۔ ہم کہتے ہیں تراویح چالیس اور چھپن بھی ہو سکتی ہے آپ کہتے ہیں بیس سے زائد نہیں ‘ آپ بیس کی شیخی تو تب ماریں جب آپ ہم سے زیادہ وقت لگاتے ہوں‘ جتنی دیر میں ہم آٹھ پڑھتے ہیں‘ اس سے تھوڑی دیر میں آپ بیس پڑھ لیتے ہیں پھر آپ کس بات پر فخر کرتے ہیں‘ بلکہ آپ تو خسارے میں رہتے ہیں۔ بیس مقرر کر کے ایک تو آپ نے دین بگاڑا ‘ دوسرے ٹھونگے مارے‘ نماز کا ستیاناس کیا۔ تیسرے اہل حدیث پر طعن کیا اور اپنی آخرت کو برباد کیا۔ رسول اﷲ ﷺ کی یہ حدیث آپ جیسے مخالفین سنت کے لیے ہی تو ہے:
((کَمْ مِنْ صَاءِمٍ لَیْسَ لَہ‘ مِنْ صِیَامِہٖ اِلاَّ الظَّمَأُ وَ کَمْ مِنْ قَاءِمٍ لَیْسَ لَہ‘ مِنْ قِیَامِہٖ اِلاَّ السَّھْرُ ))۹
کتنے روزے دار ہیں کہ سوائے بھوکے پیاسے مرنے کے ان کے نصیب میں کچھ نہیں‘ کتنے تراویح پڑھنے والے ہیں کہ سوائے بے خوابی کے ان کی قسمت میں کچھ نہیں۔ حنفیوں کی بیس سے تو بہتر ہے کہ دو رکعت اہل حدیث کے پیچھے پڑھ لے‘ کچھ ثواب تو مل جائے ۔ اول تو بیس کی تعداد نہ مسنون ہے نہ مقرر ‘ لیکن اگر تنزلاً مان بھی لیا جائے تو آپ کی مثال اس بے نماز کی ہے جو نماز کا تارک بھی ہے اور منکر بھی کیوں کہ آپ بیس سے زائد کے منکر بھی ہیں اور پڑھتے بھی نہیں اور ہم اگرچہ ہمارا اکثر یہ عمل آٹھ ہی ہے کیوں کہ یہی مسنون تعدا د ہے ‘ لیکن ہم زیادہ کے منکر نہیں ۔ ہم دین کو اصلی حالت پر رہنے دیتے ہیں‘ بڑھاتے گھٹاتے نہیں۔
آپ فرماتے ہیں تین وتر پڑھنا چوں کہ ان کی طبیعتوں پر گراں تھا اس لیے انھوں نے ایک رکعت وتر پر اکتفا کیا‘ قادری صاحب ہم ایک وتر اس لیے نہیں پڑھتے کہ تین ہم پڑھ نہیں سکتے ہیں ‘ ہم ایک وتر اس لیے پڑھتے ہیں کہ ایک وتر کا آپ لوگ انکار کرتے ہیں۔ آپ ایک وتر کا انکار کرتے رہیں اور ہم بھی ایک نہ پڑھیں تو دین تو گیا۔ حالانکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اِنَّ اﷲَ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ فَاَوْتِرُوْا یٰاَھْلَ الْقُرْاٰن )) ۱۰
یعنی وتر ایک رکعت ہی ہے‘ اگر رکعتیں تین‘ پانچ‘ سات ‘ نو گیارہ بھی پڑھی جائیں تو وتر ایک ہی رکعت ہوگا۔ مجازًا اس ساری تعداد کو وتر کہہ دیتے ہیں ورنہ حقیقت میں وتر ایک ہی ہے‘ لیکن آپ لوگ اس کے منکر ہیں۔اب اگر ہم بھی اس پر عمل نہ کریں تو حضور کی یہ
سنت تو گئی‘ بخاری وغیرہ میں حضرت معاویہؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا صرف ایک وتر پڑھنا بھی ثابت ہے۔ ممکن ہے صحابہ کا معمول عام طور پر ایک رکعت وتر سے زیادہ ہو ‘ لیکن اس زمانے میں ایک کو معمول بنانا اشد ضروری ہے جب کہ آپ جیسے دشمنان سنت بکثرت موجود ہیں اور اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ اس سنت کو مٹادیں۔
قادری صاحب ‘ یہ تو آپ کو آگے چل کر پتا چلے گا کہ کس طرح آپ دین کو مٹا رہے ہیں اور کس طرح ہم بچا رہے ہیں۔ آپ یقین جانیں اگر اہل حدیث نہ ہوتے تو آپ لوگوں کی کرم فرمائیوں سے جو آپ دین پر کرتے آئے ہیں دین کا حلیہ بگڑ جاتا‘ پہلی شریعتیں اسی لیے تو برباد ہوئیں کہ ان میں آپ جیسے کرم فرما تو پیدا ہوتے رہے۔ لیکن (فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَاءِ وَ ھُمُ الَّذِیْنَ یُصْلِحُوْنَ مَا اَفْسَدَ النَّاسُ مِنْ بَعْدِیْ مِنْ سُنَّتِیْ ) ۱۱ہمارے جیسے مصلحین سنت پیدا نہ ہوئے ۔ یہ شریعت محمدی چونکہ آخری شریعت ہے‘ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کے لیے اہل حدیث کو باقی رکھا جو کہ رسول اﷲ ﷺ کی اس حدیث کا مصداق ہیں۔
((لاَ یَزَالُ مِنْ اُمَّتِیْ امتہ قَائمَۃٌ بِاَمْرِاﷲِ لاَ یَضُرُّھُمْ مَنْ خَذَلَھُمْ وَ لاَ مَنْ خَالَفَھُمْ حَتّٰی یَاْتِیَ اَمْرُ اﷲِ وَ ھُمْ عَلٰی ذٰلِکَ )) ۱۲
امت محمدیہ میں ایک جماعت ایسی ضرور رہے گی جو اﷲ تعالیٰ کے دین کی نگران ہوگی اور کوئی مخالف ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ اور وہ جماعت قیامت تک رہے گی۔
قادری صاحب اگر آپ کہیں کہ حنفی تین وتر پڑھتے ہیں اور اہل حدیث ایک ۔ اس لیے ثواب زیادہ حنفیوں کو ملے گا تو میں کہوں گا ثواب عقیدے کے صحیح ‘ نیت اور سنت پر عمل کرنے میں ہے‘ ثواب قلت اور کثرت میں نہیں۔ آپ ثواب زیادہ کی بات کرتے ہیں مجھے ڈر ہے کہ آپ پکڑے نہ جائیں۔ آپ کا ایک جرم یہ کہ آپ ایک اور تین سے زائد وتروں کا انکار کرتے ہیں جو صریحاً رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مخالفت ہے دوسرے آپ جو تین پڑھتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے تین پڑھے بلکہ اس لیے کہ آپ کے خانہ ساز مذہب میں وتر تین ہیں۔ اگر آپ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت سمجھ کر تین پڑھتے تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک بھی پڑھا ہے اور پانچ ‘ سات ‘ نو وغیرہ۔ لیکن آپ ان کے منکر ہیں۔اصل میں مقلدوں کا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان ہی نہیں۔ وہ ان کے ہاتھ سے کچھ لے لینا چاہتے ہی نہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمیں تو ہمارے امام کے گھر سے جو ملے گا ہم وہ لیں گے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ سے ہم کچھ نہیں لیتے۔ حالانکہ مزہ اور ثواب حضور ﷺ کے ہاتھ سے لینے میں ہے۔ بلکہ اسلام ہی یہی ہے۔ تیسرا جرم آپ کا یہ کہ جو تین وتر آپ پڑھتے ہیں وہ بھی خلاف طریقہ محمدی پڑھتے ہیں۔ حضور وتروں میں تشہد نہیں بیٹھتے تھے‘آپ بیٹھتے ہیں۔ حضور ﷺ نے ایسے تین وتر پڑھنے سے منع فرمایا ہے جو مغرب کے مشابہ ہوں‘ یعنی جن میں دو کے بعد تشہد ہو۔ لیکن آپ نہیں مانتے۔ آپ نے خلاف منشا رسول قنوت کو وتروں کا لازمہ بنا یا تاکہ مغرب میں اور وتروں میں فرق ہو جائے آپ نے قنوت کو واجب قرار دیا پھر تارک پر سجدہ سہو لازم کیا۔ یہ سب کچھ اپنی طرف سے کیا اور خلاف منشاء رسول کیا۔ اس لیے آپ ثواب کی امید کی بجائے عذاب سے ڈریں۔ رہ گیا ہمارا ایک پڑھنا تو اگرچہ یہ تعداد میں تین سے کم ہے لیکن ثواب اسی میں ہے۔ کیوں کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہندوستان میں گائے کی قربانی ہندو نہیں چاہتا کہ گائے ذبح ہو‘ اگر مسلمان بھی ان کی خاطر گائے کی قربانی چھوڑ دیں تو پھر یہ سنت تو گئی‘ دین کا یہ حصہ تو مٹ گیا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث (( مَنْ تَمَسَّکَ بِسُنَّتِیْ عِنْدَ فَسَادِ اُمَّتِیْ فَلَہ‘ اَجْرُ مِاءَۃِ شَہِیْدٍ)) ۱۳یہی تو بتاتی ہے کہ جب حنفی ایک وتر کا انکار کریں تو تم ایک ہی پڑھنا۔ تاکہ میری سنت نہ مٹے ثواب کی پرواہ نہ کرنا‘ وہ ہے ہی سنت کی حفاظت کرنے والوں کے لیے۔
پھر فرماتے ہیں اڑتالیس میل سفر کرکے قصر کرنا چونکہ ان کے لیے مشکل تھا۔ اس لیے انھوں نے تین میل پرقصر کرنا شروع کر دیا۔
قادری صاحب !میں کہتا ہوں اڑتالیس میل مسافت قصر کس نے مقرر کی؟ کیا یہ مسافت رسول اﷲ ﷺ نے مقرر کی ؟ اگر یہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے مقرر نہیں کی تو کوئی مسلمان اس کا پابند کیوں ہو‘ آپ ہمیں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی مقرر کردہ مسافت بتائیں‘ پھر دیکھیں اہل حدیث تو زندہ ہی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کے لیے ہیں۔ آپ خواہ مخواہ ہمیں اپنا تابع مجہول بناتے ہیں۔
تین میل پر قصر کرنا ہمارا مذہب نہیں‘ ہمارا مذہب تین فرسخ ہے جیسا کہ مسلم شریف میں ہے۔۱۴
قادری صاحب !آپ نے تین مسئلے ذکر کیے اور تینوں میںآپ چور نکلے اور الزام ہمیں دیتے ہیں۔
1۔۔ ۔تراویح بیس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہیں‘ لیکن آپ اس کے منکر ہیں۔
2۔۔۔ وتر گیارہ بلکہ تیرہ تک ہیں۔ آپ نے سب کا انکار کر دیا ور گھٹا کر تین کر دیے۔
مدت قصر بھی آپ نے اپنی سہولت کے لیے چودہ دن بنا لی‘ حالانکہ مدت قصر تین چار ر وز سے زیادہ نہیں‘ جیسا کہ احادیث میں ہے۔ آپ چودہ دن نماز کا خون کرتے ہیں‘ آپ لوگ فقاہت کے تو بہت دعوے کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ مدت قصر ہے کس لیے؟ مسافر جب کسی جگہ آ کر ٹھہرتا ہے تو تین چار روز میں اس کی تھکن بھی دور ہو جاتی ہے اور روانگی کی تیاری بھی مکمل ہو جاتی ہے ‘ چودہ دن تک وہ قصر کرتا رہے ‘ اس کی کیا تک ہے ؟ آخر نماز کا معاملہ ہے‘ اگر یہ حضور ﷺ کا فرمان ہوتا تو اٰمَنَّا وَ صَدَّقْنَا لیکن یہ آپ لوگوں نے خود گھڑا ہے‘ اس سے بڑی سہولت پسندی ‘ سہل انگاری ہوائے نفس اور کیا ہو سکتی ہے‘ لیکن بے شرمی کے ساتھ سہولت پسندی کا الزام ہمیں دیتے ہیں۔ ہم تو پابند ہیں سنت رسول ؐ کے اس میں کوئی چیز کم ہو یا زیادہ جہاں صحیح سنت نہ ہو ہم کسی کے مقلد کیوں بنیں۔ پھر آپ نے تین طلاق کا مسئلہ چھیڑا ہے۔ شرم والے حنفی تو تین طلاق کے دفعتاً واقع ہونے کا مارے شرم کے نام ہی نہیں لیتے ‘ کیوں کہ اس کے پیچھے حنفیوں کے گھناؤنے حلالے کی ایک طویل اور شرمناک تاریخ موجود ہے۔ جس میں حنفیوں نے مذہب کے نام پر پتا نہیں کتنی عصمتیں لوٹی ہیں اور کتنے زنا کراکر ان پر مذہبی تقدس کا پردہ چڑھایا ہے۔
قادری صاحب ! آپ کہتے ہیں تین طلاق کا وقوع اہل حدیث کے نفوس کو پسند نہیں ‘ میں کہتا ہوں ہمیں یہ اس لیے پسند نہیں کہ اس سے حلالے جیسی قبیح اور ننگ انسانیت چیز جنم لیتی ہے اور آپ کو یہ اس لیے پسند ہے کہ اس کے بعد آپ کوحلالے کے مزے ملتے ہیں ہمیں تین طلاق کا یکایک وقوع اس لیے پسند نہیں کہ یہ خلاف سنت ہے اور طلاق بدعی آپ بھی اسے کہتے ہیں۔
قادری اینڈ کمپنی نے اسی پر ایک رسالہ لکھ مارا کہ ایک غیر مقلد عالم نے فتویٰ دیا ہے کہ مجلس واحد کی تین طلاقیں تین ہی ہو جاتی ہیں۔
قادری صاحب ! آپ کو غیر مقلد عالم تو نظر آ گیا لیکن اپنے گھر کی خبر ہی نہیں کہ ہندوستان کے کتنے حنفی علما نے جب اور کوئی چارہ کار نہ دیکھا تو فتویٰ اہل حدیثوں کے مطابق دیا۔ حال ہی میں ہندوستان میں جو اس سلسلے میں کانفرنس ہوئی اس میں بھی حنفی علما نے اہل حد یثوں سے اتفاق کیا اور ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک تسلیم کیا۔ قادری صاحب کبھی سونٹا اپنی چارپائی کے نیچے بھی پھیر لیا کریں۔ کبھی اپنے گھر کی بھی خبر لے لیا کریں کہ وہاں اندر کیا ہوتا ہے۔ اندھے مقلد ہی نہ بنے رہیں کہ کچھ دیکھیں ہی نہ۔
رہ گیا مرغ اور انڈے کی قربانی کا مسئلہ تو یہ نہ کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے نہ یہ اہل حدیث کا مذہب ہے‘ جو اس کا فتویٰ دیتا ہو وہ اس کا ذمے دار ہے ۔ لوگوں کے فتوے اہل حدیث کا مذہب نہیں ‘ اہل حدیث کا مذہب صحیح حدیث ہے آپ جانتے بھی ہیں کہ اہل حدیث کسی کے فتوے کے پابند نہیں ‘ پھر ہم پر اعتراض کرتے ہیں ۔
قادری صاحب! اس کے بعد آپ نے جو مسائل بیان کیے ہیں ‘ میں پوچھتا ہوں وہ کسی صحیح حدیث سے ثابت ہیں؟ اگر وہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں تو وہ ہمارے مسئلے نہیں کیوں کہ ہم اہل حدیث ہیں۔ ہمارا مذہب صحیح حدیث ہے اور اگر وہ کسی صحیح حدیث سے ثابت ہیں تو بتائیے آپ صحیح حدیث کو مانتے ہیں یا نہیں ۔ اگر نہیں مانتے تو آپ تسلیم کریں کہ آپ منکر حدیث ہیں اور اگر صحیح احادیث کو مانتے ہیں تو پھر وہ مسئلے آپ کے بھی ہیں ‘ ہم پر اعتراض کیسا؟ لہذا آپ سوچ لیں کہ آپ کون ہیں ؟
قادری صاحب! یہ تو تھا آپ کے تمام مسائل کا اصولی جواب لیکن مقلد کو اصول سے کیا تعلق ‘ اصول تو عقل والے کے لیے ہوتا ہے۔ مقلد عقل سے عاری ہوتا ہے۔ اگر وہ عقل والا ہو تو تقلید کیوں کرے۔(اَلَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہ‘) [39:الزمر:18]انسانوں کی طرح اپنی سمجھ سے کام لے کر اچھی چیز کو نہ اپنائے۔ اصل میں مقلد تو پاگل ہوتا ہے اور پاگل کی یہ خصلت ہے کہ اگر اسے کوئی نہ چھیڑے تو وہ خود چھیڑتا ہے‘ تاکہ لوگ اسے چھیڑیں‘ اس میں اس کو مزا آتا ہے۔
قادری صاحب! نے بھی مزا لینے کے لیے ان مسائل کو چھیڑا ہے‘ اصل میں جو جس کے لائق ہو ‘ جب تک اسے وہ نہ ملے اس کی تسلی نہیں ہوتی۔ اس لیے ہم قادری صاحب کو وہی دیتے ہیں جس کے وہ لائق ہیں۔ لیجیے قادری صاحب اپنی تصویر خود اپنی فقہ میں دیکھیے مقلد کی پاکی پلیدی کے معیار کو دیکھو‘ کتا وغیرہ حرام جانوروں کو اگر ذبح کر لیا جائے تو ان کا گوشت اور کھال سب کچھ پا ک ہے۔ کتے کی کھال کا ڈول بنا لو‘ کتے کی کھال کا لباس بنا لو‘ کتے کی کھال کا جا نما ز بنا لو ‘ کتے کا گوشت جیب میں ڈال کر نماز پڑھ لو حنفی مذہب میں یہ سب جائز ہے۔ ۱۵
کپڑے کو ساڑھے چار ماشہ پاخانہ یا کوئی اور نجاست غلیظہ لگی ہوئی ہو تو حنفی مذہب میں نماز ہو جاتی ہے۔۱۶
انگلی کو پاخانہ یا کوئی نجاست غلیظہ لگی ہوئی ہو تو تین دفعہ چاٹ لینے سے پاک ہو جائے گی۔ ۱۷
مقلد کی نماز کو دیکھو!بچے کو گودی میں اٹھا کر نماز جائز نہیں ‘ لیکن کتے کے بچے کو گودی اٹھا کر نماز جائز ہے۔ ۱۸
نماز میں ٹھہر ٹھہر کر جوئیں مارتا رہے تو نماز خراب نہیں ہوتی۔۱۹
پنکھا جھولتا رہے تو نماز فاسد نہیں ہوتی۲۰
مرد نما ز پڑھ رہا ہو اور عورت بوسہ لے لے تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔۲۱
سلام کی جگہ پاد مار کر نماز ختم کرے تو نماز صحیح ہے۔ ۲۲
امامت کا مستحق وہ ہے جس کی بیوی زیادہ خوبصورت ہو۔ ۲۳
امامت کامستحق وہ ہے جس کا سربڑا ہو اور عضو چھوٹا ہو۔۲۴
نماز فارسی کیا بلکہ ہر زبان میں جائز ہے ۔۲۵
مقلد کا وضو دیکھو کیسا پکا ہے جو ٹوٹتا ہی نہیں۔
مرد عورت ننگے ہوں اور ان کی شرم گاہیں مل جائیں ‘پھر بھی وضو نہیں ٹوٹتا۔ حالانکہ حدیث شریف میں ہے کہ شرم گاہ کو ہاتھ لگ جائے تو وضو دوبارہ کرے۔ ۲۶
زندہ یا مردہ جانور مثلا گدی ‘ گھوڑی‘ گائے ‘ بھینس ‘ بھیڑ‘ بکری یا کم عمر لڑکی سے جماع کیا تو وضو نہیں ٹوٹتا۔۲۷
مقلد اپنی مقعد میں انگلی داخل کرے اگر خشک نکل آئے تو وضو نہیں ٹوٹتا۔ ۲۸
مرد اپنی دبر میں یا عورت اپنی شرمگاہ میں کسی مردہ کا آلہ تناسل کسی زندہ جانور مثلا گدھا‘ گھوڑا‘ کتا‘ وغیرہ کا آلہ تناسل داخل کرے تو غسل فرض نہیں ہوتا۔۲۹
قادری صاحب !دیکھو یہ ہیں تقلید کی برکات۔
مقلد کا روزہ دیکھو۔!
اگر عورت کی شرم گاہ کو دیکھتا رہا اور انزال ہو گیا تو روزہ فاسد نہیں۔۳۰
مری ہوئی عورت سے صحبت کی یا نابالغہ سے صحبت کی یا جانور ‘ گدھی ‘ گھوڑی بکری وغیرہ سے صحبت کی تو روزہ فاسد نہیں ہوتا۔۳۱
ہاتھ وغیرہ سے منی نکال لے تو روزہ فاسد نہیں ہوتا۔۳۲
مرد عورت اپنی شرم گاہیں ملائیں تو روزہ خراب نہیں ہوتا۔۳۳
اگر سوئی ہوئی عورت یا پاگل عورت سے کوئی مقلد جماع کرے تو اس پر روزہ کا کوئی کفارہ نہیں۔۳۴
اگر عورت خاوند کی منی ہاتھ سے نکالنے میں اس کی مدد کرے تو روزہ فاسد نہیں ہوتا۔۳۵
اغلام بازی سے اپنی خواہش کی تسکین کرے تو روزہ کا کوئی کفارہ نہیں۔۳۶
زنا کے ڈر سے ہاتھ سے منی نکالے تو روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا( بلکہ ثواب کی امید ہے)۔۳۷
اس کے علاوہ شراب پینے اور چوری کرنے کی جتنی گنجائش حنفی تقلیدی مذہب میں ہے اتنی اور کسی مذہب میں نہیں۔ اسی طرح زنا اور لواطت کی بھی چھٹی ہے۔ بہت سی صورتیں ایسی ہیں جن میں کوئی حد نہیں۔ تفصیل کسی آئندہ جواب میں ہوگی۔
مقلد کا حج دیکھو۔!
دبر میں صحبت کرنے سے حج خراب نہیں ہوتا۔ ۳۸
حنفیوں کا عقیدہ ہے کہ ایمان ‘ آسمان اور زمین والوں کا برابر ہے۔ یعنی قادری جیسے کا ایمان اور جبرائیل علیہ السلام کا ایمان برابر ہے۔ ۳۹
مقلد کا قرآن پر ایمان ملاحظہ ہو۔ اگر نکسیر پھوٹ پڑے تو پیشانی پر خون اور پیشاب سے الحمد شریف لکھنا جائز ہے۔ ۴۰
قادری صاحب! ہمیں تو آپ اور آپ کے علوی صاحب غلامی کی باقیات میں سے بتاتے ہیں‘ لیکن جن کے یہ عقائد و اعمال ہوں جو اوپر مذکور ہوئے وہ کس کی ذریت ہوں گے آپ خود ہی فیصلہ کر لیں۔
مقلد کی عقل کا حال دیکھیں کیسی بے عقلی ہے۔ فتاویٰ عالمگیری ج2صفحہ 139 ہدایہ ص 289 میں یہ مسئلہ ہے کہ اگر کسی عورت کو شہوت سے ہاتھ لگا دیا یا شہوت سے اس کی شرمگاہ کو دیکھ لیا تو اس عورت کی ماں بیٹی اس ہاتھ لگانے یا دیکھنے والے مرد پر حرام ‘ لیکن اگر ہاتھ لگانے والا اتنی دیر تک ہاتھ لگاتا رہا کہ انزال ہو گیا یا ا س عورت سے دبر میں صحبت کرلی یا ا س بے چاری سے ایسے زور سے صحبت کی کہ اس کا اگلا پچھلا حصہ پھاڑ کر ایک کردیا تو نہ ماں حرام ‘ نہ بیٹی۔
قادری صاحب! اسے فقاہت کا کمال کہیں یا تقلید کی برکت کہ چھونے یا دیکھنے سے جو حرمت ثابت ہوئی تھی انزال اور صحبت سے ختم ہو گئی۔ حالانکہ حرمت پہلے ثابت ہو گی۔ انزال اور صحبت بعد میں ہوئی اس عورت کی ماں بیٹی تو ہاتھ لگتے ہی حرام ہو گئیں۔ اب اس عورت سے صحبت کرکے وہ کیسے حلال ہو جائیں گی۔ جب ہاتھ لگنے سے بیوی کے حکم میں ہو گی اور اس کی ماں بیٹی مصارف کی وجہ سے حرام ہو گئیں۔ تو مزید مساس اورصحبت سے وہ کیسے حلال ہو جائیں گی۔ جب ہاتھ لگنے سے وہ بیوی کے حکم میں ہوگی اور اس کی ماں بیٹی مصارف کی وجہ سے حرام ہو گئیں تو مزید مساس اور صحبت سے وہ حرمت پکی ہونی چاہیے یا ختم ۔ ؟ ہائے تقلید جو چاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے۔!
پھر تقویٰ کی بھی انتہا ہے کہ صرف ہاتھ لگنے سے تو حرمت ثابت لیکن اگر رگڑتا رہے یہاں تک کہ انزال ہو جائے تو حرمت ختم‘ شرمگاہ کو صرف دیکھ لینے سے تو حرمت موجود لیکن اگرایسی صحبت کرے کہ اگلا پچھلا حصہ پھاڑ کر ایک کر دے تو حرمت مفقود۔
قادری صاحب !آپ جیسے کیوں نہ قربان ہوں ایسی فقہ پر کہ جس میں مزے لینے کے لیے ایسے ایسے داؤ بتائے جاتے ہوں۔ کون احمق ہوگا جو اس مسئلے کو جان لینے کے بعد پھر صرف ہاتھ لگا کر یا دیکھ کر چلا جائے وہ کیوں نہ اگلی کارروائی کرے گاکہ حرمت بھی ختم ہو اور مزے بھی آئیں۔
آخر میں قادری صاحب !امام صاحب کی تقلید پر سختی سے کاربند رہنے کی اپیل کرتے ہیں ۔ میں پوچھتا ہوں کہ قادری صاحب ! اپنے امام کی تقلید پر سختی سے کاربند رہنے سے آپ کی کیا مراد ہے ؟ کیا یہ مراد ہے کہ امام صاحب کا نام لیتے رہو۔ حنفی کہلواتے رہو‘ لیکن ان کے مسئلے نہ مانو یا یہ مراد ہے کہ امام صا حب کے مسائل پر پابندی سے عمل کرو ‘ اگر آپ منافق نہیں بلکہ پکے سچے اور مخلص حنفی ہیں تو یقیناًآپ کی مراد یہی ہوگی کہ امام صاحب کی فقہ پر عمل کرو۔ اگر آپ کی یہی مراد ہے تو سنیے امام صاحب کا ایک خاص مسئلہ یہ ہے جو درمختار صفحہ 142 ‘ ہدایہ صفحہ 293 اور دیگر کتب فقہ میں ہے کہ اگر ایک آدمی کسی اجنبی اور غیر عورت پر جھوٹا دعویٰ کر دے کہ وہ میری بیوی ہے حالانکہ وہ اس کی بیوی نہیں اور جھوٹے گواہ گزار کر عدالت سے ڈگری لے لے تو وہ آدمی اس عورت کو بغیر نکاح کے بطور بیوی استعمال کر سکتا ہے اور وہ عنداﷲ بھی مجرم نہیں۔
قادری صاحب! اگر ایک خالص حنفی جو بقول آپ کے امام ابوحنیفہ صاحب کی تقلید پر سختی سے کاربند ہو اور آپ کی اپیل پر امام کے مسائل پر عمل کرنے کو جزو ایمان سمجھتا ہو امام صاحب کے اسی مسئلے پر آپ کے گھر پر عمل شروع کر دے تو آپ اسے پسند فرمائیں گے ۔ خصوصاً جب کہ وہ اس سے بغیر نکاح کے بیوی والے مزے لے رہا ہو تو آپ بھی خوش ہوں گے کہ یااﷲ تیرا شکر ہے حنفیت کی مردہ سنت میرے گھر سے زندہ ہوئی یا حنفیت کو روئیں گے کہ ہائے میں لٹ گیا۔ میری عزت برباد ہو گئی۔
قادری صاحب!آپ نے حنفیت پر پکے رہنے کی اپیل تو کردی لیکن یہ نہ سوچا کہ حنفیت اس قابل ہے کہ اس کو معاشرے پر نافذ کیا جا سکے‘ ایک مسئلہ تو آپ نے اوپر دیکھ لیا اب دوسرا سنیے۔!
بہشتی زیور حصہ چہارم صفحہ17,16 شرح البدایہ صفحہ338 اور درمختار ج 1ص 217 وغیرہ اکثر کتب فقہ حنفیہ میں ہے کہ زبردستی طلاق ہو جاتی ہے یعنی اگر کسی کو مار پیٹ کر ڈرا دھمکا کر طلاق لکھوا لی جائے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
قادری صاحب دیانت داری سے بتائیں اگر آپ سے کوئی ایسے ہی زبردستی طلاق لکھوا کر بیوی چھین لے تو آپ کا دل کیا کہے گا؟ آپ اسے اپنی سعادت سمجھیں گے یا شقاوت ۔ ایسی حنفیت کو آپ دعائیں دیں گے یا لعنتیں بھیجیں گے۔ قادری صاحب ایسی اپیل کرنے سے پہلے اگر آپ اپنے گھر بھی مشورہ کر لیتے تو وہ بھی آپ کو منع کر دیتے بلکہ سنا ہے فضل صاحب نے آپ کو منع بھی کیا تھا کہ بیٹا قادری!اپنی چادر سے باہر نہ نکل۔ ہماری فقہ ٹھیک نہیں۔ اس میں بڑے خراب خراب مسئلے ہیں اور اہل حدیثوں سے زور آزمائی نہ کر‘ ان کو ہمارے گھر کا سب پتا ہے خواہ مخواہ مٹی پلید ہوگی‘ تیری شامت آئی ہے جو تو ان کے منہ آتا ہے۔ان سے کبھی کوئی نہیں جیتا۔ ان کو حضور ﷺ کی دعا ہے ‘ لیکن قادری صاحب آپ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ آپ باز نہ آئے اور خواہ مخواہ اپنی اتروا لی۔قادری صاحب یہ تو شکر کریں کہ اکثر حنفی نام کے حنفی ہیں۔ نہ فقہ حنفی کو جانتے ہیں‘ نہ اس پر عمل کرتے ہیں۔ اگر آپ کی اس اپیل پر انھوں نے عمل شروع کر دیا تو کسی حنفی اور حنفن کی عزت محفوظ نہیں رہے گی۔
قادری صاحب! آپ کو ترکی کی تاریخ یاد نہیں آپ کی اس فقہ کے رد عمل ہی نے تو مصطفی کمال پاشا کا ذہن پیدا کیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ اگر فقہ پر عمل کرنے والے مولوی جنت میں چلے گئے تو دوزخ میں کوئی نہیں جائے گا۔ ایسی فقہ ہی تو لوگوں کو اسلام سے متنفر کرتی ہے۔عوام سمجھتے ہیں یہ بھی اسلام ہے حالانکہ کہاں اسلام اور کہاں گندے مسئلے جن سے حنفی فقہ بھری پڑی ہے۔
قادری صاحب!آپ نے اپنے رسالہ میں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ آپ غیر مقلدوں کی ایک مبسوط تاریخ لکھ رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں تاریخ لکھنی ہے تو حنفیوں کی لکھیں جن کی کوئی تاریخ تو ہے ‘ غیر مقلدوں کی کیا تاریخ لکھیں گے ‘ نہ ان کی عمر ‘ نہ ان کی تاریخ‘ نہ انھوں نے آپ کی نگاہ میں کوئی ترقی کی‘ ادھر انگریز کی آمد پر ظہور میں آئے ‘ ادھر ہٹ گئے۔ ترقی تو حنفیوں نے کی ہے اور ایسی کی ہے کہ نہ پہلے کوئی کر سکا نہ آئندہ کوئی کرے گا۔ انگریز لاکھوں میل دور اوپر تک چلے گئے حتی کہ چاند پر کمندیں ڈالنا شروع کر دیں ‘ ہزاروں میل اندر زمین میں گھس گئے اور بہت کچھ نکال لائے ‘ لیکن قادری صاحب آپ جیسی پیچھے کی طرف کسی نے ترقی نہ کی کہ اپنے آلہ تناسل کو اپنی ہی دبر میں داخل کرنے کی سوچ لی۔
قادری صاحب!آپ جیسے مولویوں نے حجروں میں اپنے طالب علموں کے ساتھ مل کر ایسے ایسے تجربے کیے کہ اﷲ کے ناممکن کو ممکن کر دیا۔ اﷲ نے تو مرد کے آلہ تناسل اور اس کی دبر کو ایسے ڈھب سے پیدا کیا کہ یہ کبھی نہ مل سکیں‘ کیوں کہ حجرہ نشین مقلدوں سے جو جنت میں بھی لواطت کے خواب دیکھتے ہیں سخت خطرہ تھا کہ اگر اور کچھ نہ ملے تو حجرے میں اپنی دبر کو ہی استعمال کرناشروع کر دیں۔ قادری صاحب کیا کہنے ہیں آپ کے تجربات اور ترقی کے کہ ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ آپ کے بزرگوں کو تجربہ کرتے کرتے یہ ضرورت پیش آ گئی کہ وہ یہ مسئلہ بنائیں۔ اگر کوئی اپنے آلہ تناسل کو اپنی ہی دبر میں داخل کرے تو غسل نہ کرے ۴۱کیوں کہ ابھی کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی۔ ہاں !جب وہ اتنا عمل کرے کہ اسے انزال ہو جائے تو پھر اپنی اس کامیابی پر غسل کرے اور نئے کپڑے پہن کر خوش ہو کہ اس نے ایسا معرکہ سر کیا اور وہاں پہنچا جہاں آج تک کوئی انگریز بھی اپنی پوری اٹھانوں اور اڑانوں کے باوجود نہ پہنچ سکا۔
قادری صاحب اگر تاریخ لکھنی ہے تواس قوم کی لکھیں جن کے ایسے کارنامے ہیں‘ جنھوں نے اتنی ترقی کی ہے‘ آپ کیسے خلف ہیں کہ اپنے ایسے دورمار ‘ دور اندیش بزرگوں کو بھلا دیا‘ جنھوں نے دین میںآپ کو اتنی چھٹیاں اور چھوٹیں دیں ۔ اگر آپ نالائق نکل گئے کہ اپنے ایسے بزرگوں کو چھوڑ کر غیر مقلدوں کی مبسوط اور ضخیم تاریخ لکھنے لگ گئے۔ تو ہم تو نالائق نہیں کہ آپ کے ایسے بزرگوں کو چھوڑ دیں ۔ ان کی اگلی پچھلی تاریخ نہ لکھیں۔ وہ دین میں ایسے ایسے کام کریں اور ہم ان کو چھوڑ دیں۔ ہم کیوں نہ ان کو سب کے سامنے لائیں تاکہ لوگ دیکھ لیں کہ وہ کیسے فقیہ تھے جن کی سوچ یوں پیچھے کو جاتی تھی اور وہ جب سوچتے تھے نرالہ سوچتے تھے۔
قادری صاحب! ہماری روشن تاریخ لکھیں یا اپنی سیاہ ۔ یہ کبھی نہ بھولیں کہ آپ ان شاء اﷲ اہل حدیث کو ہرا نہیں سکتے۔ ( فَاعْلَمُوْا اَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِاﷲِ ) [9:التوبۃ:3]کیوں کہ ان کا مذہب اصلی اسلام ہے۔ جو اﷲ کا دین ہے ۔ کسی کی فقہ نہیں۔ ہم دین حق کی تبلیغ کرتے ہیں آپ کی طرح شرارتیں کرکے اس کو بگاڑتے نہیں۔ آپ نے ابتدا کی ہے۔ اب ذرا سینہ تھام کر جواب پڑھیے اور توبہ کیجیے ورنہ گوش ہوش سے سنیے۔
(وَاِنْ تَنْتَھُوْا فَھُوَ خَیْرٌلَّکُمْ ج وَ اِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ وَلَنْ تُغْنِیَ عَنْکُمْ فِئتُکُمْ شَیْءًا وَّ لَوْ کَثُرَتْ لا وَ اَنَّ اﷲَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ )[8:الانفال:19]
قاسمی صاحب کے رسالہ طلاق ثلاثہ پر ایک نظر
اس رسالہ میں قاسمی برادر قادری نے ڈرتے ڈرتے ‘ ’’طلاق ثلاثہ‘‘ پر طبع آزمائی کی ہے اور فتاویٰ ثنائیہ سے صرف ایک اہل حدیث عالم کا فتویٰ نقل کیا ہے۔ اپنی طرف سے مسئلے کے اثبات و نفی میں کوئی دلیل نہیں دی اور نہ ہی بے چارہ وہ اس قابل ہے کہ دلائل دے سکے۔ قاسمی تو دلائل کیا دیتا کیوں کہ وہ ابھی کچا بروزن بچہ ہے۔ اس کا بڑا بھائی قادری جو کہ اپنے حلقے میں بہت پختہ سمجھا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ بے چارہ اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑا مار لیتا ہے اور اپنی دلیل اپنے خلاف دینے لگ جاتا ہے۔
دونوں بھائیوں نے اس سلسلے میں سعید الرحمٰن علوی ایڈیٹر ہفت روزہ ’’خدام الدین‘‘ لاہور سے بھی مدد لی تاکہ کچھ سہارا مل جائے‘ لیکن ڈوبنے والا ڈوبتے کو کیا سہارا دے سکتا ہے۔اندھا اندھے کی کیا رہنمائی کر سکتا ہے۔ قاسمی اور قادری مقلد ہونے کی وجہ سے بے بس علوی بے چارہ ان سے بھی زیادہ بے بس ۔
ایک مقلد دوسرے خدام الدین کا ایڈیٹر ۔ اس لیے تینوں اس رسالہ میں غوطے کھاتے اور صاف ڈوبتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ قاسمی برادران نے تو سرے سے کوئی دلیل دی نہیں‘ علوی بے چارے نے ضرور ٹانگ اڑائی ہے۔ لیکن منہ کی کھائی ہے۔ کیوں کہ اس بے چارے کو اتنا بھی پتا نہیں کہ دلیل کسے کہتے ہیں اور دعویٰ کیسے ثابت ہوتا ہے۔ ادھر ادھرسے کاٹ چھانٹ کر تین چار عبارتیں نقل کر دی ہیں اور بس ۔ یہ نہیں دیکھا کہ دعویٰ کیا ہے اور دلیل کیا ۔ اس رسالے میں ان اصحاب ثلاثہ نے مل کر جو تیرمارا ہے وہ شرف الدین صاحب کا فتویٰ ہے جس کے بارے میں قاسمی صاحب فرماتے ہیں۔ شرف الدین صاحب نے مولانا ثناء اﷲ امرتسری صاحب کی خدمت میں پیش کردہ حدیث پر دس وجوہ سے کلام کیا ہے میں کہتا ہوں قاسمی صاحب اگر وہ وجوہ آپ کو سب سے زیادہ پسند ہیں اور تو آپ کے خانے میں بیٹھ گئی ہیں تو ایک وجہ جو آپ کو سب سے زیادہ پسند ہو اور آپ کے خانے میں نیچے چلی گئی ہو۔ ہمارے سامنے پیش کرکے دیکھ لیں تاکہ آپ کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے۔
قاسمی صاحب آپ جو کہتے ہیں شرف الدین صاحب نے طلاق ثلاثہ کا مسئلہ بادلائل ثابت کیا ہے میں پوچھتا ہوں شرف الدین صاحب کا یہی مسئلہ آپ کے نزدیک ثابت ہے یا ان کے بادلائل ثابت کیے ہوئے اور مسئلے بھی آپ کے نزدیک ثابت ہیں تو آپ تقلید پر لعنت بھیجیں اور ان کے ثابت کردہ مسائل کو ہی مان لیں اور کم از کم ان جیسے اہل حدیث تو بن جائیں اور اگر ان کے بادلائل ثابت کئے ہوئے اور مسئلے ان کے نزدیک ثابت نہیں تو پھر یہ طلاق ثلاثہ والا آپ کے نزدیک کیسے ثابت ہو گیا۔ کیا صرف اس لیے کہ یہ آپ کے مطلب کا ہے۔ مقلد بھی کیسا مطلبی اور پھر اپنے مطلب کے لیے کیسا ذلیل ہوتا ہے اﷲ ایسی مطلب پرستی اور ذلت سے بچائے۔ قادری صاحب کوئی مسئلہ کسی کے بادلائل لکھ دینے سے ثابت نہیں ہو جاتا ۔ لکھنے کو تو موافق مخالف سب کچھ لکھتے ہیں ‘ لیکن ثابت وہی ہوتا ہے جس کے دلائل صحیح اور دعویٰ کے مطابق ہوں اور یہاں یہ بات نہیں ‘ شبہ ہوتو تقریری یا تحریری مناظرہ کرکے دیکھ لیں‘ آپ کو ہوش آ جائے گی۔
آپ کہتے ہیں کہ تین طلاقیں ایک مجلس میں دینے سے تین ہی واقع ہوں گی ‘ میں کہتا ہوں قاسمی صاحب اگر آپ کا یہ مسئلہ صحیح ہے اور اہل حدیث کا غلط ہے تو جب آپ حماقت سے ہی عورتوں کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے بیٹھتے ہیں تو پھر مارے مارے اہل حدیثوں کے پیچھے کیوں پھرتے ہیں ؟ کیا اس وقت اہل حدیث کا یہ مسئلہ صحیح ہو جاتا ہے۔ اور آپ کے لیے حرام حلال ہو جاتا ہے آپ لوگوں کو یاد ہوگا ‘ آپ خود یہ مسئلہ اہل حدیث سے جامعہ محمدیہ فقیر والی سے لکھوا کر لے گئے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہوتی ہیں۔مولاناعبیداﷲ مرحوم سابق شیخ الجامعہ عباسیہ بہاول پور خود ‘ دو دفعہ اہل حدیث سے یہی فتویٰ لکھوا کر لے گئے۔ مولانا قادر بخش مرحوم نے مولانا عبیداﷲ صاحب سے پوچھا بھی مولانا اہل حدیث کا یہ مسئلہ ٹھیک ہے یا غلط تو وہ فرمانے لگے کہ بھئی غلط کیسے کہہ سکتا ہوں جب حدیث سے ثابت ہے۔ مولانا قادر بخش نے فرمایا اگر اہل حدیث کا یہ مسئلہ صحیح ہے تو پھر آپ خود فتویٰ کیوں نہیں لکھ دیتے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہے‘ انھوں نے فرمایا حنفی ہونے کی وجہ سے مجبور ہیں۔ ایک اہل حدیث دیہاتی پاس ہی بیٹھا تھا وہ بول پڑا ’’ مولوی جی اے تاں ٹھیک نہیں اگے پیچھے ساڈے خلاف فتوے پھٹدی نوں ساڈے کولوں فتوے‘‘ ۔۔۔ بات اگرچہ ان پڑھ کی تھی لیکن تھی معقول مولانا خاموش ہو گئے اور یہی حال قاسمی صاحب کا ہے ۔ جب پھنس جاتے ہیں تو فتوے ہم سے لیتے ہیں۔ قاسمی صاحب ایک طرف تو آپ کہتے ہیں اہل حدیث کا یہ مسئلہ غلط ہے اﷲ اور اس کے رسول اس پر سخت ناراض ہیں دوسری طرف آپ اور آپ کے علما حلالہ سے بچنے کے لیے اہل حدیث سے یہی فتویٰ لے کراپنا کام چلاتے ہیں بلکہ آپ کے علما ہمیشہ سے یہ فتویٰ دیتے آئے ہیں کہ ضرورت کے وقت میں ایسے مسائل میں اہل حدیث عالم سے فتویٰ لیا جا سکتا ہے۔ ملاحظہ ہوں فتاویٰ مفتی کفایت اﷲ۔ مفتی حبیب المرسلین اور مولانا عبدالحی لکھنوی وغیرہم بلکہ فتویٰ حکیم محمد قائم الدین حنفی نقشبندی اور خادم العلما عطاء محمد وغیرھما کا حق و صداقت کی عظیم الشان فتح میں چھپا ہے۔ اس میں انھوں نے صاف تسلیم کیا ہے کہ بعض احناف کا بھی یہی مذہب ہے اور فرقہ اہل حدیث اہل ظاہر اور ایک جماعت حنفیہ اور مالکیہ اور حنابلہ اور امام جعفر صادق اور محمد باقر اور دیگر اہل بیت تین کے وقوع کے قائل نہیں۔ اسی طرح حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ اور علیؓ سے مروی ہے۔
قاسمی صاحب! اب لیجیے زبان میری ہے بات ان کی ‘ آپ کے عالموں نے ہی آپ کا یہ کہنا غلط ثابت کر دیا کہ آٹھویں صدی ہجری تک بالاتفاق تین طلاق سے تین ہی مراد لی گئی ہیں۔
قادری و قاسمی صاحبان آپ طلاق ثلاثہ کی شرعی حیثیت پر رسالے لکھتے ہیں‘ آپ رسالے لکھیں‘ آمین ‘ رفع الیدین پر جن پر آپ ضد کر سکتے ہیں‘ جس مسئلے کے سامنے آپ کل کو گھٹنے ٹیک دیں آپ اس کی شرعی حیثیتیں کیوں بیان کرتے ہیں؟
عاقل چرا کارے کند کہ بازآید پیشیمانی
قاسمی صاحب آپ اس وقت سے ڈریں جب کہ آپ خود اس مسئلے کا شکار ہوں اور کسی کو کوئی پتا نہیں کب کوئی حنفی اس مسئلے کی زد میں آ جائے ۔ سنت طریقے سے تو آپ لوگوں نے کوئی کام کرنا نہیں۔ کرتے تو آپ لوگ بدعتیں ہی ہیں۔ طلاق بھی آپ لوگوں نے بدعتی ہی دینی ہے پھر رونا پچھتانا بھی ضروری ہے۔ جب آپ اپنی بیوی کو ایسی طلاق دے بیٹھتے ہوں کہ پھر یا تو کسی سے اپنی بیوی کو حلال کروائیں یا مولوی یونس کے پیچھے مارے مارے پھریں۔ ارے مولوی یونس خدا را کسی اہل حدیث عالم سے فتویٰ ہی لے دو ورنہ اگر میں نے حلالہ کروایا تو میری بیوی تو گئی۔ اگر آپ اس وقت کہیں کہ اہل حدیث کا یہ مسئلہ غلط ہے تو اب جب کہ آپ کو کوئی تکلیف نہیں ‘ مزے سے حنفیوں کی عورتوں کو حلال کرتے ہیں تو یہ کہنا کوئی معنی نہیں رکھتا آپ کا یہ کہنا بھی بالکل غلط ہے کہ اس وقت بھی تین طلاق کے تین واقع ہونے پر تمام امت کا اجماع ہے۔
اس مسئلے پر اجماع کبھی اور کسی زمانے میں نہیں ہوا ‘ نہ خیر القرون میں‘ نہ بعد میں‘ ہر زمانے میں علما حق کی ایک معتدبہ جماعت اس کے خلاف فتویٰ دیتی رہی ہے۔ حال ہی میں مصرکے حنفی علما نے اس کے خلاف فتویٰ دیا ہے۔ پچھلے دنوں ہندوستان کے حنفی اور اہل حدیث علما کی کانفرنس ہوئی اس میں بھی اس کو ترجیح دی گئی کہ تین طلاق کو ایک ہی قرار دیا جائے ۔ اس لیے قادری صاحب و قاسمی صاحب! آپ بھی ہوش سے کام لیں ‘ وہ کام نہ کریں جس سے آپ کو دنیا و آخرت میں پچھتانا پڑے۔
قاسمی کے رسالہ ’’ ننگے سر نماز‘‘ پر ایک نظر
قاسمی صاحب کے رسالہ کے شروع میں ہی لکھا ہے کہ اہل حدیث ننگے سر نماز نہ پڑھنے والے کو تارک سنت کہتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں قاسمی صاحب یہ بالکل جھوٹ ہے ‘ نہ اہل حدیث کا یہ مذہب ہے ‘ نہ کوئی اہل حدیث یہ بات کہتا ہے ‘ اس کے بعد قاسمی صاحب کہتے ہیں ننگے سر نماز تہذیب کے بھی خلاف ہے اور دربار خدا وندی میں حاضری کے آداب کے بھی منافی۔ میں پوچھتا ہوں حج کے موقع پر دربار خداوندی کی آن بان زیادہ ہوتی ہے یا یہاں۔ جب وہاں ننگے سر حاضری گستاخی نہیں تو یہاں کیسے ؟ قاسمی صاحب اگر رسالے میں ایسے جھوٹ بولنے تھے اور ایسی جہالت کی باتیں لکھنا تھیں تو امام اعظم اکیڈمی کی بجائے اپنے والد کے نام پر فضل اکیڈمی بنا کر یہ کام کرتے۔ ایک تو آپ کے والد بزرگوار کو ثواب پہنچتا دوسرے امام صاحب کے نام کی یہ رسوائی نہ ہوتی۔ سچ ہے اگر اولاد گندی نکل جائے تو والدین کو بھی بدنام کردیتی ہے۔
اس کے بعد قاسمی صاحب نے اہل حدیث عالموں کے کچھ فتاویٰ نقل کیے ہیں ۔ میں کہتا ہوں قاسمی صاحب وہ فتاویٰ غلط ہوں یا صحیح آپ کی حماقتوں کی تائید کوئی نہیں کرتا‘ بلکہ آپ کی تردید تو آپ کے گھر والے ہی کرتے ہیں۔ اگر نہیں تو اپنے ابا سے پوچھ لیں کہ کیا فتاویٰ عالمگیری میں یہ نہیں ’’ وَلاَ بَاْسَ بِہٖ اِذَا فَعَلْتَہ‘ تَذَلُّلاً وَّ خُشُوعًا بَلْ حَسَنٌ ‘‘ یعنی اگرعاجزی اور ذلت کے اظہار کے لیے ننگے سر نماز پڑھے تو بھی کوئی حرج نہیں بلکہ یہ اچھا ہے گستاخی ہو توخدا حاجی سے یہ گستاخی کیوں کروائے۔ قاسمی صاحب آپ کے امام کی مسند میں یہ حدیث ہے۔ (( اِنَّ جَابِرً اَمَّھُمْ فِیْ قَمِیْصٍ وَّاحِدٍ وَ عِنْدَہ‘ فَضْلُ ثِیَابٍ یُعَرِّفُنَا لِسُنَّۃِ رَسُوْلِ اﷲِ ))حضرت جابر نے صرف ایک قمیص میں نماز پڑھائی حالانکہ ان کے پاس زائد کپڑے بھی موجود تھے یہ بتانے کے لیے کہ یہ سنت رسول ؐ ہے قاسمی صاحب اب آپ سنت رسول ؐ سے دشمنی کرکے اپنی آخرت برباد کریں تو آپ کی مرضی توبہ کرکے اہل حدیث ہو جائیں تو آپ کی مرضی۔
و ما علینا الا البلاغ
*****
۱ (فتاوٰی عالمگیری: کتاب الادب القاضی‘ باب اذا وقع القضاء شھادۃ الزور (350/3
۲ (ہدایہ : کتاب الحدود‘ باب الوطی الذی یوجب الحد والذی لا یوجبہ 512/1)
۳ (ہدایہ : کتاب الصلوۃ ‘ باب الحدث فی الصلاۃ ‘ ص 130۔۔ درمختار ‘ کتاب الصلاۃ ‘ باب الاستخلاف (448/1
۴ (ابوداؤ:کتاب الجنائز‘ باب این یقوم الامام من المیت اذا صلی علیہ‘ رقم 3193:۔۔۔ترمذی:ابواب الجنائز‘ باب ما جاء این یقوم الامام من الرجل والمرأۃ رقم (1034:
۵ (بخاری:کتاب الصلاۃ ‘ باب اذا حمل جاریۃ صغیرۃ علی عنقہ فی الصلاۃ ‘ رقم516: ۔۔ مسلم: کتاب المساجد‘ باب جواز حمل الصبیان فی الصلاۃ ‘ رقم (41:
۶ (فتاوٰی عالمگیری:کتاب الذبائح ‘ باب فی بیان ما یوکل من الحیوان (289/5
۷ (فتاوٰی عالمگیری ‘ کتاب الحدود ‘ باب فی الوطی الذی یوجب والذی لایوجبہ (147/2
۸ (غنیۃ الطالبین عبدالقادر جیلانی 213,200,190/1 باب معرفۃ الٰہی )
۹مشکٰوۃ ‘ کتاب الصوم ‘ باب تنزیہ الصوم 626/1 رقم 2014:‘ مسند احمد 441/2 رقم939:
۱۰ ( ابوداؤد: کتاب الوتر‘ باب استحاب الوتر‘ ماجاء ان الوتر لین کتم رقم (453:
۱۱ (مسلم: کتاب الایمان‘ باب بیان ان الاسلام بدا غریبا و سیعود غریبا ‘ رقم 233-232: مشکوۃ `60/1 کتاب الایمان‘ باب الاعتصام بالکتب والسنۃ ‘۔۔ ابن ماجۃ :کتاب الفتن‘ باب بدا الاسلام غریبا‘ ص 2716‘رقم 3878-3986: ۔۔ مسند احمد 398/1‘رقم 3775 389/2 رقم 8812: 73/4`رقم 16249)
۱۲( سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 487/1 رقم 270۔۔۔688/2 رقم 963)
۱۳ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ 333/1 رقم 326: )
۱۴ (مسلم : کتاب صلاۃ المسافرین ‘ باب صلاۃ المسافرین وقصرھا رقم (12:
۱۵ (درمختار: کتاب الطہارۃ‘ باب المیاہ ج 1 ص 153)
۱۶ ( بہشتی زیور حصہ دوم نجاست کے پاک کرنے کا بیان مسئلہ (6) ص 98۔۔ ہدایہ :کتاب الطہارۃ ‘ باب الانجاس و تطہیرھا ص (74/1
۱۷ (بہشتی زیور: حصہ دوم مسئلہ نمبر26ص 5 ۔۔فتاوٰی عالمگیری ج 1ص 61)
۱۸ (درمختار: کتاب الطہارۃ ‘ باب المیاہ‘ ج 1 ص153)
۱۹ (منیۃ المصلی ص (100
۲۰ (منیۃ المصلی ص (100
۲۱ ( درمختار: ص 293 ۔۔عالمگیری: ص 143)
۲۲ ( ہدایہ:کتاب الصلاۃ ‘ باب الحدث فی الصلاۃ ص130۔۔درمختار ج 1ص (245
۲۳( درمختار: کتاب الصلاۃ ‘ باب الامامۃ (290/1
۲۴ (ایضاً )
۲۵ (درمختار:کتاب الصلاۃ ‘ باب صفۃ الصلاۃ ج 1ص 246:‘ ہدایہ: کتاب الصلوۃ ‘باب صفۃ الصلاۃ 101/1)
۲۶ )درمختار ج 1ص 96‘ عالمگیری کتاب الطہارۃ‘ باب نواقض وضو 18/1)
۲۷ (درمختار ص 83)
۲۸ (درمختار:کتاب الطہارۃ ج 1ص (83
۲۹ (ایضا ص 95)
۳۰ (درمختار کتاب الطہارۃ ‘ باب ما یفسد الصوم و ما لا یفسد ص563 ‘ عالمگیری کتاب الصیام) ۳۱ ) درمختار :کتاب الصوم ‘ باب مایفسد الصوم و ما لا یفسد ج 1 ص (567
۳۲)ایضا)
۳۳ )درمختار کتاب الصوم ‘ باب ما یفسد الصوم و ما لا یفسد567/1)
۳۴ ایضاً
۳۵ ایضاً
۳۶ (ہدایہ ج 1 ص (200
۳۷) ہدایہ : کتاب الصوم ‘ باب ما یوجب قضاء (219/1
۳۸ (فتاویٰ قاضی خان ص (137:
۳۹ (فقہ اکبر مع شرح ص (105
۴۰ ( شامی شریف :کتاب الطہارۃ‘ باب المیاہ مطلب فی التداوی ج 1 ص 154۔۔ فتاوٰی قاضی خان نمبر حاشیہ فتاویٰ (404/3
۴۱ (درمختار:کتاب الطہارۃ (93/1